یادِ رفتگاں

ذکرِ خیر چودھری محمد ابراہیم صاحب مرحوم سابق مینیجر و پبلشر ماہنامہ انصار اللہ مرکزیہ

(محمد بشیر۔ سوئٹزر لینڈ)

جو لوگ اپنے مولیٰ کے عشق میں کھو جاتے ہیں وہ بےشمار خوبیوں کے مالک ہوتے ہیں وہ بسبب اپنی عاجزی کے اُن خوبیوں کے ظاہر ہونے سے بھی ڈرتے ہیں۔ میرے والد صاحب مکرم و محترم چودھری محمد ابراہیم صاحب مرحوم بھی انہی وجودوں میں سے ایک تھے۔ آپ صوم و صلوٰۃ کے پابند تہجد گزار اور ہمیشہ دوسروں کی مدد کےلیے تیار رہتے تھے۔ آپ کو ایک لمبا عرصہ بھرپور جماعتی خدمت کی توفیق ملی۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذالِک۔

پیدائش اور ابتدائی حالات

آپ کی پیدائش 05؍جولائی 1936ءکومشرقی پنجاب انڈیا کے ایک گاؤں غوث گڑھ ریاست پٹیالہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ محترمہ مسماۃ فاطمہ بی بی، آپ کے سکول میں داخل ہونے سےکافی عرصہ پہلے ہندوستان میں وفا ت پا گئی تھیں۔ ان کی وفات کے بعد آپ کی دادی محترمہ کریم بی بی صاحبہ نے آپ کو پالا اور کبھی والدہ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ آپ کے والد چودھری عطا محمد صاحب نے آپ کو سکول میں داخل کرایا۔ آپ نے پہلی اور دوسری جماعت غوث گڑھ سے ہی پاس کی۔ ہمارے خاندان میں احمدیت کا نفوذ حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحبؓ کی بدولت ہوا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک جلیل القدر صحابی تھے۔ پارٹیشن کے بعد جماعت غوث گڑھ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے ارشاد پر احمد نگر ضلع جھنگ میں رہائش اختیار کی۔ آپ اور آپ کا خاندان بھی احمدنگر رہائش پذیر ہوا۔ آپ کو آپ کے والد محترم نے تیسری جماعت میں داخل کروادیا۔ بزرگوں کی دعاؤں سے میرے والد صاحب کا شمار اچھے طالبِ علموں میں ہونے لگا۔ 1949ء میں آپ اور آپ کے علاوہ تین طلباء کو وظیفہ کے امتحان کےلیے چنیوٹ بھجوایا گیا۔ پانچویں اور چھٹی جماعت آپ نے چنیوٹ سے کی اور ساتویں کلاس آپ نے ربوہ سے کی۔ اس کے بعد آپ ملتان چلے گئے جہاں سے آپ نے 1956ء میں شجاع آباد سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔

تعلیم

آپ کے بہت ہی پیارے دوست چودھری انور حسن صاحب اور نور احمد ناصر صاحب فرسٹ ائیر میں داخل ہو گئے۔ میرے والد صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ وہ بھی کالج میں پڑھیں لیکن حالات اجازت نہیں دیتے تھے اور اس دوران آپ کی شادی محترمہ مسماۃ بشیراں بی بی مرحومہ سے ہو گئی تھی۔ انہی دنوں حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے جو اُس وقت کالج کے پرنسپل اور انصار اللہ کے صدر تھے آپ کو دو ماہ کےلیے تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں بطور اکاؤنٹنٹ بھجوایا۔ کالج کے لڑکوں کو دیکھ کر آپ کی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش مزید سے مزید تر ہوتی گئی۔ جس پر آپ نے پرائیویٹ امتحانات دینے کا فیصلہ کر لیا۔ اس زمانہ میں F.A یا B.A کے امتحانات براہِ راست نہیں دیے جا سکتےتھے۔ مگر فاضل فارسی، اردو اور عربی کا امتحان پاس کرنے کی صورت میں امتحان دیا جا سکتا تھا۔ آپ نے فاضل فارسی کی کتب کا مطالعہ شروع کر دیا۔ 1962ء میں آپ نے فاضل فارسی کا امتحان دیا۔ حضور انور کی خدمت میں دعاؤں کےلیے بھی لکھتے رہے۔ ایک دن میرے والد کے دوست محمد صادق بٹ صاحب آپ کو ربوہ میں منڈی میں ملے۔ آپ نے پوچھا کہاں جا رہے ہو، بٹ صاحب نے کہا کہ میں دعا کی لیے حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کی خدمت میں جا رہا ہوں، آپ بھی ان کے ساتھ ہو لیے۔ راجیکی صاحبؓ ایک چارپائی پر صحن میں تشریف فرما تھے۔ انہوں نے پوچھا عزیزو کس طرح آئے ہو۔ آپ نے عرض کیا دُعا کی غرض سے حاضر ہوئے ہیں۔ آپ نے دُعا کرائی جس کی بدولت آپ اچھے نمبروں سے پاس ہوئے۔ فاضل فارسی میں کامیابی کے بعد آپ نے F.A انگریزی کا داخلہ بھجوایا۔ الحمد اللہ آپ نے F.A کا امتحان پاس کر لیا۔ 1964ء میں آپ نے B.A انگریزی کا امتحان دیا۔ آپ کے ساتھ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اور نور احمد عابد صاحب نے بھی امتحان دیا تھا۔ الحمدللہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامیابی عطا فرمائی۔ 1966ء میں آپ نے M.A فارسی کا امتحان دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کامیاب ہو گئے۔ 1969ء میں آپ نے M.A اردو کا امتحان دیا اورآپ اللہ کے فضل سے اس میں بھی کامیاب ہو گئے۔ اس طرح آپ نے ڈبل M.A کیا۔

ربوہ کاقیام

جب 20؍ستمبر 1948ء کو ربوہ کا قیام ہوا۔ جہاں پر حضرت مصلح موعود ؓنے (فضلِ عمر ہسپتال میں جو یادگاری مسجد ہے وہاں)نماز پڑھائی اور چار بکر وں کی قربانی دی۔ اس وقت میرے دادا چودھری عطا محمد صاحب مرحوم میرے نانا چودھری نور محمد صاحب مرحوم اور میرے والد چودھری محمد ابراہیم صاحب مرحوم خود موجود تھے۔ تاریخ احمدیت میں آپ سب کے نام چھپے ہوئے ہیں جو اس وقت حضرت مولانا ابو العطاء صاحب مرحوم نے نوٹ کیے تھے۔ تاریخ ِاحمدیت جلد 12میں آپ کا نام صفحہ نمبر 465، نمبر 234 پر موجود ہے۔

مجلس انصار اللہ میں تقرری

27؍فروری 1957ء کے دن میرے والد صاحب تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے پرنسپل اور مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے نائب صدر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور نے آپ کو اُس وقت کے مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے قائد عمومی حضرت مولانا ابو العطاء صاحب مرحوم کے نام ایک چٹ دی اور آپ کو ارشاد فرمایا کہ آپ کی تقرری دفتر انصاراللہ میں کر دی ہے آپ وہاں جا کر چارج لے لیں۔ اس وقت دفتر کا کل عملہ ایک کلرک، ایک مددگار کارکن اور ایک چوکیدارپر مشتمل تھا۔ دفتر انصار اللہ مرکزیہ کی بنیاد حضرت مصلح موعود ؓنے 20؍فروری 1956ء کو اپنے دستِ مبارک سے رکھی۔ آپ کے دفتر آنے سے پہلے دفتر کی عمار ت پر چھت پڑ چکی تھی۔ مگر دروازے اور کھڑکیاں ابھی نہیں لگی تھیں۔ لیکن کھڑکیوں کو عارضی طور پر اینٹوں سے بند کیا گیا تھا۔ ایک دن آپ دفتر میں کام کر رہے تھے کہ ہوا چلنے کی وجہ سے اس کی اینٹیں ہل رہی تھیں۔ عین ممکن تھا کہ وہ آپ پر گر پڑتیں، آپ نے اپنی جگہ تبدیل کر لی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا۔ جب آپ نے اس بات کا ذکر حضرت میاں ناصر احمد صاحبؒ سے کیا تو حضرت میاں صاحبؒ نے فوری اس بات کا نوٹس لیا اور فوری طور پر مرمت کا کام کروا دیا۔

احمد نگر سے ربوہ رہائش

حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ صدر مجلس انصار اللہ کی خواہش پر آپ احمد نگر سے ربوہ انصار اللہ کے دفتر میں رہائش پذیر ہوئے۔ آپ مارچ 1964ء میں ربوہ آ گئے۔

حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ کا مبارک دور

خلافت ثالثہ کا واقعہ ہے جب مکرم شیخ محبوب عالم خالد صاحب حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری اور مجلس انصار اللہ کے قائد عمومی بھی تھے، نے آپ کو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں بلایا۔ دوسرے کاموں کے علاوہ حضور نے ارشاد فرمایا کہ یہ نذرانہ کی رقم گنتی کریں جو حضورخلیفہ ثالث ؒ کو ملی تھی، آپ نے کام شروع کردیا۔ حضور اس کمرہ میں تشریف لائے جہاں یہ رقم گنی جا رہی تھی۔ ایک نوٹ پھٹا ہوا تھا۔ آپ نے حضور کو دکھایا تو حضور نے وہ پھٹا ہوا نوٹ آپ کی جیب میں ڈال دیا۔ کام مکمل ہونے پر حضور خود اپنے ہاتھوں سے کھانا لائے اور انعام دیا۔

میرے والد صاحب کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ اور حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحومین اور چودھری حمید اللہ صاحب کے زیرِ سایہ کام کرنے کا موقع ملا۔

جب حضرت مصلح موعود ؓنے حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کو انصار اللہ کا نائب صدر مقرر فرمایا تو میاں صاحب کے ایک ساتھی نے کہا کہ میاں صاحب آپ بوڑھے ہو گئے ہیں تو حضرت میاں صاحب نے برجستہ جواب دیا میں بوڑھا نہیں ہوا بلکہ انصار اللہ جوان ہو گئی ہے۔ انصار اللہ کی عمارت مکمل ہونے پر فیصلہ کیا گیا کہ ایک چھوٹا ٹیوب ویل لگوایا جائے۔ یہ 1962ء یا 1963ء کی بات ہے حضرت میاں صاحب نے میرے والد صاحب کو ہدایت دی کہ بورنگ کے دوران اتنی اتنی گہرائی پر انہیں ریت کے نمونے دکھائے جائیں۔ حسبِ ہدایت ہر گہرائی پر ریت کی چھوٹی چھوٹی تھیلیاں تیار کی گئیں تو وہ ریت کے نمونے دکھانے کے لیے حضرت میاں صاحب کا رخ کیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ پلانٹ اندر پھنسا ہوا تھا اور حضرت میاں صاحب سے ملاقات نہیں ہو رہی تھی اور پلانٹ کی اجرت انصار اللہ کو پڑ رہی تھی۔ دفتر انصار اللہ کا معمول تھا کہ دفتر کی ڈاک شام کو حضرت میاں صاحب کے گھر بھجوا دی جاتی تھی۔ میرے والد صاحب نے یہ چھوٹی چھوٹی تھیلیاں ڈاک کی فائل میں رکھ کر بھجوا دیں۔ ایک دو دن بعد جب آپ کی ملاقات ہوئی تو مسکراتے چہرے کے ساتھ آپ کا ہاتھ پکڑا اور دفتر صدر انجمن احمدیہ میں لے گئے اور فرمانے لگے جو آپ نے مجھے ریت کی تھیلیاں بھجوائی تھیں ان میں سے ایک تھیلی پھٹ گئی تھی جس سے میرا بستر گندا ہو گیا۔ لیکن آپ نے جماعت کے پیسے بچا لیے۔

ایک اور واقعہ جو میرے والد صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ 1960ء پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے بنیادی قیام اور انتخاب کا زمانہ تھا۔ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کی خواہش تھی کہ احمدنگر میں جماعت احمدیہ کے دو نمائندے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اور مکرم چودھری عبد الرحمٰن صاحب مرحومین منتخب ہونے چاہئیں۔ فریق مخالف نے جو وارڈ بندی کی اسے بہت ہی مخفی رکھا۔ میرے والد صاحب اس وقت قائمقام صدراحمدنگر تھے۔ خدشہ تھا کہ دوسرے فریق کی وارڈ بندی سے ہمارا کوئی بھی ممبر منتخب نہ ہو سکےگا۔ والد صاحب ہر روز ہی دفتری کام کی وجہ سے حاضر ہوتے تھے۔ آپ نے اس خدشہ کا اظہار کیا تو ایک سیکنڈ میں اس کا حل بتا دیا۔ فرمایا خود وارڈ بندی کر لو اور راتوں رات گھروں کے دروازوں پر نمبر لگا دو۔ اس حکمتِ عملی کے نتیجہ میں ہمارے دونوں امیدوار احمد نگر یونین کے ممبران منتخب ہو گئے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ کا تاریخی دورِ صدارت

حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ 1978ء میں انصار اللہ کے صدر منتخب ہوئے۔ یکم جنوری 1979ء کی صبح کو حضرت میاں صاحب مرحوم دفتر انصار اللہ تشریف لائے تو سیدھے کمرے میں آئے۔ میرے والد صاحب نے سلام کیا اپنی کرسی میاں صاحب کو پیش کی۔ جہاں بیٹھ کر انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکی خدمت میں دعائیہ خط لکھ کر اطلاع دی کہ میں نے آج مجلس انصار اللہ کا چارج لے لیا ہے اور کام شروع کر دیا ہے۔

صدارت کے ابتدا میں میرے والد صاحب جب خدمت میں حاضر ہوتے تو والد صاحب کو فرماتے کہ حضور کا خطبہ جمعہ جماعتوں تک پہنچتے پہنچتے تین چار ماہ لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ خلیفہ وقت کی آواز فوری جماعتوں تک جانی چاہیے۔ جماعتی نظام کمپیوٹرائزڈ ہونا چاہیے۔ حضرت میاں صاحب (حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ) نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے اس بارے میں بات کی۔ 1978ء میں حضرت میاں صاحب اپنی فیملی کے ساتھ ذاتی خرچ پر world tour پر گئے۔ میاں صاحبؒ جرمنی میں ایک cassette duplicator machine دیکھ کر آئے تھے جو تین منٹ میں کیسٹ تیار کر دیتی تھی۔ حضور انور کی منظوری سے یہ مشین منگوائی گئی اور بہت کم وقت میں حضورانور کا خطبہ جماعتوں میں جانا شروع ہو گیا۔

حضرت میاں صاحبؒ نے مجالس سے رابطوں کے لیے دور دور سفر اختیار کیے۔ میرے والد صاحب کو بھی ان سفروں میں جانے کی توفیق ملی۔ ربوہ سے ملتان کا سفر کیا گیا جس میں ملک خالد مسعود صاحب اور میرے والد صاحب بھی ساتھ تھے۔ انصار اللہ کےعہدیداران سے ملاقات کے علاوہ سوال جواب بھی ہوئے۔ کافی دیر تک یہ نشست جاری رہی۔ اختتام پر میرے والد صاحب کو بلا کر فرمایا کہ ملک صاحب سے کہیں صبح 8 بجے بہاولپور جانا ہے۔ راستے میں میرے والد صاحب کی کچھ زمین بھی تھی میرے والد صاحب نے درخواست کی کہ جاتے جاتے دعا کروا دیں۔ آپ نے ازراہِ شفقت یہ درخواست منظور فرمائی۔ میرے والد صاحب سے زمین کے بارے میں تفصیلات پوچھتے رہے اور لمبی دعا کروائی۔ میرے والد صاحب بتاتے تھے اس دعا کی وجہ سے بہت اچھی فصل ہوئی۔

محترم چودھری حمید اللہ صاحب کا دورِ صدارت

حضرت خلیفۃ المسیح الربعؒ نے 09؍جون 1982ء کو محترم چودھری صاحب کو مجلس انصار اللہ کا صدر نامزد فرمایا۔ میرے والد صاحب کو چودھری صاحب کے ساتھ جب وہ صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ تھے بطور نائب مہتمم مقامی مجلس مقامی ربوہ اور پھر قائمقام مہتمم مقامی کام کا موقع ملا اور پھر مجلس انصار اللہ میں چودھری صاحب کے ساتھ 18 سال کام کرنے کی توفیق ملی۔ الحمدللہ علی ذالک

ماہنامہ انصار اللہ کی سرکولیشن میں نمایاں اضافہ

ماہنامہ انصار اللہ کی ابتداسیدنا حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے اپنے زمانہ صدارت 1960ء میں کی۔ حضور کے خاص ارشاد کے ماتحت اس کا پبلشر میرے والد صاحب کو مقرر کیا گیا۔ مختلف مراحل طے ہونے کے بعد 1981ء کا دور آگیا۔ حضرت میاں طاہر احمد صاحبؒ مجلس انصار اللہ کے صدر تھے۔ آپ فرمانے لگے کہ رسالہ کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے۔ قیادت مال بہت شور مچا رہی ہے۔ پھر اچانک آپ نے فرمایا ماہنامہ آپ (میرے والد) کے سپرد نہ کردوں ؟ اور اُسی وقت اُن کو ماہنامہ کا مینیجر مقرر فرما دیا۔

میرے والدصاحب سے پہلے ماہنامہ کی سرکولیشن1800 تھی اور ماہنامہ ہزاروں کا مقروض تھا۔ حضرت میاں صاحب کی رہ نمائی میں سرکولیشن میں اضافہ کےلیے ایک سکیم منظور کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس میں کامیابی عطا فرمائی۔ جب آپ نے مینیجر ماہنامہ انصار اللہ کا عہدہ چھوڑا تو اس وقت ماہنامہ 8200کی تعداد میں چھپ رہا تھا اور سات سو کے قریب ماہنامہ کے بیرون ممالک میں خریدار تھے اور ماہنامہ اپنے اخراجات کے لیے خود کفیل ہوچکا تھا۔ 1990ء میں جب آپ جلسہ سالانہ پرانگلستان آئے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے صرف یوکے میں خریداری 200؍ہو گئی اور80,000؍روپے کی وصولی ہوئی۔ جب آپ نے یہ رپورٹ حضور انور کی خدمت میں پیش کی تو حضور نے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا۔

اسیر راہِ مولیٰ ہونے کا شرف

میرے والد صاحب کو اسیر راہِ مولیٰ ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ آپ پر انصار اللہ کے بطور پبلشر اور مینیجر کے 26؍کے قریب مقدمات تھے۔ 7؍فروری 1994ء کو چنیوٹ کی ایک عدالت نے ضمانت منسوخ کر دی۔ جس کی وجہ سے آپ کو ایک ماہ تک جیل میں رکھا گیا۔ جیل کے پہلے ہی دن حضور نے MTA پر روئے زمین پر پھیلی ہوئی جماعت احمدیہ کو ان سب اسیر ان کے لیے دعا کی تحریک فرمائی اور جماعت کو مسلسل دعائیں جاری رکھنے کی ہدایت فرمائی۔ حضور کی طرف سے خطوط اور پیار بھرے پیغام مل رہے تھے۔ حضورنے ایک خط میں فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو اسیرانِ راہ مولی کی صف میں شامل ہونے کی سعادت بخشی۔ حوصلہ اور ہمت سے اسیری کے دن کاٹنے کی توفیق بخشی…سب ہی شاباش اور مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی نسلوں کو بھی ان نیکیوں کا فیض پہنچائے۔ آپ کے علاوہ مکرم نسیم سیفی صاحب، مکرم آغا سیف اللہ صاحب، مکرم مرزا محمد دین ناز صاحب اور مکرم قاضی منیر احمد صاحب بھی شامل تھے۔

وقفِ عارضی کا اعزاز

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے 18؍مارچ 1966ء کے خطبہ جمعہ میں وقف عارضی کی بابرکت تحریک کا اعلان فرمایا اور حضور نے حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری کو تحریک کا انچارج مقرر فرمایا۔ اس تحریک کے تحت وقف عارضی کا جو پہلا وفد تشکیل پایا وہ 2؍افراد پر مشتمل تھا جس میں میرے والد صاحب اور مکرم قریشی فضل حق صاحب شامل تھے۔ حضور انور کے ارشاد کی تعمیل میں اس پہلے وفد کا عرصہ وقف یکم مئی 1966ء تا 15؍مئی 1966ء تھا۔ یکم مئی کو مولانا ابوالعطاء صاحب نے اس وفد کی ملاقات حضور انور سے کروائی۔ مولانا صاحب نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ ان میں سے کسی کو امیر مقرر فرما دیں تو حضور انور نے میرے والد صاحب کو امیر مقرر فرمایا۔

(تاریخ احمدیت جلد 23، سال 1966ءصفحہ 529)

سفر انگلستان

آپ پر بہت سارے جماعتی مقدمات تھے۔ آپ 1996ء میں ریٹائرڈ ہو گئے تھے لیکن جماعت کی طرف سے آپ کو توسیع ملتی رہی جو 2003ء تک رہی۔ آخر میں ایک مقدمہ ٹنڈو آدم ضلع سانگھڑ میں درج ہوا۔ جس میں دفعہ 298 C اور 295C بھی تھی۔ جماعت کی ہدایت پر آپ مقدمہ کےلیے عدالت میں نہیں جا رہے تھے۔ پولیس چھاپے مار رہی تھی۔ ضمانت ہونے کا چانس بہت کم تھا۔ حضور انور کی طرف سے آپ کو حکم ہوا کہ آپ بیرون ملک چلے جائیں۔ خدا کے فضل سے لندن کے ویزے کا انتظام ہو گیا اور آپ اگست 2003ء کو لندن آ گئے۔ حضور کے ارشاد پر آپ نے لندن میں ہی کیس دائر کر دیا اور حضور کی دعاؤں سے آپ کا کیس ایک ماہ کے اندر اندر پاس ہو گیا۔ جب آپ نے حضور انور کو اطلاع دی تو حضور انور کی طرف سے خط موصول ہوا کہ جماعتی خدمت کریں۔ چودھری وسیم احمد صاحب اس وقت مجلس انصار اللہ یوکے کے صدر تھے۔ انہوں نے آپ کومجلس انصار اللہ یوکے میں ایڈیشنل قائد عمومی مقرر کر دیا۔ اس طرح آپ مجلس انصار اللہ میں دوبارہ خدمت کرنے لگے۔ آپ نے امور عامہ لندن میں بھی دو سال کے قریب کام کیا۔ اس طرح آپ کو ایک لمبا عرصہ جماعت کی خدمت کرنے کی توفیق حاصل ہوئی جو تقریبا ً55؍سال کے قریب ہے۔ الحمدللہ۔

آپ کا اپنے دوستوں سے بہت پیار کا تعلق تھا۔ اُن سے بہت محبت اور قدر کرتے تھے۔ چودھری انور حسن صاحب، رانا نذیر صاحب، عبدالرشید فوزی صاحب امریکہ او ر شیخ رفیق صاحب لندن، ان سب سے آپ کا بہت پیار کا تعلق تھا۔ شیخ رفیق صاحب جب نماز فجر کےلیے بیت الفتوح جاتے تھے تو آپ کو اپنے ساتھ کار میں مسجد لے جاتے اور کئی سالوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ آپ کے دوستوں کو ہمیشہ اپنی رضا کی چادر میں ڈھانپے رکھے، آمین۔ جب آپ لندن آگئے تھے تو آپ اکیلے تھے، ہماری والدہ 1999ء میں وفات پا گئی تھیں، اکیلے رہائش کا مسئلہ تھا تو میرے بڑے بھائی مکرم محمد رفیق صاحب جو جرمنی میں رہتے تھے وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ آپ کے ساتھ لندن شفٹ ہو گئے۔ تو یہ مسئلہ حل ہو گیا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے والد صاحب نماز باجماعت کے پابند اور تہجد گزار تھے۔ خلافت کے ساتھ بہت پیار کا تعلق تھا۔ جب ہم چھوٹے تھے تو مجھے اور میرے بھائیوں کو نماز کےلیے مسجد لے کر جاتے۔ بعض دفعہ جب نماز میں سُستی ہو جاتی تو سختی بھی کرتے تھے۔ ہمارا گھر دفتر انصار اللہ میں تھا۔ جب نماز کےلیے نکلتے تو جو بھی راستے میں ملتا اُس کو پیار سے نماز کی تلقین کرتے جاتے۔ آپ ہمارے خاندان میں ایک ہر دل عزیز شخصیت تھے۔ جہاں کوئی مسئلہ ہوتا آپ کو اس کا فیصلہ کرنے کےلیےبلایا جاتا۔ آپ ہمیشہ انصاف سے کام لیتے۔ خاندان کے ہر فردکے ساتھ آپ کا بہت پیار کا تعلق تھا۔

جب 2004ء میں مَیں سوئٹزرلینڈ آ گیا تو آپ ہر سال میرے پاس سوئٹزرلینڈ آتے رہے۔ آپ کے آنے کی وجہ سے ہم سب کو یورپ کے مختلف ممالک کی سیر اور مشن ہاؤسز دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ کی خواہش پر مجھے اور میرے سب سے بڑے بھائی محمد احمد عطاء صاحب کے بیٹے محمد اقبال جو کہ لندن میں رہتے ہیں، کو آپ کے ساتھ عمرہ کرنے کا موقع ملا۔ آپ کی روٹین تھی آپ تین ماہ میرے پاس سوئٹزرلینڈ اور تین ماہ کے قریب پاکستان جاتے تھے۔ جب آپ 2018ء کے آخر میں بیمار ہو گئے تو آپ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں خط لکھا کہ میرے بچے کہتے ہیں کہ میں پاکستان آ جاؤں، میں حضور کے ارشاد پر ہی لندن آیا تھا اور آپ کے ارشاد پر ہی پاکستان جاؤں گا۔ حضور انور کا بہت پیارا خط موصول ہوا جس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بڑھاپا تو پاکستان میں ہی اچھا گزرتا ہے۔ تو آپ نے فیصلہ کر لیا کہ آپ پاکستان چلے جائیں۔ پاکستان میں میرے تینوں بڑے بھائی مکرم محمد احمد صاحب، مکرم محمد ادریس صاحب اور مکرم محمد محمود صاحب اور ہماری ہمشیرہ کو آپ کی بہت خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ ہر وقت ان میں سے کوئی نہ کوئی آپ کے ساتھ ہوتا تھا۔ آپ ان سب سے بہت خوش تھے۔ میں جب بھی فون کرتا تو ہمیشہ کہتے کہ سب بچے میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔

16؍اکتوبر 2019ء کا دن تھا۔ اچانک طبیعت خراب ہونے پر آپ کو فضلِ عمر ہسپتال لے جایا گیا۔ جہاں آپ صبح کے وقت 6بجے کے قریب اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ اس طرح ایک بہت ہی شفیق وجود اور بہت پیار کرنے والے والد صاحب ہم سے جدا ہو گئے۔ حضر ت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 15؍ نومبر 2019ء میں آپ کا ذکرِ خیرکرتے ہوئےفرمایا:

’’پاکستان میں جب انصار اللہ کے مینیجر تھے تو ہر بات پر ان پر مقدمہ ہو جاتا تھا۔ تقریباً 26مقدمات بنے تھے اور ایک ماہ تک آپ اسیر ِراہ مولیٰ بھی رہے۔ ‘‘

نیزفرمایا:

’’اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو اور ان کی نسل کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے اور جماعت اور خلافت سے تعلق رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہم سب بچوں کو آپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button