خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍مارچ2021ء

ابوعبداللہ حضرت عثمانؓ … میرے صحابہ میں سے اخلاق کے لحاظ سے مجھ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں (الحدیث)

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد ذوالنّورین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

مسجد نبویﷺ کی توسیع کے بارے میں مختلف روایات کا تفصیلی تذکرہ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بات کو مکمل اور خوبصورت رنگ میں بیان کرنے میں حضرت عثمانؓ سے بہتر کسی کو نہیں دیکھا تاہم آپؓ زیادہ بات چیت سے گریز کرتے تھے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب عزّوجلّ سے یہ دعا مانگی ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو آگ میں داخل نہ کرے جو میرا داماد ہو یا جس کا میں داماد ہوں

چار مرحومین مبشر احمد رند صاحب ابن احمد بخش صاحب معلّم وقفِ جدید، مکرم منیر احمد فرخ صاحب سابق امیر جماعت اسلام آباد (پاکستان)، بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد لطیف صاحب سابق امیر ضلع راولپنڈی اور مکرم کونوک اومُربیکوف صاحب آف قرغیزستان کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍مارچ2021ء بمطابق 19؍امان 1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر چل رہا تھا۔ ان کی شہادت کے بعد کے واقعات، شہادت کے بعد کے ایام کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کچھ مختصر سا تحریر کیا ہے۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ اب مدینہ انہی لوگوں کے قبضہ میں رہ گیا اور ان ایام میں ان لوگوں نے جو حرکات کیں وہ نہایت حیرت انگیز ہیں۔ حضرت عثمانؓ کو شہید تو کر چکے تھے۔ ان کی نعش کے دفن کرنے پر بھی ان کو اعتراض ہوا اور تین دن تک آپ کو دفن نہ کیا جا سکا۔ آخر صحابہ کی ایک جماعت نے ہمت کر کے رات کے وقت آپؓ کو دفن کیا۔ ان لوگوں کے راستوں میں بھی انہوں نے روکیں ڈالیں لیکن بعض لوگوں نے سختی سے مقابلہ کرنے کی دھمکی دی تو دب گئے۔

(ماخوذ از اسلام میں اختلافات کا آغاز، انوارالعلوم جلد 4صفحہ 333)

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئیاں فرمائی تھیں۔ ان کا ذکر اس طرح ملتا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓسے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے باغ کے دروازے پر پہرہ دینے کا حکم فرمایا۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے اندر آنے دو اور اسے جنت کی بشارت دو تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ پھر ایک اَور شخص آیا اور اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے آنے دو اور اسے جنت کی بشارت دو تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ پھر ایک اَور شخص آیا اور اجازت مانگی اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا اسے آنے دو اور اسے جنت کی بشارت دو تاہم ایک بڑی مصیبت اسے پہنچے گی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیؐ باب مناقب عثمان بن عفان…… حدیث3695)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم احد پر چڑھے جبکہ آپؐ کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ تھے۔ احد پہاڑ ہلنے لگا تو آپؐ نے فرمایا احد ٹھہر جا ۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپؐ نے اس پر اپنا پاؤں بھی مارا اور فرمایا تم پر ایک نبی اور ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیؐ باب مناقب عثمان بن عفان…… حدیث3699)

حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فتنہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ شخص اس فتنہ میں حالت مظلومیت میں مارا جائے گا۔ یہ آپؐ نے حضرت عثمانؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔

(سنن الترمذی ابواب المناقب باب قولھم کنا نقول ابوبکروعمروعثمان حدیث نمبر 3708)

حضرت عثمانؓ نے جو ترکہ چھوڑا تھا اس کے بارے میں جو ذکر ملتا ہے وہ یہ ہے۔ عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ جس روز حضرت عثمانؓ شہید کیے گئے اس روز آپؓ کے خزانچی کے پاس آپ کے تین کروڑ پانچ لاکھ درہم اور ڈیڑھ لاکھ دینار پڑے تھے۔ وہ سب لُوٹ لیے گئے۔ نیز آپؓ نے رَبَذَہْ مقام پر ایک ہزار اونٹ چھوڑے ہوئے تھے۔ رَبَذَہْ حجاز کے رستہ میں مدینہ سے تین دن کی مسافت پر واقع ایک بستی ہے۔ اسی طرح بَرَادِیْس اور خیبر اور وادی القریٰ میں دو لاکھ دینار کے صدقات چھوڑے جن سے آپ صدقہ دیا کرتے تھے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ42،عثمان بن عفان،داراحیاء التراث العربی بیروت،1996ء)
(فرہنگ سیرت صفحہ130زوار اکیڈمی پبلیکیشنز کراچی 2003ء)

پہلے یہ بھی ذکر ہو چکا ہے کہ آپؓ نے فرمایا کہ میں امیر آدمی تھا اور اب میرے پاس صرف دو اونٹ ہیں جو حج کے لیے میں نے رکھے ہوئے ہیں۔

(ماخوذ از اسلام میں اختلافات کا آغاز، انوار العلوم جلد4صفحہ 294)

ہو سکتا ہے کہ جو بات کی جار ہی ہے یہ اس وقت کی ہو جب قومی خزانے میں اس قدر مال ہو جو راوی نے حضرت عثمانؓ کی ذات کی طرف منسوب کر دیا ہے اور یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے ذاتی بھی ہوں تو اپنی ذات پر اب خرچ نہیں کرتے تھے بلکہ صدقات اور قومی ضروریات پر ہی خرچ کیا کرتے تھے۔ بہرحال ایک روایت ہے جو میں نے بیان کی۔ اس سے پہلے ان کے اپنے حوالے سے بھی ایک روایت بیان ہو چکی ہے اور خزانے کی حفاظت کے لیے جو آدمی مقرر کیے تھے ان خزانچیوں سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قومی خزانہ تھا جس کی حفاظت کے لیے آپؓ نے مقرر کیا تھا۔

(ماخوذ از اسلام میں اختلافات کا آغاز ، انوار العلوم جلد4صفحہ 329)

صحابہ حضرت عثمانؓ کے واقعہ شہادت کے بارے میں جو بیان کرتے ہیں وہ اس طرح ہے۔ حضرت علیؓ سے پوچھا گیا کہ آپؓ ہمیں حضرت عثمانؓ کے بارے میں کچھ بتائیں۔ آپؓ نے فرمایا وہ تو ایسا شخص تھا جو ملأاعلیٰ میں بھی ذوالنورین کہلاتا تھا۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جزء 4صفحہ378،عثمان بن عفان، دارالکتب العلمیۃ بیروت،2005ء)

اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی وہ ذوالنّورین تھا۔

حضرت علیؓ نے فرمایا حضرت عثمانؓ ہم میں سب سے بڑھ کر صلہ رحمی کرنے والے تھے۔ حضرت عائشہ ؓکو جب حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر ملی تو انہوں نے فرمایا: ان لوگوں نے آپؓ کو قتل کر دیا حالانکہ آپؓ ان سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے اور ان سب سے زیادہ رب کا تقویٰ اختیار کرنے والے تھے۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جزء 4صفحہ378،عثمان بن عفان، دارالکتب العلمیۃبیروت،2005ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے دامادوں کے حق میں جو دعا ہے اس کی بھی ایک روایت ملتی ہے۔ ’الاستیعاب‘ میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب عزّوجلّ سے یہ دعا مانگی ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو آگ میں داخل نہ کرے جو میرا داماد ہو یا جس کا میں داماد ہوں۔

(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب الجزءالثالث صفحہ156، عثمان بن عفان،دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)

حضرت عثمانؓ کے لباس اور حلیہ کے بارے میں محمود بن لَبِیْد بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عثمان بن عفان ؓکو ایک خچر پر اس حالت میں سوار دیکھا کہ آپؓ کے جسم پر دو زرد چادریں تھیں۔

حَکَمْ بن صَلْت بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے بتایا کہ انہوں نے حضرت عثمانؓ کو خطاب کرتے ہوئے دیکھا جبکہ آپؓ پر سیاہ رنگ کی چادر تھی اور آپؓ نے مہندی کا خضاب لگایا ہوا تھا۔ سُلَیم ابوعامربیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عثمان بن عفانؓ پر ایک یمنی چادر دیکھی جس کی قیمت سو درہم تھی۔ محمد بن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے عمرو بن عبداللہ، عُروہ بن خالد اور عبدالرحمٰن بن ابوزِنَاد سے حضرت عثمانؓ کے حلیہ وغیرہ کے بارے میں پوچھا۔ ان سب نے بغیر اختلاف کے کہا کہ آپؓ نہ پست قد تھے نہ ہی بہت لمبے۔ آپؓ کا چہرہ خوبصورت، جلد نرم، داڑھی گھنی اور لمبی، رنگ گندمی، جوڑ مضبوط، کندھے چوڑے، سر کے بال گھنے تھے۔ آپؓ داڑھی کو خضاب سے پیلا کرتے تھے۔ واقِد بن ابویاسر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے اپنے دانتوں کو سونے کی تار سے باندھا ہوا تھا۔ موسیٰ بن طلحہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمانؓ کو دیکھا کہ آپؓ جمعہ کے روز باہر تشریف لاتے تو آپؓ پر دو زرد چادریں ہوتیں۔ پھر آپؓ منبر پر تشریف رکھتے اور مؤذن اذان دیتا۔ پھر جب مؤذن خاموش ہو جاتا تو ایک ٹیڑھی مٹھ والے عصا کا سہارالے کر کھڑے ہوتے اور عصا ہاتھ میں لیے ہوئے خطبہ دیتے۔ پھر آپؓ منبر سے اترتے اور مؤذن اقامت کہتا۔ حسن بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمانؓ کو مسجد میں اپنی چادر کا تکیہ بنا کر سوتے ہوئے دیکھا۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ32تا 34،ذکر لباس عثمان،داراحیاء التراث العربی بیروت،1996ء)

موسیٰ بن طلحہ بیان کرتے ہیں کہ جمعہ کے روز حضرت عثمانؓ نے ایک عصا کا سہارا لیا ہوا تھا۔ آپؓ تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت تھے۔ آپؓ پر دو زرد رنگ کے کپڑے ہوتے تھے ایک چادر اور ایک تہ بند یہاں تک کہ آپؓ منبر پر آتے اور اس پر بیٹھ جاتے۔

(مجمع الزوائد و منبع الفوائدالجزءالتاسع صفحہ57، کتاب المناقب باب صفتہ،حدیث نمبر14493،دارالکتب العلمیۃ بیروت،2001ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک انگوٹھی تھی جس پر ’محمد رسول اللہ‘ لکھا ہوا تھا، کندہ تھا۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم استعمال کیا کرتے تھے۔ اس کے بارے میں روایت آتی ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روم کے بادشاہ کی طرف خط لکھنے کا ارادہ فرمایا تو آپؐ سے عرض کیا گیا کہ اگر اس خط پر کوئی مہر نہ لگی ہوئی ہو گی تو آپؐ کا خط نہیں پڑھیں گے۔ اس پر آپؐ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس پر یہ نقش تھا ’محمد رسول اللہ‘۔ راوی کہتے ہیں گویا میں ابھی بھی انگوٹھی کی سفیدی کو آپؐ کے ہاتھ میں دیکھ رہا ہوں۔(صحیح البخاری کتاب اللباس باب اتخاذ الخاتم……حدیث5875) وہ بات مجھے اتنی تازہ ہے۔

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی آپؐ کے ہاتھ میں رہی۔ آپؐ کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ میں رہی۔ حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمر ؓکے ہاتھ میں رہی۔ پھر جب حضرت عثمانؓ کا دور آیا تو ایک بار اَرِیس نامی کنویں پر آپؓ بیٹھے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپؓ نے وہ انگوٹھی نکالی اور اس سے کھیلنے لگے۔ یعنی انگلی میں پھیرنے لگ گئے ہوں گے تو وہ گر گئی۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت عثمانؓ کے ہمراہ تین روز تک اسے تلاش کیا اور کنویں کا سارا پانی بھی باہر نکالا لیکن وہ انگوٹھی نہ مل سکی۔

اس انگوٹھی کے گم ہونے کے بعد حضرت عثمانؓ نے اسے ڈھونڈ کر لانے والے کے لیے مال کثیر دینے کا اعلان کیا اور اس انگوٹھی کے گم ہونے کا آپ کو بہت زیادہ غم ہوا۔ جب آپؓ اس انگوٹھی کے ملنے سے، اس کی تلاش سے مایوس ہو گئے تو آپؓ نے ویسی ہی چاندی کی ایک اَور انگوٹھی بنانے کا حکم دیا۔ چنانچہ بالکل ویسی ہی ایک انگوٹھی تیار کی گئی جس کا نقش بھی ’محمد رسول اللہ‘ تھا۔ وہ انگوٹھی آپؓ نے اپنی وفات تک پہنے رکھی۔ آپؓ کی شہادت کے وقت وہ انگوٹھی کسی نامعلوم شخص نے لے لی۔

(صحیح البخاری کتاب اللباس باب هَلْ يُجْعَلُ نَقْشُ الخَاتَمِ ثَلاَثَۃ أَسْطُرٍ حدیث 5879)
(تاریخ الطبری جلد 5 صفحہ111-112ثم دخلت سنۃ ثلاثین/ذکر الخبر عن سبب سقوط الخاتم…… دارالفکر بیروت 2002ء)

عشرہ مبشرہ میں بھی آپؓ شامل تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن اَخْنَسؓ سے مروی ہے کہ وہ مسجد میں تھے کہ ایک شخص نے حضرت علی ؓکا بے ادبی سے ذکر کیا۔ اس پر حضرت سعید بن زید ؓکھڑے ہو گئے اور کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گواہی دیتا ہوں کہ یقیناً میں نے آپؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ دس آدمی جنت میں جائیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں ہوں گے۔ ابوبکرؓ جنت میں ہوں گے۔ عمرؓ جنت میں ہوں گے۔ عثمانؓ جنت میں ہوں گے۔ علیؓ جنت میں ہوں گے۔ طلحہؓ جنت میں ہوں گے۔ عبدالرحمٰن بن عوفؓ جنت میں ہوں گے۔ زبیر بن عوامؓ جنت میں ہوں گے۔ سعد بن مالکؓ جنت میں ہوں گے اور اگر میں چاہوں تو دسویں کا نام بھی لے سکتا ہوں۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے کہا کہ دسواں کون ہے؟ حضرت سعید بن زیدؓ کچھ دیر خاموش رہے۔ اس پر لوگوں نے پھر پوچھا کہ دسواں کون ہے؟ تو انہوں نے کہا سعید بن زیدؓ یعنی میں خود ہوں۔(سنن ابی داؤد کتاب السنۃ باب فی الخلفاء حدیث 4649) پہلے بھی ایک جگہ پہ یہ روایت ان کے ضمن میں بیان کر چکا ہوں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عثمانؓ کے ساتھ جنت میں رفاقت کے بارے میں آتا ہے۔ حضرت طلحہ بن عُبَیداللہؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے اور میرا رفیق یعنی جنت میں میرا ساتھی، رفیق عثمان ہو گا۔

(سنن الترمذی ابواب المناقب باب ورفیقی فی الجنۃ عثمان حدیث 3698)

حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک گھر میں مہاجرین کے ایک گروہ کے ساتھ تھے جن میں ابوبکرؓ ،عمرؓ ،عثمانؓ، علیؓ، طلحؓہ، زبیرؓ ،عبدالرحمٰن بن عوفؓ، اور سعد بن ابی وقاصؓ تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر شخص اپنے ہم کفو کے ہمراہ کھڑا ہو جائے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمانؓ کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور ان سے معانقہ کیا اور فرمایا اَنْتَ وَلِیِّ فِي الدُّنْيَا وَ وَلِیِّ فِي الْاٰخِرَةِ کہ تم دنیا میں بھی میرے دوست ہو اور آخرت میں بھی میرے دوست ہو۔

(مجمع الزوائد و منبع الفوائدالجزءالتاسع صفحہ66، کتاب المناقب باب موالاتہ حدیث نمبر14528،دارالکتب العلمیۃ بیروت،2001ء)

حضرت عثمانؓ کے آزاد کردہ غلام ابوسَہْلَہ بیان کرتے ہیں کہ یوم الدّار کو یعنی جس دن حضرت عثمانؓ کو باغیوں نے آپؓ کے گھر میں محصور کر کے شہید کر دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس دن میں نے حضرت عثمانؓ سے عرض کیا اے امیر المومنینؓ! ان مفسدین سے لڑیں۔ حضرت عبداللہؓ نے بھی آپؓ سے عرض کیا کہ اے امیر المومنینؓ! ان مفسدین سے لڑیں۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں لڑائی نہیں کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک بات کا وعدہ کیا تھا۔ پس میں چاہتا ہوں کہ وہ پورا ہو۔

(اسد الغابہ فی معرفۃالصحابہ لابن اثیر جلد3صفحہ483-484،عثمان بن عفان ، دارالفکر بیروت،2003ء)

حضرت عثمانؓ کے غزوۂ بدر سے پیچھے رہنے، اُحُد میں فرار اور بیعتِ رضوان میں شامل نہ ہونے کی بابت اعتراض کیا جاتا ہے۔ یہ منافقین نے بھی آپؓ پہ اعتراض کیے تھے۔ عثمان بن مَوْہَبْبیان کرتے ہیں کہ اہلِ مصر سے ایک شخص حج کے لیے آیا تو اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ فتنہ پیدا کرنے کے لیے اس نے باتیں کیں۔ اس نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ قریشی ہیں۔ اس نے پوچھا: ان میں یہ بوڑھا شخص کون ہے؟ لوگوں نے کہا حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہیں۔ اس نے کہا اے ابن عمرؓ! آپؓ سے ایک بات کے متعلق پوچھتا ہوں۔ آپؓ مجھے بتائیں کیا آپؓ کو علم ہے کہ حضرت عثمانؓ اُحُد کے دن فرار ہوئے تھے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر اس نے پوچھا کیا آپؓ جانتے ہیں کہ وہ جنگِ بدر سے غیر حاضر رہے اور اس میں شریک نہ ہوئے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ اس نے پوچھا کیا آپؓ جانتے ہیں کہ وہ بیعتِ رضوان سے بھی غیر حاضر تھے اور اس میں شریک نہیں تھے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ اس پر اس شخص نے تعجب سے کہا اللہ اکبر ۔ حضرت ابن عمر ؓنے اسے کہا ادھر آؤ۔ تم نے اعتراض تو کیا ہے۔ مَیں تمہیں حقیقت حال کھول کر بتاتا ہوں۔ جنگِ اُحُد کے دن جو اُن کا بھاگ جانا تھا تو مَیں یہ شہادت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو معاف کر دیا تھا اور آپؓ سے مغفرت کا سلوک فرمایا تھا۔ اس وقت جب ایسی ہنگامی حالت تھی یہ مشہورہو گیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کافروں نے شہید کر دیا ہے تو اس وقت پھر بہرحال ایسی حالت تھی جو ایک وقتی اضطراب کے طور پہ آپؓ چلے گئے تھے۔ کہتے ہیں جہاں تک بدر سے حضرت عثمانؓ کا غائب رہنا ہے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ حضور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی جو آپؓ کی بیوی تھیں وہ بیمار تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ سے فرمایا تھا کہ تم اپنی بیوی کے پاس ہی رہو۔ تمہارے لیے بدر میں شامل ہونے والوں کی مانند اجر اور مال غنیمت میں سے حصہ ہو گا۔ اور جہاں تک بیعتِ رضوان سے آپؓ کی غیر حاضری ہے تو یاد رکھو اگر وادیٔ مکہ میں حضرت عثمانؓ سے بڑھ کر کوئی اَور شخص معزز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمانؓ کی جگہ اس شخص کو کفار کی طرف سفیر بنا کر بھیجتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کو بھیجا اور بیعتِ رضوان اس وقت ہوئی جب آپؓ مکہ والوں کی طرف گئے ہوئے تھے۔ بیعتِ رضوان کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ عثمانؓ کا ہاتھ ہے اور آپؐ نے اپنے بائیں ہاتھ کو اپنے دوسرے ہاتھ پر زور سے رکھتے ہوئے فرمایا یہ عثمانؓ کے لیے ہے۔ حضرت ابن عمرؓ نے یہ بیان فرمانے کے بعد اس شخص سے کہا۔ اب یہ باتیں اپنے ساتھ لے جاؤ اور یاد رکھنا یہ کوئی اعتراض کی باتیں نہیں ہیں۔ جاؤ۔(ماخوذ از صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیؐ باب مناقب عثمان……حدیث نمبر 3698)یہ بخاری کی روایت ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مسجد نبویؐ کی توسیع ہوئی تھی۔ اس میں بھی حضرت عثمانؓ کو حصہ لینے کی توفیق ملی۔ ابو مَلِیْحاپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد مدینہ کی توسیع کے لیے زمین کے ایک ٹکڑے کے مالک کو جو ایک انصاری تھا فرمایا: تمہارے لیے اس قطعہ کے بدلے جنت میں گھر ہو گا مگر اس نے دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر حضرت عثمانؓ آئے اور اس شخص سے کہا کہ تمہارے لیے اس قطعہ کے بدلے، اس ٹکڑا زمین کے بدلے مَیں دس ہزار درہم دیتا ہوں۔ آپؓ نے اس سے وہ قطعہ خرید لیا۔ پھر حضرت عثمانؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی یارسول اللہؐ ! آپؐ مجھ سے زمین کا یہ ٹکڑا خریدیں جو میں نے انصاری سے خریدا ہے۔ اس پر آپؐ نے وہ زمین کا ٹکڑا حضرت عثمانؓ سے جنت میں گھر کے بدلے خرید لیا۔ وہی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر حضرت عثمانؓ کو فرمائی کہ تمہارا جنت میں گھر ہو گا۔ حضرت عثمانؓ نے بتایا کہ میں نے دس ہزار درہم کے بدلے میں اسے خرید لیا ہے۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اینٹ رکھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر ؓکو بلایا تو انہوں نے بھی ایک اینٹ رکھی۔ پھر حضرت عمرؓ کو بلایا انہوں نے بھی ایک اینٹ رکھی۔ پھر حضرت عثمانؓ آئے اور انہوں نے بھی ایک اینٹ رکھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی لوگوں سے فرمایا کہ اب تم سب اینٹیں رکھو تو ان سب نے رکھیں۔

(مجمع الزوائد جزء9 صفحہ65 کتاب المناقب باب ما عمل من الخیر…… حدیث نمبر14524دارالکتب العلمیۃ بیروت2001ء)

یہ جو اس کی ایکسٹینشن (extension)ہوئی تھی تو اس طرح اس کی بنیاد پڑی۔

ثُمَامَہ بن حَزْن قُشَیْرِیبیان کرتے ہیں کہ میں محاصرے کے وقت حاضر تھا جب حضرت عثمانؓ نے جھانک کر لوگوں سے فرمایا۔ جب حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کیا گیا تھا تو حضرت عثمانؓ نے فرمایا:تمہیں اللہ اور اسلام کی قَسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو رُومہ نامی کنویں کے علاوہ میٹھے پانی کا کوئی انتظام نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے جو رُومہ کنویں کو خریدے گا تا کہ وہ اس میں اپنا ڈول مسلمانوں کے ڈول کے ساتھ ڈالے۔ یعنی وہ خود بھی پیے اور مسلمان بھی اس سے پئیں اور جنت میں اس کے لیے اس سے بہتر بدلہ ہو گا۔ حضرت عثمانؓ نے کہا کہ اس پر میں نے وہ کنواں اپنے ذاتی مال سے خریدا اور اس میں اپنا ڈول مسلمانوں کے ڈولوں کے ساتھ ڈالا اور آج تم مجھے اس سے پانی پینے سے روکتے ہو اور چاہتے ہو کہ میں سمندر کا پانی پینے پر مجبور ہو جاؤں۔ اس پر لوگوں نے کہا اللہ کی قَسم! آپؓ نے درست فرمایا ہے۔ پھر حضرت عثمانؓ نے فرمایا: میں تمہیں اللہ اور اسلام کی قَسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ میں نے جیش عُسْرَہ، غزوۂ تبوک کے لشکر کی تیاری اپنے مال سے کی تھی۔ اس پر لوگوں نے کہا اللہ کی قَسم ایسے ہی ہے۔ پھر آپؓ نے فرمایا: میں تمہیں اللہ اور اسلام کی قَسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ یہ مسجد نبویؐ جب نمازیوں کے لیے تنگ ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص فلاں خاندان سے زمین کا یہ ٹکڑا خرید کر مسجد میں شامل کر دے گا تو اس کے لیے جنت میں اس سے بہتر ہو گا۔ چنانچہ مَیں نے زمین کا یہ ٹکڑا اپنے ذاتی مال سے خرید کر مسجد میں شامل کر دیا اور اب تم لوگ مجھے اس مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے سے بھی روک رہے ہو۔ اس پر ان لوگوں نے کہا اللہ کی قسم ایسا ہی ہے۔ پھر آپؓ نے فرمایا میں تمہیں اللہ اور اسلام کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی ثَبِیْر نامی پہاڑی پر تھے اور آپؐ کے ہمراہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور مَیں تھا۔ جب پہاڑی لرزی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا پاؤں مارتے ہوئے فرمایا اے ثَبِیر!ٹھہر جا کیونکہ تجھ پر ایک نبی اور ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ اس پر ان لوگوں نے کہا اللہ کی قسم ایسا ہی ہے۔ آپؓ نے فرمایا اللہ اکبر! رَبِّ کعبہ کی قَسم ان لوگوں نے میرے حق میں یہ گواہی دے دی ہے یعنی یہ کہ میں شہادت کا مقام پانے والا ہوں۔

(سنن النسائی کتا ب الاحباس باب وقف المساجد حدیث نمبر 3638)

مسجد نبویؐ کی مزید توسیع جو ہوئی وہ زیادہ تر حضرت عثمانؓ کے زمانے میں ہوئی تھی۔ اس لیے اس کی مختصر تاریخ اور ابتدائی حالات اور پھر توسیع کے بارے میں جو بھی بیان ہے وہ بتاتا ہوں۔ پہلے تو یہ بیان کیا گیا ہے ناں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں توسیع کی گئی۔ اس کے بارے میں ایک نوٹ یہ بھی ہے کہ ماہ ربیع الاول یکم ہجری بمطابق اکتوبر 622ء کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے مسجدِ نبویؐ کا سنگِ بنیاد رکھا۔ بنیاد تقریباً تین ذرع یعنی ڈیڑھ میٹر گہری تھی۔ بنیاد کے لیے پتھر سے گھڑی ہوئی اینٹوں سے دیوار بنائی گئی جبکہ اوپر کی دیوار گارے سے بنی اور دھوپ میں سکھائی گئی کچی اینٹوں سے بنائی گئی تھی اور دھوپ میں سکھائی گئی۔ دیوار کچی اینٹوں سے بنائی گئی تھی۔

(ماخوذ از جستجوئے مدینہ از عبدالحمید قادری صفحہ 430اورینٹل پبلی کیشنز پاکستان2007ء)

یہ مسجد کی تعمیر کی تاریخ ہے۔ ساتھ ساتھ اس میں توسیع کا بھی ذکر آ جائے گا۔ مسجد کی دیواریں تقریباً پون میٹر،تقریباً دو اڑھائی فٹ چوڑی رکھی گئی تھیں، جن کی اونچائی تقریباً سات ذرع یعنی تقریباً ساڑھے تین میٹر تھی۔

(ماخوذ از جستجوئے مدینہ از عبدالحمید قادری صفحہ 432اورینٹل پبلی کیشنز پاکستان2007ء)

مسجد نبویؐ کی تکمیل ماہ شوال یکم ہجری، اپریل 623ء میں ہوئی۔

(ماخوذ از جستجوئے مدینہ از عبدالحمید قادری صفحہ 435اورینٹل پبلی کیشنز پاکستان2007ء)

حضرت خارِجہ بن زید بن ثابِت ؓکی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مسجد کا طول ستر ذرع، تقریباً 35میٹر اور عرض ساٹھ ذرع، تقریباً 30میٹر رکھا تھا۔

(ماخوذ از جستجوئے مدینہ از عبدالحمید قادری صفحہ 437-438اورینٹل پبلی کیشنز پاکستان2007ء)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں مسجد نبویؐ کی پہلی توسیع محرم 7؍ ہجری، جون 628ء میں ہوئی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ خیبر سے کامیاب ہو کر لَوٹے تو آپؐ نے مسجد نبویؐ کی توسیع اور تعمیرِنَو کا حکم جاری فرمایا۔ مسجد کی توسیع جنوبی یعنی جانب قبلہ اور مشرقی جانب نہ کی گئی۔ زیادہ تر توسیع شمالی جانب کی گئی اور کچھ مغربی جانب بھی۔ شمالی جانب صحابہ کرام کے چند گھر تھے۔ اس جانب ایک انصاری صحابی کا گھر تھا جس کو اپنا مکان دینے میں کچھ پس و پیش تھا۔ ایسے میں جیسے کے پہلے بیان ہو چکا ہے حضرت عثمان بن عفانؓ نے اپنی جیب سے دس ہزار دینار دے کر وہ گھر خرید لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ اس طرح مسجد کی توسیع زیادہ تر شمالی جانب اور مغربی جانب ممکن ہو سکی۔ اس توسیع کے بعد مسجد کا کل رقبہ 100×100ذرع یعنی50×50میٹر ہو گیا۔

(ماخوذ از جستجوئے مدینہ از عبدالحمید قادری صفحہ 446-447اورینٹل پبلی کیشنز پاکستان2007ء)

حضرت عمر ؓکے دور میں مسجد نبویؐ کی دوسری توسیع 17؍ ہجری میںہوئی۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں مسجد کچی اینٹوں سے بنی ہوئی تھی جس کی چھت کھجور کی ٹہنیوں اور پتوں سے بنی ہوئی تھی اور ستون کھجور کے تنوں کے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے اس کو اسی حالت میں رہنے دیا اور اس میں کوئی تبدیلی یا توسیع نہیں کی۔ حضرت عمرؓ نے اس کی تعمیرِنَو اور توسیع کروائی مگر اس کی ہیئت اور طرزِ تعمیر میں کوئی تبدیلی نہیں کروائی۔ جس طرح تھا انہی بنیادوں پر یا اسی طرح پرانا حصہ رہنے دیا تھا۔ انہوں نے بھی اسے اسی طرح کے طرز تعمیر سے بنوایا صرف ایکسٹینشن ہوئی۔ چھت پہلے کی طرح کھجور کے پتوں کی ہی رہی۔ انہوں نے صرف ستون لکڑی کے ڈلوا دیے۔ حضرت عمر ؓنے 17؍ ہجری میں مسجد کی تعمیر کو اپنے زیرِ نگرانی مکمل کروایا۔ اس توسیع کے بعد مسجد کا رقبہ 50×50میٹر جو پہلے تھا سے بڑھ کر 70×60میٹر ہو گیایا 140×120ذرع ہو گیا۔ اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے دور میں بھی مسجد نبویؐ وہی رہی جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھی تاہم حضرت عمر ؓکی تعمیرِنَو کے ساتھ اس میں کافی توسیع ہو گئی۔

(ماخوذ از جستجوئے مدینہ از عبدالحمید قادری صفحہ 459اورینٹل پبلی کیشنز پاکستان2007ء)

پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں مسجد نبویؐ کی توسیع ہوئی اور تعمیرِنَو بھی ہوئی۔ یہ 29؍ ہجری کا واقعہ ہے۔ حضرت عثمانؓ نے مسجد نبویؐ کی توسیع اور تعمیرِنَو کی تو اسے خوبصورت اور مضبوط بنانے کے لیے پتھر جپسم اور نقش و نگار کا استعمال کیا۔ حضرت عثمانؓ نے دیواریں پتھر کی بنوائیں جن پر نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور مسجد نبویؐ میں پہلی بار سفیدی کے لیے چونے کا استعمال بھی کیا گیا۔ چھت میں شیشم کی لکڑی استعمال ہوئی تھی۔ جب حضرت عثمانؓ 24؍ ہجری میں خلیفہ منتخب ہوئے تو لوگوں نے ان سے درخواست کی کہ مسجد نبویؐ کی توسیع کر دی جائے۔ انہوں نے صحن کی تنگی کی شکایت کی۔ خاص طور پر نماز جمعہ کے اجتماعات پر ایسا کثرت سے ہوتا۔ اکثر ہوتا کہ لوگوں کو مسجد کے باہر والے حصہ میں نماز ادا کرنی پڑتی تھی۔ لہٰذا حضرت عثمانؓ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا۔ سب کی رائے یہی تھی کہ پرانی مسجد کو مسمار کر کے اس کی جگہ نئی مسجد تعمیر کر دی جائے۔ پہلی مسجد کو گرا دیا جائے، نئی تعمیر کی جائے۔ ایک دن حضرت عثمانؓ نے نماز ظہر کے بعد منبر پر خطبہ دیا اور فرمایا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ میں مسجد کو مسمار کر کے اس کی جگہ نئی مسجد بنانا چاہتا ہوں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا ہے کہ جو بھی مسجد بناتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں ایک گھر عطا کر دیتا ہے۔ مجھ سے پہلے حضرت عمر فاروقؓ تھے ان کے ہاتھوں مسجد نبویؐ کی توسیع اور تعمیرِنَومیرے لیے ایک مثال اور نظیر ہے۔ میں نے صائب الرائے اصحاب سے مشورہ کیا ہے اور ان سب کی متفقہ رائے یہی ہے کہ مسجد نبویؐ کو مسمار کر کے اسے دوبارہ بنایا جانا چاہیے۔

جب حضرت عثمانؓ نے مسجد کی تعمیر نَو کا منصوبہ پیش کیا تو چند صحابہ کرام نے اس معاملے میں اپنے تحفظات پیش کیے۔ ان کا خیال تھا گرانی نہیں چاہیے۔ ان میں وہ صحابہ کرام شامل تھے جو بالکل مسجد نبویؐ کے قریب مقیم تھے اور جن کے مکانات اس منصوبے سے متاثر ہوتے نظر آ رہے تھے۔ عوام کی اکثریت نے تو اس منصوبے کی حمایت کی مگر چند صحابہ کرام نے اعتراض کیا۔ حضرت اَفْلَح بن حمید نے بیان کیا کہ جب حضرت عثمانؓ نے چاہا کہ منبر پر تشریف لا کر لوگوں کی رائے معلوم کریں تو مَرْوَانبن حَکَمنے کہا بلا شبہ یہ ایک نیک کام ہے۔ لہٰذا کیا ضرورت ہے کہ آپ لوگوں کی رائے معلوم کریں۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے ان کی سرزنش کی اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا تیرا بھلا ہو مَیں کسی معاملے میں لوگوں پر جبر و اکراہ کا قائل نہیں ہوں۔ مجھے ان سے ضرور مشورہ کرنا ہے۔ آپؓ نے فرمایا میں اپنی رائے کو لوگوں پر مسلط کرنا نہیں چاہتا۔ میں تو جو کام بھی کروں گا ان کی مرضی سے کروں گا۔ پھر جب آپؓ نے اپنے منصوبے کے متعلق اہل الرائے اصحاب کو اعتماد میں لے لیا تو مسجد نبویؐ کی شمالی جانب واقع گھروں کو خرید کر ان کی زمین حاصل کی۔ اگرچہ آپ نے معاوضہ کے طور پر ان اصحاب کو کافی رقوم پیش کی تھیں مگر پھر بھی چند اصحاب اپنے مکانات دینے کے حق میں نہ تھے اور تقریباً چار سال گزر گئے مگر کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ہو سکی۔ حضرت عُبَیْدُاللّٰہ خَوْلَانی ؓسے مروی ہے کہ جب لوگ اپنے مکانات دینے کے لیے پس و پیش کر رہے تھے اور دلائل طوالت پکڑتے جا رہے تھے تو میں نے حضرت عثمانؓ کو کہتے ہوئے سنا تم لوگ بہت باتیں بنا چکے۔ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا تھا کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے مسجد کی تعمیر کرے گا اللہ تعالیٰ اجر میں اس کے لیے ایسا ہی محل جنت میں تعمیر کروائے گا۔

اسی طرح حضرت محمود بن لَبِیدؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمانؓ نے مسجد نبویؐ کی تعمیر نَو کا ارادہ کیا تو لوگوں کو ان کا منصوبہ پسند نہ آیا۔ ان کا اصرار تھا کہ مسجد نبویؐ کو اسی حالت میں رہنے دیا جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھی۔ اس پر آپؓ نے فرمایا جو کوئی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے مسجد تعمیر کرے گا اللہ تعالیٰ اجر میں اس کے لیے ایسا ہی محل جنت میں تعمیر کروائے گا۔ جب حضرت عثمانؓ لوگوں کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو آپؓ نے ماہ ربیع الاول 29؍ ہجری، نومبر649ء میں کام کی ابتدا کروا دی۔ تعمیرِنَو کے کام میں صرف دس ماہ صرف ہوئے اور یوں یکم محرم 30؍ ہجری کو مسجد نبویؐ تیار ہو گئی۔ آپؓ بنفس نفیس کام کی نگرانی فرماتے تھے۔ دن کے وقت ہمیشہ روزہ رکھتے اور رات کے وقت اگر نیند مجبور کرتی تو مسجد نبویؐ میں ہی سستا لیا کرتے تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن سَفِیْنَہؓسے مروی ہے کہ میں نے دیکھا کہ مسجد کی تعمیر کے لیے مصالحہ اٹھا اٹھا کر حضرت عثمان غنیؓ کے پاس لایا جاتا اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ ہمیشہ اپنے پاؤں پر کھڑے کھڑے کاریگروں سے کام کرواتے اور پھر جب نماز کا وقت آ جاتا تو ان کے ساتھ نماز ادا کرتے اور پھر کبھی کبھی وہیں سو بھی جایا کرتے تھے۔ حضرت عثمانؓ نے مسجد نبویؐ کو جنوب میں قبلہ کی جانب وسعت دی اور اس کی قبلہ کی دیوار کو اس جگہ تک لے آئے جہاں کہ آج تک ہے۔ شمالی جانب اس میں پچاس ذرع، تقریباً 25 میٹر کا اضافہ کیا گیا اور کچھ توسیع مغربی جانب بھی کروائی گئی۔ البتہ شرقی جانب جہاں حجراتِ مبارکہ تھے کوئی توسیع نہیں کی گئی۔ اس کے بعد مسجد نبویؐ کا کُل رقبہ 160×150 ذرع یعنی تقریباً 80×75 میٹر ہو گیا۔

حضرت عثمانؓ کے دور میں مسجد کے دروازوں کی تعداد چھ تھی۔ پہلی مرتبہ مسجد نبویؐ میں پتھروں پر نقش و نگار بنوائے گئے۔ اس میں سفیدی کروائی گئی ۔ حضرت خَارِجَہ بن زیدؓ کے بیان کے مطابق حضرت عثمانؓ نے مسجد نبویؐ کی شرقی اور غربی دیواروں میں روشن دان رکھوائے تھے۔ مسجد نبویؐ کی توسیع کے لیے حضرت عثمانؓ کوجو مکان لینے پڑے ان میں اُمّ المومنین حضرت حفصہ ؓکا حجرہ بھی شامل تھا جن کو اس کا متبادل مکان دیوار قبلہ سے متصل جنوب مشرقی کونے پر دے دیا گیا تھا اور ایک دریچہ کے ذریعہ سے ان کی آمد و رفت حجرے تک ممکن اور آسان بنا دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ حضرت جعفر بن ابوطالبؓ کے ورثاء سے ان کے مکان کا نصف حصہ ایک لاکھ درہم کے عوض خریدا گیا اور اس طرح دارالعباس کا کچھ حصہ خرید کر مسجد نبویؐ میں شامل کیا گیا تھا۔ دیوار قبلہ کو جنوبی جانب لے جانے کے علاوہ سب سے نمایاں فرق جو کہ مسجد نبویؐ میں ہوا وہ یہ تھا کہ محراب نبوی کی جگہ مقام قبلہ بھی اس کی سیدھ میں اتنا ہی آگے لے جانا پڑا جہاں تک دیوار قبلہ لے جائی گئی تھی جو عین اسی جگہ پر تھی جہاں آج کل ہم محراب عثمانی کو دیکھتے ہیں وہاں علامتی محراب بھی بنائی گئی تھی۔ مٹی کے گارے کی جگہ انہوں نے پسا ہوا پتھر استعمال کروایا تھا اور پتھر سے بنے ہوئے ستون میں سیسے کی بنی سلاخیں ڈلوائی گئی تھیں۔ اس بات کا خاص اہتمام رکھا گیا کہ نئے ستون انہی ستونوں کی جگہ استوار کیے جائیں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارکہ میں کھجور کے تنے سے بنے ہوئے ستون ہوا کرتے تھے۔

تعمیر میں جو مواد اور طرزِ تعمیر استعمال ہوا وہ اسی طرح کا تھا جیسا کہ یروشلم میں گنبد صَخْرَہکی تعمیر میں بازنطینیوں نے استعمال کیا تھا۔ چھت شیشم کی لکڑی سے بنائی گئی تھی جو کہ لکڑی کے شہتیروں پر رکھی گئی تھی جو سیسہ پلائے پتھروں کے ستونوں پر استوار تھے۔ چونکہ حضرت عمر ؓکی شہادت محراب نبوی میں نماز کی امامت کرواتے ہوئے ہوئی تھی، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ آئندہ کوئی ایسا حادثہ رونما نہ ہو حضرت عثمانؓ نے محراب کے مقام پر ایک مقصورہ (مسجد میں صفوں سے آگے امام کے لیے کھڑا ہونے کی جگہ جس میں منبر بنا ہوتا ہے)تعمیر کروایا جو کہ مٹی کی اینٹوں سے بنا تھا اور اس میں جھروکے اور روزن رکھے گئے تھے تا کہ مقتدی اپنے امام کو دیکھ سکیں۔ یہ پہلا حفاظتی طریقہ تھا جو کہ مسجد نبویؐ میں تعمیر ہوا جو کہ بعد میں دمشق میں خلفائے بنو امیہ کے حفاظتی پروٹوکول کا باقاعدہ حصہ بن گیا تھا۔

(ماخوذ از جستجوئے مدینہ از عبد الحمید قادری صفحہ463تا 465 اورینٹل پبلی کیشنز پاکستان 2007ء)
(اردو لغت تاریخی اصولوں پر جلد 18 صفحہ 492، زیر لفظ مقصورہ)

یعنی محراب کو دیوار بنا کے محفوظ کیا گیا تھا لیکن مقتدی امام کو دیکھ سکتے تھے۔ بہرحال اس کے بعد پھر مختلف وقتوں میں مسجد کی توسیع ہوتی رہی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عثمانؓ کو تو میں حضرت سلیمانؑ سے تشبیہ دیتا ہوں۔ ان کو بھی عمارات کا بڑا شوق تھا۔ حضرت علیؓ کے وقت میں اندرونی فتنے ضرور تھے۔ایک طرف معاویہ تھے اور دوسری طرف علیؓ اور ان فتنوں کے باعث مسلمانوں کے خون بہے۔ 6 سال کے اندر اسلام کے لیے کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اسلام کے لیے تو عثمانؓ تک ہی ساری کارروائیاں ختم ہو گئیں۔ پھر تو خانہ جنگی شروع ہو گئی۔‘‘

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 278)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’یہ ضروری نہیں ہے کہ مسجد مرصّع اور پکی عمارت کی ہو بلکہ صرف زمین روک لینی چاہیے اور وہاں مسجد کی حد بندی کر دینی چاہیے اور بانس وغیرہ کا کوئی چھپر وغیرہ ڈال دو تا کہ بارش وغیرہ سے آرام ہو۔ خدا تعالیٰ تکلفات کو پسند نہیں کرتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد چند کھجوروں کی شاخوں کی تھی اور اسی طرح چلی آئی۔ پھر حضرت عثمانؓ نے اس لیے کہ ان کو عمارت کا شوق تھا اپنے زمانہ میں اسے پختہ بنوایا۔ مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ حضرت سلیمان اور عثمان کا قافیہ خوب ملتا ہے۔ شاید اسی مناسبت سے ان کو ان باتوں کا شوق تھا۔‘‘

(ملفوظات جلد 7صفحہ119)

مسجد الحرام کی توسیع 26 ہجری میں ہوئی ۔ 26 ہجری میں حضرت عثمانؓ نے حرم کے نشانات کی از سرِنو تجدید کی اور مسجد الحرام کی توسیع فرمائی اور ارد گرد کے مکانات خرید کر مسجد الحرام میں شامل کیے۔بعض لوگوں نے اپنی رضا مندی سے مکانات فروخت کر دیے لیکن بعض اپنے مکانات فروخت کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ حضرت عثمانؓ نے ان کو ہر ممکن طریقے سے راضی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے موقِف پر قائم رہے۔ آخر حضرت عثمانؓ کے حکم سے وہ تمام مکانات گرا دیے گئے اور ان کی قیمت آپ نے بیت المال میں جمع کرا دی۔ اس پر ان لوگوں نے حضرت عثمانؓ کے خلاف شور مچایا تو آپ نے انہیں گرفتار کر کے جیل بھیجنے کا حکم دیا۔ پھر ان سے مخاطب ہو کر آپ نے فرمایا۔ کیا تم جانتے ہو کہ کس بات کی وجہ سے تم میں میرے خلاف یہ جرأت ہوئی ہے؟ اس جرأت کا سبب صرف میرا حلم ہے۔ حضرت عمرؓ نے بھی تمہارے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا تھا مگر ان کے خلاف تو تم لوگوں نے کوئی ہنگامہ نہ کیا تھا۔ اس کے بعد عبداللہ بن خالد بن اُسَیدنے حضرت عثمانؓ سے ان ہنگامہ کرنے والوں کے بارے میں بات کی تو انہیں چھوڑ دیا گیا ۔

(تاریخ الطبری جلد 5 صفحہ 92 ثم دخلت سنہ ست وعشرین…… دارالفکر بیروت 2002ء)

پہلا اسلامی بحری بیڑا بھی 28 ہجری میں حضرت عثمانؓ کے زمانے میں بنایا گیا۔ امیر معاویہ بن ابوسفیان وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں بحری جنگ کی۔ امیر معاویہ نے حضرت عمرؓ سے بھی بحری جنگ کی اجازت مانگی تھی لیکن آپؓ نے اجازت نہیں دی تھی۔ جب حضرت عثمانؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو امیر معاویہ نے آپ سے بھی بار بار تذکرہ کیا اور اجازت مانگی۔ آخر کار حضرت عثمانؓ نے اجازت دے دی اور فرمایا کہ تم خود لوگوں کا انتخاب نہ کرو اور نہ ہی ان کے درمیان قرعہ اندازی کرو بلکہ انہیں اختیار دو۔ پھر جو اپنی خوشی سے اس جنگ میں شامل ہونا چاہے اسے ساتھ لے جاؤ اور اس کی مدد کرو۔ چنانچہ امیر معاویہ نے ایسا ہی کیا۔ انہوں نے عبداللہ بن قَیس جَاسِی کو امیر البحر مقرر کیا جس نے سمندر میں موسم گرما اور موسم سرما میں پچاس جنگیں کیں اور ان سب جنگوں میں مسلمانوں کا نہ تو کوئی سپاہی ڈوبا اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی نقصان ہوا۔

(تاریخ الطبری جلد 5 صفحہ 97 ثم دخلت سنۃ ثمان وعشرین/ ذکر الخبر عن غزوۃ معاویۃ ایاھا)

روایت میں یہ آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اخلاق میں سب سے زیادہ مشابہت حضرت عثمانؓ کی تھی۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عثمانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی کے پاس تشریف لائے جبکہ وہ حضرت عثمانؓ کا سر دھو رہی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا: اے میری بیٹی! ابوعبداللہ یعنی عثمان سے بہترین سلوک سے پیش آیا کرو کیونکہ وہ میرے صحابہ میں سے اخلاق کے لحاظ سے سب سے زیادہ میرے مشابہ ہے۔

(مجمع الزوائد و منبع الفوائد الجزءالتاسع صفحہ58، کتاب المناقب باب ما جاءفی خلقہ حدیث نمبر14500،دارالکتب العلمیۃ بیروت،2001ء)

حضرت یحیٰ بن عبدالرحمٰن بن حاطِبؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بات کو مکمل اور خوبصورت رنگ میں بیان کرنے میں حضرت عثمانؓ سے بہتر کسی کو نہیں دیکھا تاہم آپؓ زیادہ بات چیت سے گریز کرتے تھے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ32،عثمان بن عفان،داراحیاء التراث العربی بیروت،1996ء)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت رُقیہؓ بنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ غالباً یہاں حضرت رُقیہ ؓکی جگہ حضرت ام کلثومؓ مراد ہو سکتی ہیں کیونکہ روایت میں ہے کہ غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت رُقیہ ؓکی وفات ہو گئی تھی اور حضرت ابوہریرہؓ اس کے پانچ سال کے بعد مسلمان ہوئے تھے اور مدینہ آئے تھے تو حضرت ام کلثوم ؓمراد ہو سکتی ہیں کیونکہ ان کی وفات 9؍ ہجری میں ہوئی تھی۔ بہرحال یہ روایت ہے کہ بنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جو حضرت عثمانؓ کی بیوی تھیں اور ان کے ہاتھ میں کنگھی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے تشریف لے گئے ہیں اور میں نے آپؐ کے سر میں کنگھی کی ہے تو آپؐ نے مجھ سے پوچھا کہ تم ابوعبداللہ حضرت عثمانؓ کو کیسا پاتی ہو؟ مَیں نے عرض کیا بہت عمدہ ۔ آپؐ نے فرمایا: پس تُو بھی ان سے عزت سے پیش آیا کر کیونکہ وہ میرے صحابہ میں سے اخلاق کے لحاظ سے مجھ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔

(مجمع الزوائد و منبع الفوائدلعلی بن ابو بکر،الجزءالتاسع صفحہ58، کتاب المناقب باب ما جاءفی خلقہ رضی اللّٰہ عنہ حدیث نمبر14501،دارالکتب العلمیۃ بیروت،2001ء)

حضرت عثمانؓ کا یہ ذکر ابھی یہاں ختم کرتا ہوں۔ آج بھی میں نے کچھ جنازے پڑھانے ہیں۔ ان کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

پہلا جنازہ مبشر احمد رِندصاحب ابن احمد بخش صاحب معلم وقف جدید ربوہ کا ہے جو 10؍ مارچ کو بقضائے الٰہی وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ راجِعُوْنَ۔

آپ کا تعلق بستی رنداں ضلع ڈیرہ غازی خان سے تھا۔ پیدائشی احمدی تھے۔ 1990ء میں تھرپارکر سے انہوں نے بطور معلم وقف جدید خدمت کا آغاز کیا اور پھر مختلف وقتوں میں مختلف جگہوں پر معلم اور انسپکٹر کے طور پہ کام کیا۔ جہاں بھی آپ کو بھجوایا گیا ہمیشہ لبیک کہتے رہے اور کبھی کوئی عذر پیش نہیں کیا۔ وقف کو ہمیشہ وفا کے ساتھ نبھانے کی کوشش کی۔ اپنوں اور غیروں سب نے آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ انتہائی محنتی، دعاگو، باقاعدگی سے تہجد ادا کرنے والے، بہترین داعی الی اللہ، اچھے مقرر، بہت ملنسار ،مہمان نواز، خوش مزاج اور عاجز انسان تھے۔ ہمیشہ نرم لہجہ رکھتے اور شیریں زبان استعمال کرتے تھے لیکن نظام جماعت اور خلافت کے خلاف کوئی بات سنتے تو ننگی تلوار بن جاتے تھے اور اس وقت تک اس محفل سے نہ اٹھتے تھے جب تک کہ اس شخص کی اصلاح نہ کر لیتے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ آپ کے چھوٹے بیٹے عزیزم شاذل احمد جامعہ احمدیہ ربوہ میں درجہ ثالثہ کے طالبعلم ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا جنازہ ذکر منیر احمد فرخ صاحب سابق امیر جماعت ضلع اسلام آباد کا ہے۔ طویل علالت کے بعد 9؍ مارچ کو ان کی کینیڈا میں، 84 سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ راجِعُوْنَ۔

آپ9/1حصہ کی وصیت کے موصی تھے۔ منیر فرخ صاحب انجنیئر کے دادا کا نام حضرت منشی احمد بخش صاحبؓ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ انہوں نے قادیان جا کر جلسہ سالانہ 1903ء میں بیعت کی سعادت پائی تھی۔ ان کے والد کا نام ڈاکٹر چودھری عبدالاحد صاحب تھا جو ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی تھے، ایگریکلچر میں کیا ہوا تھا اور پی ایچ ڈی کرنا اس زمانہ میں بہت ذہین طلبہ کا کام تھا۔ بہرحال انہوں نے پی ایچ ڈی کی۔ آپ کچھ عرصہ امیر جماعت لائل پور کے طور پر بھی خدمت انجام دیتے رہے۔ 1944ء میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے جب احمدی نوجوانوں کو خاص طور پر سائنسدانوں کو خدمت دین کے لیے وقف کی تحریک کی تو ڈاکٹر صاحب نے بھی، فرخ صاحب کے والد نے بھی وقف کر دیا اور سرکاری نوکری کو چھوڑ کر مع اہل و عیال قادیان منتقل ہو گئے۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی براہ راست نگرانی میں فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ حضورؓ نے ان کو ڈائریکٹر فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ مقرر فرمایا۔ اس کے ساتھ ہی تعلیم الاسلام کالج میں بطور سائنس ٹیچر کے بھی ان کی تعیناتی ہوئی۔

فرخ صاحب نے یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے الیکٹریکل انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور پھر شروع میں مختلف جگہوں میں کام کیا۔ پھر ٹیلیگراف اینڈ ٹیلیفون ڈیپارٹمنٹ حکومت پاکستان میں باقاعدہ سروس کا آغاز کیا۔ دوران سروس آپ نے ملک کے بیشتر شہروں میں خدمات سرانجام دیں۔ متعدد ملکوں میں حکومت پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے۔ 1997ء میں ڈائریکٹر جنرل پاکستان ٹیلی کمیونیکیشنز لمیٹڈ کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ ان کی اہلیہ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

راولپنڈی میں قیام کے دوران قائد ضلع مجلس خدام الاحمدیہ کے طور پر ان کو خدمت کی توفیق ملی اور یہ دور 1974ء کا پُرآشوب دور تھا۔ بہرحال ان کو اس زمانے میں خدمت کی توفیق ملی۔1977ء میں اسلام آباد مستقل رہائش رکھنے کے بعد مختلف خدمات کی ان کو توفیق ملی۔ 1990ء میں بطور نائب امیر اول خدمت کی توفیق ملی۔ پھر جب ریٹائرمنٹ ہوئی تو انہوں نے وقف کیا۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکی خدمت میں اپنے آپ کو پیش کیا جو منظور ہوا۔ پھر1999ء کو بطور امیر جماعت اسلام آباد شہر اور ضلع ان کو خدمت کی ذمہ داری ملی۔ ربوہ میں ان کے جو کام ہیں ان میں ڈائریکٹ ڈائلنگ سہولت مہیا کرنے کے لیے انہوں نے ڈیجیٹل ایکسچینج کے قیام میں کافی کوشش کی اور مرکزی فنانس کمیٹی کے ممبر تھے۔ IAAAE کے ایگزیکٹو ممبر تھے اور مختلف شعبوں میں ان کو اعزازی طور پر بھی اور ویسے بھی خدمت کی توفیق ملی۔ 1996ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒنے ان کو ڈائریکٹر فضل عمر فاؤنڈیشن مقرر فرمایا۔ آخر دم تک یہ اس خدمت پہ کام کرتے رہے۔ 1980ء میں حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے دور میں جب ربوہ میں جلسہ سالانہ کے موقع پر غیر ملکی مہمانوں کے لیے جلسہ سالانہ کی تقاریر کے ترجمہ کی سہولت کے لیے آغاز ہوا تو احمدی انجنیئرز کی ایک ٹیم تیار کی گئی تھی اور اس میں بھی انہوں نے بڑی محنت سے کام کیا اور نمایاں کام کرنے کی انہیں توفیق ملی اور اس ٹیم کے منتظم اعلیٰ بھی منیر فرخ صاحب ہی تھے۔ اپریل 1984ء میں جب حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے انگلستان ہجرت کی تو یہاں یوکے کے جلسہ سالانہ میں بھی باقاعدگی سے ہر سال آتے تھے اور ٹرانسلیشن کا کام ان کے سپرد ہوتا تھا۔ لوگوں تک ٹرانسلیشن پہنچانا اور بڑے احسن رنگ میں انہوں نے یہ کام سرانجام دیا۔ بڑی محنت سے کام کیا کرتے تھے۔ ان کے دورِ امارت میں اسلام آباد میں جماعتی تعمیرات بھی بہت زیادہ ہوئی ہیں۔

ان کے ایک بیٹے کہتے ہیں کہ جماعتی کاموں میں بچوں کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تلقین کرتے تھے۔ گورنمنٹ کی ملازمت کرنے کے باوجود جماعت کی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ ملازمت سے سیدھا جماعت کے دفتر آتے اور جماعتی ذمہ داریاں نبھاتے۔ ہر سال جلسہ سالانہ یوکے کےلیے خصوصاً چھٹی بچا کے رکھتے تھے۔ ملازمت کے دوران احمدی ہونے کی وجہ سے ان کی پوسٹنگ دور دراز علاقے ڈیرہ اسماعیل خان میں ہو گئی اور اس وقت کے وزیر اعظم بھٹو صاحب نے کہہ دیا کہ ان کو دوبارہ اسلام آباد نہیں لگانا۔لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا پھر ان کی دوبارہ پوسٹنگ اسلام آباد ہی ہوئی اور وہاں سے پھر ان کو مختلف ممالک میں حکومت کے نمائندے کے طور پر جانے کی بھی توفیق ملی۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا جنازہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد لطیف صاحب کا ہے جو سابق امیر ضلع راولپنڈی تھے۔ 28؍ فروری کو 77سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ راجِعُوْنَ۔

بریگیڈیئر لطیف صاحب نے اپنے والد صاحب کے ہمراہ تقریباً 1955ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ بریگیڈیئر صاحب کے والد 2000ء میں فوت ہوئے تھے۔ اس کے بعد خاندان میں بریگیڈیئر صاحب اکیلے احمدی تھے۔ یعنی ان کے بچوں کے علاوہ۔ ان کی ایک اہلیہ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

سنہ 2000ء میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا سارا وقت جماعتی خدمات بجا لانے میں صرف کیا۔ سیکرٹری امور عامہ اور نائب امیر ضلع راولپنڈی تھے۔ 2019ء سے تاوفات 2021ء تک بطور امیر ضلع راولپنڈی خدمت بجا لانے کی توفیق ملی۔ تقریباً بیس سال تک ان کو جماعت کی خدمت کی توفیق ملی۔ بڑے ہمدرد، غریبوں کا خیال رکھنے والے، جماعتی خدمت کو فضلِ الٰہی سمجھ کر ادا کرنے والے تھے اور اپنے بچوں کو بھی یہی تلقین کرتے رہے۔ آخری بیماری کی شدت میں بھی جماعتی خدمت کے لیے جب بھی مرکز سے کسی بھی عہدیدار نے بلایا فوراً چلے جاتے تھے اور اپنی بیماری کی پروا نہیں کی۔ انہیں کینسر کی بیماری تھی اور اپنا علاج بھی ساتھ ہی کرواتے تھے۔ پھر بھی خدمت پہ ہر وقت حاضر رہتے تھے اور کبھی انکار نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا جنازہ مکرم کَوْنَوک بَیْک اومُر بَیْکَوف (Konokbek Omurbekov) صاحب کا ہے جوقرغیزستان کے احمدی ہیں۔ 22؍ فروری کو ستاسٹھ سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ راجِعُوْنَ۔ الیاس کُباتوف (Ilyas Kubatov)جو قرغیزستان کے نیشنل پریذیڈنٹ ہیں لکھتے ہیں کہ خاکسار کا مکرم کونوک بیک صاحب سے پندرہ سال سے بھی زیادہ عرصہ کا تعلق ہے۔ مرحوم جماعتِ احمدیہ قرغیزستان کے ابتدائی احمدیوں میں سے ایک تھے۔ مرحوم نے سنہ 2000ء میں احمدیت قبول کی۔ مرحوم بہت مخلص اور وفاشعار احمدی تھے۔ ہمیشہ جماعتی پروگراموں میں حصہ لیتے اور باقاعدگی سے جماعتی چندوں اور دوسری مالی قربانیوں میں حصہ لیتے تھے اور بروقت اپنا وعدہ پورا کرتے تھے۔ بروقت پنجگانہ نماز ادا کرتے اور باقاعدگی سے تہجد ادا کرتے تھے۔ سوویت یونین کے دور میں اپنی جوانی کے وقت میں مرحوم ملک کی بڑی بڑی تنظیموں اور کاروباری اداروں میں سرکردہ عہدوں پر فائز تھے اور اپنی دیانت داری، شرافت اور محنت کے سبب سب ان کی بہت تعریف کرتے تھے ۔ زندگی کے آخری سالوں میں جب کوئی کام وغیرہ نہیں کرتے تھے تو وہ کتابیں فروخت کرتے تھے۔ خاص طور پر اسلامی کتب فروخت کرتے تھے۔ قرغیزستان میں جماعت کی مذہبی سرگرمیوں پر پابندی سے قبل وہ جماعت کی کتب اور جماعتی ترجمہ قرآن لوگوں کو باقاعدہ تقسیم کرتے تھے۔ اپنی تبلیغ کے ذریعہ انہوں نے بہت سے لوگوں کو احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ مرحوم نے اپنے پیچھے اپنی بیوی اور سات سال کا بیٹا یادگار چھوڑے ہیں۔ ان کی یہ دوسری اہلیہ ہیں۔ پہلی اہلیہ سے ان کی طلاق ہو گئی تھی۔ ان کے بھی بچے ہیں۔ ان کی اولاد جوان ہے جو شاید احمدی نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ رشین زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہوا تو انہوں نے بعض اغلاط کی نشاندہی کی تو میں نے کہا کہ پھر قرآن کریم کو پورا پڑھیں اور مکمل نشاندہی کریں تو انہوں نے دس پندرہ یوم میں ہی مکمل قرآن کریم کو پڑھ کر ترجمہ پڑھا اور اغلاط کی نشاندہی کر دی۔ مبلغ صاحب ہی لکھتے ہیں کہ نماز کے لیے نہایت اہتمام سے وضو کرتے تھے اور ان کو نماز ادا کرتے ہوئے دیکھ کر رشک آتا تھا۔ مکرم ازگینبائیف آرتور (Uzgenbaev Artur) صاحب کہتے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ کونوک بیک صاحب نے ہی مجھے احمدیت کا پیغام پہنچایا تھا۔ کہتے ہیں جب بھی میں سوالات کرتا مجھے حیرت انگیز انداز میں جواب دیتے اور آپ کے جوابات منطق اور عقل و حکمت سے پُر ہوتے تھے۔ مکرم کونوک بیک صاحب بہت اعلیٰ اخلاق کے مالک، صابر اور بُردبار انسان تھے۔ آپ کے اخلاق اور ان خصوصیات کی وجہ سے ہی میں جماعت میں داخل ہوا۔ جب میں نے روزہ رکھنے کی، نفلی روزہ رکھنے کی اور دعاؤں کی تحریک کی ہے تو یہ پیر کو بھی اور جمعرات کو بھی باقاعدہ روزہ رکھا کرتے تھے۔ ان کو کہا گیا کہ ہفتہ میں ایک دن رکھا کریں تو انہوں نے کہا کہ میں پیر کو بھی روزہ رکھتا ہوں اور جمعرات کو بھی رکھتا ہوں تاکہ خلافت کی ہر آواز پر لبیک کہنے والا بن جاؤں۔ خلافت کے فدائی تھے۔ خطبہ جمعہ باقاعدہ رشین زبان میں سنا کرتے تھے ۔ بڑے عاجز اور خاکسار انسان تھے۔ بڑے خوش مزاج تھے۔ بڑے شوق سے جیسا کہ پہلے بھی کہا دعوت الی اللہ کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ سب مرحومین کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں میں بھی ان کی نیکیاں جاری فرمائے۔

٭…٭…٭

(الفضل انٹرنیشنل 9؍اپریل2021ء صفحہ 5تا10)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button