یادِ رفتگاں

محترم چودھری حمید اللہ صاحب، وکیل اعلیٰ تحریک جدید

(’ابن خالد‘)

خاکسار کو محترم چودھری حمید اللہ صاحب کے زیر سایہ سال2002ءسے 2021ء تک خدمت کی توفیق ملی۔ کئی بار اپنی سستیوں اور نالائقیوں کی وجہ سے آپ سے ڈانٹ بھی کھائی لیکن آپ کی شفقتوں اور ہمدردیوں کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہا۔ آپ کی شفقت کے باعث ہی خاکسار کو تحریک جدید میں خدمت کرنے کا موقع ملا۔ مارچ 2002ء میں محترم چودھری صاحب ہمارے محلہ دارالعلوم جنوبی میں تشریف لائے۔ اس وقت میرے والدمحترم چودھری خالد ممتاز صاحب محلہ کے صدر تھے۔ محترم چودھری صاحب ربوہ کے محلہ جات میں جاکر یہ جائزہ لیتے کہ ربوہ میں جلسہ سالانہ ہونے کی صورت میں کس محلہ میں مہمانوں کو ٹھہرانے کی کتنی گنجائش ہوگی۔ نماز کے بعد محترم چودھری صاحب نے میرے والد صاحب کو خدام الاحمدیہ کا دفتر دکھانے کا فرمایا۔ چنانچہ میں نے دفتر کھول کردکھایا۔ چودھری صاحب نےمیرا تعارف لیا۔ دفتر میں وقف جدید کی طرف سے شائع کردہ دو مختصر لیکن نہایت مفید کتب کافی تعداد میں پڑی تھیں۔ چودھری صاحب نے ان کتب کے دو دو نسخہ جات وکالت علیا بھجوانے اور خاکسار کو صبح دفتر آکرملاقات کرنے کا فرمایا۔ میں اس ڈر سے کہ محترم چودھری صاحب میرے ذمہ کوئی ایسا کام نہ لگا دیں جو نہ کرسکوں، ان کے دفتر نہ گیا۔ چند دن کے بعد محترم چودھری صاحب کے ایک معتمدِ خاص ایک شادی کی تقریب میں ملے اور مجھ سے پوچھا کہ کیا چودھری صاحب نے آپ کو دفتر آنے کاکہا تھا؟میں نے کہا جی۔ انہوں نے مجھے سمجھایا اور کہا کہ پھر آنا چاہیے تھااور مجھے اگلی صبح دفتر آنے کا کہا۔ خاکسار وکالت علیا میں حاضر ہوگیا اور محترم چودھری صاحب کے ارشادپر دفاتر میں خدمت کرنے کے حوالے سے درخواست لکھ کر وکالت علیا میں جمع کروادی۔ چند دن بعد مجھے وکالت دیوان سے خط ملا کہ دفتر حاضر ہوں۔ اس طرح محترم چودھری صاحب کی خاص شفقت سے میرا دفاتر تحریک جدید میں خدمت کا آغاز ہوا۔ سال 2002ء سے محترم چودھری صاحب کی وفات تک آپ کی شفقتوں اور مہربانیوں کا سلسلہ جاری رہا۔

خلافت کا احترام

محترم چودھری صاحب زبان سے زیادہ عمل کے ذریعہ خلیفۃ المسیح کا مقام اور خلافت کا احترام سکھاتے۔ ایک مرتبہ تحریک جدید کی ایک وکالت نے راولپنڈی یا اسلام آبادمیں ایک پروگرام منعقد کیا۔ جس میں کچھ کام جماعتی روایات کے عین مطابق نہ تھے۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ جب میں نےیہ فیکس محترم چودھری صاحب کو پیش کی تو میرا خیال تھا کہ آپ اس سارے معاملہ کی وضاحت لکھیں گےجس سے معلوم ہو کہ آپ کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ آپ نے مجھ سے writing padمنگوایا اور اسی وقت حضور پُر نور سے معافی کی درخواست کی۔ اپنے اس فعل سے انہوں نے مجھے بتایا کہ خلیفۃ المسیح کا کیا مقام اور احترام ہے۔

31؍دسمبر2005ء کومسجد اقصیٰ قادیان میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ گروپ فوٹو تھے۔ غالباً انتظامیہ کی طرف سے وقت کا پیغام ٹھیک طرح سے نہیں پہنچایا گیا اورحضور پُرنور وقت سے کچھ پہلے تشریف لے آئے۔ مجلس خدام الاحمدیہ مقامی ربوہ کی عاملہ و زعماء حلقہ جات کی تصویر کے بعد ہمیں ہدایت کی گئی کہ ہم نیچے چلے جائیں۔ میں بھی دیگر دوستوں کے ہم راہ مسجد اقصیٰ کی سیڑھیوں سے اترا تو دیکھا کہ محترم چودھری حمید اللہ صاحب باقاعدہ دوڑتے ہوئے مسجد کی طرف جارہے ہیں۔ آپ کو رستے میں کسی نے بتادیا تھا کہ حضور تشریف لے آئے ہیں۔ بعد میں مجھے مکرم رفیق مبارک میر صاحب نے بتایا کہ جو پہلا گروپ فوٹو محترم چودھری صاحب کے بغیر ہوا تھا۔ حضور پُرنور کی ہدایت پر وہ دوبارہ ہوا۔

اپنی تقاریر میں اکثر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا ارشاد کہ خلیفہ استاد ہے اور جماعت کا ہر فرد شاگرد ضرور بیان فرماتے۔ سال2008ءمیں جامعہ احمدیہ ربوہ (جونیئر سیکشن جو اب سینئر سیکشن میں مدغم ہو چکا ہے) نےایک مجلہ شائع کیا جس میں آپ نے اپنے پیغام میں تحریر کیا کہ ’’ہماری خلافت احمدیہ کے متعلق اولین ذمہ داری خلیفہ وقت کے سب احکام اور ہدایات کی لفظاً اور معناً اطاعت کرنا ہے۔ اس بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کا مندرجہ ذیل ارشاد ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ خلیفہ استاد ہے اور جماعت کا ہر فرد شاگرد۔ جو لفظ بھی خلیفہ کے منہ سے نکلےوہ عمل کئے بغیر نہیں چھوڑنا۔‘‘

(روزنامہ الفضل2؍مارچ1946ء صفحہ3)

بیرون ملک جانے والے مربیان سلسلہ کو جو کتب لازمی مطالعہ کے لیے کہتے اس میں خلافت کے حوالے سے کتب منصب خلافت، خلافت حقہ اسلامیہ، اسلام میں اختلافات کا آغاز، آسمانی نظام کی مخالفت اور اس کا انجام، آئینہ صداقت اور کتاب اختلافات سلسلہ کی تاریخ اور صحیح حالات شامل ہوتیں۔

مطالعہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام

محترم چودھری صاحب کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا وسیع مطالعہ تھا۔ آپ اپنے ساتھیوں کو بھی مطالعہ کتب کی طرف توجہ دلاتے رہتے۔ اکثر تقاریب میں آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کی طرف توجہ دلاتے۔ 2019ءکی انصاراللہ پاکستان کی علمی ریلی کے افتتاح پر شرکاء کو مطالعہ کتب کی طرف توجہ دلائی۔ اسی سال انصار اللہ کی مشاورت پر بھی شاملین کو مطالعہ کتب کے حوالے سے تفصیل سے رہ نمائی فرمائی۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے بھی اور چند مربیان سلسلہ کو بھی خطبہ الہامیہ پڑھنےکا فرمایا۔

محترم چودھری صاحب نے 2011ء کے وقف نو کے سالانہ تربیتی پروگرام کی اختتامی تقریب میں بچوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ کتب جو ضخامت میں چھوٹی ہیں اگر ہم ہمت کریں تو چند دن میں ان کتب کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ آپ کی نصیحت کے بعد میں نے مطالعہ کتب کے حوالے سےایک مضمون الفضل کے لیے تحریر کیا۔ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایسی کتب جن کے صفحات کم ہیں کی فہرست تیار کی۔ خاکسار نے محترم چودھری صاحب کو بھی اپنے مضمون کی ایک کاپی دی۔ چنانچہ آپ نے اس فہرست کو از سر نو تیار کیااورآپ یہ فہرست وقف نو کے تربیتی پروگرام میں بچوں کو اسی طرح ریفریشر کورس کے لیے تشریف لانے والے مربیان سلسلہ کو مہیا فرماتے۔

مہمان نوازی

مہمان نوازی آپ کا نمایاں وصف تھا۔ ایک بارگیسٹ ہاؤس میں کچھ مہمان ٹھہرے تھے۔ دوپہر کو میری آپ سے ملاقات ہوئی تو پوچھا کہ مہمانوں نے کھانا کھالیا ہے۔ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ پتہ کریں کہ مہمانوں کو بروقت کھانا پیش کیا گیا ہے یا نہیں۔ بیرون پاکستان سے ریفریشر کورس کے لیے تشریف لانے والے مربیان اور معلمین کا خود استقبال کرتے۔ ان کی تمام ضروریات کا خاص خیال رکھنے کے لیے نہ صرف ہدایات فرماتے بلکہ وقتاً فوقتاً گیسٹ ہاؤس میں خود جاکر بھی جائزہ لیتے۔ انہی مہمانوں کی واپسی پر دعا کے ساتھ رخصت کرتے کبھی گیسٹ ہاؤس آکر اور کبھی اپنے گھر سے۔ وکالت تعلیم کے ایک مربی سلسلہ نے بیرون ملک جانے سے قبل کچھ دیر ربوہ میں قیام کرنا تھا۔ آپ نےاز راہ شفقت انہیں گیسٹ ہاؤس میں قیام کی اجازت مرحمت فرمائی اور پھر گیسٹ ہاؤس کے نگران کو بلا کر فرمایا کہ مربی صاحب کھانے وغیرہ کا انتظام کہاں کرتے رہیں گے ان کے کھانے کا بھی انتظام کردیں۔

مختلف مواقع پر کی جانے والی نصائح

مارچ 2002ء میں خاکسار کا تقرر وکالت مال اوّل میں ہوا اور چند ماہ محترم چودھری شبیر احمد صاحب کے زیر سایہ وکالت مال میں رہا اور پھر ستمبر 2002ء میں مجھے محترم چودھری صاحب نے وکالت علیا میں بلوا لیا۔ محترم وکیل اعلیٰ صاحب نے مجھے پہلے دن یہ نصائح فرمائیں :

1۔ دفتر کی نوعیت کے اعتبار سےیہاں مکمل راز داری سے کام کیا جائے، آنکھیں اور کان کھلے رکھیں لیکن زبان بند۔

2۔ فائلوں کے نظام کی مکمل احتیاط رکھی جائے اور ہرفائل کو ٹھیک طرح سے اپنی جگہ پر رکھا جائے۔

3۔ کام مکمل ہونے کے بعد کاغذ متعلقہ فائل میں جائے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 2015ء میں خاکسار کو قاضی مقرر فرمایا تو میں چودھری صاحب کے پاس دعا کے لیے گیا۔ آپ نے دیگر نصائح کے ساتھ ایک نصیحت فرمائی کہ کسی بھی کیس کے دوران واقعاتی ترتیب کو خاص مدنظر رکھا کریں۔ ایک دن مجھے دفتر جاتے رستہ میں ملے اور قضاء کے بارے میں بات کرتے ہوئےمسکرا کر فرمانے لگے کہ فیصلے زیادہ لمبے تو نہیں لکھتے؟

2013ء میں حضور پُرنورنے از راہ شفقت میرا وقف منظورفرمایا اور نائب وکیل التعلیم مقرر فرمایا۔ پہلے دن محترم چودھری صاحب نے دیگر نصائح میں ایک نصیحت یہ فرمائی کہ اپنے لباس کا خاص خیال رکھنا ہے۔ میں نے اس وقت اپنی قمیص کی آستینیں فولڈ کی ہوئی تھیں فرمایا یہ مناسب نہ ہے۔ اسی طرح مجھے انگریزی بہتر کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی۔

آپ نے ایک بار بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ جب جلسہ سالانہ ختم ہوتا ہے تو ڈیوٹیوں میں سستی آجاتی ہے۔ اس لیے اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور اس وقت زیادہ ذمہ داری سے ڈیوٹیوں کو چیک کرتے رہنا چاہیے۔ فرمایا کرتے کہ انسان کو باہمت ہونا چاہئے۔ فرمایا کہ فجی کے دورہ کے دوران میری طبیعت ٹھیک نہ تھی توحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے مجھے کونین د ی اورحضور نے فرمایا کہ کل میں نے احباب جماعت کے سامنے شدید بُخار کی حالت میں تقریر کی ہے۔

خاکسارایم اے تاریخ کے سال دوم کے لیے رہ نمائی کے لیے حاضر ہواتو فرمایا کہ یورپین تاریخ کو پڑھنا چاہیے۔ اس طرف کافی کمی ہے۔ لوگ یورپ او رامریکہ کی تاریخ سے ناواقف ہیں۔

بلاوجہ اور عادتاً نمازیں جمع کرنے کو ناپسند فرماتے۔ فرمایا کرتے کہ جب ربوہ کا افتتاح ہوا تو دیگر شہروں سے کافی تعداد میں لوگ اس تقریب میں شامل ہوئے تھے۔ اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے نماز ظہر اور نماز عصر الگ الگ پڑھائی تھی۔

ایک دن نصیحت فرمائی کہ آدمی کے سپرد جو بھی کام کیا جائے اس کو پوری ذمہ دار ی سے ادا کرنا چاہیے، ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ فرمانے لگے کہ ایوان محمود کی بنیادوں کی کھدائی ہورہی تھی کہ رات کو شدید بارش شروع ہوگئی تو میں چند خدام کو لے کر وہاں پہنچ گیا اور ساری رات بنیادوں سے پانی نکالتے رہے۔ الحمدللہ کوئی نقصان نہیں ہوا۔

مزاح

طبیعت میں مزاح بھی تھا۔ کئی باتیں مزاح کے رنگ میں سمجھادیاکرتے تھے۔ ایک تقریب کے آخر پر جب کھانے وغیرہ سے احباب فارغ ہوگئے تو مجھے بُلا کرمسکرا کر فرمانے لگے کہ لوگوں کو اٹھانے کے کچھ طریق بھی ہوتے ہیں۔ اعلان کردیں کہ احباب گروپ فوٹو کے لیے باہر تشریف لےا ٓئیں۔ فرمایا کرتے تھے کہ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کام وغیرہ نہیں کرتے اور صرف دونوں ہاتھ میز پر مارکر شور مچاتے ہیں، کچھ لوگ ایک ہاتھ سے کام کرتے ہیں اور ایک ہاتھ سے اپنا کام کیے جانے کا شور مچاتے ہیں اور کچھ لوگ خاموشی سے دونوں ہاتھوں سے کام کرتے ہیں اوراپنا کام کرنے کا شور نہیں مچاتے۔ فرماتے تھے کہ انسان کو خاموشی سے کام کرنا چاہیے۔

علم دوست

خاکسار نے محترم چودھری صاحب کی ایک بہت بڑی خوبی یہ دیکھی کہ آپ علم دوست تھے۔ آپ دوسروں کو بھی علمی معیاربڑھانے کی طرف توجہ دلاتے رہتے۔ خود بھی کسی خاص مضمون کے ماہر سےطالب علم بن کر اس مضمون کے بارے میں سوالات پوچھتے۔ دفاتر کے کارکنان کا علمی معیار بڑھانےاور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کا شوق پیدا کرنے کے لیے کارکنان کے سیمینارز منعقد کروانے کی ہدایت فرمائی اور یہ کام وکالت تعلیم کے سپردکیا۔ خود بھی ان سیمینارز میں تشریف لاتے اور پورا پروگرام سنتے۔ وقف نو کے سالانہ تربیتی پروگرام میں مقابلہ دینی معلومات کروانے کی ذمہ داری اکثر میرے سپرد ہوتی۔ آپ مقابلہ دینی معلومات کے وقت ضرور تشریف لاتے اور سامعین میں بیٹھ کر سارا مقابلہ دیکھتے اور بعد میں مفید مشوروں سے نوازتے۔ آپ فرماتے کہ بچوں کا دینی معیار زیادہ اچھا ہونا چاہیے۔

وکالت تعلیم میں آنے کے بعد جب بھی مربیان کو ملاقات کے لیے آپ کے پاس لے کر جاتا تو ہمیشہ مربیان کو علمی معیار بڑھانے کی طرف توجہ دلاتے۔ خاص طور پر کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام، تاریخ اور جغرافیہ وغیرہ پر زور دیتے۔ خدام الاحمدیہ پاکستان کی علمی ریلی 2003ءکی افتتاحی تقریب میں مقابلہ جات میں تاریخ احمدیت کا کچھ حصہ شامل کرنے کا فرمایا۔ فرمایا کرتے تھے کہ تاریخ کا علم جاننے کے لیے جغرافیہ کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔

ایک بار فرمایا کہ جب میں آٹھویں میں پڑھتا تھا تو گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنی بہن کے پاس دیپالپور گیا۔ وہاں ایک ہندو تُلسی داس روزانہ دوپہر کو اپنے کام سے آکر ایک درخت کے نیچے چارپائی بچھا لیتا اور درخت کے تنے پر بڑا سا دنیا کا نقشہ لٹکا لیتا اور اپنے بیٹے کو نقشے سے سمجھاتا کہ فلاں ملک یہاں ہے وغیرہ۔ آپ نے اپنے دفتر میں ایک سے زائد اٹلس منگوا کررکھی ہوئی تھیں۔ اکثر انٹرویوز میں کسی مقام کی بات ہوتی تو زبانی کی بجائے اٹلس کھول کر اس مقام کی نشاندہی کرتے۔ ایک تقریب میں بتایا کہ میں آٹھویں کلاس میں زبانی ساری دنیا کا نقشہ بنالیا کرتا تھا۔

ایک بار سرسید احمد خان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ اُن کے عقائد جو بھی تھے لیکن تعلیم کے حوالے سے ان کی بہت خدمات ہیں۔

مربیان کو کی جانے والی نصائح

بیرون ملک یا پاکستان میں کسی یونیورسٹی میں حصول تعلیم کے لیے جانے والے مربیان سلسلہ کو جو نصائح فرماتے ان میں سے چند ایک اس طرح سے ہیں :

1۔ بیرون ملک زبان سیکھنے کے لیے جانے والے مربیان کو ہمیشہ نصیحت فرماتے کہ پاکستانیوں سے دوستی کی بجائے وہاں کے مقامی لوگوں سے دوستیاں رکھیں تاکہ زبان اچھی طرح سیکھی جاسکے۔

2۔ جس ملک میں جائیں اس ملک کو بھی دیکھیں اور وہاں کے اہم اور تاریخی مقامات سے بھی واقفیت حاصل کریں۔ اس ملک کی تاریخ اور جغرافیہ سے مکمل واقفیت ہو۔ وہاں کے رسم و رواج سے بھی مکمل آگاہی ہو۔ ایک رواج ایک ملک میں اچھا سمجھا جاتا ہے تو ممکن ہے کہ دوسرے ملک میں اسے پسند نہ کیا جاتا ہو۔

3۔ دینی علم کے ساتھ ساتھ آپ کو اپنے اردگرد کے ماحول کا بھی علم ہونا ضروری ہے۔ ساری دنیا کے حالات سے بھی واقفیت ہو۔

4۔ زبان کو اچھا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی اچھے مصنف کا طرز تحریر اختیار کیا جائے۔

5۔ ڈکشنری کے استعمال کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ متعلقہ زبان کے لٹریچر سے چیک کریں کہ فلاں لفظ کا استعمال کیسے ہوا ہے۔

6۔ جیسا لٹریچر پڑھیں گے ویسی زبان ہوجائے گی۔ اس لیے اچھے اور معروف ادیبوں کو پڑھیں۔

7۔ جس ملک میں جائیں وہاں کی سیاست میں نہ پڑیں۔

8۔ حصول علم ایک سنجیدہ کام ہے۔ اس کے لیے وقت دینے کی ضرورت ہے۔ توجہ کی ضرورت ہے۔ گپ شپ سے علم حاصل نہیں ہوتا۔

9۔ زبان سیکھنے کے لیے بہت وقت دیں۔ ڈکشنری کا استعمال کریں۔ کلاس روم سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ ساتھ ساتھ نوٹس لیں۔

کارکنان کے ساتھ ہمدردی اور شفقت

آپ ساتھ کام کرنے والوں کا خیال رکھتے۔ ان کے حالات سے باخبر رہتے۔ کارکنان کے ساتھ خاص ہمدردی فرماتے۔ وکالت تعلیم کے مددگار کارکن کو دارالصدر میں کوارٹر الاٹ ہوا۔ جب محترم چودھری صاحب کو علم ہوا کہ ان کےوالدین بیوت الحمد میں رہتے ہیں تو خاص شفقت فرماتے ہوئے ہمارے مددگار کارکن کو دارالفتوح میں کوارٹر الاٹ کردیا اور تحریر فرمایا کہ ان کو والدین سے ملاقات اور خدمت وغیرہ میں آسانی رہےگی۔ کارکنان کی غمی و خوشی میں شامل ہوتے۔ خاکسار کے ولیمہ میں شامل ہوئے حالانکہ اس دن بارش کے باعث رستے خراب تھے۔ خاکسار کی والدہ محترمہ اور والد محترم کی وفات پر تعزیت کے لیے گھر تشریف لائے۔

2008ء میں خاکسار کا تبادلہ وکالت علیا سے وکالت تعلیم میں ہوگیا۔ آپ کی براہ راست تربیت سے نکل کردوسرے دفتر میں جانے پر دل اُداس بھی تھا اور پریشان بھی۔ تبادلے کے ایک دو روز بعد خود وکالت تعلیم میں تشریف لائے اور میری دلداری کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ آپ کو demoteنہیں بلکہ promoteکیا ہے۔ آپ کے اس ایک فقرہ سےمیری پریشانی دور ہوگئی اور دل مطمئن ہوگیا۔

ایک بار مجھے ایک مسئلہ درپیش تھا۔ آپ کو معلوم ہوا تو مجھے اپنے دفتر بُلا کر تسلی دی اور فرمایا کہ اس مسئلہ کو دور کرنے کے لیے جتنی بھی رقم کی ضرورت ہے میں ذاتی طور پر آپ کو دے دیتا ہوں۔ وقتاً فوقتاً خاکسار کی اہلیہ کا بھی حال دریافت فرماتے۔ ایک بارمیں نے بتایا کہ اہلیہ کو بلڈپریشر ہے تو فرمانے لگے کہ السی استعمال کروائیں۔ السی بلڈپریشر کے لیے مفید ہوتی ہے اور غالباً اپنی بیٹی کا بتایا کہ اس نے بھی استعمال کی ہے اور فائدہ ہوا ہے۔ ایک بار مکرم وکیل التعلیم صاحب بیمار تھے۔ محترم چودھری صاحب کو تاخیر سے بتایا جس پرآپ ناراض ہوئے اور فرمایا کہ فوری اطلاع دینی چاہیے تھی۔ میری آپ سے جب آخری ملاقات ہوئی تو آپ گھر تشریف لے جارہے تھے۔ سلام دعا کے بعد خاص طور پر وکیل التعلیم صاحب کا حال دریافت کیا۔

چودھری مبارک مصلح الدین احمد صاحب کی وفات کےچند دن بعد مجھے فرمایا کہ اگر اُن کے گھر سے بازار وغیرہ کے لیے کسی کام کا پیغام آئے تو اپنے مددگار کوبھیج دیا کرنا اور کبھی مددگار کو منع نہ کرنا۔ سال2002ءمیں خاکسار کا پہلا تقرر وکالت مال اوّل میں ہوا۔ انہی دنوں مکرم عطاء الرحمٰن مبشر صاحب بھی کراچی سے وکالت مال اوّل میں آئے۔ وکالت مال اوّل کی پڑچھتی(attic)پر دفتر اوّل کے مجاہدین کاریکارڈ بےترتیب تھا۔ ہم دونوں نے مل کر ساری جگہ کی صفائی کی اورتمام سالوں کے رجسٹر ترتیب سے ریکس میں رکھے۔ محترم چودھری صاحب خود مال اول میں تشریف لائے اور لکڑی کے پھٹوں والی سیڑھی سے اوپر تشریف لائےا ور کام دیکھ کر خوش ہوئے۔ بعد میں محترم چودھری شبیر احمد صاحب کے کمرے میں وکیل اعلیٰ صاحب کو چائے پیش کی گئی۔ جب چائے شروع ہوئی تو مجھے اور عطاءصاحب کو نہ پاکر فرمانے لگے کہ انہیں بھی تو بلائیں جنہوں نے یہ سارا کام کیاہے۔ چنانچہ ہمیں بھی چائے میں شامل کیا۔ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کا بہت خیال رکھتے۔ جب بھی کسی تقریب میں جاتے تو انتظامیہ سے لازمی پوچھتے کہ میرے ساتھ آئے ڈرائیو رکو بھی کھانا دیا ہے یا نہیں۔

ہر کام میں رہ نمائی فرمانا

2009ء میں دارالفتوح میں تحریک جدید کے کوارٹرز آباد ہوئے تو خاکسار کو وہاں نگران مقرر کیا۔ آپ نے شروع میں جب چند کوارٹرز ہی آباد ہوئے مجھے بُلا کر فرمایا کہ وہاں نماز باجماعت کا انتظام کریں۔ ایک بارجب رپورٹ دی کہ چار نمازیں باجماعت ہوتی ہیں تو فرمایا ظہر بھی باجماعت ہونی چاہیے۔ خاص طور پر نمازباجماعت اور خطبہ جمعہ حضور انور کی رپورٹ پوچھتے۔ کوارٹرز کے آباد ہونے کے ابتدا میں ایک بارکوارٹرز میں تشریف لائے اورمجھے فرمانے لگے کہ جب میرے پاس جلسہ سالانہ میں مکانات کی نظامت تھی تو میں دارالرحمت شرقی کے صدر محلہ مکرم خادم حسین صاحب کے ساتھ محلہ کا دورہ کررہا تھا۔ ایک گھر پر دستک دی تو اندر سے گھر کا کتا بھونکا۔ جس پر صدر محلہ نے کتے کا نام لے کر اسے خاموش کروانے کی کوشش کی۔ چودھری صاحب فرماتےتھے کہ میں نے صدر صاحب سے پوچھا کہ آپ کو کتے کانام بھی معلوم ہے۔ تو وہ بولے کہ صدارت تو ایسے ہی ہوتی ہے کہ ہر گھر کا تعارف ہو۔ چودھری صاحب نے مجھے فرمایا کہ آپ بھی یہاں ہمارے صدر ہیں۔ اس لیے آپ کو اپنے تمام مکینوں کا تعارف ہونا چاہیے۔ آپ وقتاً فوقتاً کوارٹرز میں تشریف لاتے اوراگر کسی طرف کمی دیکھتے تو توجہ دلاتے۔ خاص طور پر صفائی کے حوالے سے آپ کوہمیشہ خیال ہوتا۔ اسی طرح اگر وہاں بچوں سے ملاقات ہوتی تو ان سے بھی چھوٹے چھوٹے علمی سوالات پوچھتے اور ان کے علمی معیار کا جائزہ لیتے اور ان کے ساتھ مذاق بھی کرلیا کرتے۔

بدظنی کے مواقع سے بچنا

غالبا ًحدیث اتَّقُوْا مَواضِعَ التُّھْمِپر عمل کرتے ہوئے جب بھی بیرون ملک جا چکے ہوئے مربیان سلسلہ کی فیملی کے ساتھ ملاقات کرتے اور نصائح فرماتے تو ہم دفتر والوں کو ہدایت تھی کہ لازمی طور پر کوئی ایک شخص اس وقت میرے کمرے میں آکر پیچھے بیٹھ جائے۔ زیادہ یاد نہیں لیکن ایسے مواقع پرایک دو نصائح جو مربیان کی فیملی کو کیں مثلاً یہ کہ جب بھی کوئی مہمان آئے تو اس سے خوش اخلاقی سے پیش آئیں اورمہمان نوازی کریں خواہ ایک پانی کا گلاس ہی پیش کردیں۔ اسی طرح لوکل کھانوں کی عادت بھی ڈالیں وغیرہ۔

سادگی اور عجز وانکسار

آپ نہایت سادگی پسند تھے۔ مجھےدو تین مرتبہ آپ کے گھر جانے کا موقع ملا تو گھر کو نہایت عمدہ طریق سے رکھا ہوا پایالیکن فرنیچر وغیرہ کافی پرانا معلوم ہوتا تھا۔ دفتر میں بھی آپ کا لباس سادہ ہوتا لیکن خاص طور پر جب شام کو دفتر تشریف لاتے تو نہایت سادہ لباس زیب تن ہوتا۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ سال2002ءسے چودھری صاحب کے پاس جو نظر کی ایک عینک تھی وہی آخر تک آپ کے استعمال میں رہی۔ ہمارے کوارٹرز میں تشریف لاتے تو نہایت سادگی سے بچوں کے پاس کھڑے ہوکر ان کا حال پوچھتے اور ان سے چھوٹے چھوٹے سوال پوچھتے۔ ایک باراسی طرح بچوں کے ساتھ کھڑے تھے تو خاکسار کی درخواست پر بچوں کے ساتھ تصویر بھی بنوائی۔ نظم وضبط کے حوالے سے نہایت سنجیدہ نظر آنے والے محترم چودھری صاحب دل کے سادہ تھے۔ آخری چند سالوں میں جب بھی تقریر کرتے تو اکثر جذبات سے مغلوب ہوجاتے اور آواز گلو گیر ہوجاتی۔ آپ کو کبھی یہ گوارا نہ تھا کہ جماعت کا ایک پیسہ بھی آپ کی ذات پر لگے۔ چنانچہ اگر پچاس پیسے کی فوٹو کاپی بھی کروائی تو اس کے پیسے بھی جمع کروائے۔ گیسٹ ہاؤس کے ملازم کو ہدایت تھی کہ جب میں اپنےذاتی مہمان کے لیے کولڈ ڈرنک منگواؤں تو نوٹ کرلیا کریں اور اس کے پیسے میرے سے لیا کریں۔ دفتر میں روزانہ چائے کے وقت چائے اور بسکٹ گھر سے آتے۔

مجھے یاد ہے کہ ایک سال آپ قادیان تشریف نہیں لے گئے۔ خاکسار نے واپس آکر ایک ناریل تحفۃً آپ کے گھر بھجوایا۔ اگلے ہی دن انٹرکام پرآپ نے میرا شکریہ ادا کیا اورمیں شرمندہ تھا کہ میرے اتنے معمولی سے تحفہ کا شکریہ ادا کررہے ہیں۔ دوران تقریر اگر کوئی بات بھول جاتے تو اندازہ سے بیان نہ فرماتے بلکہ نہایت عاجزی سے ساتھ بیٹھے ہوئے دوست یا حاضرین سے دریافت فرمالیتے تھےاور اس بات میں عار محسوس نہ کرتے۔ معین بات فرماتے تھے اندازے سے بات نہ کرتے اور خود بھی یہ بات ناپسند فرماتے کہ دوسر ا شخص نامکمل یا مبہم بات کرے یا معین جواب کی بجائے ’تقریباً ‘کے ساتھ جواب دے۔ ایک بار فرمانے لگے کہ اب تو بہت سہولتیں آگئی ہیں۔ ہم نے اس دَور میں بھی کام کیا ہے جب صفحات کو نتھی کرنے کے لیے دیسی کیکر کا کانٹا استعمال کرتے تھے۔

فرائض پہلے ہیں

آپ یہ بات تو پسند فرماتے تھے کہ ان کے ماتحت کام کرنے والا ذیلی تنظیم میں بھی خدمت کررہا ہے۔ لیکن آپ یہ بات بالکل پسند نہ فرماتے تھے کہ ذیلی تنظیموں کے کاموں کو دفتر کے کاموں پر ترجیح دی جائے۔ مجھے یاد ہے کہ اکتوبر 2004ء کو، جب کہ میرا تقرر وکالت علیا میں ہوچکا تھا، وکالت مال اوّل نے درخواست کی کہ خاکسار کو فیصل آباد کی چند جماعتوں میں دورہ پر بھجوایا جائے جہاں چندہ میں کمی ہے۔ چنانچہ محترم وکیل اعلیٰ صاحب نے اجازت فرمادی۔ خاکسارکو خدام الاحمدیہ مقامی میں بھی بطور ناظم تعلیم خدمت کی توفیق مل رہی تھی۔ خدام الاحمدیہ کے سال کاآخر تھا۔ سالانہ تقریب، سالانہ گروپ فوٹو اور فیملی ڈنر وغیرہ تھا۔ میں نے محترم وکیل اعلیٰ صاحب سے درخواست کی کہ مجھے دورہ پر نہ بھیجا جائے۔ آپ اس بات پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ رخصت نہیں مل سکتی۔ چنانچہ مجھے دورہ پر بھجوایا۔ اسی طرح ایک مربی سلسلہ نے ہائیکنگ پر جانے کے لیے درخواست کی۔ جب کہ دفتر میں ایک ضروری کام چل رہا تھا۔ آپ نے فرمایا محکمہ کا بھی کچھ حق ہوتا ہے اور اجازت نہ دی۔ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ تفریح وغیرہ کو پسند نہیں کرتے تھے۔ بلکہ تقریباً ہر سال آپ اپنے دفتر کے کارکنان کو چند دن کے لیے شمالی علاقہ جات کی سیر کےلیے جانے کی اجازت فرماتے۔

فارسی پروگرامز پر رہ نمائی

فارسی ڈیسک کے قیام سے پہلے آپ روزانہ بلا کر فارسی پروگرامز کی ریکارڈنگ کے حوالے سے رہ نمائی فرماتے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کے حوالے سے رہ نمائی فرماتے۔ فرماتے کہ جب بھی کسی پروگرام میں کوئی مضمون بیان کیا جائے تو اس میں واقعات بھی شامل ہوں تاکہ دیکھنے والے کی دلچسپی قائم رہے۔ فارسی پروگرامز میں شامل ہونے والے ایک مربی سلسلہ کو توجہ دلائی کہ ایم ٹی اے ایک عالمی چینل ہے اس پر پاکستان کے مخصوص علاقہ کی ٹوپی پہن کر ریکارڈنگ نہ کروائیں۔ ایک دن فرمانے لگے کہ جب ایم ٹی اے شروع ہوا توحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی ہدایت پر خاکسار، صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم ٹی اے کے پروگرامز دیکھ کران کے معیار کے بارے میں روزانہ رپورٹ ارسال کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ محترم چودھری صاحب کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور ہمیں ان کی نیک سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button