متفرق مضامین

گھریلو زندگی میں مسیح دوراںؑ کے اخلاقِ عالیہ (قسط دوم۔ آخری)

(سیدہ منورہ سلطانہ۔ جرمنی)

بچوں کی تربیت

تربیت کے طریق اور بچوں کے لیے دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’ہدایت اور تربیتِ حقیقی خدا تعالیٰ کا فعل ہے۔ سخت پیچھا کرنا اور ایک امر پر اصرار کو حد سے گزار دینا یعنی بات بات پر بچوں کو روکنا اور ٹوکنایہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں اور ہم اس کو اپنی مرضی کے مطابق ایک راہ پر لے آئیں گے۔ یہ ایک قسم کا شرک خفی ہے۔ اس سے ہماری جماعت کو پرہیز کرنا چاہئے۔ ہم تو اپنے بچوں کے لئے دعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قواعد اور آدابِ تعلیم کی پابندی کراتے ہیں۔ بس اس سے زیادہ نہیں اور پھر اپنا پورا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں۔ جیسا کسی میں سعادت کا تخم ہو گا وقت پر سرسبز ہو جائے گا۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 5، ایڈیشن 1984ء)

بچوں کا مناسب احترام ان میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے ضروری امر ہے جس کی طرف احمدی والدین کو توجہ کرنی چاہیے۔ بسااوقات دیکھا گیا ہے کہ یا تو والدین بچوں کے سوالات کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے یا سختی سے روک دیتے ہیں۔ یہ طریق بچوں کی ذہنی نشوونما اور خوداعتمادی کے لیے ضرررساں ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے عمل سے جماعت کی اس جہت میں بھی رہ نمائی ملتی ہے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ڈاکٹرمیر محمد اسماعیل صاحبؓ نے بیان فرمایا کہ

’’جب حضرت مسیح موعودؑ نے لدھیانہ میں دعویٰ مسیحیت شائع کیا تو ان دنوں میں چھوٹا بچہ تھا اور شاید تیسری جماعت میں پڑھتا تھا مجھے اس دعویٰ سے کچھ اطلاع نہ تھی۔ ایک دن میں مدرسہ گیا تو بعض لڑکوں نے مجھے کہا کہ وہ جو قادیان کے مرزا صاحب تمہارے گھر میں ہیں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ فوت ہو گئے ہیں اور یہ کہ آنے والے مسیح وہ خود ہیں۔ میں نے ان کی تردید کی کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ حضرت عیسیٰ تو زندہ ہیں اورآسمان سے نازل ہوں گے۔ خیر جب میں گھر آیا تو حضرت صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں نے سنا ہے آپ کہتے ہیں کہ آپ مسیح ہیں؟ میرا یہ سوال سن کر حضرت صاحب خاموشی سے اٹھے اورکمرے کے اندر الماری سے ایک نسخہ فتح اسلام لاکر مجھے دے دیا اور فرمایا اسے پڑھو۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کی دلیل ہے کہ آپ نے ایک چھوٹے بچہ کے معمولی سوال پر اس قدر سنجیدگی سے توجہ فرمائی ورنہ یونہی کوئی بات کہہ کر ٹال دیتے۔ ‘‘

(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 20تا21، روایت نمبر 26)

حضر ت سیّدہ نوا ب مبا رکہ بیگم صا حبہ آپؑ کی شفقت کے ساتھ اندازِ تربیت کے بارے میں تحریر فر ما تی ہیں :

’’…میں نے آپؑ کا نر می اور محبت کا ہی بر تا ؤد یکھا، اور اپنے سا تھ بہت ز یا دہ ر ہا، خا ص ر حمت و شفقت خصوصاًدیکھی اور عا م طور پر بھی، ظا ہرہے کہ آپ ابر ر حمت ہی تھے۔ اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ا یسے معا ملا ت میں بھی کسی کو تنبیہ نہ فر ما تے، جہا ں غفلت کر جانا اس کو زیا دہ بگا ڑ دے، یا دوسروں کے لیے برا نمو نہ بنے، اگر کوئی ایسی جا ئز شکا یت، کسی ہمارے گھر میں، یا قریب رہنے وا لوں میں سے کسی کی آپ کو تحقیق سے پہنچتی، جو اس گھر کے خلا فِ شا ن حرکت کے امکان کی بھی ہو، تو فو راً اس پر توجہ فر ما کر اس کی اصلاح، نصیحت اور جہاں تک میں نے د یکھا نرم سزا سے، ضرور فرماتے۔ عو رتوں، لڑ کوں اور لڑ کیوں کے معا ملہ میں آپ کا اصو ل میں نے یہی د یکھا۔ ‘‘

آپؓ بیان فرماتی ہیں :

’’مَیں چھوٹی تھی تو رات کو ڈرکر آپ کے بستر میں جا گھستی تھی۔ جب ذرا بڑی ہو نے لگی تو آپؑ نے فر ما یا کہ جب بچے بڑے ہو نے لگتے ہیں (اس وقت میری عمر کو ئی پا نچ سال کی تھی) تو پھر بستر پر اس طر ح نہیں آگھساکر تے۔ میں تو اکثرجاگتا ر ہتا ہوں، تم چا ہے سو دفعہ مجھے آواز دو میں جواب دوں گا اور پھر تم نہیں ڈرو گی۔ اپنے بسترسے مجھے پکا ر لیا کرو۔ پھر بستر پر کو د کر آپ کو تنگ کر نا چھوڑد یا۔ جب ڈرلگتا پکا ر لیتی۔ آپ فوراًجواب دیتے۔ پھر خو ف و ڈرلگنا ہی ہٹ گیا۔ میرا پلنگ آپ کے پلنگ کے پاس ہی ہمیشہ ر ہا۔ بجز چند دنوں کے جب کھا نسی ہو تی تو حضرت اماں جانؓ بہلا پھسلا کر ذرا دور بھجوا دیتی تھیں کہ تمہا رے ابا کو تکلیف ہو گی۔ میں جلد پھر آجا تی تھی مگر آپ خو د اٹھ کر سو ئی ہو ئی کا سر اٹھا کر، ہمیشہ کھا نسی کی دوا مجھے پلا تے تھے۔ آخری شب جس روز آپ کا وصال ہوا میرا بستر آپ کے قریب ہی تھا کہ بس ایک آدمی ذرا گزر سکے۔ اتنا فا صلہ ضرور ہو تا تھا۔ ‘‘

(سیرت و سوانح حضرت سیدہ نواب مبا رکہ بیگم صا حبہؓ از پروفیسر سیدہ نسیم سعید صفحہ 67)

آپؓ فرماتی ہیں :

’’مجھے اور مبا رک احمد کو قینچی سے کھیلتے د یکھ کر تنبیہ فر مائی کیونکہ قینچی کی نو ک اس وقت میں نے مبا رک ا حمد کی طر ف کر ر کھی تھی۔ فر ما یا ’’کبھی کو ئی تیز چیز قینچی، چھری، چا قو اس کے تیز ر خ سے کسی کی طر ف نہ پکڑا ؤ، اچا نک لگ سکتی ہے۔ کسی کی آنکھ میں لگ جائے، کو ئی نقصان پہنچے تو اپنے دل کو بھی ہمیشہ پچھتا وار ہے گا اور دو سرے کو تکلیف۔ ‘‘یہ عمر بھر کو سبق ملا اور آج تک یا د ہے۔ ‘‘

(ماخوذ ازسیرت و سوانح حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صا حبہؓ از پروفیسر سیدہ نسیم سعید صفحہ 50تا51)

اہل کی تربیت کا خیال

مائی امیر بی بی عرف مائی کاکو ہمشیرہ میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیشتر طور پر عورتوں کو یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ نماز باقاعدہ پڑھیں۔ قرآن شریف کا ترجمہ سیکھیں اور خاوندوں کے حقوق ادا کریں۔ جب کبھی کوئی عورت بیعت کرتی تو آپ عموماً یہ پوچھا کرتے تھے کہ تم قرآن شریف پڑھی ہوئی ہو یا نہیں۔ اگر وہ نہ پڑھی ہوئی ہوتی تو نصیحت فرماتے کہ قرآن شریف پڑھنا سیکھو۔ اور اگر صرف ناظرہ پڑھی ہوتی تو فرماتے کہ ترجمہ بھی سیکھو تاکہ قرآن شریف کے احکام سے اطلاع ہو اور ان پر عمل کرنے کی توفیق ملے۔

(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 759، روایت نمبر 849)

ملازموں سے حسن سلوک

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین باتیں جس میں ہوں اللہ تعالیٰ اسے اپنی حفاظت اور رحمت میں رکھے گا اور اسے اپنی جنت میں داخل کرے گا۔ پہلی یہ کہ وہ کمزوروں سے رِفق اور نرمی کا سلوک کرے۔ دوسری یہ کہ وہ ماں باپ سے شفقت کا سلوک کرے۔ تیسری یہ کہ خادموں اور نوکروں سے اچھا سلوک کرے۔

(ترمذی۔ کتاب صفۃ القیمۃ والرقائق …حدیث نمبر 2494)

حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت کا ایک نمایاں پہلو ملازموں اورخادموں سے شفقت ہے جو معاشرے کابظاہر کمزور طبقہ ہے۔ گھریلو ملازمین کے لیے آپ کے دل میں کس قدر محبت اور درد کے جذبات تھے۔ اس سلسلہ میں بھی آپ علیہ السلام ہمیں حسن سلوک کی بہترین مثالیں پیش کرتے نظر آتے ہیں اور صحابہ کو یہ عمل، یہ نمونے نظر بھی آتے تھے۔

حافظ حامد علی مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک خادم تھے۔ حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے لکھا ہے کہ وہ حضرت اقدس کی خدمت میں عرصہ دراز تک رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد صدر انجمن احمدیہ نے آخرعمر میں انہیں پنشن دے دی تھی۔ اوروہ قادیان میں رہنے کے لیے ایک مختصرسی دکان کرتے تھے۔ … حضرت مسیح موعودؑ کے اخلاق اور برتاؤ کا جو حضور حافظ صاحب سے کرتے تھے ان پر ایسا اثرتھاکہ وہ بارہا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے ’’مَیں نے تو ایسا انسان کبھی دیکھا ہی نہیں۔ ‘‘ بلکہ زندگی بھر حضرت کے بعد کوئی انسان اخلاق کی اس شان کا نظر نہیں آتا۔

حافظ صاحب کہتے ہیں کہ مجھے ساری عمر کبھی حضرت مسیح موعودؑ نے نہ جھڑکا اور نہ سختی سے خطاب کیا۔ بلکہ مَیں بڑا ہی سست تھا اور اکثر آپؑ کے ارشادات کی تعمیل میں دیر بھی کر دیا کرتا تھا۔ اس کے باوجود سفر میں مجھے ساتھ رکھتے تھے۔

(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ازحضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ337تا338)

حضرت اقدسؑ کو اپنے خادموں پر بے حد اعتبار ہوا کرتا تھا۔ ملازم مرد یاعورت جو سودا لاتے ان سے کبھی بازپرس نہ فرماتے اورجو کچھ و ہ خرچ کرتے اورجو کچھ واپس دیتے آنکھ بند کر کے لے لیتے کبھی گرفت یا سختی نہیں کی۔ خدا جانے کیا قلب ہے۔ درحقیقت خدا ہی ان قلوب مطہرہ کی حقیقت کو جانتا ہے جو خاص حکمت و ارادہ سے انہیں پیدا کرتاہے۔

حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ اپنی عینی شہادت اس طرح پیش کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں :

’’اتنے عرصہ دراز میں میں نے کبھی بھی نہیں سنا کہ اندر تکرار ہو رہی ہے اورکسی شخص سے لین دین کے متعلق بازپرس ہورہی ہے۔ سبحان اللہ کیا سکون فزا دل اور پاک فطرت ہے جس میں سوء ظن کا شیطان نشیمن نہیں بنا سکا۔ اور کیا ہی قابل رشک بہشتی دل ہے جسے یہ آرام بخشا گیا ہے۔ ‘‘

(سیرت مسیح موعودؑ مؤلفہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ صفحہ31)

حضرت مو لانا مو لوی عبد الکریم صا حب رضی اللہ عنہ الحکم میں ہفتہ وار ایک خط لکھا کر تے تھے جو نہا یت مقبول ہوتے تھے۔ ان خطو ط میں بعض میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے بعض پہلو بھی تحریرکیے جو سیرت مسیح مو عود علیہ السلام کے نام سے الگ بھی شا ئع ہو ئی ہے۔ اس میں وہ تحریر فر ما تے ہیں کہ

’’ایک عو رت نے اندر سے کچھ چا ول چُرا ئے۔ چور کا دل نہیں ہو تا اور اس لیے ا س کے ا عضا ء میں غیر معمو لی قسم کی بے تا بی اور اس کا ادھر ادھر د یکھنا بھی خا ص و ضع کا ہو تا ہے کسی دوسرے تیز نظر نے تا ڑلیا اور پکڑ لیا۔ شور پڑگیا۔ اس کی بغل سے کو ئی پندرہ سیرکی گٹھر ی چا ولوں کی نکلی۔ اِدھر سے ملامت، اُدھر سے پھٹکا رہو رہی تھی جو حضرت کسی تقریب سے اُدھر آنکلے۔ پوچھنے پر کسی نے واقعہ کہہ سنا یا۔ فر ما یا’’محتا ج ہے۔ کچھ تھو ڑے سے اسے دے دو اور فضیحت نہ کرو اور خدا تعا لیٰ کی ستّا ری کا شیوہ ا ختیا ر کرو۔ ‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 101)

خان صاحب اکبر خان صاحب نے بتایا کہ مسجد مبارک کی اوپر کی چھت پر حضرت اقدسؑ کے مکان تک جانے کے لیے پہلے بھی اسی طرح ایک راستہ ہوتا تھا۔ ایک دفعہ لالٹین اٹھا کر حضرت اقدس کو راستہ دکھانے لگے۔ اتفاق سے لالٹین ان کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور لکڑی پر تیل پڑا اور اوپر نیچے سے آگ لگ گئی۔ کہتے ہیں بہت پریشان ہوا۔ بعض اور لوگ بھی بولنے لگے لیکن حضور نے فرمایا خیر ایسے واقعات ہو ہی جاتے ہیں۔ مکان بچ گیا اور ان کو کچھ نہ کہا۔

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 100)

خان اکبر صاحب ہی بیان کرتے ہیں کہ جب ہم وطن چھوڑ کر قادیان آ گئے تو ہم کو حضرت اقدسؑ نے اپنے مکان میں ٹھہرایا۔ حضور علیہ السلام کا قاعدہ یہ تھا کہ رات کو عموماً موم بتی جلا لیا کرتے تھے۔ اور بہت سی موم بتیاں اکٹھی روشن کر دیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ جن دنوں میں مَیں آیا میری لڑکی بہت چھوٹی تھی ایک د فعہ حضرت اقدسؑ کے کمرے میں بتی جلا کر رکھ آئی، اتفاق ایسا ہوا کہ وہ بتی گر پڑی۔ اور حضور علیہ السلام کی کتابوں کے بہت سارے مسودات اور چند اور چیزیں جل گئیں اور نقصان ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد معلوم ہوا کہ یہ تو سارا نقصان ہو گیا ہے۔ سب کو بہت سخت پریشانی اور گھبراہٹ شروع ہو گئی یہ کہتے ہیں کہ میری بیوی اور لڑکی بھی بہت پریشان تھی کہ حضورؑ اپنی کتابوں کے مسودات بڑی احتیاط سے رکھا کرتے تھے وہ سارے جل گئے ہیں لیکن جب حضورؑ کو اس بات کا علم ہوا تو کچھ نہیں فرمایا سوائے اس کے کہ خداتعالیٰ کا بہت شکر ادا کرنا چاہئے کہ کوئی اس سے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ ازحضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ99تا100)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خادموں میں سے ایک پیرا پہاڑیہ تھا۔ مزدور آدمی تھا جو پہاڑی علاقے سے آیا ہوا تھا۔ بالکل جاہل اور اجڈ آدمی تھا۔ لیکن بہت سی غلطیاں کرنے کے باوجود کبھی یہ نہیں ہوا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے کبھی اسے جھڑکا ہو۔ ایک دفعہ یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اچانک بیمار ہو گئے گرمی کا موسم ہونے کے باوجود ایک دم ہاتھ پیر ٹھنڈے ہو گئے اور مسجد کی چھت پر ہی مغرب کی نماز کے بیٹھے ہوئے تھے تو اس وقت جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے ان کو فوراً فکر ہوئی، تدبیریں ہونی شروع ہوئیں کہ کیا کرنا ہے۔ یہی جو پیرا تھا، ان کو بھی خبر پہنچی، وہ گارے مٹی کا کوئی کام کر رہے تھے، یہ کہتے ہیں کہ اسی حالت میں اندر آگئے اور یہ نہیں دیکھا کہ دری بچھی ہوئی ہے تو اسی فرش پہ نشان پڑنے شروع ہو گئے اور آتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاؤں دبانے شروع کر دیے۔ لوگوں نے ذرا ان کو گھورنا اورڈانٹنا شروع کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ’’ اس کو کیا خبر ہے جو کرتا ہے کرنے دو کچھ حرج نہیں۔ ‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 338تا339)

محترمہ رسول بی بی اہلیہ حافظ حامد علی صاحب مرحومؓ وخوشدامن مولوی عبد الرحمٰن صاحب فاضل جٹ نے بواسطہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہمارا تمام خرچ روٹی کپڑے کا حضورؑ ہی دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضورؑ نے ایک کپڑے کی واسکٹ اپنے اور ایک حافظ حامد علی صاحبؓ کے واسطے بنوائی تھی۔ سردی کا موسم تھا۔ میں نے حافظ صاحب کو کہا کہ میں صبح جب تہجد کے لیے اٹھتی ہوں اور سحری پکاتی ہوں تو مجھے سردی لگتی ہے۔ حافظ صاحب نے گرم صدری جو حضورؑ نے ان کو بنا دی تھی مجھے دے دی۔ جب میں اس کو پہن کر گئی اور انگیٹھی میں آگ جلا رہی تھی تو حضورؑ نے پوچھا کہ ’’رسول بی بی !کیا میری واسکٹ چرا لی ہے؟‘‘میں نے عرض کیا کہ حضور سب کچھ آپ کا ہی ہے۔ آپ کا ہی کھاتے ہیں، آپ کا ہی پہنتے ہیں۔ حضورؑ اس پر خوب ہنسے اور فرمایا کہ ’’خوب کھاؤپیو۔ ‘‘

(سیرت المہدی جلد دوم، صفحہ 288، روایت نمبر1517)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ تحریر فرماتے ہیں :

’’حافظ حامد علیؓ کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ اور معاملہ کرتے تھے جیسا کسی عزیز سے کیا جاتا ہےاور یہ بات حافظ حامد علیؓ ہی پر موقوف نہ تھی۔ حضرت کا ہر ایک خادم اپنی نسبت یہی سمجھتا تھا کہ مجھ سے زیادہ اور کوئی عزیز آپ کو نہیں۔ بہرحال حافظ حامد علیؓ کو ایک دفعہ کچھ لفافے اور کارڈ آپ نے دیئے کہ ڈاک خانہ میں ڈال آؤ۔ حافظ حامد علیؓ کا حافظہ کچھ ایسا ہی تھا۔ پس وہ کسی اور کام میں مصروف ہو گئے اور اپنے مفوض کو بھول گئے۔ ایک ہفتہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ (جو اُن دنوں میں میاں محمود اور ہنوز بچہ ہی تھے) کچھ لفافے اور کارڈ لئے دوڑتے ہوئے آئے کہ ابّا ہم نے کوڑے کے ڈھیر سے خط نکالے ہیں۔ آپؑ نے دیکھا تو وہی خطوط تھے جن میں سے بعض رجسٹرڈ خط بھی تھے اور آپؑ اُن کے جواب کے منتظر تھے۔ حامد علیؓ کو بلوایا اور خط دکھا کر بڑی نرمی سے صرف اتنا کہا۔ ’’حامد علی! تمہیں نسیان بہت ہو گیا ہے ذرا فکر سے کام کیا کرو۔ ‘‘

ضروری اور بہت ضروری خطوط جن کے جواب کا انتظار مگر خادم کی غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں اور بجائے ڈاک میں جانے کے وہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں سے جا ملتے ہیں اس پر کوئی باز پُرس کوئی سزا اور کوئی تنبیہ نہیں کی جاتی۔ ‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ ازحضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ104تا105)

حضرت مرزا بشیراحمدصاحبؓ تحریر فرماتے ہیں

’’مجھے ایک صاحب نے سنایا کہ میں اپنی جوانی کے زمانہ میں کبھی کبھی حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ خادم کے طور پر حضورؑ کے سفروں میں ساتھ چلا جایا کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کاقاعدہ تھا کہ سواری کا گھوڑا مجھے دے دیتے تھے کہ تم چڑھو اور آپؑ ساتھ ساتھ پیدل چلتے تھے۔ یا کبھی میں زیاد اصرار کرتا تو کچھ وقت کے لئے خود سوار ہو جاتے تھے اور باقی وقت مجھے سواری کے لئے فرماتے تھے۔ اور جب ہم منزل پر پہنچتے تھے تو چونکہ وہ زمانہ بہت سستا تھا حضورؑ مجھے کھانے کے لئے چار آنے کے پیسے دیتے تھے اور خود ایک آنہ کی دال روٹی منگوا کر یا چنے بھنوا کر گزارہ کرتے تھے۔ ‘‘

(مضامین بشیر جلد چہارم صفحہ43تا44)

قادیان کے آرائیوں میں سے مہر حامد صاحب تھے جو اپنے خاندان میں پہلے تھے جو حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں داخل ہوئے۔ آپ اپنے ڈیرے پہ بیمار ہو گئے۔ جب بیمارہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کو پوچھنے جایا کرتے تھے اور وہاں ایک طرف گوبر اور گند وغیرہ اکٹھا ہوا ہوتا تھا۔ آپ کی طبیعت میں بڑی نفاست تھی۔ لیکن اس کے باوجود کبھی اشارۃً بھی یہ اظہار نہیں کیا کہ بو آ رہی ہے۔ بلکہ باقاعدگی سے عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ اور اس سے بڑی محبت اور دلجوئی کی باتیں کرتے تھے۔ اور بہت دیر تک بیماری سے متعلق دریافت کرتے رہتے تھے۔ پھر دوائیاں بتاتے تھے اور دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے تھے۔ یہ بہت معمولی زمیندار تھے بلکہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی جو زمینداری تھی وہاں اس کے لحاظ سے تو وہ گویا آپ کی رعایا میں داخل تھے۔ مگر کبھی آپؑ نے فخر نہیں کیا۔ جس کے پاس جاتے اس کو اپنا عزیز بھائی سمجھتے۔

خاکسار اپنے مضمون کااختتام سیرت مہدی میں درج ایک روایت پر کرتی ہے

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں :

’’حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اخلاق میں کامل تھے۔ یعنی:۔ ’’…مَیں نے آپ کو اس وقت دیکھا۔ جب میں دو برس کا بچہ تھا۔ پھر آپ میری ان آنکھوں سے اس وقت غائب ہوئے جب میں ستائیس سال کا جوان تھا۔ مگر مَیں خدا کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں کہ میں نے آپ سے بہتر، آپ سے زیادہ خلیق، آپ سے زیادہ نیک، آپ سے زیادہ بزرگ، آپ سے زیادہ اللہ اور رسول کی محبت میں غرق کوئی شخص نہیں دیکھا۔ آپ ایک نور تھے جو انسانوں کے لئے دنیا پر ظاہر ہوا اور ایک رحمت کی بارش تھے جو ایمان کی لمبی خشک سالی کے بعد اس زمین پر برسی اور اسے شاداب کر گئی۔ اگر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ بات سچی کہی تھی کہ

’’کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْآن‘‘

تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت اسی طرح کہہ سکتے ہیں

’’کَانَ خُلُقُہٗ حُبَّ مُحمدٍ وَاِتِّبَاعَہ علیہ الصلوٰۃ و السلام ‘‘

خاکسار عرض کرتا ہے کہ مکرم ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے اپنی اس روایت میں ایک وسیع دریا کو کوزے میں بند کرنا چاہا ہے۔ ان کا نوٹ بہت خوب ہے اور ایک لمبے اور ذاتی تجربہ پر مبنی ہے اور ہر لفظ دل کی گہرائیوں سے نکلا ہواہے۔ مگر ایک دریا کو کوزے میں بند کرنا انسانی طاقت کا کام نہیں۔ ہاں خدا کو یہ طاقت ضرور حاصل ہے اور مَیں اس جگہ اس کوزے کا خاکہ درج کرتا ہوں جس میں خدا نے دریا کو بند کیا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

’’ جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء ‘‘

یعنی خدا کا رسول جو تمام نبیوں کے لباس میں ظاہر ہواہے۔

اس فقرہ سے بڑھ کرحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی کوئی جامع تعریف نہیں ہوسکتی۔ آپ ہر نبی کے ظل اور بروز تھے اور ہر نبی کی اعلیٰ صفات اور اعلیٰ اخلاقی طاقتیں آپ میں جلوہ فگن تھیں۔

(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ824تا827، روایت نمبر975)

اللہ ہم سب کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اسوہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button