متفرق مضامین

پیر مہر علی شاہ گولڑوی کو اعجازی مقابلہ کی دعوت اور اس کا عظیم الشان ثمرہ…اعجاز المسیح

خدا کی تائید دیکھنے کے لئے یہ ایک عظیم الشان نشان ہے کیونکہ ستردن کی میعاد ٹھہرا کر صد ہا مولوی صاحبان بالمقابل بلائے گئے۔ اب ان کا کیا جواب ہے کہ کیوں وہ ایسی تفسیر شائع نہ کرسکے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائی مباحث ڈپٹی عبداللہ آتھم کی وفات 27؍جولائی 1896ء بمقام فیروز پور، کے بعد ‘‘انجام آتھم ’’نامی کتاب تصنیف فرمائی۔ چونکہ پادری آتھم کی وفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے عین مطابق ہوئی تھی لیکن سچائی کے دشمن حسب عادت حق چھپانے کی غرض سے شور مچانے کے عادی تھے، چنانچہ مخالفین سلسلہ نے ایسا ہی کیا۔ اس کتاب میں جہاں آپؑ نے آتھم کے متعلق پیشگوئی پر تفصیلی روشنی ڈالی وہاں آپؑ نے عیسائیوں کے سرکردہ لیڈروں، مسلمان علماء، صوفیاءاور سجادہ نشینوں کو مباہلہ کی دعوت دی۔

دعوت مباہلہ

اشتہار مباہلہ کے زیر عنوان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مباہلہ کی دعوت دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ

‘‘چونکہ علماءپنجاب اور ہندوستان کی طرف سے فتنہ تکفیر و تکذیب حدسے زیادہ گزر گیا ہےاور نہ فقط علماءبلکہ فقرا اور سجادہ نشین بھی اس عاجز کے کافر اور کاذب ٹھہرانے میں مولویوں کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ اور ایسا ہی ان مولویوں کے اغوا سے ہزار ہا ایسے لوگ پائے جاتے ہیں کہ وہ ہمیں نصاریٰ اور یہود اور ہنود سے بھی اکفر سمجھتے ہیں …

اب اے مخالف مولویو! اور سجادہ نشینو!! یہ نزاع ہم میں اور تم میں حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اور اگرچہ یہ جماعت بہ نسبت تمہاری جماعتوں کے تھوڑی سی اور فئہ قلیلہ ہے اور شائد اس وقت تک چار ہزار پانچ ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی تاہم یقیناًسمجھو کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودہ ہے خدا اس کو ہر گز ضائع نہیں کرے گا۔ وہ راضی نہیں ہوگا جب تک کہ اس کو کمال تک نہ پہنچا دے۔ اور وہ اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کے گرد احاطہ بنائے گا اور تعجب انگیز ترقیات دے گا۔ کیا تم نے کچھ کم زور لگایا۔ پس اگر یہ انسان کا کام ہوتا تو کبھی کا یہ درخت کاٹا جاتا اور اس کا نام و نشان باقی نہ رہتا۔

اسی نے مجھے حکم دیا ہے کہ تا میں آپ لوگوں کے سامنے مباہلہ کی درخواست پیش کروں۔ تا جو راستی کا دشمن ہے وہ تباہ ہوجائے اور جو اندھیرے کو پسند کرتا ہے وہ عذاب کے اندھیرے میں پڑے…

سو یقیناً سمجھو کہ تم مجھ سے نہیں بلکہ خدا سے لڑ رہے ہو۔ کیا تم خوشبو اور بدبو میں فرق نہیں کر سکتے۔ کیا تم سچائی کی شوکت کو نہیں دیکھتے۔ بہتر تھا کہ تم خدا تعالیٰ کے سامنے روتے اور ایک ترساں اور ہراساں دل کے ساتھ اس سے میری نسبت ہدایت طلب کرتے اور پھر یقین کی پیروی کرتے نہ شک اور وہم کی۔

سو اب اٹھو اورمباہلہ کے لئے تیار ہوجاؤ۔’’

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ45تا65)

اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مباہلہ کی شرائط وغیرہ لکھیں۔ نیز ان 58؍علماء اور 47؍سجادہ نشینوں کے نام درج کیے جن کو خصوصاً نام بنام دعوت مباہلہ دی گئی۔ ان تمام حضرات کو یہ رسالہ اور اس کے ساتھ 104صفحات پر مشتمل ایک عربی خط مع فارسی ترجمہ جس میں 300 کے لگ بھگ عربی اشعار بھی درج تھے رجسٹری کر کے بھجوادیا اور ساتھ یہ نوٹ بھی دیا کہ

‘‘ان تمام حضرات کی خدمت میں یہ رسالہ پیکٹ کر کے بھیجا جاتا ہے لیکن اگر اتفاقاً کسی صاحب کو نہ پہنچا ہو تو وہ اطلاع دیں تاکہ دوبارہ رجسٹری بھیجا جائے۔’’

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ72)

حضرت میاں غلام فرید صاحب چشتیؒ آف چاچڑاں کی سعادت مندی

جن سجادہ نشینوں کو اس مباہلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نام لے کر مخاطب کیا تھا ان میں پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کا اندراج بارھویں نمبر پر اور حضرت میاں غلام فرید صاحبؒ کا نام گرامی چوتھے نمبر پر ہے۔ میاں غلام فرید صاحبؒ نے پرہیز گاری کے نور سے کام لیتے ہوئے بڑی سعادت مندی دکھائی اور اپنے فارسی مکتوب محررہ 27؍ رجب 1314ھ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ

‘‘اس کے بعد واضح ہو کہ مجھے آپ کی وہ کتاب پہنچی جس میں مباہلہ کے لئے جواب طلب کیا گیا ہے۔ اور اگرچہ میں عدیم الفرصت تھا تاہم میں نےاس کتاب کی ایک جز کو جو حسن خطاب اور طریق عتاب پر مشتمل تھی پڑھی ہے سواے ہرا یک حبیب سے عزیز تر تجھے معلوم ہو کہ میں ابتدا سے تیرےلئے تعظیم کرنے کے مقام پر کھڑا ہوں۔ تا مجھے ثواب حاصل ہو اور کبھی میری زبان پر بجز تعظیم اور تکریم اور رعایت آداب کے تیرے حق میں کوئی کلمہ جاری نہیں ہوا۔ اور اب میں مطلع کرتا ہوں کہ میں بلا شبہ تیرے نیک حال کا معترف ہوں۔ اور میں یقین رکھتا ہوں کہ تو خدا کے صالح بندوں میں سےہے اور تیری سعی عنداللہ قابل شکر ہے جس کا اجر ملے گا اور خدائے بخشندہ بادشاہ کا تیرے پر فضل ہے۔ میرے لئے عاقبت بالخیر کی دعا کر اور میں آپ کے لئے انجام خیر و خوبی کی دعا کرتا ہوں۔’’

(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 324)

پیر مہر علی شاہ گولڑوی کا حسن ظن

پیر مہر علی صاحب پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں حسن ظن رکھتے تھے۔ چنانچہ97۔1896ءکی بات ہے کہ ان کے ایک مرید بابو فیروز علی اسٹیشن ماسٹر گولڑہ نے (جو بعد ازاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہوگئے تھے ) جب پیر صاحب سے حضرت اقدسؓ کی بابت رائے دریافت کی تو انہوں نے بلا تامّل جواب دیا:

‘‘امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمة فرماتے ہیں کہ بعض مقامات منازل سلوک ایسے ہیں کہ وہاں اکثر بندگان خدا پہنچ کر مسیح و مہدی بن جاتے ہیں۔ بعض ان کے ہمرنگ ہوجاتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ شخص منازل سلوک میں اس مقام پر ہے یا حقیقتاً وہی مہدی ہے جس کا وعدہ جناب سرور کائنات علیہ الصلوٰة والسلام نے اس امت سے کیا ہے۔ مذاہب باطلہ کے واسطے یہ شخص شمشیر براں کا کام کررہا ہے اور یقیناً تائید یافتہ ہے۔’’

(الحکم 24؍جون 1904ء)

لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد آپ میدان مخالفت میں آگئے اور جنوری 1900ءمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اردو میں ‘‘شمس الہدایہ فی اثبات حیاة المسیح’’ نامی کتاب شائع کی جو درحقیقت ان کے ایک مرید مولوی محمد غازی کی تالیف کردہ تھی جس کا انہوں نے اپنے ایک خط بنام حضرت مولوی حکیم نور الدینؓ مورخہ 26؍شوال 1317ھ مطابق 28؍مارچ 1900ءمیںتذکرہ بھی کردیا۔ جب اس خط کا چرچا ہوا تو پیر صاحب نے اپنے ایک مرید کے سوال پر ایسا ظاہر کیا کہ گویا انہوں نے خود یہ کتاب لکھی ہے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ پیر صاحب کی اس دو رنگی پر خاموش نہ رہ سکے اور آپ نے 24؍اپریل 1900ء کے اخبار الحکم میں یہ سب مراسلات شائع کردیے جس پر ان کے مریدوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ اور ادھر مولوی محمد احسن صاحب امروہیؒ نے ‘‘شمس الہدایہ ’’کا جواب ‘‘شمس بازغہ ’’کے نام سے شائع کر دیا۔ چونکہ ‘‘شمس الہدایہ’’ کے آخر میں مباحثہ کی دعوت بھی دی گئی تھی اس لیے مولوی صاحب نے بتاریخ 9؍جولائی 1900ءبذریعہ اشتہار پیر صاحب کو اطلاع دے دی کہ ‘‘میں مباحثہ کے لئے تیار ہوں۔’’

(الحکم 9؍تا 23؍جولائی 1900ء)

پیر مہر علی صاحب کی مخالفت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان کو اعجازی مقابلہ کی دعوت

جب پیر صاحب مولوی محمد احسن صاحب امروہیؓ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی وغیرہ پر بحث کے لیے تیار نہ ہوئے اور دوسری طرف اپنی رسمی شخصیت کے غرور سے اس کوشش میں لگے رہے کہ کسی طرح اس آسمانی سلسلہ کو مٹا دیں۔ تو جری اللہ فی حلل الانبیاءنے خاص طور پر پیر مہر علی صاحب کو للکارا کیونکہ ان کے ہزار ہا مرید یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ وہ علم میں اور حقائق اور معارف دین میں اور علوم ادبیہ میں اس ملک کے تمام علماءسے بڑھ کر ہیں۔ آپؑ نے اپنے اشتہار 20؍جولائی 1900ءمیں پیر صاحب کو خوب جھنجوڑا کہ وہ کسی طور بھی مقابلہ پر نکلیں تا حق اور باطل میں فیصلہ ہوپائے۔ چنانچہ آپؑ نے اس اشتہار میں ان کو لکھا کہ

‘‘سو اے مسلمانوں کی نسل ان خیالات سے باز آجاؤ! تمہاری آنکھوں کے سامنے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوئے اور کسوف و خسوف تم نےرمضان میں دیکھ لیا اور صدی میں سے بھی سترہ برس گزر گئے۔ کیا اب تک مفاسد موجودہ کی اصلاح کا مجدد پیدا نہ ہوا۔ خدا سے ڈرو اور ضد اورحسد سے باز آجاؤ۔ اس غیور سے ڈرو جس کا غضب کھا جانے والی آگ ہو۔ اگر مہر علی شاہ صاحب اپنی ضد سے باز نہیں آتے تو میں فیصلہ کےلئے ایک سہل طریق پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جو لوگ در حقیقت خدا تعالیٰ کے راستباز بندے ہیں ان کےساتھ تین طور سے خدا کی تائید ہوتی ہے۔

(۱) ان میں اور ان کے غیر میں ایک فرق یعنی مابہ الامتیاز رکھا جاتا ہے اس لئے مقابلہ کے وقت بعض امور خارق عادت ان سے صادر ہوتے ہیں جو حریف مقابل سے صادر نہیں ہوسکتے جیسا کہ آیت وَیَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا اس کی شاہد ہے۔

(۲)ان کو علم معارف قرآن دیا جاتا ہے اور غیر کو نہیں دیا جاتا جیسا کہ آیت لَا یَمَسُّہٗ اِلَّاالْمُطَھَّرُوْنَ اس کی شاہد ہے۔

(۳)ان کی دعائیں اکثر قبول ہوجاتی ہیں اور غیر کی اس قدر نہیں ہوتیں جیسا کہ آیت اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اس کی گواہ ہے۔ سو مناسب ہے کہ لاہور میں جو صدر مقام پنجاب ہے صادق اور کاذب کے پرکھنے کے لئے ایک جلسہ قرار دیا جائے اور اس طرح پر مجھ سے مباحثہ کریں کہ قرعہ اندازی کے طور پر قرآن شریف کی کوئی سورة نکالیں اور اس میں سے چالیس آیت یا ساری سورة (اگر چالیس آیت سے زیادہ نہ ہو ) لے کرفریقین یعنی یہ عاجز اور مہر علی شاہ صاحب اوّل یہ دعا کریں کہ یا الٰہی ہم دونوں میں سے جو شخص تیرے نزدیک راستی پر ہے اس کو تو اس جلسہ میں اس سورة کے حقائق اور معارف فصیح اور بلیغ عربی میں عین اس جلسہ میں لکھنے کے لئے اپنی طرف سے ایک روحانی قوت عطا فرما اور روح القدس سےاس کی مدد کر اور جو شخص ہم دونوں فریق میں سے تیری مرضی کے خلاف اور تیرے نزدیک صادق نہیں ہے اس سے یہ توفیق چھین لے اور اس کی زبان کو فصیح عربی اور معارف قرآنی کے بیان سے روک لے تا لوگ معلوم کر لیں کہ تو کس کے ساتھ ہے اور کون تیرے فضل اور تیری روح القدس کی تائیدسے محروم ہے۔ …اور لکھنے کے لئے فریقین کو سات گھنٹہ کی مہلت ملے گی۔ مگر ایک ہی جلسہ میں اور ایک ہی دن میں اس تفسیر کو گواہوں کے روبرو ختم کرناہوگا۔ اور جب فریقین لکھ چکیں تو وہ دونوں تفسیریں بعد دستخط تین اہل علم کو جن کا اہتمام حاضری و انتخاب پیر مہر علی شاہ صاحب کے ذمہ ہوگا۔ سنائی جائیں گی۔ اور ان ہر سہ مولوی صاحبوں کا یہ کام ہوگا کہ وہ حلفاً یہ رائے ظاہر کریں کہ ان دونوں تفسیروں اور دونوں عربی عبارتوں میں سے کون سی تفسیراور عبارت تائید روح القدس سے لکھی گئی ہے۔ اور ضروری ہوگا کہ ان تینوں عالموں میں سے کوئی نہ اس عاجز کے سلسلہ میں داخل ہو اور نہ مہر علی شاہ کامریدہو۔’’

(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ327تا329)

اس اشتہار کے حاشیہ میں آپؑ نے پیر صاحب کو ان کا دعویٰ علم قرآن بھی یاد دلایا اور اس طرح ان کو خوب اکسایا تا وہ کسی طرح مقابلہ کے میدان میں اتریں۔ چنانچہ آپؑ نے لکھا کہ

‘‘پیر مہر علی شاہ صاحب اپنی کتاب شمس الہدایہ کے صفحہ۸۱میں یہ لاف زنی کر چکے ہیں کہ قرآن شریف کی سمجھ ان کو عطا کی گئی ہے۔ اگر وہ اپنی کتاب میں جہالت کا اقرار کرتے ہیں اور فقر کا بھی دم نہ مارتے تو اس کی دعوت کی کچھ ضرورت نہ تھی۔ لیکن اب تو وہ ان دونوں کمالات کے مدعی ہوچکے ہیں۔’’

(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ328، حاشیہ)

یوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیر صاحب کو خارق عادت تعلق باللہ، علم قرآن اور قبولیت دعا کی مفصل دعوت مقابلہ دی۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس اشتہار کا ضمیمہ لکھا جس میں اس مقابلہ کو ہر اشتباہ سے پاک کرنے نیز صادق اور کاذب میں واضح فیصلہ کرنے کے لیے بعض اور امور درج فرمانے کے بعد آخر میں لکھا کہ

‘‘اگر اشتہار ہذا کے شائع ہونے کی تاریخ سے جو 22؍جولائی 1900ءہے ایک ماہ تک نہ پیر مہر علی شاہ صاحب کی طرف سے اس میدان میں حاضر ہونےکے لئے کوئی اشتہار نکلا اور نہ دوسرے مولویوں کے چالیس کے مجمع نے کوئی اشتہار دیا تو اس صورت میں یہی سمجھا جائے گا کہ خدا تعالیٰ نے ان سب کے دلوں میں رعب ڈال کر ایک آسمانی نشان ظاہر کیا کیونکہ سب پر رعب ڈال کر سب کی زبان بند کردینا اور ان کی تمام شیخیوں کو کچل ڈالنا یہ کام بجز الٰہی طاقت کے کسی دوسرے سے ہرگز نہیں ہوسکتا۔’’

(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ337)

پیر صاحب کی فریب کاری

مذہب کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مامورین الٰہی کے مخالفین اورمعاندین اپنی جھوٹی عزت اور انا کو بچانے کی خاطر ہمیشہ ایسے حربے استعمال کرتے ہیں تا وہ اپنے پیروکاروں اور عوام الناس کو دھوکا دے سکیں کیونکہ وہ اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ تائید خداوندی ان کے ساتھ ہرگز نہیں اور اگر کسی وقت ان کے اندر روحانیت کی کوئی چنگاری تھی تو وہ حق کے خلاف ہرزہ سرائی کے نتیجہ میں خاک ہوچکی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بلعم باعور کے متعلق فرماتا ہے کہ

‘‘اگر ہم چاہتے تو ان (آیات) کے ذریعہ ضرور اس کا رفع کرتے لیکن وہ زمین کی طرف جھک گیا اور اپنی ہوس کی پیروی کی۔ پس اس کی مثال کتے کی سی ہے کہ اگر تو اس پر ہاتھ اٹھائے تو ہانپتے ہوئے زبان نکال دے گا اور اگر اسے چھوڑ دے تب بھی ہانپتے ہوئے زبان نکال دے گا۔ یہ اس قوم کی مثال ہے جس نے ہمارے نشانات کو جھٹلایا۔ پس تو (ان کے سامنے ) یہ (تاریخی)واقعات پڑھ کر سنا تاکہ وہ غور و فکر کریں۔’’

(الاعراف:177)

پیر مہر علی شاہ صاحب سجادہ نشین گولڑہ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔ آپ نے صدق دل سے حق پرکھنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صاف اور سیدھے طریق پر فیصلے سے روگردانی کی اور بالکل خاموش صاد کر کنارہ کش ہوجانے کی بجائے تا عزت بچی رہتی آپ نے ایک پُرفریب چال چلی۔ پیر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس چیلنج کو مع شرائط قبول تو نہ کیا لیکن تاریخ وغیرہ مقرر کرنے کے بغیر ہی چپکے سے لاہور پہنچ کر ایک اشتہار شائع کیا جس میں لکھا کہ اوّل ہم نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کی رو سے بحث کریں گے اس میں اگر تم مغلوب ہوجاؤ تو ہماری بیعت کر لو اور پھر بعد اس کے ہمیں وہ (تفسیری )اعجازی مقابلہ بھی منظور ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف لطیف ‘‘تحفہ گولڑویہ’’میں پیر صاحب کی اس فریب کاری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ‘‘انہوں نے تقریری مباحثہ کا بہانہ پیش کر کے تفسیری مقابلہ سے گریز کی راہ نکالی ہے اور لوگوں کو یہ دھوکا دیا ہے کہ گویا وہ میری دعوت کو قبول کرتا ہے۔ حالانکہ میں ‘‘انجام آتھم ’’میں یہ مستحکم عہد کر چکا ہوں کہ آئندہ ہم مباحثات نہیں کریں گے ۔لیکن انہوں نے اس خیال سے تقریری بحث کی دعوت دی کہ ‘‘اگر وہ مباحثہ نہیں کریں گے تو ہم عوام میں فتح کا ڈنکا بجائیں گے۔ اور اگر مباحثہ کریں گے تو کہہ دیں گے کہ اس شخص نے خدا تعالیٰ کے ساتھ عہد کرکےتوڑا ہے۔’’

(تعارف کتاب تحفہ گولڑویہ،روحانی خزائن جلد17صفحہXXIV)

اشتہار انعامی پچاس روپیہ

کیونکہ پیر صاحب خوب جانتے تھے کہ وہ اس علمی مقابلہ کی صلاحیت قطعاً نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کو خدا تعالیٰ کی تائید حاصل ہے۔ اس لیے وہ تو اپنی جان چھڑانے کے لیے حیلے بہانے تراش رہے تھے۔ لیکن خدا کا مسیح ان کو ایسے کیسے جانے دیتا۔ اس طرح تو حق اخفاءمیں رہتا۔ آپؑ نے پیر صاحب کا ان کے مریدوں اور ہم خیال لوگوں پر اتمام حجت نیز بغرض نصیحت ‘‘ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ’’تحریر فرمایا۔ اس ضمیمہ کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے ‘‘اشتہار انعامی پچاس روپیہ ’’میں تحریر فرمایاکہ

‘‘…مجھے خیال آیا کہ عوام جن میں سوچ کا مادّہ طبعاً کم ہوتا ہے وہ اگرچہ یہ بات تو سمجھ لیں گے کہ پیر صاحب عربی فصیح میں تفسیر لکھنے پر قادر نہیں تھےاسی وجہ سے تو ٹال دیالیکن ساتھ ہی ان کو یہ خیال بھی گزرے گا کہ منقولی مباحثات پر ضرور وہ قادر ہوں گے تبھی تودرخواست پیش کردی اور اپنےدلوں میں گمان کریں گے کہ ان کے پاس حضرت مسیح کی حیات اور میرے دلائل کے ردّ میں کچھ دلائل ہیں اور یہ تو معلوم نہیں ہوگا کہ یہ زبانی مباحثہ کی جرأت بھی میرے اس عہد ترک بحث نے ان کو دلائی ہے جو انجام آتھم میں طبع ہو کر لاکھوں انسانوں میں مشتہر ہوچکا ہے۔ لہذا میں یہ رسالہ لکھ کر اس وقت اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ اگر وہ اس کے مقابل پر کوئی رسالہ لکھ کر میرے ان تمام دلائل کو اوّل سے آخر تک توڑ دیں اور پھر مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی ایک مجمع بٹالہ میں مقرر کر کے ہم دونوں کی حاضری میں میرے تمام دلائل ایک ایک کر کے حاضرین کے سامنے ذکرکریں اور پھر ہر ایک دلیل کے مقابل پر جس کو وہ بغیر کسی کمی بیشی اور تصرف کے حاضرین کو سنا دیں گے پھر پیر صاحب کے جوابات سنادیں اورخدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہیں کہ یہ جوابات صحیح ہیں اور دلیل پیش کردہ کی قلع قمع کرتے ہیں تو میں مبلغ پچاس روپیہ انعام بطور فتحیابی پیر صاحب کو اسی مجلس میں دے دوں گا …اگر انعامی رسالہ کا انہوں نے جواب نہ دیا تو بلا شبہ لوگ سمجھ جائیں گے کہ وہ سیدھے طریق سے مباحثات پر بھی قادر نہیں ہیں۔’’

(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17صفحہ36)

افسوس صد افسوس کہ پیر مہر علی صاحب نے اس انعامی چیلنج کا بھی کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ وہ راستی اور ایمانداری سے فیصلہ کے متمنی نہ تھے بلکہ صرف اپنی پیری مریدی کی دکان کو بچانے اور چمکانے کے لئی کوشاں تھے۔ دوسری طرف مسیح الزماںؑ کا دل نوع انسانی کی ہمدردی میں کسی واضح فیصلہ کے لیے درد مند تھا تا لوگوں پر حق آشکار ہو اور وہ اس نور سے حصہ پائیں جو خدائے رحیم نے اس زمانہ میں اتارا ہے۔

فصیح بلیغ عربی میں سورت فاتحہ کی تفسیر لکھنے کا چیلنج

خدائے رحیم و کریم نے اپنے پیارے کے اس درد و اَلَم کا مداوا اس طرح کیا کہ آپؑ کے دل میں ڈالا کہ مخالفین کو 70دن میں سورت فاتحہ کی فصیح و بلیغ عربی تفسیر لکھنے کے مقابلہ کی دعوت دی جائے۔ چنانچہ آپؑ نے اپنے مخالفین و معاندین اور خصوصاً پیر مہر علی صاحب کو پُر زور الفاظ میں یہ چیلنج دیتے ہوئے رقم فرمایا کہ

‘‘اے آسمان جھوٹوں پر لعنت کر۔ آمین۔ پیارے ناظرین کاذب کے رُسوا کرنے کے لئے اسی وقت جو 7؍دسمبر 1900ءروز جمعہ ہے خدا نےمیرے دل میں ایک بات ڈالی ہے اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کا جہنم جھوٹوں کے لئے بھڑک رہا ہے کہ میں نے سخت تکذیب کودیکھ کر خود اس فوق العادت مقابلہ کے لئے درخواست کی تھی۔ اور اگر پیر مہر علی شاہ صاحب مباحثہ منقولی اور اس کے ساتھ بیعت کی شرط پیش نہ کرتے جس سے میرا مدعا بکلّی کالعدم ہوگیا تھا تو اگر لاہور اور قادیان میں برف کے پہاڑ بھی ہوتے اور جاڑے کے دن ہوتے تو میں تب بھی لاہور پہنچتا اور ان کو دکھلاتا کہ آسمانی نشان اس کو کہتے ہیں۔ مگر انہوں نے مباحثہ منقولی اور پھر بیعت کی شرط لگا کر اپنی جان بچائی اور اس گندے مکرکے پیش کرنے سے اپنی عزت کی پرواہ نہ کی۔ لیکن اگر پیر جی صاحب حقیقت میں فصیح عربی تفسیر پر قادر ہیں اور کوئی فریب انہوں نے نہیں کیا تو اب بھی وہی قدرت ان میں ضرور موجود ہوگی۔ لہٰذا میں ان کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اسی میری درخواست کو اس رنگ پر پوراکردیں کہ میرے دعاوی کی تکذیب کے متعلق فصیح بلیغ عربی میں سورة فاتحہ کی ایک تفسیر لکھیں جو چار جُز سے کم نہ ہو اور میں اسی سورة کی تفسیر بفضل اللہ و قوة اپنے دعویٰ کے اثبات سے متعلق فصیح بلیغ عربی میں لکھوں گا۔ انہیں اجازت ہے کہ وہ اس تفسیر میں تمام دنیا کے علماءسے مدد لے لیں۔ عرب کے بلغاءفصحاءبلا لیں، لاہور اور دیگر بلاد کے عربی دان پروفیسروں کو بھی مدد کے لئے طلب کر لیں۔ 15؍ دسمبر1900ءسے 70دن تک اس کام کے لئے ہم دونوں کو مہلت ہے ایک دن بھی زیادہ نہیں ہوگا۔ اگر بالمقابل تفسیر لکھنے کے بعد عرب کے تین نامی ادیب ان کی تفسیر کو جامع لوازم بلاغت و فصاحت قرار دیں اور معارف سے پُرخیال کریں تو میں پانسو روپیہ نقد ان کو دوں گا۔ اور تمام اپنی کتابیں جلا دوں گا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا۔ اور اگر قضیہ برعکس نکلا یا اس مدت تک یعنی70روز تک وہ کچھ بھی نہ لکھ سکے تو مجھے ایسے لوگوں سے بیعت لینے کی بھی ضرورت نہیں اور نہ روپیہ کی خواہش۔ صرف یہی دکھلاؤں گا کہ کیسےانہوں نے پیر کہلا کر قابل شرم جھوٹ بولا اور کیسے سراسر ظلم اور سفلہ پن اور خیانت سے بعض اخبار والوں نے ان کی اپنی اخباروں میں حمایت کی…اور جو شخص ہم میں سے صادق ہے وہ ہرگز شرمندہ نہیں ہوگا۔ اب وقت ہے کہ اخباروالے جنہوں نے بغیر دیکھے بھالے کےان کی حمایت کی تھی ان کو اس کام کے لئے اٹھا دیں۔ 70دن میں یہ بات داخل ہے کہ فریقین کی کتابیں چھپ کر شائع ہوجائیں۔’’

(اربعین نمبر4، روحانی خزائن جلد17صفحہ 449تا450حاشیہ)

ازاں بعد اس اعلان کے چھپنے میں کچھ دیر ہوگئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر یہ 70؍دن کی میعاد 25؍دسمبر 1900ءسے شروع کی تا کسی کو اعتراض کا موقع نہ ہو۔ مختصراً یہ کہ کیا پیر مہر علی شاہ صاحب اور کیا دوسرے صاحب کمالات اور علمائےدین ہونے کے دعویدار، ان لوگوں نے فصیح و بلیغ عربی میں تو کیا اپنی زبان میں بھی سورت فاتحہ کی اعجازی تفسیر لکھنے کی طاقت اور ہمت نہ پائی۔ مزید یہ کہ چار جُز پر مشتمل تو بڑی بات ہے یہ تو چند صفحات بھی نہ لکھ سکے۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تمام سجادہ نشینوں اور علماءکو اکٹھے ہوکر تفسیر لکھنے کی دعوت دی تھی بلکہ یہاں تک پیش کش کی کہ وہ عرب ممالک کے علماءکو بھی اپنی مدد کے لیے بلا لیں۔ خدا کی شان کہ اس نے پیر اور صاحب کمالات اور علمائےربّانی کے دعویداروں کا طلسم چُور چُور کر کے ان کو حسب وعدہ الٰہی ہمیشہ کے لیے شرمندہ اور رُسوا کر دیا۔

صدق دعویٰ مسیح موعود علیہ السلام پر مہر الٰہی

امام ربّانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دل و جان تو اس غم سے کباب ہوئے جارہا تھا کہ جلد حق اور سچائی کا سورج پوری آب و تاب سے چڑھے تا دجل کی تاریکیاں تار تار ہو جائیں۔ چنانچہ آپؑ کے خدا نے جو تمام طاقتوں اور عِلموں کا منبع و سرچشمہ ہے غیر معمولی حالات میں آپؑ کو چار جُز کے بجائے آٹھ جُز پر مشتمل سورت فاتحہ کی انتہائی فصیح و بلیغ عربی میں تفسیر لکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ سلطان القلم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قریباً 200؍صفحات پر مشتمل یہ تفسیر‘‘اعجاز مسیح ’’کے عنوان کے تحت حسب وعدہ میعاد کے اند رلکھ کر شائع فرمادی۔ اس عربی تفسیر سے پہلے آپؑ نے عام لوگوں کی اطلاع کے لیے اردو میں ان نامناسب حالات کا ذکر فرمایا جن کی موجودگی کے باوجود محض تائید خداوندی سے آپؑ نے یہ پُر معارف تفسیر لکھی اور یوں یہ آپؑ کی صداقت پر مہر تصدیق کا حکم رکھتی ہے۔ آپؑ تحریر فرماتے ہیں کہ

’’عام اطلاع کے لئے اردو میں لکھا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے70دن کے اندر 20فروری 1901ءکو اس رسالہ کو اپنے فضل و کرم سے پورا کردیا۔ سچ یہی ہے کہ یہ سب کچھ اس کے فضل سے ہوا۔ ان دنوں میں یہ عاجز کئی قسم کے امراض اور اعراض میں بھی مبتلا ہوا جس سے اندیشہ تھا کہ یہ کام پورا نہ ہوسکے کیونکہ بباعث ہر روز کے ضعف اور حملہ مرض کے طبیعت اس لائق نہیں رہی تھی کہ قلم اٹھا سکے۔ اور اگر صحت بھی رہتی تو خود مجھ میں کیا استعداد تھی۔ من آنم کہ من دانم۔ لیکن اخیر پر ان امراض بدنی کا بھید مجھے یہ معلوم ہوا کہ تا یہ جماعت بھی جو اس جگہ میرے دوستوں میں سے موجود ہیں یہ خیال نہ کریں کہ میری اپنی دماغی طاقتوں کا یہ نتیجہ ہے۔ سو اس نے ان عوارض اور موانع سے ثابت کردیا کہ میرے دل اور دماغ کا یہ کام نہیں۔ اس خیال میں میرے مخالف سراسر سچ پر ہیں کہ یہ اس شخص کا کام نہیں کوئی اور پوشیدہ طور پر اس کو مدد دیتا ہے۔ سو میں گواہی دیتاہوں کہ حقیقت میں ایک اور ہے جو مجھے مدد دیتا ہے لیکن وہ انسان نہیں بلکہ وہی قادر و توانا ہے جس کے آستانہ پر ہمارا سر ہے۔ …غرض منصفین کے لئے خدا کی تائید دیکھنے کے لئے یہ ایک عظیم الشان نشان ہے کیونکہ ستردن کی میعاد ٹھہرا کر صد ہا مولوی صاحبان بالمقابل بلائے گئے۔ اب ان کا کیا جواب ہے کہ کیوں وہ ایسی تفسیر شائع نہ کرسکے۔ یہی تو معجزہ ہے اور معجزہ کیا ہوتا ہے؟

اے دوستوجوپڑھتےہواُمُّ الکتاب کو

اب دیکھو میری آنکھوں سے اس آفتاب کو

یہ میرے ربّ سے میرے لئے اِک گواہ ہے

یہ میرےصدق دعویٰ پہ مہر الٰہ ہے

میرےمسیح ہونے پہ یہ اِک دلیل ہے

میرے لئے یہ شاہد ربّ جلیل ہے

پھرمیرے بعد اوروں کی ہے انتظارکیا؟

توبہ کرو کہ جینے کا ہے اعتبار کیا‘‘

(اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد18صفحہ2)

اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ عَبْدِہِ المَسِیْحِ المَوْعُوْدِ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button