سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

سلطان القلم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا اسلوب بیان

(اواب سعد حیات)

’’ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے اس انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے۔‘‘ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ437)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نصیحت کے رنگ میں فرماتے ہیں کہ

’’یہ مقام دارالحرب ہے پادریوں کے مقابلے میں۔ اس لئے ہم کو چاہئے کہ ہرگز بیکار نہ بیٹھیں۔ مگر یاد رکھو کہ ہماری حرب ان کے ہم رنگ ہو ۔جس قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں وہ آئے ہیں اسی طرز کے ہتھیار ہم کو لے کر نکلنا چاہئے اور وہ ہتھیار ہے قلم۔ یہی و جہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقارِ علی فرمایا۔‘‘

(تذکرہ صفحہ58)

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے لیے ’’سلطان القلم‘‘ کسی انسان کا بنایا ہوا خطاب نہیں جو کسی خوش اعتقاد مخلص نے اپنے آقا و مرشد کے لیے آپ ہی تجویز کردیا ہو، چونکہ ہمیشہ سے ہی خدائے قادرمطلق کی طرف سے عطا کردہ خطاب اپنے ہر رنگ اورہر معنی میں ظاہرو چسپاں ہوا کرتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں ظاہری، دنیاوی حکومتیں اپنے بعض مصالح کی تکمیل کے لیے اپنی رعایا میں سے بعض اشخاص کو دنیاوی خطابات عطا کیا کرتی ہیں لیکن لازمی نہیں ہوتا کہ حکومت وبادشاہ وقت کسی شخص کو ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب دےکر اس میں کماحقہ بہادری کا وصف بھی ڈال سکے لیکن خدا تعالیٰ جس کو نبی کہتا ہے، اس کی نبوت کے کمالات ساری دنیا پر ظاہر کرکے ہی دم لیتا ہے، جس کو سلطان القلم کہتا ہے اس کے سامنے اہل دنیا کو قلم توڑنے ہی پڑتے ہیں۔

آپ علیہ السلام نے اسی بنا پر تو فرمایا ہے کہ

’’یہ عاجز بھی خالی نہیں آیا بلکہ مردوں کے زندہ ہونے کے لئے بہت سا آب حیات خدائے تعالیٰ نے اس عاجز کو بھی دیا ہے بے شک جو شخص اس میں سے پئے گا زندہ ہوجائے گا۔ بلاشبہ میں اقرارکرتا ہوں کہ اگر میرے کلام سے مردے زندہ نہ ہوں اور اندھے آنکھیں نہ کھولیں اور مجذوم صاف نہ ہوں تو میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا‘‘۔

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 334تا335)

اسی مفہوم کو کھولتے ہوئے حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍جولائی 1931ء میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے معجزہ ’’سلطان القلم‘‘ کے تعلق میں فرماتے ہیں کہ

’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے وجود سے دنیا میں جو بہت سی برکات ظاہر ہوئی ہیں ان میں سے ایک بڑی برکت آپؑ کا طرز تحریر بھی ہے۔ جس طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے الفاظ جو ان کے حواریوں نے جمع کیے ہیں یا کسی وقت جمع ہوئے ان سے آپ کا خاص طرز انشاء ظاہر ہوتا ہے اور بڑے بڑے ماہرین تحریر اس کی نقل کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طرز تحریر بھی بالکل جداگانہ ہے۔ اور اس کے اندر اس قسم کی روانی، زور اور سلاست پائی جاتی ہے کہ باوجود سادہ الفاظ کے، باوجود اس کے کہ وہ ایسے مضامین پر مشتمل ہے جن سے عام طور پر دنیا ناواقف نہیں ہوتی اور باوجود اس کے کہ انبیاء کا کام مبالغہ، جھوٹ اور نمائشی آرائش سے خالی ہوتا ہے اس کے اندر ایک ایسا جذب اور کشش پائی جاتی ہے کہ جوں جوں انسان اسے پڑھتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے الفاظ سے بجلی کی تاریں نکل نکل کر جسم کے گرد لپٹتی جا رہی ہیں۔ اور جس طرح جب ایک زمیندار گھاس والی زمین پر ہل چلانے کے بعد سہاگہ پھیرتا ہے تو سہاگہ کے ارد گرد گھاس لپٹتا جاتا ہے اسی طرح معلوم ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تحریرانسانوں کے قلوب کو اپنے ساتھ لپیٹتی جا رہی ہے۔ اور یہ انتہاء درجہ کی ناشکری اور بے قدری ہو گی اگر ہم اس عظیم الشان طرز تحریر کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے طرز تحریر کو اس کے مطابق نہ بنائیں۔‘‘

آپ رضی اللہ عنہ نے مزید فرمایا کہ ’’میں تو عام طور پر دیکھتا ہوں کہ دانستہ یا نادانستہ طور پر دنیا اس طرز تحریر کو قبول کرتی جارہی ہے جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اردو میں کتب لکھنی شروع کیں اس وقت تحریر کا رنگ ایسا تھا کہ آج اسے پڑھنا اور برداشت کرنا سخت مشکل ہے۔ مگر آہستہ آہستہ زمانے کی تحریر بھی اسی رنگ میں ڈھل گئی۔ جس رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے ڈھالا…حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تحریر پُرزور ہونے کے باوجودسنجیدگی اور وقار سے باہر نہیں جاتی۔ پرانے زمانے میں آپ نے دوسروں کے اشعار بھی نقل کئے ہیں مگر ایسے برجستہ کہ شوخی کا نام نہیں بلکہ درد اور سوز کو قائم رکھا…پہلا مضمون جو میں نے تشحیذ میں لکھا وہ لکھنے سے قبل میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں کو پڑھا تا اس رنگ میں لکھ سکوں … اور میرا تجربہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے میری تحریر میں ایسی برکت پیدا ہوئی کہ ادیبوں سے بھی میرا مقابلہ ہوا…حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر اپنے اندر ایسا جذب رکھتی ہے کہ اس کی نقل کرنے والے کی تحریر میں بھی دوسرے سے بہت زیادہ زور اور کشش پیدا ہوجاتی ہے …حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر ات میں دلائل کے ساتھ درد اور سوز پایا جاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایسا پانی ہے جس میں ہلکی سی شیرینی ملی ہوئی ہے وہ بے شک شربت نہیں لیکن ہم اسے عام پانی بھی نہیں کہہ سکتے۔ وہ پانی کی تمام خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے مگر دوسری طرف پانی سے زائد خوبیاں بھی اس کے اندر موجود ہیں …حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں کی روانی کی مثال ایسی ہے جیسے پہاڑوں پر برسا ہوا پانی بہتا ہے بظاہر اس کا کوئی رخ معلوم نہیں ہوتا مگر وہ خود اپنا رخ بناتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں میں الٰہی جلال ہے اور وہ تصنع سے بالا ہے جس طرح پہاڑوں کے قدرتی مناظر ان تصویروں سے کہیں زیادہ دلفریب ہوتے ہیں جو انسان سالہاسال کی محنت سے تیار کرکے میوزیم میں رکھتا ہے، اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت بھی سب سے فائق ہے…‘‘

(الفضل 16؍جولائی 1931ء خطبات محمودجلد13صفحہ 217)

اب اگر حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی تحریرات کا مختصر جائزہ لیا جائے تو سامنے آتا ہے کہ آپ کازمانہ تصنیف قریبا ً35سال پر محیط ہے جو 1875ءسے شروع ہوکر 1908ء تک مسلسل جاری رہتا ہے، جس میں آپ نے 80سے زائد کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے بعض خاصی ضخیم ہیں، آپ نے 22کتب عربی زبان میں تحریر فرمائیں۔ ان عربی کتب کے کل صفحات 2200 سے زیادہ ہیں، اوران میں موجود عربی قصائد کے کل اشعارکی تعداد 3500سے زیادہ ہے۔ اسی طرح آپ کی فارسی تصنیفات کی تعداد بھی ایک درجن کے لگ بھگ ہے۔ یاد رہے کہ برصغیر میں اردو ادب کے طلباء کو سر سید احمد، مولوی ذکاء اللہ، شبلی، حالی اورنذیر احمد وغیرہ کے ادبی کمالات کے مختلف پہلوؤں سے روشناس کروایا جاتا ہے لیکن اختلاف عقیدہ کی بنا پر سلطان القلم کے زندگی بخش چشمہ کی سیر سے محروم رکھاجاتا ہے۔ یاد رہے کہ مقابلہ کے جوش میں ان مقدم الذکر ادیب لوگوں کااپنے چند خطوط اور مطبوعہ ادبی مضامین میں قلم کی جولانیاں دکھانا الگ ہے اور ایک مقدس فرض اور آفاقی مشن کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ادب کی بلندیوں کو قائم رکھنا بالکل الگ بات ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی یہ کتب صرف اردو تک محدود نہیں بلکہ اردو، عربی اور فارسی میں ہیں جوملک ہندوستان کی علمی اور مذہبی زبانیں تھیں۔ آپ کی کتب بار بار چھپتی تھیں اور چھپتی رہیں گی، اور ان کے دنیا بھر کی زبانوں میں تراجم کا سلسلہ بھی جاری ہے، لیکن یہ کتب بعینہٖ اسی طرح محفوظ ہیں جس طرح لکھی گئی تھیں، ان کتب کی عبارتیں ستیارتھ پرکاش کی طرح ہر نئے ایڈیشن میں تنقید اور اعتراضات کی آندھی کے سامنے قلم زد نہیں کردی جاتیں یوں نہ تو یہ کتب مسیح موعود ترمیم و تنسیخ کی مشکلات کا شکار ہوتی ہیں اور نہ ہی یہ بائبل وغیرہ کی طرح بقاءکی خاطر تحریف و تبدل کی مرہون ہیں۔ آپ کی یہ تحریرات مجلس، خلوت، جلوت، دن رات، سفر وحضر، تندرستی و بیماری غرض ہر حالت میں سامنے آتی رہیں۔ الغرض ایک بے تکلفی اور روانی تھی، روانی کا یہ عالم تھا کہ پریس والے اور کاتب پیچھے رہ جاتے تھے مگر آپ کی تحریر دونوں سے آگے نکل جاتی تھی، آپ قلم برداشتہ لکھتے چلے جاتے تھے، یہ نہیں کہ بار بار تصحیح اور کانٹ چھانٹ ہورہی ہے۔ اگر کبھی کچھ کاٹنا ہوتا تو پہلی دفعہ ہی تصنیف کے وقت قلم زد کردیا کرتے تھے مگر وہ بھی شاذ کے طور پر۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کی تحریروں میں لفاظی نہیں بلکہ حضورؑ کی تمام تصانیف میں ٹھوس علمی حقائق اور گہرے معارف ہیں، اور آئندہ کی خبریں ہیں۔ گویا جملوں کے جملے آسمانی علوم کے چشمے بن کر بہ رہے ہوں۔ آپ ایک خاص اسلوب نگارش کے مالک تھے، اور آپ کی تحریر میں وقار، متانت، سنجیدگی اور پاکیزگی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ بایں ہمہ اس میں روانی، سلاست اور سادگی بھی موجود ہے۔ عقلی باتوں اور عجیب در عجیب علمی دلائل سے سب تصانیف مدلل ہیں۔ مثلاً ذات باری تعالیٰ کے متعلق اور منفرد فونٹ کے الفاظ کااستعمال اور بحث۔ عقل کے ساتھ الہام کی ضرورت۔ یا وحی الٰہی اور عقل انسانی کا لاینفک جوڑ جیسے روشنی او رآنکھ کا تعلق ہوتا ہے۔ یا جسمانیات سے روحانیات کی طرف دلائل اور استنباط۔ اسی طرح لغات سے عمیق در عمیق معانی کا استنباط۔ مثلاً کلمہلَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ کے معانی اور لفظ لعنۃسے عیسائیت کے بنیادی عقائدکا رد۔ استعارات کی حقیقت۔ عربی زبان کا ام الالسنہ ثابت کرنا۔ سچے مذہب کی آسان شناخت کی ترکیبیں۔ وغیرہ وغیرہ۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تصنیف کردہ یہ تمام موضوعات وقتی اور فروعی نہ تھے بلکہ دائمی نوعیت اور افادیت کے میدان تھے جن کو آپؑ نے کمال مہارت اور حکمت سے سر فرمایا۔ آپؑ کی تحریر کا اسلوب بتاتا ہے کہ کسی بھی مذہب اور فرقے سے مقابلہ کے وقت آپ نے فروعی بحثوں میں پڑنے کی بجائے ہر مسئلہ اور اختلاف کو جڑ سے پکڑااور دلائل و استنباط کے حوالے سے اتمام حجت فرمائی۔ ایسا معلوم پڑتا ہے کہ آپؑ کا مقام ایک نہایت موزوں، نہروں کے درمیان، ایک زندگی بخش، میووں اور پھلوں سے لدےباغ کے قائم کرنے والے شخص کا تھا، آپ مکھی اور مچھر سے مقابلوں میں اپنی عمر رواں خرچ کرنے والے لوگوں میں سے نہ تھے۔ آپ نے اپنی تحریرات میں مذاہب و فِرق کے میدان کارزار میں عقل و نقل کی کسوٹی پر چمکنے والا اعلان عام فرمایا کہ جو کتاب بھی الہامی ہونے اور من جانب اللہ ہونے کی دعویدار ہو، اسے چاہیے کہ اپنا دعویٰ بھی خود پیش کرے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہی وہ مضبوط بُرج تھے، اور آپ کے پیش کردہ ثقہ اصول و دلائل جن سے مقابل دشمن عاجز آکر جان کے دشمن بنتے گئے اور جن کو سمجھ آتی جاتی تھی وہ ہر ہر فقرے پر داد دینے لگ جاتے تھے۔

آپ کے دشمن نے بھی آپ کے اسلوب تحریر کو محسوس کیا اور اظہار کیا مثلاً اخبار وکیل امرتسر نے آپؑ کی وفات پر لکھا کہ

’’وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا، اور زبان جادو۔ …جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار الجھے ہوئے تھے۔ اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں …مرزا صاحب کا لٹریچر…قبول عام کی سند حاصل کرچکا ہے…‘‘

(بحوالہ بدرقادیان۔18؍جون1908ءجلد7نمبر24صفحہ2کالم1)

پھر مرزا حیرت دہلوی نے کرزن گزٹ کے یکم جون 1908ء کے شمارہ میں لکھاکہ

’’اس کے قلم میں اتنی قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں۔ ایک پُر جذبہ اور قوی الفاظ کا انبار اس کے دماغ میں بھرا رہتا ہے اور جب وہ لکھنے بیٹھتا ہے تو جچے تلے الفاظ کی ایسی آمد ہوتی ہے کہ بیان سے باہر ہے…واقعی اس کی بعض بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی حالت طاری ہوجاتی ہے۔‘‘

اسی طرح سخت عداوت کے زمانہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے یکم جنوری 1893ء کو ایک خط سخت غیظ و غضب کا بھرا ہوا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کولکھا اس کا ایک ٹکڑا ذیل میں نقل کیا جاتا ہے، جس سے ظاہر ہورہا ہے کہ وہ معاند مولوی بھی تسلیم کرتا ہے کہ آپ کے پاس جو چیز موثر ہے وہ زبان کی چالاکی اور فقرہ بندی ہے۔ یہ الفاظ گو عداوتاً اور جوش عناد میں لکھے گئے ہیں مگر اس میں بھی دشمن کا ایک مخفی اقرار موجود ہےکہ آپ کی تحریر وتقریر آپ کی کامیابی کا اصلی ہتھیار ہیں۔

’’میرے خیال میں آپ کو مسمریزم وغیرہ میں دخل نہیں۔ اور آپ کے پاس جو ہتھیار اور دام تزویر ہے وہ صرف زبان کی چالاکی اور فقرہ بندی ہے۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ316)

آپؑ کی تحریرات کا مطالعہ دکھاتا ہے کہ آپ کی غیر زبانوں پر دسترس بھی عند الضرورت کھل کر سامنے آتی ہے، اور اردو زبان کو امر کرنے میں آپؑ کی مذہبی تحریرات کا حصہ سب سے زیادہ ہے، آپؑ کی تحریرات ہر درجے کی قابلیت رکھنے والوں کے لیے موجود ہیں، ادنیٰ فہم سے اعلیٰ فہم تک سب کے لیے آپ کی تحریریں مفید ہیں۔ یہ نہیں کہ تحریر کا پایہ ایسا مشکل ہو کہ عوام ہی نہ سمجھ سکیں یا ایسا متبذل ہو کہ اعلیٰ لوگ ناپسند کریں بلکہ ہر فہم اور استعداد کے لیے ان میں پورا مصالحہ موجود ہے اور یہ کتب ہر طبقہ میں مقبول ہیں۔ الغرض آپ نے پرخلوص جذبات و خیالات کا اظہار نہایت نہایت پاک اور صاف زبان میں فرمایا ہے، جن کے ہر ہر لفظ سے مقصد عیاں اور مدعا ظاہرہے۔

آپؑ کی ایک کتاب یا ایک باب میں ضمنی طور پر بیسیوں مضامین اور تحقیقات کا دروازہ کھلتا ہے اور استنباط ہوتا چلا جاتا ہے مثلا ًوفات مسیح پر لکھنے لگتے ہیں تو بظاہر موضوع سے بعید بحثیں اور علوم کی شاخیں پھوٹتی چلی جاتی ہیں۔ گویا جس جگہ دشمن کو اعتراض پیدا ہوتا ہے، شبہ اٹھتا ہے، حضور علیہ السلام وہاں ممکنہ اعتراض کا جواب بھی ساتھ ساتھ شامل تحریر فرماتے جاتے تھے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو نئے مضامین اور نئے دلائل کے لحاظ سے پرکھیں تو نظر آتا ہے کہ یہ صرف تالیفات نہیں بلکہ تصنیفات ہیں یعنی پہلے لوگوں کے لکھے ہوئے مضامین یا ان کی کتابوں سے اخذ کیے ہوئے مضامین نہیں جو اپنے الفاظ کا جامہ پہنا کر بیان کردیے بلکہ حضورؑ کی تصنیفات ایک نئی چیز ہیں جو نئے علوم، نئے دلائل، نئے حقائق اور نئے مضامین سے مملو ہیں۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تصنیفات جو جماعت احمدیہ عالمگیر کے لیے درجہ تقدس پر فائز ہیں کیونکہ یہ عام معمولی انسانی تصنیفات نہیں بلکہ ان کتب سے ہی جماعت کے عقائد، ایمانیات اور سب جھگڑے اوراختلافات سے فیصلہ پاتے ہیں، سو ان کتب کا عرصہ تصنیف گو کئی دہائیوں پر محیط ہے، مگر سلطان القلم اوّل تا آخر قلم کا شاہسوار ہی رہا۔ نہ انحطاط عمر اس کے زور قلم کو کم کرسکا نہ کوئی اور سبب۔ باوجود بڑھاپے اور امراض کے آخری تصنیف تک زور قلم، قوت و بلندپروازی، فصاحت و بلاغت اور جوش و خروش اور روانی کلام آپ کی پہلی تصنیف کے عین بین رہی۔ معلوم ہوتا ہے کہ تحریر کے میدان میں ایک بحر ذخار ہے جو جوش ما ر رہا ہے۔ یا ایک سمندر ہے جو تلاطم میں ہے، غرض فوت ہونے تک قلم سلطان کے ہاتھ میں ہی رہا۔

چونکہ اپنی نظم و نثر میں، اردو، عربی اور فارسی میں، اپنی تحریر و تقریر میں آپ خدا سے تائید یافتہ قلم کار تھے، نہ کسی انسان کے شاگرد یا خوشہ چین۔ اس لیے آپ کا طرز تحریر تمام متقدمین سے جدا ہے، نہ لچھے دار عبارتیں ہیں، نہ لفاظی و فضول تُک بندی، اور بے معنی لغویات اور طول کلامی جس پر متقدمین کو تو فخر تھا۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو جہاں جہاں عربی میں عرب اور عجم کے علماء کے مقابلہ میں زبان دانی اور لغت میں اپنے علم کے اظہار کا موقع آیا تو وہاں چونکہ میدان خاص تھا اور مقابلہ اور امتیاز مطلوب تھا، وہاں آپ نے اس رنگ کی تحریر پیش فرمائی ہے کہ سب مقابل علماء دنگ اور عاجز رہ گئے۔ اس كے ساتھ ساتھ آپؑ نے اپنی تحریرات میں اس بات كے واضح اشارے چھوڑے ہیں كہ كسی ایك انسان كے لیے اپنی ذاتی جدّو جہد اوركوشش سے ان تمام امور كا سیكھنا اور پھر انہیں سیاقِ عبارت میں برمحل استعمال كرنا بغیر خدائی عنایت كے ممكن نہیں ہے۔ اس بارے میں حضور علیہ السلام نے فرمایا:

’’ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے اس انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے تا معارفِ حقائقِ قرآنی کو اس پیرایہ میں بھی دنیا پر ظاہر کریں اور وہ بلاغت جو ایک بیہودہ اور لغو طورپر اسلام میں رائج ہو گئی تھی اس کو کلام الٰہی کا خادم بنایا جائے۔‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ437)

مزید برآں مخالفین اورحضورعلیہ السلام كے اسلوب میں نمایاں فرق یہ ہے كہ حریری وغیرہ نے تو معانی كو الفاظ كا تابع كیایعنی الفاظ كی بناوٹ كا خیال ركھا تا جملوں كا وزن اورردھم قائم رہے اور سجع بنی رہے خواه الفاظ كی رعایت ركھتے ركھتے وه معنی جو اس كے ذہن میں ہے کیسا ہی قبیح یا فرسوده ہو جائے۔ اس كا مطلب ہے كہ وه ایك معین معنے كو تبدیل كیے بغیر مسجع مقفیٰ الفاظ كی لڑی میں پرونے سے قاصر تھا بلكہ الفاظ كی لڑی اور ترتیب كو قائم ركھنے كی خاطر اس نے معنے اور مغز كا ستیاناس كر دیا۔ یوں حریری جیسوں كی كتب اورعبارات ظاہری الفاظ كی بناوٹ كے اعتبار سے تو ادبی رنگ ضرور ركھتی ہیں لیكن معنے كے حساب سے نہایت فرسوده ہیں۔ اس كے بالمقابل حضور علیہ السلام نے اعلیٰ ادبی عبارات اور مسجع ومقفیٰ تحریرات میں اعلیٰ درجے كے مفاہیم اورمعارف كو پرويا ہے جس نے سونے پہ سہاگے كا كام كیا۔ حضور علیہ السلام نے نہ صرف اس فرق كو خود بیان فرمایا بلكہ اس كے بالمقابل اپنے دعویٰ كو بھی نمایاں طورپر پیش كیا۔ فرمایا:

’’مقامات حریری بڑی عزّت کے ساتھ دیکھی جاتی ہے حالانکہ وہ کسی دینی یا علمی خدمت کے لئے کام نہیں آ سکتی کیونکہ حریری اِس بات پر قادر نہیں ہو سکا کہ کسی سچے اور واقعی قصہ یا معارف اور حقائق کے اسرار کو بلیغ فصیح عبارت میں قلمبند کرکے یہ ثابت کرتا کہ وہ الفاظ کو معانی کا تابع کر سکتا ہے۔ بلکہ اُس نے اوّل سے آخر تک معانی کو الفاظ کا تابع کیا ہے جس سے ثابت ہوا کہ وہ ہرگز اس بات پر قادر نہ تھا کہ واقعہ صحیحہ کا نقشہ عربی فصیح بلیغ میں لکھ سکے۔ لہٰذا ایسا شخص جس کو معانی سے غرض ہے اور معارف حقائق کا بیان کرنا اُس کا مقصد ہے وہ حریری کی جمع کردہ ہڈیوں سے کوئی مغز حاصل نہیں کر سکتا۔‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ433)

پس سوائے خاص مقابلہ زبان اور لغت دانی کے جہاں جہاں جوکچھ بھی تصنیف فرمایا ہے وہاں تمام تحریر نیچرل، سادہ اور صاف، زود فہم اور موثر ہے۔ جو سچے جوش اور خیر خواہی مخلوق کے چشمہ سے نکلی ہوئی ہے اور کسی جگہ کوئی تصنع اور عبارت آرائی مقصود نظر نہیں آتی۔

یہاں آپ کی زندہ جاوید طرز نگارش میں سے بطور نمونہ چند مثالیں پیش ہیں جو ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ بھی ہیں اور’’مشک آں است کہ ببوید نہ آں کہ عطار بگوید‘‘ کی عکاس بھی۔ اور آپ کی پاکیزہ تحریرات کی یہ عملی تصویر ان لوگوں کے لیے بھی جواب ہیں جو بغض و عناد میں اندھے ہوکر عوام کالانعام کو گمراہ کرنے کے لیے آپ علیہ السلام کی تحریرات کو نعوذباللہ ’’تعفن و بدبو‘‘۔ ’’فحش نگاری اور عریانی‘‘ ’’بدزبانی اور پھکڑبازی‘‘ سے مطعون کرتے ہیں۔

آپؑ نے ایک دفعہ فرمایا:

’’ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سےاعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی نبیوں کا سردار، رسولوں کا فخر، تمام مرسلوں کا سرتاج، جس کا نام محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ ہے۔ جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہ مل سکتی تھی‘‘

(سراج منیر، روحانی خزائن، جلد 12صفحہ82)

’’ہم کافر نعمت ہوںگے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ پائی ہے اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اُسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اسی کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ ہمیں میسر آیا ہےاس آفتاب ہدائت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ119)

’’اے یورپ تو بھی امن میں نہیں۔ اور اے ایشیاء تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے بسنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے، مکروہ کام کئے گئے۔ اور وہ چپ رہا۔ مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں، پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے۔ نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا۔ اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے۔ جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اس سے نہیں ڈرتا وہ مردہ ہے نہ کہ زندہ۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ269)

’’خدا کی رضا کو تم پا ہی نہیں سکتے جب تک تم اپنی رضا کو چھوڑ کر اپنی لذات کو چھوڑکر اپنی عزت کو چھوڑ کر اپنا مال چھوڑ کر اپنی جان چھوڑ کر اس کی راہ میں وہ تلخی نہ اٹھاؤ جو موت کا نظارہ تمہارے سامنے پیش کرتی ہےلیکن اگر تم تلخی اٹھالو گے تو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آجاؤ گے۔ اور تم ان راست بازوں کے وارث کئے جاؤگے جو تم سے پہلے گذر چکے ہیں اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے۔ لیکن تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں۔‘‘

(الوصیت، روحانی خزائن جلد20صفحہ 307)

’’خدا نے … اپنے بندہ کی تصدیق کے لئے آسمان پر رمضان میں خسوف کسوف کیا اور نیر النہار اور نیر اللیل میرے لئے گواہ بنا کر دو نشان ظاہر فرمائے…بہت ہیں جو حلم ظاہر کرتے ہیں مگر وہ اندر سے بھیڑیئے ہیں۔ بہت ہیں جو اوپر سے صاف ہیں مگر اندر سے سانپ ہیں۔ سو تم اس کی جناب میں قبول نہیں ہوسکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو۔ بڑے ہوکر چھوٹوں پر رحم کرو…باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہوکر جھوٹے کی طرح تذلل کرو…نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازےکے لئے تم بلائے گئے ہو اس سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہوسکتا…گناہ ایک زہر ہے اس کو مت کھاؤ۔ خدا کی نافرمانی ایک گندی موت ہے اس سے بچو…ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے، ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں۔ کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی…اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو۔ کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا۔ یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا…غیر قوموں کی تقلید مت کرو کہ جو بکلی اسباب پر گر گئی ہیں اور جیسے سانپ مٹی کھاتا ہے انہوں نے سفلی اسباب کی مٹی کھائی…خدا سے قوت نہ مانگنے سے وہ مر گئے اورآسمانی روح ان میں سے ایسی نکل گئی جیسا کہ ایک گھونسلے سے کبوتر پرواز کر جاتا ہے…جو دنیا کی دولتوں کا خواہشمند ہوتا ہے تو دنیا کے دروازے اس پرکھولے جاتے ہیں اور دین کی رو سے وہ نرا مفلس اور ننگا ہوتا ہے…جو شخص درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے…آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں۔ مگر مصطفیٰﷺ۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو…یہی علم ہے جو دل کو تازگی اور زندگی بخشتا ہے اور یقین کے مینار تک پہنچا دیتا ہے…وقت تھوڑا ہے اور کارعمر ناپیدا۔ تیز قدم اٹھاؤکہ شام نزدیک ہے۔‘‘

(کشی نوح، روحانی خزائن، جلد19صفحہ8تا26)

’’غرض ایک عقلمند اور منصف مزاج آدمی کے نزدیک اس بات کا سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ خدا کی کتاب کا فرض یہی ہے کہ وہ خدا کے ساتھ ملادے اور خدا کی ہستی کے بارے میں یقین کے درجے تک پہنچادے اور خدا کی عظمت اور ہیبت کو دل میں بٹھا کر گناہ کے ارتکاب سے روک دے ورنہ ہم ایسی کتاب کو کیا کریں جونہ دل کا گند دور کر سکتی ہے اور نہ ایسی پاک اور کامل معرفت بخش سکتی ہے جو گناہ سے نفرت کرنے کا موجب ہوسکے۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23، صفحہ306)

’’اے لوگو! تم یقینا ًسمجھو کہ میرے سا تھ وہ ہاتھ ہے جو اخیروقت تک مجھ سے وفا کرے گا۔ اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہوجائیں۔ تب بھی خداہرگز تمہاری دعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرلے۔ اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں۔ پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو۔ کاذبوں کے اور منہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور۔ خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا۔ میں اس زندگی پر لعنت بھیجتا ہوں جو جھوٹ اور افتراء کے ساتھ ہو…‘‘

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17، صفحہ 50)

’’اے ہم وطنو! وہ دین دین نہیں ہے جس میں عام ہمدردی کی تعلیم نہ ہو اور نہ وہ انسان انسان ہے جس میں ہمدردی کا مادہ نہ ہو۔ ہمارے خدا نے کسی قوم سے فرق نہیں کیا سب کے لئے خدا کی زمین فرش کا کام دیتی ہے اور سب کے لئے اس کا سورج اور چاند اور کئی ستارے روشن چراغ کا کام دے رہے ہیں۔ دوسری خدمات بجا لارہے ہیں …پس یہ اخلاق ربانی ہمیں سبق دیتے ہیں کہ ہم بھی اپنے بنی نوع انسانوں سے مروت اور سلوک کے ساتھ پیش آویں۔ اور تنگ دل اور تنگ ظرف نہ بنیں۔ دوستو! یقینا ًسمجھو کہ اگر ہم دونوں قوموں میں سے کوئی قوم خدا کے اخلاق کی عزت نہیں کرے گی اور اس کے پاک خلقوں کے خلاف اپنا چال چلن بنائے گی۔ تو وہ قوم جلد ہلاک ہوجائے گی اور نہ صرف اپنے تئیں بلکہ اپنی ذریت کو بھی تباہی میں ڈالےگی جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے تمام ملکوں کے راستباز یہ گواہی دیتے آئے ہیں کہ خدا کے اخلاق کا پیرو ہونا انسانی بقاء کے لئے ایک آب حیات ہے۔ اور انسانوں کی جسمانی اور روحانی زندگی اس امر سے وابستہ ہے کہ وہ خدا کے تمام مقدس اخلاق کی پیروی کریں جو سلامتی کا چشمہ ہیں۔‘‘

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد23، صفحہ439تا440)

خدا مغفرت کرے جس نے آپ کی شان میں کہاہےکہ

حسن و جمالِ یوسفی، شانِ جلالِ موسوی

نفحِ مسیح ناصری، خلق و شیم محمدی

ملہم و نیز منطقی، عاشق و نیز فلسفی

رنگ کمال ہر نبی، سحر قلم ادا نئی

(استفادہ ازمضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ۔ مولانا جلال الدین شمس صاحب، پروفیسر محبوب عالم خالد صاحب بی اے آنرز۔ ایم اے(پنجاب)ایم اے (ناگپور)، خورشید احمد صاحب لاہور۔ محترم مولانا محمد طاہر ندیم صاحب عربی ڈیسک لندن، مطبوعہ اخبار الفضل، قادیان، ربوہ و لندن)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button