سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

ذکر حبیب

(‘اے اے امجد’)

(سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرتِ مبارکہ سے چند متفرق واقعات)

’’انسان کی ہمدردی میرافرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بد عملی اور ناانصافی اور بد اخلاقی سے بیزاری میر اصول‘‘ (اربعین نمبر 1، روحانی خزائن جلد 17صفحہ344)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کادل محبت وشفقت سے لبریز اور ایسا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا جس سے چھوٹا ہویا بڑ ا، مرد ہویاعورت، غلام ہو یا آقا سب نے ہی فیض پایا۔ اپنوں کے علاوہ غیروں نے بھی ا ن شفقتوں سے حصہ پایا۔ انسانی ہمدردی اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار اس بابرکت وجود کو دشمن نے نقصان پہنچانے کی ہر کوشش کی۔ آپ کو اپنے عظیم مشن میں ناکام بنانے کے لیے بے شمار سازشیں کی گئیں اور خوفناک منصوبے بنائے گئے لیکن امن اور محبت کے اس عظیم سفیرنے ہر مرحلہ پر نہ صرف اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا بلکہ ان کی روحانی اور اخلاقی زندگی کے لیے کو شش اور دعائیں بھی کیں۔ ہمدردی خلق، غیرت ایمانی اور دیگر بے شمار ایمان افروز واقعات آپ کی حیات طیبہ میں ملتے ہیں۔

اس کے علاوہ آپ مختلف مواقع پر اپنے صحابہ کے ساتھ مجالس میں رونق افروز ہوتے۔ آپ کی یہ مجالس علم وعرفان کا بحر ذخار ہیں جن میں آپ کے خوش قسمت صحابہؓ شامل ہوکر اپنے دامن کو حکمت کے موتیوں سےبھر تے۔ یہ وہ روح پرور مجالس تھیں جوہموم وغموم دور کرنے کا ذریعہ بھی تھیں۔ اسی طرح سیر کرتے ہوئے اور مختلف سفروں کےدوران بھی صحابہ آپ کی بابرکت صحبت سےفیض یاب ہوتے۔ پس کیا ہی پاکیزہ وہ بستی تھی اور وہ گلیاں اور راستے جن پر آسمانی مسیحا نے قدم رنجہ فرمائے اور برکت بخشی۔ وہ ایمان افروز مجالس جہاں انوار کی بارش ہوتی تھی ان کے چند واقعات بطور مشتے نمونہ از خروارے پیش ہیں۔

اخلاق حسنہ کی جھلک

حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ کی روایت ہے :

’’حضر ت اقدس مسیح موعودؑ کے اخلاق حسنہ کا یہ حال تھا کہ قادیان کے جو لوگ ہر وقت آپ کے خلاف دشمنی کرنے میں مصروف رہتے تھے اور کوئی دقیقہ فروگذاشت کرنا نہ چھوڑتے تھےوہ بھی جب آپ کے آستانہ پر آئے اور دستک دی تو میں نےدیکھا کہ آپ ننگے سر ہی تشریف لے آئے اور دیکھتے ہی نہایت تلطف اور مہربانی سے اس کے سلام کا جواب دے کر پوچھتے آپ اچھے تو ہیں اور اس کے سارےگھر کا حال پوچھ کر پھرآپ فرماتے آپ کیسے آئے۔ پھر وہ اپنی ضرروت کو پیش کرتاتو آپ اس کی ضرورت سے زیادہ لاکر دیتے اور فرماتے اگر اور ضرورت ہوتو اور لے جائیں۔

ایک دفعہ کاذکر ہے قادیان کا ایک ہندو آیا اور اس نے آپ کو ایک لڑکی کی معرفت بلوایا۔ جب آپ دروازہ میں تشریف لائے تو اس نے سلام کرکے آپ سے ایک دوائی طلب کی۔ آپ نے فرمایا ہاں ہے میں اس کو ایسی ہی ضرورت کے لیے منگواکر رکھ لیتاہوں۔ تاضرورت کے وقت کام آجائے۔ فرمایا آپ شیشی لائے۔ اس نے کہا میں لے آتا ہوں۔ آپ نے فرمایانہیں میں شیشی لے آتا ہوں۔ حکیم صاحب سے کہیں جتنی ضرورت ہو لےلیں۔ پھر شیشی دے جائیں۔ یہ تھے آپ کے اخلاق میرے دوستو۔ دوستوں سے تو ہر شخص محبت کیا ہی کرتا ہے۔ مگر دشمنوں سے محبت کرنی یہ اخلاق ہے۔ اخلاق ہی سے انسان خدائے ذوالجلال کا مظہر بھی بن سکتاہے۔ اگرا نسا ن میں اخلاق ہی نہیں وہ انسان کہلانے کا مستحق ہی نہیں۔ میرے دوستوحضرت اقدس مسیح موعودؑکے اخلاق ہی تھےجن کو میں سن کر آپ پر فداہوگیا تھا اور جب یہاں آکر اپنی آنکھوں سےآپ کے پاک اخلاق دیکھے تو میں آپ ہی کا ہورہا۔ ‘‘

(الحکم 7؍نومبر 1940ء)

محصول دے کر گالیوں کا حصول

حضرت سیدعزیز الرحمٰن بریلویؓ کی روایت ہے:

’’ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان کے ایک شخص نے جو مخالف تھا۔ ہمارے کچھ گڈے جن پر کوئی چیز لدی ہوئی تھی چھین لی اور گالیاں بھی دیں۔ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ (ناناجان )کو اس پر بڑا غصہ آیا۔ وہ چاہتےتھے کہ اس مخالف کو سزادیں لوگوں نے کہا کہ اگر حضرت صاحب اجازت دےدیں تو ہم ابھی معاملہ درست کرلیں گے۔ حضرت میر صاحب غصے کی حالت میں حضرت اقدس کے حضور گئے اور سارا واقعہ بتلایا اور عرض کی کہ ہم ان سے بدلہ لیناچاہتے ہیں۔ حضرت اقدس اس وقت ایک خط ملاحظہ فرمارہے تھےجو بیرنگ آیاتھا۔ وہ گالیوں سے بھرا ہوا تھا وہ خط حضور نے میر صاحب کو دکھایا اور فرمایا کہ لوگ ہم کو لفافے بھر بھر کے گالیاں دیتے ہیں (چونکہ وہ لفافےبیرنگ ہوتے تھے) اور ہم محصول ادا کرکے گالیاں مول لیتے ہیں۔ آپ سے بغیر پیسے کے بھی گالیاں نہیں لی جاتیں۔

اس طرح سےحضر ت میر صاحب کابھی غصہ جاتا رہا اور وہ حضور کے بلند اخلاق کو دیکھ کر حیران ہوگئے۔ ‘‘

(الحکم قادیان 14؍دسمبر 1934ء)

اپنے احباب کی عزت افزائی

حضرت سید عبدالستار شاہ صاحبؓ (المعروف بزرگ صاحب ) بیان کرتےہیں :

’’کرم دین کے مقدمہ سے واپسی پر حضور نے بعض کوحکم دیا کہ تم چھینہ سٹیشن پراتر کر قادیا ن پہنچو اور بعض کو یکوں پر آنے کا حکم دیا اور بعض کو گڈو ں کے ساتھ آنے کا حکم دیا۔ میں پید ل روانہ ہوگیانہر کے قریب جب ہم پہنچے تو حضور کا رتھ نظر آیا۔ حضور قضائے حاجت کے لیے گئے ہوئے تھے۔ جب حضور واپس آرہے تھے تو ہم نے سوٹے پرچادر تان کر حضور کے لیے سایہ کردیا اور حضور سایہ میں چلنے لگے۔ حضور نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ تم پید ل آرہے ہو۔ تم کو یکہ پر سوار ہونا چاہئے۔ میں نے عرض کی حضو ر میں پیدل چل سکتا ہوں۔ نہر کے دوسری طرف خلیفہ اول اور بہت سے صحابہ یکوں پر انتظار کررہے تھے۔ حضرت خلیفہ اول کو جب یہ معلوم ہوا کہ حضور نے ایسا فرمایاہے تو حضور نے مجھے بلایا اور حکم دیا کہ یکے پر بیٹھو اور فرمایا کہ تمہیںلازماً بیٹھنا پڑےگا۔ چنانچہ میں بیٹھ گیا۔ ‘‘

(الحکم مارچ1953ء)

ایک شفیق دل

حضرت مرزا خدا بخش صاحبؓ کی روایت ہے :

’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ پسرم عطاء الرحمان جو چند ماہ کا بچہ تھا پیٹ کے درد سے بیمار ہوگیا اور سخت روتا تھااور چونکہ حضور نے پاس کے ملحق مکان میں ہم کو جگہ دے رکھی تھی اس لیے اس کے رونے کی آواز کو بذات خود آنجناب نے سن پایا۔ ا سی وقت اس خادم کو آواز دی کہ بچہ کیوں روتا ہےمیں نے عرض کی یا حضرت اس کے پیٹ میں درد معلوم ہوتا ہے فرمایاکہ ٹھہرو ہم دوائی لادیتے ہیں ۔میں بہت دیر تک انتظار کرتارہا۔ حضرت تشریف نہ لائےآخر میں تھک کر لیٹ رہااور یہی خیال کیاکہ شاید کثرت کار کی وجہ سے بھول گئےہوں گےدو اڑھائی گھنٹہ کےبعد حضرت اقدس نےپھر آواز دی عاجز فوراًدوڑتا ہوا حاضر ہوا تو اوّل نہایت افسوس کا اظہار کیا اور پھر فرمایا کہ میں اس وقت سے صندوقوں سے دوائیں تلاش کرتا رہا ایک دوائی نہیں ملتی تھی آخر ناامیدی کے بعد ایک صندوق سے مل گئی اور اب کل اجزاء ملاکر لایاہوں میں سن کر بہت متعجب بھی ہوا اور شرمندہ بھی ہوا کیونکہ میں کبھی بھی اس قسم کی تکلیف گوارا نہیں کرسکتا تھاخواہ کتنا ہی کوئی عزیز درد سے چلارہا ہواور تعجب یہ کہ موسم سخت گرمی کاتھااور صندوق کل مکان کے اندر سب کے سب مقفل تھے۔ ایسی سخت گرمی میں مکان کے اندر دواڑھائی گھنٹہ تک رہنا اور لیمپ کی گرمی کا علاوہ ہونا اور پھر ہر صندوق کے قفل کو کھولنا اور ایک ایک شیشی تلاش کرکے نسخہ تیار کرنا ہر ایک انسان کاکام نہیں۔

یہ صرف اس ہمدرد قوم کا خاصہ ہےکہ ماں باپ سے بھی زیادہ بلا کسی طمع دنیاوی کے شفقت اور مہربانی کرتے ہیں کیا کسی انسان میں ایسی ہمدردی پائی جاتی ہے۔‘‘

(عسل مصفیٰ صفحہ 785مؤلفہ مرز اخدابخش صاحب طبع اول اپریل 1901ءمطبع اسلامیہ لاہو ر)

بنفس نفیس خدمت

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

’’آپ اکرام ضیف کی نہ صرف تاکیدفرمایاکرتےتھےبلکہ عملاً اس کا سبق دیاکرتے۔ بارہا ایسا ہوا کہ جب کوئی مہمان آیا۔ توآپ بہ نفس نفیس اس کے لیے موسم کے لحاظ سے چائے یالسی وغیرہ خود اٹھاکر بے تکلفی سے آتےاو راصرار کرکے پلایا۔ ایسا بھی ہوتا کہ کوئی دوست قادیان سے ایام اقامت پورے کرکے رخصت ہوتا تو آپ اس کے لیے راستہ کے لیے ناشتہ وغیرہ لے کر آجاتے۔ یا موسم کے لحاظ سے دودھ وغیرہ لے کر آتے۔‘‘

(الحکم قادیان 7؍مارچ 1940ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :

’’انسان کی ہمدردی میرافرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بد عملی اور ناانصافی اور بد اخلاقی سے بیزاری میر اصول‘‘

(اربعین نمبر 1، روحانی خزائن جلد 17صفحہ344)

حضرت مسیح موعودؑ کی ہمدردی عامہ کا سب سے بڑا اور عام مظاہرہ یہ تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ہر شخص کے لیے جو آپ کولکھتا دعا کرتے اور ان دعاؤں کے متعلق آپ کا جو معمول تھا وہ حیرت انگیز تھا۔ چنانچہ حضورؑ نے ایک مجلس میں بعض لوگوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا :

’’جو خط آتا ہے میں اسے پڑھ کر اس وقت تک ہاتھ سے نہیں دیتا جب تک دعا نہ کرلوں کہ شاید موقع نہ ملے یا یاد نہ رہے۔‘‘

دوسروں کی ہمدردی اور خیر خواہی کے لیے حضرت مسیح موعودؑ اپنے وقت کا بہت سا حصہ ارد گرد کی دیہات کی گنوار عورتوں اور بچوں کے علاج میں دے دیا کرتے تھے اور دوسرے کام چھوڑکر بھی ا س طرف توجہ کرتے۔

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی تراب صاحب)

حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ تحریر کرتے ہیں :

’’فراغت کے بعد میں نے عرض کیا حضرت یہ تو بڑا زحمت کا کام ہے اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع ہوجاتا ہے۔

اللہ اللہ کس نشاط اور طمانیت سے مجھے جواب دیتے ہیں کہ

’’یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے یہ مسکین لوگ ہیں یہاں کوئی ہسپتال نہیں میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوارکھاکرتا ہوں جو وقت پر کام آجاتی ہیں۔‘‘

اور فرمایا:

’’یہ بڑا ثواب کاکام ہے مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پرواہ نہ ہونا چاہئے۔‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ مصنفہ مولانا عبدالکریم صاحب صفحہ35)

غرباء اور سائلین سے شفقت

حضرت صاحبزادہ مرز ابشیرا حمد صاحبؓ کی روایت ہے :

’’اب ذرا غریبوں اور سائلوں پر شفقت کا حال بھی سن لیجئے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کے گھر میں کسی غریب عورت نے کچھ چاول چرالیے۔ لوگوں نے اسے دیکھ لیا اور شور پڑگیا۔ حضرت مسیح موعودؑ اس وقت اپنے کمرے میں کام کررہے تھے شور سن کر باہر تشریف لائے تو یہ نظا رہ دیکھا کہ ایک غریب خستہ حال عورت کھڑی ہے اور اس کے ہاتھ میں تھوڑے سے چاولو ں کی گٹھڑی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کو واقعہ کاعلم ہوا اور اس غریب عورت کا حلیہ دیکھا تو آپ کا دل پسیج گیا۔ فرمایایہ بھوکی اورکنگال معلوم ہوتی ہےاسے کچھ چاول دے کر رخصت کردو اور خدا کی ستاری کا شیوہ اختیار کرو۔‘‘

(سیرت طیبہ صفحہ 71)

بے مثل اکرام ضیف

حضر ت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

’’جب میں 1901ءمیں ہجرت کرکے قادیان چلاآیا اور اپنی بیوی بچوں کو ساتھ لایا۔ اس وقت میرے دو بچے محمدمنظور عمر 5سال عبدالسلام عمر ایک سال تھے۔ پہلے توحضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے وہ کمرہ رہنے کے واسطے دیا جو حضورکے اوپر والے مکان میں حضور کے رہائشی صحن اور کوچہ بندی کے اوپر والے صحن کے درمیان تھا۔ اس میں صرف دو چھوٹی چارپائیاں بچھ سکتی تھیں۔ چند ماہ ہم وہاں رہے اور چونکہ ساتھ ہی کے برآمدہ اور صحن میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام مع اہل بیت رہتے تھے۔ ا س واسطے حضرت مسیح موعودؑ کے بولنے کی آوازسنائی دیتی تھی۔

ایک شب کا ذکر ہے کہ کچھ مہمان آئے جن کے واسطے جگہ کے انتظام کے لیے حضرت ا م المومنین حیران ہورہی تھیں کہ سارامکان تو پہلے ہی کشتی کی طرح پُر ہے۔ اب ان کو کہاں ٹھیرایاجائے۔ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اکرام ضیف کا ذکر کرتے ہوئے حضر ت بیوی صاحبہ کو پرندوں کا ایک قصہ سُنایا۔ چونکہ میں بالکل ملحقہ کمرے میں تھااور کواڑوں کی ساخت پُرانے طرز کی تھی جن کے اندر سے آواز بآسانی دوسری طرف پہنچتی رہتی ہے، اس واسطے میں نے اس سار ے قصہ کوسُنا۔

فرمایا :دیکھو ایک دفعہ جنگل میں ایک مسافر کو شام ہوگئی۔ رات اندھیری تھی۔ قریب کوئی بستی اُسےدکھائی نہ دی اور وہ ناچار ایک درخت کے نیچے رات گذارنے کے واسطے بیٹھ رہا۔ اُس درخت کے اوپر ایک پرندے کا آشیانہ تھا۔ پرندہ اپنی مادہ کے ساتھ باتیں کرنے لگا کہ دیکھو یہ مسافر جو ہمار ے آشیانہ کے نیچے زمین پر آبیٹھاہے یہ آج رات ہمارا مہمان ہے اورہمار ا فرض ہے کہ اس کی مہمان نوازی کریں۔ مادہ نے اس کے ساتھ اتفاق کیااور ہر دو نے مشورہ کرکے یہ قرار دیا کہ ٹھنڈ ی رات ہےاور اس ہمارے مہمان کو آگ تاپنے کی ضرورت ہے۔ اور تو کچھ ہمارے پاس نہیں ہم اپنا آشیانہ ہی توڑ کر نیچے پھینک دیں تاکہ وہ ان لکڑیوں کو جلاکر آگ تاپ لے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور سارا آشیانہ تنکا تنکا کرکے نیچے پھینک دیا۔ اس کو مسافر نے غنیمت جانااور اُن سب لکڑیو ں کو، تنکوں کو جمع کرکے آگ جلائی اور تاپنے لگا۔ تب درخت پر اس پرندوں کے جوڑے نے پھر مشورہ کیا کہ آگ تو ہم نے اپنےمہمان کو بہم پہنچائی اور اُس کے واسطے سینکنےکاسامان مہیا کیا اب ہمیں چاہئے کہ اُسے کچھ کھانے کو بھی دیں اور تو ہمارے پاس کچھ نہیں ہم خود ہی اس آگ میں جاگریں اور مسافر ہمیں بھون کر ہمار ا گوشت کھالے۔ چنانچہ اُن پرندوں نے ایسا ہی کیا اور مہمان نوازی کا حق ادا کیا۔‘‘

(ذکر حبیب صفحہ67تا68)

مہمانوں کی تواضع

’’حضر ت صاحبؑ مہمانوں کی خاطرداری کا بہت اہتمام رکھا کرتے تھے۔ جب تک تھوڑے مہمان ہوتے تھے۔ آپ خود ان کے کھانے اور رہائش وغیرہ کا انتظام کیاکرتےتھے۔ جب مہمان زیادہ ہونے لگے تو خدام حافظ حامد علی صاحب، میاں نجم الدین صاحب وغیرہ کو تاکید فرماتے رہتے تھےدیکھو مہمانوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ اُن کی تمام ضروریات خورونوش ورہائش کا خیال رکھا کرو بعض مہمانوں کو تم شناخت کرتےہوبعض کو نہیں کرتے۔ اس لیے مناسب ہےکہ سب کوواجب الاکرام جان کر اُن کی تواضع کرو۔ سردی کے ایام میں فرمایا کرتے۔ مہمانوں کو چائے پلاؤ۔ ان سب کی خوب خدمت کرو۔ اگر کسی کو علیحدہ کمرے یامکان کی ضرورت ہو تو اس کا انتظام کردو۔ اگر کسی کو سردی کاخوف ہوتو لکڑی یاکوئلہ کا انتظام کردو۔‘‘

(ذکر حبیب صفحہ153)

غیرت ایمانی

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی روایت ہے کہ

’’بنوں کے مشہور مشنری ڈاکٹر پینل کے ذریعہ سے وہاں کے ایک مسلمان گل محمد نام عیسائی ہوگئے تھے۔ یہ گل محمد صاحب 1902ءیا 1903ء میں ایک دفعہ قادیان بھی آئے۔ ان کا طرز گفتگو گستاخانہ اور بے باکانہ تھا۔ وہ چاہتے تھےکہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے مباحثہ کے رنگ میں کچھ لمبی گفتگو کریں۔ مگرحضرت صاحب نے اس کی طرف متوجہ ہونا اور اس کو مُنہ لگانا پسندنہیں کیا۔ اور اس کے ساتھ گفتگو کےوقت اس کو صرف گل محمد سے مخاطب کرتے تھے۔ جس پر وہ ناراض ہوا اور کہا کہ سب مجھے مولوی گل محمد کہا کرتے ہیں۔ آپ بھی مجھے ایسا ہی کہیں۔ حضر ت صاحب نے فرمایا۔ مولوی ایک عزت کا لفظ علماء اسلام کےواسطے مخصوص ہے۔ میں آپ کو مولوی نہیں کہہ سکتا۔ عاجز راقم اس کے ساتھ بہت دیرتک مذہبی گفتگو کرتا رہا۔ اور حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ سےبھی اس کی گفتگو ہوئی۔ جب وہ قادیان سے چلاگیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےایک رؤیامیں دیکھاکہ وہی گل محمداپنی آنکھوں میں سرمہ ڈال رہاہے۔ اس کےبہت عرصہ بعد سُنا گیا تھا۔ کہ ڈاکٹر پینل کے مرنے کے بعد دُوسرے پادریوں نے اس گل محمد کو مشن ہاؤ س سےاس الزام میں نکال دیا تھا کہ وہ باوجو دعیسائی ہونے کے حضرت محمدﷺ کو بھی خدا کانبی مانتاتھا۔‘‘

(ذکر حبیب صفحہ313)

یورپ مسلمان ہوگیا ہے

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی روایت ہے :

’’غالباً 1898-1897ء کا ذکر ہے ایک دفعہ میں لاہور سے قادیان آیا ہوا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس حضور کے اندر کے کمرے میں بیٹھا تھا کہ باہر سے ایک لڑکا پیغام لایاکہ قاضی آل محمد صاحب آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک نہایت ضروری پیغام لا یا ہوں، حضور خود سن لیں۔ حضورؑ نے مجھے بھیجا کہ ان سے دریافت کرو کہ کیا بات ہے۔ قاضی صاحب سیڑھیوں میں کھڑے تھے۔ میں نے جاکر دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے حضرت مولوی محمد احسن صاحب نے بھیجا ہے۔ ایک نہایت ہی عظیم الشان خوشخبری ہے اور خود حضر ت صاحبؑ کو ہی سنانی ہے۔ میں نے پھر جاکر عرض کیا کہ وہ ایک عظیم الشان خوشخبری لائے ہیں اور صرف حضورؑ کو ہی سنانا چاہتے ہیں۔ حضورؑ نے فرمایا کہ آپ پھر جائیں اور انہیں سمجھائیں کہ اس وقت مجھے فرصت نہیں۔ وہ آپ کو ہی سنادیں اور آپ آکر مجھے سنادیں۔ میں نے حکم کی تعمیل کی اور قاضی آل محمدصاحب کو سمجھایا کہ وہ خوشخبری مجھے سُنادیں میں حضرت صاحب کو سنادیتا ہوں۔ تب قاضی صاحب نے ذکر کیا کہ ایک مولوی کا مباحثہ حضرت مولوی محمد احسن صاحب کے ساتھ تھا اور اس مولوی کوخوب پچھاڑااور لتاڑا گیا اور شکست فاش دی گئی۔ میں نے آکر یہ خبر حضرت صاحبؑ کے حضور عرض کی۔ حضورؑ نے تبسم کرتےہوئے فرمایا ’’میں نے سمجھا کہ یہ خبر لائے ہیں کہ یورپ مسلمان ہوگیاہے۔‘‘

اس سے ظاہر ہے کہ حضورؑ کے نزدیک سب سے بڑی خوشخبری اس میں تھی کہ بلاد کفر میں اسلام پھیل گیا ہے۔

(ذکر حبیب صفحہ 41تا42)

شعائر اللہ کااحترام

حضر ت مفتی صاحبؓ کی روایت ہے :

’’گورداسپور میں ایک دفعہ مغرب کے بعد ایک خادم چارپائی ایسے طرز پر بچھانے لگا جس سے پائنتی قبلہ کی طرف ہوتی تھی۔ حضرت صاحب نے اس کو سختی سے منع فرمایا۔ حضورؑ خود کبھی قبلے کی طرف پاؤں نہیں کرتے تھےاور دوسروں کوبھی اس سے روکتے تھے۔

گورداسپورکاواقعہ ہے۔غالباً1902ءیااس کے قریب ہوگا۔ کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک کاغذ پر قرآن شریف کی چند آیات بطور حوالہ کے لکھی گئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد کسی دوائی کی پڑیا بنانے کے لیے جو کاغذ کی ضرورت ہوئی۔ تو حاضرین میں سے کسی نے وہی کاغذ اُٹھایا۔ اس پر حضرت صاحبؑ ناراض ہوئے اور فرمایاکہ قرآن شریف کی آیات کوپڑیا ں بنانےمیں استعمال نہ کرو۔ یہ بےادبی ہے۔‘‘

(ذکر حبیب صفحہ314)

معجزہ نمائی

حضرت مسیح موعودؑ فرمایاکرتے تھے:

’’ہم خداتعالیٰ کے فضل سے دعویٰ کرتے ہیں او ر اسی لیے خداتعالیٰ نےہمیں مبعوث کیا ہے کہ قرآن کریم میں جس قدر معجزات اور خوارق انبیا ء کے مذکور ہوئے ہیں۔ ان کو خود دکھاکر قرآن شریف کی حقانیت کاثبوت دیں۔ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر دنیاکی کوئی قوم اپنی کوششوں سےہمیں آگ میں ڈالے یا کسی اور خطرناک عذاب اور مصیبت میں مبتلا کرنا چاہے تو خداتعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق ضرور ہمیں محفوظ رکھے گا لیکن اس کےیہ معنے نہیں کہ ہم خود آگ میں کودتےپھریں۔ یہ طریق انبیاء کا نہیں۔ ‘‘

’’قرآن میں جس قدر معجزات مذکور ہیں۔ ہم ان کے دکھانے کو زندہ موجود ہیں۔ خواہ قبولیت دعاکے متعلق ہوں خواہ اور رنگ کے۔ معجزہ کے منکر کا یہی جواب ہےکہ اُس کو معجزہ دکھایاجائے۔ اس سے بڑھ کر اورکوئی جواب نہیں ہوسکتا۔‘‘

(ذکر حبیب صفحہ152)

خطبہ الہامیہ کا عظیم الشان نشان

1900ءمیں عید الاضحی کے موقع پر خطبہ الہامیہ کا عظیم الشان نشان ظاہرہوا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :

’’اس سال عید الاضحیہ کے موقع پر جو حج کے دوسرے دن ہوتی ہے الہام الٰہی کےماتحت ایک تقریر آپ نے فی البدیهہ عربی زبا ن میں کی۔ اُس وقت ایک عجیب حالت آپ پر طاری تھی اور آپ کاچہرہ سرخ ہورہا تھااور چہرہ سے نور ٹپکتا تھا اور نہایت پُر رعب وہیبت حالت تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسےغنودگی کےعالم میں ہیں۔ یہ تقریرایسی لطیف اور اس کی زبان ایسی بے مثل ہے کہ بڑے بڑے عربی دان اس کی نظیر لانے سےقاصر ہیں اور اس کے اندر ایسے ایسے حقائق ومعارف بیان ہوئے ہیں کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔‘‘

(سیرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ46 مصنفہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ)

مقدمہ کرم دین اور انبوہ عظیم

1902ءکے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک شخص کرم دین نے ازالہ عرفی کا مقدمہ کیا اور جہلم کے مقام پر حاضر ہونے کے لیے آپ کے نا م سمن جاری ہوا۔ چنانچہ آپ جنوری 1903ءمیں وہاں تشریف لےگئے۔ یہ سفر آپ کی کامیابی کےشروع ہونے کا پہلا نشان تھاکہ گو آپ ایک فوجداری مقدمہ کی جواب دہی کے لیے جارہےتھےلیکن پھر بھی لوگوں کے ہجوم کایہ حا ل تھا کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں ہوسکتا۔ جس وقت آپ جہلم کے سٹیشن پر اُترےہیں اُس وقت وہاں اس قدر انبوہ کثیر تھا کہ پلیٹ فار م پر کھڑا ہونے کی جگہ نہ رہی تھی بلکہ اسٹیشن کے باہر بھی دورویہ سڑکوں پر لوگوں کی اتنی بھیڑ تھی کہ گاڑی کا گزرنا مشکل ہوگیا تھاحتٰی کہ افسران ضلع کو انتظا م کے لیے خاص اہتمام کرنا پڑااور غلام حیدر صاحب تحصیلدار اس اسپیشل ڈیوٹی پر لگائے گئے۔ آپ حضرت صاحب کے ساتھ نہایت مشکل سےراستہ کراتے ہوئے گاڑی کولے گئےکیونکہ شہر تک برابر ہجوم خلائق کے سبب راستہ نہ ملتا تھا۔ اہل شہر کے علاوہ ہزاروں آدمی دیہات سے بھی آپ کی زیارت کے لیےآئے تھے۔ قریباًایک ہزار آدمی نے اس جگہ بیعت کی اور جب آپ عدالت میں حاضر ہونے کے لیے گئےتو اس قدر مخلوق کا رروائی سننے کے لیےموجود تھی کہ عدالت کو انتظام کرنا مشکل ہوگیا۔ دور میدان تک لوگ پھیلے ہوئے تھے۔ پہلی ہی پیشی میں آپ بری کئےگئے اور مع الخیر واپس تشریف لےآئے۔‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ مصنفہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ صفحہ48)

ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبۂ زارونزار

مقدمہ کرم دین کے حوالے سے سیدنا حضر ت مصلح موعودؓ نے ایک ایمان افروز واقعہ تحریر فرما یاہے :

’’دوران مقدمہ میں ایک میجسٹریٹ کی نسبت مشہور ہوا کہ اس کے ہم مذہبوں نےکہا ہے کہ مرز اصاحب اس وقت خوب پھنسےہوئے ہیں، ان کو سزا ضرور دو خواہ ایک دن کی قید کیوں نہ ہو۔ جن دوستوں نے یہ بات سنی سخت گھبرائے ہوئےآپ کے پاس حاضر ہوئے اور نہایت ڈرکر عرض کیاکہ حضور ہم نے ایسا سناہے۔ آپ اس وقت لیٹے ہوئے تھےیہ بات سنتےہی آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور ایک ہاتھ کے سہارےسے ذرا اُٹھ بیٹھےاور اُٹھ کر بڑےزور سےفرمایا کہ کیاوہ خداتعالیٰ کے شیر پر ہاتھ ڈالنا چاہتا ہے؟ اگر اُس نے ایسا کیاتو وہ دیکھ لےگاکہ اس کاانجام کیاہوتا ہے۔ نہ معلوم یہ خبر سچی ہےیاجھوٹی لیکن اس میجسٹریٹ کو انہی دنوں وہاں سے بدل دیاگیااور باوجود کوشش کےفوجداری اختیارات اُس سےلےلیےگئےاورکچھ مدت کے بعد اُس کاعہدہ بھی کم کردیاگیا۔‘‘

(سیرت مسیح موعود علیہ السلام مولفہ سیدنا حضر ت مرزا بشیر الدین محمود احمد صفحہ50)

سفرلاہور اور سیالکوٹ لیکچر او ر ہجوم خلائق

1904ءمیں حضر ت مسیح موعود علیہ السلام لاہور تشریف لےگئے۔ اس سفر میں بھی چاروں طرف سے لوگ آپ کی زیار ت کے لیےجوق در جوق آئے اوراسٹیشن پرتل دھرنے کو جگہ نہ تھی اور اس تمام عرصہ میں ایک شور پڑ ا رہا۔ اس کے بعد آپ اکتوبر 1904ءمیں سیالکوٹ تشریف لےگئے کیونکہ وہاں کے دوستوں نے باصرار وہاں تشریف لے جانےکی درخواست کی تھی۔ اس سفر کا احوال بیان فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ لکھتےہیں :

’’یہ سفر بھی آپ کی کامیابی کا بین ثبوت تھا کیونکہ ہرا یک اسٹیشن پرآپ کی زیارت کے لیے اس قدر مخلوق آتی تھی کہ اسٹیشن کے حکام کو انتظام کرنامشکل ہوجاتا تھا اورلاہور کے اسٹیشن پر توا س قدر ہجوم ہوا کہ پلیٹ فارم ٹکٹ ختم ہوگئے اور اسٹیشن ماسٹر کو بلاٹکٹ ہی لوگوں کو اندر آنے کی اجازت دینی پڑی۔ جب آپ سیالکوٹ پہنچے تو اسٹیشن سے آپ کی قیام گاہ تک جو میل بھر کے فاصلہ پر تھی، برابر لوگوں کا ہجوم تھا۔ شام کے وقت ٹرین اسٹیشن پر پہنچی تو سواری گاڑیوں میں چڑھتے چڑھاتے دیر لگ گئی اور آپ کی گاڑی ابھی تھوڑی ہی دور چلنے پائی تھی کہ اندھیرا ہوگیا۔ ہجوم خلائق کے سبب اور رات کے پڑ جانے سےاندیشہ ہوا کہ کہیں بعض لوگ گاڑیوں کے نیچے نہ آجائیں چنانچہ پولیس کو اس بات کا خاص انتظام کرنا پڑ اکہ آپ کے آگے آگےراستہ صاف رہے۔ سیالکوٹ کے ایک رئیس اور آنریری میجسٹریٹ پولیس کے ساتھ اس کام پر تھے۔ اُن کو بڑی مشکل اور سختی سےراستہ کرانا پڑ تا تھا اور گاڑی نہایت آہستہ آہستہ چل سکتی تھی۔ گاڑی کی کھڑکیاں کھول دی گئی تھیں۔ بازاروں اور گلیوں میں لوگ علاوہ دورویہ کھڑے ہونے کے، دکانوں کے برآمدے بھی بھرے ہوئے تھےاور بعض تو جگہ نہ ملنے کی وجہ سے کھڑکیوں کے چھجوں پر چڑھے بیٹھے تھے۔ تمام چھتوں پرہندوؤں اور مسلمانوں نے آپ کی شکل دیکھنےکے لیے ہنڈیاں اور لیمپ جلا رکھے تھے اور چھتیں عورتوں اورمردوں سے بھری پڑیتھیںجو آپ کی گاڑی کے قریب آنےپرمشعلیں آگے کرکر کے آپ کی شکل دیکھتے تھے اور بعض لوگ آپ پرپھُول پھینکتےتھے۔‘‘

(سیرت مسیح موعود علیہ السلام مولفہ سیدناحضرت مرز بشیر الدین محمود احمد صفحہ52)

دارالامان کی ایک شام

مخفی ایمان

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی روایت ہے کہ

’’14؍نومبر1901ءحضرت اقدس بعد از نماز مغرب حسب معمول بیٹھے تھے۔ ایک شخص پیش ہوا جو دل سے مسلمان ہوچکا تھا۔ مگر بعض وجوہات کےسبب سے بظاہر حالت کفر میں رہتا تھا۔ ا س پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا :

’’تم تقویٰ اختیا رکرو۔ خدا تمہاراکفیل ہوگا۔ اُس کاجو وعدہ ہے، وہ سب پورا کردےگا مخفی رہنا ایمان میں ایک نقص ہے۔ جو مصیبت آتی ہے۔ اپنی کمزوری سے آتی ہے۔ دیکھو آگ دوسروں کو کھاجاتی ہے۔ پر ابراہیم کو نہ کھاسکی۔ مگر خدا کی راہ بغیرتقویٰ کے نہیں کھلتی۔ معجزات دیکھنےہوں، تو تقویٰ اختیار کرو۔ ایک وہ لوگ ہیں۔ جو ہر وقت معجزات دیکھتےہیں۔ دیکھو آج کل میں عربی کتاب اور اشتہار لکھ رہا ہوں۔ اس کے لکھنےمیں میں سطر سطر میں معجزہ دیکھتاہوں۔ جبکہ میں لکھتا لکھتا اٹک جاتا ہوں، تو مناسب موقع فصیح وبلیغ پُرمعانی ومعارف، فقرات والفاظ الہام ہوتے ہیں اور اس طرح عبارتیں کی عبارتیں لکھی جاتی ہیں۔ اگرچہ میں اس کو لوگوں کی تسلی کے لیے پیش نہیں کرسکتا۔ مگر میرےلیے یہ ایک کافی معجزہ ہے۔

پچاس ہزا ر معجزہ

اگر میں اس بات پر قسم بھی کھا کر کہوں۔ مجھ سے پچاس ہزار معجزہ خدا نےظاہر کرایا۔ تب بھی جُھوٹ ہرگز نہ ہوگا۔ ہر ایک پہلو میں ہم پر خد اکی تائیدات کی بارش ہورہی ہے۔ عجیب تر اُن لوگوں کے دل ہیں۔ جو ہم کو مفتری کہتےہیں۔ مگر وہ کیاکریں۔ ولی راولی مے شناسد۔ کوئی تقویٰ کے بغیر ہمیں کیونکر پہچانے۔‘‘

(ذکر حبیب صفحہ 239)

بخار فوراً اُتر گیا

’’مئی 1904ء کا واقعہ ہےکہ قادیان میں طاعون تھااورکئی ایک ہندو اور غیر احمدی گھمار وغیرہ اس کا شکار ہوتے تھےکہ ایک دن مولوی محمد علی صاحب کو بخا ر ہوگیا۔ رفتہ رفتہ بخار کی شدت ایسی سخت ہوئی کہ مولوی صاحب نے گھبراکر یہ سمجھا کہ اُنہیں طاعون ہوگیا ہےاس واسطے اُنہوں نے مجھے بلایا تاکہ کچھ وصیت کی باتیں کریں۔ اُس وقت مولوی محمد علی صاحب اس کمرے میں رہتے تھے جو مسجد مبارک کے اُوپر کی چھت کے ہموار حضرت صاحبؑ کے مکان کے ایک کمرے کے اُوپر نیاکمرہ بنا ہوا تھا۔ یہ کمرہ ابتداءًمولوی محمدعلی صاحب کی خاطر ہی بنوایاگیا تھا جبکہ وہ لاہور سےقادیان چلےآئے تھے۔ اس کمرے کی ایک کھڑکی گول کمرے کے اُوپر کی چھت کی جانب جنوب پرکھلتی تھی جو مسجد مبارک کی چھت کےہم سطح اس وقت بنائی گئی تھی مگر بعد میں اُکھاڑ دی گئی۔ اُس کھڑکی کے پاس آکر بیٹھا۔ اندر مولوی صاحب پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے۔ ان کے بدن سےسخت تپش آرہی تھی۔ میں نے کھڑکی میں سےہاتھ اندر کرکےان کے بدن پر لگایا۔ تو بُخار بہت شدید معلوم ہوا۔ وہ وصیت کی باتیں کرنے لگے کہ انجمن کے رجسٹر کہاں ہیں اور روپیہ کہاں ہےمگر میں اُنہیں تشفی دیتا تھاکہ آپ گھبرائیں نہیں انشاء اللہ آرام ہوجائے گا۔ اسی اثناء میں اند ر کے راستے سےحضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے۔ آپ کے چہرہ پرتبسم تھا۔ اور آپ نے ایک جذبےکےساتھ اپنا ہاتھ مولوی محمد علی صاحب کے بازو پر مارااور ہاتھ کو اُٹھاکر نبض پر ہاتھ رکھا۔ اور فرمایا آپ گھبراتے کیوں ہیں۔ آپ کو تو بخار نہیں ہے۔ اگرآپ کو طاعون ہوجائےتو میرا سلسلہ ہی جھوٹا سمجھا جائے۔ چونکہ حضرت صاحب ایسا الہام شائع کرچکے تھے کہ اس گھر میں رہنے والے سب طاعون سے محفوظ رہیں گےسوائے اُن کےجومتکبر ہوں۔ اور مولوی محمدعلی صاحب اُس وقت گھر کے اندر رہتے تھےاس واسطےضرور تھا کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں طاعون سےمحفوظ رکھے۔

حضرت صاحبؑ کےایسافرمانے پر میں نےتعجب کےساتھ پھر کھڑکی میں سے ہاتھ بڑھایاتو دیکھا کہ فی الواقعہ بُخار اُترا ہوا تھااور اس کے بعد مولو ی صاحب کی طبیعت اچھی ہونے لگ گئی اور جلد تندرست ہوگئے۔‘‘

(ذکر حبیب صفحہ96)

تیرہ سوسال بعد ایک نبیؑ

حضرت مفتی صاحبؓ لکھتےہیں :

’’26؍دسمبر1907ءکی صبح کو حضرت اقدسؑ باہر سیر کےواسطےتشریف لےچلے۔ احباب جوق درجوق ساتھ ہوئے۔ عاشق پروانہ کی طرح زیارت کے واسطےآگے بڑھتے تھے۔ اس قدر ہجوم تھاکہ سیر کو جانامشکل ہوگیا تاکہ نوواردین مُصافحہ کرلیں۔ قریباًدو گھنٹہ تک آپ کھڑے رہےاور عشاق آگے بڑھ بڑھ کر آپ کا ہاتھ چومتے رہے۔ اس وقت کانظارہ قابل دید تھا۔ ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ سب سے پہلے میں آگےبڑھوں اور زیارت کروں۔ ایک دیہاتی دوسرےکو کہہ رہاتھا کہ اس بھیڑ میں سےزور کےساتھ اندر جا، اور زیارت کر اور ایسےموقع پر بدن کی بوٹیاں بھی اُڑجائیں تو پرواہ نہ کر۔ ایک صاحب بولےکہ لوگوں کو بہت تکلیف ہےاور خود حضرت ایسے گردوغبار میں اتنےعرصہ سےتکلیف کےساتھ کھڑےہیں۔ میں (مفتی محمد صادق)نےکہا۔ لوگ بیچارے سچے ہیں۔ کیا کریں تیرہ سوسال کے بعد ایک نبی کا چہرہ دنیا میں نظرآیاہے۔ پروانے نہ بنیں تو کیاکریں۔ اُس وقت خداتعالیٰ کی وہ وحی یاد آکر غالب او ر سچےخدا کے آگےسر جھک جاتا تھاجس میں آ ج سےپچیس سال پہلےکہاگیا تھا کہ لوگ دُور دُور سے تیرےپاس آویں گے۔ یہی بازار میدان تھےجن میں سےحضرتؑ اکیلے گزر جاتے تھے اور کوئی خیال نہ کرتا تھا کہ کون گیاہےاور یہی میدان ان ہزاروں آمیوں سے بھر گئے ہیں جو صرف اس کی پیاری صورت دیکھنےکے عاشق ہیں۔ کاش کہ اب بھی مخالفین سوچیں، اور غور کریں کیا یہ انسان کاکام ہے وہ ایسی بات اپنے پاس سےبنائے اور پھر وہ ایسےزور اور باوجود مخالفت کے پوری بھی ہوجائے۔‘‘

(ذکر حبیب صفحہ120)

غم دور کرنے کا ذریعہ

حضرت مفتی صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

’’عاجز راقم کااور اکثر احبا ب کا یہ تجربہ تھاکہ جب کبھی طبیعت میں کسی وجہ سےکوئی غم پید اہو تو ہم حضرت مسیح موعودؑ کی مجلس میں جابیٹھتےتو غم دُور ہوجاتا اورطبیعت میں بشاشت اور فرحت پیدا ہوجاتی‘‘

(ذکر حبیب صفحہ127)

ایک نان پَز کی حالت

’’حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے ایک دفعہ ایک باورچی کی حضرت صاحبؑ کی خدمت میں شکایت کی کہ کہ وہ روٹیاں چُراتا ہے۔ حضورؑ اس شکایت کو سُن کر خاموش ہورہے۔ گویا حضورؑ نے سُناہی نہیں۔ چند روز کے بعد حضرت میر صاحب مرحوم نے دوبارہ شکایت کی۔ تب بھی حضرت صاحبؑ خاموش رہےگویاکہ سُناہی نہیں۔ حضرت میر صاحب نے تیسری دفعہ پھر شکایت کی۔ تب حضرت صاحبؑ نے فرمایا میر صاحب یہ شکایت پہلےبھی آپ نے دودفعہ کی تھی اور میں نے اس کوسُنا ہے۔ آپ کوئی ایسا باورچی تلاش کریں جس پر آپ کوپورا یقین ہوکہ وہ چور ی نہ کرےگا۔ تب اس کو نکال کر اُس کو رکھ لیاجائے گا پھر فرمایا۔ دیکھو میر صاحب آج کل خودگرمی کاموسم ہے۔ ایسے میں تنور پر بیٹھنا، اور ہر ایک روٹی کےواسطےدودفعہ اس جہنم میں غوطہ لگانا نان پز کےواسطےضروری ہوتا ہے۔ اگر وہ ایسا ہی متقی ہوتا جیسا آپ کا خیال ہےکہ وہ ہو تو خداتعالیٰ اس کو ایسی جگہ کیوں بٹھاتا۔ حضرت میر صاحبؓ خاموش ہوگئے اور باہر آکر فرمانے لگےکہ میں نےتوبہ کی ہے۔ میں پھر کبھی ایسی شکایت نہ کروں گا۔ ایسانہ ہوکہ خدا کی غیرت کہیں مجھےایسے ابتلاءمیں گرفتار کردے۔‘‘

(ذکر حبیب صفحہ131)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button