متفرق مضامین

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کےانقلاب انگیز لٹریچر کے 17 امتیازی پہلو (قسط اوّل)

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

آپؑ نے سیف کا کام قلم سے دکھایا اور نئے ارض و سما تخلیق کیے

اٹھارھویں صدی میں ہندوستان مذاہب عالم کا اکھاڑہ بن چکا تھا یہاں تک کہ مغرب سے عیسائیت بھی حکومتی کروفر کے سہارے تمام جدید سائنسی ایجادات کے جِلَو میں روٹیوں کے پہاڑوں اور آگ کے شعلوں کے ساتھ مسیح کی خدائی کا جھنڈا لہراتے ہوئے آپہنچی اور سب مذاہب نے مل کر عیسائیت کی سرکردگی میں اسلام کو علمی اورقلمی جنگ میں نیست ونابود کرنے کا نقارہ بجا دیا۔ یہ صدی عیسائیت کے پھیلنے کی صدی ہے۔

عیسائیت کے پھیلاؤ کی صدی

اٹھارھویں صدی کے آخر میں 1793ء میں پہلا عیسائی مبلغ William Careyہندوستان آیا۔

(Turning the World upside down by A.Pulleng and 5 others. P.90 England,1972)

اور انیسویں صدی کے آخر تک عیسائی مبلغین، پادریوں اورچرچ کے عملے کی تعداد ساڑھے 9ہزار سے تجاوز کرچکی تھی۔

(Christianity in a Revolutionary Age ,Vol.III by K.S.Latourette, p.403 & 407,London,1961)

اسی لیے 7جلدوں میں عیسائیت کی تاریخ لکھنے والے مصنف لاٹریٹ نے 1815ءسے 1914ء تک کے دور کو عیسائیت کے پھیلاؤ کی عظیم صدی قرار دیا ہے۔

(Encyclopedia Britannica, Vol.15, P.573, London,1970)

عیسائی پادریوں نے وسط ایشیا میں عیسائیت کی ترقی کے لیے پنجاب کو قدرتی Base قرار دیا۔ (تاریخ احمدیت جلداول صفحہ90)اسی میں شہر لدھیانہ واقع ہے۔

لدھیانہ کی اہمیت

پنجاب میں پہلا عیسائی مشن 1835ء میں لدھیانہ میں قائم کیا گیا۔ یہاں پہلے سے ایک عیسائی سکو ل بھی قائم تھا۔

(Our Missions in India by Merris Wherry,P.11,12 Boston,1 U.S.A,1926)

لدھیانہ احمدیت اورعیسائیت کی تاریخ میں بہت اہم مقام رکھتا ہے۔ محققین بتاتے ہیں کہ عیسائی مشنریوں نے پنجاب میں سب سے پہلے اس شہر لدھیانہ سے فارسی زبان میں 1833ء میں لدھیانہ اخبار جاری کیا جو قلمی اخبار کی صورت میں تھا 2سال بعد 1835ء میں چھاپہ خانہ قائم ہوا تویہ ٹائپ میں چھپنے لگا۔ (پنجاب میں اردو صحافت کی تاریخ صفحہ81ڈاکٹر مسکین علی حجازی۔ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور1977ء)

1837ء میں اسی شہر میں پنجاب کا پہلا گرجا گھر بھی تعمیر ہوا۔

(انگریز اوربانی سلسلہ احمدیہ صفحہ17مولانا عبدالرحیم دردحیدرآباد سندھ۔1954ء)

یہی وہ شہر ہے جہاں حضرت مسیح موعودؑ نے 1889ء میں جماعت احمدیہ کی بنیاد ڈالی اور لدھیانہ وہ باب لد بن گیا جہاں قلم کے ذریعہ دجال کا سرقلم کیا جانا مقدر تھا۔

سلطان القلم کا ظہور

اس موعود اقوام عالم حضرت مرزاغلام احمد قادیانیؑ نے 1835ء کے سال میں قادیان کی دوردرازبستی میں آنکھ کھولی اورآخری ہزارسال کے انسان کو بصیرت کے نئے جہان سے متعارف کرایا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے سلطان القلم اوراس کے قلم کو ذوالفقار علی کا خطاب عطا فرمایا۔

(نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد 4صفحہ399)

یعنی وہ کام جو جہاد بالسیف کے زمانہ میں علی کی تلوار کرتی تھی اب اس قلمی جہاد کے زمانہ میں مسیح موعود کا قلم سرانجام دے گا۔ اورتمام باطل عقائد جوخیبر کے قلعہ کا رنگ رکھتے ہیں اسی کی تلوار سے چکنا چو ر کیے جائیں گے۔ سرزمین دہلی کے ولی کامل نعمت اللہ ولی نے بھی اپنی پیشگوئیوں میں لکھا تھا۔

ید بیضا کہ با او تابندہ

باز با ذوالفقار مے بینم

یعنی اس امام موعود کا چمکنے والا ہاتھ وہ کام کرے گا جو پہلے زمانہ میں ذوالفقار تلوار کرتی تھی۔

(نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد4صفحہ399)

یاد رہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی پیدائش سے 4سال قبل 13ویں صدی کے مجددحضرت سید احمد شہید نے 6؍مئی 1831ء کو دورجہاد بالسیف کے آخری معرکہ میں شہادت پائی تھی اوراب دین کی طرف سے جہاد بالقلم کاعلَم حضرت مسیح موعودؑ نے تھام لیا۔

روحانی فوجوں کا سالار

اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کے اس عظیم روحانی غلام کو اپنے الہام کلام اوربرکات خاصہ سے مشرف کیا اوراسے فرمایا:

کَلامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَّبٍّ کَرِیْمٍ (تذکرہ صفحہ508)

تیرے کلام کو خدا کی طرف سے فصاحت وبلاغت عطا کی گئی ہے۔ اوریہ بشارت دی کہ

در کلام توچیز ے است کہ شعراء درآں دخلے نیست

(تذکرہ صفحہ508)

تیرے کلام میں ایک ایسی چیزہے جس میں شاعروں کودخل نہیں۔

چنانچہ دینی فوجوں کے سپہ سالار نے بڑی تحدی سے نوع انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

’’اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ سیف کا کام قلم سے لیا جائے اورتحریر سے مقابلہ کرکے مخالفوں کو پست کیا جائے…اس وقت جوضرورت ہے وہ یقینا ًسمجھ لو سیف کی نہیں بلکہ قلم کی ہے ہمارے مخالفین نے اسلام پر جو شبہات وارد کئے ہیں۔ اور مختلف سائنسوں اورمکائد کی رو سے اللہ تعالیٰ کے سچے مذہب پر حملہ کرنا چاہا ہے۔ اس نے مجھے متوجہ کیا ہے کہ میں قلمی اسلحہ پہن کر اس سائنس اورعلمی ترقی کے میدانِ کارزار میں اتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اورباطنی قوت کا کرشمہ بھی دکھلاؤں۔ ‘‘

(ملفوظات جلداوّل صفحہ37تا38)

پھرفرمایا:

’’اور خداتعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا کہ میں ان خزائن مدفونہ کو دنیا پر ظاہر کروں اور ناپاک اعتراضات کا کیچڑ جوان درخشاں جواہرات پر تھوپا گیا ہے اس سے ان کو پاک کروں۔ خداتعالیٰ کی غیرت اس وقت بڑی جوش میں ہے کہ قرآن شریف کی عزت کو ہرایک خبیث دشمن کے داغ اعتراض سے منزہ و مقدس کرے۔‘‘

( ملفوظات جلد اول صفحہ38)

زندگی بخش تحریریں

اس آفتاب صداقت نے اسلام کے حق میں نئے ارض و سماء تخلیق کیے جس کے چاند تارے وہ زندگی بخش تحریریں ہیں جواردو، عربی اورفارسی کی88تالیفات کے11؍ہزار صفحات پر مشتمل ہیں۔ بیسیوں مضامین 300؍اشتہارات، 700؍مکتوبات اورملفوظات کی جلدیں اس کے علاوہ ہیں۔ خدائے بزرگ و برتر نے نشر صحف اور قلم اور دوات کی قسم کھا کر جو پیشگوئیاں کی تھیں ان کے حقیقی ظہور کا زمانہ مسیح موعود ہی کازمانہ ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ کے یہ پاک کلمات محبت الٰہی اور عشق رسولﷺ کی سرزمین میں بوئے گئے۔ دعاؤں اور آنسوؤں نے ان کونپلوں کو سینچا۔ نصرت باری تعالیٰ کی ہوائیں ان کو ہلکورے دیتی رہیں۔ فرشتوں کے نزول نے ان کو بابرگ وبار کیا۔ وحی و الہام کے آسمانی محافظوں نے ہر شیطانی حملے کا رخ پھیر دیااور پھر یہ چھوٹا ساپوداایک تنا ور درخت بن گیا جس پر آج دنیا کے ہرخطے اور ہر رنگ و نسل کے پرندے خدا کی حمد اور محمدمصطفیٰﷺ کی عظمت کے ترانے بلند کرتے ہیں۔ اس انقلاب انگیز لٹریچر کے کچھ امتیازی پہلو آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

1۔ عالمی خطاب

مہدی دوراں کا قلم اپنے آقا کی نمائندگی میں کل عالم سے خطاب کرتاہے۔ جیسا کہ آپؑ نے فرمایا:

’’اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو !اوراے تمام وہ انسانی رُوحو جو مشرق اورمغرب میں آباد ہو!مَیں پورے زورکے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتاہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اورسچا خدا بھی وہی خداہے جو قرآن نے بیان کیا۔ اورہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اورجلال اورتقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفیٰﷺ ہے۔ ‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15صفحہ141)

2۔ بے نظیر کمانڈر

حضرت مسیح موعودؑ نے قلمی جہاد کے میدان کارزار میں قدم رکھا اور اس شان اور قوت اور فنی مہارت اور بےمثل فراست کے ساتھ اہل حق کی کمان سنبھالی کہ گذشتہ 13؍ صدیوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی آسمان کے خدا نے آپ کو جَرِیُ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَا٫کا لقب عطا کیا اور زمین پر آپؑ کا ڈنکا بجنےلگا۔ مولوی محمدحسین بٹالوی نے آپؑ کی پہلی کتاب براہین احمدیہ کو تاریخ اسلام کی بے نظیر کتاب قرار دیتے ہوئے لکھا :

’’یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیرآج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اورآئندہ کی خبر نہیں۔

لَعَلَّ اللّٰہُ یُحْدِثُ بَعَدَ ذَالِکَ اَمْرًا

اوراس کا مؤلف بھی…کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی وقالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیرپہلے…میں بہت ہی کم پائی جاتی ہے۔ ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم ازکم ایک ایسی کتاب بتا دے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً آریہ سماج وبرہمو سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جاتاہو اور دو چار ایسے اشخاص، انصار اسلام کی نشاندہی کر دے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی وجانی وقلمی ولسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بیڑہ بھی اٹھالیا ہو۔ ‘‘

(اشاعت السنہ جلد7نمبر6صفحہ169تا170)

3۔ زندہ خدا کی تجلیات

حضورؑ کی کتب زندہ خدا کی زندہ تجلیات کا شاہکار ہیں۔ اسلامی اصول کی فلاسفی کے متعلق آپؑ نے فرمایا:

’’میں نے اس کی سطر سطر پر دعا کی ہے۔ ‘‘

(ماہنامہ انصار اللہ جون 1996ء صفحہ24)

عربی زبان کی 40 ہزار لغات آپ کو سکھائی گئیں آپؑ کی 20کتب فصیح وبلیغ عربی زبان میں ہیں اورخطبہ الہامیہ آپ کو اعجازی نشان کے طور پر عطا ہوا اپنی کتب کے متعلق فرماتے ہیں :

’’یہ رسائل جو لکھے گئے ہیں تائیدالٰہی سے لکھے گئے ہیں۔ میں ان کا نام وحی والہام تو نہیں رکھتا مگر یہ تو ضرور کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی خاص اور خارق عادت تائید نے یہ رسالے میرے ہاتھ سے نکلوائے ہیں۔ ‘‘

(سرالخلافہ، روحانی خزائن جلد8صفحہ415)

عربی کتب کے متعلق فرمایا:

’’مجھے یہ فخر بھی حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے چالیس ہزار مادہ عربی کا سکھایا گیا ہے اورمجھے ادبی علوم پر پوری وسعت دی گئی ہے۔ ‘‘

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد11صفحہ234)

4۔ انعامی چیلنج

ان معجزنما88؍میں سے11؍کتابوں کا جواب لکھنے پر اورمعارف قرآنی اورمتعدد علمی صداقتوں کے مقابلہ کے لیے حضورؑ نے ہزاروں روپے کے انعامی چیلنج دیے ہیں مگر کسی کو آج تک مقابلہ کی توفیق نہیں ملی۔ آپؑ فرماتے ہیں :

آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند

ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے

صف دشمن کو کیا ہم نے بحُجّت پامال

سیف کا کام قلم سے ہے دکھایا ہم نے

ان انعامی کتب کا مقابلہ کرنے پر انعامی رقوم کی مختصر تفصیل یہ ہے۔

1۔ براہین احمدیہ ہر چہار حصص 10000/- روپے

2۔ سرمہ چشم آریہ 500/-روپے

3۔ کرامات الصادقین 1000/-روپے

4۔ نورالحق 5000/-روپے

5۔ اعجازاحمدی10000/-روپے

6۔ اتمام الحجة 1000/-روپے

7۔ تحفہ گولڑویہ 500/-روپے

8۔ سرالخلافہ 27/-روپے

ان کے علاوہ درج ذیل کتب کے بالمقابل کتاب لکھنے یا ردّ لکھنے پر اپنا جھوٹا ہونا تسلیم کرلینے کے وعدہ پر مبنی چیلنج دیے۔

1۔ اعجازالمسیح

2۔ حجة اللہ

3۔ الھدیٰ والتبصرة لمن یری

5۔مسیح موعود ؑکا پہلا تعارف

حضرت مسیح موعودؑ کی پرشوکت اورایمان سے لبریز تحریریں ہی تھیں جنہوں نے مذاہب عالم کے دنگل میں آپ کا پہلا تعارف کروایا آپؑ کی ابتدائی کتب اوراشتہارات نے دلوں میں نور کی شمعیں روشن کیں اورپھر آپؑ کی قوت قدسیہ ان کو صیقل کرتی چلی گئی۔ حضرت خلیفة المسیح الاوّل مولانا نورالدینؓ نشان نمائی کا اشتہار دیکھ کر قادیان آئے اورچہرہ اقدس دیکھ کر قربان ہوگئے۔ (الحکم 22؍اپریل 1908ء صفحہ2)

حضرت صوفی احمد جانؓ، حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ، حضرت مولوی حسن علی صاحبؓ، حضرت صوفی نبی بخش صاحبؓ، حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ اورحضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمیؓ وغیرہ براہین احمدیہ سے مفتوح ہوئے۔

(الفضل25؍اپریل 2002ء)

حضرت ذوالفقار علی خان صاحب گوہر، حضرت حاجی غلام احمد صاحب کریام، حضرت ماسٹر فقیراللہ صاحب وغیرہ کو ازالہ اوہام نے جیتا۔

(تفصیل الفضل 24-26؍اگست2002ء)

حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہیدؓ اور حضرت حافظ مختار احمدصاحب شاہجہان پوریؓ، شام کے پہلے احمدی السید محمدسعیدی طرابلسیؓ اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کو آئینہ کمالات اسلام نے فتح کیا۔

(الفضل 21؍جولائی 2001ء)

اورایک کثیرتعداد ان فدائیوں کی ہے جو آپؑ کے لیکچر اسلامی اصول کی فلاسفی، لیکچر لاہور، لیکچر سیالکوٹ اورلیکچر لدھیانہ سن کر حلقہ عشاق میں داخل ہوگئے۔

(حیات قدسی صفحہ17)

حضرت منشی ظفراحمد صاحب براہین احمدیہ کے بارےمیں فرماتے تھے کہ ہم اس کتاب کو پڑھا کرتے اوراس کی فصاحت وبلاغت پر عش عش کراٹھتے کہ یہ شخص بے بدل لکھنے والا ہے۔ براہین احمدیہ پڑھتے پڑھتے حضور سے محبت ہوگئی۔

(اصحاب احمدجلد4صفحہ19)

حضورؑ اپنے اعجاز مسیحائی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’میں سچ سچ کہتاہوں کہ مسیح کے ہاتھ سے زندہ ہونے والے مر گئے مگر جو شخص میرے ہاتھ سے جام پئے گا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہر گز نہیں مرے گا۔ وہ زندگی بخش باتیں جو میں کہتاہوں اور وہ حکمت جو میرے مُنہ سے نکلتی ہے اگر کوئی اوربھی اس کی مانند کہہ سکتا ہے تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ104)

وہی تو تھا کہ جو سلطانِ حرف و حکمت تھا

قلم کرشمہ تھا اور حرف معجزے اُس کے

6۔ فرشتوں کا نزول

یہ مقدس کتب ایسے شخص کے ہاتھ سے نکلی ہیں جس پر خدا کے فرشتے نازل ہوتے تھے اس لیے جو لوگ ان کتب کو ذوق و شوق اور عقیدت سے پڑھتے ہیں ان پر بھی خدا کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اورآج ہزار ہا ایسے احمدی ہیں جن سے خدا ہم کلام ہوتا ہے انہیں سچی خوابیں دکھاتا ہے اور غیب سے مطلع فرماتاہے۔

7۔ عظیم حکمت عملی

مذاہب عالم پر دین حق کو غالب کرنے کی حکمت عملی ہے۔ کاسر صلیب ہونے کے لحاظ سے آپ کاسب سے زیادہ لٹریچر مسیحیت کے متعلق ہے اور قریباً 17کتب کا مرکزی مضمون رد عیسائیت ہے۔ آپ نے مسیح کی وفات کا انقلاب انگیز اعلان کرکے عیسائیت کا قلعہ زمین بوس کردیا۔ مسیح کی جھوٹی خدائی کی دعوت دینے والے عیسائی پادریوں کو دجال قرار دیا۔ ان سے مباحثے کیے۔ مباہلے کی دعوت دی انعامی چیلنج دیے نشان دکھائے اوردنیا کی قیادت عیسائیت کے ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسلتی چلی گئی۔ اس جری اللہ نے امریکہ میں عیسائیت کے نمائندہ ڈوئی کو للکاراجو آپ کی زندگی میں 9؍مارچ 1907ء کو ذلت کے ساتھ ہلاک ہوا۔ اورقتل خنزیر کی پیشگوئی پوری ہوئی اورامریکہ کے اخبارات نے لکھا

Great is Mirza Ghulam Ahmad۔

(بوسٹن ہیرالڈسنڈے ایڈیشن 23؍جون 1907ء)

لندن کے شہرمیں پادری جان ہیوگ سمتھ پگٹ نے خدائی کا دعویٰ کیا۔ حضورؑ نے اس کے بارے میں فرمایا :

’’یہ دلیر دروغ گو یعنی پگٹ جس نے خدا ہونے کا لندن میں دعویٰ کیا ہے وہ میری آنکھوں کے سامنے نیست و نابود ہو جائے یگا۔ ‘‘

(ریویو آف ریلیجنز1907ء صفحہ144)

حضورؑ نے جب یہ پیشگوئی شائع فرمائی پگٹ اپنے پورے عروج پرتھا مگرا للہ تعالیٰ نے غیب سے ایسے سامان پیدا کردیے کہ اس نے اپنے دعویٰ کا ذکر تک چھوڑ دیا اور پھر لندن چھوڑ کرسپیکسٹن چلا گیا جہاں اپنی زندگی کے باقی 25سال گوشہ تنہائی میں گزارنے کے بعد مارچ1927ء میں نامرادی کی موت مرگیا۔

ان پر زور حملوں سے مولانا ابوالکلام آزاد کے بقول:

’’عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پرخچے اڑائے جو سلطنت کے زیر سایہ ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا … بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اڑنے لگا۔ ‘‘

(اخباروکیل امرتسرجون1908ء)

مولانا نور محمد نقشبندی کے الفاظ میں حضرت مسیح موعودؑ نے وفات مسیح اور دعویٰ مسیح موعود کے ذریعہ’’ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دی۔ ‘‘

(دیباچہ برترجمہ مولانا اشرف علی تھانوی )

8۔ ہندو اور سکھ مت پر فتح

آپؑ کی قریباً 11؍کتب کا مرکزی مضمون ہندومت اورسکھ مت ہے۔ آپ نے ہندوؤں سے مباحثے اورمناظرے کیے۔ موجودہ ویدوں کو گمراہی سے بھرپور ثابت کیا۔ سنسکرت کی بجائے عربی زبان کے ام الالسنہ ہو نے پر سورج چڑھا دیا اورعلم لسانیات میں انقلاب برپا کردیا۔ روحانی دعوت مقابلہ اور پنڈت لیکھرام کی موت نے آریہ سماج کی زہریلی کچلیاں توڑ دیں اور ایک ہندو رہ نمانے لکھا کوئی عیسائی اورمسلمان اب مذہب کی خاطر آریہ سماج میں داخل نہیں ہوتا۔

(خطابات طاہر۔ تقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت صفحہ242)

برہمو سماج کے سرگرم لیڈر پنڈت نرائن اگنی ہوتری سے تحریری مباحثہ کیا اوراس شان سے یلغار کی کہ پنڈت صاحب نے اپنے مذہب کو ہی خیر باد کہہ دیا۔ (تاریخ احمدیت جلداول صفحہ163)سکھ مذہب کے بانی حضرت باوا گورونانک کومسلمان ولی اللہ ثابت کرکے اورچولہ بابانانک پر کلمہ اور قرآنی آیات کا انکشاف کرکے سکھ مذہب کوجڑسے اکھیڑ دیا۔

(تفصیل کتاب ست بچن 1895ء )

9۔ لاثانی نظارہ

حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے یہ لاثانی نظارہ بھی دکھایا جب آپؑ کے ہاتھوں دین کو تمام ادیان پر غلبہ نصیب ہوا اور آپؑ نے ہر شعبہ زندگی میں دین کوبالا تر کرکے دکھایا۔ 1896ء کے جلسہ مذاہب عالم لاہور میں 10مذاہب اورمکاتب فکر کے سولہ نمائندگان نے اپنے مسالک کے حق میں تقاریر کیں اورحضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی کے مطابق آپ کا مضمون سب پر بالا رہا۔ چنانچہ اخبارجنرل و گوہر آصفی کلکتہ نے لکھا :

’’اگر اس جلسے میں حضرت مرزا صاحب کا مضمون نہ ہوتا تو اسلامیوں پر غیر مذاہب والوں کے روبرو ذلت وندامت کا قشقہ لگتا۔ مگر خدا کے زبردست ہاتھ نے مقدس اسلام کو گرنے سے بچا لیا۔ بلکہ اس کو اس مضمون کی بدولت ایسی فتح نصیب فرمائی کہ موافقین تو موافقین مخالفین بھی سچی فطرتی جوش سے کہہ اٹھے کہ یہ مضمون سب پر بالا ہے۔ بالا ہے۔ ‘‘

(اخبار جنرل وگوہر آصفی 24؍جنوری 1897ء)

10۔ ملک وکٹوریہ کو دعوت اسلام

مذاہب عالم پر اسلام کی قلمی فتح کے آپ اس قدر آرزو مند تھے کہ آپؑ نے انگلستان کی ملکہ وکٹوریہ کو دعوت حق دی اور ملکہ کے نام اپنے رسالہ تحفہ قیصریہ میں جون 1897ء میں لندن میں جلسہ مذاہب عالم کے انعقاد کی تجویز پیش کی۔ (تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد12صفحہ279)27؍دسمبر1899ء کو بذریعہ اشتہار حضورؑ نے انگریز حکومت کو جلسہ مذاہب عالم کی ترغیب دلائی۔

(مجموعہ اشتہارات جلد2صفحہ359)

کاش انگریز حکومت اس کو قبول کرلیتی تو دنیا قرآنی صداقتوں کے نئے سورج طلوع ہوتے دیکھتی اور اس کی آنکھیں خیرہ ہو جاتیں۔ حضور کو اسلام کا فتح نصیب جرنیل قرار دیتے ہوئے ابوالکلام آزاد نے لکھا:

’’وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو۔ وہ شخص جودماغی عجائبات کا مجسمہ تھا۔ جس کی نظر فتنہ اورآواز حشر تھی جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار الجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں۔ وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اورطوفان بنارہا۔ جو شورقیامت ہوکے خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا …دنیا سے اٹھ گیا …ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے۔ یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عام پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں دنیا میں انقلاب پیدا کرکے دکھا جاتے ہیں۔ ‘‘

(اخباروکیل امرتسر30؍مئی 1908ء۔ بحوالہ تاریخ احمدیت جلددوم صفحہ560)

11۔ پاک زندگی کا لعل تاباں

حضرت مسیح موعودؑ کا قلم ایک طرف تو دفاع حق کی چومکھی لڑائی لڑرہاتھا اوردوسری طرف آسمان سے نازل ہونے والے علوم قرآنی کے چشمے بہا کر دنیا کو ان کا والہ وشیدا بنا رہا تھا۔ آپؑ نے فرمایا:

وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے

اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار

یہ موعود امام قائم اور رجل فارس ایمان کو ثریا سے لایا اور اپنی تحریروں اور تعلیمات اور قوت قدسیہ کے ذریعہ ایمان کو دلوں کی زینت بنایا۔ آپؑ نے زندہ خدا کی دولت دے کر انہیں اسی دنیا میں بہشتی زندگی عطا کردی۔ جواہرات کی تھیلی قرآن ان کے ہاتھوں میں تھمادی زندہ نبی اورخاتم النبییّنؐ کے ساتھ سچی محبت عطا کی اور اس کی سچی پیروی کے معجزات دکھائے اورپاک زندگی کا لعل تاباں انہیں مرحمت فرمایا۔ آپ کے مسیحی انفاس اورانفاخ قدسیہ نے احمدیوں کے دلوں میں نیکی اورتقویٰ کا جو انقلاب برپا کیا مخالفین برسر عام اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ جناب دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر اخبار ریاست دہلی لکھتے ہیں :

’’ہم کہہ سکتے ہیں کہ جہاں تک اسلامی شعار کا تعلق ہے۔ ایک معمولی احمدی کا دوسرے مسلمانوں کا بڑے سے بڑا مذہبی لیڈر بھی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ کیونکہ احمدی ہونے کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ نماز، روزہ، زکوٰة اوردوسرے اسلامی احکام کا عملی طور پر پابند ہو۔ چنانچہ ایڈیٹر ’’ریاست‘‘کو اپنی زندگی میں سینکڑوں احمدیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا اور ان سینکڑوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں دیکھا گیا جو کہ اسلامی شعار کا پابند اوردیانتدار نہ ہو۔ اورہمارا تجربہ یہ ہے کہ ایک احمدی کے لئے بددیانت ہونا ممکن ہی نہیں کیونکہ یہ لوگ خدا سے ڈرتے ہی نہیں بلکہ خدا سے بدکتے ہیں۔ ‘‘

(ریاست دہلی 13؍نومبر1952ء)

امرتسر کے صحافی محمداسلم خلافت اولیٰ میں قادیان آئے اوراپنے مشاہدات کا خلاصہ ان الفاظ میں نکالاکہ احمدی قادیان میں مجھے قرآن ہی قرآن نظر آیا۔

(بدرقادیان13؍مارچ1913ء)

جماعت کی کا وشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے علامہ نیاز فتح پوری لکھتے ہیں :

’’آج دنیا کا کوئی دوردراز گوشہ ایسا نہیں جہاں یہ مردان خدا اسلام کی صحیح تعلیم…کی نشرواشاعت میں مصروف نہ ہوں …اورجب قادیان اورربوہ میں صدائے اللہ اکبر بلند ہوتی ہے توٹھیک اسی وقت یورپ وافریقہ وایشیا کے ان بعید و تاریک گوشوں سے بھی یہی آوازبلند ہوتی ہے۔ جہاں سینکڑوں غریب الدیار احمدی خدا کی راہ میں دلیرانہ قدم آگے بڑھائے ہوئے چلے جارہے ہیں۔ ‘‘

(ملاحظات نیازصفحہ45بحوالہ ماہنامہ نگارلکھنو جولائی1960ء صفحہ119,117)

مشہورمسلم لیڈر جناب محی الدین غازی لکھتے ہیں :

’’یورپ و امریکہ کی مذہب سے بیزاری اور اسلام کی حریف دنیا میں علم تبلیغ بلند کرنے کی کسی عالم دین یا کسی علمی ادارے کو توفیق نہیں ہوئی۔ اگر عَلَم ہاتھ میں لے کر اٹھا تووہ یہی قادیانی فرقہ تھا۔

کامل اس فرقۂ زہاد سے اٹھا نہ کوئی

کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے

اس جماعت نے تبلیغی مقاصد کے لئے سب سے پہلے اسی سنگلاخ زمین کو چنا اوریورپ و امریکہ کا رُخ کیا اور اُن کے سامنے اسلام کو اصلی وسادہ صورت میں اور اس کے اصولوں کو ایسی قابلِ قبول شکل میں پیش کیا کہ ان ممالک کے ہزارہا افراد و خاندان دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے اور

یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا

کا سماں آنکھوں میں پھر گیا۔ ‘‘

(تاثرات قادیان صفحہ17تا18، تاریخ احمدیت جلداول صفحہ19)

12۔ بے مثال منتظم

مسیح دوراں کے قلم نے محبت الٰہی اور دین کی غیرت رکھنے والے فدائیوں کا صرف متفرق گروہ تیار نہیں کیا بلکہ ایک عظیم منتظم کی طرح جماعت احمدیہ کے تمام تربیتی دعوتی اورانتظامی ڈھانچے کی تشکیل کی ہے۔ آج جماعت کاکوئی ادارہ یا منصوبہ ایسا نہیں جس کی بنیاد حضرت مسیح موعودؑ کے قلم سے نہ رکھی گئی ہو۔ آپ نے اپنی کتاب فتح اسلام میں کارخانہ احمدیت کی 5 شاخیں بیان کیں جس میں تصنیفات، اشتہارات اورخطوط کے علاوہ دارالضیافت کا بھی تذکرہ فرمایا جس کی سینکڑوں شاخیں پاکیزہ نان مہیا کررہی ہیں۔ سلسلہ بیعت کا آغازبھی فرمایا جو آج عالمی بیعت کی شکل میں گلشن احمد کی بہار بن چکا ہے اورہرسال لاکھوں لوگ سلسلہ حقہ سے وابستہ ہورہے ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب الوصیت نے دنیا کو بہشتی مقبرہ جیسا جنتی نظام دیا۔ خلافت جیسا دائمی انعام عطا فرمایا جس کے لیے ساری دنیا ترس رہی ہے ۔حضورؑ کی کتاب آسمانی فیصلہ نے جلسہ سالانہ اورمشاورت کا پاکیزہ سلسلہ جاری کیا۔ حضور کی متعدد کتب میں مالی قربانی، اشاعت قرآن اورتعمیر مساجد کے پرزور پیغام بھی ہیں جنہیں آج تحریک احمدیت عملی جامہ پہناتے ہوئے 75؍سے زیادہ زبانوں میں تراجم قرآن اور ہزاروں مساجد تعمیر کر چکی ہے۔

اس مقدس لٹریچر میں بیت الدعا اورمنارة المسیح کا ذکر بھی ہے۔ آپؑ نے فرمایا:

لوائے ماپنہ ہر سعید خواہد بود

ندائے فتح نمایاں بنام ما باشد

(درثمین فارسی صفحہ195)

یعنی ہمارا جھنڈا ہر سعید فطرت کی پناہ گاہ ہوگا۔ اور فتح نمایاں کا اعلان ہمارے ساتھ وابستہ ہے۔ چنانچہ یہ جھنڈا آج لوائے احمدیت کی صورت میں دنیا کے 213؍ممالک میں لہراتا ہے۔

اسی لٹریچرمیں عالمی تبلیغ، وقف زندگی اور جامعہ احمدیہ کی بنیادیں بھی رکھی گئیں۔ آج دنیا میں جامعہ احمدیہ کی 14 شاخیں قائم ہیں اورہزاروں داعیان الیٰ اللہ دلوں کوفتح کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ حضورؑ نے الحکم اورالبدر کو اپنا بازوقراردیا اورریویوآف ریلیجنز جاری کرکے جماعت میں اخبارات ورسائل کے قلمی اسلحہ کی فیکٹریاں قائم کردیں۔ انجمن تشحیذالاذہان کی سرپرستی فرما کراور خواتین سے الگ خطاب کرکے تمام ذیلی تنظیموں کی بنا ڈالی۔

جدید علوم کی تحصیل کی طرف متوجہ کرتے ہوئے حضورؑ نے تعلیم الاسلام سکول اور تعلیم الاسلام کالج قائم کیا اورآج ساری دنیا میں ان کے اظلال علم کی سرپرستی کررہے ہیں۔ خدمت خلق کی طرف اس شان سے راغب کیا کہ آج دنیا میں جماعت احمدیہ ہمدردی اورLove for all Hatred for noneکے تاج سے پہچانی جاتی ہے۔ پس آج دنیا میں خلافت احمدیہ کے ذریعہ توحیدباری کے قیام،خدمت نوع انسان اور وحدت اقوام کا جو روح پرور سلسلہ جاری ہے اس کا سہرا حضرت مسیح موعودؑ کے انقلاب انگیز لٹریچر اور تحریروں کے سرہے۔

13۔ علم غیب کی فراوانی

حضرت مسیح موعودؑ کے آسمانی مائدہ کا ایک بڑا حصہ خدائی کلام اورعلم غیب پر مشتمل ہے جو قیامت تک آنے والے تمام بڑے بڑے انقلابات کی کھلی کھلی خبریں دیتاہے۔ اس میں واضح طور پر یہ ذکر ہے کہ جماعت احمدیہ پرابتلا آئیں گے کفرکے فتوے لگیں گے شہادتیں ہوں گی اور اس زمانہ کے فرعون اور ہامان اور ابوجہل اور ابولہب اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ (تذکرہ صفحہ318,317) اورخدانے یہ بھی کہا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا اور بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ انہی کتب میں لندن کے منبر پرمدلل تقریر کرنے اورسفید پرندے پکڑنے کی بشارت بھی ہے۔ (تذکرہ صفحہ147)اسی لٹریچر میں داغ ہجرت اورایم ٹی اے کی پیشگوئی بھی ہے اورصلحائے عرب اورابدال شام کی دعاؤں کا تذکرہ بھی ہے۔

(تذکرہ صفحہ218، احمدیت کافضائی دَور صفحہ45، تذکرہ صفحہ100)

سوسال پہلے اسی لٹریچر نے بتایا کہ برطانوی حکومت کا سورج غروب ہوجائے گا اور سچائی کا آفتاب مغرب سے طلوع ہوگا۔ زار روس کا حال زار ہوجائے گا۔ ایوان کسریٰ میں تزلزل برپا ہوگا۔ کوریا کی حالت نازک ہوجائے گی۔ افغانستان کا نادر شاہ اچانک موت کا شکا ر ہوجائے گا۔ (تذکرہ صفحہ650، مجموعہ اشتہارات جلد2صفحہ7)(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد21صفحہ152)(تذکرہ صفحہ461,429)زلزلے آئیں گے اورامریکہ، ایشیا، یورپ اورجزائر کے رہنے والے امن کو ترسیں گے۔ بیماریاں پڑیں گی۔ موتا موتی لگے گی عالمی جنگیں ہوں گی خون کی ندیاں بہیں گی اور ایٹمی ہتھیاروں سے زندگی ناپید ہوجائے گی۔ (حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ268)یہ لٹریچر بتاتاہے کہ دجال اوریاجوج ماجوج کا نظام ٹوٹے گا اور پھر دین کی طرف کثرت سے رجوع ہوگا۔ یہ پاک کلام بتاتا ہے کہ خدا مسرور کا ساتھ دے گا اور اسے ہر میدان میں مظفر ومنصور کرے گا۔ (تذکرہ صفحہ630)

جلیں گے وقت کے ہر موڑ پر دیے اُس کے

تمام منزلیں اُس کی ہیں، راستے اس کے

جہانِ نَو کے نوشتے اسی کی تحریریں

محبتوں کے منادی مکالمے اُس کے

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button