سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی غیرتِ توحید، محبتِ الٰہی اورتوکّل علی اللہ

(نصیر احمد قمر۔ ایڈیشنل وکیل الاشاعت (طباعت))

بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت روحانی لحاظ سے دنیا کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ توحید مفقود ہوچکی تھی۔ شرک کادَوردورہ تھا۔ لوگ اپنے خود تراشیدہ بتوں کے آگے سجدہ ریز ہوتے تھے اورفساد حدکمال کو پہنچاہواتھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو توحید کے قیام کے لیے مبعوث فرمایا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خدائے واحد ویگانہ کی طرف بلایا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کےذریعہ پھر سے دنیا میں توحید قائم ہوئی۔

وَلِلّٰهِ دَرُّ الْقَائِلِ

خلائق کے دل تھے یقیں سے تہی

بتوں نے تھی حق کی جگہ گھیر لی

ضلالت تھی دنیا پہ وہ چھا رہی

کہ توحید ڈھونڈے سے ملتی نہ تھی

ہوا آپؐ کے دم سے اس کا قیام

علیک الصلوٰۃ علیک السلام

حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے وقت بھی روحانی لحاظ سے دنیا کی یہی حالت تھی۔ لوگ توحید سے منہ موڑ کر قسماقسم کے شرک اوربت پرستی میں مبتلاتھے۔ لوگوں نے صدہا ارباب متفرقہ بنارکھے تھے۔ مخلوق پرستی کا بازارگرم تھا۔ آریہ سماج یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ خداخالق نہیں ہے۔ بلکہ ذرّہ ذرّہ کائنات کا انادی اوراپنی ذات میں مستقل حیثیت رکھتاہے۔ یہ لوگ تینتیس کروڑ دیوتا ربوبیت کے کاروبار میں خداکے شریک قراردیتے تھے۔ ادھر عیسائیوں نے خداکے ایک عاجز اورمسکین بندے کو خدابنا رکھا تھا۔ اس فَسَادٌ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآنی پیشگوئیوں اورپہلے سے کیے گئے وعدوں کے عین مطابق حضرت مسیح موعودؑ کو توحید باری تعالیٰ کے قیام اورغلبہ اسلام کی غرض سے مبعوث فرمایا۔

چنانچہ آپ علیہ السلام نے اپنی بعثت کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا :

’’خداتعالیٰ نے مجھے کھڑاکیا ہے اورمجھے حکم دیا ہے تا میں لوگوں پر ظاہر کروں کہ ابن مریم کو خداٹھہرانا ایک باطل اورکفرکی راہ ہے۔‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13صفحہ55)

آپؑ کی غیرت توحید نے قطعاً یہ برداشت نہ کیا کہ لوگ خدائے واحد ویگانہ کو چھوڑ کر شرک کی راہوں پر چلیں۔ چنانچہ آپؑ نے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اسلام کے خدا کا حسین تصوّر پیش کیا اورتمام مذاہب باطلہ کا ردّ ثابت کیا۔ آپ علیہ السلام نے قرآن مجید کی پہلی سورت، سورۂ فاتحہ کی ابتدائی آیات سے ہی ہندوؤں، آریوں اورعیسائیوں کے جھوٹے خداؤں کا بطلان ثابت فرمایا اوربتلایا کہ ہماراخدا ایک قادروتوانا خداہے۔ وہ رب العالمین ہے۔ ہمارابہشت ہماراخداہے اورہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدامیں ہیں اوریہ کہ ہماراخدازندہ خداہے۔

واحد ہے لاشریک ہے اور لازوال ہے

سب موت کا شکار ہیں اس کو فنا نہیں

آپؑ نے فرمایا کہ

’’اسلام نہایت ہی مبارک مذہب ہے جو اس خدا کی طرف رہبری کرتاہے جو نہ تو عیسائیوں کے خداکی طرح کسی عورت کے پیٹ سے پیداہواہے اورنہ ہی وہ ایساہے کہ آریوں کے پرمیشر کی طرح مکتی دینے پر قادر نہ ہو…اسلام کا خدا ایساقدوس اورقادر خداہے کہ اگر تمام دنیا مل کر اس میں کوئی نقص نکالنا چاہے تو نہیں نکال سکتی۔ ہماراخداتمام جہانوں کا پیداکرنے والا خداہے۔ وہ ہر ایک نقص اورعیب سے مبرا ہے کیونکہ جس میں کوئی نقص ہو وہ خداکیونکر ہوسکتاہے۔‘‘

(الحکم 6؍جنوری 1908ء)

یوں حضور علیہ السلام نے دنیا میں قیام توحید کے لیے عظیم الشان جہاد کا علم بلند کیا۔ اس سلسلہ میں معرکہ آراکتب تصنیف فرمائیں اوراسی غرض سے باذن الٰہی ایک عظیم الشان جماعت احمدیہ کی بنیادرکھی۔ جو آج بھی خداکے فضل وکرم سے خلافت حقّہ اسلامیہ احمدیہ کی زیر سیادت دنیا سے شرک و بت پرستی کو مٹانے اوروحدہ لاشریک خداکی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے ہمہ تن کوشاں ہے۔ جس کی مساعی کسی بھی اہل نظرسے پوشیدہ نہیں ہیں۔

قیام توحید کے مقصد کوکماحقہ حاصل کرنے کے لیے محبت الٰہی کا ہونا ضروری ہے۔

حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اصل توحید کوقائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خداتعالیٰ کی محبت سے پوراحصہ لو اوریہ محبت ثابت نہیں ہوسکتی جب تک عملی حصہ میں کامل نہ ہو۔ نری زبان سے ثابت نہیں ہوتی۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 188)

سوال پیداہوتاہے کہ محبت الٰہی کس چیز کا نام ہے اوراس سے کیا مراد ہے؟

اس بارے میں حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’خداکے ساتھ محبت کرنے سے کیا مراد ہے؟ یہی کہ اپنے والدین، جورو، اپنی اولاد، اپنے نفس غرض ہر چیز پر اللہ کی رضا کو مقدم کرلیاجاوے۔ چنانچہ قرآن شریف میں آتاہے

فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا(البقرۃ:201)۔

یعنی اللہ تعالیٰ کو یاد کرو کہ جیساتم اپنے باپوں کو یادکرتے ہوبلکہ اس سے بھی زیادہ اورسخت درجہ کی محبت کے ساتھ یادکرو۔‘‘

(ملفوظات جلدسوم صفحہ188)

چنانچہ جب ہم اس لحاظ سے حضورعلیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپؑ کی محبت الٰہی واضح طورپر ہمارے سامنے آتی ہے۔ ابتدائے عمر سے ہی دنیاوی امورسے بےرغبت تھےاورنماز، ذکرالٰہی اورتسبیح وتحمید سے شغف رکھتے تھے۔ آپؑ ہر معاملہ میں رضائے الٰہی کو مقدم فرماتے۔

آپؑ کا یہ نظریہ تھا کہ

’’خداکی راہ میں ہرایک ذلت اورموت فخر کی جگہ ہے۔‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13صفحہ30)

محبت الٰہی میں آپؑ فنائیت کے مقام تک پہنچے ہوئے تھے۔ فرماتے ہیں کہ

دیکھتا ہوں اپنے دل کو عرشِ ربّ العالمیں

قرب اتنا بڑھ گیا جس سے ہے اترا مجھ میں یار

لوگ کچھ باتیں کریں میری تو باتیں اور ہیں

میں فدائے یار ہوں گو تیغ کھینچے صد ہزار

اپنے مخالفین ومعاندین سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:

’’یادرکھو جو مجھ سے مقابلہ کرتاہے وہ مجھ سے نہیں بلکہ اس سے مقابلہ کرتاہے جس نے مجھےبھیجا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلددہم صفحہ425)

اورپھر مخالفین اپنی سازشوں اورشرارتوں میں حد سے بڑھ گئے اورنعوذباللہ آپ کے قتل کے منصوبے بنانے لگے تو بڑے جلال سے فرمایا :

سرسے میرے پاؤ ں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں

اے میرے بدخواہ کرنا ہوش کرکے مجھ پہ وار

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کامل مومنین کی ایک علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ایسی محبت رکھتے ہیں کہ جیساکہ محبت کا حق ہے فرمایا:

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (البقرۃ:166)

اورظاہر ہے کہ کامل محبت الٰہی بجز اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ممکن نہیں۔ جیساکہ فرمایا :

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (آل عمران:32)

حضور علیہ السلام کی اطاعت رسولؐ بھی بے مثل وبےنظیر تھی۔ آپ نے اپنی تقاریر وتصانیف میں جابجا حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی اس محبت کااظہار فرمایاہے۔ حتی کہ اس شعر کے مصداق بنے کہ

من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی

تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری

کامل اطاعت الٰہی و اطاعت رسولؐ ہی کے نتیجہ میں آپ اللہ تعالیٰ کےعظیم الشان انعام، انعامِ نبوت سے سرفراز ہوئے۔ چنانچہ فرمایا:

ایں آتشم ز آتش مہر محمدیؐ است

ویں آب من زآبِ زلالِ محمدؐ است

محبت الٰہی کا ایک تقاضایہ بھی ہے کہ محبوب کے کلام سے بھی محبت کی جائے۔ حضورعلیہ السلام کو کلام الٰہی، قرآن مجید سے عشق ومحبت کا جو عظیم الشان تعلق تھا اس کا علم حضورؑ کی تحریرات اورسیرت کے مطالعہ سے بخوبی ہوجاتاہے۔ سچ تویہ ہے کہ آپ کی بعثت ہی توحید الٰہی، عظمت رسولؐ اورحکومت ِقرآن پاک کے دلوں میں قیام کی خاطرہوئی تھی۔ حضورکا یہ شعر آپؑ کی محبت الٰہی اورمحبت قرآن پر زبردست دلیل ہے۔ فرماتے ہیں :

دل میں یہی ہے ہر دم تیراصحیفہ چوموں

قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرایہی ہے

اللہ تعالیٰ سے آپؑ کی یہ محبت یک طرفہ نہ تھی بلکہ وہ بھی آپؑ سے پیار کرتاتھا۔ وہ بکثرت آپؑ سے کلام کرتاتھا اوراپنی شیریں اوردل نشیں باتوں سے ہر خوف وحزن کے موقع پر آپؑ کوتسلی دیتاتھا۔ اس نے آپؑ سے فرمایا تھا:

أَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ

کیا اللہ اپنے بندہ کے لیے کافی نہیں؟

آپؑ بھی اپنے محبوب رب کی باتوں پر کامل یقین اوربھروسہ رکھتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے :

’’ہم کو اپنے خدائے قادر ومطلق اوراپنے مولیٰ کریم پر اس سے زیادہ بھروسہ ہے کہ جو مُمسک اورخسیس لوگوں کو اپنی دولت کے ان صندوقوں پر بھروسہ ہوتاہے کہ جن کی تالی ہر وقت ان کی جیب میں رہتی ہے۔ سووہی قادرتوانا اپنے دین اوراپنی وحدانیت اوراپنے بندہ کی حمایت کے لئے آپ مدد کرے گا۔‘‘

(اشتہار’’عرض ضروری بحالت مجبوری ‘‘مشمولہ براہین احمدیہ حصہ دوم)

جب آپؑ نے خداکے وہ الہامات اوروہ پیشگوئیاں جو اس نے آپؑ پر ظاہر کی تھیں، دنیا کے سامنے پیش فرمائیں تومخالفین نے آپؑ کی ہنسی اڑائی اورتمسخر اوراستہزاسے کام لیا۔ مگرچونکہ آپؑ خداتعالیٰ کی باتوں پر یقین کامل رکھتے تھے اس لیے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا :

’’خداکے کلام پر ہنسی نہ کرو۔ پہاڑ ٹل جاتے ہیں۔ دریا خشک ہوسکتے ہیں۔ موسم بدل جاتے ہیں مگر خداکاکلام نہیں بدلتا جب تک پورا نہ ہولے۔‘‘

(اربعین نمبر4، روحانی خزائن جلد17صفحہ458)

غرضیکہ محبت الٰہی کی طرح آپؑ کا توکل بھی بے نظیر اورمثالی تھا۔ فرماتے ہیں :

’’میں اپنے قلب کی عجیب کیفیت پاتاہوں۔ جب سخت حبس ہوتاہے اورگرمی کمال شدت کو پہنچ جاتی ہے تو لوگ وثوق سے امیدکرتے ہیں کہ اب بارش ہوگی۔ ایساہی جب میں اپنی صندوقچی کو خالی دیکھتاہوں تو مجھے خداکے فضل پر یقین واثق ہوتاہے کہ اب یہ بھرے گی۔ اورایسا ہی ہوتاہے۔‘‘

(ملفوظات جلداوّل صفحہ325)

اسی طرح فرمایا :

’’ہمارا اپنے کام کے لئے تمام و کمال بھروسہ اپنے مولیٰ کریم پر ہے اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ لوگ ہم سے اتفاق رکھتے ہیں یا نفاق اور ہمارے دعویٰ کو قبول کرتے ہیں یا رد اور ہمیں تحسین کرتے ہیں یا نفرین بلکہ ہم سب سے اعراض کرکے اور غیر اللہ کو مردہ کی طرح سمجھ کر اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں ‘‘

(سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد2صفحہ464)

آپؑ کاتو یہ نعرہ تھا کہ

پناہم آں توانائیست ہرآن

زبخلِ نا توانم مترساں

(براہین احمدیہ حصہ دوم ۔ روحانی خزائن جلد اول صفحہ 70)

اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہمیں حضورعلیہ السلام کے اسوۂ حسنہ پرعمل کرنے کی توفیق عطاکرے۔ ہمارے دلوں میں بھی ایسی ہی غیرت توحید پائی جائے کہ ہم قیام توحید کے لیے اپنی زندگیاں صرف کرنے والے ہوں۔ ہمیں بھی ایسی ہی محبت الٰہی نصیب ہو اورہم بھی توکل کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوں۔ خداکرےکہ ایسا ہی ہو۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button