سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

قلمی مجاہدات

ہندوستان میں عیسائیت کانفوذاور انگریزحکومت(حصہ دوم)

پادری عمادالدین جو کبھی اجمیر کی جامع مسجد کے امام تھے وہ اسی یلغارکی لپیٹ میں آکر عیسائی ہو چکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ

’’1800ءمیں جب ولیم کیری صاحب نے آکے ملک بنگال کے ایک حصہ میں کام شروع کیا، اس وقت سے بہت آہستہ آہستہ مسیحی دین کا چرچا تمام ملک ہندوستان میں پھیلا ہے۔ اور پنجاب میں قریب 45 برس سے خدا کا دین آیا ہے جس وقت کیری صاحب آئے اس وقت ملک کی ایسی حالت تھی کہ کوئی دنیاوی سمجھ کا آدمی نہ کہہ سکتا تھا کہ مسیح کا دین اس ملک میں پھیلے گا۔ کیونکہ اس وقت کے محمدی اور ہندو اپنے اپنے مذاہب میں بڑے مضبوط اور سرگرم اور تعصب وسختی وناواقفی سے بھرپور ہو کے ہواسے باتیں کرتے تھے۔ ہاں اس وقت کیری صاحب کا مسیحی ایمان گواہی دیتا تھا کہ خدا کا دین اس ملک کو بھی ضرور فتح کرے گا۔ جیساکہ وہ پیچھے سے فتح مندہوتا چلا آیا ہے۔ اسی طرح اب ہم مسیحی بھی خدا پر یقین اور بھروسہ کر کے کہتے ہیں کہ کسی وقت یہ ملک، ملک انگلستان کی مانند ہونے والا ہے۔ ہمارے مخالف ہندو مسلمان و دیانندی و نیچری وغیرہ اگرچہ کیسا ہی زور دکھلا ویں اور زبان درازیاں کریں، وقت چلا آتا ہے کہ پتہ ندارد ہوںگے صرف مسیحی دینداری یہاں ہو گی یا شرارت نفسانی کے لوگ ملیں گے کیونکہ ملک نے اب ایسی حالت کی طرف رخ کر لیاہے اور پیچھے یوں ہی ہوتاآیا ہے اور تعلیمات کے نتائج یہی ہیں۔‘‘

(خط شکاگو از پادری عماد الدین 8؍فروری 1893ءص 6.- 7)

ہندو ستان میں جو عیسائیت کو کامیابی حاصل ہو رہی تھی اس کی ایک ادنیٰ سی جھلک پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر چارلس ایچی سن کی ایک تقریر میں پائی جاتی ہے جو انہوں نے 1888ءمیں کی تھی۔ انہوں نے کہا :

’’ بعض ایسے لوگوں کو جنہیں اس طرف توجہ کرنے کا موقع نہیں ملا یہ سن کر تعجب ہو گاکہ جس رفتار سے ہندوستا ن کی معمولی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے چار پانچ گنا زیادہ تیز رفتار سے عیسائیت اس ملک میں پھیل رہی ہےاور اس وقت ہندوستانی عیسائیوں کی تعداد دس لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس عظیم الشان امر کاسبب کہ ہر جگہ عیسائیوں کی جماعت ایسی تیز رفتاری سے پھیل رہی ہے کہ جتنی قرون اولیٰ کے بعد کبھی نہیں پھیلی۔ میں اور آپ اس کا حقیقی سبب جانتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ خداوند کی روح حرکت میں ہے۔ پہلے کی طرح اب بھی خداوند اپنے نام کو عظمت دے رہا ہے اور وہ ہمارے چرچ کو ان لوگوں سے وسعت دے رہا ہے جو نجات چاہتے ہیں۔ انجیل کے پیغام کی قدیم طاقت ابھی تک موجود ہے۔ اب بھی رسولوں کے زمانہ کی طرح خدا کا کلام زبر دست نشوونما کی طاقت رکھتا ہے اور اس کا غلبہ ہو رہا ہے۔‘‘

(دی مشنز، ازآر۔ کلارک ص 234بحوالہ سوانح فضل عمر جلد اول ص 12)

امریکہ کے مشہور عیسائی مناد ڈاکٹر جان ہنری بیروز کو ہندوستان بلوایا گیا۔ وہ انگریزی زبان کے بڑے فصیح البیان مقرر تھے۔ انہوں نے1897ءمیں برصغیر کا طوفانی دورہ کر کے جگہ جگہ لیکچر دیے اور ان لیکچروں میں عیسائیت کے عالمگیر غلبہ کا ڈھنڈورا پیٹا۔ انہوں نے اپنے ایک لیکچر میں عیسائیت کے غلبہ اور استیلا کا ذکر کرتے ہوئے بڑے طمطراق سے اعلان کیا :

’’آسمانی بادشاہت پورے کرۂ ارض پر محیط ہوتی جا رہی ہے آج دنیا بھر میں اخلاقی و فوجی طاقت، علم و فضل، صنعت و حرفت اور تمام تر تجارت ان اقوام کے ہاتھ میں ہے جو آسمانی ابوّت اور انسانی اخوت کی مسیحی تعلیم پر ایمان رکھتے ہوئے یسوع مسیح کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کرتی ہیں۔‘‘

(Barrows Lectures, pg: 19)

اس لیکچر میں آگے چل کر انہوں نے ایک برطانوی ادیب کے حوالہ سے عیسائیت کے غلبہ و استیلا کا نقشہ نہایت درجہ فخریہ انداز اور تعلّی آمیز الفاظ میں کھینچتے ہوئے کہا:

’’دنیا ئے عیسائیت کا عروج اس درجہ زندہ حقیقت کی صور ت اختیار کر گیا ہے کہ ایسا درجہ عروج اسے اس سے پہلے کبھی نصیب نہ ہوا تھا۔ ذرا ہماری ملکہ عالیہ (ملکہ وکٹوریہ )کو دیکھو جو ایک ایسی سلطنت کی سربراہ ہے جس پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا۔ دیکھو وہ ناصرہ کے مصلوب کی خانقاہ پر کمال درجہ تابعداری سے احتراماً جھکتی اور خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ یا پھر گاؤں کے گرجا میں جا کر نظر دوڑاؤ اور دیکھو کہ وہ سیاسی مدبر (وزیر اعظم برطانیہ)جس کے ہاتھوں میں ایک عالمگیر سلطنت اور اس کی قسمت کی باگ ڈور ہے۔ جب یسوع مسیح کے نام پر دعا کرتا ہے تو کیسی عاجزی اور انکساری سے اپنا سر جھکاتا ہے!

دیکھو جرمنی کے نوجوان قیصر کو جب وہ خود اپنے لوگوں کے لئے بطور پادری فرائض سر انجام دیتا اور یسوع مسیح کے مذہب یعنی دین عیسائیت سے اپنی وفاداری کا اظہار کرتا ہے مشرقی انداز پر ماسکو کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ میں زار روس کو دیکھو ان میں سے ہر ایک تاج پوشی کے وقت ابن آدم کے طشت میں رکھ کر اسے تاج پیش کیا جاتا ہے۔ یا پھر مغربی جمہوریت (امریکہ)کے ایک صدر کے بعد دوسرے صدر کو دیکھو کہ ان میں سے ہر ایک عبادت کے نسبتاً سادہ لیکن عمیق اسلوب میں ہمارے خداوند کے ساتھ اپنی وفاداری اور تابعداری کا اظہار کرتا چلا جاتا ہے۔ امریکی، برطانوی، جرمن اور روسی سلطنتوں کے حکمران اقرار کرتے ہیں کیا ان سب کے زیر نگیں علاقے مل کر ایک وسیع و عریض سلطنت کی حیثیت نہیں رکھتے کہ جس کے آگے ازمنہ قدیم کی بڑی سے بڑی سلطنت بھی سراسر بے حیثیت نظر آنے لگتی ہے؟‘‘

(Barrows Lectures, Pg: 19,20)

عیسائی سلطنت کے دبدبہ اور حکومت اور ان میں عیسائیت کے غلبہ اور استیلا کا نہایت پرشکوہ الفاظ میں نقشہ کھینچنے کے بعد ڈاکٹر بیروز نے اسلامی ملکوں میں بھی عیسائیت کی روز افزوں ترقی کا بڑ ے فاتحانہ انداز میں ذکرکیا اور کہا کہ

’’I might sketch the movement in Mussulman lands, which has touched with the radiance of the Cross the Lebanon and Persian mountains, as well as the waters of the Bosphorus, and which is the sure harbinger of the day when Cairo and Damascus and Tehran shall be the servants of Jesus, and when even the solicitudes of Arabia shall be pierced and Christ, in the person of His disciples, shall enter the Kaaba of Mecca and the whole truth shall at last be there spoken, “This is eternal life that they might know Thee, the only true God, and Jesus Christ whom Thou hast sent.‘‘

(Barrows Lectures, Pg: 42)

ترجمہ:۔ ’’ اب میں اسلامی ملکوں میں عیسائیت کی روز افزوں ترقی کا ذکر کرتا ہوں اس ترقی کے نتیجہ میں صلیب کی چمکار اگر ایک طرف لبنان پر جلوہ فگن ہے تو دوسر ی طرف فارس کے پہاڑوں کی چوٹیاں اور باسفورس کا پانی اس کے نور سے جگمگ جگمگ کر رہا ہے یہ صورت حال اس آنے والے انقلاب کا پیش خیمہ ہے جب قاہرہ، دمشق اور تہران خداوند یسوع مسیح کے خدام سے آباد نظر آئیں گے حتّٰی کہ صلیب کی چمکار صحرائے عرب کے سکوت کو چیرتی ہوئی خداوند یسوع مسیح کے شاگردوں کے ذریعہ مکہ اور خاص کعبہ کے حرم میں داخل ہو گی اور بالآخر وہاں صداقت کی منادی کی جائے گی کہ ابدی زندگی یہی ہے کہ وہ تجھ حقیقی اور واحد خدا کو اور یسوع مسیح کو جانیں جس کو تو نے بھیجا ہے۔‘‘

1793ء میں پہلا انگریز مبلغ ولیم کیرے (William Carey)ہندوستان بھیجا گیا۔ اس پہلے انگریز مبلغ مشہور زمانہ ولیم کیرے نے اپنے ساتھی عیسائیوں سمیت کام کیا اور پورے شمالی ہندوستان میں دوسروں کے لیے گہرے اثر اور تحریک کا باعث ہوا۔

اس کے بعد تو گویا جھڑی لگ گئی۔ لندن میں تبلیغ و اشاعت کے لیے پہلے سے قائم شدہ اداروں کو ناکا فی پا کر مندرجہ ذیل نئے ادارے قائم کیے گئے۔

1:The London Missionary Society(1795)

2:The International London Missionary Society(1797)

3: Church Missionary Society(1799)

4: The British and Foreign Bible society (1804)

5: The Methodist Missionary Society (1814)

ہندوستان میں تبلیغ عیسائیت کی ان کوششوں میں مزید وسعت پیداکرنے کے لیے برطانیہ کے بادشاہ جارج سوم نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے چارٹر میں وہ تبدیلی کی جس کے نتیجہ میں کمپنی کی حدود میں پادریوں کے داخلے کی اجازت ہو گئی۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ صدی شروع ہوتی ہے جسے سات جلدوں میں عیسائیت کی تاریخ لکھنے والے عظیم مصنف لاٹریٹ نے’’عیسائیت کے پھیلاؤ کی صدی ‘‘قرار دیا ہے۔

(Encyclopaedia Britannica V.15,P.576)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button