سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

قلمی مجاہدات

تحریری وزبانی مباحثات اور اخبارات میں مضامین کاسلسلہ

جب سے خدائے ودود وکریم نے آدم کواپنے لطف وعنایات کامورد بنانے اور اپنی صفات وتجلیات کامظہربنانے کے لیےتخلیق کیا۔ تب سےشیطان نے بھی

أَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ(الاعراف:13)

کاحاسدانہ اعلان کرکے بنی آدم کو رضائے باری تعالیٰ کی جنتوں سے باہرنکالنے کے لیے سرتوڑکوششوں میں مصروف رہنے اور ہرطرح کی منصوبہ بندی کرنے کا کہہ دیا۔ لیکن اس رب العالمین کواپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے آدم پراتنا مان تھا اور اعتماد تھا کہ اس نے آسمانوں سے صدادی کہ

إِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ (الحجر:43)

کہ جتنا چاہے زورلگا لومیرے بندے، میرے بندے ہی رہیں گے اورنہ صرف یہ کہ وہ خودمیری محبت وعبادت کے عشق میں مست رہیں گے بلکہ وہ ان بھولی بھٹکی گم راہ کردہ روحوں کی ہدایت کے لیے بھی کوشاں ہوں گے کہ جن کوشیطان نے بہلاپھسلا کرسیدھی راہ سے دور لے جانے کی کوشش کی ہوگی۔ تب سے لے کراب تک شیطان اور رحمان کی یہ جنگ جاری ہے۔ اور اسے ایک وقت تک جاری رہناتھا۔ وہ وقت کہ جو

إِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (الحجر:37)

کاوقت تھا۔ کہ جب یہ

وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ(بنی اسرائیل:65)

اپنے خوش آواز اوردلفریب وعدوں اور چہروں کے ساتھ، اپنے پیادوں اور سواروں کے ذریعہ ان مجبوروں اوربے کسوں کواپنے ساتھ ملانے کی بھرپورکوشش کرتے ہوئے اپنی تمام ترطاقتوں کوبروئے کارلانے کاوقت تھا۔ جب

وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَّمُوْجُ فِیْ بَعْضٍ وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَجَمَعْنَاهُمْ جَمْعًا (الکہف: 100)

وہ سارے وسیلے اور حیلے اکٹھے کرتے ہوئے سمندرکی موجیں مارتی ہوئی لہروں کی طرح ہرایک کوخس وخاشاک کی طرح بہا دینے کے عزائم لے کر رزق واموال کے پہاڑاور جنت نظیردلفریب نظاروں اور وعدوں کے ساتھ ایک خلقت کوجہنم سے بھرنے کی خوفناک کوشش میں مصروف ہوں گے۔ دل دہلادینے والے ایسے ہی روح فرسا وقت کی یہ وہ گھڑیاں تھیں کہ کائنات کادجال اکبر اپنے چیلے چانٹوں کے ساتھ اور کیل کانٹوں سے لیس ہو کر حملہ آورہوچکاتھا۔ اور جیسے آدم کا اول اول ظہورجس سرزمین میں ہواتھا تاریخ اپنے اس تخلیقی دائرے کی تکمیل کرتے ہوئے پھراسی مقام سے اس کوختم کرناچاہتی تھی۔ اوروہ تاریخی سرزمین ہندوستان کی سرزمین تھی۔

اور اب شیطان کی گویاساری قوتیں اور طاقتیں، دجال کے سارے حربے اور صلاحیتیں ہندوستان کی وسیع سلطنت کوعیسائی بنادینے کے خواب لے کر میدان میں اتری تھیں۔

انیسویں صدی عیسوی ہندوستان کی تاریخ میں عیسائی مذہب کے پھیلاؤ کی غیر معمولی صدی تھی۔ جس میں عیسائیت انگریز حکومت کی سرپرستی میں آبادی کی رفتار سے چار پانچ گنا تیزی سے پھیلنے لگی تھی۔ عیسائی مشنریوں کی تعداد اور ان کے لٹریچر کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی جس کے نتیجہ میں عوام الناس تو ایک طرف علمائے اسلام بھی عیسائیت قبول کرنے لگے۔ برطانوی حکومت ہند کے مشنری ہندوستان کے علاوہ چین، جاپان اور جزائر کو بھی عیسائیت کی آغوش میں لینے کے دعووں کے ساتھ یہ اعلان کرنے لگے کہ عنقریب صلیب کی چمکار صحرائے عر ب کو چیرتی ہوئی مکہ اور مدینہ پہنچے گی۔ اور خانہ کعبہ پر صلیبی جھنڈا لہرایا جائے گا۔

ہندوستان میں عیسائیت کانفوذاور انگریز حکومت

انگریزوں نے عیسائیت سے اپنے لگاؤ اور اپنے بادشا ہ کے دین کے محافظ ہونے کے پس منظر میں ہندوستان پر اپنی حکومت کا مقصد اس ملک میں عیسائیت کی تبلیغ اور انجام کار پورے ملک کو عیسائی کر کے یہاں یسوع مسیح کی حکومت قرار دیا۔ یہ مقصد اول دن سے انگریزوں کے پیش نظر رہا اور اس کو انہوں نے کبھی پوشیدہ نہیں رکھا بلکہ انگریز عمال وحکام مختلف پیرایوں میں اس کااظہار کرتے رہے۔ اس اظہار میں برطانیہ کے وزیر اعظم، برطانوی کابینہ کے وزیر ہند، ہندوستان کے انگریز وائسرائے، گورنر جنرل، صوبوں کے لیفٹیننٹ گورنر اور دیگر فوجی اور سول آفیسر سب شامل تھے۔

تبلیغ عیسائیت کو ہندوستان پر حکومت کا مقصد قرار دینے میں جس حقیقت نے بنیادی کردار ادا کیا وہ خود انگریزوں کا عیسائی ہونا اور عیسائیت سے غیر معمولی لگاؤ تھا۔ عیسائیت انگلستان کی حکومت کا مذہب تھا اور لارڈ چیف جسٹس سر مَےتھیوہیل(Sir Matthew Hale) کے 1676ءکے ایک فیصلہ کے مطابق مسیحیت قوانین انگلستان کا ایک حصہ ہے۔ اور جو شخص اس کے خلاف آوازاٹھائے اس کو سخت سزا دی جاسکتی ہے۔ (بحوالہ انگریز اور بانی سلسلہ احمدیہ از حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد صفحہ 15بار اول)

عیسائیت کی اس قانونی حیثیت ہی کا نتیجہ تھا کہ ماضی قریب میں انجیل کی تعلیم کے خلاف ایک مطلقہ عورت مسز سمپس سے شادی کرنے کے لیے انگلستان کے بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کو تخت سے دستبردار ہونا پڑا تھا۔

عیسائیت کو قوانین انگلستان کا حصہ قرار دینے پر مستزاد انگلستان کے بادشاہ کو نہ صرف برطانوی چرچ کا سربراہ تسلیم کیا جاتا ہے اورتمام سرکاری اور قانونی عبادتوں میں اس کے لیے باقاعدہ دعا مانگی جاتی ہے۔ بلکہ آئینی طور پر دین کا محافظ اس کا خطاب ہے جیساکہ انسائیکلوپیڈیامیں درج ہے :

“…the title of “defender of the faith” was confirmed to Henry by parliament, and is still used by his successors on the English throne.”

(Encyclopaedia Britannica vol 7, pg171, London,1970)

ترجمہ:۔ دین کے محافظ کا خطاب پارلیمنٹ نے بادشاہ ہینری کو دیا تھا جسے تخت برطانیہ پر اس کے جانشین اب بھی استعمال کرتے ہیں۔

اس پس منظر میں انگریزوں نے ہندوستان میں مذہبی اصلاح کے نفاذکو شروع ہی سے اپنا مقصد خاص رکھا۔ چنانچہ شاہ برطانیہ جارج سوم کے دستخط سے10؍اپریل 1814ء کو نافذہونے والے نئے چارٹر میں عیسائی مشنوں کے مفاد میں بطور خاص اس دفعہ کو شامل کیا گیا کہ

’’The clause stated that it was the duty of this country to promote the introduction of the useful knowledge, and of religious and moral improvement, in India, and that facilities be afforded by law to persons desirous of going to and remaining in India, to accomplish these benevolent designs.‘‘

(The History of Protestant Missions in India by Rev.M.A . Sherring p.78London,1864)

ترجمہ:۔ اس ملک انگلستان کا فرض ہے کہ وہ مفید علوم و فنون کو رواج دے اور ہندوستان میں اخلاقی اور مذہبی اصلاحات کو نافذ کرے قانوناً ان لوگوں کو بھی سہولتیں مہیا کرے جو ہندوستان جانے اور وہاں رہ کر اس نیک فرض کی تکمیل کرنے کے خواہش مند ہیں۔

اس پالیسی کے عین مطابق عیسائیت کی تبلیغ کو روحوں سے تعلق رکھنے والا مشن قرار دیتے ہوئے گورنر جنرل کے ایجنٹ سر ہربرٹ ایڈورڈز نے 19 دسمبر 1853ءکو پشاور میں ان خیالات کا اظہار کیا:

’’That man must have a very narrow mind who thinks that this immense India has been given to our little England for no other purpose than that of our aggrandizement ……we may rest assured that the East has been given to our country for a Mission, neither to the minds or bodies, but to the souls of men. And can we doubt what that Misson is?…….it is a remarkable historical coincidence that the East India Company was founded just two years after the great Reformation of the English Church.I believe therefore firmly,and I trust not uncharitably,that the reason why India has been given to England is because England has made the greatest efforts to preserve the Christian religion in its purest apostolic form,……….

Our Mission, then, is to do for other nations what we have done for our own. To the Hindus we have to preach one God; and to the Mohammedans to preach one Mediator.‘‘

(The Missions by R.clark , P 178, London 1885)

ترجمہ :۔ وہ شخص نہایت ہی تنگ نظر کا حامل ہو گا جو یہ خیال کرے کہ ہمارے چھوٹے سے انگلستان کو ہندوستان جیسا وسیع ملک فقط ہماری اسی بڑائی کے لیے دیا گیا ہے۔ ……ہمیں یہ مکمل یقین رکھنا چاہیے کہ مشرق کا یہ برصغیر ہمارے ملک کو ایک خاص غرض کے لیے دیا گیا ہے وہ مشن ہمارے جسموں اور دلوں سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ وہ انسانوں کی روحوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ کیا ہم شک کر سکتے ہیں کہ یہ مشن کیا ہے؟……یہ ایک عجیب تاریخی اتفاق ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے وجود کی بنیاد انگلش چرچ کی اصلاح کے صرف دو سال بعد رکھی گئی۔ اس لیے میں پورا یقین رکھتا ہوں اور یہ تنگ نظری نہیں کہ ہندوستان کا ملک انگلستان کو صرف اس لیے دیا گیا ہے کہ انگلستان ہی وہ ملک ہے کہ جس نے عیسائیت کو اپنی اصل شکل میں قائم رکھنے کی سب سے زیادہ کوشش کی ہے……

اب ہمارا مشن یہ ہے کہ ہم دوسری قوموں کے لیے بھی وہی کچھ کریں جو ہم نے اپنے لیے کیا۔ ہندوؤں کو ہم توحید کی تعلیم دیں اور مسلمانوں کو اپنے وسیلہ (بائبل) کی۔ ‘‘

ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ کی اہمیت کا اظہار خود برطانوی پارلیمنٹ میں ہوا جہاں ایک پارلیمانی ممبر مسٹر ینگس نے اپنی تقریرمیں کہا :

’’خداوند تعالیٰ نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے کہ ہندوستان کی سلطنت انگلستان کے زیر نگیں ہے۔ تا کہ عیسیٰ مسیح کی فتح کا جھنڈا ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک لہرائے۔ ہرشخص کواپنی تمام ترقوت تمام ہندوستان کو عیسائی بنانے کے عظیم الشان کام کی تکمیل میں صرف کرنی چاہیے اور اس میں کسی طرح تساہل نہ کرنا چاہیے۔‘‘ (علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے مرتبہ سید محمد میاں صاحب ناظم جمیعت علماء ہند۔ حصہ اول ص 25، 26و تاریخ احمدیت جلد اول ص 88.- 89)

1857ء کے غدر کو بھی انگریز حکام نے ان بنیادی مقاصد کے آئینہ میں دیکھا اور اسے عا م طور پر مقصد سے انحراف کی سزا قرار دیا۔ چنانچہ ایک مؤرخ لکھتا ہے کہ

’’They considered the mutiny to be national chastisement caused not by attempts to spread Christianity but our keeping back Christianity from the people.‘‘

(The break up of British India by B.M.Pondly,P17,London 1965)

ترجمہ:۔ وہ سمجھتے تھے کہ غدر قومی آزمائش تھی جس کا سبب عیسائیت کو پھیلانے کی کوششیں نہ تھیں بلکہ عیسائیت کو عوام میں پھیلنے سے روکے رکھنا تھا۔

ہر درجہ کے انگریز حکام کے یہ بیانات اس بات کی پوری وضاحت کر دیتے ہیں کہ ہندوستان پر انگریز حکومت کا بنیادی مقصد عیسائیت کی تبلیغ اور انجام کار مسیحیت کا کامل غلبہ اور یسوع مسیح کی حکومت تھا۔

یہ تھے کچھ حکمرانوں کے خیالات ہندوستان کو عیسائی بنانے کے بارہ میں اب قسط میں سطروں میں کچھ ان منادوں کے بیانات درج کیے جائیں گے جو ہندوستان پر عیسائیت کے غلبہ کے لیے سرگرم عمل رہے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button