حضرت مصلح موعود ؓ

فضائل القرآن (قسط چہارم)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

قرآن کریم پر مستشرقین یورپ کا حملہ

اب مَیں جماعت کو یہ بتاتا ہوں کہ قرآن کریم کی خدمت ایک نہایت اہم خدمت ہے۔ یورپین اقوام کا اسلام کے خلاف جس بات پر سب سے زیادہ زور ہے وہ یہی ہے کہ قرآن کریم کی اہمیت کو گرایا جائے۔ چنانچہ نولڈکے جو جرمنی کا ایک مشہور مصنف اور اسلام کا بہت بڑا دشمن ہے اور یورپ میں عربی زبان کا بہت بڑا ماہر سمجھا جاتا ہے اس نے انسائیکلوپیڈیا بریٹینکا میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں غلطیاں اور نقائص ثابت کرنے کے لئے یورپین مصنفوں نے بڑا زور لگایا ہے مگر وہ اپنی کوشش میں ناکام رہے ہیں۔ (THE ENCYCLOPAEDIA BRITANNICA VOL 15TH P.905 PUBLISHED 1911) گویا خود تسلیم کرتا ہے کہ یوروپین مصنفوں نے قرآن کریم کے خلاف بڑا زور لگایا ہے۔ مگر سب سے بڑھ کر قرآن کریم کے خلاف خطرناک کوشش ایک کتاب ہے جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہے اور جس کا نام ہے۔ ’’تین پرانے قرآنوں کے صفحات‘‘ ایک عورت نے جو ڈاکٹر آف فلاسفی ہے یہ کتاب لکھی ہے اور اس نے بیان کیا ہے کہ وہ مصر میں گئی۔ جہاں اس نے ایک کتاب خریدی جو عیسائی کتابوں کی نقل تھی۔ جب اس کے صفحات پر بعض دوائیں لگائی گئیں تو نیچے سے اور حروف نمودار ہو گئے۔ ڈاکٹر منگانا نے اس کے متعلق بتایا کہ یہ ایک پرانا قرآن ہے۔ جس کے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس میں اور موجودہ قرآن میں فرق ہے۔ وہ کہتے ہیں اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن بگڑ چکا ہے۔

وہ اس کا ثبوت اس طرح پیش کرتے ہیں کہ حضرت عثمان ؓنے جب قرآن نقل کیا تو باقی قرآنوں کو جلا دیا۔ چونکہ ان میں جو کچھ لکھا تھا اسے کوئی نقل نہ کر سکتا تھا۔ اس لئے اس وقت عیسائیوں نے بظاہر اپنے مذہب کی ایک کتاب لکھی لیکن دراصل خفیہ طور پر اس میں وہ قرآن نقل کیا جسے جلانے کا حکم دے دیا گیا تھا۔ اب بعض قسم کی دوائیاں لگانے سے پوشیدہ لکھا ہوا قرآن ظاہر ہو گیا ہے۔

یہ ایک نہایت خطرناک چال ہے جو چلی گئی۔ اس کتاب کا پُرانا کاغذ دکھایا جاتا ہے۔ اس پر پُرانی تحریریں دکھائی جاتی ہیں اور ان سے مختلف قسم کے شبہات پیدا کئے جاتے ہیں۔

عیسائیوں کی مزوّرانہ چالیں

اس کے متعلق میں نے مفصل تحقیقات کی ہے جو آج پیش کرنا چاہتا تھا مگر اب نہ وقت ہے اور نہ موقع کیونکہ بادل گھرے ہوئے ہیں۔ البتہ اس کے متعلق ایک لطیفہ سنا دیتا ہوں۔ وہ صفحات جو اس کتاب میں پرانے قرآن کے قرار دیکر شائع کئے ہیں۔ وہ اپنی غلطی آپ ظاہر کر رہے ہیں۔ مثلاً قرآن میں آتا ہے۔

فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہِ النَّبِیِّ الۡاُمِّیِّ الَّذِیۡ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبِعُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ (الاعراف : 159)

لیکن جو عیسائیوں کا لکھا ہوا قرآن ہے۔ اس میں آتا ہے

فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہِ النَّبِیِّ الۡاُمِّیِّ الَّذِیۡ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبَعَہٗ

کہ وہ اللہ پر ایمان لاتا ہے اور اس کے کلمہ پر اور کلمہ سے مراد حضرت عیسیٰ لیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عیسیٰ کے پیرو تھے۔

اس قسم کی چالیں اس میں چلی گئی ہیں۔ مگر باوجود اس قسم کی کوششوں کے یہی باتیں ان کو جھوٹا ثابت کر رہی ہیں۔ اول اس طرح کہ عیسائیوں کی طرف سے جو قرآن پیش کیا جاتا ہے اس کی وہی ترتیب ہے جو موجودہ قرآن کی ہے۔ اس لئے ان کا یہ کہنا انہی کے پیش کردہ قرآن سے غلط ہو گیا کہ حضرت عثمانؓ کے وقت قرآن کریم کی ترتیب بدل گئی تھی۔

پھر اس قرآن میں بعض ایسے الفاظ لکھے ہیں جو عربی کے ہیں ہی نہیں۔ مثلاً ایک جگہ علم کو ایلملکھا ہے۔ اسی طرح ایک جگہ ایسی غلطی کی ہے جس سے اس چور کا مشہور قصہ یاد آجاتا ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ نیا نیا چور بنا تھا۔ چوری کرنے کے بعد جب پولیس تحقیقات کے لئے آئی تو وہ خود بھی وہاں چلا گیا۔ اور تحقیقات میں مدد دینے لگ گیا۔ کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے چور ادھر سے آیا۔ یہاں سے اترا اور پھر ادھر گیا۔ پولیس والوں نے تاڑ لیا کہ اس کا چوری میں ضرور دخل ہے۔ اس لئے اس سے ساری باتیں پوچھنے لگے اور جدھر وہ لے گیا اس کے ساتھ چل پڑے۔ آخر ایک دروازہ کے پاس جا کر کہنے لگا۔ معلوم ہوتا ہے چور اس دروازہ سے نکلا اور اسے یہاں سے ٹھوکر لگی۔ اس پر گٹھڑی اندر اور مَیں باہر۔ اس موقع پر بےاختیار اس کے منہ سے میں نکل گیا۔ پولیس نے فوراً اسے پکڑ لیا۔ یہی حال یہاں ہوا۔ قرآن کریم میں ایک آیت ہے

وَاَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا (التوبہ:26)

اللہ تعالیٰ نے ایسے لشکر اتارے جن کو تم دیکھ نہیں رہے تھے۔ یہاں ھَا کی ضمیر جنود کے طرف جاتی ہے۔ مگر عیسائیوں کے پیش کردہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ یہاں جُنْدًاہے مگر آگے ھَا ہی رکھا ہے اور ضمیر کو نہیں بدلا۔ غرض اس قسم کی بہت سی شہادتیں ہیں جن سے اس کے اندر سے ہی غلطیاں معلوم ہو جاتی ہیں، معلوم ہوتا ہے کسی نے مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے اسے لکھا اور اس میں غلطیاں کرتا گیا۔ چنانچہ وَاِذِا اسْتَسْقٰیکو ککے ساتھ لکھا ہے۔

اسی طرح

ھُمُ السُّفَھَآءُ

کو

ھُمُسُّفَھَا

لکھ دیا۔اسی طرح اور کئی الفاظ غلط لکھے ہیں۔ مثلاً

اِنَّمَا النَّسِیْءُ

کو

اِنَّمَا اَلْ نَاسِیْ

لکھا ہے۔ حالانکہ نَاسِیان معنوں میں آتا ہی نہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کوئی جاہل عیسائی قرآن کی نقل کرنے بیٹھا جسے عربی نہ آتی تھی اور اس قسم کی غلطیاں کرتا گیا۔

اب میں قرآن کریم کے متعلق یوروپین مستشرقین کے بعض متفرق اعتراضات کا ذکر کرتا ہوں۔

قرآن کریم کا نزول چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں

یورپ کے مستشرق کہتے ہیں کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم ٹکڑے ٹکڑے نازل ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خدا کا کلام نہیں۔ خدا کو کیا ضرورت تھی کہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے نازل کرتا اسے تو اگلا پچھلا سب حال معلوم ہوتا ہے۔ چونکہ بندہ کو ہی اگلے حالات کا علم نہیں ہوتا اس لئے وہ اگلی باتوں کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو حالات پیش آتے جاتے تھے ان کے متعلق قرآن میں ذکر کر دیتے۔ پس یہ انکا کلام ہے، خدا کا کلام نہیں۔

قرآن کریم نے خود اس سوال کو لیا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ عَلَیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ جُمۡلَۃً وَّاحِدَۃً (الفرقان:33)

یعنی کفار کہتے ہیں کہ قرآن اس رسول پر ایک ہی دفعہ کیوں نازل نہیں کیا گیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو سوال عیسائیوں کو اب سوجھا ہے یہی سوال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کفار نے بھی کیا تھا کہ ایک ہی دفعہ قرآن کیوں نہ اترا۔ اس کا جواب خدا تعالیٰ نے یہ دیا کہ کَذٰلِکَاسی طرح اترنا چاہئے تھا جس طرح اتارا گیا ہے۔

لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ(الفرقان:33)

اور اس میں حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ ہم تیرے دل کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ گویا قرآن کا ٹکڑے ٹکڑے نازل ہونا خدا تعالیٰ کی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس سے اس کی شان بلند کا اظہار ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آہستہ آہستہ قرآن کے نازل ہونے سے دل کی مضبوطی کس طرح ہوتی ہے اس کے متعلق میں چند باتیں بتا دیتا ہوں۔

(1) اگر ایک ہی دفعہ قرآن نازل ہو جانے پر اس سے استدلال کرتے رہتے تو دل کو ایسی تقویت حاصل نہیں ہو سکتی تھی جیسی کسی امر کے متعلق فوراً کلام الٰہی کے اترنے سے ہو سکتی ہے۔ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو لطف اس میں آتا ہوگا کہ آپ کوئی کام کرتے اور اس کے متعلق وحی ہو جاتی اور خدا تعالیٰ اپنی مرضی اور منشاء کا اظہار کر دیتا۔ وہ لطف ہمیں اجتہاد سے کہاں حاصل ہو سکتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی واقعہ پیش آتا، آپؐ پر اس کے متعلق کلام الٰہی نازل ہو جاتا اور اس طرح معلوم ہو جاتا کہ اس کلام کا یہ مفہوم ہے۔ اگر آپ اجتہاد کر کے آیات کو کسی بات پر چسپاں کرتے تو وہ لطف نہ آتا جو اس صورت میں آتا تھا۔

(2) قرآن کریم

لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ

کا مصداق اس طرح ہے کہ جو کتاب ساری دنیا کے لئے آئی ہو اسے محفوظ رکھنا بھی ضروری تھا۔ اگر قرآن ایک ہی دفعہ سارے کا سارا اترتا تو اسے وہی شخص حفظ کر سکتا تھا جو اس کے لئے اپنی ساری زندگی وقف کر دیتا۔ لیکن آہستہ آہستہ اترنے سے بہت لوگ اس کو یاد کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور اپنے دوسرے کاروبار کے ساتھ قرآن کریم بھی حفظ کرتے گئے۔ اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس بات پر مضبوطی سے قائم ہو گیا کہ یہ کتاب ضائع نہیں ہوگی بلکہ محفوظ رہے گی۔ یہی وجہ تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت بہت کثرت سے ایسے لوگ تھے جنہیں قرآن کریم حفظ تھا مگر اب اس نسبت کے لحاظ سے بہت کم ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ تھوڑا تھوڑا نازل ہونے کی وجہ سے بہت لوگ ساتھ کے ساتھ یاد کرتے جاتے تھے۔

(3) تیسری حکمت تھوڑا تھوڑا نازل ہونے میں یہ ہے کہ ایک دفعہ سارا قرآن نازل ہونے کی وجہ سے لوگوں کے قلوب میں راسخ نہ ہو سکتا تھا۔ اب ایک ہندو جب مسلمان ہوتا ہے تو اسے اسلامی احکام پر عمل کرنے والے مسلمان نظر آتے ہیں۔ اس لئے وہ گھبراتا نہیں اور ان احکام پر عمل کرنا بوجھ نہیں سمجھتا۔ لیکن اگر کسی کو ہم ایک کتاب لکھ کر دے دیں کہ اس پر عمل کرو اور کوئی نمونہ موجود نہ ہو تو لوگ سو سال میں بھی اس پر عمل کرنا نہ سیکھ سکیں۔ پس قرآن کریم کی تعلیم کو راسخ کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اسے آہستہ آہستہ نازل کیا جاتا۔ ایک حکم پر عمل کرنا جب لوگ سیکھ جاتے تو دوسرا نازل ہوتا۔ پھر تیسرا۔ اور اس طرح سارے احکام پر عمل کرایا جاتا۔

(4) اگر ایک ہی وقت قرآن نازل ہوتا تو ترتیب وہی رکھنی پڑتی جو اب ہے۔ لیکن یہ ترتیب اس وقت رکھی جانی خطرناک ہوتی۔ جس طرح اب ہمارے لئے وہ ترتیب خطرناک ہے جس کے مطابق قرآن نازل ہوا تھا۔ اگر نماز اور روزوں وغیرہ کے احکام شروع میں ہوتے اور نبوت ثابت نہ ہو چکی ہوتی، تو وہ سمجھ میں ہی نہ آ سکتے تھے۔ پس پہلے نبوت کو ثابت کرنے کی ضرورت تھی اور یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچانی چاہئے تھی کہ یہ سچا نبی ہے۔ اس کے بعد عمل کی دعوت کا موقع تھا جس کے لئے احکام سکھائے جاتے۔ مگر اب یہ ضروری نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کو ماننے والی ایک جماعت موجود ہے۔ اب جو شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور اسلام کی خوبیوں سے واقف ہو کر آتا ہے۔ پس اس کے لئے قرآن کی اسی ترتیب کی ضرورت ہے جو اب ہے۔ لیکن قرآن کے ایک ہی دفعہ اکٹھا نازل ہونے سے یہ نقص پیش آتا۔

(جاری ہے )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button