یادِ رفتگاں

والد محترم نذیر احمد خادم صاحب کی سیرت کے چند واقعات

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

پیدائش و و فات

میرے بہترین دوست اور نہایت مہربان والد محترم نذیر احمد خادم صاحب 15؍ مارچ 1945ء کو محترم چودھری احمد دین صاحب چٹھہ اور محترمہ رسول بی بی صاحبہ کے ہاں چک 184-7R ضلع بہاولنگر میں پیدا ہوئے اور 6؍فروری 2021ءجمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب رات ایک بجے ایک دن کی مختصر سی علالت کے بعد طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں وفات پاکر اللہ تعالیٰ کےحضور حاضر ہوگئے ۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔

اسی روز آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ دارالفضل قطعہ نمبر 4 میں ہوئی۔ آپ کی وفات سے دل حزیں اور آنکھیں نمناک ہیں لیکن انسان کاملؐ کے ارشاد مبارک :

اِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبَ یَحْزَنُ وَلَا نَقُوْلُ اِلَّا مَا یَرْضٰی رَبُّنَا

یعنی آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگین ہے اور ہم کچھ نہیں کہتے مگر وہی جو ہمارے ربّ کو پسند ہو،کے مطابق ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں اور اُسی کے حضور سر تسلیم خم کرتے ہیں ۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ

اِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَالصَّدْمَۃِ الْأُوْلَی

کہ اصل صبر تو وہ ہے جو انسان کسی صدمہ کے ابتدائی وقت میں دکھاتا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اسی قسم کے صبر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایاہے :

بلانے والا ہے سب سے پیارا

اُسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

خاندان میں احمدیت

آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے دادا محترم چودھری شاہ دین صاحب چٹھہ کے ذریعہ آئی جو ایک عالم باعمل انسان تھے۔ جن کا اٹھنا بیٹھنا اس وقت کے بڑے بڑے علماء کے ساتھ تھا۔ ایک روز آپ کے دادا عرضی نویس سے عرضی لکھوانے سیالکوٹ کچہری گئے۔ آپ نے احمدی عرضی نویس کی میز پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک کتاب پڑی ہوئی دیکھی۔ آپ نے اس کتاب کو پڑھنا شروع کردیا۔ حسن اتفاق سے آپ کی نظرکتاب میں درج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی ’’زار بھی ہوگا تو ہوگا اُس گھڑی باحالِ زار‘‘پر پڑی تو آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری ہوگئی۔ چونکہ اُن دنوں ہندوستان کے اخباروں میں یہ خبریں شائع ہورہی تھیں کہ زارِ روس پر بڑا ظلم ہو رہا ہے۔ اس واقعہ کا آپ کے دل پر بہت گہرا اثر ہوا اور آپ نے اسی وقت عرضی نویس سے کہا کہ آپ کی بیعت کا خط حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھ دیں۔ یہ غالباً 1918ء کا واقعہ ہے۔

جماعتی خدمت

والد صاحب نے کالج کے زمانہ سے ہی خدمت دین کا آغاز کردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تحریرو تقریر میں خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ جوانی سے لے کر زندگی کے آخری وقت تک تقریر وتحریر اور وعظ ونصیحت کے ذریعہ خدمت دین اورتبلیغ دین میں لگے رہے۔ آپ نے مختلف جماعتی پروگراموں میں سینکڑوں کی تعداد میں تقاریر کرنے کی توفیق پائی۔ متعدد کامیاب مناظرے کیے۔ مختلف جماعتی اخبارات و رسائل میں سینکڑوں تعلیمی و تربیتی مضامین بھی لکھے۔ آپ کو مسجد ثنا دارالعلوم غربی ربوہ میں مسلسل پونے چار سال تک درس قرآن کریم دینے کی بھی توفیق ملی۔

23 سال کی عمر میں آپ نے بطور قائد مجلس گھٹیالیاں عملی خدمت کا آغاز کیا۔ بعدازاں ناظم اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ۔ نائب ایڈیٹر ماہنامہ خالد ربوہ۔ قائد ضلع خیرپور۔ قائد ضلع بہاولنگر۔ قائد علاقہ بہاولنگر۔ معتمد مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ربوہ۔ معاون صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ربوہ۔ مختلف مواقع پر پانچ مرتبہ قائمقام امیر ضلع بہاولنگر مقرر ہوئے۔ نائب امیر ضلع بہاولنگر۔ صدر جماعت چک 184-7R۔ ناظم انصاراللہ ضلع بہاولنگر۔ نائب قائد عمومی مجلس انصاراللہ پاکستان۔ قاضی دارالقضاء ربوہ۔ نائب صدرمحلہ دارالعلوم غربی ثنا ربوہ کے طور پر بھی خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔

تحریرو تقریر کے علاوہ آپ کو انتظامی امور کا خاص ملکہ حاصل تھا۔ بڑی کثرت کے ساتھ مجالس اور جماعتوں کے دورہ جات کرتے۔ ان جماعتی دوروں کے دوران کئی کئی روز گھر سے باہر رہتے۔ آپ نے بیالیس سال کی عمر میں سرکاری ملازمت شروع کی تھی۔ اس سے قبل آپ دن رات خدمت دین میں لگے رہتے۔ جب بھی مرکز سے کوئی خط یا پیغام ملتا آپ بلا توقف اسی وقت تیار ہوکر گھر سے چلے جاتے۔

مختلف وقتوں میں آپ کو اپنے علاقہ کے علاوہ مرکز کی طرف سے دیگر اضلاع میں بھی دورہ جات کے لیے بھجوایا جاتا رہا۔ معتمد خدام الاحمدیہ مرکزیہ اور معاون صدر مجلس خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے بھی آپ نے سندھ اور سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ)کے متعدد ضلعی اجتماعات میں بطور مرکزی نمائندہ شرکت کی توفیق پائی۔ ایک موقع پر آپ نے صوبہ سرحد کا گیارہ روزہ دورہ بھی کیا۔

جماعت احمدیہ پاکستان کی مجلس شوریٰ میں آپ کو سالہاسال تک شامل ہونے کی توفیق ملتی رہی۔ مجلس شوریٰ میں آپ کے مخلصانہ اور دردمندانہ مشوروں کو آج بھی آپ کے جاننے والے یاد کرتے ہیں۔

1978ء میں مجلس شوریٰ کے موقعے پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت آپ کو سب کمیٹی اصلاح وارشاد کا صدر مقرر فرمایا۔

(روزنامہ الفضل یکم اپریل 1978ء صفحہ 6)

84-1983ء میں آپ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے معتمدمجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ مقرر ہوئے۔

85-1984ء میں حضور رحمہ اللہ کی منظوری سے آپ کو بطور معاون صدرمجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی حیثیت سے خدمت کی توفیق ملی۔ اس خدمت کے دوران آپ نے بطور نمائندہ صدر مجلس پاکستان کی مختلف مجالس کے دورہ جات کی توفیق پائی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہجرت کے بعد1985ء میں آپ کو مسلسل اڑھائی ماہ تک مرکزی نمائندہ کی حیثیت سے صوبہ سندھ کی تمام جماعتوں کے دورہ کی توفیق ملی۔ آپ ہر روز کم از کم تین جماعتوں کا دورہ کرتے۔ آپ کی ایمان افروز اور ولولہ انگیز تقریروں سے احباب کے جذبہ ایمانی میں بہت اضافہ ہوا اور ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ آپ نے سندھ کی مختلف جیلوں میں قیدکلمہ طیبہ کی خاطر اللہ تعالیٰ کی راہ میں اسیری قبول کرنے والے احمدی احباب تک حضور رحمہ اللہ کا خصوصی پیغام پہنچایا۔ یہ پیغام پڑھ کر اسیران راہ مولیٰ کے اندر نئی ایمانی روح پیدا ہوئی اور ان کے حوصلے بہت بلند ہوگئے۔

2010ء میں گاؤں سے ربوہ ہجرت کے بعد آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے دارالقضاء ربوہ میں بطور قاضی مرافعہ اولیٰ میں خدمت کی توفیق ملتی رہی۔

ربوہ میں رہائش کے دوران آپ کو متعدد جماعتی کتب کی پروف ریڈنگ کی بھی توفیق ملی۔ جن میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر مشتمل کتاب سبیل الرشاد جلد چہارم بھی شامل ہے۔ آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے ترجمہ قرآن کی پروف ریڈنگ کی بھی توفیق ملی۔

لواحقین

ہماری والدہ مکرمہ ناصرہ صدیقہ صاحبہ حیات ہیں اور انہوں نے اس صدمہ کو بڑے صبر اور حوصلے سے برداشت کیا ہے۔ آپ کو جو بھی دینی خدمت کرنے کی توفیق ملی ہے اس میں ہماری والدہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ انہوں نے اپنے خاوند کو کبھی کسی بھی موقع پر خدمت سے نہیں روکا بلکہ کہا کرتیں کہ یہ سب تواللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ انہیں خدمت دین کی توفیق مل رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹوں خاکسار ظہیر احمد طاہرنائب صدرمجلس انصاراللہ جرمنی، مکرم نصیر احمد شاہد(مقیم جرمنی)، مکرم تنویر احمد ناصر(مقیم جرمنی)، مکرم ناصر احمد ندیم(مقیم ربوہ) اور دو بیٹیوں مکرمہ بشریٰ نذیر آفتاب اہلیہ مکرم آفتاب احمد صاحب (کینیڈا)، مکرمہ صادقہ منورہ اہلیہ مکرم ناصراحمد صاحب (مقیم کینیڈا) سے نوازا۔ سب بچے بفضل اللہ تعالیٰ شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو متعدد پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں سے نوازا۔ آپ کی پانچ پوتیاں بھی شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں۔ آپ کے ایک نواسے عزیزم ماہد احمد ناصر جامعہ احمدیہ کینیڈا کے طالب علم ہیں۔ آپ کے چھوٹے بھائی مربی سلسلہ ہیں اور اس وقت بطور ایڈیشنل ناظر اشاعت صدر انجمن احمدیہ ربوہ خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔ الحمدللہ علیٰ ذالک

اللہ تعالیٰ سے تعلق

اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار کے والدبچپن سے نماز باجماعت کے حد درجہ پا بند اور جوانی سے نماز تہجد ادا کرنے والے باعمل انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر آپ کو حددرجہ ایمان تھا۔ بڑی کثرت کے ساتھ دعائیں کرتے اور اُن کی قبولیت کا فیض پاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ سچی خوابوں کے ذریعہ بھی آپ کی رہ نمائی فرمایا کرتا تھا۔ وفات سے چند روز قبل خاکسار کو بتایا کہ آج رات میں نے خواب میں دیکھا کہ محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب مسجد مبارک ربوہ میں میرے پاس تشریف لائے اورمیرا دایاں ہاتھ پکڑ کر محراب میں لے گئے۔ انہوں نے محراب میں بچھے جائے نماز کو بائیں طرف کرکے اس کے ساتھ ایک اور جائے نماز بچھا دیا اور خود بائیں جانب کھڑے ہوگئے اور آپ کو اشارہ کیا کہ آپ دائیں طرف کھڑے ہوجائیں اور نماز پڑھائی۔

قرآن کریم سے والہانہ عشق

تلاوت قرآن کریم آپ کی روح کی غذا تھی۔ دن میں کئی مرتبہ تلاوت قرآن کریم کیا کرتے تھے۔ آپ نے متعدد بار خاکسار کو بتایا کہ میں جلدی جلدی قرآن کریم نہیں پڑھتا بلکہ قرآن کریم کا جو حصہ تلاوت کرتا ہوں اُس پر غوروفکر کرتا ہوں اور اُسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں اس لیے میرے پڑھنے کی رفتار بہت کم ہے۔ تین چار تر اجم قرآن اور تفاسیر ہر وقت آپ کے بیڈ کے پہلو میں موجود میز پر رکھی ہوتیں۔ تلاوت کرتے وقت آیات آپ کی ڈائری کی بھی زینت بنتی رہتی تھیں۔ قرآن کریم کے بے شمار حصے آپ کو زبانی یاد تھے۔ گذشتہ سال ہر دوسرے تیسرے دن دو تین آیات یاد کرکے خاکسارکو فون پر سنایا کرتے تھے۔ ماہ نومبرمیں خاکسار نے ذکر کیا کہ میں وہ آیات جمع کررہاہوں جن میں قرآن کا لفظ آیا ہے۔ آپ نےاگلے ہی دن ایسی آیات یاد کرنا شروع کردیں اور دوسرے تیسرے دن ایک آیت یاد کرکے مجھے فون پر سنادیتے۔ ماہ دسمبر کے آخر تک آپ نےایسی 27آیات مجھے سنائیں۔

غالباً 1971ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے گھروں میں تفسیر صغیر کے درس کی تحریک فرمائی تھی۔ آپ بتایا کرتے تھے کہ اس دن کے بعد سےجب آپ گھر میں موجود ہوں کبھی تفسیر صغیر کے درس میں ناغہ نہیں ہونے دیا۔

دو سال قبل آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے تفسیر ی نوٹس کے ساتھ ترجمہ قرآن کی فائنل پروف ریڈنگ کی توفیق ملی۔ اسے اپنے لیے بہت بڑی سعادت جانتے تھے اور اکثرخاکسار سے اس کاذکر کیا کرتے تھے۔

جماعت سے دلی وابستگی

خاکسار کے والد اگرچہ ایک دیندار احمدی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے لیکن آپ اکثر بتایا کرتے تھے کہ تیرہ چودہ سال کی عمر میںآپ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ مجھے خود احمدیت کے متعلق جاننا چاہیے چنانچہ آپ کثرت سے جماعتی لٹریچر اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کے بعد احمدیت کی صداقت کےقائل ہوئے اور تمام عمر جماعتی تعلیمات کو اپنوں بیگانوں میں پھیلانے کے لیے کوشاں رہے۔

خلافت احمدیہ سے فدایانہ تعلق

آپ خلافت احمدیہ کے حقیقی جاںنثار تھے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ خلافت سے حقیقی محبت کا تقاضا ہے کہ خلیفۂ وقت کی زبان مبارک سے نکلنے والے تمام ارشادات پردل وجان سے عمل کرنے کی کوشش کی جائے اور خلیفہ وقت کی تمام تحریکات پر لبیک کہا جائے۔ حضور انور کے خطبات اور ارشادات نہ صرف سنتے تھے بلکہ ہمیشہ ان کے نوٹس بھی لیتے تھے اور وقتاً فوقتاًاپنی اولاداور زیر اثر لوگوں کو پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ حضور انور کا خطبہ جمعہ ختم ہوتے ہی اپنے بچوں میں سے کسی نہ کسی کو فون کرکے خطبے کے اہم نکات دہراتے اور ان سے بھی کہتے کہ وہ بھی چند نکات بیان کریں۔ محبت کا ایک انداز یہ تھا کہ خلیفہ وقت کی خدمت میں مختصر خط لکھتے تاکہ آپ کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو۔

نظام جماعت اور خلافت احمدیہ کے خلاف ایک لفظ سننا پسند نہیں کرتے تھے۔ پرائیویٹ تقریبات میں اگر نظام جماعت کے خلاف کوئی عمل دیکھتے تو فوراً سمجھاتے۔ اگرگھر والے نہ سمجھتے تو تقریب سے چلے جاتے اور کسی کی ناراضگی کی ہرگزہرگز پروا نہ کرتے تھے۔

مطالعہ کتب

قرآن کریم کے علاوہ کتب احادیث اور خاص طورپر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ہمیشہ آپ کے زیر مطالعہ رہتیں۔ خلفائے احمدیت کی تحریروں پر بھی آپ کی گہری نظر تھی۔ تمام جماعتی اخبارات و رسائل کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے۔ آپ مطالعہ سے اخذ کیے گئے اہم نکات اپنی ڈائری میں نوٹ کرتے اور پھر اس فیض سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے۔

نظام وصیت اور چندہ جات

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو جوانی کی عمر میں نظام وصیت میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ چندہ جات کی ادائیگی کا حد درجہ خیال رکھتے اور بروقت ادائیگی مکمل کرتے۔ مختلف تحریکات کے وعدہ جات لکھواتے ہی ان کی ادائیگی بھی مکمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالی کشائش عطا کی تھی چندوں کی ادائیگی میں بھی اس کا بہت خیال رکھتے۔

ہمدردیٔ خلق

ہمدردی خلق آپ کا نمایاں وصف تھا۔ اس میں اپنے پرائے اور دور ونزدیک والوں میں کبھی تخصیص نہ کرتے تھے۔ ہر ایک انسان سے ہمدردی سے پیش آتے۔ غریبوں کا بہت خیال رکھتے اور بڑی کثرت کے ساتھ ان کی مالی امداد کیا کرتے تھے۔ جس میںقریبی عزیز اور احمدی غیر احمدی سبھی شامل تھے۔ وفات کے بعد متعدد لوگوں نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ جب بھی ضرورت پیش آتی تھی بلا جھجک آپ کے پاس چلے جایا کرتے تھے۔ ویسے بھی کسی غریب کو دیکھتے تو موقع پر کچھ نہ کچھ مدد کرنے کی کوشش کرتے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جب ہومیوپیتھی کلاسز کا اجرا فرمایا تو آپ باقاعدگی سے ان میں شامل ہوتے اور بعدازاں حضور رحمہ اللہ کی ہومیوپیتھی کتاب علاج بالمثل کو کثرت سے پڑھتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے بلا مبالغہ ہزاروں لوگوں کو مفت علاج کی سہولت پہنچا کر خلیفۃ المسیح کے فیض کو عام کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں بہت شفا رکھی تھی۔ دُور دراز علاقوں سے لوگ علاج کی غرض سے آپ کے پاس آیا کرتے تھے۔ بے شمار ایسے لوگوں کو آپ کی دعاؤں اور علاج کے ذریعہ شفا ملی جنہیں ڈاکٹروں نے لا علاج قرار دے دیا تھا۔ خلافت کے ادنیٰ خادم ہونے کے ناطے آپ کی دعاؤں کی قبولیت بھی خلیفۂ وقت کا فیض ہی تھیں۔فالحمدللہ

نڈر مبلغ اور مناظر

آپ ایک نڈر مبلغ اسلام واحمدیت اور مناظر کے طور پر بھی خدمت میں پیش پیش تھے۔ مجھے بتایا کرتے تھے کہ جب ساتویں کلاس میں پڑھتے تھے تو اس وقت سکول کی چھوٹی سی لائبریری سے آپ نے جو پہلی کتاب لی وہ جماعت کی مخالفت میں لکھی ہوئی تھی۔ آپ نے اس کتاب کے مطالعہ کے بعد جماعت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا کثرت سے مطالعہ کیا۔ اس وسیع مطالعہ کی بناپر آپ کو اسلامی و دینی مسائل پر بہت عبور حاصل تھا جو تحریرو تقریر اور علمی مباحثوں میں آپ کے بہت کام آتا۔

آپ کی تبلیغ سے متعدد نیک فطرت لوگوں کو قبول احمدیت کی توفیق ملی۔ ایک مرتبہ بہاولنگر کے ایک گاؤں 164-7Rکے ایک مخلص احمدی دوست مکرم فیض احمد صاحب کاہلوں کے گھر میں آپ کی زیر صدارت جلسہ سیرت النبیﷺ ہو رہا تھا جس میں آس پاس کی جماعتوں سے متعدد احمدی احباب شامل ہوئے۔ جلسے کو شروع ہوئے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ کھولنے پر تھانیدار کی قیادت میں متعدد پولیس اہلکار بندوقیں تھامے گھر میں داخل ہوکر حاضرین کے قریب کھڑے ہوگئے۔ جو دوست اس وقت تقریر کررہے تھے وہ پولیس والوں کو دیکھ کر خاموش ہوگئے اور چند بار توجہ دلانے پر جب وہ خاموش رہے تو آپ اسٹیج پر آئے اور نہایت جوش اور ولولے کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی عشق رسولﷺ سے متعلق تحریروں اور اشعارکو اس انداز میں پیش کیا کہ پولیس والے چالیس منٹ تک نہایت توجہ اور انہماک سے ان پاکیزہ کلمات کو سنتے رہے۔ تقریر ابھی جاری تھی کہ وہ چالیس منٹ کے بعد بڑی خاموشی سے گھر سے باہر نکل کرسیدھے شکایت لگانے والے کے گھر گئے۔ تھانیدار نے اُس شخص سے کہا کہ تم تو کہتے تھے کہ آج قادیانیوں کی وجہ سے نقض امن کا خطرہ ہے اور گاؤں میں خون کی ندیاں بہ جائیں گی جبکہ مجھے تو وہاں سراسر عشق رسولﷺ نظر آیا ہے اور میں نے اُن لوگوں کو کثرت سےدرود شریف پڑھتے اور آپﷺ کی محبت میں آنسو بہاتے دیکھا ہے۔ تھانیدار نے اس شخص کو سخت الفاظ میں تنبیہہ کی اور وہاں سے روانہ ہوگیا۔

1984ء سے پہلے آپ کو متعدد کامیاب مناظرے کرنے کی بھی توفیق ملی۔ ایک مناظرے کی ابتدا میں ہی جب آپ اور آپ کے چچا چودھری غلام مصطفیٰ چٹھہ صاحب نے اس علاقے کے ایک مشہور مولوی کے سامنے وفات مسیح سے متعلق متعدد قرآنی آیات نہایت مدلل انداز میں پیش کیں اور اُسے کہا کہ اب وہ ان آیات کادلیل سے ردّ کردے اورقرآن کریم سےایک آیت دکھادے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسم سمیت زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں۔ تو مولوی صاحب پر ایسا رعب طاری ہوا کہ انہوں نے کوئی جواب دینے کی بجائے پانی پانی پکارنا شروع کردیا۔ ایک شخص پانی کا جگ لے آیا۔ مولوی صاحب نے پانی گلاس میں ڈلوایا،غٹا غٹ سارا گلاس پی کر گلاس پھر آگے کردیا اور ایک ایک کرکے چھ گلاس پانی چڑھاگئے۔ جب صاحب خانہ نے مولوی کی یہ حالت دیکھی تو کھڑے ہوکر بجائے اس کے کہ حق کا ساتھ دیتے نہایت غضبناک انداز میں کہنا شروع کردیا کہ آپ ہمارے مولوی کو مارنے لگےہیں ہم آپ لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ ساتھ ہی اپنے بیٹے سے کہا کہ کمرے کی اندر سے کنڈی لگا دو۔ اس موقع پر مناظرے میں شامل کچھ شریف النفس غیر احمدی ہمارے دفاع میں کھڑے ہوگئے اور اس طرح مولوی کو راہِ فرار اختیار کرنا پڑی۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔ خاکسار کو بھی اس مناظرے میں شامل ہونے کی توفیق ملی تھی ۔اب بھی اس کے متعدد گواہ زندہ سلامت موجود ہیں۔

تحریروتقریر

اللہ تعالیٰ نے آپ کو تحریروتقریر کا خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ کالج میں پہلے سال سے ہی آپ نے تحریروتقریر کا آغاز کردیا تھا۔ آپ کی تقریروں کو سننے والے جانتے ہیں کہ آپ نہایت والہانہ جوش کے ساتھ قرآن کریم، احادیث اور خاص طور پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ جات پیش کیا کرتے تھے۔ والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ جب آپ تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں میں زیر تعلیم تھے اس زمانے میں گھٹیالیاں کے علاوہ، کوٹ گوندل، عہدی پور، گوڈی ملہیاں،قلعہ کالر والا، داتہ زید کا،گھنوکےججہ،چندرکے منگولے، کولہا مہاراں میں سیرت النبیﷺ، یوم مسیح موعوؑد، یوم مصلح موعودؓ اور یوم خلافت کے جلسوں کے علاوہ تعلیمی وتربیتی جلسے بڑی کثرت کے ساتھ سارا سال جاری رہتے تھے۔ ان جلسہ جات میں آپ کو اپنے دو محترم اور شفیق اساتذہ محترم مولوی بشیر احمد زاہد صاحب اور محترم عبدالحلیم خان صاحب کاٹھگڑھی کے ساتھ شامل ہونے اور تقریر کرنے کا موقع ملتا تھا۔ یہ سلسلہ کالج کی تعلیم کے بعد بھی جاری رہا۔

تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں میں منعقد ہونے والی تمام اہم تقریبات میں تقریر کرنے کی توفیق پاتے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ کالج کے ہر دلعزیز پرنسپل محترم عبدالسلام اختر صاحب میری تقریر کے دوران اسٹیج پر دائیں بائیں بیٹھے پروفیسر صاحبان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کرتے تھے کہ’’خادم کے الفاظ دیکھو، خادم کا انداز دیکھو۔‘‘

ایک بار تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں کی سرسبز وشاداب اور وسیع گرائونڈ میں ایک جلسہ عام ہوا جس میں کالج کے پرنسپل جناب چودھری عبدالسلام اختر صاحب نے تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں کے نمائندہ مقرر کی حیثیت سے آپ کو تقریر کے لیے نامزد فرمایا۔ اس تقریر کا عنوان تھا ’’علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔‘‘مرکز سلسلہ سے اس جلسہ عام میں محترم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب، مولانا شیخ مبارک احمد صاحب،مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ تشریف لائے ہوئے تھے۔ جس اجلاس میں آپ نے تقریر کی اس کی صدارت محترم چودھری نذیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نائب امیر ضلع سیالکوٹ نے فرمائی۔ جب آپ نے تقریر ختم کی تو صدرِ اجلاس نے جلسہ میں شامل کم وبیش پانچ ہزار احباب وسامعین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :’’احباب کرام حضرت مسیح علیہ السلام کا قول ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ ابھی آپ نے تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں کے ایک طالب علم کی تقریر سنی ہے اور آپ میرے ان جذبات کی تائید کریں گے کہ خدا کے فضل وکرم سے ہمارا یہ کالج اس شان کے ہونہار طلبہ کو جنم دے رہا ہے۔‘‘

جب آپ تقریر ختم کرکے اپنی نشست پر بیٹھ گئے تو مولانا شیخ مبارک احمد صاحب(مبلغ سلسلہ امریکہ) جو دُور ایک نشست پر تشریف فرما تھے اپنی نشست سے اُٹھ کرآپ کے پاس تشریف لائے اور پرتپاک اور نہایت شفقت بھرے انداز سے آپ کو بھرپور داد دی اور فرمایا کہ آپ کی تقریر نے ہم سب کا دل باغ باغ کردیا ہے۔ جزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے۔

خیرپور اور بہاولنگر میں خدمت کے دوران بھی آپ کومختلف جماعتوں اور مجالس میں منعقد ہونے والے جلسہ جات اور اجلاسات میں تقریر کرنے کے بے شمار مواقع ملتے رہے۔ چند جماعتیں آپ کو باصرار اپنی جماعت میں نماز جمعہ پڑھانے کے لیے مدعو کرتیں اور حاضرین بڑی محبت و اخلاص کے ساتھ آپ کی تقاریرو خطبہ جات کو سنتے۔

آپ نے بہاولنگر میں خدام الاحمدیہ کے زیر انتظام ضلعی اجتماع کا آغا ز کیا ۔اس تعلیمی و تربیتی اجتماع میں مرکز سلسلہ سے علماء تشریف لاتے۔ محترم محمود احمد بنگالی صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ بھی تشریف لاتے اورآپ کی مدلل اور پرجوش تقریر کوبہت سراہتے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد ازاں محترم صدر صاحب آپ کو متعدد دیگر اضلاع میں بطور مرکزی نمائندہ بھجوایا کرتے تھے۔

تربیت کا انداز

آپ نے اپنے عملی نمونے سے اپنی اولاد کی احسن رنگ میں تربیت کی توفیق پائی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری اولاد خلافت احمدیہ کی اطاعت گزار اور نظام جماعت سے وابستہ ہے اور خدمت دین میں پیش پیش رہتی ہے۔ اپنی اولاد کے علاوہ ہر احمدی بچے کی تعلیم وتربیت کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ ابتدائی عمر سے لے کر آخری عمر تک آپ کا یہ معمول رہا کہ کوئی بھی احمدی بچہ کہیں مل جاتا تو اُس کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملتے اور اس کی عمر کے حساب سے دینی باتیں پوچھتے اور اسی مناسبت سے کچھ نہ کچھ سکھانے کی کوشش کرتے۔ بچوں کے ساتھ نہایت شفقت آمیز سلوک روا رکھتے تھے۔ بڑوں کے ساتھ بھی خاص محبت سے پیش آتے اور خدمت کے کسی موقع کو ضائع نہ ہونے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اپنے حلقہ احباب اور خاندان میں بڑی ہر دلعزیز شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔

محترم والد صاحب کی وفات پر دنیا بھر سے ان گنت احباب و مستورات نے ہمارے گھروں میں تعزیت کے لیے مختلف طریق اور ذرائع سے رابطہ کیا اور ہمارے غم میں شریک ہوکر اس دکھ کی گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا ۔ حسب توفیق سب کا شکریہ اد ا کرنے کی بھی کوشش کی گئی لیکن چونکہ انسان کمزور ہستی ہے اس لیے ہوسکتا ہےکہ انسانی کمزوری کے سبب کسی کا شکریہ ادا کرنے سے رہ گیا ہو ۔ ہماری والدہ محترمہ اور سب افراد خانہ آپ کےدلی جذبات کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔آپ کے پیارو محبت اور دعاؤں کے لیے تہِ دل سے آپ کے شکر گزار ہیں ۔آپ میں سے اکثر نے محترم والد صاحب کی بے شمار خوبیوں اور صفات کا بھی ذکر کیا ۔ہمارے والدصاحب کو اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو اور اُس کے پیار نظریں آپ پر پڑتی رہیں ۔ آمین ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارا آسمانی آقا ہمیں بھی اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلنے ، آپ کی خوبیوں اور نیک صفات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔اللہ تعالیٰ نیکیوں کے اس فیض کو ہماری نسلوں میں بھی جاری کردے اور تا ابد ہمارے والد محترم کے درجات بلند فرماتا رہے ، آپ کو اپنے پیاروں کے قرب میں جگہ عطا فرماتے ہوئے اپنی رضا کی جنتوں میں داخل کردے ۔ آمین یا رب العالمین

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت و محبت 5؍مارچ 2021ء کے خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا:

نذیرخادم صاحب نے کالج کے زمانہ سے ہی خدمت دین کاآغاز کردیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے ان کو تحریرو تقریر میں خاص ملکہ عطافرمایاتھا۔جوانی سے لےکر زندگی کے آخری وقت تک تقریروتحریر اور وعظ ونصیحت کے ذریعہ خدمت دین اورتبلیغ دین میں لگے رہے۔ خدام الاحمدیہ ربوہ میں معاون صدر رہے۔ پھر معتمد کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ پھر نائب امیر ضلع بہاولنگر بھی رہے۔ نائب قائد عمومی مجلس انصاراللہ کی خدمت کی توفیق ملی۔ دارالقضا ربوہ کے قاضی بھی رہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے ۔ اوران کے بچوں کوان کی نیکیوں کا جاری رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍مارچ 2021ءمسجد مبارک اسلام آباد )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button