متفرق مضامین

محترم چودھری حمیداللہ صاحب۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

(ایک واقفِ حال کے قلم سے)

مکرم و محترم چودھری حمیداللہ صاحب مرحوم کو میں اس وقت سے جانتا تھا جب میں 1961ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ سے میٹرک کرنے کے بعد تعلیم الاسلام کالج میں داخل ہوا۔ اگرچہ میں آرٹس سٹوڈنٹ تھا اور اس وجہ سے میں چودھری حمیداللہ صاحب کا باقاعدہ شاگرد تو نہیں رہا لیکن کئی حوالوں سے ان سے تعلق تھا۔ ان کے والدِ بزرگوار چودھری محمد بخش صاحب المعروف ’’تاربابو‘‘اور میرے تایا، مکرم محمد اسحٰق صاحب ریٹائرڈ ہیڈماسٹر کی ملازمت کا زیادہ عرصہ ریاست بہاولپور میں گزرا تھا۔ ان دونوں کے محکمے جدا جدا تھے لیکن احمدیت نے انہیں رشتہ موَدَّت میں باندھ رکھا تھا اور ان دونوں صاحبان کی اولاد بھی ایک دوسرے سے بخوبی متعارف تھی۔ خود چودھری حمیداﷲ میرے چچا پروفیسر محمد ابراہیم صاحب ناصر کی طرح کالج میں ریاضی کے استاد تھے، وہ ابا جی مرحوم کی خدماتِ سلسلہ سے بھی واقف تھے اور ان کی ایک بہن رضیہ سلطانہ میری بہن، صالحہ (جنہیں ہم گھر میں آپی کہتے ہیں ) کی کلاس فیلو رہ چکی تھیں۔ اس پس منظر میں مجھے کبھی چودھری حمید اﷲ صاحب کو اپنا تعارف کرانے کی ضرورت پیش نہیں آئی اور وہ مجھ سے ہمیشہ بہت عزت و احترام سے پیش آتے رہے۔ آج جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوچکے ہیں ان کی بعض نیکیاں اور بہت سی خوبیاں یاد آرہی ہیں۔

میں نے 1991ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کی غرض سے ہندوستانی ویزا کے لیے در خواست تو بروقت دے دی تھی لیکن ویزا لگ کرپاسپورٹ آنے میں بہت تاخیر ہو گئی۔ جب مجھے پاسپورٹ ملا تو جلسہ شروع ہونے میں صرف چند روز با قی رہ گئے تھے اور قافلے میں شمولیت چودھری حمیداللہ صاحب (جو جلسہ سالانہ قادیان کے انتظامات کے نگران تھے) کی منظور ی کے بغیر ممکن نہ تھی۔ ان دنوں میری تقرری اسلام آباد میں تھی۔ میں لشتم پشتم ربو ہ پہنچا اور اُن سے رابطہ کیا۔ موصوف نے ضروری مدد کا وعدہ کیا چنانچہ اگلے دن صبح ہی صبح دفتری کارروائی مکمل ہو گئی اور میرا نام بھی قافلے میں شامل کر دیا گیا۔

میں پچھلے کئی سال سے جب بھی ربوہ جاتا چودھری حمیداللہ صاحب کے پاس اُن کے گھر یادفتر ضرور حاضر ہوتا۔ وہ موسم کے مطابق ہمیشہ تواضع کرتے۔ دفتر میں جوس پیش کرتے لیکن فرمائش کی جاتی تو چائے بھی بنوالیتے۔ ان سے بہت سے موضوعات پر باتیں ہوتی رہتیں۔ جب تعلیم الاسلام کالج میں گزرے ہوئے وقت کا ذکر ہو تاتو آپ بتاتے:’’صوفی بشارت الرحمٰن کالج کے چیف پراکٹر ہوا کرتے تھے اور میں پراکٹر۔ اسی دوران وہ ٹائون کمیٹی، ربوہ کے چیئرمین مقرر ہو گئے۔ انہوں نے پرنسپل صاحب سے درخواست کی کہ چونکہ ان کی مصروفیت بڑھ گئی ہے لہٰذا اگر انہیں چیف پراکٹر کی ذمہ داری سے فارغ کیا جا سکے تو مناسب ہو گا۔ پرنسپل صاحب نے ان کی درخواست قبول کر کے مجھے چیف پراکٹر بنا دیا۔ جب صوفی صاحب بطور چیئرمین اپنے عہدہ کی میعاد پوری کر چکے تو میں نے پرنسپل صاحب سے گزارش کی کہ چونکہ صوفی صاحب اس ذمہ داری سے فارغ ہو چکے ہیں لہٰذا مجھے چیف پراکٹر کے عہدے سے فارغ کر دیا جائے۔ اس پر آپ مسکرائے اور فرمانے لگے:’’مجھے تو آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے!‘‘آپ نے ایک ہی فقرے میں میرے سوال کا جواب دے دیا تھا۔

جب تعلیم الاسلام کالج نیشنلائز ہوا تو چودھری حمید اﷲ صاحب یہیں پڑھاتے تھے۔ نیشنلائزیشن پر جماعت کا فوری ردِعمل کیا تھا، خود اُن ہی کی زبانی سنیئے:’’جب ایک حکومتی فیصلے کے تحت پرائیویٹ کالجوں کو قومیا لیا گیا تو حضرت خلیفۃالمسیح الثّالثؒ نے تعلیم الاسلام کالج کے واقفِ زندگی اساتذہ کا ایک اجلاس طلب کیا اوراپنے خطاب میں فرمایا کہ کالج سٹاف کو اس حکومتی اقدام پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ حضورؒ کا خیال تھا کہ بھلے یہ کالج حکومتی انتظام میں چلا جائے، اگر اس کی تابندہ روایات قائم رہتی ہیں تو ہم یہی سمجھیں گے گویا یہ کالج ہمارے پاس ہی ہے لہٰذا واقفین اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ ان روایات کی حفاظت کریں۔ اس موقع پر حضورؒ نے واقفین اساتذہ کی ایک مجلس کے قیام کا اعلان فرماتے ہوئے مجھے اس کا سیکرٹری مقرر کیا۔ اس میٹنگ میں ایک مختصر سا نوٹ بھی تیار ہوا جو کہیں نہ کہیں محفوظ ہو گا۔‘‘

چودھری حمیداﷲ صاحب بیان جاری رکھتے ہوئے فرمایا کرتے تھے :’’ابھی اس بات پر دو سال ہی گزرے تھےکہ ربوہ ریلوے اسٹیشن والا واقعہ ہو گیاجس کے فوراً بعد پہلے سے طے شدہ ایک منصوبے کے تحت ملک بھر میں احمدیوں کے خلاف ہنگامے شروع ہو گئے۔ حکومت نے اپنی انتقامی کارروائیوں کے دوران کالج کے بہت سے احمدی اساتذہ کو بھی تبدیل کر دیا۔ حد یہ ہے کہ اچھے بھلے کوالیفائیڈ اساتذہ کو چھوٹے چھوٹے دیہی کالجوں میں بھجوادیاگیا۔ اس پر حضورؒ نے واقفین اساتذہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے تحریری استعفیٰ خاکسار کے پاس جمع کرا دیں۔ مقصد یہ تھا کہ جب جماعت ان اساتذہ کی ضرورت محسوس کرے گی، انہیں حکومت کی نوکری چھو ڑ کر یہاں رپورٹ کرنے کی ہدایت کر دی جائے گی۔ حضورؒ کی اس ہدایت پر جملہ واقفین اساتذہ نے اپنے اپنے استعفے میرے پاس جمع کرا دیے۔ صاحبزادہ مرزاخورشید احمد مرحوم تو حضورؒ کے ارشاد پر کچھ عرصہ پہلے ہی یہ ملازمت چھوڑ کر ناظر خدمتِ درویشان مقرر ہو چکے تھے۔ 1974ء کے فوراً بعد حضور نے جن واقفین کو خدمت کے لیے طلب فرمایا ان میں میرے علاوہ صوفی بشارت الرحمٰن شامل تھے۔ حضورؒ نے مجھے ناظر ضیافت مقرر فرمایا اور صوفی صاحب کو ناظر تعلیم۔ بعد میں کچھ اور اساتذہ کو بھی طلب کیا گیالیکن زیادہ تر اساتذہ کو کالج ہی میں رہنے دیا گیا۔‘‘

جب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ کی شفقتوں اور محبتوں کا ذکر ہو تو چودھری حمید اﷲخاموش نہیں رہ سکتے تھے اور کہتے:’’آپ کی شفقت و محبت کے اتنے واقعات ہیں کہ کئی کتابیں بھی ان کا پورا احاطہ نہیں کر سکتیں۔ جس زمانے کی میں بات کر رہا ہوں میری اور میرے بہت سے رفقائے کار کی نئی نئی شادیاں ہوئی تھیں۔ بعض دفعہ ان کی بیویاں میکے چلی جاتیں اور گھر پر کھانے کا انتظام نہ ہوتا تو وہ دوپہر کا کھانا بابا شادی یا لال دین سے کہہ کر ہوسٹل سے منگوا لیتے۔ ایک شام میں بھی اس ارادے سے سٹاف روم میں جا بیٹھا کہ میں کھانا ہوسٹل سے منگوا لوں گا۔ ابھی کسی مددگار کارکن کا انتظار کر رہا تھا کہ میں نے لال دین کو اپنے ہاتھ میں ایک پلیٹ پکڑے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا۔ یہ پلائو کی پلیٹ تھی جو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے اس ہدایت کے ساتھ بھجوائی تھی کہ سٹاف روم میں جو لیکچرر بھی بیٹھا ہو اسے پیش کر دی جائے۔ اتفاق سے میں بیٹھا تھا چنانچہ وہ پلیٹ مجھے مل گئی۔ اگلے روز جب میں نے آپ کی اس عنایت کا شکریہ ادا کیا تو آپ بہت خوش ہوئے اور مسکرا کر کہنے لگے:’’بھئی ایسے تو نہیں کہتے کہ دانے دانے پر مہر ہوتی ہے۔‘‘

چودھری حمید اﷲ صاحب اپنے رفقائے کار کا ذکر بھی بہت محبت سے کرتے۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ جب انہوں نے میٹرک پاس کرنے کے بعد خود کو وقف کے لیے پیش کیا تو وکالتِ دیوان میں ساری کارروائی چودھری محمد شریف صاحب خالد کے ذریعہ ہوئی جو اُن دنوں غالباً نائب وکیل الدیوان تھے۔ یہ ان کا چودھری محمد شریف صاحب خالد کے ساتھ پہلا تعارف تھا لیکن جب وہ کالج میں اکٹھے رہے تو ان کی بہت سی خوبیاں کھل کر سامنے آئیں جن میں سے ایک ان کی بذلہ سنجی تھی۔

موصوف میاں عطاء الرحمٰن کاایک واقعہ بایں الفاظ بیان کیا کرتے تھے:’’ایک بار پرنسپل صاحب کے ساتھ کسی میٹنگ میں مختلف مضامین کے نتائج پر گفتگو ہو رہی تھی اور وہ جاننا چاہتے تھے کہ طلباءکی کمزوری کی وجوہات کیا ہیں۔ جب میاں عطاء الرحمٰن سے یہی سوال پوچھا گیا تو انہوں نے بہت دلچسپ جواب دیاکہ’’سر! میں اپنا لیکچرطلباء کے کانوں تک تو پہنچا سکتا ہوں لیکن ان کے دماغ میں ٹھونسنا میرے بس سے باہر ہے۔‘‘ پرنسپل صاحب یہ جواب سن کر مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔‘‘

سلسلہ کے اس نامور خادم نے اپنی زندگی خدمتِ دین کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ جب اس حوالے سے بات ہوتی تو وہ بتاتے:’’میں نے 1947ء میں آٹھویں جماعت پاس کی تھی۔ ان دنوں مدرسہ احمدیہ میں داخلہ آٹھویں جماعت کے بعد ہوتا تھا چنانچہ ایک شام میری والدہ مجھے حضرت اُمّ وسیم صاحبہ کے پاس لے گئیں اور ان سے درخواست کی وہ حضور سے پوچھ کر بتا دیں کہ اس بچے کو مدرسہ احمدیہ میں داخلہ کرایا جائے یا وہ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں پڑھائی جاری رکھے۔ حضرت اُمّ وسیم صاحبہ نے فرمایاکہ مغرب کی نماز کا وقت ہونے والا ہے، حضورؓ یہیں سے گزر کر مسجد جائیں گے۔ آپ تھوڑا سا انتظار کریں، اس وقت ان سے پوچھ لیا جائے گا۔ کچھ ہی دیر بعد حضورؓ تشریف لے آئے۔ وہاں حمام، ایک موڑھا اور تولیہ پڑا تھا۔ حضورؓ نے میرے سامنے اپنی پگڑی اور کوٹ اتار کر ایک طرف لٹکا دیے، حمام کے پانی سے وضو کیا اور پھر کوٹ اور پگڑی پہن لی۔ جب حضورؓ مسجد تشریف لے جانے کے لیے باہر نکلنے لگے تو حضرت اُمّ وسیم صاحبہ نے میری والدہ کی درخواست حضورؓ تک پہنچائی جس پر آپ نے فرمایا کہ مجھے سکول میں تعلیم جاری رکھنی چاہیے۔ 1949ء میں جب میں نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا تو مجھے وکیل الدیوان کی طرف سے ایک چٹھی ملی جس کے مطابق مجھے ان کے دفتر میں حاضر ہونے کی ہدایت کی گئی تھی۔ میں وقت مقررہ پر وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے علاوہ وہاں سات لڑکے اور بھی موجود ہیں۔ ہم میں سے چھ نے میٹرک کر رکھا تھا جب کہ دو انٹرمیڈیٹ پاس تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان میں سے پانچ واقفین یعنی مجھے، مکرم مبارک مصلح الدین صاحب مرحوم، چودھری سمیع اﷲ سیال صاحب، مکرم بشیر احمد صاحب رفیق مرحوم اور ڈاکٹر محمد شفیق سہگل صاحب کو اپنا عہدِ وقف نبھانے کی توفیق بخشی جب کہ باقی تین واقفین بوجوہ بعد میں وقف جاری نہ رکھ سکے۔

اس موقع پر ہمارا جو تحریری امتحان لیا گیا اس کا پرچہ خود حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے تیار کیا تھا اور اس میں سترہ چھوٹے چھوٹے سوال تھے‘‘چودھری حمید اﷲ صاحب بتایا کرتے تھےکہ’’اس پرچے اور بعد میں حضورؓ کے ساتھ ہونے والی ہماری ملاقات کی کچھ تفصیل میں نے اپنے ایک مضمون مطبوعہ خالد میں بیان کر رکھی ہے۔ جب لڑکوں نے پرچہ حل کر لیا تو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے حضورؓ کی خدمت میں اطلاع دی۔ اس وقت ناظر صاحبان کا ایک فرشی اجلاس حضورؓ کی صدارت میں ہو رہا تھا۔ حضورؓ نے ہمیں بھی وہیں بلا لیا اور ہمارے پرچے سب کو پڑھ کر سنائے۔ لڑکوں کے بعض جوابات ایسے تھے جو بہت دلچسپی کا باعث بنے۔ حضورؓ نے ہمارے پرچوں پر عمومی تبصرہ کے دوران فرمایا کہ ربوہ میں تعلیم پانے والے واقفین کی سائنسی معلومات بیرونِ ربوہ تعلیم حاصل کرنے والے واقفین سے کمزور ہیں۔‘‘

ایک بار چودھری حمیداللہ صاحب نے فرمایا:’’اب میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتانے لگا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ حضور ناظرانِ کرام سے بازپرس فرما رہے تھے کیوں کہ ایک ناظر نے ہم واقفین کو دیکھ کر دبی زبان میں کہا:’’کاش آپ کچھ دیر پہلے آ گئے ہوتے!‘‘

وہ کالج میں بطور استاد اپنا پہلا دن یاد کرتے ہوئے بتاتے تھے:’’میں نے ایم اے کرنے کے بعد اکتوبر1955ء میں تعلیم الاسلام کالج میں جوائننگ دی تھی۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے مجھے مکرم محبوب عالم صاحب خالد سے ملنے کو کہا جو ٹائم ٹیبل کے انچارج تھے۔ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ان کا شاگرد رہا تھا اور وہ مجھے پہلے سے پہچانتے تھے۔ انہوں نے کالج میں میرے تقرّرپر مجھے مبارکباد دی اور روز مرہ کی بعض باتوں کے علاوہ جن کا تعلق میرے ٹائم ٹیبل سے تھا مجھے تاکید فرمائی کہ میں آیت قرآنی

وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدْنْکَ سُلْطَانًا نَّصِیْرًا

کا بکثرت وِرد کیا کروں۔ میں نے ان کی یہ نصیحت پلے باندھ لی اور تمام زندگی اس کے فیوض و برکات سمیٹتا رہا۔ اﷲ تعالیٰ نے ہر آڑے وقت میں میری دستگیری فرمائی اور میری توقع سے بڑھ کر میرے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ ‘‘

وہ میرے مشفق و مہربان تھے۔ کبھی ضرورت پڑتی تو بڑی خوشی کے ساتھ مجھے تحریک جدید کے گیسٹ ہائوس میں ٹھہرنے کی اجازت دے دیتے اور بعض دفعہ کہہ دیتے کہ آپ دارالضیافت میں کیوں نہیں ٹھہرجاتے۔ میں وہاں آپ کا انتظام نہ کرادوں ؟ غرض ہمیشہ محبت کا برتائو کرتے۔

جب میری کتاب ’’شہرِخوباں ‘‘چھپ کر تیار ہوئی تو میں اس کا ایک نسخہ آپ کو پیش کرنے کے لیے حاضر ہوا۔ آپ نے کتاب قبول فرمالی لیکن پھر اس کی قیمت دیکھنے کے بعد جیب سے دوہزار روپے نکال کر میرے سامنے رکھ دیے۔ میں نے بے تکلفی سے کہا:’’سر! میں آپ سے یہ پیسے لے کر اپنا منہ نہیں کالا کرانا چاہتا۔ ‘‘بڑی مشکل سے وہ رقم انہوں نے واپس اپنی جیب میں ڈالی لیکن اگلے ہی روز تحریک جدید کی لائبریری کے لیے اس کی پانچ کاپیاں منگوا کر میری حوصلہ افزائی فرمائی۔

دعا ہے اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button