حضرت مصلح موعود ؓ

فضائل القرآن (قسط دوم)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

قرآن کریم کی پہلی کتب سے تصدیق

(6) چھٹا سوال یہ ہو گا کہ اتنی عظیم الشان کتاب جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ساری دنیا کے لئے ہے اس کی تصدیق پہلی کتب سے ہوتی ہے یا نہیں اور کیا قرآن کریم کا ذکر پہلی کتب میں موجود ہے؟ تا لوگ معلوم کر لیں کہ پہلی کتب میں اس کی جو خبر دی گئی تھی یہ اسی کے مطابق آیا ہے۔

قرآن کریم میں پہلی کتب سے زائد خوبیاں

(7) ساتواں سوال اس کے ساتھ ہی یہ پیدا ہو جائے گا کہ قرآن کریم پہلی کتابوں سے کون سی زائد چیز لایا ہے۔ یا تو وہ یہ کہے کہ پہلی سب کتابیں جھوٹی ہیں اس لئے مجھے نازل کیا گیا ہے۔ لیکن اگر وہ یہ کہتا ہے کہ وہ بھی سچی ہیں تو پھر یہ دکھانا چاہئے کہ قرآن کریم زائد خوبیاں کیا پیش کرتا ہے۔ ورنہ اس کے نازل ہونے کی ضرورت ثابت نہ ہوگی۔ پس یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہو گا کہ قرآن دوسری کتب کے مقابلہ میں افضل ہے۔

ترتیب قرآن

(8)ایک سوال یہ بھی ہو گا کہ آیا قرآن کریم میں کوئی ترتیب مدنظر ہے؟ یعنی اس میں کوئی معنوی ترتیب ہے؟ یورپ والے کہتے ہیں کہ اس میں کوئی ترتیب نہیں۔ بالکل بے ربط کلام ہے۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ مسلمان علماء نے بھی اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ قرآن میں نعوذ باللّٰہکوئی ترتیب نہیں۔ لیکن کسی کتاب کا بے ترتیب ثابت ہونا اس پر بہت بھاری حملہ ہے اور اگر اس میں ترتیب ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ترتیب اس طرح نہیں جس طرح نازل ہوئی تھی۔ پہلی اتری ہوئی آیتیں پیچھے اور پچھلی پہلے کر دی گئی ہیں۔سورۃ علق پہلے نازل ہوئی مگر بعد میں رکھی گئی اور سورۃ فاتحہ بعد میں نازل ہوئی اور اسے پہلے رکھا گیا۔ اسی طرح اَور آیتوں کو بھی آگے پیچھے کیا گیا ہے۔ مکہ میں بعض آیتیں اتریں جنہیں مدنی سورتوں میں درج کیا گیا ہے۔ اور بعض مدینہ میں اتریں انہیں مکی سورتوں میں لکھا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعہ میں قرآن کریم کی ترتیب مدنظر تھی تو پھر کیوں اسی طرح جمع نہ کیا گیا جس طرح نازل ہوا تھا۔ اور اگر وہ ترتیب صحیح ہے جس میں اب قرآن موجود ہے تو پھر کیوں اسی ترتیب سے نازل نہ ہوا؟

یہ ایک اہم سوال ہے جو اہل یورپ نے اٹھایا ہے۔ اسے خدا تعالیٰ کے فضل سے اصولی طور پر میں نے اس طرح حل کیا ہے کہ ہر سمجھدار کی سمجھ میں آجائے گا۔

ناسخ ومنسوخ کی بحث

(9) ایک سوال قرآن کریم کے متعلق ناسخ ومنسوخ کا آجاتا ہے۔ یہ خود مسلمانوں کا پیدا کردہ ہے۔ کیونکہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیتیں منسوخ ہیں۔ انہیں بعض دوسری آیتوں یا حدیثوں نے منسوخ کر دیا ہے۔ وہ پڑھی تو جائیں گی مگر ان پر عمل نہیں کیا جائیگا۔

یورپ والوں نے اس کے متعلق کہا ہے کہ ناسخ منسوخ کا ڈھکوسلا اس لئے بنایا گیا ہے کہ قرآن کریم میں صریح تضاد پایا جاتا ہے۔ جب اسے دور کرنے کی مسلمانوں کو کوئی صورت نظر نہ آئی تو انہوں نے متضاد آتیوں میں سے ایک آیت کو ناسخ اور دوسری کو منسوخ قرار دے دیا۔

نزول قرآن کا مقصد اور اس کا پورا ہونا

(10)پھر ایک یہ بھی سوال ہے کہ آیا قرآن کریم اس مقصد کو پورا کرتا ہے جس کے لئے کوئی مذہب نازل ہوتا ہے۔ ہر ایک الہامی کتاب اسی وقت مفید ہو سکتی ہے جب اس مقصد کو پورا کرے جسے الہامی کتاب کو پورا کرنا چاہیے۔ اور لوگ جن الہامی کتب کو مانتے ہیں ان کی کوئی نہ کوئی ضرورت بھی ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کتاب آنے کی یہ یہ ضرورت تھی اب سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کریم اس ضرورت کو پورا کرتا ہے جس کے لئے وہ نازل ہوا ہے؟ اگر کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کی کتاب ہے ورنہ نہیں۔

فطرتِ انسانی کے مطابق تعلیم

(11) پھر قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ہر طبقہ اور ہر درجہ کی فطرت کے لوگوں کے لئے ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قرآن کریم کی تعلیم فی الواقع ایسی ہے کہ اس سے ایک ان پڑھ بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اگر ایک عالم پڑھے تو وہ بھی مستفیض ہو سکتا ہے۔ اگر اس کی تعلیم ایسی ہے تو یہ کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے کہلا سکتی ہے۔ ورنہ نہیں۔

فہم ِقرآن کے اصول

(12) ایک اَور سوال ہمارے سامنے یہ آتا ہے کہ قرآن کریم کے فہم کے اصول کیا ہیں؟ ہر کتاب کو سمجھنے اور اس سے مستفیض ہونے کے لئے کوئی نہ کوئی کلید ہوتی ہے۔ قرآن کریم کے سمجھنے کے لئے کن اصول کی ضرورت ہے؟ گویا قرآن کریم کو اصول تفسیر بھی بیان کرنے چاہئیں تاکہ ان سے کام لے کر ہر انسان اپنی سمجھ اور اپنے علم کے مطابق فہم قرآن حاصل کر سکے۔

قرآن کریم کو پہلی کتب کا مُصَدِّقْ کن معنوں میں کہا گیا ہے؟

(13) ایک سوال یہ بھی ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں قرآن اس لئے پہلی کتب کا مُصَدِّقْ ہے کہ ان کتابوں کی نقل کرتا ہے۔ اس نقل کے الزام سے بچنے کے لئے کہا گیا ہے کہ قرآن ان کا مصدق ہے۔ ہم کہتے ہیں بے شک قرآن ان کی تصدیق کرتا ہے۔ مگر ان کے خلاف بھی تو کہتا ہے۔ اب ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ثابت کریں کہ قرآن دوسری کتابوں سے کیا نقل کرتا ہے اور کیا چھوڑتا ہے؟ اور جو بات نقل کرتا ہے۔ اسے پہلی کتاب سے زائد بیان کرتا ہے یا نقل کرتے ہوئے پہلی کتابوں سے اختلاف کرتا ہے۔ ایسی صورت میں کیا وجہ ہے کہ ہم قرآن کی بات کو صحیح مانیں۔

پرانے واقعات کے بیان کرنے کی غرض

(14) پھر قرآن میں پرانے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ ان کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کو کیوں بیان کیا گیا ہے۔ کیا قرآن قصے کہانیوں کی کتاب ہے؟ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ہی کفار کی طرف سے کہا گیا تھا کہ

إِنْ هٰذَآ إِلَّآ أَسَاطِيْرُ الْأَوَّلِيْنَ(الانفال:32)

قرآن تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔

قسموں کی حقیقت

(15) یہ سوال بھی شبہات پیدا کرتا ہے کہ قرآن کریم میں قسمیں کیوں کھائی گئی ہیں؟ قسموں سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کلام بنایا اور وہ یہ بات بھول گئے کہ اسے خدا کا کلام قرار دے رہے ہیں۔ اس لئے قسمیں کھانے لگے۔ اس قسم کے شبہات دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بتایا جائے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں بھی قسمیں ہوتی ہیں اور ان کی کیا وجہ ہوتی ہے؟

معجزات پر بحث

(16) اسی طرح یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم میں بار بار اس بات پر زور دینا کہ کوئی نشان دکھانا رسول کے اختیار میں نہیں۔ جب خدا چاہتا ہے نشان دکھاتا ہے۔ دراصل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پردہ پوشی کے لئے ہے۔ اس کے متعلق یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ سارے کا سارا قرآن نشانات کا مجموعہ ہے۔

خدا تعالیٰ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں

(17) اسی طرح قرآن کریم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ سائنس اور علوم طبعیہ کے خلاف باتیں پیش کرتا ہے۔ چونکہ خدا تعالیٰ کا قول اس کے فعل کے خلاف نہیں ہو سکتا اس لئے یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام اس کے کسی فعل کے خلاف نہیں ہے۔ اس میں ایسی سچائیاں ہیں جو پہلے لوگوں کو معلوم نہ تھیں۔ اور انہیں علوم طبعیہ کے خلاف قرار دیا جاتا تھا مگر اب انہیں درست قرار دیا جاتا ہے۔

قرآن کریم کے روحانی کمالات

(18) یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ قرآن کریم میں کیا کمالات ہیں اور قرآن کریم بنی نوع انسان کو کس اعلیٰ روحانی مقام پر پہنچانے کے لئے آیا ہے۔

آخری شرعی کلام

(19) یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ قرآن خدا تعالیٰ کا آخری شرعی کلام ہے۔ لوگ کہتے ہیں جب تم یہ مانتے ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ کلام نازل ہوتا رہا ہے تو اب شرعی کلام کا آنا کیوں بند ہو گیا۔ اس کے لئے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ اب کسی اَور شرعی کلام کی ضرورت نہیں۔

عربی زبان اختیار کرنے کی وجہ

(20) پھر اس امر پر بحث کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم کے لئے عربی زبان کیوں اختیار کی گئی کیوں فارسی،سنسکرت یا کوئی اَور زبان اختیار نہ کی گئی؟

پہلی تعلیموں کے نقائص کا اصولی ردّ اور صحیح اصول کا بیان

(21) پھر جب قرآن کریم ساری دنیا کے لئے آیا ہے اور تمام پہلی مذہبی تعلیموں کا قائم مقام ہے تو یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہو گا کہ ان تعلیموں میں جو نقائص تھے ان کو اصولی طور پر قرآن کریم نے دور کر دیا ہے اور ان کی جگہ صحیح اصول قائم کئے ہیں۔

قرآن کریم کی سچائی کے ثبوت

(22) پھر قرآن کریم کی سچائی کے ثبوت بھی پیش کرنے ہونگے کہ اس کے خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے کے یہ یہ ثبوت ہیں۔

(جاری ہے )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button