تاریخ احمدیت

28؍فروری 1921ء: سو سال قبل بر اعظم افریقہ میں پہلے باقاعدہ و مستقل دارالتبلیغ گولڈ کوسٹ (غانا) کا قیام

مغربی افریقہ میں حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیر ؓ کے ذریعہ احمدیت کا پیغام

سو سال قبل 1921ء میں افریقہ میں پہلے مستقل دارالتبلیغ کا قیام عمل میں آیا اور یہ تاریک براعظم اسلام احمدیت کے نیراعظم کی ضیا پاشیوں سے منور ہونے لگا۔

افریقہ میں تبلیغ کی الہٰی تحریک

حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ کو افریقہ میں تبلیغ کی تحریک کیسے ہوئی؟ یہ ایک نہایت ایمان افروز بات ہے جس کی تفصیل خود حضرت اقدس کے قلم سے درج ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت قال رسول اللہ ﷺ یخرب الکعبہ ذو السویقتین من الحبشہ (صحیح مسلم جلد دوم مصری صفحہ 319) کے حوالے آپؓ سے فرماتے ہیں۔

 ’’مجھے افریقہ میں تبلیغ اسلام کی ابتدائی تحریک درحقیقت اس وجہ سے ہوئی کہ میں نے ایک دفعہ حدیث میں پڑھا کہ حبشہ سے ایک شخص اٹھے گا جو عرب پر حملہ کرے گا۔ اور مکہ مکرمہ کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا۔جب میں نے یہ حدیث پڑھی اسی وقت میرے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اس علاقہ کو مسلمان بنانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ یہ انذاری خبر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ٹل جائے اور مکہ مکرمہ پر حملہ کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہمیں بعض دفعہ منذر رویاء آتا ہے تو ہم فوراً صدقہ کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کی موت کی خبر ہمیں ہوتی ہے تو وہ صدقہ کے ذریعہ ٹل جاتی ہے۔ اور صدقہ کے ذریعہ موت کی خبریں ٹل سکتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر افریقہ کے لوگوں کو مسلمان بنا لیا جائے تو وہ خطرہ جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے۔ نہ ٹل سکے۔ چنانچہ میرے دل میں بڑے زور سے تحریک پیدا ہوئی کہ افریقہ کے لوگوں کو مسلمان بنانا چاہئے۔ اسی بنا پر افریقہ میں احمدیہ مشن قائم کئے گئے ہیں۔ بے شک خدا تعالیٰ نے بعد میں اور بھی سامان ایسے پیدا کر دئے جن سے افریقہ میں تبلیغ اسلام کا کام زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوتا چلا گیا مگر اصل بنیاد افریقہ کی تبلیغ کی یہی حدیث تھی۔ کہ افریقہ سے ایک شخص اٹھے گا جو عرب پر حملہ کرے گا اور خانہ کعبہ کو گرانے کی کوشش کرے گا۔ (نعوذباللہ) میں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس کے فضلوں کی امید میں چاہا کہ پیشتر اس کے کہ وہ شخص پیدا ہو جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے ہم افریقہ کو مسلمان بنالیں اور بجائے اس کے کہ افریقہ کا کوئی شخص مکہ مکرمہ کو گرانے کا موجب بنے وہ لوگ اس کی عظمت کو قائم کرنے اور اس کی شہرت کو بڑھانے کا موجب بن جائیں۔‘‘ ( الفضل 25 مارچ 1920ء )

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے افریقہ میں پہلا مشن قائم کرنے کے لئے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحبؓ نیر کا انتخاب فرمایا۔ جو ان دنوں لنڈن میں فریضہ تبلیغ ادا کر رہے تھے۔ چنانچہ مولانا نیر صاحب (الفضل 7 مارچ 1921ء) 9فروری 1921ء کو صبح دس بجے لنڈن سے روانہ ہوئے۔ لندن میں بہت سے دوست چھوڑنے آئے۔ ڈیلی گراف، ڈیلی مِرَرْ اور ڈیلی ٹائمز نے روانگی کی خبریں شائع کیں۔ ڈیلی مرر نے حضرت مولانا صاحبؓ کی چیف آف لیگوس(نائیجیریا) سے مصافحہ کرتے ہوئے فوٹو شائع کی۔ (روح پرور یادیں۔صفحہ 16)

آپ 19فروری 1921ء کو سیرالیون پہنچے۔تختہ جہاز پر مسٹر خیر الدین افسر تعلیم سیر الیون نے آپ کا استقبال کیا۔ جو عرصہ سے سلسلہ کا لٹریچر مطالعہ کررہے تھے اب حضرت نیر صاحب کی آمد پر انہوں نے بیعت کرلی اس طرح سیرالیون میں احمدیت کا بیج بویاگیا۔ 21 فروری 1921ء کے تیسرے پہر جہاز پر سوار ہو کر 28 فروری 1921ء کو ساڑھے چار بجے شام گولڈ کوسٹ (غانا) کی بندرگاہ سالٹ پانڈ پر اترے اور مسٹر عبدالرحمان پیڈرو کے مکان پر قیام پذیر ہوئے۔

گولڈ کوسٹ عملاً عیسائیت کا مرکز تھا۔ جہاں شمالی اور جنوبی نائیجیریا اور وسط افریقہ کے کچھ لوگ آباد ہوگئے تھے۔ اور اصل باشندوں میں صرف فینٹی قوم مسلمان تھی جس کے چیف (امیر) کا نام مہدی تھا۔ جس رات حضرت نیر صاحبؓ سالٹ پانڈ پہنچے اسی رات چیف مہدی نے خواب میں دیکھا کہ میرے کمرے میں رسول خدا ﷺ تشریف لائے ہیں۔ چیف مہدی 45 برس سے مسلمان تھے۔ اور اس وقت سے برابر تبلیغ اسلام میں مصروف تھے انہیں یہ از حد غم تھا کہ میری آنکھیں بند ہوتے ہی کہیں اس علاقہ کے مسلمان سفید عیسائی مشزیوں کے رعب میں آکر اسلام کو خیرباد نہ کہہ دیں۔ چیف مہدی نے جو نہایت خدا پرست بزرگ تھے کیپ کوسٹ کے ایک شامی مسلمان سے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کا پتہ معلوم کیا۔ اور کچھ روپیہ جمع کرکے ان کو لنڈن بھجوایا تامسلمانوں کا کوئی سفید فام مبلغ گولڈ کوسٹ آئے اور تبلیغ کا کام شروع کرے مگر دوسال تک کوئی مبلغ افریقہ کی طرف نہ بھجوایا جاسکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عوام میں یہاں تک سخت بدگمانی پیدا ہوگئی حتیٰ کہ وہ کہنے لگے کہ سفید آدمی مسلمان ہی نہیں ہوتے۔ابتداء میں جب مغربی افریقہ کے بعض مسلمانوں نے حضرت نیر صاحب سے ملاقات کی تو کہا کہ آج تک لوگ ہم پر ہنستے تھے کہ سفیدآدمی مسلمان نہیں ہوتے الحمدللہ کہ اب سفید آدمی مبلغ اسلام ہوکر یہاں آگیا ہے۔

حضرت نیر صاحبؓ نے سیرالیون اور سکنڈی سے اپنی آمد کے تار دیئے تو اسی وجہ سے ان پر بھی چنداں اعتبار نہ کیا گیا۔ البتہ آپ کے سالٹ پانڈ پہنچنے پر پہلے بعض آدمی مختلف دیہات سے خبر کی تصدیق کے لئے پہنچے۔ پھر چیف مہدی صاحب کا نقیب آپ سے آکر ملا۔

پہلا تبلیغی جلسہ

 11 مارچ 1921ء کو اکرافل (چیف مہدی کی جائے رہائش کا مقام)میں فینٹی مسلمانوں کا جلسہ مقرر ہوا۔ مولانا نیر صاحب ترجمان کے ساتھ بذریعہ موٹر وہاں پہنچے چیف مہدی کے مکان کے سامنے پانچصد افراد کا مجمع تھا۔ چیف مہدی اپنے قومی لباس پہنے حلقہ امراء میں بیٹھے تھے۔ مولانا نیر صاحب کے لئے دوسری طرف میز لگایا گیا۔ آپ کا ترجمان اور ائمہ مساجد آپ کے ارد گرد تھے۔ نقیب نے عصائے منصب ہاتھ میں لے کر چیف اور اس کے ممبروں کی طرف سے خوش آمدید کہا۔ پھر خود چیف مہدی نے تقریر کی کہ’’ 45 برس ہوئے میں مسلمان ہوا۔ مجھے صرف اللہ اکبر آتا تھا۔ اور یہی میرے ساتھ کے دوسرے مسلمان جانتے تھے۔ ہوسا قوم اور لیگوس کے لوگ بعد میں آئے اور ہمیں اسلام سکھایا۔ ہم جاہل ہیں۔ اسلام کا پورا علم نہیں۔ سفید آدمی مسیحیت سکھانے آتے ہیں۔ میں بوڑھا ہوں مجھے فکر تھی کہ میرے بعد یہ مسلمان مسلمان رہیں میں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ میری زندگی میں آپ آگئے۔ اور اب یہ مسلمان آپ کے سپرد ہیں ان کو انگریزی و عربی پڑھائی جائے اور دین سکھایا جائے۔‘‘

اس کے بعد مولانا نیر صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری دستگیری کی اور اس جماعت کی طرف سے مبلغ آیا جو زندہ اسلام پیش کرتے ہے۔ میری آنکھوں نے مسیح موعودؑ کو دیکھا۔ میرے کانوں نے اس کے مقدس منہ سے نکلے ہوئے الفاظ سنے۔ میرے ہاتھوں نے اس برگزیدہ پہلوان اسلام کے پاؤں کو چھوا۔ پس تم کو مبارک ہو کہ خدانے تمہاری مدد کی۔ اب انشاء اللہ فینٹی مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا کام احمدی جماعت کرے گی۔

ایک دن میں ہزاروں افراد کی قبولِ احمدیت

18 مارچ 1921ء کو اکرافول میں دوسرا جلسہ منعقد ہوا جس میں آپ نے دو گھنٹہ تقریر فرمائی۔ اور فینٹی قوم اور ان کے چیف کو جماعت احمدیہ میں شامل ہونے اور گذشتہ رسوم و رواج کو ترک کرکے سچے اور مخلص مسلمان بننے کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ دوسرے ہی دن ان کی مجلس اکابر نے فیصلہ کیا کہ ہم سب لوگ اپنی جماعتوں سمیت احمدیت میں داخل ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک ہی دن میں ہزاروں لوگ سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوگئے اور ید خلون فی دین اللہ افواجا کا نظارہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔

ابتدائی انتظامی تقسیم اور دوسرے مبلغ کی آمد

حضرت مولانا نیر صاحب 8 اپریل1921ء سے 8 اگست 1921ء تک چار ماہ کے لئے نائیجیریا تشریف لے گئے۔ واپس آکر شہر کے عین وسط میں کمرشل روڈ پر ایک دو منزلہ مکان کرایہ پر لے کر مشن ہاؤس قائم کیا۔ اور اندرون ملک ایک لمبا دورہ کیا۔ اور ایک مبلغین کلاس جاری کی جس میں عربی میں قرآن و حدیث، فقہ اور عقائد احمدیہ کی تعلیم دینے لگے۔ اسی طرح گولڈ کوسٹ (غانا) جماعت کو چار حصوں میں تقسیم کرکے ان میں عہدیدار مقرر کئے۔ انتظامی تقسیم کے مکمل ہونے کے بعد آپ دوبارہ 15 دسمبر 1921ء کو نائیجیریا کے دارالخلافہ لیگوس میں تشریف لے گئے۔ اسی دوران میں حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے 23 جنوری 1922ء کو گولڈ کوسٹ مشن سنبھالنے کے لئے مولوی حکیم فضل الرحمان صاحب کو روانہ فرمایا۔ جو 11 مارچ کو لنڈن اور 17 اپریل کو لیگوس پہنچے اور حضرت نیر کے ذریعہ حالات کا جائزہ لینے کے بعد 13مئی 1922ء کو سالٹ پانڈ پہنچ گئے۔ اس طرح نائیجیریا اور غانا مشن جو ایک ہی مبلغ کے مشن کے تحت تھے دو مستقل مشنوں کی صورت اختیار کرگئے گولڈ کوسٹ کے انچارج حکیم فضل الرحمان صاحب اور نائیجیریا مشن کے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ۔

الحاج حکیم فضل الرحمان صاحب 13مئی 1922ء کو انچارج مشن کی حیثیت میں گولڈ کوسٹ (غانا) پہنچے۔ [اہل گولڈ کوسٹ نے 1960ء میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرلینے کے بعد اپنے ملک کا نام غانا رکھ لیا۔] آپ آخر ستمبر 1929ء تک گولڈ کوسٹ میں تبلیغ اسلام و احمدیت میں مصروف عمل رہے۔ محترم حکیم صاحب کے عہد میں مشن کو بہت فروغ ہوا۔ سالٹ پانڈ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول جاری کیا۔ اور جماعت کے امراء سے چندہ خاص کرکے سکول کی عمارت تعمیر کی اپریل 1928ء میں شہر کماسی میں آپ کا غیر احمدیوں سے مناظرہ ہوا۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو نمایاں فتح بخشی۔ اس مناظرہ میں حکومت کے اعلیٰ افسروں کے علاوہ پراونشل کمشنر بھی موجود تھے۔ حکیم صاحب ابھی گولڈ کوسٹ ہی میں تھے کہ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے حکم پر مولوی نذیر احمد (علی) صاحب (ابن حضرت بابو فقیر علی صاحب اسٹیشن ماسٹر) 22 فروری 1928ء کو قادیان سے گولڈ کوسٹ روانہ ہوئے۔ اور وہاں کچھ عرصہ حکیم صاحب کا ہاتھ بٹانے کے بعد یکم اکتوبر 1929ء سے مشن کے انچارج مقرر کئے گئے۔ اور کامیاب جرنیل ثابت ہوئے۔

مولوی نذیر احمد علی صاحب کے زمانہ میں گولڈ کوسٹ (حال غانا) کی جماعت نے خوب ترقی کی کوامنیاٹا۔ اسیام۔ کیپ مقامات میں نئے سکول کھلے اور متعدد نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔ مئی 1933ء میں آپ واپس تشریف لے آئے۔ اور مشن کا کام الحاج حکیم فضل الرحمان صاحب نے انجام دینا شروع کر دیا۔ آپ کے دور میں یہاں مشن ہاؤس بھی تعمیر ہوگیا۔ 2 فروری 1936ء کو مولوی نذیر احمد علی صاحب اور مولوی نذید احمد صاحب مبشر سیالکوٹی مولوی فاضل گولڈ کوسٹ روانہ ہوئے۔ اور 23 اپریل 1936ء کو گولڈ کوسٹ پہنچے۔ اور یکم مئی 1936ء کو اس مشن کا چارج لیا۔( اس کی تکمیل مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کے زمانہ میں ہوئی اور افتتاح 27 جنوری 1941ء کو عمل میں آیا۔) اور کماسی میں جواشانٹی کا مرکز ہے۔ احمدیہ پرائمری سکول کی بنیاد رکھی۔اس زمانہ میں سیرالیون گولڈ کوسٹ اور نائیجیریا میں ایک بھی مسلمانوں کا ایسا مدرسہ نہیں تھا جس میں جدید طرز کی تعلیم دی جاتی ہو۔ مسلمانوں کے جو بچے ذرا انگریزی پڑھ لیتے وہ عیسائی ہوجاتے تھے۔

اکتوبر 1937ء میں مولوی نذیر احمد علی صاحب حضرت خلیفة المسیح الثانؓی کے ارشاد کے تحت سیرالیون میں نیا دارالتبلیغ کھولنے کے لئے تشریف لے گئے اور گولڈ کوسٹ مشن مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کی امارت میں جلد جلد ترقیات کی منزلیں طے کرنے لگا اور خدا کے فضل سے یہ آپ ہی کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج غانا کی جماعت ممالکِ بیرون پاکستان کی عظیم ترین جماعتوں میں شمار ہوتی ہے جس میں کئی جماعتیں، سینکڑوں مساجد اور سکول قائم ہیں اور مرکزی مبلغین کے علاوہ مقامی مبلغ کام کر رہے ہیں جن کے لئے الگ الگ مشن ہاؤس موجود ہیں۔ حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ نے مولوی صاحب کی نسبت فرمایا تھا۔

 ’’افریقی اقوام میں بیداری کے جو سامان پیدا ہوئے ہیں ان میں مولوی نذیر احمد صاحب کو اس عمارت کی ایک بنیادی اینٹ بننے کی سعادت حاصل ہوئی‘‘۔ (15 جنوری 1947ء)

حضرت اقدس کے حکم سے مولوی نذیر احمد صاحب مبشر تین بار اس ملک میں بھجوائے گئے اور آپ کو یہاں (آمدورفت کے عرصہ کو مستثنیٰ کرکے) 1936ء سے لیکر 1961ء تک تبلیغی جہاد کرنے کا موقعہ ملا۔ اس عرصہ میں تعداد۔ تعلیم اور جائیداد غرضیکہ ہر جہت سے مشن نے حیرت انگیز ترقی کی چنانچہ مسٹر جان ہمفری فشر (Mr John Humphrey fisher) نے جو جماعت کی تبلیغی مساعی پر تحقیقات کے لئے خود مغربی افریقہ گئے تھے۔ اپنی کتاب Ahmdiyya میں آپ کی خدمات کو سراہا ہے۔ مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کے بعد مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم نے انچارج مشن کے فرائض انجام دیئے۔ اور سالٹ پانڈ سے ایک ماہوار اخبار ’’دی گائیڈنس‘‘ Guidance( )The بھی آپ کی ادارت میں 1962ء سے شائع ہوتا ہے۔ اس مشن کی طرف سے فینٹی‘اشانٹی اور انگریزی زبان میں اسلامی لٹریچر بھی چھاپا گیا۔

مرکزی مبلغین کے علاوہ دو درجن کے قریب مقامی مبلغین بھی کام کیا۔ جن میں سے مسٹر عبدالوہاب بن آدم اور مسٹر ابراہیم بن مانو نے جامعہ احمدیہ ربوہ میں تعلیم حاصل کی۔

غانا دارالتبلیغ سے متعلق غیروں کے چند تاثرات درج کئے جاتے ہیں جن سے اس مشن کی فتوحات کا کسی قدر اندازہ ہوگا۔

۱۔افریقہ میں جماعت احمدیہ کو عیسائیت کے مقابل شاندار فتوحات کی خبر پڑھ کر خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے حضرت خلیفة المسیح الثانی کی خدمت میں خط لکھا کہ ’’بے اختیار زبان سے الحمداللہ نکلا۔ افریقہ میں عیسائیت کے مقابلہ میں مرزائیت کی فتح یقیناً ہر مسلمان کو اچھی معلوم ہوگی بشرطیکہ وہ حاصل مقصد کو سمجھتا ہو میں آپ کے عقیدہ کے اب تک دل سے مخالف ہوں مگر امریکہ یورپ اور افریقہ میں آپ کے آدمیوں کے ذریعہ جو کچھ کام ہورہا ہے اس کا اعتراف کرنا اور اس کے نتائج سے مسرور ہونا لازمی سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ جل شانہ اپنے دین کا اس سے زیادہ بول بالا کرے‘‘۔ (الفضل 21 اپریل 1921ء)

۲۔ غانا یونیورسٹی کالج کے مشہور پروفیسر مسٹر ایس۔جی ولیم سن لکھتے ہیں: غانا کے شمالی حصہ میں رومن کیتھولک کے سوا عیسائیت کے تمام اہم فرقوں نے محمد کے پیروؤں کے لئے میدان خالی کردیا ہے اشانٹی اور گولڈ کوسٹ کے جنوبی حصوں میں آج کل عیسائیت ترقی کر رہی ہے لیکن جنوب کے بعض حصوں میں خصوصیت سے ساحل کے ساتھ ساتھ جماعت احمدیہ کو عظیم فتوحات حاصل ہورہی ہیں۔ یہ خوشکن توقع کہ گولڈ کوسٹ جلد ہی عیسائی بن جائے گا اب معرض خطر میں ہے اور یہ خطرہ ہمارے خیال کی وسعتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک خاصی تعداد احمدیت کی طرف کھچی چلی جارہی ہے۔ اوریہ یقیناً صورت حال عیسائیت کے لئے کھلا چیلنج ہے تاہم یہ فیصلہ ابھی باقی ہے۔ کہ آئندہ افریقہ میں ہلال کا غلبہ ہوگا یا صلیب کا۔ (ترجمہ)

(کرائسٹ آر محمد (مولفہ ایس۔ جی ولیم سن پروفیسر یونیورسٹی کالج غانا) مطبوعہ غانا بحوالہ اشاعت اسلام اور ہماری ذمہ داریاں۔ صفحہ7)

۳۔ ورلڈ کرسچن ڈائجسٹ (جون 1961ء صفحہ 40-39) میں لکھا ہے:

 ’’کیا اسلام کی روز افزوں ترقی اور اس سارے علاقہ کو بہت جلد اپنی لپیٹ میں لے لینے کے اسلامی چیلنج کا ہمارے پاس کوئی موثر و موزوں جواب ہے۔ غانا میں بھی جماعت احمدیہ سر گرم عمل ہے۔ غانا کے شمالی علاقہ کے لوگ مذہبی ہیں۔ اس لئے وہاں تھوڑی سی کوشش بھی اسلام کو وسیع پیمانہ پر پھیلانے کا موجب ہوسکتی ہے‘‘۔

۴۔ ماہنامہ ’’مجلہ الازہر‘‘ (بابت جولائی 1958ء) نے ’’الاسلام فی غانا‘‘ کے عنوان سے جماعت احمدیہ کی خدمات کا ان الفاظ میں ذکر کیا۔

 ’’ولھم نشاط بارز فی کافہ النواصی ومدارسھم ناجحہ بالرغم ان تلامیذ ھا لا یدینون بمذھبھم جمیعا‘‘۔

 یعنی فرزندان احمدیت کی سرگرمیاں تمام امور میں انتہائی طور پر کامیاب ہیں اور ان کے مدارس بھی کامیابی سے چل رہے ہیں۔ بحالیکہ ان مدارس کے سبھی طلبہ ان کی جماعت سے وابستہ نہیں ہیں۔(تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ 270-266، 277-274)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button