یادِ رفتگاں

خادم دین، با وفا اور خلافت کے وفادار محترم چودھری حمید اللہ صاحب کی ہمہ جہت شخصیت

(ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز)

ہر قدم خلیفہ وقت سے پوچھ کر اٹھانا ہے

مئی 1947ء کی بات ہے محترمہ عائشہ بی بی صاحبہ اہلیہ مکرم بابو محمد بخش صاحب تعلیم الاسلام سکول قادیان سےمڈل پاس ایک بچے کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حرم سیدہ اُمِّ وسیم صاحبہ مرحومہ کے گھر لے گئیں اور ان سے گزارش کی کہ یہ میرا بیٹا ہے اس نے مڈل کا امتحان پاس کر لیا ہے اب حضور سے دریافت کرنا ہے کہ یہ آگے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو یا سکول میں تعلیم جاری رکھے۔ انہوں نے فرمایا کہ مغرب کی نماز کا وقت ہو نے والا ہے اور حضورؓ نے میرے گھر میں سے ہی گزر کر مسجد مبارک نماز پڑھانے جانا ہے۔ جب حضورؓ آئیں تو آپ حضور سے دریافت کر لیں۔ چنانچہ کچھ دیر بعد حضورؓ تیز قدمی کے ساتھ تشریف لائے۔ وضو کرنے کے لیے حمام، تولیہ، موڑھا وغیرہ موجود تھا۔ حضور نے پگڑی اور کوٹ اُتارا۔ وضو کیا اور دوبارہ کوٹ اور پگڑی پہن لی اور مسجد کی طرف تشریف لے جانے لگے تو عائشہ بی بی صاحبہ نے بچے کو حضورؓ کی خدمت میں پیش کیا اور آئندہ تعلیم کے متعلق پوچھا تو حضورؓ نے فرمایا کہ سکول میں تعلیم جاری رکھے۔

اس بچہ کا نام حمید اللہ تھا جسے آج ساری دنیا محترم چودھری حمید اللہ صاحب کے نام سے جانتی ہے۔

محترم چودھری حمید اللہ صاحب خود اس واقعہ کے راوی ہیں۔ آپ پر اس کا کیا اثر ہوا۔ آپ کے الفاظ میں بیان کرتا ہوں۔ آپ لکھتےہیں کہ

’’مَیں تو کم عمر تھا۔ والدہ صاحبہ نے مجھے رستہ دکھا دیا کہ ہر قدم حضور سے پوچھ کر اُٹھانا ہے۔ چنانچہ اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس پر عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ وباللّٰہ التوفیق۔‘‘

(بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ 29؍جون 2012ء)

خاندانی حالات

آپ نے ساری زندگی خلافت کی اطاعت اور وفا کا جو اعلیٰ نمونہ پیش کیا وہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے۔ عرصہ65 برس سے زائد خدماتِ دینیہ بجا لانے والے جماعت احمدیہ کے مخلص اور دیرینہ خادم، وکیل اعلیٰ و صدر مجلس تحریک جدید انجمن احمدیہ محترم چودھری حمید اللہ صاحب 4؍ مارچ 1934ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدمحترم محمد بخش صاحب نے 1929ء میں اُس وقت قبولِ احمدیت کا شرف پایا جب آپ بنگلہ بکھو والا ضلع سرگودھا میں متعیّن تھے۔ چند احمدی دوستوں کی تبلیغ پر حضرت مسیح موعودؑ کی کتابیں پڑھنا شروع کیں تو صداقت آشکار ہوگئی۔ پھر انہی دنوں ایک خواب بھی دیکھا۔ چنانچہ وہ تحریر کرتےہیں کہ

’’میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر اپنا ایک خواب تحریر کرتا ہوں۔

بنگلہ بکھو والا میں ماہ اکتوبر1929ء بوقت تقریباً دو بجے رات کو یہ نظارہ دیکھا کہ رسول کریمﷺ مصلیٰ پر تشریف فرما ہیں۔ اور رانوں پر دونوں ہاتھ رکھ کر انگلیوں پر ذکر اللہ کر رہےہیں۔ رُخ مبارک مشرق کی طرف ہے مجھےفرمایا جس کُرسی پر تم بیٹھے ہو اس کی ساری چُولیں ڈھیلی ہو گئی ہیں۔ بندہ فوراً اٹھا اور دیکھا تو ایک چُول ڈھیلی تھی۔ بندہ نے شکریہ ادا کیا اور کہا آپ نے غلام کی جان بچا لی ہے۔ آگے یا پیچھے گرتا تو سر پھوٹ جاتا۔ ( تھوڑی دیر کے بعد) رسول کریمﷺ کےہاتھ میں ایک نئی دفتری کرسی تھی۔ جس کے آرمر(بازو) آگے بڑھے ہوئےہوتےہیں فرمایا اس کُرسی پر بیٹھ جاؤ۔ یہ احمدیت کی کُرسی ہے یعنی با دلائل اور حقیقی اسلام۔ اس کے بعد بندہ بیدار ہو گیا۔ ‘‘(بشارات رحمانیہ مرتبہ عبدا لرحمٰن مبشر مولوی فاضل صفحہ102 سن اشاعت بار اول 1939ء)

خواب دیکھنے کے بعد آپ نے اپنی اور اپنی اہلیہ کی طرف سے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بیعت کا خط ارسال کردیا۔

ابتدائی تعلیم و شادی

آپ ساتویں جماعت کے طالبعلم تھے جب 1946ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے اپنی زندگی خدمت دین کے لیے وقف کرنے کی توفیق پائی۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کا خاندان ہجرت کر کے ریاست بہاولپور منتقل ہو گیا تھا۔ جہاں سے آپ نے 1949ءمیں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں وکالتِ دیوان ربوہ کی ہدایت پر انٹرویو کے لیے ربوہ تشریف لے آئے۔ تحریری امتحان کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ناظران صدر انجمن احمدیہ کی موجودگی میں بنفس نفیس چند نئے واقفینِ زندگی کا انٹرویو لیا جن میں آپ بھی شامل تھے۔ وقف کرنے کے بعد سے آپ کی تعلیم کا تمام تر سلسلہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے زیرِ ہدایت چلتا رہا۔ آپ نے 1955ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے فرسٹ ڈویژن میں ایم اے ریاضی کرنے کے بعد بطور لیکچرار تعلیم الاسلام کالج ربو ہ اپنی جماعتی خدما ت کا باقاعدہ آغاز کیا۔ آپ کی شادی ستمبر 1960ء میں محترمہ رضیہ خانم صاحبہ بنت مکرم عبدالجبار خان صاحب آف سرگودھا سے ہوئی۔ آپ کی اہلیہ کے نانا اور دادا صحابی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹے اور دو بیٹیوں سے نوازا۔

چودھری حمید اللہ صاحب بطور لیکچرار تعلیم الاسلام کالج ربو ہ

محترم چودھری حمید اللہ صاحب کو بطور پروفیسر تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی۔ آپ انتہائی شفیق اور محنتی استاد تھے۔ آپ کا طلباء کےساتھ ایک گہرا رابطہ و تعلق تھا۔ طلباء آپ کی مکمل اطاعت اور آپ سے خصوصی محبت کرتے تھے۔ ایک طالب علم ڈاکٹر عبد الباری ملک صاحب ایم۔ بی۔ ای تحریر کرتے ہیں کہ

’’1973ء کے شدید سیلاب کے دوران ہمیں محترمی چوہدری حمید اللہ صاحب کی طرف سے آدھی رات کو حکم ملا کہ دریائے چناب پر سردار ملاح سے کشتیاں لے کر محلہ دارالیمن میں سیلاب میں گھرے افراد کو نکالنے کیلئے فوراََ پہنچیں۔ حکم کی تعمیل میں ہم چند ساتھیوں کے ہمراہ دریاکے کنارے سے کشتیاں لے کر دارالیمن پہنچے اور گھروں میں پھنسے افراد کو نکالنا شروع کیا۔ صبح تک ہمیں دارالضیافت سے روٹیاں اور اچار بھی دے دیا گیا جو ہم گھروں میں محصور افراد تک پہنچاتے رہے۔ صبح ہمیں حکم ہوا کہ دو ٹیمیں کشتیاں لے کر قریبی دیہات میں پھنسے ہوئے سیلاب زدگان کو کھانا اور ہومیو پیتھی کی ادویات پہنچائیں۔ چنانچہ ہم دور دور کے دیہات تک جاکر ان کو دوائیں اور خوراک پہنچاتے رہے۔ روزانہ واپسی نماز مغرب کے بعد اندھیرا ہونے پر ہوتی تھی۔ کالج کے اکثر طلباء اپنے اپنے حلقوں میں جماعتی خدمات بھی سر انجام دیتے تھے۔‘‘

(بحوالہ دانشکدہ عظیم مؤلفہ رانا عبد الرزاق۔ لندن )

آپ 1974ء تک ٹی آئی کالج ربوہ میں تدریسی و غیرتدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔

جماعتی خدمات

کالج کے قومیائے جانے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی ہدایت پر آپ نے کالج سے استعفیٰ دے دیا جس کے بعد آپ کو ناظر ضیافت مقرر کیا گیا۔ نومبر 1982ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وکیل اعلیٰ تحریک جدید مقرر فرمایا جس کے ساتھ کچھ عرصہ تک آپ ایڈیشنل صدر مجلس تحریک جدید اور پھر 1989ء میں صدر مجلس تحریک جدید مقرر ہوئے۔ آپ تادمِ واپسیں یہ خدمات بجا لاتے رہے۔ اس کے علاوہ آپ 1986ء تا حال بطورایڈیشنل ناظر اعلیٰ برائے ہنگامی امور سندھ و بلوچستان بھی فرائض سرانجام دیتے رہے۔

جلسہ سالانہ میں مختلف حیثیتوں میں خدمات

آپ 1955ء سے جلسہ سالانہ کے موقع پر مختلف شعبہ جات کے نگران کی حیثیت سے خدمات کی توفیق پاتے رہے۔ 1973ء میں آپ کو افسر جلسہ سالانہ مقرر کر دیا گیا۔ اگرچہ ربوہ میں 1983ء کے بعد جلسہ سالانہ منعقد نہیں ہو سکا لیکن اس کے باوجود اس شعبے میں جدّت لانے کا کام بدستور جاری رہا۔ مزید برآں آپ مختلف مواقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ارشاد پر جلسہ سالانہ قادیان اور جلسہ سالانہ برطانیہ پر تشریف لے گئے اور جلسہ سالانہ کے انتظامات کی نگرانی کی۔

جلسہ سالانہ قادیان1991ء

جلسہ سالانہ قادیان1991ء کے موقع پر آپ کو تاریخی خدمات سر انجام دینے کا موقع ملا۔ آپ کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں کہ

’’الحمد للہ کہ قادیان کے تاریخی اورتاریخ سا ز سوسالہ جلسہ میں شمولیت کے بعد ہمارا وفد خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بخیروخوبی اس عارضی دارِ ہجرت (لندن)میں واپس پہنچ چکا ہے۔ یہ جلسہ بہت ہی مبارک تھا، بہت سی برکتیں لے کر آیا اوربہت سی برکتیں حاصل کرنے والا تھا اورمیں یقین رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ اس جلسہ کی برکات اوراس کے بعد اترنے والے اللہ کے فضل ہماری اگلی صدی کے گھروں کو بھردیں گے اوراس کے بہت دوررس نتائج ظاہر ہوں گے۔

…پہلے میں ان تمام احباب جماعت کا شکریہ اداکرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس جلسہ کو کامیاب بنانے میں بھرپور محنت اوراخلاص اورلگن اوروفا کے ساتھ حصہ لیا اورغیر معمولی قربانی کامظاہرہ کیا۔ کچھ کام کرنے والے تو ایسے تھے جو لمبے عرصہ سے قادیان کے اس جلسہ کو کامیاب بنانے کے لئے منصوبے بھی بنارہے تھے، ان پر عمل درآمد کرنے میں بھی حصہ لے رہے تھے اورکافی لمبے عرصے تک کی یہ خاموش خدمت اس جلسہ کی کامیابی پر منتج ہوئی ہے اور(کچھ)خدمت کرنے والے بعد میں شامل ہوئے۔ قافلہ درقافلہ خدمت کرنے والوں کا ہجوم بڑھتا رہا لیکن آغاز میں کچھ ایسے افراد کو خدمت کا موقع ملا ہے جوایک لمبے عرصہ سے مسلسل بڑی محنت اورتوجہ اورحکمت کے ساتھ اپنے اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔‘‘

اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے کئی احباب کا ذکر فرمایا محترم چودھری حمید اللہ صاحب کے بارے میں فرمایا کہ

’’پاکستان سے چوہدری حمید اللہ صاحب اورمیاں غلام احمد صاحب نے بڑے لمبے عرصہ تک بہت محنت کی ہے اورقادیان جاکر وہاں کے مسائل کو سمجھا اورمیری ہدایات کے مطابق ہرقسم کی تیاری میں بہت ہی عمدہ خدمات سرانجام دی ہیں ورنہ قادیان کی احمدی آبادی اتنی چھوٹی ہے کہ ان کے بس میں نہیں تھا کہ اتنے بڑے انتظام کو سنبھال سکتے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ17؍جنوری1992ء بمقام مسجد فضل لندن مطبوعہ خطبات طاہر جلد11صفحہ24)

صدر اجلاس انتخاب خلافت خامسہ

آپ کو اپریل 2003ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی وفات کے بعد انتخابِ خلافت کے اجلاس کی صدارت کا اعزاز بھی نصیب ہوا۔ علاوہ ازیں خلافتِ احمدیہ کے معتمدین میں سے محترم چودھری صاحب نے ایک اہم اور گرانقدر خدمت بطور صدر صدسالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ بندی کمیٹی 1989ءکی حیثیت میں سرانجام دی۔ اس سے قبل آپ کو پاکستان میں سیکرٹری صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ بندی کمیٹی کے طور پر بھی خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ آپ 2005ء سےمرکزی کمیٹی خلافت احمدیہ صدسالہ جوبلی 2008ء کے صدر کے طور پر بھی خدمات بجا لاتے رہے۔

ذیلی تنظیموں میں خدمات

ذیلی تنظیموں میں آپ بچپن سے ہی فعال رہے۔ محلے کی سطح پر، مجلس خدام الاحمدیہ مقامی ربوہ اور پھر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ میں مختلف حیثیتوں میں فرائض بجا لاتے رہے۔ آپ نے 1969ء تا 1973ء بطور صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ جبکہ 1982ء تا 1989ء بطور صدر مجلس انصاراللہ مرکزیہ نیز 1989ء سے 1999ءتک بطور صدر مجلس انصاراللہ پاکستان خدمات سرانجام دینے کی توفیق پائی۔ آپ کو خلفائے سلسلہ کے زیر سایہ و زیر ہدایت متعدد امور کی انجام دہی کے لیے نیز بطور وکیل اعلیٰ تحریک جدید اور بطور صدر مجلس انصاراللہ مرکزیہ دنیا کے متعدد ممالک کا دورہ کرنے کی توفیق ملی۔

آپ صوم و صلوٰۃ کے انتہائی پابند، انتھک محنت کرنے کے عادی ہمہ جہتی شخصیت کے حامل درویش صفت اور بے نفس وجود تھے، کام کے دوران رات اور دن کی پروا نہ کرتے تھے، واقفینِ زندگی کے لیے قابل تقلید مثال تھے۔ وقت کی انتہائی حد تک قدر کرنے والے تھے۔ زندگی کے آخری دنوں میں بھی اپنے دفتر میں صبح و شام مصروف کار رہے۔

آپ ایک ٹھوس علمی شخصیت کے مالک تھے۔ تاریخ احمدیت کے لیے بطور سند تھے۔ قرآن کریم، اس کا ترجمہ اور تفسیر، اس کے علاوہ علم حدیث و فقہ کے رموز کے ماہر اور صحاح ستہ اور ان کی شروح پر مکمل عبور حاصل تھا۔ اگر کوئی سوال کرتا یا کوئی بات پوچھتا تو اس کا علمی لحاظ سے ایسا جواب مرحمت فرماتے کہ پوچھنے والے کی تشفی ہو جاتی۔ آپ کی تقاریر اور خطاب میں علمی و ادبی رنگ پایا جاتا تھا۔ ان کی تیاری بڑے اہتمام اور شوق سے کرتے۔ علمی حوالوں سے سجاتے اور ساتھ ساتھ سننے والوں کی دلچسپی کا سامان بھی کرتے۔ سامعین آپ کے خطاب کو بغور سنتے اور ہدایات، مشوروں اور دینی علوم سے اپنی جھولیاں بھر کے واپس جاتے۔

متعدد شعبہ جات و کمیٹیوں کے ممبر، نگران اور صدر ہونے کے باعث آپ معمور الاوقات تھے لیکن ان سب کے باوجود مختلف علوم بالخصوص تاریخ و جغرافیہ پر آپ کی دسترس بےمثال تھی اور ٹھوس کتب کے مطالعہ میں آپ کو کمال حاصل تھا۔ آپ ایک بہترین منتظم، بااصول افسر، شفیق استاد، اپنے ماتحتوں سے محبت و شفقت کرنے والے اور ان کے مسائل ذاتی توجہ سے حل کرنے والے نافع الناس بزرگ وجود تھے۔ آپ بنیادی طور پر ایک ریاضی دان تھے۔ اسی لیے آپ کی ساری زندگی دو جمع دو چار کی طرح نپی تلی گزری۔ آپ کم گو تھے لیکن دلیل کے ساتھ ثقہ بات کرتے۔ معاملات کی تہ تک پہنچ کر ان کو احسن طریق پر حل کرتے۔ ہر کام چاہے وہ بظاہر آسان ہو یا مشکل بہت گہرائی اور تفصیل میں جاکر کرنے کے عادی تھے۔ آپ کے کاموں میں رخنہ بہت کم نظر آتا تھا۔ آپ کے قریب رہ کر خدمات بجا لانے والے افراد اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ کی زندگی کا حاصل، کامیابی کا زینہ اور ترقیات کی کنجی خلافتِ احمدیہ سے وابستگی، وفا، ہر معاملے میں خلیفۂ وقت سے ہدایت و رہنمائی کے حصول اور پھر بے مثال اطاعت میں مضمر تھی۔

محترم چودھری حمید اللہ صاحب خلیفہ وقت کی نظر میں

پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍فروری2021ء میں محترم چودھری حمید اللہ صاحب مرحوم کا تفصیلی ذکر خیر فرمایا۔ اور آپ کے اوصاف حسنہ پر روشنی ڈالی۔ پیارےآقا نےآپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ

’آپ حقیقی معنوں میں وقف زندگی کا حق ادا کرنے والے تھے۔ کھانے پینے اور سونے کے علاوہ آپ نے صرف جماعتی کام کیا کوئی وقت ضائع نہیں کیا۔

……ان کے بیٹے نے بھی یہی لکھا ہے کہ آپ ہمیشہ دو باتوں پر زور دیتے تھے کہ نمازیں اور خلیفہ وقت کا خطبہ کسی صورت میں missنہیں کرنا چاہیے اور خلیفہ وقت نے جو بھی ارشاد فرمائے ہیں ان پر بھرپور عمل کرنا چاہیے۔‘

حضور انور نے فرمایا:

’جب میں نے تمام ناظران، وکلاء کو ایک دفعہ یہ کہا تھا ، بعد میں بھی دو تین دفعہ کہا ہے ،کہ باہر جماعتوں میں جائیں اور لوگوں کو ملیں اور میرا سلام پہنچائیں تو چودھری صاحب بھی دو دفعہ گئے۔…ضلع سرگودھا ان کے سپرد تھا اور کوئی گھر انہوں نے نہیں چھوڑا، ہر گھر تک پہنچے۔…پھر یہ کہا کرتے تھے کہ دفتری معاملات میں بھی ان کی ایک مستقل ہدایت تھی کہ جو بھی معاملہ ہو چھوٹا ہو یا بڑا ہو ،غلطی بھی ہو گئی ہو تو خلیفة المسیح کو باخبر رکھنا ہے اور لازمی طور پر بات ان کے علم میں لائیں۔ اس سے دعا بھی ہو جاتی ہے اور اصلاح بھی ہو جاتی ہے۔… بعض دفعہ اس دورے کے دوران بعض جماعتیں کہتیںکہ آج ہمارے سے کوئی خطاب کر دیں تو انکار کر دیا کرتے تھے کہ جس بات کا مجھے حکم ملا ہے فی الحال میں صرف وہی کروں گا۔‘

حضور انور نے فرمایا:

’االلہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور خلافت کو ان جیسے سلطان نصیر ملتے رہیں۔‘

محترم چودھری حمید اللہ صاحب کے بارے میں خاکسار کی محبت بھری یادیں

میرا طفلی کا کچھ زمانہ ان کے ساتھ قادیان میں گزرا۔ میری اماں جان کا ان کی والدہ کےساتھ پیار محبت کا تعلق تھا۔ اور گھر میں آنا جانا تھا۔ لیکن میں ان کا ہم مکتب بھی تھا اور روزانہ ساتھ رہتا تھا۔ سادہ طبیعت تھے اور بہت محنتی تھے۔ میری اماں ان سے کہا کرتی تھیں کہ افتخار کو بھی پڑھائی کی طرف توجہ دلاتے رہو۔ بچپن کا یہ تعلق انہوں نے تا حیات نبھایا۔ میں بچپن میں ہی قادیان سے افریقہ چلا گیا تھا میری والدہ جب ربوہ میں بھائی مکرم رشید ایاز صاحب کے پاس رہائش پذیر تھیں تو ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اُن کی آخری بیماری میں خاص طور پر ان کے علاج معالجہ پر بھی نظر رکھتے تھے۔

پھر 1954ء میں جب افریقہ سے واپس آیا اور تعلیم الاسلام کالج لاہور میں داخل ہو گیا تو آپ بھی ایم ایس سی کر رہےتھے۔ آپ سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں وہاں بہت کم لوگوں کو جانتا تھا۔ آپ وہاں ہر طرح سےمیری رہنمائی کرتے۔ میری رہائش بھی ہوسٹل میں تھی اور نئے مختلف ماحول کی وجہ سے شروع میں مسائل بھی تھے لیکن آپ کی وجہ سے مجھے کافی سہولت تھی۔ رات آپ لیبارٹری میں آجاتے اور وہاں کئی طلباء آکر آپ سے اپنے حساب کےسوالات حل کرواتے۔ کالج میں آپ ایک قابل اور حساب کے ماہر معروف تھے۔ جب میں یونین کا سیکرٹری منتخب ہوا تو آپ بہت خوش ہوئےاور اس کام کے سلسلہ میں ہمیشہ مفید مشورےدیتے۔

افریقہ سے جب میں جلسہ سالانہ میں شرکت کے لیے ربوہ آتا اور آپ سے ملنے کےلیے جاتا تو باوجود انتہائی مصروفیت کے اصرار سے بٹھاتے اور حال احوال پوچھنے کے لیے وقت دیتے اور پھر ہمارے وہاں قیام کے دوران گھر پر چائے یا کھانے کےلیے ضرور بلاتے۔

جب میں طوالو سے مستقل طور پر لندن آگیا تو برکت کے حصول کے لیے جلسہ سالانہ کے موقع پر ہم سارے مرکزی مہمانوں کی گھر پر دعوت طعام کرتے۔ آپ جب بھی جلسہ سالانہ کے موقعہ پر لندن تشریف لائے خوشی سے اس دعوت میں شامل ہوتے اور قیام کے دوران ایک دو مرتبہ گھر پر تشریف لاتے۔ پاکستان میں جماعت کے خلاف تشدد اور انسانی حقوق کے سلسلہ میں آپ کے ساتھ میٹنگز ہوتی رہتیں اور آپ اپنے مفید مشوروں اور رہ نمائی سے نوازتے۔

2006ء میں جب ہماری بیٹی ڈاکٹرامۃ القدوس وقف عارضی پر طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں خدمت کے لیے گئی تھی ہم بھی اس کےساتھ ربوہ گئے تھے۔ وہاں قریباً ڈیڑھ ماہ مجھے بھی طوعی طور پر چودھری محمد علی صاحب مرحوم کے ساتھ وکالت تصنیف میں کام کرنے کا موقعہ ملا۔ وہ بھی میری زندگی کاایک سنہری تجربہ تھا۔ محترم چودھری محمد علی صاحب سے تراجم کے سلسلہ میں بہت کچھ سیکھا۔ اور اس دوران وکیل اعلیٰ چودھری حمید اللہ صاحب سے بار بار ملنے کے مواقع میسر آتے رہے۔ تراجم کے کاموں میں میں بالکل ناتجربہ کار اور نااہل تھا لیکن آپ نے تصنیف کے سارے عملے کاایک اجلاس بلایا اور اُس میں مجھے تراجم کے کاموں کو بہتر بنانے کے سلسلہ میں تجاویز دینے کوکہا اور جب میں وہاں سے لندن آنے کےلیےتیار ہو رہا تھا تو آپ نے ایک خاص الوداعی پارٹی کا اہتمام کیا اور سب کی طرف سے اس قدر محبت کا اظہار تھا کہ میں زمین میں گڑا جاتا تھا۔

غالباً 2009ء میں آپ کی کینیڈا کے جلسہ سالانہ پر اسلام میں انسانی حقوق کے موضوع پر انگریزی میں تقریر تھی۔ آپ نے اپنی اس انگریزی تقریر کا مسودہ مجھے دیکھنے کےلیے بھجوایا۔ میں نے اُنہیں کہا کہ میری کوئی حیثیت نہیں کہ میں آپ کی تقریر چیک کرنے کی جرأت کروں۔ آپ کی انگریزی کا بہت اعلیٰ معیار تھا۔ بہر حال ادب اور اطاعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے مجھے یہ سعادت بھی نصیب ہوئی۔

میری بیگم لیڈی امۃ الباسط صاحبہ کی تصانیف اور میری تصانیف کی بہت قدر کرتے اور ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے اور عمدہ تبصرے لکھ کر بھجواتے۔

ان سے آخری ملاقات فروری 2019ء میں ہوئی جب ہم ربوہ گئے۔ ہماری بیٹی ڈاکٹر سعدیہ نے طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں خدمت کے لیے وقف عارضی کیا ہوا تھا۔ ہم دفاتر کے احاطہ میں ایک گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرےہوئے تھے۔ میں نے ملاقات کے لیے دفتر فون کیا تو کہنے لگے میں خود گیسٹ ہاؤس آؤں گا۔ انکساری اور عاجزی کی حد تھی۔ اور اس ادنیٰ ترین کےساتھ اس قدر شفقت اور اکرام کا سلوک آپ کی شخصیت کو ایک کوزے میں سمیٹ دیتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ چلے آ رہے ہیں اور ساتھ ایک خادم بھی ہے جس نے ہاتھوں میں تھیلے اٹھائے ہوئےہیں۔ چنانچہ آپ تشریف لائے اور میرے پاس قریبا ًایک گھنٹہ بیٹھے اور ساتھ میری بیگم کے لیے میرے لیے اور ہماری دونوں بچیوں کے لیے تحائف کے تھیلے لے کر آئے۔

اس طرح کے بہت سارےواقعات ہیں جو ہمیشہ یاد آتے رہیں گے اور ان کے لیے دعاؤں کی توفیق ملتی رہی گی۔ اب اس سال کے شروع میں میں نے اُن کو دعاؤں کا پیغام بھیجا اور دعاؤں کی درخواست کی جس پراُن کی طرف سے 10؍جنوری کو ایک بہت پیارا جواب ملا۔ طبیعت کی خرابی کا قطعاً ذکر نہ تھا۔ آہ !کیا معلوم تھا کہ اس قدر جلد داغ مفارقت دے جائیں گے۔

یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ۔ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً۔ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ۔ وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ (الفجر:28تا31)

وفات

آپ کی وفات 7؍ فروری 2021ء کی صبح ہوئی اور اسی روز بہشتی مقبرہ دارالفضل ربوہ میں نمازِ جنازہ اور تدفین عمل میں آئی۔

پسماندگان میں آپ نے اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے اس مخلص اور دیرینہ خادم کی مغفرت فرماتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور خلافتِ احمدیہ کو محترم چودھری صاحب ایسے سلطانِ نصیر عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین۔

العین تدمع و القلب یحزن ولا نقول الا ما یرضی بہ ربنا

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button