حضرت مصلح موعود ؓ

فضائل القرآن (قسط اوّل)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ (فرمودہ 28؍ دسمبر 1928ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عظیم فرزند حضرت مصلح موعودؓ نے ساری عمر ’’کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر…‘‘ کرنےکے مقصد کو پورا کرنے میں گزاری۔ آپؓ کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی علم سے نوازا تھا۔ 1928ء کے جلسہ سالانہ پر حضورؓ نے فضائل القرآن کے موضوع پر عظیم الشان تقاریر کا ایک سلسلہ شروع فرمایا جو کئی سال تک چلتا رہا۔ ان تقاریر میں آپؓ نے قرآن شریف کے علوم و معارف اور انوار و محاسن کچھ اس انداز میں بیان فرمائے کہ پڑھنے والے پر قرآنی فضیلت آشکار ہو جاتی ہے اور وہ اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ ذیل میں اس سلسلہ کی پہلی تقریرپیش کی جاتی ہے۔ (ادارہ)

فضائل القرآن (نمبر 1)

قرآن کریم کی سابقہ الہامی کتب پر فضیلت اور مستشرقین یورپ کے اعتراضات کا رد

تشہد،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

اللہ تعالیٰ کے قانونِ قدرت کے متعلق کوئی حد بندی کرنا یا کوئی حد بندی چاہنا انسانی طاقت سے بالا اور ادب کے منافی ہے۔لیکن آج جس وقت نمازِ جمعہ کے قریب بادل گھر آئے اور تیز بارش برسنے لگی تو باوجود ضعف اور خرابی صحت کے میری طبیعت یہی چاہتی تھی کہ کم ازکم جلسہ سب دوستوں کے ساتھ مل کر دعا پر ختم ہو۔اللہ تعالیٰ کی طاقتیں تو بہت وسیع ہیں لیکن بندہ گھبرا جاتا ہے۔جب بارش تھمنے میں نہ آئی تو میں نے ایک تحریر لکھی اور دوستوں سے کہا کہ اس کی نقلیں کروا کر ابھی کمروں میں پہنچا دی جائیں۔اس کا مضمون یہ تھا کہ بارش کی وجہ سے چونکہ ہم سب لوگ ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے اس لئے سوا پانچ بجے میں دعا کروں گا سب دوست اپنی اپنی جگہ اس دعا میں شامل ہو جائیں۔لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ابھی نقلیں ہو ہی رہی تھیں کہ بارش تھم گئی اور میں نے کہلا بھیجا کہ خدا تعالیٰ نے دوسری صورت پیدا کر دی ہے اب نقلیں کروانے کی ضرورت نہیں۔

قرآنی مطالب پر غور کرنے کیلئے بعض اصولی باتیں

مجھے افسوس ہے کہ آج میں اس مضمون کو پوری طرح بیان کرنے کے قابل نہیں جو اس جلسے کے لئے میں نے تجویز کیا تھا۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مضمون کم ازکم وقت لے اور اسے خلاصۃً بھی بیان کیا جائے تب بھی پانچ چھ گھنٹے میں بیان ہو سکتا ہے۔اور اتنی لمبی تقریر موسم کے خراب ہونے اور پھر طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے اس وقت نہیں ہو سکتی۔میں نے اس مضمون کو جلسہ سالانہ کے لئے اس وجہ سے چنا تھا کہ یہ مضمون قرآن کریم کے متعلق ہے اور میراارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہو تو آئندہ جو قرآن کریم کا ترجمہ ہماری طرف سے شائع ہو اس کا اسے دیباچہ بنا دیا جائے۔کچھ حصہ ان مضامین کا جلسہ کے موقع پر بیان کر دوں اور باقی حصہ میں خود لکھ لوں۔لیکن چونکہ اس وقت یہ مضمون تفصیلی طور پر بیان نہیں ہوسکتا اس لئے آج میں اختصار کے ساتھ صرف اتنا ہی بیان کردیتا ہوں کہ قرآن کریم پرغور کرنے اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے کِن کِن مطالب پرغور کرنا چاہئے اور یہ کہ عیسائی اور دوسرے غیر مسلم اسلام اور قرآن کریم کے خلاف کتنی کوششیں کر رہے ہیں اور مسلمان اس طرف سے کتنے غافل اور لاپرواہ ہیں۔میرے نزدیک قرآن کریم پر مجموعی نظر ڈالنے کے لئے مندرجہ ذیل امور پر غور کرنا ضروری ہے۔

ضرورتِ قرآن

اول کیا اُس وقت جبکہ قرآن کریم نازل ہوا دنیا کو کسی الہامی کتاب کی ضرورت تھی یا نہیں؟ کیونکہ جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ کوئی چیز باموقع نازل ہوئی ہے اس وقت تک خدا تعالیٰ کی طرف وہ منسوب نہیں کی جاسکتی۔بہت لوگ کہتے ہیں کہ جب قرآن کریم نازل ہوا تو اس وقت لوگوں کی حالت خراب تھی۔مگر لوگوں کی حالت خراب ہونے کی وجہ سے ضروری نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی کتاب بھی نازل ہو۔دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس وقت تشریف لائے جب لوگوں کی عملی حالت بالکل خراب ہو چکی تھی لیکن کیا آپؑ کوئی کتاب لائے۔پس یہ کہنا کہ لوگوں کی عادات خراب ہوگئی تھیں فسق وفجور پیدا ہوگیا تھا یہ اس بات کے لئے کافی نہیں کہ اس زمانہ میں قرآن کریم کی بھی ضرورت تھی۔یا یہ کہ عربوں میں بد رسوم پیدا ہوگئی تھیں۔بیٹیوں کو مار ڈالتے تھے۔سوتیلی مائوں سے شادی کر لیتے تھے۔اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوگا کہ عربوں کے لئے ایک کتاب کی ضرورت تھی ۔یہ ثابت نہیں ہوگا کہ ساری دنیا کے لئے ضرورت تھی۔جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت بنی اسرائیل کی حالت سخت خراب تھی۔مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ علیھماالسلام ساری دنیا کے لئے آئے تھے۔ہمیں جو چیز ثابت کرنی چاہئے وہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں تمام مذہبی کتب میں ایسا بگاڑ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ اپنی ذات میں دنیا کو تسلی دینے کے لئے نا کافی تھیں۔پس قرآن کریم کے نازل ہونے کی ضرورت کو ثابت کرنے کے لئے پہلی کتب میں بگاڑ ثابت کرنا ضروری ہے۔

قرآن کریم کی وحی کس طرح نازل ہوئی

(2)دوسرے اس بات پر روشنی ڈالنا ضروری ہے کہ قرآن کریم کی وحی کس طرح نازل ہوئی؟ کیونکہ کسی وحی کے نزول کے طریق سے بھی بہت کچھ اس کی صداقت کا پتہ لگ سکتا ہے۔مثلاًاس بات پر بحث کرتے ہوئے یہ سوال سامنے آجائےگا کہ جس انسان پر یہ وحی نازل ہوئی کیا اس کے نازل ہونے کے وقت کی کیفیت سے یہ تو ظاہر نہیں ہوتا کہ اس کا نَعُوْذُبِاللّٰہِ دماغ خراب تھا۔بیسیوں لوگ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں ہمیں یہ یہ الہام ہوا۔وہ اپنی طرف سے جھوٹ نہیں بول رہے ہوتے۔مگر ان کا دماغ خراب ہوتا ہے۔ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے آکر کہا کہ مجھے بھی الہام ہوتا ہے۔آپ اس کی بات سن کر خاموش رہے اس نے پھر کہا۔جب میں سجدہ کرتا ہوں تو خدا تعالیٰ مجھے کہتا ہے۔عرش پر سجدہ کر اور کہتا ہے۔تو محمد ہے۔تو عیسیٰ ہے۔تو موسیٰ ہے۔آپؑ نے فرمایا۔کیا جب تمہیں محمد کہا جاتا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والا جمال اور جلال بھی دیا جاتا ہے یا قرآن کریم کے علوم بھی تم پر کھولے جاتے ہیں؟ اس نے کہا نہیں آپؑ نے فرمایا پھر خداتعالیٰ تمہیں عرش پر نہیں لے جاتا ہے۔بلکہ شیطان بہکاتا ہے اگر خدا تمہیں عرش پر لے جاتا اور محمد قرار دیتا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم والی طاقتیں بھی تمہیں آپؐ کی غلامی میں عطا فرماتا۔تو قرآن کریم کی وحی کے نزول پر بحث کرتے ہوئے یہ سوال بھی سامنے آجائے گا کہ جس شخص پر یہ کلام اتراوہ ایسا تو نہ تھا کہ مجنوں ہو یا اس کے دماغ میں کوئی اَور نقص ہو۔

جمع قرآن پر بحث

(3) تیسرا سوال قرآن کریم پر نظر ڈالتے وقت یہ سامنے آئے گا کہ قرآن کریم کس طرح جمع ہوا؟ یہ سوال قدرتی طور پر پیدا ہوتا ہے کہ جو کتاب دنیا کے سامنے رکھی گئی کیا اسی صورت میں سامنے آئی ہے جو اس کے نازل کرنےوالے کامنشا تھا؟ اگر اسی صورت میں سامنے آئی ہے تب تو معلوم ہوا کہ اس پر غور کرنے سے وہ صحیح منشاء معلوم ہوجائے گا۔جو پیش کرنے والے کا تھا۔لیکن اگر اس میں کوئی خرابی اور نقص پیدا ہو گیا ہے تو پھر اس کتاب کے پیش کرنے والے کا جو منشا تھا وہ حبط ہو گیا۔اس وجہ سے اس کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔یورپ کے لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی بڑی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم صحیح طور پر جمع نہیں ہوا۔وہ کہتے ہیں قرآن کریم کی عبارت کی کوئی ترتیب نہیں یونہی مختلف باتوں کو اکٹھا کر دیا گیا ہے۔

حفاظت قرآن کریم کا مسئلہ

چوتھی چیز یہ ثابت کرنی ہو گی کہ قرآن اب تک محفوظ بھی ہے۔اگر ہم یہ ثابت کر دیں کہ قرآن صحیح طور پر پیش کرنے والے کے منشاء کے مطابق جمع ہوا ہے۔مگر یہ کہا جائے کہ اس میں کچھ زائد حصہ بھی شامل ہو گیا ہے یا اس میں سے کچھ حصہ حذف ہو گیا ہے تو پھر سوال ہو گا کہ کتاب اب اصل شکل میں نہیں رہی۔اس وجہ سے وہ فائدہ نہیں دے سکتی جس کے لئے آئی تھی اور دنیا کے لئے کامل ہدایت نامہ نہیں ہو سکتی۔

اس کے لئے بھی عیسائی مورخین نے بڑا زور لگایا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم محفوظ نہیں ہے۔

قرآن کریم کا پہلی کتب سے تعلق

(5)پانچواں سوال جس پر غور کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کا پہلی کتب سے کیا تعلق ہے۔آیا قرآن کریم پہلی کتب کا مصدق ہے یا نہیں اگر ہے تو کس طرح؟ ان کو موجودہ صورت میں درست تسلیم کرتا ہے یا یہ کہتا ہے کہ پہلے صحیح اتری تھیں مگر اب بگڑ گئی ہیں۔یورپ کے لوگوں نے اس بات کے لئے بڑی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم نے پہلی کتب کو ان کی موجودہ صورت میں صحیح تسلیم کیا ہے۔اس سے ان کی غرض یہ ہے کہ جب قرآن کریم نے ان کتب کی موجودہ شکل کو درست مانا ہے تو پھر قرآن کریم کا ان سے جو اختلاف ہوگا وہ غلط ہوگا۔سرولیم میور نے اس پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔اس میں اس نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک پہلی کتابیں صحیح ہیں۔

(جاری ہے )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button