حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

نزول مسیح کا حقیقی مطلب اور مسیح و مہدی کے بعض کام

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

پس اس پر ہر ایک کو، مسلمان کہلانے والوں کو بھی غورکرنا چاہئے۔ اور ہمیں بھی ان کو سمجھانا چاہئے اور نام نہاد علماء کی ان بحثوں میں نہیں پڑنا چاہئے کہ جو آنے والا مسیح تھا ابھی نہیں آیا، یا اس نے تو فلاں جگہ اترنا ہے یعنی مہدی نے فلاں جگہ آنا ہے۔ دراصل جس طرح یہ نظریہ پیش کیا جاتا ہے یہ ایک حدیث کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ اس روایت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس طرح پیش فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’اگر یہ کہا جائے کہ احادیث صاف اور صریح لفظوں میں بتلارہی ہیں کہ مسیح ابن مریم آسمان سے اترے گا اور دمشق کے منارئہ شرقی کے پاس اس کا اترنا ہو گا اور دو فرشتوں کے کندھوں پر اس کے ہاتھ ہوں گے تو اس مُصَرَّح اور واضح بیان سے کیوں کر انکار کیا جائے؟‘‘۔ یعنی یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو صاف صاف اور کھلا کھلا بیان ہے اس سے کس طرح انکارکیا جا سکتا ہے، یہ لوگ کہتے ہیں۔

تو اس کے جواب میں آپؑ نے فرمایا کہ

’’اس کا جواب یہ ہے کہ آسمان سے اترنا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ سچ مچ خاکی وجود آسمان سے اترے بلکہ صحیح حدیثوں میں تو آسمان کا لفظ بھی نہیں ہے۔ اور یوں تو نزول کا لفظ عام ہے۔ جو شخص ایک جگہ سے چل کر دوسری جگہ ٹھہرتا ہے اس کو بھی یہی کہتے ہیں کہ اس جگہ اترا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں جگہ لشکر اترا ہے یا ڈیرا اترا ہے کیا اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ لشکر یا وہ ڈیرا آسمان سے اتراہے۔ ماسوائے اس کے خدائے تعالیٰ نے توقران شریف میں صاف فرما دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی آسمان سے ہی اترے ہیں۔ بلکہ ایک جگہ فرمایا ہے کہ لوہا بھی ہم نے آسمان سے اتارا ہے۔ پس صاف ظاہر ہے کہ یہ آسمان سے اترنا اس صورت اور رنگ کا نہیں ہے جس صورت پر لوگ خیال کر رہے ہیں ‘‘۔

(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ132-133)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ حدیثیں اس کی وضاحت سے بھری پڑی ہیں۔ تولوگ خود تو اتنا علم نہیں رکھتے اور علماء غلط رہنمائی کرتے ہیں۔ آپؑ نے اس سے آگے فرمایا: ’’اس لئے یہودیوں نے بھی غلطی کھائی تھی اور حضرت عیسیٰ کو قبول نہیں کیا تھا ‘‘۔ تو بہرحال یہ ساری لمبی باتیں اور تفصیلیں ہیں، خطبے میں تو بیان نہیں ہو سکتیں۔ اب جس طرح حالات بدل رہے ہیں، احمدیوں کو بھی چاہئے کہ ان باتوں کو کھول کر اپنے ماحول میں بیان کریں تاکہ جس حد تک اور جتنی سعید روحیں بچ سکتی ہیں بچ جائیں، جو شرفاء بچ سکتے ہیں بچ جائیں۔ احمدی اپنے اپنے حلقے میں کھل کر ہر مذہب والے کو سمجھائیں کہ ہر مذہب کی تعلیم کے مطابق جس نے آنا تھا وہ آچکا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’اب مَیں وہ حدیث جو ابو دائود نے اپنی صحیح میں لکھی ہے ناظرین کے سامنے پیش کرکے اس کے مصداق کی طرف ان کو توجہ دلاتا ہوں۔ سو واضح ہو کہ یہ پیشگوئی جو ابو دائود کی صحیح میں درج ہے کہ ایک شخص حارث نام یعنی حرّاث ماوراءالنہر سے یعنی سمرقند سے نکلے گا جو آل رسول کو تقویت دے گا۔ جس کی امداد اور نصرت ہر ایک مومن پر واجب ہو گی، الہامی طور پر مجھ پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی جو مسلمانوں کا امام اور مسلمانوں میں سے ہو گا دراصل یہ دونوں پیشگوئیاں متحد المضمون ہیں اور دونوں کا مصداق یہی عاجز ہے۔ مسیح کے نام پر جو پیشگوئی ہے اس کی علامات خاصہ درحقیقت دو ہی ہیں۔ ایک یہ کہ جب وہ مسیح آئے گا تو مسلمانوں کی اندرونی حالت کو جو اس وقت بغایت درجہ بگڑی ہوئی ہو گی اپنی صحیح تعلیم سے درست کر دے گا‘‘۔

اس بارے میں شروع کے خطبوں میں بھی ذکر ہو چکا ہے۔ خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی حالت بگڑی ہوئی ہے۔ اور کسی مصلح کو چاہتی ہے۔

مسیح موعود کا خزانے لٹانے سے مراد

تو فرمایا کہ’’ اپنی صحیح تعلیم سے درست کر دے گا اور ان کے روحانی افلاس اور باطنی ناداری کو بکلی دور فرما کرجواہرات علوم و حقائق و معارف ان کے سامنے رکھ دے گا‘‘۔ یعنی یہ خزانے ہیں اور وہ ان کے سامنے روحانی علم کی وضاحت کرے گا۔ پھر فرمایا :’’یہاں تک کہ وہ لوگ اس دولت کو لیتے لیتے تھک جائیں گے اور ان میں سے کوئی طالب حق روحانی طور پر مفلس اور نادار نہیں رہے گا بلکہ جس قدر سچائی کے بھوکے اور پیاسے ہیں ان کو بکثرت طیب غذا صداقت کی اور شربت شیریں معرفت کا پلایا جائے گا‘‘۔ یعنی یہ پاکیزہ غذا جو سچائی کی ہے وہ ان کو ملے گی، صحیح اسلام کی تعلیم ان کو ملے گی، مسیح موعود کے ذریعہ سے ہی اور یہ جو معرفت کا میٹھا شربت ہے یہ ان کو پلایا جائے گا۔ اگر یہ معرفت کا شربت پینے والے ہوتے تو غیر تعمیری قسم کا بلکہ تباہی پھیرنے والاردّعمل جوان سے ظاہر ہوا ہے اس کی بجائے یہ ایک تعمیری ردّعمل دکھاتے اور خدا کے آگے جھکنے والے ہوتے۔

فرمایا:’’ اور علوم حقہ کے موتیوں سے ان کی جھولیاں پُر کر دی جائیں گی‘‘۔ اسلام کا جو صحیح علم ہے وہ تو ایک بڑا قیمتی خزانہ ہے، موتیوں کی طرح ہے، اس سے ان کی جھولیاں پُر کرے گا۔ ’’اور جو مغز اور لب لباب قرآن شریف کا ہے اس عطر کےبھرے ہوئے شیشے ان کو دئیے جائیں گے‘‘۔ یہ جو قرآن کریم کی خوشبو ہے یہ ان کوملے گی۔

کسر صلیب اور قتل خنزیر کی تشریح

پھر فرمایا کہ’’ دوسری علامت خاصہ یہ ہے کہ جب وہ مسیح موعود آئے گا تو صلیب کو توڑے گا اور خنزیروں کو قتل کرے گا اور دجال یک چشم کو قتل کر ڈالے گااور جس کافر تک اس کے دم کی ہوا پہنچے گی وہ فی الفور مر جائے گا۔ سواس علامت کی اصل حقیقت جو روحانی طور پر مراد رکھی گئی ہے یہ ہے کہ مسیح دنیا میں آ کر صلیبی زمین کی شان و شوکت کو اپنے پیروں کے نیچے کچل ڈالے گا۔ اور ان لوگوں کو جن میں خنزیروں کی بےحیائی، اورخوکوں کی بے شرمی‘‘ یعنی سؤروں کی بے شرمی وہ بھی ایک جانور ہی ہے’’ اور نجاست خوری ہے ان پر دلائل قاطعہ کا ہتھیار چلا کر ان سب کا کام تمام کرے گا۔ اور وہ لوگ جو صرف دنیا کی آنکھ رکھتے ہیں مگر دین کی آنکھ بکلی ندارد۔ بلکہ ایک بدنما ٹینٹ اس میں نکلا ہوا ہے (یعنی آنکھ پر پھوڑا سا بنا ہوا ہے) ان کو بیّن حجتوں کی سیف قاطعہ سے‘‘ ایسی دلیلوں کی تلوار سے جو کاٹنے والی ہے ’’ملزم کرکے ان کی منکرانہ ہستی کا خاتمہ کر دے گا‘‘۔ تو یہ دلائل ہیں جن سے کاٹنا ہے تاکہ ان کے جو جھوٹے دعوے اور وجود ہیں ان کو ختم کر سکے۔ ’’اور نہ صرف ایسے یک چشم لوگ بلکہ ہر ایک کافر جو دین محمدیؐ کو بنظر استحقار دیکھتا ہے‘‘۔ جو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو تحقیر کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ’’ مسیحی دلائل کے جلالی دم سے روحانی طور پر مارا جائے گا‘‘۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آ کر دلیلوں سے اس کو ماریں گے۔ ’’ غرض یہ سب عبارتیں استعارہ کے طور پر واقع ہیں جو اس عاجز پر بخوبی کھولی گئی ہیں۔ اب چاہے کوئی اس کوسمجھے یا نہ سمجھے لیکن آخر کچھ مدت اور انتظار کرکے اور اپنی بے بنیاد امیدوں سے یاس کلی کی حالت میں ہو کر ایک دن سب لوگ اس طرف رجوع کریں گے۔ ‘‘ (روحانی خزائن جلد 3صفحہ141-143حاشیہ)

پس آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عیسائیوں کو چیلنج کیا ہے۔ عیسائیت جس تیزی سے پھیل رہی تھی یہ آپ ہی ہیں جنہوں نے اس کو روکا ہے۔ ہندوستان میں اس زمانے میں ہزاروں لاکھوں مسلمان عیسائی ہو رہے تھے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی تھے جنہوں نے اس حملے کو نہ صرف روکا بلکہ اسلام کی ساکھ دوبارہ قائم کی۔ پھر افریقہ میں جماعت احمدیہ نے عیسائیت کی یلغار کو روکا۔ اسلام کی خوبصورت تصویر دکھائی، ہزاروں لاکھوں عیسائیوں کو احمدی مسلمان بنایا۔ تو یہ تھے مسیح کے کارنامے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دکھائے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج تک آپؑ کی دی ہوئی تعلیم اور دلائل کے ساتھ جماعت احمدیہ دلوں کو جیتتے ہوئے منزلیں طے کرر ہی ہے اور انشاء اللہ کرتی چلی جائے گی۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button