متفرق مضامین

عربی زبان میں خدا داد فصاحت و بلاغت کا عظیم الشان نشان (قسط پنجم۔ آخری)

(محمد طاہر ندیم۔مربی سلسلہ عربک ڈیسک یوکے)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام كا فصیح وبلیغ عربی زبان سیكھنے كا دعویٰ ،اس كے دلائل اور ممكنہ اعتراضات كا علمی ردّ

حضور علیہ السلام كی انشاء پردازی اور حریری كی تحریرات

حضورعلیہ السلام نے اكثر اپنی عربی كتب میں مسجع ومقفّیٰ عبارتیں لكھی ہیں جو كہ بلاغت كی ایك اعلیٰ قسم ہے لیكن اسلامی دور میں مختلف ادباء كی طرف سے یہ صنف محض قصے كہانیوں اور فضول طریق پر استعمال ہوئی۔ حضورعلیہ السلام كا دعویٰ ہے كہ الله تعالیٰ نے آپ كو عربی زبان میں كمال عطا فرمایا ہے۔ یوں جہاں الله تعالیٰ نے آپ كو شریعت محمدیہ كے مجدد اعظم كے طورپر مبعوث فرمایا وہاں اس الہامی زبان بلكہ ام الألسنہ كی بلاغت كی بعض اعلیٰ اصناف كی تجدید بھی آپ كے ذریعہ سے ہوئی۔

چنانچہ آپؑ نے نہ صرف عربوں كے بھولے بسرے الفاظ اور مفردات كو اپنی كتاب سیرة الابدال وغيره میں درج كركے ان كو پھر زنده كردیا بلكہ عربوں كی بعض متروك لغات اور اسالیب كو بھی اپنی تحریر میں استعمال كر كےانہیں دوباره شناخت عطا کی۔ اس كے ساتھ ساتھ آپؑ نے اپنی تحریرات میں اس بات كے واضح اشارے چھوڑے ہیں كہ كسی ایك انسان كے لیے اپنی ذاتی جدّو جہد اوركوشش سے ان تمام امور كا سیكھنا اور پھر انہیں سیاق ِعبارت میں برمحل استعمال كرنا بغیر خدائی عنایت كے ممكن نہیں ہے۔ اس بارے میں حضور علیہ السلام كی یہ تحریر ملاحظہ ہو۔ فرمایا:

’’ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے اس انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے تا معارفِ حقائقِ قرآنی کو اس پیرایہ میں بھی دنیا پر ظاہر کریں اور وہ بلاغت جو ایک بیہودہ اور لغو طورپر اسلام میں رائج ہو گئی تھی اس کو کلام الٰہی کا خادم بنایا جائے۔ ‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ437)

حریری اورحضورعلیہ السلام كے اسلوب میں نمایاں فرق یہ ہے كہ حریری نے معانی كو الفاظ كا تابع كیایعنی الفاظ كی بناوٹ كا خیال ركھا تا جملوں كا وزن اورردھم قائم رہے اور سجع بنی رہے خواه الفاظ كی رعایت ركھتے ركھتے وه معنی جو اس كے ذہن میں ہے کیسا ہی قبیح یا فرسوده ہو جائے۔ اس كا مطلب ہے كہ وه ایك معین معنے كو تبدیل كیے بغیر مسجع مقفیٰ الفاظ كی لڑی میں پرونے سے قاصر تھا بلكہ الفاظ كی لڑی اور ترتیب كو قائم ركھنے كی خاطر اس نے معنے اور مغز كا ستیاناس كر دیا۔ اس لیے حریری كی كتب اورعبارات ظاہری الفاظ كی بناوٹ كے اعتبار سے تو ادبی رنگ ضرور ركھتی ہیں لیكن معنے كے حساب سے نہایت فرسوده ہیں۔ اس كے بالمقابل حضور علیہ السلام نے اعلیٰ ادبی عبارات اور مسجع ومقفیٰ تحریرات میں اعلیٰ درجے كے مفاہیم اورمعارف كو پرويا ہے جس نے سونے پہ سہاگے كا كام كیا۔

حضور علیہ السلام نے نہ صرف اس فرق كو خود بیان فرمایا بلكہ اس كے بالمقابل اپنے دعویٰ كو بھی نمایاں طورپر پیش كیا۔ فرمایا:

’’مقامات حریری بڑی عزّت کے ساتھ دیکھی جاتی ہے حالانکہ وہ کسی دینی یا علمی خدمت کے لئے کام نہیں آ سکتی کیونکہ حریری اِس بات پر قادر نہیں ہو سکا کہ کسی سچے اور واقعی قصہ یا معارف اور حقائق کے اسرار کو بلیغ فصیح عبارت میں قلمبند کرکے یہ ثابت کرتا کہ وہ الفاظ کو معانی کا تابع کر سکتا ہے۔ بلکہ اُس نے اوّل سے آخر تک معانی کو الفاظ کا تابع کیا ہے جس سے ثابت ہوا کہ وہ ہرگز اس بات پر قادر نہ تھا کہ واقعہ صحیحہ کا نقشہ عربی فصیح بلیغ میں لکھ سکے۔ لہٰذا ایسا شخص جس کو معانی سے غرض ہے اور معارف حقائق کا بیان کرنا اُس کا مقصد ہے وہ حریری کی جمع کردہ ہڈیوں سے کوئی مغز حاصل نہیں کر سکتا۔ ‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ433)

اس ساری بحث پر نظر كرنے سے ثابت ہوتا ہے كہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی عربی زبان كے دعویٰ كے اعتبار سے اوراس پر ہونے والے اعتراضات كے بارے میں كس قدر واضح موقف پر قائم تھے اور آپ كو ان اعتراضات كے مآخذ اور اسباب كا مكمل علم تھا۔ اور ان كے جوابات كے بنیادی نكات آپ كے سامنے واضح اور عیاں تھے۔ اور وه نقطہ جس تك پہنچنے كے لیے ہم دسیوں كتب كو كھنگالتے ہیں اس كا اشاره حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قبل ازیں ہی اپنے كلام میں محض ایك ایك جملے میں ہمیں عطا فرما دیا تھا۔

یہ خدا ئی تقدیر ہے كہ وقتاً فوقتاً معترضین كی طرف سے اعتراضات كا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس كی بنا پر افراد جماعت كو اس بارے میں تحقیق اور غور وفكر كرنے كی توفیق ملتی ہے اور بالآخر انہی اعتراضات كے مقامات كی تہ میں موجود علم ومعارف كے سمندر اور اعلیٰ نكات تك رسائی حاصل ہو جاتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام كا اسلامی تعلیمات پر اعتراض کرنے والوں كے بارے میں مندرجہ ذیل قول آپ کی عربی دانی پر نکتہ چینی کرنے والوں کے متعلق بھی درست ثابت ہوتا ہے كہ

’’یہ اعتراضات تو کوتاہ اندیشوں اور نادانوں کی نظر میں اعتراض ہیں۔ مگر مَیں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نے جہاں ان اعتراضات کو شمار کیا وہاں یہ بھی غور کیا ہے کہ ان اعتراضات کی تَہ میں دراصل بہت ہی نادر صداقتیں موجود ہیں جو عدم بصیرت کی وجہ سے معترضین کو دکھا ئی نہیں دیں اور درحقیقت یہ خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ جہاں نابینا معترض آ کر اٹکا ہے وہیں حقائق و معارف کا مخفی خزانہ رکھا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 1 صفحہ 59-60۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اوپر كی بحث پر غور كرنے سے اجمالی طورپر حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے كلام سے تمام اہم اعتراضات كا خود بخود ردّ ہو جاتا ہے۔ اور اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام كی زبان كے بارے میں آپ كے دعویٰ كا صحیح علم ہو جائے اور اسے مفصل طریق پر پیش كردیا جائے تو ان سابقہ اعتراضات كے علاوه نئے اعتراضات كا جواب دینے میں بھی آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔

مثلاً ایك نیا اعتراض یہ ہوا ہے كہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ كے شروع میں تقریبا ًڈیڑھ صفحہ كا عربی زبان میں تمہیدی نوٹ لكھا ہے۔ اسے پڑھ كر بعض جلد باز معترضین كہتے ہیں كہ خدا تعالیٰ سے عربی زبان سیكھنے كا اعلان تو كئی سال بعد كا ہے جبكہ براہین كے زمانے سے آپ تو اچھی عربی جانتے تھے۔ اس لیے الہامی طور پر عربی سیكھنے كا اعلان ذہن كی اختراع ہے۔

الجواب: سبحان الله۔ ایك طرف اعتراض ہے كہ آپ علیہ السلام كی تمام تحریریں مسروقہ ہیں اوردوسری طرف اعتراف كہ حضور علیہ السلام دعویٰ سے پہلے ہی اچھی عربی جانتے تھے۔ یہ اعتراض اسی طرح كا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے زمانے میں بعض معترضین نے كیا جب انہوں نے ایك طرف سرقہ شده عبارتیں استعمال كرنے كا الزام لگایا تو دوسری طرف یہ اعتراض كیا كہ شامی اور عربی اشخاص سے یہ كتب لكھوائی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کی طرف سے عربی زبان میں کمال عطا ہونے سے پہلے جو عربی آتی تھی وہ وہی تھی جواس زمانہ میں مدرسوں وغیرہ میں پڑھائی جاتی تھی۔ اس زمانہ میں مدارس میں صرف و نحو کی کچھ کتابیں دیوان حماسہ کا کچھ حصہ، متنبی كے بعض قصائد، سبعہ معلقات اور مقامات حریری میں سے کچھ حصے پڑھائے جاتےتھے اور آج کل بھی یہی حال ہے۔ اگر انہی کتابوں کو پڑھ کر فصیح و بلیغ عربی میں کتب لکھی جا سکتی ہیں تو یہ تو اس زمانہ میں ہر مولوی نے پڑھی ہوئی تھیں۔ پھر کیوں نہ اس زمانہ میں مولوی اٹھ کر مقابلے میں آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ میں عربی زبان میں کتب لکھنے کا چیلنج قبول کیا؟

ایسی عربی كے باره میں تو حضور علیہ السلام نے خود ہی فرمایا ہے كہ مجھے قبل ازیں ہی معمولی عربی زبان آتی تھی جسے علمیت نہیں كہا جاسكتاتھا۔

(ملخص از نجم الہدىٰ، روحانی خزائن جلد14صفحہ 107)

جس عربی كا آپؑ نے دعویٰ كیا ہے وه عربی زبان میں كامل وسعت علمی اورلغاتِ عرب اور مختلف محاوروں واستعمالات اور جذوركے سكھائے جانے كا دعویٰ ہے۔ اورعام فہم اچھی عربی زبان كو اس دعویٰ سے كوئی نسبت ہی نہیں كیونكہ كسی كے بس كی بات نہیں كہ اپنی كوشش سے عربی زبان كے اس قدر علوم حاصل كرسكے جن كااحاطہ كرنا امام شافعی رحمہ الله كے نزدیك كسی نبی كا كام ہے۔

خلاصہ یہ كہ عربی زبان كے خدا داد علم كے دعویٰ سے پہلے آپ كی عربی زبان جس قدر بھی اچھی ہو اسے اس زبان سے كوئی نسبت نہیں جو آپؑ كو الہامًا سكھائی گئی اور جس كے جوہر آپؑ نے معارف كے بیان میں اپنی كتب میں دكھائے اور جس كے بارے میں مخالفین كو مقابل پر آنے کی دعوت دی۔

اسی طرح بعض محنتی معترضین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام كی عربی كتب كے ہر ہر جملے كو لے كر ادب كی مختلف كتب سے تلاش كیا اور جہاں كہیں اس جملے كے ایك دو كلمات بھی اكٹھے ملےوہیں پرفورًا لكھ دیا كہ یہ جملہ اس كتاب سے چوری كیا گیا ہے۔ اور یوں تصویر یہ پیش كی گئی كہ جیسے حضور علیہ السلام نے ایك كمرے میں بدیع الزمان الهمدانی كے 52مقامات اور ابو محمد القاسم الحريری كے 50 مقامات اور سبعہ معلقات كے جملہ قصائد اور حماسہ كے قصائد نیز دیگر كتب ادب كھول كر صبح سے شام بیٹھے رہتے تھے اور ان كتب كے ورق الٹتے جاتے تھے اور ایك فقره ایك مقامے سے اور دوسرا دوسرے مقامے سے لیتے جاتے تھے، نیز كبھی سبعہ معلقات سے اور كبھی حماسہ سے اور كبھی كسی اور كتاب سے اچھے الفاظ اور تراكیب اور جملے نوٹ كرتے جاتے اورآخر پر ان جملوں كو جمع كر كے كتاب بنا كر چھاپ دیتے تھے۔

جیسا كہ واضح ہے كہ اس طریق پر ایسی كتب تالیف نہیں ہو سكتیں جنہیں بطور چیلنج پیش كیا جاسكتا ہو۔

آج جبكہ كمپیوٹر پر ایسے پروگرام میسر ہیں جن میں كئی كئی ہزار كتب موجود ہیں اور محض چند سیكنڈز میں تمام كتب میں كسی لفظ یا جملے یا موضوع كے بارے میں تلاش كی جاسكتی ہے۔ لیكن آج سے سوا سو سال قبل ایسا سوچنا بھی ناممكن تھا۔ تاہم اگر فرض كرلیا جائے كہ آپ ایسا كرسكتے تھے تو یہ سہولت تو تمام مخالفین كے پاس بھی تھی۔ سارے مولوی مل كر اگر ایك ایك فقره بھی لكھتے تو اس طرح كی كئی كتابیں بن سكتی تھیں۔ پھر انہیں حضور علیہ السلام كے بالمقابل آنے كی جرأت كیوں نہ ہوئی؟ یا اگر ان كے لیے مشكل تھا تو آج تو یہ آسان ہو گیا ہے۔ پھر آج یہ معترضین كیوں ایسی كوئی كتاب لكھنے سے قاصر ہیں جبكہ دنیا كی ساری اچھی كتب سے چند سیكنڈز میں اچھے اچھے جملے اور الفاظ تلاش كرنا ان كے بائیں ہاتھ كا كھیل بن گیا ہے۔

علاوه ازیں جو لكھنے والے ہیں وه خوب سمجھ سکتے ہیں کہ مضمون خاص کی بحث میں سرقہ کا دروازہ بہت تنگ ہوتا ہے۔ اگر آپ نے كسی خاص مضمون كو لكھنا ہے تو مضمون كے ساتھ ساتھ چلنے كے لیے آپ كو كئی مفردات اور جملے چھوڑنے پڑیں گے چاہے وه كتنے ہی اچھے كیوں نہ ہوں كیونكہ مضمون كی ادائیگی میں صرف وہی جملہ استعمال ہو سكتا ہے جو اس مضمون كا معنی ادا كرتا ہے۔ لیكن جو شخص الفاظ كی بندش كا خیال ركھے گا اسے مضمون سے ہاتھ دھونے پڑیں گے جیسے كہ حریری نے كیا۔

ان تمام حقائق كے علاوه یہ بھی دیكھنا ضروری ہے كہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے پاس ایسے كاموں كے لیے فرصت كتنی تھی؟آپ كو ذیابیطس اور دوران سر کا عارضہ تھا۔ روزانہ احمدی اور غیراحمدی مسلم اور غیر مسلم افراد آپ کو ملنے آتے تھے۔ اكرام ضیف كے تحت سب کے ساتھ ملاقاتیں كرنا، ان كے كھانے پینے اور رہنے كا انتظام كرنا یا ایسے انتظامات كا خیال ركھنا، ان کے ساتھ گفتگو كرنا اور ان كے اعتراضات اور سوالات کے جوابات دینا، موافقین اور مخالفین کی طرف سے روزانہ خطوط کا آنا جن كی تعداد پانچ صد ماہوار تك پہنچ جاتی تھى، پھر تمام خطوط کے جواب لکھوانا اور بعض اوقات كسی خط كے جواب میں ایك مكمل اور مبسوط مضمون لكھوانا، پھر موافقین ومخالفین کے مضامین کا پڑھنا یا دوسروں سے ان کے مضامین سننا، اس كے ساتھ ساتھ كبھی عیسائیوں كے اسلام پر حملے كے جواب میں مبسوط كتب تالیف فرمانا تو كبھی ہندوؤں اور آریہ كے اعتراضات كے جواب میں مضامین و كتب لكھنا، كبھی اشاعت اسلام كے لیے اعلانات تحریر كر كے چھپوانا اور كبھی اعلائے كلمہ حق كے لیے مناظرات اور مباحثات میں شمولیت اختیار كرنا، اور مختلف سفر اختیار كرنا وغیره وغیره ایسے كام تھے جن میں مصروف شخص كے پاس ایسی فرصتیں كہاں كہ كتابیں كھول كر ان میں سے جملے نكالے جائیں۔ پھر خدمت خلق كے كام ان دینی مہمات كے علاوه تھے۔ اوریہ سب كام ایسے گھر میں اور ایسی بستی میں بیٹھ کر سرانجام دینا جس میں اس وقت نہ بجلی تھی نہ كوئی سہولت۔ جہاں گرمیوں کے موسم میں شدید گرمی اور سردیوں کے موسم میں شدید سردی ہوتی ہے۔ ایسی صورت حال میں بڑھاپے اور بیماریوں، کمزوری اوربےشمار مصروفیات کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام كا فصیح و بلیغ عربی میں بیس سے زائد کتب لکھنا اور ان میں سینكڑوں شعروں پر مشتمل قصائد بھی تحریر فرمانا یقینا ًاپنی ذات میں ایک عظیم معجزہ ہے۔

خلاصہ یہ کہ معترضین اور مخالفین جب حضور علیہ السلام كے بالمقابل عربی دانی كے جوہر دكھانے سے عاجز آگئے تو كبھی كہا كہ یہ كلام اغلاط سے پر ہےاور نہایت ضعیف عربی لكھی ہے اور كبھی اپنی بات كے ہی برعكس یہ كہہ دیا كہ ان كتب میں بہت اچھے اچھے ادبی فقرات اور بلیغ تراكیب ہیں اس لیے ہو نہ ہو یہ كتب پرانی كتب سے سرقہ كر كے لكھی گئی ہیں، اور جب یہ بات بھی نہ بنی تو انہوں نے یہ كہہ دیا كہ كوئی شامی یا عربی ان كو یہ كتب لكھ كر دیتا ہے۔ ان سب باتوں كا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے كیا خوب جواب دیا۔ فرمایا:

’’اس خیال میں میرے مخالف سراسر سچ پر ہیں کہ یہ اس شخص کا کام نہیں کوئی اور پوشیدہ طور پر اس کو مدد دیتا ہے سو میں گواہی دیتا ہوں کہ حقیقت میں ایک اور ہے جو مجھے مدد دیتا ہے لیکن وہ انسان نہیں بلکہ وہی قادر و توانا ہے جسکے آستانہ پر ہمارا سر ہے۔ ‘‘

(اعجاز المسیح روحانی خزائن جلد 18صفحہ2)

نیز فرمایا:

اُنْظُرْ إِلَى أَقْوالِهِمْ وَتَناقُضٍ

سَلَبَ العِنادُ إِصابَةَ الْآرَاءِ

طَوْرًا إِلَى عَرَبٍ عَزوْهُ وَتَارَةً

قَالُوا كَلامٌ فاسِدُ الإِمْلَاءِ

هَذَا مِنَ الرَّحْمنِ يَا حِزْبَ العِدا

لَا فِعَلَ شَامِيٍّ وَلَا رُفَقَائِي

(الاستفتاء، روحانی خزائن جلد22صفحہ726)

ترجمہ:تُو ان کی باتوں اور ان میں موجود تضاد کو دیکھ کہ کس طرح دشمنی نے ان سے درست بات کہنے کی طاقت بھی سلب کر لی ہے۔

کبھی تو میرے کلام کو کسی عرب کی طرف منسوب کرتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ اس کی تو املا ہی فاسد ہے۔

اے گروہِ دشمناں ! یہ تو خدائے رحمان کی طرف سے ہے۔ نہ کسی شامی کا کام ہے نہ ہی میرے رفقاء کا۔

خلاصہ بحث

اسلامیہ کالج لاہور کے پروفیسر مولوی اصغر علی صاحب نے بھی حضرت بانی جماعت احمدیہ كی عربی دانی پر اعتراض كیا اور اپنے خط میں انہی اعتراضات كا ذكر كیا جو اس وقت كے مولوی حضرات اور حضور علیہ السلام كے دیگرمخالفین كی زبانوں پر تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مورخہ 3؍ اپریل 1894ء کو اس مکتوب كا مفصل جواب دیا جس میں مختصر مگر جامع انداز میں ان تمام اعتراضات كے جوابات عطا فرمائے۔ ذیل میں ہم حضور علیہ السلام كے اس جامع ومانع جواب كو اس سارے مضمون كے خلاصۂ بحث كے طور پر پیش كرتے ہیں۔ حضورؑ فرماتےہیں:

’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ بعد ہذا آپ کا عنایت نامہ مجھ کو ملا۔ آپ کی یہ صفت قابل تعریف ہے جو آپ اس گروہ میں سے نہیں ہیں جو محض جلد باز ہیں اور تعصب کے رو سے ایک مسلمان کانام کافر اور دجال اور بے ایمان بلکہ اکفر کہتے ہیں۔ اور معلوم ہو اکہ آپ کی تحریر اس غرض سے تھی کہ بعض مقامات پر حمامۃ البشریٰ میں صرفی یا نحوی یا عروضی غلطی ہے۔ اور نیز آپ کی دانست میں بعض مضامین یا فقرات یا اشعار اس کے چرا ئےگئے ہیں۔ سو عزیز من اس کے جواب میں یہ گزارش ہے کہ یہ عاجز نہ ادیب، نہ شاعر اور نہ اپنے تئیں کچھ چیز سمجھتا ہے اور نہ اس شغل میں کوئی حصہ عمر کا بسر کیا ہے۔ اور نہ ان عبارتوں اور اشعار کے لکھنے میں کوئی معتد بہ وقت خرچ ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ تحریریں معمولی خطوں کی طرح اپنی اوقات معمورہ میں سے ہر روز ایک دو گھنٹہ نکال کر لکھی گئی ہیں۔ اور ساتھ ساتھ کاپی نویس لکھتا گیا۔ اور اگر کبھی اتفاقاً پورا دن ملا تو ایک ایک دن میں سو سو شعر طیار ہو گیا۔ اور وہ بھی پورا دن نہیں کیونکہ اگر آپ اس جگہ آکر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو کہ دن رات کس قدر مشغولی ہے۔ خطوط کا یہ حال کہ کبھی تین سو کبھی چار سو کبھی پانچ سو ماہوار آجاتا ہے۔ اور بعض خطوط کا جواب رسالہ کی طرح لکھنا پڑتا ہے۔ مہمانداری کا یہ حال ہے کہ ایک جہان توجہ کر رہا ہے ایک قافلہ مہمانوں کا ہمیشہ رہتا ہے۔ اور عجیب عجیب صاحب کمال، مدنی، شامی، مصری اور اطراف ہندوستان سے آتے ہیں۔ اور بباعث رعایت حقِّ ضیف بہت حصہ وقت کا ان کو دینا پڑتا ہے۔ عمرکا یہ حال ہے کہ پیرانہ سالی ہے۔ ضعیف الفطرت ہوں علاوہ اس کے دائم المریض اور ضعف دماغ کا یہ حال ہے کہ کتاب دیکھنے کا اب زمانہ نہیں جو کچھ خیال میں گزرا وہ لکھ دیا یا لکھا دیا۔ دورانِ سر لاحقِ حال ہے۔ ادنیٰ محنت سے گو فکر اور سوچ کی محنت ہو، مرضِ راس دامنگیر ہو جاتا ہے۔ عمرِاخیر ہے، مرگ سر پر، تکبر اور ناز جو لوازم جوانی اور جہل ہیں کچھ تو ضعف اور پیرانہ سالی نے دور کر دیے تھے اور بقیہ ان کا اس معرفت نے دور کر دیاجو فیاض مطلق نے عطا فرمائی۔

اب ان حالات کے ساتھ آپ سوچ سکتے ہیں کہ اگر کسی تالیف میں غلطی جو لازم بشریت ہے پائی جاتی ہے تو کیا بعید ہے؟بلکہ بعید تو یہ ہے کہ نہ پائی جائے۔ بہت سے نیک دل اور پرہیز گار اس جگہ رہتے ہیں۔ اور نوبت بہ نوبت اچھے علماء اور ادیب آتے رہتے ہیں اور ایک قافلہ بزرگوں کا لازمِ غیرمنفک کی طرح اس جگہ رہتا ہے۔ ان سے آپ دریافت کر سکتے ہیں کہ اس عاجز کی طرز تالیف کیا ہے۔ اگر آپ دریافت کریں گے تو آپ پر بھی ثابت ہو گا کہ تالیفات ایک خارق عادات طور پر ہیں۔ میری عمر کا یہ تجربہ نہیں کہ کوئی انسان بجز خاص تائیدات الٰہی کے باوجود اس ضعف اور دامن گیر ہونے انواع و اقسام کے امراض کے اور باوجود اس کثرت شغل خطوط اور ایمانداری کے پھر یہ فرصت پا سکے کہ بہت سا حصہ نثر موزون کاجو بعض اوقات قریب قریب ایک جزو کے ہوتی ہے۔ معہ ان اشعار کے جو بعض اوقات سو سو بلکہ سو سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں، بتیس پہر میں لکھ دے؛ اگر آپ کا کوئی تجربہ ہو تو میں آپ سے کوئی بحث کرنا نہیں چاہتا۔ اور نہ میں اپنے نفس کو کوئی چیز سمجھتا ہوں۔

باوجود ان سب اسباب کے کبھی مجھ کو موقعہ نہیں ملتا کہ جو کچھ لکھا ہے سوچ کی نظر سے اس کو دیکھوں۔ پھر اگر اس طور کی تحریروں میں اگر کوئی صرفی یا نحوی غلطی رہ جائے تو بعید کیا ہے۔ مجھے کب یہ دعویٰ ہے کہ یہ غیرممکن ہے۔ ان کم فرصتوں اور اس قدر جلدی میں جو کچھ قلم سے گزر جاتا ہے، میں اس کو خداتعالیٰ کی طرف سے سمجھتا ہوں۔ ہاں اگر غلطی ہے تو میرے نفس کی وجہ سے۔ پھر ان غلطیوں کےساتھ سہو کاتب شامل ہو جاتا ہے۔ پھر کب دعویٰ ہو سکتا ہے کہ یہ کتابیں صرفی یا نحوی غلطی سے پاک ہیں۔ لیکن باوجود اس کے میں کہتا ہوں۔ اور زور سے کہتا ہوں کہ اس جلدی کے ساتھ جو کچھ نظم اور نثر عربی مخالفوں کے الزام وافحام کے لئے میرے منہ سے نکلتے تھے وہ میرے منہ سے نہیں بلکہ ایک اور ہستی ہے جو ایک جاہل نادان کو اندر ہی اندر مدد دیتی ہے۔ اور بیشک وہ امر خارق عادت ہے اور کسی عدوِّ دین اور عدوِّ صادقین کو یہ توفیق ہرگز نہیں دی جائے گی کہ وہ انہی لوازم ِارتجال اور اقتضاب کے ساتھ اس کو اخیر تک نباہ سکے۔

اور جو سرقہ کا خیال آپ نے کیا ہے آپ ناراض نہ ہوں یہ بھی صحیح نہیں۔ اس عاجز کی ایک عادت ہے شاید اس کو آپ نے سرقہ پر حمل کیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ مضمون سوچتے وقت اگر سلسلہ تحریر میں جو روانگی کے ساتھ چلا جاتا ہے کوئی فقرہ یا بعض وقت کوئی مصرعہ کسی گزشتہ قائل کا دل میں گزر جائے اور مناسب موقعہ معلوم ہو تو وہ خداتعالیٰ کی طرف سے سمجھا جاتا ہے۔ اور اس کے لکھنے میں اگر محل پر چسپاں ہو کچھ بھی حرج نہیں دیکھا جاتا۔ کیونکہ بے تکلف ہماری راہ میں آگیا اور عجیب تر یہ کہ اکثر اوقات مجھے بالکل احساس نہیں ہوتا اور دوسرا کہتا ہے کہ یہ مصرعہ یا فقرہ، فلاں فقرہ یا فلاں مصرعہ سے بالکل مشابہ ہو گیا ہے۔ بعض اوقات عجب طور کے توارد سے تعجب کرتا ہوں، جانتا ہوں کہ جلدباز اپنی جلدبازی اور سوء ظن سے اس پر اعتراض کرے گا۔ مگر جانتا ہوں کہ میرا کیا گناہ ہے۔ اگر کرے تو کرتا رہے۔ کلام فصیح اپنے کمال پر پہنچ کر ایک نور بن جاتا ہے۔ اور نور نور سے مشابہ ہوتا ہے۔ سرقہ کے لئے جوانی اور جوانی کا زور بازو اور وسیع فرصتیں چاہئیں وہ مجھے کہاں۔ اگر کوئی سرقہ کا خیال کرے تو کِیا کرے۔ جن لوازم کے ساتھ یہ تحریریں ظہور میں آئی ہیں۔ اگر کوئی ان لوازم کے ساتھ تحریر کر کے دکھلاوے تو ایک دفعہ نہیں بلکہ ہزار دفعہ اس کو سرقہ کی اجازت دے سکتا ہوں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مضمون خاص کی بحث میں سرقہ کا دروازہ بہت تنگ ہوتا ہے۔ جو شخص اس کام ميں پڑے وہ سمجھے گا کہ یہ الزام ایسے علمی مباحث میں کس قدر بیجا ہے۔

پھر یہ بات بھی آپ یاد رکھیں کہ صرفی نحوی غلطیاں نکالنے میں عجلت نہیں کرنی چاہئے۔ کچھ تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ ایک مخالف مولوی نے اسی طرح میری تالیف میں غلطیاں نکالیں۔ دوسرے اہل علم اور مخلص نے وہی غلطیاں قرآن سے نکال کر ان کی صحت کر دی ہے۔ ایک مخالف نے ایک شعر کے وزن میں بحث کی۔ اسی وقت ایک ادیب عربی نے قدماء میں سے ایک مسلم اور مشہور شاعر کا شعر پیش کیا۔ یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے کہ ہماری جماعت کے ساتھ کئی ایک ادیب شامی، مدنی اور اسی ملک کے ہندوستانی شامل ہیں۔ نوبت بہ نوبت علماء اس جگہ رہتے ہیں۔

عزیز من صرف نحو کا میدان بڑا وسیع ہے۔ صلوں میں دیکھو کہ کس قدر اختلاف ہے بعض اوقات ایک ایک لفظ کے تین تین چار چار صلے آجاتے ہیں۔ جیسا کہ بَارَکَکَ، بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ، بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ، بَارَکَ اللّٰہُ عَلَیْکَ۔ اُنْظُرْ

بعض جگہ من کی جگہ عن اور عن کی جگہ من اور فا کی جگہ با اور با کی جگہ فا۔ اور نئے محاورہ میں بہت فرق آگیا ہے۔

غرض یہ بڑا نازک امر ہے مجھے تعجب ہے کہ آپ کیوں اس میں پڑتے ہیں۔ اور کیوں ایسا دعویٰ کرتے ہیں کہ میں صرفی نحوی غلطیاں ملک میں شائع کروں گا۔ عزیز من اگر کوئی واقعی غلطی ہو گی تو ہمیں کب انکار ہے۔ لیکن اگر بعض آپ کی قراردادہ غلطیاں آخری تحقیقات سے غلطیاں ثابت نہ ہوئیں تو اس شتاب کاری کی کس کو ندامت ہوئی؟ نکتہ چینوں نے حریری کی بھی غلطیاں نکالیں۔ بلکہ ان دنوں میں ایک خبیث طبع بیروتگی عیسائی نے قرآن کریم کی نکتہ چینی کی ہے۔ پھر جبکہ بدباطن معترض اعتراض کے وقت پر قرآن شریف سے بھی حیا نہیں کرتے اور اہل زبان کی نظم و نثر پر بھی حملے ہوئے، تو پھر میں کیونکر کہوں کہ میں ان حملوں سے بچ سکتا ہوں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ بات سچ ہے کہ نکتہ چینی آسان اور نکتہ آوری مشکل ہے۔ مجھے ایک بات یاد آئی ہے اور معلوم نہیں کہ کب کا واقعہ ہے کہ ہمارے ہاں کوئی معمار عمارت بنا رہا تھا اور ایک فضول گو جاہل اس کے سر پر کھڑا ہوا اور اس کی عمارت میں نکتہ چینی شروع کی کہ یہ طاق خراب ہے اور یہ شاہ نشین ٹیڑھا ہے۔ معمار کاریگراور حلیم تھا، مگر غصہ آیا اور اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ اگر تیری نکتہ چینی کی بنا کسی واقفیت پر ہے تو ذرہ لگا کر مجھے بتلا۔ ورنہ ایسی نکتہ چینی سے شرم کر جس کی بنا نادانی اور ناتجربہ کاری پر ہے۔ عزیز من دنیا میں بہت سے ایسے نکتہ چیں ہیں ان کو اپنی لیاقت کا تبھی پتہ لگتا ہے کہ جب مقابل پر کوئی کام کرنے لگیں۔ علمی معارف کو فصیح اور بلیغ اور رنگین کلام میں کماحقہ انجام دینا کوئی آسان بات نہیں ہاں نکتہ چینی کا کرنا بہت آسان بات ہے۔ ایک گورا ریل پر سوار ریل کے موجدپر سو سو اعتراض کرتا ہے کہ اس کے کام میں یہ کسر رہ گئی ہے اور ان مشکلات کو نہیں سوچتا جو اس کو پیش آئیں اور جن میں وہ کامیاب ہوا۔

میں ایک دینی کام میں لگا ہوا ہوں اور میں ایک کمزور اور بوڑھا آدمی ہوں اور بہت کم وقت ہو گا کہ کسی کام میں میں مصروف نہ ہوں اور آپ جوان ہیں اور علمی طاقت کا بت بھی آپ کے ساتھ ضرور ہو گا۔ خداتعالیٰ اس کو دور کرے اور آپ ناراض نہ ہوں بہت سے ایسے بت ہیں جو انسان ان کو شناخت نہیں کر سکتا اور سعید آدمی چاہتا ہے کہ وہ ٹوٹ جائیں تو اچھا ہو۔ لیکن اگر آپ کو خیال ہے کہ یہ کام انسانی عام طاقتوں کا ایک عام نتیجہ بلکہ اس سے بھی گرا ہوا ہے اور خداتعالیٰ کی مدد ساتھ نہیں تو یہ ایک بیماری ہے جس کی جڑ نفسانی تکبر ہے۔ اگر اس عاجز کے ہاتھ سے دور ہو جائے تو شاید مجھ کو اس کا ثواب ہو۔ اور شاید آپ ایسے ہو جائیں کہ ہماری دینی خدمات کے کام آئیں۔ لہٰذا میں آپ کی اس درخواست کو بسر و چشم قبول کرتا ہوں جو آپ نے اپنے خط کے اخیر لکھی ہے کہ میں بمقابل رسالہ لکھنے کے لئے آیا ہوں بشرطیکہ باضابطہ اس امر کا فیصلہ ہو جائے کہ عربی انشاء پردازی کے لحاظ سے جس جانب کا رسالہ بلحاظِ اغلاط، اَنقص ہو گا، اس کو اپنے دعویٰ زباندانی یا کشف اسرار قرآنی سے آئندہ دست بردار ہونا ہو گا۔ فقط۔

یہ آپ کی درخواست منظور ہے۔ مگر عبارت اس طرح کی چاہئے کہ جس جانب کا رسالہ جو دینی علمی مضامین پر مشتمل ہو بلحاظ اغلاط و بلحاظ دیگر لوازم بلاغت و عدم بلاغت مرتبہ صحت اور عمدگی سے گرا ہوا ہو ایسا شخص آئندہ دعویٰ زباندانی سے اور نیز دعویٰ کشف اسرار قرآنی سے دست بردار ہو۔ اور چونکہ کشف اسرار قرآنی الہام کے ذریعہ سے ہے اس لئے میں یہ بھی قبول کرتا ہوں کہ اگر آپ کا بالمقابل رسالہ جو مضامین دینیہ پر مشتمل ہو بیانِ معارف میں باوجود امتزاجِ بلاغت و فصاحت اور رنگینی عبارت میرے رسالہ سے بڑھ جائے تو پھر اپنے الہام کے عدم صحت کا مجھے قائل ہونا پڑے گا۔ مگر اس مقابلہ کے لئے میری کتابوں میں سے وہ کتاب چاہئے جس کی نسبت خداتعالیٰ کے الہام نے بے نظیری ظاہر کی ہے۔ سو میں آپ کو اعلام دیتا ہوں کہ ان دنوں میں نے ایک کتاب تالیف کی ہے جس کا نام نور الحق ہے اور اس کے دو حصے ہیں ایک حصہ نصاریٰ کے ردّ میں اور دوسرا حصہ خسوف و کسوف کے بیان میں۔ اور دو خواب اور دو الہام سے مجھ پر ظاہر ہوا ہے کہ دشمن اور مخالف اس کی نظیر بنانے سے عاجز رہے گا۔ اور اگرچہ بہت ہی تھوڑا کام ہے لیکن میں نے عیسائیوں کو اس کے مقابل بنانے کے لئے دو مہینے کی مہلت دے دی ہے۔ آپ کے لئے تو صرف پندرہ دن کی مہلت کافی ہے لیکن اس لحاظ سے کہ آپ بار بار جھگڑا نہ کریں دو مہینے کی مہلت آپ کو بھی دیتا ہوں ایک مہینہ تالیف کے لئے اور ایک مہینہ شائع کرنے اور چھاپنے کے لئے اگر دو مہینے میں چھپ کر شائع نہ ہو جائے تو معاہدہ فسخ ہو گا۔ اور الزام گریز آپ پر رہے گا مگر چاہئے کہ یہ کاغذ جانبین اور گواہوں کے دستخط سے کسی اخبار میں شائع ہو جائے۔ شرائط جس کی پابندی آپ پر لازم ہوں گی وہ یہ ہیں۔

(1)دونوں حصے نورالحق جس قدر اجزا رکھتے ہیں اسی قدر اجزا آپ کی کتاب کے بھی ضرور ہوں گے۔

(2)جس قدر ہر دو حصے نورالحق میں اشعار ہیں۔ اسی قدر آپ کے رسالہ میں بھی اشعار چاہئیں۔ ہرگز اختیار نہیں ہو گا کہ اشعار اس سے کم ہوں۔

(3)جو قصیدہ نونیہ ہو اس کے مقابل پر نونیہ وعلیٰ ہذا القیاس۔

(4)ہر ایک بحر کے مقابل وہی بحر ہو اور جس طرح ہماری کتاب کا ہر ایک فقرہ فقرہ مقفّا ہو اور یا استعارات لطیفہ پر مشتمل ہوں یہ پابندی بھی آپ پر واجب ہو گی۔

(5)جہاں قصائد میں التزام علمی مضامین یا کسی امر کے دلائل بیان کرنے کا التزام ہے وہی التزام آپ کی طرف سے ہو گا اور جس طور کی سلسلہ بندی کہ نظم میں یا نثر میں میں نے بنایا ہوا ہے وہی سلسلہ بندی انجام تک آپ کے ذمہ ہو گی۔

(6)یہ ضروری ہو گا کہ آپ کا رسالہ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ کا مصداق نہ ہو۔ از قسم ہزل نہ ہو۔ بلکہ جیسا کہ ہمارا رسالہ مباحث علمی پر مبنی ہو۔ اگر کسی جگہ آپ کو کسی بیان میں مجھ سے اتفاق ہو تو اتفاق ظاہر کریے اور معارف جدیدہ بیان کریے۔ اور اگر کسی جگہ اختلاف ہو تو ہمارے مباحث علمیہ کو رد کر کے دکھلاؤ اور جیسے میرے اشعار ایک مضمون کے بیان کرنے میں مسلسل چلے جاتے ہیں یہی شرط ان میں ملحوظ رہے۔ بایں ہمہ اشعار، اشعار کی تعداد سے مطابق ہوں اور شعر شعر کی تعداد سے۔ مثلاً اگر میرے رسالہ میں دو سو شعر پایا جائے تو آپ کے رسالہ میں بھی دو سو شعر ہونا ضروری ہو گا۔

(7)آپ کا اختیار نہیں ہو گا کہ کوئی مضمون چھیڑیں بلکہ آپ کا رسالہ میرے رسالہ کی تصدیق یا تکذیب پر مشتمل ہو گا۔

(8)آپ کے لئے کسی اُس تاریخ سے دو مہینے کی مہلت ہو گی کہ جب فریقین کی تحریر کسی اخبار کے ذریعہ شائع ہو کر آپ کو رسالہ نور الحق مل جائے۔

(9)اگر آپ دو ماہ میں بالمقابل رسالہ شائع نہ کر سکیں تو آپ کو یہ اقرار کرنا ہو گا کہ میں جس مقابلہ کے لئے اٹھا تھا اس میں میں نے شکست کھائی۔

(10)بالمقابل دونوں رسالوں کے نقص اور کمال دیکھنے کے لئے منصف مقرر ہوں گے اور کم سے کم ان میں ایک آدمی ایسا ادیب ہو گا جو اہل زبان اور عرب کے کسی حصہ کا رہنے والا ہو۔ منصف یہ بھی دیکھیں گے کہ شوکت کلام اور متانت کلام اور پر برکت اور موثر از مضمون اور حق اور راستی کی پابندی سے اور پھر بلاغت سے بھرا ہوا کس کا مضمون ہے۔ اگر میری شرائط میں سے کوئی شرط بالمقابل رسالہ لکھنے کے لئے ہو جو میرے رسالہ میں نہ ہو تو آپ وہ ساقط کرا سکتے ہیں۔

یہ شرائط جن کی پابندی آپ پر لازم ہو گی اگر آپ کو منظور ہوں تو ایک پانچ دن کے لئے قادیان میں آ جائیں آپ کے آنے جانے کا خرچ میرے ذمے ہو گا اگر چاہو تو پہلے بھیج دوں۔ اس جگہ کاغذ معاہدہ آپ کے رو برو لکھا جائے گا اور پھر فریقین کے دستخط اور گواہوں کی شہادت سے شائع کرا دیا جاوے گا اور اگر آپ کسی شرط کی برداشت نہ کر سکیں اور وجہ معقول بتا دیں تو اس شرط میں کسی قدر ترمیم کر دی جائے گی پھر لوگ دیکھ لیں گے کہ خدا تعالیٰ غالب آتا ہے یا آپ غالب آتے ہیں میں اپنے آپ کو کچھ لکھا پڑھا نہیں سمجھتا جو کچھ ہو گا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو گا اگر میں اس بات میں جھوٹا ہو ں کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور خدا تعالیٰ میرا مولیٰ ہے تو خدا تعالیٰ مجھ کو ذلیل کرے گا اور میری رسوائی ظاہر کر دے گا لیکن اگر ایسا نہیں تو وہ رسوا ہو گا جو میرے مقابل پر آئے گا۔ کیونکہ میں کچھ نہیں یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے یہ کہاں انسان سے ہو سکتا ہے کہ باوجود صدہا مشغولیوں اور دائمی ضعف اور علالت کےاس کی تصنیف ایسی عجلت سے ہو۔

یہ بھی یاد رہے کہ میں نے افسوس کے ساتھ اس مقابلہ کو منظور کیا ہے۔ میں اس وقت عیسائیوں کی طرف متوجہ ہوں ایک وہ گروہ ہے جو صدق دل سے اپنے وطن چھوڑ کر میرے پاس آبیٹھے ہیں اور خدمت میں مشغول ہیں کوئی کسی تالیف میں مصرو ف ہے کو ئی خطوط نویسی میں مدد دیتا ہے اور کسی نے انگریزی خط لکھنے کا ذمہ لیا ہے اور کوئی عربوں کے خطوط کا عربی میں جواب دیتا ہے اور چند روز زندگی کو ہیچ سمجھ کر اللہ جل شانہ کی راہ میں فنا ہو رہے ہیں اس جگہ رہ کر غریبوں کی طرح نان ونمک پر گذارہ کر رہے ہیں۔ میں دیکھتاہوں کہ بعض انہیں میں بہت روتے ہیں بات بات میں انکےآنسو جاری دیکھتا ہوں۔ فاضل ہیں عالم ہیں ادیب ہیں خاکسار ہیں لیکن افسوس کہ آپ کو بے بنیاد عمر کا فکر نہیں کیا اچھا ہوتا کہ محبت کے ساتھ دینی فکر میں مشغول ہوتے اور مددگاروں میں شامل ہو جاتے اور مجھے راحت پہنچاتے اور اس کا اجر راحت دیکھتے مثلاً رسالہ نور الحق لاہور میں چھپ رہا ہے اور یہ کسی خود نمائی کی غرض سے نہیں بلکہ محض ان پلید عیسائیوں کا منہ بند کرنے کے لئے ایک ہتھیار ہے جو قرآن شریف پر ٹھٹھا اور اس پاک کلام کی فصاحت پر حملہ کر رہے ہیں مگر میں قادیان میں ہوں اور لاہور میں چھپتا ہے۔ لاہور میں کوئی آدمی ایسا نہیں کہ پروف کو بھی دیکھ سکے اور للہ محنت کرے اور اس میں غور کرے اور کوئی غلطی ہو تو درست کر سکے۔ آخر پروف میرے پاس آتا ہے اور بیمار طبع ہوں کوئی محنت کا کام مجھ سے نہیں ہو سکتا ادنیٰ توجہ سے درد سر شروع ہو جاتا ہے پھر غلطی رہنے کا احتمال ہوتا ہے۔ بعض ادیب دوست ہیں وہ بھی خدمات سے خالی نہیں اور ہمیشہ پاس نہیں رہ سکتے ایک عرب صاحب محض خط لکھنے کے لئے مقرر ہیں وہ دوسرا کام نہیں کر سکتے ان باتوں کے خیال سے دل بہت دکھتا ہے۔ مجھے اس کی کیا غرض کہ میں نفسانی دعویٰ کروں اور اگر کوئی اس عزت کو لینے والا ہو یہ سب عزت اس کو دے دوں مگر دینی غمخوار کم ہیں۔ اب نور الحق کے لئے پانچ ہزار روپے کا اشتہار شائع کر چکا ہوں اور چودہ سو اشتہار اردو میں شائع کر چکا ہوں جن میں سے ایک آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں اور اب چودہ سو انگریزی میں چھپ رہا ہے یہ تو میں نے اسلامی غیرت سے اپنی اس علیل طبیعت میں کیا اور نہایت سرسری نگاہ سے صر ف چند روز میں اس کو تمام کیا اور میرے دوست جانتے ہیں کہ علاوہ اس کے کہ سو سو شعر گھنٹہ میں طیار ہوئے پھر اگر ایسے اسباب کے ساتھ احتمال غلطی نہ ہو تو غلطی کے لئے اور کون سے اسباب ہوا کرتے ہیں۔ بعض وقت لکھتا ہوں تو آنکھوں کے آگے اندھیرا اتر جاتا ہے اوریقین ہو جاتاہے کہ غشی آ گئی مگر ایسا قائمقام نہیں پاتا جو بکلی مہیا کاموں کا متکفل ہو جائے۔ اگر آپ محبت کی وجہ سے یہ خدمت اختیار کرتے جو رسالہ نور الحق کو ہی تدبر سے دیکھتے اور للہ خدمت کرتے اور غلطی پاتے تو اس کو درست کر دیتے اور عیسائی گروہ پر رعب ڈالنے کے لئے کوئی تقریظ لکھتے۔

نشست کا سامان نہیں اور جلدی سے یہ چند سطر کھینچ دیں ہیں اور یہ خط میں نے ایک ساعۃ فرصت نکال کر لکھا ہےمگر ہمیشہ مجھے اپنے ہاتھ سے لکھنے کی فرصت نہیں اور میں نے کوئی کلمہ سخت آپکو نہیں لکھا اور نہ کچھ رنج کیا اور نہ رنج کا مقام تھا۔ اکثر لوگ کافر دجال بے ایمان کہتے ہیں بڑی بڑی گالیاں نکالتے ہیں ان کی کچھ پروا نہیں کی جاتی۔ معاملہ خدا تعالیٰ سے ہے۔ ‘‘

(مکتوب بنام مولوی اصغر علی صاحب پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور مورخہ 3؍اپریل 1894ء۔ مطبوعہ ہفت روزہ الحکم جلد7نمبر38مورخہ17؍ اکتوبر 1903ء صفحہ5تا7)

وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمدُ لِلّٰہِ رَِبِّ العَالَمِیْنَ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button