خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍ فروری 2021ء

20؍فروری یوم مصلح موعود کے حوالہ سے ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘ کی ہلکی سی جھلک

یہ حضرت مصلح موعودؓ کی 18 سال سے35 سال کی عمرکی چندجھلکیاں ہیں جن کا سوواں حصّہ بھی اس وقت میں بیان نہیں ہوسکا۔ خطبات اور تفاسیراس کے علاوہ ہیں جن میں عُلوم ومعارف کی نہریں بہ رہی ہیں۔ اس خزانے کو جو کافی حد تک چَھپ چکا ہے افرادِ جماعت کو پڑھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مصلح موعودؓ کے درجات بلند فرماتارہے

پاکستان میں احمدیوں کی شدید مخالفت کے پیش نظر خصوصی دعاؤں کی مکرر تحریک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍ فروری 2021ء بمطابق 19؍تبلیغ1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے مورخہ 19؍ فروری 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم مبارزمحمود امینی صاحب کے حصے میں آئی۔

تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

20؍فروری کا دن جماعت میں پیشگوئی مصلح موعود کےحوالےسےیادرکھاجاتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کےموعود بیٹے کے متعلق اس لمبی پیشگوئی میں مختلف خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔ آج مَیں اس میں سے ایک پہلو یعنی’وہ عُلومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘ کےمتعلق حضرت مصلح موعودؓ کی اپنی تحریرات و تقاریر کے حوالے سے کچھ کہوں گا۔ حضورؓ کی بنیادی تعلیم تو صرف پرائمری تک تھی لیکن اس کےباوجود خداتعالیٰ نے آپؓ کو جو عُلومِ ظاہری و باطنی عطا کیے تھےوہ اتنے زیادہ ہیں کہ اُن کاصرف تعارف پیش کرنا ہی ایک سلسلہ خطبات کا متقاضی ہے۔پس حضورؓکے عِلْم و معرفت اور تبحرِ علمی کی ہلکی سی جھلک دکھانے کی خاطر مَیں نے سوچا کہ آپؓ کے مضامین وتقاریر کا ایک مختصر تعارف یااُن میں سےبعض نکات خلاصةً پیش کروں۔آپؓ کے یہ مضامین توحیدِ باری تعالیٰ اور ملائکہ کی حقیقت جیسےروحانی اُمور سے لےکر مسلمانوں کی مذہبی اورسیاسی رہ نمائی،اقتصادی و مالی نظام اور تاریخِ اسلام تک پھیلے ہوئے ہیں۔سولہ سترہ سال کا نوجوان، جس کی باقاعدہ بنیادی تعلیم بھی کچھ نہیں وہ ایسے ایسے نکات بیان کرتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ اس وقت مَیں آپؓ کی اسی عمر سے لےکر چونتیس پینتیس برس کی عمر تک کے مضامین کی جھلک پیش کرتا ہوں۔

مارچ 1907ءمیں 18 برس کی عمر میں حضرت مصلح موعودؓ نے ایک عظیم الشان مضمون بعنوان ’محبتِ الٰہی‘ تحریر فرمایا۔ اس مضمون میں آپؓ فرماتے ہیں کہ انسان کی پیدائش کی غرض ہی یہ ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی محبت میں سرشار ہو اور دائمی زندگی بخشنے والے اس سمندر میں غوطہ زن رہے۔ محبت کے نتیجے میں انسان گناہوں سے بچتا اور درجات میں ترقی کرتا ہے۔پس ضروری ہے کہ ہم خداتعالیٰ سے تعلق بڑھائیں اور اپنے دل میں اخلاص و محبت پیدا کریں اور ایک سورج کی طرح ہوجائیں جس سے دنیا روشنی پکڑتی ہو۔ اس مضمون میں آپؓ نے خدا کے بارے میں یہودیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کے عقائد بیان کیے اور فرمایا کہ اسلام کے زندہ خدا کا ثبوت یہ ہے کہ وہ وحی و الہام سے انسان کی آج بھی رہ نمائی کرتا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے28؍دسمبر1908ء کے جلسے میں ’ہم کس طرح کامیاب ہوسکتے ہیں‘ کے موضوع پرایک بڑا پُرمغز خطاب فرمایا۔ آپؓ نے سورہ توبہ کی آیات 112،111 کی تلاوت کی اور فرمایا کہ ہر انسان کو سوچنا چاہیے کہ خدانےمجھے کیوں پیداکیا، اور مرنے کے بعد کیا ہوگا۔ انسان اِس چند روزہ زندگی کےلیے کوشش کرتاہےتو کیا اُس لامحدود زندگی کےلیے کوشش کی ضرورت نہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ایسا سودا کرے جس میں نفع ہو اور وہ مال جمع کرے جو واقعی اس کے کام آئے۔ اس تجارت کے لیے بعض شرائط ہیں مثلاً یہ کہ انسان ہر وقت اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہے اور خداتعالیٰ کی حمدوثنا کرتے ہوئے اس سے اپنا تعلق مضبوط رکھے۔ امر بالمعروف کرے اور حدودِ الہٰیہ کی حفاظت کرے۔

1916ء کے جلسے میں آپؓ نے ’ذکرِ الٰہی‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے نہایت اچھوتے انداز میں ذکرِ الٰہی کی ضرورت،اقسام اور فوائد پر روشنی ڈالی۔ ذکر کی چار اقسام بیان فرمائیں:یعنی نماز، قرآن کریم، صفات باری تعالیٰ کا اقرار اور تنہائی میں ان پر غور کرتے ہوئے لوگوں میں ان کااظہار۔ ذکرِالٰہی کو مقبو ل بنانے کےلیے اس کے خاص اوقات، نماز میں توجہ قائم رکھنے کے بائیس طریق اور مقامِ محمود تک پہنچانے والے ذکر یعنی نمازِ تہجد کے التزام کے ایک درجن سے زائد طریقے بتائے۔

9؍ اکتوبر 1917ء کو پٹیالےمیں آپؓ نے ’ربوبیتِ باری تعالیٰ کائنات کی ہرچیز پر محیط ہے‘کےموضوع پر خطاب میں ہستی باری تعالیٰ،اسلام،قرآن کریم اور حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کو صفتِ ربوبیت کے تعلق سے ثابت کیا۔ فرمایا کہ ہر دور میں اللہ تعالیٰ کے نبی آئے جو روحانی ربوبیت کا سامان کرتے رہے اور اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفتِ ربوبیت کےتحت حضرت مرزا صاحبؑ کو بھیجا۔ جنہوں نے خدا سے ہم کلامی اور اصلاحِ خلق کا دعویٰ فرمایا۔ پس اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جوروحانی ربوبیت رکھنے والےزندہ خدا کو پیش کرتا ہے۔

پھر 1919ء میں ’اسلام میں اختلافات کا آغاز‘ کے موضوع پر اسلامیہ کالج لاہور میں ایک طویل لیکچر ارشاد فرمایا۔اس اجلاس کی صدارت پروفیسر سیّد عبدالقادر صاحب نے کی جنہوں نے لیکچر کے بعد تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ بہت تھوڑے مؤرخ ہیں جو حضرت عثمانؓ کےعہدکےاختلافات کی تہ تک پہنچ سکے ہیں۔ حضرت مرزا صاحب نے نہایت واضح اور مسلسل پیرائےمیں ان واقعات کو بیان فرمایا۔ میرا خیال ہے کہ ایسا مدلل مضمون اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے احباب کی نظرسے پہلےکبھی نہیں گزراہوگا۔

1919ء کے جلسہ سالانہ پر آپؓ نے ’تقدیرِ الٰہی‘ جیسے مشکل اور دقیق موضوع پربڑاعارفانہ خطاب فرمایا۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے اس خطاب کے متعلق فرمایا کہ اس موضوع پرایک ایسے جلسۂ عام میں خطاب فرماناجہاں تعلیم یافتہ اور غیرتعلیم یافتہ، ذہین اور بلید ہر قسم کےلوگ جمع تھے کوئی معمولی کام نہیں تھا۔ یہ تقریر کیا تھی علمِ کلام کا شاہکار تھا۔

جنگِ عظیم اول کےبعد اتحادی ممالک نے سلطنتِ ترکی کے حصّےبخرے کردیے تھے۔ اس تناظرمیں جون1920ءمیں الہٰ آباد کےمقام پر خلافت کمیٹی کے زیرِ اہتمام ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔ حضورؓ نے محض ایک دن کے اندر ’معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویّہ‘ کے عنوان سے مضمون قلم بند فرمایا جسے راتوں رات چھپواکر بھجوایا گیا۔ اس مضمون میں حضورؓ نے نہایت مدلل انداز میں واضح فرمایا کہ ہجرت،جہادِ عام اور گورنمنٹ سے قطع تعلق کی تجاویز مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی ہیں۔آپؓ نے مسلمانوں کی ترقی اوربہبودکےلیے بلاتاخیر عالَمگیر لجنہ اسلامیہ یعنی مؤتمر عالَمِ اسلامی کے قیام کی تجویز دی۔ اس دَور میں کہ جب انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولتیں نہ تھیں آپؓ کا یہ غیرمعمولی تجزیہ اللہ تعالیٰ کی خاص تائید کی نشان دہی کرتا ہے۔

28؍ دسمبر 1920ء کو جلسہ سالانہ کے موقعے پر ’ملائکة اللہ‘کےعنوان پر نہایت آسان اور بصیرت افروز خطاب کرتے ہوئے ملائکہ کی حقیقت و ضرورت،اقسام،فرائض، خدمات اور ملائکہ کےوجودپر روشنی ڈالی۔ فرشتوں سے تعلق پیدا کرنے کے یہ آٹھ ذرائع بیان فرمائے: 1۔ جس انسان پر جبرئیل نازل ہواس کے پاس بیٹھنا۔2۔ درود پڑھنا۔ 3۔عفوودرگزر اختیار کرتے ہوئے بدظنی سے بچنا۔4۔ تسبیح و تحمید۔5۔ بغورتلاوتِ قرآن۔6۔ جو کتابیں ایسے شخص نے لکھی ہوں جس پر ملائکہ نازل ہوتے ہوں ان کو پڑھنا۔ 7۔جس مقام پر ملائکہ کا نزول ہوا ہو وہاں جانا۔ 8۔ خلیفہ کے ساتھ مضبوط تعلق۔

5؍ مارچ 1921ءکو حضورؓ نے لاہور میں کالج کےبعض طلباء کےسوالوں کے جواب میں ’ضرورتِ مذہب‘ پر ایک لیکچر دیا۔ طلباءنے حضورؓسے یہ تین سوالات پوچھے تھے۔ 1۔مذہب کی ضرورت نہیں، ہاں ظاہری فوائد کےلیے اگر لوگ اسے اختیار کرلیں تو برا نہیں۔ 2۔ دیگر مذاہب میں بھی پیشگوئیاں کرنے والے بعض لوگ موجود ہیں، پھر اسلام کی کیا خصوصیت رہی۔ 3۔ حضرت مرزا صاحب کےسلسلےکا پھیلنا ان کی صداقت کا ثبوت کیسےہوا جبکہ رُوس میں لینن کو بھی بڑی کامیابی ہوئی ہے۔

حضورؓ نے ان سوالوں کے جواب میں فرمایا کہ مذہب کی ضرورت کا سوال خداتعالیٰ کی ہستی سے وابستہ ہے اور اس کی ہستی کا ثبوت اس کا اپنےبندوں سےکلام کرنا ہے۔ نیز اس دَور میں حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئیاں پوری ہوکرخداتعالیٰ کی ہستی کا ثبوت فراہم کر رہی ہیں۔دوسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ انبیاء کی پیشگوئیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہیں جن میں شوکت اور حاکمانہ اقتدار ہوتا ہےجبکہ دوسرے لوگ اپنے عِلم کی بِنا پر پیشگوئیاں کرتے ہیں۔ تیسرے سوال کا جواب یہ ارشاد فرمایا کہ آپؑ کے سلسلےکو جو ترقی حاصل ہوئی ہے اس کےمتعلق حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ پہلے سے موجود تھا۔ پس یہ کہنا غلط ہوگا کہ حضرت مرزا صاحب کے سلسلے کی ترقی اُن کی صداقت کی علامت نہیں۔

پھر ’ہستی باری تعالیٰ‘ پر 1921ءمیں ایک لمبی تقریر فرمائی جو 190 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس تقریر میں ہستی باری تعالیٰ پر آٹھ دلائل اور ان پر پیدا ہونے والے اعتراضات کےجواب ارشاد فرمائے۔

1921ء میں ہی شہزادہ ویلز کی ہندوستان آمد کےموقعے پر ایک تصنیف ’تحفہ شہزادہ ویلز‘ کے عنوان سے تحریر فرمائی۔ اس مختصر عالمانہ تصنیف میں حکومتِ وقت سے وفاداری کےاظہارکےساتھ،حضرت مسیح موعودؑ کے مختصر حالات،سلسلہ احمدیہ کی تعلیم،تاریخ اور اس کے قیام کی غرض بیان فرمائی گئی ہے۔ شہزادہ ویلز جو بعد میں ایڈورڈ ہشتم بنے انہوں نے اس تحفے کو بڑی قدر اور احترام کی نگاہ سے دیکھا اور اس کا مکمل طورپرمطالعہ کیا۔

اسی طرح 1924ءمیں ویمبلےکانفرنس کے لیے ’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘ کےموضوع پر ایک ضخیم کتاب تصنیف فرمائی۔ جس کا خلاصہ حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب نے اس کانفرنس میں پڑھ کر سنایا۔یہ لیکچر ایسا اچھوتا اور منفرد تھا کہ عیسائیت کے بڑے بڑے لیڈر وں نے بھی اسے سراہا۔

پس یہ 18سال سے35سال کی عمرکی چندجھلکیاں ہیں جن کا سوواں حصّہ بھی اس وقت میں بیان نہیں ہوسکا۔ خطبات اور تفاسیراس کے علاوہ ہیں جن میں عُلوم ومعارف کی نہریں بہ رہی ہیں۔ اس خزانے کو جو کافی حد تک چَھپ چکا ہے افرادِ جماعت کو پڑھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مصلح موعودؓ کے درجات بلند فرماتارہے۔

پاکستان کے حالات کےلیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ وہاں کےلوگوں کو امن و چین اور سکون کی زندگی عطافرمائے اور مخالفین کے حملوں اور مکروں کو اپنے فضل سے ملیامیٹ کردے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button