متفرق مضامین

تبلیغ احمدیت کے لیے وقفِ زندگی کی تحریکات

(درِ ثمین احمد۔ جرمنی)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اولوالعزمی کا منہ بولتا ثبوت

20؍فروری کا دن جماعت احمدیہ میں پیشگوئی مصلح موعود کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے ایک بیٹے کی پیدائش کی خبر دی گئی تھی جو دین کا خادم ہو گا۔ اور بے شمار خصوصیات کا حامل ہو گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس پیشگوئی کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ

’’یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشانِ آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جلّ شانہٗ نے ہمارے نبی کریم رؤوف و رحیم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے اور در حقیقت یہ نشان ایک مردہ کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ اعلیٰ و اَولیٰ و اکمل و افضل و اَتم ہے کیونکہ مُردہ کے زندہ کرنے کی حقیقت یہی ہے کہ جناب الٰہی میں دعا کر کے ایک روح واپس منگوایا جاوے… جس کے ثبوت میں معترضین کو بہت سی کلام ہے۔ … مگر اس جگہ بفضلہ تعالیٰ و احسانہٖ و بہ برکت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خداوند کریم نے اس عاجز کی دعا کو قبول کر کے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔ سو اگرچہ بظاہر یہ نشان احیائے موتیٰ کے برابر معلوم ہوتا ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ نشان مُردوں کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ بہتر ہے۔ مُردہ کی بھی روح ہی دعا سے واپس آتی ہے اور اس جگہ بھی دعا سے ایک روح ہی منگائی گئی ہے مگر اُن روحوں اور اِس روح میں لاکھوں کوسوں کا فرق ہے۔ ‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 114-115۔ اشتہار 22؍مارچ 1886ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےمتعدد الہامات و کشوف مثلاً ’’مَیں تجھے زمین کے کناروں تک عزّت کے ساتھ شہرت دوں گا‘‘، ’’یَدْعُوْنَ لَکَ اَبْدَالُ الشَّامِ وَ عِبَادُ اللّٰہ مِنَ العَرَبِ‘‘ اور لندن شہر میں سفید رنگ کے پرندے پکڑنا، وغیرہ اس بات کا پختہ ثبوت ہیں کہ آپ علیہ السلام کے اس کام کو کس مبارک ہستی نے پایا تکمیل تک پہنچانا تھا اسی غرض سے ابتدا ہی سے آپؓ کی تربیت اس رنگ میں ہوئی کہ آپؓ اس کام کو بخوبی سر انجام دے سکیں۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے وقف کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:

’’اسلام کی حالت اِس وقت پکارتی ہے کہ اس کے لیے ساری زندگی وقف کی جائے اور بہت سے لوگ ہوں جو زندگی وقف کریں یہ ایک ایسا وقت ہے کہ اس وقت تھوڑی خدمت بعد میں بڑی بڑی خدمتوں سے بہت افضل ہو گی۔ اسلام مٹ رہا ہے، پس جو لوگ اِس وقت خدمت کریں گے ان کی خدمت زیادہ قابلِ قدر ہو گی۔ ‘‘(الفضل یکم اکتوبر 1918ء)

ایک اور موقع پر آپؓ نے فرمایا:

’’یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ جب اسلام کو سپاہیوں کی ضرورت ہو تو جو شخص طاقت اور اہلیت رکھنے کے باوجود آگے نہیں آتا وہ گنہگار ہے۔ اس لیے جو نوجوان اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہوں اور اس ذمہ واری کو نباہ سکتے ہوں وہ پیش کریں۔ ‘‘

(مطبوعہ الفضل 19؍اکتوبر1943ء)

منصب خلافت پر فائز ہونے والے اس عظیم مصلحِ موعودؓ نے بھی اپنی خلافت کے آغاز میں اعلان فرمایا اور اشتہار جاری کروایاکہ کون ہے جو خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت میں میرا معاون و مدد گار ہے؟یہ ضرورت تھی ان فدائی اور جاںنثاروں کی، دنیا بھر میں تبلیغ کے ذریعہ اسلام کا پیغام لے کر جانے والوں کی، صحراؤں اور جنگلوں اور بیابانوں میں بے خوف و خطر اللہ اکبر کا نعرہ لگانے والوںکی اورانگاروں پر لوٹ کر بھی پیغمبر اسلامﷺ کی ناموس کی حفاظت کرنے والوں کی ضرورت تھی۔ آپؓ کے اس اعلان پر سینکڑوں نے لبیک کہا۔ دین کی خاطرزندگی وقف کی تحریک فرماتے ہوئے یہ بھی باور کرا دیا کہ جس نے اس خدمت کی خاطر خود کو پیش کرنا ہے، وہ یاد رکھے کہ اسے بھوک، افلاس، تنگ دستی، مخالفت کی آگ، بےسروسامانی کے صحرا سے گزرکر یہ کام کرنا پڑے گا۔

(ماخوذ ازشکریہ اور اعلان ضروری۔ انوار العلوم جلد 2 )

مگر اس عظیم ہستی نےاس ولولہ کے تقاضے ہی نہیں کیے بلکہ یہ سب اپنے عملی نمونے سے کر کے بھی دکھایا۔ آپؓ نے فرمایا:

’’میرے تیرہ لڑکے ہیں اور تیرہ کے تیرہ دین کے لیے وقف ہیں ‘‘(تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 50)

عسر ہو یسر ہو تنگی ہو کہ آسائش ہو

کچھ بھی ہو بند مگر دعوتِ اسلام نہ ہو

تبلیغ کے کام کو وسعت دینے کا جذبہ بھی شروع خلافت سے ہی حضورؓ کے مد نظر رہا۔ اپریل 1914ء میں ہی حضورؓ نے مبلغین کی کلاسوں کا اجرا فرما دیا۔ (الفضل 27؍ اپریل 1914ء صفحہ 1) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک الہامات کو جلد از جلد پورا کرنے کے لیے آپؓ نے جماعت کے محدود وسائل کے باوجود انگلستان، ماریشس، امریکہ، افریقہ، انڈونیشیا، شام، فلسطین اور بخارا وغیرہ میں مبلغین بھجوائے، بعد ازاں 1934ء میں تحریک جدید کے تحت اس بیرونی تبلیغ میں اور بھی وسعت آگئی اورنہ صرف احمدیت کا چرچا زمین کے کناروں تک ہونے لگا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان دور دراز علاقوں میں احمدیت کی مضبوط شاخیں قائم فرما دیں۔ تبلیغ احمدیت کے یہ عظیم الشان کارنامے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اولوالعزمی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

پسرِ موعود کی پیشگوئی میں یہ بات بھی درج ہے کہ ’’وہ جلد جلد بڑھے گا‘‘۔ اس طرح رؤیا میں آپ نے دیکھا کہ میں بعض غیر ملکوں کی طرف گیا ہوں اور پھر میں نے وہاں جاکے اپنے کام کو ختم نہیں کر دیا بلکہ میں اَور آگے جانے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ میں نے رؤیا میں کہا کہ اے عبد الشکور اب میں آگے جاؤں گا اور جب سفر سے واپس آؤں گا تو دیکھوں گا کہ تو نے توحید کو قائم کر دیا ہے، شرک کو مٹا دیا ہے اور اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کو دلوں میں راسخ کر دیاہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو اللہ تعالیٰ نے کلام نازل فرمایا اس میں اسی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ چنانچہ لکھا ہے وہ ’’زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا ‘‘یہ الفاظ بھی اس کے دور دور جانے تک اور چلتے چلے جانے کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ ( خطبات محمود جلد 25صفحہ 70) یہ پیشگوئی بھی یقیناً حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بڑی شان سے پوری ہوئی ہے۔

اکناف عالم میں تبلیغ اسلام کا کام تو خدائی منشا ء کے ماتحت ہوکے ہی رہنا تھامگر اس عظیم الشان تحریک تبلیغ اسلام کےبڑے محرکات میں دیگر عوامل کے علاوہ ایک فتنۂ احرار تھا۔ اس کا کچھ پس منظر پیش کرنا چاہوں گی۔

تاریخ احمدیت میں 1934ء کا سال جماعت احمدیہ کے لیے بہت ہی مصائب اور مشکلات لے کر آیا جب مجلس احرار نے جماعت احمدیہ کے خلاف ایک نیا محاذ کھولا اور فتنہ و فساد، سب وشتم کے لائحہ عمل کے ساتھ جماعت احمدیہ کو مٹانے کا خواب لے کر قادیان میں داخل ہوئے، یہ دن احمدیوں کے لیے نہایت ہی سخت اور پُر خطر تھے۔ جماعت احرار جس کا دعویٰ تھا کہ احمدیت کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔ کبھی قادیا ن کا نام و نشان مٹانے کی باتیں کرتے تھے۔ اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں کرتے تھے۔ بہشتی مقبرہ اور دوسرے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کے پروگرام تھے اور حکومت بھی بجائے تعاون کے مخالفین کی زیادہ حمایتی نظر آتی تھی۔ اس پر آشوب وقت میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت کو تحریک کی کہ رقم اکٹھی کریں۔ اس سوچ کے ساتھ کہ مخالفین کی ریشہ دوانیاں، یہ شور شرابہ اس لیے ہے کہ تبلیغ کا جوحق ہمیں ادا کرنا چاہیے وہ ہم نے پوری طرح ادا نہیں کیا۔ احمدیت کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لیے جوکو شش ہونی چاہیے تھی وہ اس طرح نہیں کی گئی جو حق تھا۔ اس لیے آپؓ نے فرمایا کہ جماعت کو اب اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ اور احمدیت کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا چاہیے۔ یہ آپ کی اولوالعزم قیادت کا کارنامہ تھا جو جماعت احمدیہ کو اِس پُر خطر طوفان سے نہایت حفاظت سے نکال کر لے آیا، آپؓ کے بلند حوصلے کے سامنے دشمنوں کے حوصلے پست ہوگئے اور طوفان کی صورت اٹھنے والا یہ گروہِ احرار گرد کی مانند بالآخر بیٹھ گیا۔ اس کے مقابل پر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس اولوالعزم خلیفہ کو تحریک جدید کا انعام عطا کرتے ہوئے احمدیت کو ساری دنیا میں پھیلانے کے سامان کیے۔ آپؓ نے تحریک کی کہ احباب جماعت تین سال میں کم از کم 27ہزار روپیہ جمع کریں۔ یہ وہ حالات تھے جن میں احباب نے بھی اپنے امام کی آواز پہ لبیک کہتے ہوئے بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کیں۔ اور جو مطالبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا اس سے کوئی 15,14گنا زیادہ رقم اکٹھی کرکے خلیفۂ وقت کے قدموں میں لا کے رکھ دی اس لیے کہ دین کی مدد کرکے ہم بھی خدا کو راضی کریں۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے مالی و سائل کم ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کیا۔ زندگیاں وقف کیں جن کے ذریعہ سے ہندوستان سے باہر احمدیت کاپیغام زیادہ منظم ہوکر پھیلنا شروع ہوا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی جلسہ سالانہ 1927ء میں اپنی تقریر میں اس فتنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’ایسی باتیں الٰہی سلسلوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی سنت کے ماتحت لگی رہتی ہیں۔ ان سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ ہمارا فرض کام کرنا ہے۔ دشمنوں کی شرارتوں سے گھبرانا ہمارا کام نہیں۔ جو چیز خدا تعالیٰ کی ہو اُسے وہ خود غلبہ عطا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنی چیزوں کی آپ حفاظت کرتا ہے۔ اگر سلسلہ احمدیہ کسی بندہ کا سلسلہ ہوتا تواتنا کہاں چل سکتا تھا۔ یہ خدا کا ہی سلسلہ ہے وہی اُس کی پہلے حفاظت کرتا رہا ہے اور وہی آئندہ کرے گا۔ خدا تعالیٰ نے مجھے بتلایا ہے کہ شوکت و سلامتی، سعادت اور ترقی کا زمانہ عنقریب آنے والا ہے۔ کہنے والے نے کہا ہے، دیکھوں گا کس طرح جماعت ترقی کرتی ہے۔ مگرمَیں بھی دیکھوں گا کہ میرے خدا کی بات پوری ہوتی ہے یا اُس شخص کی۔ ‘‘

(تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ628-629)

مکرم عطاء المجیب راشد صاحب لکھتے ہیں:

آپؓ کے دَور میں 164؍واقف زندگی مجاہدین نے دیارِ غیر میں تبلیغ اسلام کا فریضہ سر انجام دیا۔ ان میں ایسے خوش نصیب بھی تھے جنہوں نے اس راہ میں قید و بند کی صعوبتیں مردانہ وار برداشت کیں اور تبلیغ کے جہاد سے غازی بن کر فائزالمرام واپس لوٹے۔ کچھ ایسے خوش قسمت بھی تھے جنہوں نے اسی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کر دیا اور دور دراز ملکوں کی سر زمین اوڑھ کر ہمیشہ کے لیے سو گئے۔ مجاہدین ِاسلام کو یہ توفیق اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عطا ہوئی لیکن قربانی کا یہ جذبہ پیدا کرنے میں حضرت مصلح موعودؓ نے ایک تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے غلبۂ اسلام کے لیے جن مستحکم بنیاد وں پر کام کا آغاز فرمایا حضرت مصلح موعودؓ نے اس مشن کو بڑی تیزی اور مستعدی سے آگے بڑھایا۔ ساری دنیا میں تبلیغی مراکز کا جال بچھا کر آپ نے اسلام کے حق میں ایک خوش آئندانقلاب برپا کر دیا۔ اسلام پر حملہ کرنے والے غیر مسلم منّاد نے راہ ِفرار اختیار کی۔ پے در پے ناکامیوں کے بعد بعض افریقن ممالک میں عیسائی مشنز اپنی تبلیغی مساعی بند کر نے پر مجبور ہو گئے۔ جماعت احمدیہ کی تبلیغی کوششوں سے تثلیث کدوں کی رونقیں ماند پڑنے لگیں۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف غیروں کو بھی ہے۔ اس عالمگیر روحانی انقلاب کے معماروں میں حضرت مصلح موعودؓ کا نامِ نامی کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اولوالعزمی کی یہ روح احباب جماعت میں بھی پیدا کی اور ہر میدان میں، ہر مشکل میں پختہ عزم اور بلند حوصلے کے ساتھ کام کرنے کا درس دیا۔ حضرت مولوی محمددین صاحب ایم اے مبلغ کی امریکہ روانگی کے وقت جو نصائح حضور نے تحریر فرما کر دیں، ان میں لکھا

’’…. مایوس انسان کبھی کامیاب نہیں ہوتا، وہی شخص کامیاب ہوتا ہے جو تلوار کے نیچے بھی اپنی آئندہ کوششوں پر غور کر رہا ہو…‘‘

(الفضل 25؍ جنوری 1923ء صفحہ 6کالم 3)

حضرت مصلح موعودؓنے پارٹیشن کے بعد قادیان کی جماعت کو جلسہ سالانہ پر یہ پیغام بھیجا تھا کہ آپ لوگوں کا کام ہے کہ تبلیغ کریں اور اس پہلو سے بہت محنت کی ضرورت ہے۔ اسی حوالے سے درویشان قادیان کو تھوڑی تعداد اور محدود وسائل رہ جانے کے باوجود اس اہم فریضے کی طرف آپؓ نے توجہ دلائی ہے اور حوصلہ دلانے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ابتدائی زمانے کا حوالہ دیا۔ آپ ان کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ

’’بیشک آپ کی تعداد قادیان میں تین سو تیرہ ہے لیکن آپ اس بات کو نہیں بھولے ہوں گے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قادیان میں خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے کام کو شروع فرمایا تھا تو اس وقت قادیان میں احمدیوں کی تعداد صرف دو تین تھی۔ تین سو آدمی یقینا ًتین سے زیادہ ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کے وقت قادیان کی آبادی گیارہ سو تھی۔ گیارہ سو اور تین کی نسبت 1/366کی ہوتی ہے۔ اگر اس وقت قادیان کی آبادی بارہ ہزار سمجھی جائے تو موجودہ احمدیہ آبادی کی نسبت باقی قادیان کے لوگوں سے 1/36ہوتی ہے گویا جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کام شروع کیا اس سے آپ کی طاقت دس گنا زیادہ ہے۔ پھر جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کام شروع کیا اس وقت قادیان سے باہر کوئی احمدیہ جماعت نہیں تھی۔ لیکن اب ہندوستان میں بھی بیسیوں جگہ پر احمدیہ جماعتیں قائم ہیں۔ ان جماعتوں کو بیدار کرنا، منظم کرنا، ایک نئے عزم کے ساتھ کھڑا کرنا اور اس ارادے کے ساتھ ان کی طاقتوں کو جمع کرنا کہ وہ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کو ہندوستان کے چاروں گوشوں میں پھیلا دیں۔ یہ آپ لوگوں کا ہی کام ہے۔ ‘‘

(سوانح فضل عمرؓ جلد 4صفحہ 388-389)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مورخہ 28؍ دسمبر 1945ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پرتقریر ارشاد فرمائی جس میں تحریک جدید کی اہمیت اور اس کے اغراض و مقاصد کو کھول کر بیان فرمایا۔ اور لاکھوں مبلغین تیار کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر چندہ تحریک جدید میں حصہ لینے کی تحریک فرمائی۔ اس تعلق میں آپ نے فرمایا کہ’’حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا میں صحیح طور پر تبلیغِ اسلام کرنے کے لیے ہمیں لاکھوں مبلغوں اور کروڑوں روپیہ کی ضرورت ہے۔ ‘‘

اشاعت السلام کے لیے آپ کی تڑپ اورجذبہ کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے فرماتے ہیں:

’’جب میں رات کو اپنے بستر پر لیٹتاہوں تو بسا اوقات سارے جہان میں تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے میں مختلف رنگوں میں اندازے لگاتا ہوں، کبھی کہتا ہوں ہمیں اتنے مبلغ چاہئیں اور کبھی کہتا ہوں اتنے مبلغوں سے کام نہیں بن سکتا اس سے بھی زیادہ مبلغ چاہئیں یہاں تک کہ بعض دفعہ بیس بیس لاکھ تک مبلغین کی تعداد پہنچا کر مَیں سو جایا کرتا ہوں۔ میرے اُس وقت کے خیالات کو اگر ریکارڈ کیا جائے تو شاید دنیا یہ خیال کرے کہ سب سے بڑا شیخ چلّی مَیں ہوں مگر مجھے اپنے ان خیالات اور اندازوں میں اتنامزہ آتا ہے کہ سارے دن کی کوفت دُور ہو جاتی ہے۔ مَیں کبھی سوچتا ہوں کہ پانچ ہزار مبلغ کافی ہوں گے، پھر کہتا ہوں پانچ ہزار سے کیا بن سکتا ہے دس ہزارکی ضرورت ہے، پھر کہتا ہوں دس ہزار بھی کچھ چیز نہیں، جاوا میں اتنے مبلغوں کی ضرورت ہے، سماٹرا میں اتنے مبلغوں کی ضرورت ہے، چین اور جاپان میں اتنے مبلغوں کی ضرورت ہے، پھر میں ہر مُلک کی آبادی کا حساب لگاتا ہوں، اُن کے اخراجات کا اندازہ لگاتا ہوں اور پھر کہتا ہوں یہ مبلغ بھی تھوڑے ہیں اِس سے بھی زیادہ مبلغوں کی ضروت ہے۔ یہاں تک کہ بیس بیس لاکھ تک مبلغوں کی تعداد پہنچ جاتی ہے۔ اپنے اِن مزے کی گھڑیوں میں مَیں نے بیس بیس لاکھ مبلغ تجویز کیا ہے۔ دنیا کے نزدیک میرے یہ خیالات ایک واہمہ سے بڑھ کر کوئی حقیقت نہیں رکھتے مگر اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جو چیز ایک دفعہ پیدا ہو جائے وہ مرتی نہیں جب تک اپنے مقصد کو پورا نہ کرے…میں جانتا ہوں کہ میرے اِن خیالات کا خداتعالیٰ کی پیدا کردہ فضامیں ریکارڈ ہوتا چلا جارہا ہے اور وہ دن دُور نہیں جب اللہ تعالیٰ میرے اِن خیالات کو عملی رنگ میں پورا کرنا شروع کردے گا۔ آج نہیں تو آج سے ساٹھ یا سَو سال کے بعد اگر خدا تعالیٰ کا کوئی بندہ ایسا ہوا جو میرے اِن ریکارڈوں کو پڑھ سکا اور اُسے توفیق ہوئی تو وہ ایک لاکھ مبلغ تیار کردے گا، پھر اللہ تعالیٰ کسی اَور بندے کو کھڑا کر دے گا جو مبلغوں کو دو لاکھ تک پہنچا دے گا، پھر کوئی اور بندہ کھڑا ہو جائے گا جو میرے اس ریکارڈ کودیکھ کر مبلغوں کو تین لاکھ تک پہنچا دے گا اس طرح قدم بقدم اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی لے آئے گا جب ساری دنیا میں ہمارے بیس لاکھ مبلغ کام کررہے ہوں گے۔ ‘‘

(تحریک جدید کی اہمیت اور اِس کے اغراض ومقاصد، انوارالعلوم جلد 18صفحہ 259تا260)

حضرت مصلح موعودؓ کی سیرت و سوانح واقفین زندگی کے لیے ایک عظیم نمونہ ہے۔ آپؓ نے مبلغین سلسلہ کو متعدد مواقع پر نہایت مفید، بنیادی اور زریں ہدایات و نصائح سے نوازا۔ علم و حکمت پر مبنی ان عظیم ہدایات اور واقعات میں سے چند پیش خدمت ہیں۔

اپنا ذاتی نمونہ پیش کرتے ہوئے آپؓ بیان کرتے ہیں:

’’میری کئی راتیں ایسی گزری ہیں کہ میں نے رات کو عشاء کے بعد کام شروع کیا اور صبح کی اذان ہوگئی۔ تم یہ کیوں نہیں کرسکتے۔ اب بھی میرا یہ حال ہےکہ میری اس قدر عمر ہوگئی ہے۔ چلنے پھرنے سے محروم ہوں، نماز کے لیے مسجد میں بھی نہیں جاسکتا، لیکن چارپائی پر لیٹ کر بھی میں گھنٹوں کام کرتا ہوں۔ پچھلے دنوں جب فسادات ہوئے میں ان دنوں کمزور بھی تھا اور بیمار بھی لیکن پھر بھی رات کے دو دو تین تین بجے تک روزانہ کام کیا کرتا تھا۔ ‘‘

(سوانح فضل عمر جلد پنجم صفحہ263)

پھر ایک جگہ احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

’’ہماری جماعت کو یہ امر بھی کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے یہ مقدر کر رکھا ہے کہ ہم اسلام کو دنیا کے تمام مذاہب پر غالب کریں مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ساری دنیا میں اپنی آواز پہنچانے کے لئے دنیا کے تمام ممالک میں اپنے مبلغین پھیلانے کی کوشش کریں۔ میں ایک لمبے غورکے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگرہم صحیح طور پر تبلیغ کرنا چاہیں تو فی مرکز ہمیں کم از کم چھ مبلغ رکھنے چاہئیں۔ یہ تعداد اگرچہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اور ایک وسیع علاقہ میں چھ مبلغین کا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن پھر بھی اگر بیج کے طور پر ہم اپنی تبلیغ کو دنیا میں پھیلانا چاہیں تو اس سے کم میں ہمارا گزارہ نہیں ہو سکتا…ان چھ مبلغین میں سے ایک تو ایسا ہوگا جس کا کام یہ ہوگا کہ وہ مرکز میں بیٹھ کر رات دن کام کرے جو لوگ ملنے کے لئے آئیں ان سے تبادلۂ خیالات کر ے۔ انہیں سلسلہ کے حالات بتائے۔ مکان اور مسجد وغیرہ دکھائے اور ان کے شبہات کا ازالہ کرے گویا وہ مرکزی انچارج ہو گا۔ دوسرے مبلغ کا یہ کام ہو گا کہ وہ علمی طبقہ سے اپنے تعلقات رکھے اور انہیں احمدیت کی خصوصیات وغیرہ سے آگاہ کرتا رہے…تیسرا مبلغ ایسا ہو گا جس کا کام یہ ہوگا کہ بڑے بڑے اور بااثر لوگوں سے اپنے تعلقات رکھے اور مُلک کے اندر جو ان کی پارٹیاں پائی جاتی ہوں ان کے خیالات کو درست رکھنے کی کوشش کرے…چوتھے آدمی کا یہ کام ہوگاکہ وہ مُلک بھر کی یونیورسٹیوں سے اپنے تعلقات بڑھائے۔ درحقیقت یونیورسٹیاں مُلک میں خیالات پھیلانے کا گڑھ ہوتی ہیں اور وہی مبلغ کامیاب ہو سکتے ہیں جو اس نکتہ کو سمجھتے ہوئے یونیورسٹیوں سے اپنے تعلقات زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کریں …پانچواں مبلغ ایسا ہو گا جس کا تجارت سے تعلق ہو گا اور اُس کا فرض ہو گا کہ وہ سلسلہ کے تبلیغی اخراجات کو زیادہ سے زیادہ تجارت کی آمدسے پورا کرنے کی کوشش کرے…چھٹا مبلغ پراپیگنڈا کے لئے وقف ہو گا اور اس کا فرض ہو گا کہ وہ اخباروں سے تعلقات رکھے جو Journalismکا امتحان پاس کرے، پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرے اور اپنے تعلقات اور دوستیوں کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرنے کی کوشش کرے…جب تک کسی مرکز میں اس قسم کے چھ مبلغین نہ رکھے جائیں اور بیک وقت الگ دائرہ میں اپنا کام شروع نہ کریں اُس وقت تک صحیح معنوں میں اشاعتِ اسلام نہیں ہو سکتی۔ ‘‘

(تحریک جدید کی اہمیت اور اِس کے اغراض ومقاصد، انوارالعلوم جلد 18صفحہ 279تا282)

پھر اساتذہ کو نصیحت کرتے ہوئے کہ وہ اپنے طالب علموں کے علم کو بڑھانےاور وسیع کرنے کی جانب بھی توجہ دیا کریں آپؓ فرماتے ہیں :

’’استاد کا کام نہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنے کورس کو پورا کرے بلکہ اس کا یہ بھی کام ہے کہ وہ زائد سٹڈی کروائے۔ کوئی طالب علم صحیح طور پر تعلیم حاصل نہیں کرسکتا جب تک اس کا مطالعہ اس قدر وسیع نہ ہوکہ وہ اگر ایک کتاب مدرسہ کی پڑھتا ہو تو دس کتابیں باہر کی پڑھتا ہو۔ باہر کا علم ہی اصل علم ہوتا ہے۔ استاد کا پڑھایا ہوا علم صرف علم کے حصول کے لیے ممد ہوتا ہے۔ سہارا ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ اس کے ذریعے وہ سارے علوم پر حاوی ہوسکے۔ ‘‘

(سوانح فضل عمر جلد پنجم صفحہ153)

’’تبلیغ کے کام میں مطالعہ بہت وسیع ہونا چاہیے…سلسلے کی کتابوں کا مطالعہ کرتا رہے۔ حضرت صاحبؑ کی کتابیں اور پھر دوسرے آدمیوں کی کتابیں اتنی اتنی دفعہ پڑھو کہ فوراًحوالہ ذہن میں آجائے۔‘‘

(نصائح مبلغین، انوار العلوم جلد 3صفحہ 291)

’’ہر ایک مبلغ کو چاہیے کہ وہ جغرافیہ، تاریخ، حساب، طب، آداب گفتگو، آداب مجلس وغیرہ علوم کی اتنی اتنی واقفیت ضرور رکھتا ہو جتنی مجلس شرفاء میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے۔ اور یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ تھوڑی سی محنت سے یہ بات حاصل ہوسکتی ہے۔ اس کے لیےہر علم کی ابتدائی کتابیں پڑھ لینی چاہئیں ۔‘‘

(ہدایات زریں، انوار العلوم جلد 5صفحہ 585،584)

مبلغین کو زریں نصائح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’عبادت کے پابند بنو۔ اس کے بغیر نہ تم دنیا کو فتح کرسکتے ہواور نہ اپنے نفس کو۔ فرض عبادات تو ہر ایک مبلغ ادا کرتا ہی ہےلیکن ان کے لیے تہجد پڑھنا بھی ضروری ہے۔ صحابہ کے وقت تہجد نہ پڑھنا عیب سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب تہجد پڑھنے والے کو ولی کہا جاتا ہے۔ حالانکہ روحانیت میں ترقی کرنے کے لیے تہجد اور نوافل پڑھنے ضروری ہیں۔ ‘‘

(ہدایات زریں، انوار العلوم جلد 5صفحہ 587)

’’سب سے پہلے مبلغ کے لیے ضروری ہے کہ وہ تزکیہ نفس کرے۔ صحابہ کی نسبت تاریخوں میں آتا ہے کہ جنگ یرموک میں دس لاکھ عیسائیوں کے مقابل میں ساٹھ ہزار صحابہ تھے۔ قیصر کا داماد اس فوج کا کمانڈر تھا۔ اس نے جاسوس کو بھیجا کہ مسلمانوں کا جاکر حال دریافت کرے۔ جاسوس نے آکر بیان کیا کہ مسلمانوں پر کوئی فتح نہیں پاسکتا۔ ہمارے سپاہی لڑ کے آتے ہیں اور کمریں کھول کر ایسے سوتے ہیں کہ انہیں پھر ہوش ہی نہیں رہتی۔ لیکن مسلمان باوجود دن کو لڑنے کے رات کو گھنٹوں کھڑے رو رو کر دعائیں مانگتے ہیں۔ خدا کے حضور گرتے ہیں۔ یہ وہ بات تھی جس سے صحابہؓ نے دین کو قائم کیا۔ ‘‘

(نصائح مبلغین، انوار العلوم جلد 3صفحہ 289)

’’مبلغین ایسے ہونے چاہئیں جن میں دین کی روح دوسروں کی نسبت زیادہ قوی اور طاقت و رہو۔ وہ دین کے لیے ہر وقت قربان ہونے کے لیے تیار ہوں۔ وہ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک لٹو کی طرح چکر لگائیں۔ ہمیں وہ تیز طرار مبلغ نہیں چاہئیں جو خم ٹھونک کر میدان مباحثہ میں نکل آئیں اور کہیں کہ آؤ ہم سے مقابلہ کرلو…ہمیں تو وہ مبلغ چاہئیں جن کی نظریں نیچی ہوں۔ وہ شرم و حیا کے پتلے ہوں۔ جو اپنے دل میں خوف خدا رکھتے ہوں۔ ہمیں وہ مبلغ چاہئیں جو اپنے آپ کو ملازم نہ سمجھیں بلکہ خدا تعالیٰ کے لیے کام کریں اور اس کے اجر کے متمنی ہوں …مبلغ وہ ہے جسے کچھ ملے یا نہ ملے اس کا فرض ہے کہ تبلیغ کا کام کرے۔ ‘‘

(تاریخ احمدیت جلد ہفتم صفحہ 307)

’’…جہاں تک ہوسکے مبلغ کے لیے یہ ضروری ہے کہ بہت کم خرچ کرے۔ کیونکہ یہ نمونہ ہوتا ہےدوسروں کے لیے۔ اگر یہی اسراف کرے گاتو لوگ معترض ہوں گے۔ اگر ایک تنخواہ دار تنخواہ میں سے خرچ کرتا ہے تو اس کا مال ہے وہ کرسکتا ہے۔ لیکن اگر اس طرح کا خرچ ہو جس طرح کا مبلغوں کا ہوتا ہے اور ایک پیسہ بھی اسراف میں لگائے تو لوگ کہتے ہیں کہ اللے تللے خرچ کرتے ہیں۔ اپنی جیب سے تھوڑا ہی نکلنا ہے کہ پرواہ کریں۔ اور جب لوگوں کو اس طرح کے اعتراض کا موقع دیا جائے گا تو وہ چندہ میں سستی کریں گے۔ ‘‘

(ہدایات زریں، انوار العلوم جلد 5صفحہ 586)

اکناف عالم میں تبلیغ احمدیت کے لیے جوش اور عزم کی ہی مثال ہے کہ جب حضور رضی اللہ عنہ سفر یورپ 1924ء کے موقع پر دمشق میں نزیل ہوئے تو وہاں ایک صاحب شیخ عبدالقادر مغربی نے آپؓ سے ملاقات میں اظہار کیا کہ آپ یہ امید نہ رکھیں کہ ان علاقوں میں کوئی شخص آپ کے خیالات سے متاثر ہوگا کیونکہ ہم لوگ عرب نسل کے ہیں اور عربی ہماری مادری زبان ہے اور کوئی ہندی خواہ وہ کیسا ہی عالم ہو ہم سے زیادہ قرآن و حدیث کے معنی سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ حضورؓ نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا کہ مبلغ تو ہم نے ساری دنیا میں ہی بھیجنے ہیں مگر اب ہندوستان واپس جانے پر میرا پہلا کام یہ ہوگا کہ آپ کے ملک میں مبلغ روانہ کروں اور دیکھوں کہ خدائی جھنڈے کے علمبرداروں کے سامنے آپ کا کیا دم خم ہے۔ چنانچہ حضورؓ نے واپسی پر حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحبؓ اورحضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ کو شام میں تبلیغ کے لیے بھجوا دیا۔

(تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ443تا444)

خواتین کو اشاعت دین کے لیے تیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’اے عورتو ! تمہارے لئے آزادی کا وقت آ گیا ہے خداتعالیٰ نے احمدیت کے ذریعے تمہارے لئے ترقی کے بےانتہا راستے کھول دئے ہیں اگر اس وقت بھی تم نہیں اُ ٹھو گی تو کب اُ ٹھو گی؟ اگر اس وقت بھی تم اپنے مقام اور درجہ کے حصول کے لئے جد جہد نہیں کرو گی تو کب کرو گی ؟ … اگر تمہارے مرد تمہاری بات نہیں مانتے اور وہ دین کی خدمت کے لئے تیار نہیں ہوتے تو تم ان کو چھوڑ دو اور انہیں بتادو کہ تمہارا تعلق ان سے اُس وقت تک ہے جب تک کہ وہ دین کی خدمت کرتے ہیں۔ ‘‘

( الازہار لذوات الخمار حصہ دوم صفحہ82،81)

پھر ایک جگہ تمام احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’پس ہماری جماعت کے خواہ مرد ہوں یا عورتیں ان کو میں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس وقت جو فیضان الٰہی ہورہے ہیں ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اب یہ زمانہ جو تیرہ سو سال کے بعد آیا ہے پھر کب آئے گا …پس تم لوگ اس زمانہ کی قدر کرکے دین کی خدمت کرنے کی کوشش کرو…ہماری جماعت کی عورتیں بھی، مرد بھی، بچے بھی، نوجوان بھی، ایک ذمہ داری اپنے اوپر رکھتے ہیں، لیکن اکثر دیکھا جاتا ہے کہ عورتیں کہہ دیتی ہیں دین کی خدمت مردوں کا فرض ہے۔ اس لئے میں نے کہا تھا کہ آج عورتیں بھی آئیں تاکہ ان کے کانوں میں یہ بات ڈال دی جائے کہ خدا تعالیٰ کے سامنے جس طرح مرد جواب دہ ہیں اسی طرح عورتیں بھی ہیں۔ اس لئے یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ ساری ذمہ داری مردوں پر ہی ہے۔ دین کے معاملہ میں مرد اور عورتیں دونوں یکساں جواب دہ ہیں۔ ا س لئے ضروری ہے کہ دین کی اشاعت میں دونوں حصہ لیں۔ اور جب تک دونوں حصہ نہ لیں۔ اس وقت تک خدا تعالیٰ کی پوری برکت ان پر نازل نہیں ہوسکتی۔ اس کی بہت اچھی مثال گاڑی ہے۔ جب تک دونوں گھوڑے متفق ہو کر اسے نہ کھینچیں وہ نہیں کھنچ سکتی۔ اسی طرح مرد و عورت کا حال ہے۔ مرد خواہ کتنا کمانے والا ہو اگر بیوی فضول خرچ ہو تو کچھ نہیں بن سکتا۔ اسی طرح اگر مرد سست اور کاہل ہو تو بیوی خواہ کتنی ہوشیار ہو کچھ نہیں بنا سکتی۔ یہی حال دینی معاملات کا ہے۔ جب تک عورت اور مرد دونوں مل کر ان کو سرانجام نہ دیں وہ اچھی طرح پورے نہیں ہوسکتے۔ پس جہاں دین کی خدمت کرنا مردوں کا فرض ہے وہاں ان کی عورتوں کا بھی فرض ہے اور انہیں چاہیے کہ مقدور بھر ضرور اس فرض کو ادا کرنے کی کوشش کریں …پھر میں کہتا ہوں مرد مردوں میں اور عورتیں عورتوں میں تبلیغ دین کریں وقت گزر رہا ہے۔ مگر کام جس رفتار سے ہونا چاہیے اس سے نہیں ہو رہا۔ بیشک ہماری جماعت کی ترقی ہو رہی ہے۔ لیکن آج ہم جس طاقت اور قوت سے کام کر رہے ہیں۔ اس سے اگر زیادہ پیدا کر لیں تو کل بہت زیادہ کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ پس عورتیں اور مرد پہلے اپنی درستی کریں اور پھر دوسرے لوگوں تک دین کو پہنچائیں۔ ‘‘

(جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں، انوار العلوم جلد 5صفحہ 96تا98)

1923ء کے شروع میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے شدھی تحریک کے خلاف ایک خصوصی جہاد کا اعلان فرمایا۔ ہندوستان کے علاقہ یو پی میں ارتداد کی تحریک اُٹھی تھی۔ آریہ لوگ ملکانہ راجپوت کہلانے والی مسلمان قوموں کو دوبارہ شُدھ کرنے لگے تھے، یہ جہادان کے خلاف تھا۔ احمدی عورت دینی اغراض کے لیے بڑھ کے قربانی کے لیے ایسی تیار ہو چکی تھی کہ فوراًا پنے پیارے امام کی خدمت میں خطوط لکھے۔ جس پر 13؍مارچ 1923ءکے درسِ قرآن میں آپؓ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا:

’’راجپوتوں میں تبلیغ کے متعلق تحریک کی گئی ہے اس کو سُن کر عورتوں کی طرف سے بھی کہا گیا ہے کہ اس موقع پر ہمیں بھی خدمتِ دین کا موقع دیا جائے ان کو اس خدمت دین میں شامل کرنے کا سوال تو الگ ہے اور اس کے متعلق پھر فیصلہ کیا جائے گا مگر اس سے یہ تو ظاہر ہےکہ مستورات میں بھی قربانی اور ایثار کے جذبات پائے جاتے ہیں اور وہ بھی ہر خدمتِ دین میں حصہ لینے کے لئے تیار ہیں۔ ‘‘

(الفضل 25؍مارچ1923ء)

پھیلائیں گے صداقتِ اسلام کچھ بھی ہو

جائیں گے ہم جہاں بھی کہ جانا پڑے ہمیں

پروا نہیں جو ہاتھ سے اپنے ہی اپنا آپ

حرفِ غلط کی طرح مٹانا پڑے ہمیں

محموؔد کر کے چھوڑیں گے ہم حق کو آشکار

روئے زمیں کو خواہ ہلانا پڑے ہمیں

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button