متفرق مضامین

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا روئے زمین کو ہلا دینے والا جذبہ ٔتبلیغ

(محمد انیس دیالگڑھی۔ مدیر اخبار احمدیہ جرمنی)

سوا صدي سے زائد کا عرصہ گذرا کہ ايک اولوالعزم انسان عظيم الشان خدائي پيشگوئيوں کے مطابق اس دنيا ميں آيا اور ان تمام پيشگوئيوں کا مصداق بن کر مصلح موعود کہلایا۔ آدھي صدي سے زائد وہ منصب خلافت پر متمکن رہا اور ايسے محيرالعقول منصوبے جاري کيے جن کا تصور اس وقت بھي محال تھا اور آج بھي۔اس آسماني مصلح نےان آسماني منصوبوں کو زمين پر جاري کيا اور آج وہي منصوبے ايک پھل دار،سايہ دار اور چھتنار درخت کي طرح ساري دنيا پر محيط ہيں۔اس مصلح موعود یعنی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کي ساري زندگي خدا کے دين کي اشاعت وتبليغ سے عبارت تھي اور يہي اس کي زندگي کا مقصد تھا۔ يہ سارے منصوبے بھي اسي غرض سے جاري کیے گئے۔ تبليغ اسلام کي جوت اور شمع ہميشہ اس کے سينے ميں روشن رہي جس سے ہزاروں لاکھوں چراغ روشن ہوئے جن کي ضيا دن بدن بڑھتي چلي جا رہي ہےاور وہ دن دور نہيں جب دنيا قرآني پيشگوئي کا نظارہ پورا ہوتے ديکھے گي کہ

وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّھَا(الزمر:70)

سيدنا حضرت مصلح موعودؓ کے اسی غيرمعمولي جذبہ تبليغ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مولانا شيرعلي صاحبؓ لکھتے ہيں:

’’اُن پاک جذبات ميں سے جنہوں نے ابتداء سے آپ کے اندر نشوونما پائي، ايک جذبہ تبليغ تھا اور ساتھ ہي اُس کے يہ اُمنگ کہ نہ صرف خود اس کام ميں حصہ ليں بلکہ دوسروں کو بھي اس خدمت کے لئے تيار کريں جس طرح ايک ملک کے خيرخواہ اور قوم کے بہي خواہ ليڈر ميں يہ تڑپ ہوتي ہے کہ اپني گري ہوئي قوم کو ترقي کے اعليٰ مقام پر پہنچانے کے لئے اور اپنے دشمنوں سے گھرے ہوئے ملک کو حملہ آوروں کي دست برد سے محفوظ رکھنے کے لئے اور اپنے ہاتھ سے نکلے ہوئے علاقہ کو دوبارہ فتح کرنے کے لئے اور دنيا ميں اپني قوم کي حکومت کو مستحکم اور مضبوط کرنے کے لئے ايک فوج تيار کرے۔اور اس فوج ميں اپني قوم کے نوجوانوں کو بھرتي ہونے کے لئے تحريک کرے اور بھرتي ہونے والوں کو قواعد جنگ کي تعليم دے اور ان کو ضروري اسلحہ سے مسلح کرے۔ يہي جذبہ لڑکپن کے زمانہ ميں آپ کے سينہ ميں موجزن تھا۔‘‘

(سوانح فضل عمرجلداوّل صفحہ 241)

يعني اوائل عمري سے ہي تبليغ کا جذبہ اور جنون آپ کي رَگ و پے ميں موجزن تھا اور ہر دم دينِ اسلام کي اشاعت کا فکر آپ کو لاحق تھا۔

ديکھ لينا ايک دن خواہش بَر آئے گي مِري

ميرا ہر ذرہ محمدؐ پر فدا ہو جائے گا

حضرت خليفةالمسيح الاوّلؓ کے دورِخلافت ميں مختلف مقامات پر جو تبليغي يا تربيتي اجلاس ہوتے حضورؓ کي ہدايت پر آپؓ ان ميں شامل ہوتے۔اس ضمن ميں آپ نے اندرون ملک بےشمار سفر کیے۔ جن ميں سے چند ايک کا ذکر کيا جاتا ہے۔

٭…1909ء ميں آپؓ حضرت اُم المومنينؓ کے ساتھ دہلي تشريف لے گئے۔ آپؓ نے اس سفر کے تبليغي حالات الحکم ميں شائع کروائے جو بڑے دلچسپ اور معلومات افزا تھے۔ دہلي ميں آپ کے دو ليکچر ہوئے۔ ايک کا موضوع ’’اسلام اور آريہ مذہب‘‘ اور دوسرے کا ’’اسلام اور عيسائيت‘‘ تھا۔ دونوں ليکچروں ميں دہلي کے معززين کي ايک کثير تعداد شامل ہوئي۔ايک جلسہ کي صدارت جناب خواجہ حسن نظامي نے کي۔ قيام دہلي کے دوران ہي آپؓ لاہور جلسہ سيرت النبيﷺ کے لیے تشريف لے گئے اور پھر دہلي آ گئے۔ اور پھر کچھ دن قيام کے بعد جماعت احمديہ قصور کے جلسہ ميں شرکت کے لیے گئے۔ اور پھر واپس دہلي آ کر ايک روح پرور ليکچر ديا۔ دہلي سے واپسي کے وقت آپؓ نے يہ دعا کي کہ ’’خدا وہ دن لائے کہ اس شہر کو بھي خدا ہدايت دے اور اس مٹي سے پھر کسي دن اس قسم کے برگزيدہ لوگ پيدا ہوں جن کے مزار بکثرت وہاں پائے جاتے ہيں۔‘‘

(الحکم 7؍مئي 1909ء)

٭…1911ء ميں آپؓ ڈلہوزي تشريف لے گئے۔يہ سفر بحالئ صحت کي غرض سے ايک تفريحي سفر تھا ليکن اس سفر ميں بھي آپؓ نے تبليغ حق کا کوئي موقع ہاتھ سے جانے نہ ديا۔ وہاں ايک پادري جس کا نام ليگسن تھا اس سے آپؓ کي بہت دلچسپ گفتگو ہوئي جس کي تفصيل ’’پہاڑي وعظ‘‘ کے نام سے 1911ء کے رسالہ تشحيذالاذہان جلد نمبر6 نمبر8 ميں شائع کي گئي۔ اس کے بعد بھي آپؓ نے ہندوستان کے طول و عرض ميں بےشمار سفر اختيار کیے اور ہر سفر ميں آپؓ کي يہي کوشش رہي کہ کسي طرح کوئي روح ہدايت پا جائے۔

٭…3؍اپريل 1912ء کو آپؓ حضرت خليفةالمسيح الاوّلؓ کي ہدايت پر ايک وفد کے ساتھ ايک لمبے سفر پر روانہ ہوکر امرتسر کے رستے ہردوار سےہوتے ہوئے لکھنؤ پہنچے۔وہاں خود بھي تبليغ کي اور خطبہ جمعہ ميں بھي احباب جماعت کو سلسلہ احمديہ کي تبليغ کي تحريک فرمائي۔اسي سفر ميں دارالعلوم ندوہ بھي ديکھا اور ان کي خواہش پر ان کے ايک جلسہ ميں بھي شامل ہوئے۔ قيصرباغ لکھنؤ کي بارہ دري واجدعلي شاہ ميں آپؓ نے ايک کامياب ليکچر ديا۔وہاں سے بنارس گئے جہاں چار ليکچر ديے اور جماعت کا لٹريچر بھي تقسيم کيا۔بنارس سے کانپور پہنچے۔ 18؍اپريل کي شام کو کانپور ميں ايک پبلک ليکچر طلائي محل کے ميدان ميں ہوا۔ ليکچر کے وقت لوگوں کا ہجوم اُمڈ آيا۔اَڑھائي ہزار کے قريب مجمع تھا۔ تقريباً ڈھائي گھنٹے ليکچر ديا۔ جس کے بعد سامعين نے بآواز بلند کہا کہ وہ آپؓ سے مصافحہ کرنا چاہتے ہيں۔ يہاں سے روانہ ہو کر آپؓ شاہ جہانپور پہنچے اور حضرت حافظ سيد مختار شاہجہانپوريؓ کے مکان پر قيام فرمايا۔يہاں بھي آپؓ نے خطاب فرمايا۔ خطاب ايسا پُر اثر اور وجدآفرين تھا کہ مولوي سراج دين خانپوري نے اس کي فوري اشاعت کي تحريک کي اور اپني طرف سے رقم بھي پيش کي۔ 20؍اپريل کو يہ وفد رامپور پہنچا اور رامپور سے امروہہ پہنچا۔ وہاں بھي آپ نے مختصر تقرير کي۔ پھر دہلي اور ديوبند پہنچے۔ ديوبند سے سہارنپور، اور 28؍اپريل1912ء کو واپس قاديان پہنچے۔واپسی پر حضرت خليفةالمسيح الاوّلؓ نے بڑي خوشي کا اظہار فرمايا اور بہت تپاک سے ملے اور اگلے دن پورے وفد کے اعزاز ميں ضيافت کا اہتمام فرمايا۔

(سوانح فضل عمرجلداوّل صفحہ 269)

يہ تو چند سفروں کي روداد ہے۔ ايسے سينکڑوں بلکہ ہزاروں سفر آپؓ نے کیے اور ہر طرف دعوتِ اسلام کا تير چلايا۔ يہ تو خلافت سے قبل کي باتيں ہيں۔ آپؓ کے خليفہ مقرر ہونے کے بعد تو يوں لگتا ہے کہ ايک بند ٹوٹ گيا اور تبليغ اسلام کا ايک ايسا ريلا بَہ نکلا جس کو غيروں نے بھي محسوس کيا۔ لہٰذا مخالفت بھي بڑھ گئي اور مخالفين بھي اپنے تمام تر ہتھياروں کے ساتھ ميدان ميں اُتر آئےمگر آج اُن کا نام تک نہيں ملتا۔ اگر کہيں ملتا ہے تو جماعت کے لٹريچر ميں ہی کہ کس طرح انہوں نے جماعت کي مخالفت ميں ايڑي چوٹي کا زور لگايا اور دن رات ايک کيا مگر اُس آسماني مصلح کے مقابلہ ميں ناکام و نامراد اور خائب و خاسر رہے۔ تبليغي منصوبہ بندي، تبليغي سفر اور دورے، مبلغين کي تياري، تبليغي ليکچر، تبليغي لٹريچر اور کامياب مناظرے حضرت مصلح موعودؓ کے دَور کے عظيم الشان کارنامے ہيں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے مجلس مشاورت 1932ء کو نظارت دعوت وتبليغ کي تجويز کو منظور کرتے ہوئے فرمايا کہ ہرسال دو يوم تبليغ منائے جائيں۔ جن ميں سے ايک خالصتاً غيراحمديوں ميں اشاعت کے لیے مخصوص ہو اور دوسرا غيرمسلموں کو اسلام کي دعوت دينے کے لیے ہو۔ چنانچہ اس يوم التبليغ کے تحت ايک تاريخ کا اعلان کر ديا جاتا اور پورے ملک بلکہ پوري دنيا ميں زوروشور سے تبليغ کي جاتي۔ يوم التبليغ کے اعلان کے ساتھ الفضل ميں يہ اعلان بھي شائع ہوتا کہ جماعتوں کو کس لٹريچر کي کس قدر ضرورت ہے۔اور پھرمطلوبہ لٹريچر جماعتوں کو مہيا کيا جاتا۔ ان يوم التبليغ کي تعداد بعد ميں بہت بڑھ گئي۔يہ دن اس قدر شدت اور جوش وخروش سے منايا جاتا کہ ايسا لگتا کہ سارے احمدي سارے کام چھوڑ کر دعوت اليٰ اللہ ميں مصروف ہيں۔ ايک يوم التبليغ کے موقع پر آريہ کے اخبار ’پرکاش‘ نے 28؍جنوري 1934ء کے شمارہ ميں لکھا کہ

’’امسال قادياني مرزائيوں کے خليفہ صاحب نے 4؍مارچ کا دن اس لئے مقرر کيا کہ ان کے سر پھرے ميرزائي چيلے غيرمسلم اقوام ميں مرزائيت کي تبليغ کرسکيں اور ان کو تپت کرسکيں۔ پيشتر اس کے کہ مرزائي کسي دوسرے غيرمسلم کے پاس جائيں ہم ان کو کھلے بندوں دعوت ديتے ہيں کہ وہ ويدک دھرميوں کو اپني مسجد ميں وعظ کي اجازت ديں‘‘۔

اس پر الفضل 4؍فروري 1934ء نے ان کي اس دعوت کو قبول کرتے ہوئے لکھا کہ اسے ہم قبول کرتے ہوئے اس کي منظوري کا اعلان کرتے ہيں بلکہ خود دعوت ديتے ہيں کہ وہ يہاں آ کر ہماري جس مسجد ميں چاہے وعظ کرے يا اگر يہاں نہ آسکے تو لاہور کي مسجد ميں وہ ايسا کرسکتا ہے اور ديگرمقامات کے ويدک دھرمي بھي اپنے اپنے ہاں کي مساجد ميں جا کر وعظ کرسکتے ہيں۔ مگر ان ميں اتني ہمت کہاں تھي۔ اس کےلیے يہ ايمان اور يقين ہونا ضروري ہے کہ جس راہ کي طرف ميں بلا رہا ہوں وہي درست ہے اور اپنے خالق کي طرف لے جانے والي راہ ہے اور جس خدا کي طرف بلا رہا ہوں وہي ميرا اجر ہے؎

پلکوں پر جو نور سحر تھا

اس سے تاريکي کو ڈر تھا

ان ميں سےايک يوم التبليغ کي رپورٹ ديتے ہوئے اخبار الفضل لکھتا ہے کہ ايک دن کي رپورٹ کے مطابق ايک لاکھ بہترہزار چھ سو نَوّے ٹريکٹ صرف ہندوستان ميں تقسيم کئے گئے۔اور ايک لاکھ ستائيس ہزار چار سو چواليس نفوس کو تبليغ کي گئي اور صرف ايک يوم التبليغ ميں بارہ سو چھ عيسائي مسلمان ہوئے۔

ان يوم التبليغ کي رپورٹس اور بيعتوں کي تعداد الفضل ميں باقاعدگي سے شائع ہوتي جس سے پتہ چلتا ہے کہ کس جوش وخروش سے ان دِنوں تبليغ کي جاتي تھي اور صرف ہندوستان ہي نہيں بلکہ لندن، امريکہ، انڈونيشيا، آسٹريليا، افريقہ، لبنان، فلسطين اور شام ميں ہونے والي تبليغ کي رپورٹس بھي الفضل اخبار کي زينت بنتيں۔ مرد تو مرد خواتين بھي اس کارِخير ميں کسي سے پيچھے نہ تھيں۔ 20؍فروري 1934ء کے الفضل ميں حضرت سيدہ اُمّ طاہرؓ کي جانب سےا يک رپورٹ شائع ہوئي جس ميں آپ تحرير فرماتي ہيں کہ

’’لجنہ کو خدا کے فضل سے تبليغي کام کي طرف خاص توجہ ہے اور ممبرات اپنے اپنے حلقہ ميں تبليغ کا کام کرتي رہتي ہيں۔ سال زير رپورٹ ميں حسبِ دستور سيرت النبيﷺ کا جلسہ قاديان ميں زيراہتمام لجنہ منعقد ہوا۔ اور خدا کے فضل سے بہت کامياب رہا۔ حاضرات کي تعداد جن ميں غيرمسلم عورتيں بھي کثرت سے شامل تھيں۔ سات آٹھ سو کے قريب تھي۔ يوم التبليغ ميں بھي لجنہ نے خاص طور پر حصہ ليا۔ ہندو اور سکھ خواتين کے ہاں جانے کے علاوہ اچھوت کہلانے والي قوم کے محلہ ميں بھي ممبرات اور دوسري بہنوں نے جا کر انفرادي طور پر تبليغ کي۔ جس کے نتيجہ ميں خدا کے فضل سے بہت سي عورتوں نے اسلام قبول کيا۔ اور کئي غيراحمدي عورتوں نے بيعت کي،فالحمدللّٰہ عليٰ ذالک۔‘‘

یہ تو اپنوںکی رپورٹس ہیں آیئے ایک اور غیر اخبار کی رائے اس بارے میں پڑھتے ہیں۔اخبار آریہ مسافر25؍مارچ 1934ء کے شمارے میںایک آریہ اپدیشک کا احمدیوں کے یوم التبلیغ کاآنکھوں دیکھا حال سناتے ہوئے لکھتا ہےکہ

’’… میں 4؍ مارچ 1934ء کو قادیان گیا۔ اسٹیشن سے اتر کرجب شہر پہونچا۔تو سارا شہر سنسان تھا۔وردیاں پہنے ہوئے مسلمان والنٹیر ہاتھوں میں لٹھ لئے گھوم رہے تھے۔اور برقعہ والی عورتوں کے جھنڈ ادھر ادھر پھر رہے تھے۔میں نے ان والنٹیروں سے پوچھا آج کیا ہے جواب ملا تبلیغی ڈے یہ سن کر آ گے بڑھا ۔آگے بھی عورتوں کے غول کے غول ادھر ادھر جا رہے تھے۔اتنے میں آریہ سماج کے پردہان مل گئے۔ ان سے تبلیغی ڈے کے متعلق بات چیت ہونے لگی۔انہوں نے کہا ۔ مرزائی انجمن ہر سال تبلیغی ڈے مناتی ہے۔اب کے تو کھلے طور پر ہندئووں میں تبلیغ کرنے کے لئے یہ دن رکھا گیا ہے۔میں سارا دن ان کےجوش اور مستعدی کاادا سنیتا سے وچار کرتا رہا۔ نانا پرکار کے خیال میرے دل میں آتے جاتے تھے۔چت اداس رہا۔ سائینگ کال کے سمے باہر گھومنے کے لئے جب نکلا۔ تو کیا دیکھتا ہوں۔ کہ باہر سے لوگوں کے غول اتنے خوشی میں اور امنگوں سے بھرے ہوئے۔ کہ پائوں پر دھول پڑی ہے۔چہروں پر پسینہ کے نشان ہیں۔چاروں طرف سے آ رہے ہیں۔پوچھا کہاں گئے تھے ۔ جواب ملا۔ تبلیغ کے لئے عورتیں بھی سارا دن ہندو محلوں میں پھرتی رہیں …‘‘

(الفضل قادیان یکم اپریل 1934ء)

حضرت مصلح موعودؓ نےتبليغ کي روح اس طرح سے احمديوں ميں پھونک دي تھي کہ ان کے سر پر ہر وقت یہی دھن سوار تھی کہ میرا ہر لمحہ تبلیغ میں صرف ہواوریہی میری زندگی کا مقصد ہے ان ميں سے بہت سےاپني زندگياں وقف کرکے ہرتکليف اور مصيبت کو گلے لگا کرديوانہ وار تبليغ کے دشت خار ميں کود پڑے۔ ان ميں سے کوئي افريقہ کےتپتے ريگ زاروں ميں جا بسا تو کوئي روس کے سرد علاقوں ميں سردي کي شدت کے ساتھ ظلم وستم کي سختياں بھي برداشت کرتا رہا۔ کوئي يورپ کے کليساؤں ميں اَذانيں ديتا رہا اور کوئي عطر فروش بن کر يورپ کي گليوںميں اسلام کي خوشبو بکھيرتا رہا، کوئي مشرق کو نکل گيا تو کوئي مغرب کو۔ کوئي ايسا گيا کہ پھر کبھي واپس نہ گھر گيا اور اسي خاک کو اوڑھ کر سوگياکہ شايد کبھي کوئي يہ پوچھنے والا آ جائے کہ؏

آيا تو تھا ادھر مگر آ کر کدھر گيا

ايسے مبلغين کو روانگي کے وقت عموماً ہار پہنائے جاتے۔ایسے ہی ایک مبلغ کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ممتاز احمدی صحرائی صاحب اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں:

’’تم نے مجھے پھولوں سے لاد ديا۔ ميرے گلے ميں پھولوں کے ہار اس کثرت سے پڑے ہيں کہ ميں رنگين پھولوں کا مجسمہ بن گيا۔ميں آپ کي يہ نذرِ اخلاص قبول کرتا ہوں۔ مگر حقيقت يہ ہے کہ ميں ايسے پھولوں کو پسند نہيں کرتا کيونکہ ميرا سفر بہت لمبا ہے۔ مجھے ستاروں کي بلندي سے بھي دور جانا ہے۔راستے ميں يہ پھول مرجھا جائيں گے۔اور ان کي خوشبو اُڑ جائے گي۔ميں وہاں جا رہا ہوں جہاں کے مکينوں کے دل ميري نفرت سے بھرے ہوئے ہيں۔مجھے نہيں معلوم کہ وہ ميرے ساتھ کيا سلوک کريں گے۔مجھے سنگسار ہونا پڑے گا۔ ميري کمر ميں خنجر گھونپ ديا جائے گا۔ تاريک قيدخانوں ميں بھوکا پياسا بندرہنا پڑے گا يا کيا ہوگا۔

ميں اپنے ساتھ کيا لے چلا ہوں، ان سب تکليفوں کي برداشت کا عزم مجھے ڈرنا نہيں چاہيے۔ميں حق کا پيام بَر ہوں وہ ميري بات ضرور سنيں گے۔کيونکہ وہ بھولے ہوئے ہيں اور اپني فطرتي وراثت سے محروم رہے جاتے ہيں۔جب ميں ان کو دردمند دل کے ساتھ صداقت سے آگاہ کروں گا۔ تو وہ ضرور اسے حاصل کرنے کے لئے تيار ہوجائيں گے۔ جو لوگ سچ کو نہيں ڈھونڈتے سچ انہيں خود تلاش کرکے اپني حقيقت سے آگاہ کر ديتا ہے۔ اس لئے مجھے کاميابي کي پوري اميد ہے۔

فطرت کے تاريک پہلوؤں کو روشن کرنے والے اسلام کي شعاعيں دنيا کے جن حصوں تک پہنچ کر واپس لوٹي تھيں مَيں ان سے پرے تک جانے کے لئے راہيں کھول دوں گا کيا يہ مشکل ہے؟ ميں تنہا ہوں! نہيں! جو کام ميرے حصہ ميں آيا ہے اس کے لئے تائيدونصرت۔ آسمان کي بلنديوں سے اترے گي۔ ميرے ہنگامۂ عمل سے باطل کے جھنڈے گر جائيں گے اور گلشنِ اسلام ميں پھر بہار آ جائے گي ميں ايسے پھولوں کو پسند کرتا ہوں۔

انہي کا تصور مجھے گھر سے دور لے چلا ہے‘‘

(ممتازاحمدی صحرائی۔الفضل قاديان دارالامان 20؍فروري 1934ء)

یہ وہی جذبہ تھا جو اس غلام کے آقا کے سینہ میں موجزن تھا، اسی شمع سے یہ شمع روشن ہوئی تھی اور یہ الفاظ دراصل اُسی آسمانی مصلح موعودؓ کے خیالات کی ترجمانی تھی جس کی روح کی ہر لحظہ و ہرآن یہ تمنّا اور یہی خواہش تھی کہ

محمود کرکے چھوڑیں گے ہم حق کو آشکار

روئے زمیں کو خواہ ہلانا پڑے ہمیں

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button