متفرق مضامین

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے 1921ء کے دوران علمی کارناموں پر طائرانہ نگاہ

(عمانوایل حارث)

ایک تیس بتیس سالہ نوجوان، جس کی جسمانی صحت، ظاہری دنیاوی تعلیم اوردیگر موافق حالات میں سے کچھ بھی مددگار نہ ہو، وہ سال کے محض 365 دنوں میں حقائق و معارف کے انمول خزانے رہتی دنیا تک عوام و خواص کے یکساں فائدہ کے لیے مہیا کرگیا۔ ذیل میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی سال 1921ء کی بعض تصنیفات و تقاریر اور خطبات کا نہایت مختصر خاکہ پیش کیا جارہا ہے جو بتاتا ہے کہ آپ وہ عظیم ہستی تھے جن کے غور وفکر اور تحقیق و جستجو کے جولان گاہ میں کوئی بھی دنیاوی روک حائل نہ ہوسکی۔آپؓ ایک عالمگیر مذہبی جماعت کے سربراہ و قائد ہونے کے ناطے دن رات غیر معمولی ذمہ داریوں اور مصروفیات سے عہدہ برآ ہورہے تھے،شب و روز اسلام احمدیت کی تبلیغ و اشاعت ، تعلیم و تربیت کا علمی کام برابر جاری رکھے ہوئے تھے۔

یہ سینکڑوں صفحات پر مشتمل مواد دراصل ایک متنوع اور عالمانہ گلدستہ ہے جس کی مہک اور خوشبو آج بھی بدستور قائم و دائم ہے۔

ہدایات زریں

26؍جنوری 1921ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ ہاؤس کے ایک کمرےمیں بعد نماز عصر مبلغین سلسلہ، مبلغین کلاس کے طلباء، مدرسہ احمدیہ کی ساتویں جماعت کے طلباء اور افسران صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ کے سامنے ایک تقریر فرمائی جس میں مبلغین کو نہایت قیمتی ہدایات سے نوازا۔ محترم خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل نے اس تقریر کو قلمبند کیا اور ایڈیٹر فاروق حضرت میر قاسم علی صاحب نے 1921ء میں ’’ہدایات زریں ‘‘کے عنوان سے شائع کردیا۔

حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی اس تقریر میں مبلغ کے معانی، اس کا کام، اور اس کی اہمیت کے علاوہ مبلغ کے بعض ضروری اوصاف مثلاً مبلغ بے غرض ہو، دلیر ہو، لوگوں کا ہمدرد ہو، دنیاوی علوم بھی جانتا ہو، فضول خرچ نہ ہو، عبادات کا پابند ہو، دعا گو ہو، انتظامی قابلیت رکھتا ہو، دشمن کو حقیر نہ سمجھتا ہو، کسی پارٹی میں اپنے آپ کو داخل نہ سمجھے، اپنا علم بڑھاتا رہے، لوگوں سے ملنا جلنا جانتا ہو، اس میں ایثار کا مادہ ہو، عقلی دلائل سے آگاہ ہو، چست و ہوشیار ہو، غلیظ نہ ہو، خودستائی اس میں نہ ہو، احباب کے اخلاق پر نظر رکھنے والا اور بے ہودہ بحثوں سے بچنے والا ہو،تہجد گزار، بے نفس، دعاگو، منظم، وغیرہ پیش فرمائے۔ یہ قیمتی کتاب انوار العلوم کی جلد 5 کے صفحہ 563سے 600پر موجود ہے۔

ضرورت مذہب

اسی سال 1921ء کے دوران ماہ مارچ میں 4؍تاریخ کو ایک مقدمہ میں شہادت کی غرض سے حضرت مصلح موعودؓ لاہور تشریف لے گئے اور 7؍مارچ تک یہاں قیام فرمایا۔

5؍مارچ 1921ء کو کالج کے بعض طلباء نے حضورؓ سے ملاقات کے دوران تین سوالات پوچھے جن کے جوابات حضورؓ نے نہایت آسان پیرایہ میں مدلل اور مسکت انداز میں عطافرمائے۔

پہلا سوال یہ تھا کہ’’مذہب کی کوئی ضرورت نہیں۔ نہ اس سے کوئی فائدہ ہے۔ہاں لوگ اگر اس کو بعض ظاہری فوائد حاصل کرنے کے لئے اختیار کرلیں تو اچھا ہے۔‘‘

حضورؓ نے سمجھایا کہ مذہب کی ضرو رت کا سوال خدا کی ہستی سے وابستہ ہے، اگر خداہے تو مذہب کی ضرورت بھی ہے۔ اور خدا کی ہستی کا ثبوت اس کا اپنے بندوں سے کلام کرنا ہے۔اور اس دَور میں حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں پوری ہورہی ہیں جو خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت فراہم کر رہی ہیں۔

دوسرا سوال یہ تھا کہ’’دیگر مذاہب میں بھی بعض لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جو پیشگوئیاں کرتے ہیں پھر اسلام کی یہ خصوصیت نہ رہی۔‘‘

اس کے جواب میں حضورؓ نےفرمایا کہ انبیاء اور دیگرلوگوں کی پیشگوئیوں میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ اپنے علم کی بنا پر یہ پیشگوئیاں کرتے ہیں جو قیاسی رنگ میں ہوتی ہیں۔جبکہ ان کے مقابل پر اللہ تعالیٰ کے انبیاء کی پیشگوئیاں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہیں اور مخالف ترین حالات میں ہوتی ہیں، ان پیشگوئیوں کے بہت زیادہ پہلو ہوتے ہیں، اوران میں شوکت اور حاکمانہ پہلو نمایاں ہوتا ہے۔

تیسرا سوال یہ تھا کہ ’’حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے سلسلہ کا پھیلنا ان کی صداقت کا ثبوت نہیں کیونکہ روس میں لینن نے بھی بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے۔‘‘

حضورؓ نے یہاں سمجھایا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو جو ترقی حاصل ہوئی ہے اس ترقی کے بارے میں حضرت مرزا صاحبؑ کا دعویٰ پہلے سے موجود تھااور اس کے مطابق ہی ترقیات مل رہی ہیں۔ان ترقیات کی تفصیلات سے معمولی سی آگاہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ ترقیات حضرت مسیح موعود ؑکے دعویٰ کی صداقت کی دلیل ہیں۔

موازنہ مذاہب

مورخہ 9؍مارچ کو مالیر کوٹلہ میں حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے شہر والے مکان پر حضرت مصلح موعودؓ نے ایک تقریرفرمائی۔ اس تقریر میں آپ نے خدا کی ذات و صفات، کلام الٰہی، فرشتوں کے وجود، اور بعث بعد الموت سے متعلق مذاہب عالم میں پائے جانے والے اختلافات کو پیش فرما کر عوام الناس کی مذہب سے بے خبری اور مذہب کی ضرورت کو بیان فرمایا۔ اور صداقت اسلام پر ایک محکم دلیل سورۃ النور کی آیت نمبر 36کی روشنی میں بیان فرمائی کہ اسلام کے ماننے والے دنیا میں معزز و مکرم ہوںگے اوران کو ایسی روشنی دی جائے گی جس کے مقابلہ میں دنیا میں تاریکی ہوگی اور اس دلیل کے ثبوت میں حضرت مصلح موعودؓ نے آنحضورﷺ کی ذات اقدس کو پیش فرمایا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو باوجود ہزار مخالفتوں کے غلبہ عطافرمایا اور آپ ﷺ کے متبعین کو قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں عطافرمائیں۔اور جب عصر جدید میں خدا کا پیارا مذہب اسلام مٹ رہا تھا، اس پر حملے جاری تھے، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرما کر اسلام کی خدمت اور حفاظت کاایک ذریعہ عطا فرمادیا۔ اور آج مسلمانوں کے پاس اگر صداقت اسلام کا کوئی بھی ذریعہ موجود ہے تو وہ صرف اور صرف مسیح موعود کا وجود ہے۔ کیونکہ آپ بھی خدا تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ادنیٰ حالت سے بلند سے بلند تر کیے جار ہے ہیں۔

معیار صداقت

اسی طرح تاریخ احمدیت سے پتہ چلتا ہے کہ سال 1921ء میں ماہ مارچ کے آخری عشرہ کے آغاز پر قادیان دارالامان کے غیر احمدیوں نے ایک بڑا جلسہ کیا، جس میں مولوی ثناءاللہ امرتسری ایڈیٹر اہلحدیث ، مولوی محمد علی روپڑی، مولوی میر محمد ابراہیم سیالکوٹی ، مولوی انور شاہ کشمیری مدرسِ اعلیٰ دیوبند اور مرتضیٰ حسن دربھنگوی وغیرھم نے نہایت دلآزار اور اشتعال انگیز تقاریر کیں۔ان کے جواب میں حضرت مصلح موعودؓ نے 21 اور 22؍مارچ کی درمیانی شب نوبجے سے گیارہ بجے تک پرجلال اور پرشوکت تقریرفرمائی جس کا انتظام مرزا گل محمد صاحب ابن مرزا نظام الدین کے مکان کے صحن میں کیا گیا تھا ، اس تقریب میں زیادہ تر غیر احمدی مہمان ، سرکاری عہدیدارتھے۔اس جلسہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے مذکورہ بالا جلسہ میں ہونے والی تقاریر میں حضرت مسیح موعود ؑکی ذات اقدس پر لگائے جانے والے ناپاک الزامات اور اعتراضات کا رد فرمایا، اور سچے مدعی کی صداقت کو پہچاننے کے لیے قرآن کریم کی رو سے یہ معیار پیش فرمایا کہ

اول:سچے مدعی کا ماضی بے عیب اور بے نقص اور روشن ہوتا ہے۔

دوم:سچے مدعی کو خدا تعالیٰ کی طرف سے نصرت عطا کی جاتی ہے اور اس کے دشمنوں کے منصوبوں کو خاک میں ملادیا جاتا ہے۔

سوم: خدا کے رسول ہی غالب آتے ہیں۔

اس معیار پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو پرکھ کر حضور ؓنے یہ بتا دیا کہ تینوں زمانے ماضی حال اور مستقبل حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی گواہی دے رہےہیں۔

بیعت کرنے والوں کے لیے ہدایات

اسی طرح سال 1921ء میں ماہ مئی کی 2 تاریخ کو جوناگڑھ(گجرات ، کاٹھیاوار) سے آئے ہوئے ایک صاحب نے حضرت مصلح موعود ؓکی دستی بیعت کی سعادت پائی۔ حضورؓ نے ان کی بیعت سے قبل ایک تقریر فرمائی جو اخبار الفضل نے اپنی 30؍مئی 1921ء کی اشاعت میں ’’سلسلہ احمدیہ میں داخلہ‘‘ کے عنوان سے شائع کی۔ یہ تقریر انوارالعلوم کی جلد ششم میں ’’بیعت کرنےوالوں کےلیے ہدایات‘‘ کے نام سے شامل ہے۔

حضورؓ نے اپنی اس تقریر میں احمدیت میں داخل ہونے کی غرض بیان فرمائی، کہ لوگوں میں تقویٰ، طہارت پیدا کرنا، اور برائیوں اور فواحش سے بچا کر اسلام پر قائم کرنا ہے، علاوہ ازیں اس تقریر میں حضرت مصلح موعودؓ نے آنحضور ﷺ کا اعلیٰ اور ارفع مقام ، اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان اورآپ کی صداقت کے 3دلائل پیش فرمائے۔ آپؓ نے نہایت صراحت کے ساتھ ان عقائد کا تذکرہ فرمایا جن سے واقفیت ہر بیعت کرنے والے کو بیعت سے قبل ہونا ضروری ہے۔

علاوہ ازیں آپ نے بیعت کرنے کے بعد ہر احمدی پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی۔

آئینہ صداقت

یہ کتاب حضرت مصلح موعودؓ نے دسمبر1921ءمیں تحریر فرمائی جس میں آپؓ نے مولوی محمد علی صاحب ایم اے کی انگریزی کتاب The Split سے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کے علاوہ اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ حضور ؓکی اس تصنیف کا انگریزی ترجمہ The Truth about the Split کے نام سے کلکتہ سے 1924ءمیں شائع ہواتھا۔

ہستی باری تعالیٰ

حضرت مصلح موعودؓنے جلسہ سالانہ 1921ءکے موقع پر ہستی باری تعالیٰ کے موضوع پر حقائق و معارف سے پُر، بصیرت افروزانداز میں ایک عالمانہ اور جامع خطاب فرمایا۔

آپؓ نے اپنی اس تقریر میں ہستی باری تعالیٰ کے 8دلائل اور ان پر اٹھنے والے اعتراضات کے جوابات ارشاد فرمائے اور اللہ تعالیٰ کی صفات سے اس کی ہستی کا ثبوت فراہم کیا، اور صفات الٰہیہ کی اقسام بیان فرمائیں۔اللہ تعالیٰ کے متعلق اہل یورپ ، زرتشتیوں، ہندوؤں اور آریوں کے خیالات و تصورات کے مقابل پر اسلام کی خداتعالیٰ کے متعلق تعلیمات تفصیل سے بیان فرمائیں۔

علاوہ ازیں آپؓ نے اپنی اس تقریر میں شرک کی تعریف اوراس کی اقسام بیان فرماتے ہوئے ان کا ردّ بھی فرمایا، اور رویت باری تعالیٰ، رویت کے مدارج، اور اس کے فوائد کا بتا کر ایسی رویت کے حصول کے طریق و ذرائع بھی بیان فرمائے۔

تحفہ شہزادہ ویلز

اسی سال کے اواخر میں برطانوی ولی عہد شہزادہ ویلز ممالک شرقیہ کے اپنے دورہ کے دوران ہندوستان بھی تشریف لائے تھے ۔ حضو ر ؓنے تحفہ شہزادہ ویلز تصنیف فرماکر اس معزز شاہی نمائندہ کی تکریم فرمائی اور قیمتی لٹریچر مہیا فرمایا۔

سفرِ کشمیر

تاریخ احمدیت سے پتہ چلتا ہے کہ اسی سال 1921ء کے دوران طبی مشورہ پر آپ نے جنت نظیر وادی کشمیرکا سفر اختیارفرمایا۔ان تین ماہ کے دوران آپؓ نے بہت سے تربیتی امو رپر لیکچرزدیے، آپ کے کلمات طیبہ سن کربیعتیں ہوئیں۔آپؓ نے دوران سفر خطبات جمعہ ارشادفرمائے اور مقامی احمدیوں نے اپنے امام ہمام کے ملفوظات سے خوب استفادہ کیا۔

خطبات جمعہ فرمودہ 1921ء

سال 1921ء میں ارشاد فرمودہ خطبات جمعہ کی تلاش ہمیں خطبات محمود جلد ہفتم مرتب کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن تک لے جاتی ہے۔اس سال کے خطبات جمعہ کا تعارفی چارٹ دیکھنے سے 1921ء کے دوران حضرت مصلح موعودؓ کی جانب سے ارشاد فرمودہ بصیرت افروز خطباتِ جمعہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔شائع شدہ خطبات کی تعداد35ہےاور کل 190صفحات پر مشتمل ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان علمی خزانوں سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button