متفرق مضامین

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض اسفار کی داستان

(مبارک محمود)

سیدناحضرت مصلح موعودؓ نے 52سالہ دورِخلافت میں اسلام احمدیت کے استحکام وترقی اورتعلیم و تربیت کی غرض سے نہ صرف مراکزِاحمدیت قادیان وربوہ میں کارہائےبے نظیر کی غیرمعمولی توفیق پائی بلکہ بیرون ازمرکز دورہ جات کے ذریعہ افرادِ جماعت کی تربیت، تبلیغِ اسلام اورملکی استحکام کےلیے کوشاں رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کےبابرکت عہدِ خلافت کےابتدائی سالوں کے دورہ جات کامختصراحوال اوران سفروں کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے خدائی افضال اورعظیم الشان کامیابیوں کامختصرتذکرہ زیرِ نظرمضمون میں کیاگیاہے۔ اگرچہ حضورؓنے بہت سے سفر صحت کی خرابی کے پیشِ نظربغرضِ علاج بھی فرمائے تاہم حضورپُرنورکاکلمۃاللہ وجودہرسفرمیں خداتعالیٰ کی اس پیشگوئی کاعین مصداق ہوتاتھاکہ’’اُس کے ساتھ فضل ہے جواُس کے آنے کے ساتھ آئے گا‘‘ اوروہ’’روح الحق کی برکت سے بہتوں کوبیماریوں سے صاف کرے گا‘‘۔ لہٰذاآپؓ نے اپنے ان سفروں کے دوران بے شمارتشنہ روحوں کوخدائی فضلوں کے روحانی پانی سے سیراب فرمایااورمتعددلاعلاج نفسوں کوروح الحق کی برکت سے بیماریوں سے صاف کیا۔

سفرِ لاہور(1915ء)

حضرت مصلح موعودؓ نے منصبِ خلافت پرمتمکن ہونے کے بعدپہلاسفر لاہورکااختیارفرمایا۔ اس سفرکی وجہ حضورؓ کی کچھ عرصہ سے خرابی صحت اورگلے کی تکلیف کے باعث طبی معائنہ تھالیکن لاہورقیام کے دوران آپؓ کے سفرکی یہ وجہ ثانوی حیثیت اختیارکرگئی۔ قیامِ لاہور کے دوران آپؓ نے احبابِ جماعت اورعہدیداران سے بکثرت ملاقاتیں فرمائیں اورتبلیغی وتربیتی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ حضورؓ مورخہ7؍جولائی بروزبدھ بوقت صبح قادیان سے عازمِ سفر ہوئے۔ اس سفرمیں آپؓ کے ہم راہ چندخدامِ سلسلہ اوراہلِ بیت بھی شامل تھے۔ جماعتِ احمدیہ لاہورنے حضورؓ کے بابرکت قیام کی خاطرمیاں چراغ الدین صاحب کے مکان کے قریب ایک کشادہ و وسیع مکان میں آپؓ اوردیگرشرکائےسفراحباب کاانتظام کررکھاتھاجسے حضورؓ نے ازراہِ شفقت اپنے بابرکت قیام کاشرف بخشا۔ حضورؓ کی معیت میں تشریف لے جانے والے بعض علماء کی ان ایام میں متفرق موضوعات پرتقاریر ہوئیں نیزچندمباحثات بھی ہوئے۔ حضورؓ کی جانب سے اہلِ پیغام کے سرکردہ احباب کودعوتِ ملاقات وگفتگوبھی دی گئی لیکن انہوں نے اس اعزاز کو قبول نہ کیا۔ 9؍جولائی کوحضورؓ نے خطبہ جمعہ ارشادفرمایاجس میں آپؓ نے تعلق باللہ اورمسئلہ کفرواسلام پرروشنی ڈالی نیزجماعتِ احمدیہ لاہورکوبھی بعض نصائح فرمائیں۔

11؍جولائی کوبعدنمازِ مغرب آپؓ نے حضرت میاں معراج الدین صاحبؓ کے احاطہ میں ایک معرکہ آراء لیکچر ارشادفرمایا۔ اس لیکچرکی اطلاع کی غرض سے ایک اشتہارشائع کیاگیاتھا۔ لیکچرمیں اندازے سے اس قدرزیادہ افرادنے شرکت کی کہ احمدی احباب سے درخواست کی گئی کہ وہ اٹھ کرمہمانوں کوبیٹھنے کی جگہ دیں۔اس لیکچرکوسننے کے لیےاس کثرت سے لوگ آئے کہ ایک کثیرتعدادجلسہ گاہ کے دروازے کےباہرسڑک پربھی کھڑے ہوکرحضورؓ کے خطاب سے مستفیض ہوئی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ڈیڑھ گھنٹہ سے زائدخطاب فرمایا۔اس لیکچر میں قریباًڈیڑھ سے دوہزارافرادشامل ہوئے۔ یہ لیکچربعدمیں ’’پیغامِ مسیح‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور اس کی پسندیدگی کااظہارغیرمسلموں نے بھی کیا۔

اس سفرکے دوران آپؓ کاگلے کی تکلیف سے متعلق معائنہ ومعالجہ بھی ہوا۔ حضرت مصلح موعودؓ کے ورودِ مسعودکی خبرپاکران دنوں میں بہت سے احبابِ جماعت بیرون ازلاہورسے بھی آئے۔

لاہورمیں 6؍روز قیام فرمانے کے بعد12؍جولائی بروز سوموار شام قریباًچاربجےآپؓ کی قادیان دارالامان میں کامیاب مراجعت ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تشریف آوری سے لے کرروانگی تک جماعتِ احمدیہ لاہوراپنے آقا اوردیگرمہمانان کی خاطرمدارات اورانصرامِ ضروریات میں کمال مستعدی سے کمربستہ رہی۔ حضرت خلیفۃ المسیح کوواپس روانہ کرنے کی خاطرایک کثیرتعدادلاہوراسٹیشن پرآئی۔ بعض احباب میانمیرکے اسٹیشن تک اپنے آقاکے ہمرکاب رہے۔ راستہ میں بٹالہ کے اسٹیشن پراحمدی بھائیوں نے دودھ کی لسی سے تواضع کی۔

حضرت مصلح موعودؓ کے لاہورتشریف لے جانے کے بعد اپنے آقاوامام کی یادمیں ایک نظم بھی الفضل میں مورخہ 11؍جولائی کو بعنوان’’ہجرِ یارکی کہانی عزیزالرحمان انورکی زبانی‘‘ شائع ہوئی۔

(ماخوذازالفضل8تا15؍جولائی1915ء،تاریخِ احمدیت جلد4صفحہ175)

سفرِ شملہ(1917ء)

حضرت مصلح موعودؓ علالت کے باعث ڈاکٹروں کے طبی مشورہ کی بنا پرتبدیلی آب وہواکی خاطر 30؍اگست کوشملہ تشریف لے گئے۔ ابتداءًحضورؓ کاارادہ ڈلہوزی تشریف لے جانے کاتھامگرجماعتِ احمدیہ شملہ کے اخلاص اورباربارکے خطوط کی وجہ سے ڈلہوزی کاارادہ ترک فرماکرشملہ میں قیام کاارادہ فرمایا۔ حضورؓ سے خط وکتابت کے لیے الفضل میں جوپتہ شائع ہواوہ سپیرن ہاؤس، ٹوٹی کنڈی، شملہ تھا۔ قادیان سےقریباً300کلومیٹرکی مسافت پرواقع شملہ(جو پہلے سملہ کہلاتا تھا)بھارت کی ریاست ہماچل پردیش کا دار الحکومت ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں یہ برطانوی ہند کا گرمائی دارالحکومت تھا۔ یہ ایک خوبصورت پہاڑی علاقہ ہے اور بھارت میں سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔ 1864ء میں انگریزوں نے مری کو تبدیل کر کے موسم گرما کے لیے شملہ کو دار الحکومت بنایا۔ سطح سمندر سے 2,206 میٹر اونچائی پر واقع شملہ تقریباً 9.2 کلومیٹر رقبے پر مشتمل ہے۔

29؍اگست کوبعدمغرب حضرت مصلح موعودؓنے مسجدمبارک کی چھت پرایک تقریرفرمائی جس میں آپؓ نے مرکزِ احمدیت قادیان کے انتظام سے متعلق ہدایات اور نصائح فرمائیں۔ آپؓ نے اپنی عد م موجودگی میں حضرت مولاناشیرعلی صاحبؓ کوامیرمقامی اورحضرت قاضی امیر حسین صاحب کوامام الصلوٰۃ مقررفرمایا۔ 30؍اگست کی صبح ساڑھے آٹھ بجے حضورؓ قصرِ خلافت سے باہرتشریف لائے اوراحباب کی کثیرتعدادکے ساتھ بہشتی مقبرہ تشریف لے جاکرحضرت اقدس مسیح موعودؑ کے مزارِ مبارک پردعاکے بعدبیرون ازقادیان تشریف لے گئے۔ جہاں قادیان کے احبابِ جماعت کوشرفِ مصافحہ عطافرمانےکے بعدبٹالہ روانگی کے لیےتانگہ میں سوارہوئے۔ حضورؓ کے ہم راہ اہلِ بیت کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزاشریف احمدصاحبؓ، میاں عبدالسلام عمرصاحب، ماسٹرعبدالرحیم صاحب نیر، شیخ عبدالرحمان صاحب قادیانی، مولوی عطامحمدصاحب اورنیک محمدصاحب غزنوی بھی شریک سفرہونے کے اعزازمیں شامل تھے۔ (بعدازاں بعض دیگر اصحاب بھی حضرت مصلح موعودؓ کے موصولہ ارشادات پرقادیان سے شملہ تشریف لے جاتے رہے جن میں حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ بھی شامل تھے) بٹالہ سے امرتسربذریعہ ٹرین تشریف لے گئے۔ بٹالہ سے امرتسرکے اس سفرکے دوران ایک دلچسپ واقعہ یہ بھی پیش آیاکہ بٹالہ سے امرتسرکے دوران گاڑی کاپنکھاخراب تھا۔ حضرت صاحبزادہ مرزاشریف احمدصاحبؓ اسے درست کرنے لگے توایک ہمرکاب نے کہاکہ جانے دیجئے ہم نے توابھی امرتسراترجاناہے۔ یہ سن کر حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت صاحبزادہ صاحب کےاس عمل کوسراہتے ہوئے فرمایاکہ’’مومن ہمیشہ وہ کام کرتاہے جس سے مخلوقِ خداکو فائدہ ہو۔ پس ہمارے نہیں توکسی اور کے کام آجائے گا۔‘‘

امرتسرسے انبالہ کے لیے بذریعہ ٹرین روانگی ہوئی۔ جماعتِ احمدیہ امرتسرکے قریباًپچاس افرادنے ریلوے اسٹیشن پراپنے آقاکوالوداع کرنے اوراہلِ قافلہ کوکھاناپیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ امرتسراسٹیشن کے شفاخانہ میں حضورؓ نے مع احباب نمازِ ظہروعصرجمع کرکے ادافرمائیں۔ یہاں اسٹیشن پرہی بعدنمازوطعام چندافرادنے بیعت کی۔

امرتسراورانبالہ کے درمیان جالندھر، پھگواڑہ، پھلور، لدھیانہ اورراجپورہ کے اسٹیشنوں پرمذکورہ جماعتوں اوران کی قریبی جماعتوں کے متعددافراد اپنے آقاکی زیارت سے مستفیض ہوئے۔ پٹیالہ اورسنورکے بعض احباب انبالہ تک اپنے آقاکے ہم راہ گئے۔ اگرچہ حضورؓ کایہ سفرصحت کی غرض سے تھا لیکن اس خیال سے کہ جودوست ملاقات کے لیے اسٹیشنوں پرآئیں گے اُن کی دل شکنی ہوگی، حضرت مصلح موعودؓ اپنے محبوب غلاموں کی خاطرساری رات جاگتے رہےاوراحبابِ جماعت کوشرفِ ملاقات کاموقع عطافرماتے رہے۔

انبالہ اسٹیشن پرحضورؓ ریل گاڑی تبدیل فرماکرشملہ کی ٹرین پرسوارہوئے۔ مورخہ31؍اگست کوحضرت مصلح موعودؓ نےشملہ اسٹیشن پرورودفرمایا۔ یہاں کی مخلص جماعت اپنے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیحؓ کے استقبال کے لیے موجودتھی اوراس تصورسے نہایت شاداں وفرحاں تھی کہ انہیں اس موعودوجودکی ایک ماہ سے زائد میزبانی کااعزاز حاصل ہورہاہے۔

مورخہ3؍ستمبرکوحضورؓ نے احبابِ جماعت شملہ کے ساتھ ملاقات فرمائی۔ اس موقع پرآپؓ نےدوگھنٹے ایک نہایت لطیف خطاب ’’صادقوں کے معیار‘‘ کے موضوع پرفرمایا۔ 7؍ستمبرکوحضورؓ نے خطبہ جمعہ ارشادفرمایاجس میں آپؓ نے فرمایاکہ عزم راسخ ہو اورنیت نیک ہوتواعلیٰ خدمات کاموقع مل جاتاہے۔

9؍ستمبرکوبعدازعصرجماعتِ احمدیہ شملہ نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمتِ اقدس میں ایڈریس پیش کیا۔ اس ایڈریس کے جواب میں حضرت مصلح موعودؓ نے باوجودعلالتِ طبع کے خطاب فرمایااورغیرمبائعین کے دلائل اوراعتراضات کےجوابات پیش فرمائے۔ 10؍ستمبرکوحضورؓ کے شملہ قیام کےدوران احمدی مسلمانوں اورآریہ سماج کے مابین آریہ مندرمیں ایک مباحثہ بھی ہوا۔ جماعتِ احمدیہ کی طرف سے حضرت مولاناحافظ روشن علی صاحبؓ مباحث تھے۔ 12؍ستمبرکوحضورؓ نے شملہ سے احبابِ جماعت کے نام ایک ارشادتحریرفرماکرقادیان ارسال فرمایا۔ اس مکتوب میں حضرت مصلح موعودؓ نےجماعت کواشاعت وتبلیغ کے سلسلہ میں ان کی ذمہ داریوں کی جانب نہایت مؤثررنگ میں توجہ دلائی اورافرادِ جماعت کااپنے امام سےقلبی تعلق، محبت اوراس کی آوازپردیوانہ وارلبیک کہنے کاذکرفرمایا۔ حضورؓ کایہ مکتوب ایک ضمیمہ کی صورت میں الفضل میں شائع ہوا نیزانوارالعلوم جلد3میں بھی موجودہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کےرقم فرمودہ اس ارشادکے مطالعہ سے یہ امر بخوبی عیاں ہوتاہے کہ باوجودیکہ آپؓ علالتِ طبع کے نتیجہ میں بغرضِ علاج وتبدیلی آب وہواشملہ تشریف لے کرگئے تھے تاہم آپؓ کوسفرمیں بھی اپنی محبوب جماعت اورترقی اسلام وترویجِ سلسلہ کاکس قدرخیال تھا۔

گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار

لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

14؍ستمبرکو حضرت مصلح موعودؓ نے شہزادہ بہادر واسدیو کی کوٹھی میں خطبہ جمعہ ارشادفرمایاجس میں آپؓ نے

وَإِذَا الْجَحِیْمُ سُعِّرَتْ وَإِذَا الْجَنَّةُ أُزْلِفَتْ

کی لطیف تفسیربیان فرمائی۔

16؍ستمبرکوحضورؓ نے ایک نکاح کااعلان فرمایااورخطبہ نکاح کے بعداحباب سے خطاب فرمایا۔ اس خطاب میں آپؓ نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بعثت اورآپؑ کے دعاوی بیان فرمائے۔ بعدازخطاب مجلسِ عرفان ہوئی جس میں بعض احباب نے حضورؓ سے سوالات پوچھے جن کے حضورؓ نے پرمعارف جوابات ارشادفرمائے۔

18؍ستمبرکوحضورؓ نے مسئلہ کفرواسلام پرسیرحاصل گفتگو فرمائی۔ 21؍ستمبرکو حضرت مصلح موعودؓ نے خطبہ جمعہ توکل علی اللہ کے موضوع پر ارشادفرمایا۔ یہ جمعہ بھی آپؓ نے شہزادہ بہادر واسدیو کی کوٹھی میں ہی پڑھایا۔ 22؍ستمبرکوحضورؓ نے ایک پیغامی دوست اوربنگال سے آئے ہوئے ایک انگریزکے سوالات کے جوابات ارشادفرمائے۔ انگریزدوست سے گفتگوفرماتے ہوئے ترجمانی کےفرائض حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ نے انجام دیے۔

حضرت مصلح موعودؓ کے شملہ قیام کے دوران23؍ستمبرکو Freemasons Hall شملہ میں آریوں اورعیسائیوں کے ساتھ ایک مباحثہ ہوا۔ اس مباحثہ کے لیے قادیان سے میرقاسم علی صاحب کوبطورمباحث بلوایاگیا۔ یہ مناظرہ ساڑھے تین گھنٹے جاری رہا۔

28؍ستمبرکوحضرت مصلح موعودؓ نےنمازِ عیدالاضحی شہزادہ بہادر واسدیو کی کوٹھی میں پڑھائی اورخطبہ عیدقریباًدوگھنٹے ارشادفرمایا۔کچھ دیرکے بعدآپؓ نے خطبہ جمعہ بھی ارشادفرمایا۔

29؍اور30؍ستمبرکوجماعتِ احمدیہ شملہ کے جلسہ کاانعقادMasonic Hallمیںہوا۔مورخہ30؍ستمبرکوحضرت مصلح موعودؓ نے اسلام کی حقانیت اوراس کے زندہ مذہب ہونے کے متعلق خطاب فرمایا۔ 3؍اکتوبرکوحضورؓ نے بعض آریہ صاحبان کے ساتھ گفتگوفرمائی اوراُن کے سوالات کے جوابات عطافرمائے۔ 5؍اکتوبرکے خطبہ جمعہ میں حضورؓ نے خداتعالیٰ کے انعامات کے حصول کی طرف توجہ دلائی۔ 6؍اکتوبرکوایک بنگالی جنٹلمین سرت چندرکمارحضورؓ کی خدمتِ اقدس میں دعاکے لیے حاضرہوئے۔ حضورؓ نے انہیں ڈیڑھ گھنٹہ تبلیغ فرمائی۔ اسی روز رات کے وقت حضورؓ نےجماعتِ احمدیہ شملہ کی مستورات سےخطاب فرمایاجس میں مستورات کودین سے واقفیت کے حصول اوران کے فرائض کی جانب توجہ دلائی۔ 7؍اکتوبرکودومسلمان تعلیم یافتہ دوست حضورؓ سے ملاقات کی غرض سے حاضرہوئے۔ آپؓ نے ان سے دوگھنٹہ تبلیغی گفتگوفرمائی۔

شملہ میں قیام فرمودہ ان ایام میں حضرت مصلح موعودؓ نے شملہ اوراس کے گردبعض پُرفضامقامات کی سیربھی فرمائی۔

8؍اکتوبرکوحضورؓ نے شملہ سے مراجعت کے لیے سفرکاآغازفرمایا اورشملہ سے بذریعہ ٹرین کالکا ریلوے اسٹیشن سے ہوتے ہوئےانبالہ ورودفرمایا۔ حضورؓ نے مع اہلِ قافلہ رات کاکھاناجماعتِ احمدیہ انبالہ کی درخواست پر انبالہ چھاؤنی میں تناول فرمایا اور بعد از کھانا چند دوستوں کی بیعت لی۔ انبالہ سے گاڑی روانہ ہو کر رات گیارہ بجے راجپورہ پہنچی جہاں استقبال کے لیے موجودقریبی جماعتوں کے احباب نے حضورؓ کی معیت میں نمازِ مغرب وعشاء ادا کیں۔ 9؍اکتوبر کو حضورؓ سرہند، سنور اور پٹیالہ تشریف لے گئے۔ راجپورہ سے حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحبؓ اس قافلہ کو گائیڈ کر رہے تھے۔ سرہند میں آپؓ نے حضرت مجددالف ثانیؒ کے مزارپر25منٹ کی دعاکی۔ یہاں مزارپرآپؓ نےچندمردوخواتین کی بیعت بھی لی۔ سرہندکے اس سفرمیں حضرت صاحبزادہ مرزاشریف احمدصاحبؓ بھی آپؓ کےہم راہ تھے۔ بعدازاں آپؓ سنورتشریف لے گئے جہاں حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ اورحضرت میاں قدرت اللہ صاحب سنوریؓ کے مکانات کواپنے وجود سےبابرکات فرمایا۔ نمازِ ظہروعصراحمدیہ مسجدسنورمیں اداکیں۔ ایک جلسہ کاپروگرام تھا، آپؓ نے مختصرخطاب فرمایا۔ یہاں بھی بعض افرادنے بیعت کی توفیق پائی۔ ازاں بعدآپ پٹیالہ تشریف لے گئے۔ پٹیالہ میں ایک جلسہ کاانتظام تھا۔ حاضرین کی تعداد800سے زائدتھی۔ حضورؓ نے قریباًڈیڑھ گھنٹہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور صداقتِ اسلام پرخطاب فرمایااورنمازِ مغرب وعشاء کے بعدبعض مردوخواتین کی بیعت لی۔ حضورؓ رات نوبجے بذریعہ ٹرین راجپورہ پہنچے جہاں سے رات ساڑھے گیارہ بجے روانہ ہوکرلدھیانہ سے ہوتے ہوئےصبح امرتسرورودفرمایا۔ رات قریباًدوبجے لدھیانہ اسٹیشن پراحبابِ جماعت اپنے آقاکی زیارت کے لیے حاضرتھے اوردودھ سے اہلِ قافلہ کی تواضع کی۔ قرب وجوارکی بعض جماعتوں مثلاًبنگہ وغیرہ سے بھی کچھ عشاقانِ خلافت دیداروملاقات کے شرف کی غرض سے حاضرتھے۔ ٹرین مملکتِ روحانیت کے اس شہزادہ کولےکر صبح امرتسرپہنچی۔ یہاں سے حضوردوپہرکوبٹالہ تشریف لائے اورایک احمدی دوست بابوفضل احمدصاحب کلرک بنوں (جن کی درخواستِ دعوت کو شملہ میں ہی شرفِ قبولیت عطافرماچکے تھے)کے گھربنفسِ نفیس مع احبابِ قافلہ تشریف لے گئے اور دوپہرکاکھاناتناول فرمایا۔اُسی روز10؍اکتوبرکو 4بجے نمازِ ظہروعصرکی ادائیگی کے بعدحضرت مصلح موعودؓ تانگہ پرسوارہوکر دیگرخدام کے یکوں کی ایک قطارکے ساتھ قبل ازمغرب، شملہ میں 40روزہ قیام کے بعدقادیان دارالامان میں رونق افروزہوئے۔ اہلِ قادیان کی خوشی ومسرت وانبساط کاعالم دیدنی تھا کیونکہ اُن کاآقااوربادشاہِ سرزمینِ قادیان آج

اَرْبَعِیْنْ لَیْلَۃً

کے بعداپنی محبوب بستی اوراس میں بسنے والے فدائیانِ خلافت میں دوبارہ جلوہ افروزہواتھا۔ ان عشاقانِ خلافت میں سے کچھ تواپنے معشوق کے استقبال کی خاطرصبح ہی بٹالہ روانہ ہوگئے تھے جبکہ بعض عشاق نمازِ ظہرکے بعداستقبال کی خاطرنہرپردیوانہ وارپہنچے تھے۔

(ماخوذازالفضل یکم ستمبرتا16؍اکتوبر1917ء،تاریخِ احمدیت جلد4صفحہ198-199)

سفرِ بمبئی(1918ء)

1918ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی صحت زیادہ مضمحل ہوگئی۔ ماہ اپریل میں قادیان میں آپؓ کی صحت یابی کے لیے باجماعت نوافل پڑھے گئے اوربکروں کے صدقات بھی کیے گئے۔ چنانچہ بغرضِ علاج حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مورخہ3؍مئی بروزجمعہ عصرومغرب کے درمیان قادیان سے روانگی کاسفراختیارفرمایا۔ حضورؓ نے اپنی عدم موجودگی میںحضرت مولاناشیرعلی صاحبؓ کوامیرمقامی مقرر فرمایا۔ حضورؓ مسجدمبارک کی سیڑھیوں سے حضرت مولاناسیدمحمدسرورشاہ صاحبؓ اورحضرت مولاناعبدالرحمان صاحب جٹؓ کاسہارالے کرمسجدمبارک کی سیڑھیوں سے نیچے تشریف لائےاورپالکی میں سوارہوکرقادیان سےباہرجاکرحضرت نواب محمدعلی خان صاحبؓ کی بگھی میں لیٹ گئےجو نہایت آہستہ آہستہ چل کررات ساڑھے نوبجے بٹالہ پہنچی۔ سفرمیں حضورؓ کے ہم راہ اہلِ بیت کے علاوہ، حضرت اماں جانؓ، حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ، حضرت ڈاکٹرمیرمحمداسماعیل صاحبؓ وغیرہ بھی شامل تھے۔رات حضورؓ بٹالہ میں ہی قیام فرمارہے۔ اگلے روزآپؓ لاہورپہنچ کر7؍مئی کی شام تک احمدیہ ہوسٹل میں فروکش رہے۔ اس دوران5؍مئی کوڈاکٹرزنے آپ کاطبی معائنہ کیااورناک اورحلق کاایک اپریشن بھی کیانیزآب وہواکی تبدیلی کی خاطر آپؓ کوپہاڑی مقام کی بجائے کسی ساحلی جگہ تشریف لےجانے کامشورہ دیا۔ لہٰذا حضرت مصلح موعودؓ لاہورسے7؍مئی کو رات کی گاڑی سے دہلی کے لیے روانہ ہوکر8؍مئی کی صبح دہلی پہنچے۔ راستہ میں مختلف اسٹیشنوں پراحبابِ جماعت کوملاقات کاموقع عطافرمانے کے باعث آپؓ رات بھرسونہ سکے۔ دہلی میں آپؓ کے قیام کاانتظام Coronation Hotel کی تیسری منزل پرکیاگیاتھا۔ دہلی میں حکیم اجمل خان صاحب سے طبی مشورہ کی غرض سے ایک روزقیام فرمایا۔ 9؍مئی کوآپؓ بذریعہ ٹرین بمبئی تشریف لے گئےاوراگلے روزنمازِ جمعہ بمبئی میں ہی ادافرمائی۔ 11؍مئی کوحضورؓ بمبئی سے بارہ میل کے فاصلہ پرواقع Bandraمیں ایک مکان پرفروکش ہوئے۔ حضرت مصلح موعودؓ سے خط وکتابت کے لیے ڈاک کاجوپتہ احبابِ جماعت کودیاگیاوہ یہ تھا۔ مکان نمبر93، مون جی، ناتھوبھائی بنگلہ، باندرا بمبئی۔ یہ مکان حضورؓ کے قیام کی غرض سے کرایہ پرحاصل کیاگیاتھا۔ آج کل یہ علاقہ بمبئی شہرکاہی حصہ ہے۔ یہاں حضورؓ روزانہ لمبی سیراوربعض دنوں میں چہل قدمی فرماتے رہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کوعلم تھاکہ احبابِ جماعت آپؓ کے ہجراور علالت کے باعث پریشان اورخداتعالیٰ کے حضوردعاؤں میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔ لہٰذاآقانے اپنے غلاموں کی تسکین اوراطمینانِ خاطرکے پیشِ نظر13؍مئی کوباندرا(بمبئی)سے ایک خط قادیان تحریرفرمایا۔ آپؓ نے اس خط میں تحریرفرمایا:

’’اُمیدہے قادیان میں سب طرح خیریت ہوگی۔ یہاں پہنچ کرمیری طبیعت بفضلہ تعالیٰ بہت ترقی پرہے۔ اب تونصف میل بلکہ ایک ایک میل تک چل پھرسکتاہوں۔ ناک اورحلق میں جواپریشن ہواتھااُس کی تکلیف باقی ہےمگرپیچش کوقریباًبالکل آرام ہے اورطاقت میں روزانہ اضافہ معلوم ہوتاہے۔‘‘

16؍مئی کی صبح حضورؓ حضرت ڈاکٹرمیرمحمداسماعیل صاحبؓ اورحضرت بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانیؓ کے ہم راہ Matheran Hillتشریف لے گئے۔ یہ بمبئی سے مشرقی جانب قریباً90کلومیٹرکے فاصلہ پرسطح سمندرسے800میٹربلندی پرواقع ایک چھوٹاساپرفضاپہاڑی مقام ہے۔ حضورؓ نے یہاں گھوڑے کی سواری بھی کی۔ آپؓ کایہاں چنددن قیام فرمانے کاارادہ تھالیکن کسی مناسب مکان کی عدم دستیابی کے باعث میتھورین میں سکونت اختیارنہ فرمائی۔

21؍مئی کی شام حضورؓ ساحلِ سمندرپرتشریف لے گئے۔ آپؓ کے ہم راہ حضرت ڈاکٹرخلیفہ رشید الدین صاحبؓ اورحضرت ڈاکٹرمیرمحمداسماعیل صاحبؓ اور بعض دیگرممبرانِ قافلہ بھی تھے۔ حضورؓ نے بحری جہاز پرسیرفرمائی۔ اسی روزایک دوست نے آپؓ کے دستِ مبارک پربیعت کی نیزایک اخبارکے ایڈیٹرنے بھی شرفِ ملاقات حاصل کیا۔ 23؍مئی کوحضورؓ بذریعہ ٹرین بغرضِ تلاشِ مکان Mahimتشریف لے گئے۔ Mahimبمبئی سے کچھ فاصلہ پر بحیرہ عرب کے کنارےواقع ایک خوبصورت مقام ہے۔ رات گئے واپسی ہوئی۔ 24؍مئی کونمازِ جمعہ حضورؓ نے باندرا(بمبئی)میں سکونتی مکان پرہی ادافرمائی۔ انہی ایام میں حضرت صاحبزادہ مرزاشریف احمدصاحبؓ بھی حضرت مصلح موعودؓ کے پاس بمبئی تشریف لے آئے۔ 27؍مئی کوحضورؓ حضرت اماں جانؓ کولے کربمبئی میں سیٹھ اسماعیل آدم صاحب کی دعوت پراُن کے مکان پرتشریف لے گئے اورچنددن قیام فرمانے کے بعد30؍مئی کوواپس باندرہ تشریف لائے۔ 31؍مئی کوحضرت مصلح موعودؓ نے قریباًدوماہ سے زائدعرصہ کے بعدخطبہ جمعہ ارشادفرمایاآپ نمازِ جمعہ کے لیے باندرہ سے بمبئی بذریعہ ٹرین تشریف لے کرگئے اوررات گئے واپس تشریف لے آئے۔ حضورؓ 3اور4؍جون دوروزتلاشِ مکان اورسیرکے واسطےباندرہ (بمبئی)سے رسیاوانامی ایک ساحلی گاؤں تشریف لے جاتے رہے جوبمبئی کے مضافات میں اندھیری اسٹیشن سے تین میل کی دوری پرواقع ہے۔ 7؍جون کوحضرت مصلح موعودؓ نے خطبہ جمعہ ارشادفرمایا۔ حضورؓنےمع حضرت اماں جانؓ ودیگرممبرانِ قافلہ15؍جون ہفتہ کےروزبوقت صبح قادیان دارالامان میں بخیریت مراجعت فرمائی۔

حضورؓ کے اس سفرکے دوران مرکزِ احمدیت قادیان میں جوبھی اطلاعات آپؓ کی صحت اورسفرکے حالات سے متعلق موصول ہوتیں وہ بغرضِ دعامسجدمبارک کے سامنے لگادی جاتی رہیں۔ اس سفرمیں باندرا(بمبئی)قیام کے دوران حضرت مصلح موعودؓ کی ایک صاحبزادی عزیزہ امۃ العزیز جوحضرت سیدہ اُمِ ناصرؒ کے بطن سے تھی، بعمرقریباًپونے دوسال وفات پاگئیں۔ جن کی تدفین بمبئی میں ہی ہوئی۔ دورانِ سفر گاہے بگاہےبمبئی، پونا، حیدرآباداوراس کے قریب کی بعض جماعتوں کے احباب حضرت مصلح موعودؓ کی خدمتِ اقدس میں بغرضِ ملاقات اورجماعتی امورمیں مشاورت کی غرض سے حاضرہوتے رہے۔ اسی طرح مرکزاحمدیت قادیان سے بھی مختلف خدامِ سلسلہ حضورؓ کے ارشادپرمتفرق امورہائے سلسلہ کی انجام دہی کی غرض سے بمبئی حاضرہوتے رہے۔ اس سفرکے ایام میں حضرت مصلح موعودؓ کے ہم راہ جانے والے بعض رفقائے کارکے تبلیغی وتربیتی لیکچرزبھی بمبئی میں ہوتے رہے۔ باندرا(بمبئی)میں قیام کے دوران حضرت اماں جانؓ کی طبیعت ایک پھوڑانکل آنے کے باعث شدیدناسازرہی۔

(ماخوذازالفضل4؍مئی تا18؍جون1918ء،تاریخِ احمدیت جلد4صفحہ204)

سفرِ ڈلہوزی(1918ء)

بمبئی کے سفرمیں حضرت مصلح موعودؓ کی ناسازی طبع کی بنا پرڈاکٹرزکااصرارتھاکہ آب وہواکی تبدیلی کومدنظررکھتے ہوئے آپؓ کچھ عرصہ مزیدبمبئی میں فروکش رہیں۔ لیکن حضرت اماں جانؓ کی طبیعت کی خرابی اورباندرا(بمبئی)میں مناسب مکان کی عدم دستیابی کے باعث آپؓ کوواپس قادیان تشریف لاناپڑا۔ لیکن ڈاکٹری مشورہ کومدنظررکھتے ہوئے آپؓ 22؍جون کو ڈلہوزی کے لیے عازمِ سفر ہوئے۔ آپؓ کے ہم راہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ اور چند دیگر رفقائے کار بھی تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی عدم موجودگی میں حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحبؓ کو امیرِ مقامی مقرر فرمایا۔

آپؓ رات کی گاڑی پر بٹالہ سے سوار ہوئے اور اگلے روز پٹھان کوٹ میں ورود فرمایا۔ اس روز آپؓ پٹھان کوٹ میں ہی قیام فرمارہے۔ 24؍جون کوبوقتِ صبح حضورؓ موٹرپراورباقی ممبرانِ قافلہ ٹمٹموں پرڈلہوزی روانہ ہوئے۔ ڈلہوزی سطح سمندر سے 1970 میٹر بلندی پر واقع بھارتی ریاست ہماچل پردیش میں ایک خوبصورت پرفضا مقام ہے۔اس کا نام انگریزدورمیں ہندوستان کےگورنر جنرل لارڈ ڈلہوزی(1848ءتا1856ء) کے نام پر رکھا گیا ہے۔ قادیان سے یہ قریباً150کلومیٹرکی مسافت پرواقع ہے۔

ڈلہوزی میں قیام فرمودہ ان ایام میں حضرت مصلح موعودؓ احباب کے بکثرت آمدہ خطوط کے جوابات لکھواتے۔ جبکہ بہت سے خطوط کے جوابات اپنے دستِ مبارک سے بھی تحریرفرماتے رہے۔ حضورؓ نےخطباتِ جمعہ بھی ارشادفرمائے۔ انہی ایام میں آپؓ نے جلسہ سالانہ1917ء کے موقع پرارشادفرمودہ خطابات کی نظرِ ثانی بھی فرمائی۔ نیزڈلہوزی میں وقت کاایک کثیرحصہ مطالعہ میں بھی صرف فرماتے۔ روزانہ حضورؓ کئی میل پیدل سیرفرماتے۔ ان ایام میں حضرت مصلح موعودؓ نے احبابِ جماعت کے نام ایک مکتوب تحریرفرمایاجس میں آپؓ نے جنگ کے موقع پرحکومت کی ہرممکن طریق سے مددکی تحریک فرمائی اوراس سلسلہ میں اسی مکتوب میں مرکزی طورپرایک کمیٹی’’انجمن احمدیہ برائے امدادِ جنگ‘‘ کابھی قیام فرمایا۔ حضورؓ کایہ مکتوب الفضل 27؍جولائی کی اشاعت میں شائع ہوا۔ قریباًپونے دوماہ ڈلہوزی میں قیام فرمانےکےبعد17؍اگست بعدنمازِ مغرب حضرت مصلح موعودؓ کی قادیان دارالامان مراجعت ہوئی۔

(ماخوذازالفضل22؍جون تا20؍اگست1918ء،تاریخِ احمدیت جلد4صفحہ205)

سفرِ لاہور(1919ء)

حضرت مصلح موعودؓ 1918ء کے اواخرمیں انفلوئنزاکے باعث بیمارہوگئے تھے اوراس سے قبل بھی بعض عوارض کی وجہ سے طبیعت خراب تھی۔ حضورؓ ان امراض سے ابھی مکمل شفایاب نہ ہوئے تھے۔ نیزآپؓ کی حرمِ ثانی حضرت سیدہ امۃ الحئی صاحبہ بھی بیمارتھیں۔ لہٰذاآپؓ 12؍فروری1919ء بعدنمازِعصربغرضِ علاج لاہورتشریف لے گئے۔ حضورؓ کے ہم راہ حضرت ڈاکٹرحشمت اللہ خان صاحبؓ اوربعض دیگراحباب بھی تھے۔ حضورؓ نے روانگی سے قبل اسی روزاپنے بعدقادیان میں امیر مقامی حضرت قاضی سید امیرحسین صاحب کومقررفرمایااوراس موقع پرایک مختصرخطاب بھی فرمایا۔ جس میں آپؓ نے اپنے سفرکی وجہ بیان فرمائی اوراطاعتِ امیرکے موضوع پردلکش نصائح فرمائیں۔ قادیان سے روانہ ہونے کے بعداحباب نے مغرب وعشاء کی نمازیں بٹالہ اسٹیشن پر اپنے آقاکی اقتداء میں اداکیں۔ حضورؓ نے نمازوں کی ادائیگی کے بعداسٹیشن پر’’مومن اورکافرکی خوشی اورغم میں فرق‘‘ کے موضوع پرمختصراًنہایت دلپذیرگفتگوفرمائی۔

14؍فروری کوحضرت مصلح موعودؓ نے لاہورمیں میاں چراغ دین صاحب کے مکان کے سامنے باغ میں خطبہ جمعہ ارشادفرمایاجس میں تبلیغِ اسلام کی جانب توجہ دلائی۔

16؍فروری بروزاتوار صبح دس بجے سےدوپہر ایک بجے تک جماعتِ احمدیہ لاہورکوبعض انتظامی امورسے متعلق ہدایات فرمائیں۔ ازاں بعدحضورؓ نے بوجہ بارش میاں چراغ دین صاحب کے مکان کے بالمقابل باغ کی بجائے اُن کے مکان پرہی جماعتِ احمدیہ لاہورسےخطاب فرمایا۔ بارش کے باوجوداحباب کی ایک کثیرتعداد اس روح پرورخطاب سے بہرہ مندہوئی۔ اس خطاب میں فیروزپور، گوجرانوالہ، امرتسراورلاہورچھاؤنی سے بھی افرادِ جماعت شامل ہوئے۔ اسی روزبعدنمازِ مغرب حضورؓ نے احمدیہ ہوسٹل میں کالج کے طلباء سے قریباًدوگھنٹے خطاب فرمایا۔ اس خطاب میں طلباء کی ایک خاصی تعدادموجودتھی۔ جس میں بہت زیادہ حصہ غیراحمدی طلباء کاتھا۔ آپؓ نے طلباء کودین سے واقفیت اورانہیں اسلام کاسچانمونہ بننے کی تلقین فرمائی۔ اس روزصبح کے وقت حضرت مصلح موعودؓ کے معائنہ کےلیے لاہورکے ایک مشہورڈاکٹرجناب بال کشن کالی رائےکے پاس حضرت ڈاکٹرحشمت اللہ صاحبؓ وقت لینے کے لیے گئے۔ جس پرمذکورہ ڈاکٹرصاحب نے فرمایاکہ میں خودوہاں چلتاہوں۔ جناب مرزاصاحب کوتکلیف فرمانے کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ وہ خودحضورؓ کی خدمتِ اقدس میں حاضرہوئے۔ معائنہ کے بعدجب ڈاکٹرصاحب موصوف کوفیس پیش کی گئی توآپ نے یہ کہہ کرانکارکردیاکہ میں ایسے روحانی پیشواسے فیس وصول نہیں کرسکتا۔

اگلے روزبعدنمازِ ظہرتاعصرحضورؓ سے اسلامیہ کالج کے انگریزی کے ایک پروفیسرصاحب نے حالاتِ حاضرہ سے متعلق گفتگوکی جبکہ بعدنمازِ مغرب مذکورہ کالج کے تاریخ کے ایک پروفیسرسیدعبدالقادرصاحب نے آنحضرتﷺ کےخاتم النبیین ہونے سے متعلق بعض سوالات کیےجن کے آپؓ نے مفصل جوابات ارشادفرمائے۔ (مؤخرالذکرپروفیسرصاحب متعددبارحضورؓ کی خدمتِ اقدس میں حاضرہوکرشرفِ باریابی پاتے رہے)21؍فروری کوحضورؓ نے احمدیہ ہوسٹل میں خطبہ جمعہ ارشادفرمایا۔

مورخہ23؍فروری بروزاتوارحضرت مصلح موعودؓ نے بریڈلاء ہال(بابافریدروڈنزدایڈسنس پرنٹنگ پریس) میں ’’اسلام اورتعلقات بین الاقوام‘‘ کے موضوع پرایک معرکہ آراء لیکچرارشاد فرمایا۔ اس علمی لیکچر کی رپورٹ اورخلاصہ تقریربہت سے اخبارات نے شائع کیا۔ اس لیکچرمیں غیرازجماعت افراد کی ایک کثیرتعدادنے شرکت کی۔ قادیان سے بھی بعض احباب اس خطاب میں شرکت کی غرض سے لاہورگئے۔

اسلامیہ کالج شعبہ تاریخ کی درخواست قبول فرماتے ہوئے26؍فروری بروزبدھ شام ساڑھےسات بجے حضرت مصلح موعودؓ نےمارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی اسلامیہ کالج لاہورکے تحت اسی کالج کے حبیبیہ ہال میں ایک بصیرت افروزلیکچربعنوان’’اسلام میں اختلافات کاآغاز‘‘ ارشادفرمایا۔ اس موقع پرحاضرین کی تعداداس قدرتھی کہ شاید اس سے قبل سوسائٹی کے کسی لیکچرمیں نہ ہوئی ہو۔ اس لیکچرکے اختتام پرحافظ فیروزالدین صاحب انسپکٹرپولیس انارکلی لاہورنے درخواست کی کہ

’’جناب مرزاصاحب نے جولیکچردیاہے یہ ایک خاص لیکچرہےاورایسے لیکچربہت کم سننے میں آتے ہیں۔ اس لئے میں درخواست کرتاہوں کہ مرزاصاحب اس لیکچرمیں اُن امورکااضافہ کرکے جوتنگی وقت کی وجہ سے مفصل طورپربیان نہیں ہوسکے، مضمون تیارکردیں اوراس کے چھپوانے کے لئے ابھی چندہ کیاجائے۔ اورہسٹاریکل سوسائٹی اس کوچھپواکرعام طورپرتقسیم کرے۔ میں اس غرض کے لئے50روپے دیتاہوں۔‘‘

اس پرچندہ جمع ہوناشروع ہوگیااورچندہی منٹ میں قریباًپونے تین صدروپیہ نقداوروعدوں کی صورت میں جمع ہوگئے۔ ازاں بعدپروفیسرصاحب موصوف نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمتِ اقدس میں گزارش کی کہ آپ جیساقابل وجودہماری علمی وتحقیقی سوسائٹی کی ممبرشپ قبول فرمائے۔ انہوں نے عرض کی کہ اگرآپ ممبرشپ قبول فرمائیں گے تونہ صرف ہمیں آپ سے دنیاوی بلکہ دینی برکت بھی حاصل ہوگی۔ حضورؓ نے موصوف کی اس درخواست کوازراہِ شفقت اسی موقع پرقبول فرمالیااورسوسائٹی کے رجسٹرپردستخط فرمائے۔

اگلے سال جب یہ لیکچرشائع ہواتواس کی تمہیدمیں پروفیسر سیدعبدالقادرصاحب مؤرخِ اسلام نے لکھا’’یہ تقریرنہایت عالمانہ ہے۔ مجھے بھی اسلامی تاریخ سے کچھ شُدبُدہے اورمیں دعویٰ سے کہہ سکتاہوں کہ کیامسلمان اورکیاغیرمسلمان بہت تھوڑے مؤرخ ہیں جوحضرت عثمانؓ کے عہدکی تہ تک پہنچ سکے ہیں …میراخیال ہے ایسامدلّل مضمون اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے احباب کی نظرسے پہلے کبھی نہیں گزراہوگا۔‘‘

(اسلام میں اختلافات کاآغاز، بارِ دوم، سرورق، صفحہ2/تاریخِ احمدیت جلد4صفحہ218)

اس نہایت مبارک وکامران سفرکےبعدمورخہ 27؍فروری کوحضرت مصلح موعودؓ قادیان دارالامان میں رونق افروزہوئے۔

(ماخوذاز الفضل15؍فروری تا11؍مارچ1919ء، تاریخِ احمدیت جلد 4 صفحہ217-218)

سفرِ لاہور و امرتسر(1920ء)

حضرت مصلح موعودؓ13؍فروری1920ء کوبعدنمازِ جمعہ طبی معائنہ کی غرض سے لاہورتشریف لے گئے۔حضورؓ نے اپنی عدم موجودگی میں حضرت مولاناشیرعلی صاحبؓ کو امیرمقامی جبکہ حضرت قاضی سیدامیرحسین صاحب کوامام الصلوٰۃ مقررفرمایا۔اس سفرمیں حضورؓ نے 6عظیم الشان لیکچرز ارشادفرمائے۔ 13؍ فروری کوحضورؓنے روانگی سے قبل بیت الدعا میں دعاکی۔ احبابِ جماعت کوجب دعاکا علم ہواتوباہرموجودمجمع بھی آپؓ کے ساتھ دست بدعا ہوگیا۔بعدازاں اہلِ قادیان کے ہجوم کے ساتھ پیدل بیرون ازقصبہ تشریف لے گئے جہاں احباب سے مصافحہ کے بعدتانگہ میں تشریف فرما ہوئے۔ وڈالہ کے قریب پہنچ کرآپؓ تانگہ سے نیچے اترکرپیدل بٹالہ پہنچے۔نمازِ مغرب وعشاء بٹالہ اسٹیشن پر پڑھائی جہاں بابوریاض احمد صاحب اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹرنے بیعت کی سعادت حاصل کی۔ رات اسٹیشن پر ہی آرام فرمایا۔ بابوروشن دین صاحب اسٹیشن ماسٹرنے جملہ قافلہ کی پرتکلف دعوت کی اورصبح روانگی سے قبل چائے پلانے کی سعادت بھی ان کے حصہ میں آئی۔امرتسراسٹیشن پربھی بکثرت احبابِ جماعت اپنے محبوب امام کی زیارت سے مستفیض ہونے کے لیے اسٹیشن پرموجودتھے۔لاہوراسٹیشن پربھی جماعتِ احمدیہ لاہور کے کثیرالتعداد احباب موجود تھے۔ یہاں سے حضورؓ کار پر احمدیہ ہوسٹل تشریف لے گئے جہاں آپؓ کے قیام کاانتظام کیاگیاتھا۔

15؍ فروری بروز اتوار مسٹر رچرڈ پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور حضورؓ سے شرفِ ملاقات کے لیے احمدیہ ہوسٹل آئے۔ حضورؓ کے ساتھ گفتگومیں حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ نے ترجمانی کے فرائض انجام دیے۔پرنسپل صاحب موصوف نے حضورؓ سے ذکرکیاکہ آپ کی جماعت کے طلباء بہت باادب اورفرمانبردار ہیں نیز ان طلباء نے گذشتہ بدامنی کے ایام میں ہی صرف اچھے طرزِ عمل کاثبوت نہیں دیا بلکہ ہمیشہ سے وہ ایسے ہیں۔ ازاں بعد سہ پہر 3 بجے حضرت مصلح موعودؓ کا لیکچر بریڈلاہال لاہورمیں ہوا۔جس کی صدرات حضرت ذوالفقارعلی خان صاحب نے کی۔ قریباً 3گھنٹے کے اس لیکچر میں حضورؓ نے مسٹرلائڈجارج وزیرِ اعظم برطانیہ کے اس اعلان کہ آئندہ دنیاکاامن عیسائیت سے وابستہ ہے،کے ردّمیں اسلام کی حقانیت اورروشن مستقبل سے متعلق ٹھوس اومدلّل دلائل بیان فرمائے۔ہال حاضرین سے قریباً پُر تھا۔ ان حاضرین میں تعلیم یافتہ افراد بکثرت شامل تھے۔

16؍فروری کو دو افراد حضورؓ کے دستِ مبارک پر بیعت کر کے داخلِ سلسلہ عالیہ احمدیہ ہوئے۔ 17؍ فروری کو ایک مسلمان کنٹونمنٹ مجسٹریٹ نے حضورؓ سے ملاقات اور نصف گھنٹہ گفتگوکی۔

حضرت مصلح موعودؓ نے گذشتہ سال اسلامیہ کالج کے حبیبیہ ہال میں ہونے والےلیکچر’’اسلام میں اختلافات کاآغاز‘‘ میں ابتدائی تین خلافتوں میں ہونے والے واقعات وحالات کاذکرفرمایاتھا۔لیکن قلتِ وقت کے باعث آپؓ خلافتِ رابعہ کامفصل ذکرنہ فرماسکے تھے۔چنانچہ 17؍فروری کورات پونے آٹھ بجے مذکورہ کالج کے اُسی ہال میں مارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی کے تحت آپؓ نے ’’واقعاتِ خلافتِ علوی‘‘ کے عنوان سے ایک عظیم الشان لیکچرارشادفرمایا۔اس جلسہ کی صدارت جناب خان بہادرشیخ عبدالقادربیرسٹرایٹ لاء نے کی۔کالج کاہال سامعین سے مکمل پرتھا۔بعض ہندوشرفاءبھی تشریف لائے ہوئے تھے۔حضورؓ کے اڑھائی گھنٹہ کے انتہائی بصیرت افروزلیکچرکے بعدصدرِ جلسہ نے حضورِاقدسؓ کے تبحرِ علمی کااعتراف اورشکریہ ادا کیا اور کہا کہ حضور کی تحقیقات بالکل غیرمعمولی اورنرالے رنگ کی ہے۔ محض مطالعہ سے یہ باتیں حاصل نہیں ہوسکتیں۔ نیز کہا کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اس روانی سے کسی نے تاریخی معلومات کومسلسل بیان کیاہو۔اس معرکۃ الآراءلیکچرکی فوری اشاعت کے لیے سوسائٹی کی جانب سے موقع پرہی شرکائے لیکچرکو چندہ تحریک کی گئی۔گذشتہ سال کی طرح حضورؓ کا یہ تاریخی لیکچربھی نہایت مقبول ہوا۔

18؍فروری کوانٹرکالجیٹ احمدیہ سوسائٹی کے زیرِ انتظام شام ساڑھے سات بجے حضورؓ نے احمدیہ ہوسٹل لاہور میں’’مذہب اوراس کی ضرورت‘‘ کے عنوان پرخطاب فرمایا۔اس لیکچرمیں طلباء کی ایک کثیرتعدادشامل ہوئی۔اس پرمعارف لیکچرمیں حضورؓ نے انگریزی دانوں کے اعتراضات اورحالیہ علمی تحقیقات کومدِ نظررکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ہستی کاثبوت پیش کیا۔

19؍فروی کواحمدی تاجرانِ چرم نے ایک تبلیغی جلسہ کاانعقادکیا۔جس میں انہوں نے غیرازجماعت سوداگرانِ چرم کوخاص طورپرمدعوکیا۔یہ جلسہ بیرون دہلی دروازہ احاطہ میا ں سراج الدین صاحب میں منعقدہوا۔حضورؓ نے آنحضرتﷺ کی شانِ اقدس میں روح پرورخطاب فرمایا۔جس میں آپؓ نے بیان فرمایاکہ ہرایک مسلمان کووہ اعتقادرکھنے چاہئیں جن سے رسولِ کریمﷺ کی عزت وعظمت ظاہرہو۔یہ لیکچر قریباً اڑھائی گھنٹے جاری رہا۔اس لیکچرکوسن کر اکثر احباب چشم پرآب تھے۔ غیرازجماعت دوست بھی بے حدمتاثرتھے۔

20؍فروری کوحضورؓ نے نمازِ جمعہ احمدیہ ہوسٹل میں ہی پڑھائی اورخطبہ جمعہ ارشادفرمایاجس میں آپؓ نے جماعتِ احمدیہ لاہورکےہرفرد کوتبلیغ کرنے کی نصیحت فرمائی۔

22؍فروری کوحضورؓبذریعہ ٹرین امرتسرتشریف لے گئے۔اسٹیشن پرایک بہت بڑے مجمع نے آپؓ کاپرجوش استقبال کیا۔جہاں سے خلافتِ احمدیہ کے پروانوں کے جمِ غفیرمیں حضورؓنے ایک مکان پرورودفرمایا۔دوپہردوبجے حضورؓ لیکچرکے لیےبمقام منڈوہ گھنیالعل(بندے ماترم ہال) میں تشریف لائے۔یہ وہی ہال تھا جس میں ایک روزقبل مخالفینِ احمدیت نے جلسہ کرکے لوگوں کو اس لیکچرمیں شرکت سے روکاتھا۔ لیکن ’’بھلاخالق کے آگے خلق کی کچھ پیش جاتی ہے‘‘۔آج اس لیکچرسے مستفید ہونے کے لیے مسلمانوں،ہندؤں اور سکھوں کا اڑھائی ہزار کامجمع موجود تھا۔ حضرت مولاناذوالفقارعلی خان صاحب نے اس پروگرام کی صدرات کی۔ حضورؓ نے صداقتِ اسلام اورذرائع ترقی اسلام کے موضوع پر بصیرت افروزخطاب فرمایا۔بعد از لیکچر حضورؓ رات کی گاڑی سے لاہور واپس تشریف لے گئے۔

24؍فروری کوحضرت مصلح موعودؓ نے جماعتِ احمدیہ لاہور کے احباب ومستورات سے خطاب فرمایا جس میں عہدیداران کودوسروں کے جذبات کاخیال رکھنے اور افرادِ جماعت کوعہدیداران کی اطاعت و فرمانبرداری اورتبلیغِ سلسلہ کی نہایت لطیف پیرایہ میں تلقین فرمائی۔اس خطاب کے بعدحضورؓ بذریعہ ٹرین بٹالہ روانہ ہوئے اور امرتسر سے ہوتے ہوئے رات ایک بجے بٹالہ ورود فرمایا۔رات بٹالہ اسٹیشن پرہی قیام فرمایا۔اور اگلے روز تانگہ پربٹالہ سے قادیان روانہ ہوئے ۔نہرپرپہنچ کرحضورؓتانگہ سے اترکرپیدل چلنے لگے۔تھوڑی دیرہی چلنے کے بعدخدامِ سلسلہ قادیان سے اپنے آقاکی پیشوائی کے لئے حاضر ہونا شروع ہوگئے اور یہ سلسلہ قادیان تک جاری رہا۔

(ماخوذازالفضل12؍فروری تایکم مارچ1920ء،تاریخِ احمدیت جلد4صفحہ253تا255)

سفرِ پھیروچیچی وگورداسپور(1920ء)

یکم مارچ تا27؍مارچ حضرت مصلح موعودؓخرابی صحت کی وجہ سےتبدیلی آب وہواکی خاطربیرون ازقادیان مقیم رہے۔ ابتداءً حضورؓ دریائے بیاس کے کنارے آباد ایک گاؤں پھیروچیچی تشریف لے گئے۔اس گاؤں میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے زمانہ سے نہایت مخلص جماعت قائم ہوچکی تھی۔ یہ گاؤں قادیان کے شرقی جانب قریباً 15 کلومیٹر کی مسافت پرواقع ہے۔ 5؍مارچ کو آپؓ قادیان تشریف لائے اورخطبہ جمعہ ارشادفرمانے اور نمازِجمعہ پڑھانے کے بعد شام کوواپس پھیروچیچی تشریف لے گئے۔ ازاں بعد آپؓ گورداسپور بھی تشریف لے گئے۔

13؍مارچ تک حضورؓ تبدیلی آب و ہوا کے لیے گورداسپور میں مقیم رہے۔ لیکن صحت بہتر نہ ہوئی ۔ 13؍مارچ کوہی حضورؓگاڑی پر سوار ہو کر پٹھان کوٹ پہنچے۔یہاں آپؓ مس ہیلی کے بنگلہ میں فروکش ہوئے۔ اسی روز حضورؓ بعد نمازِ عصر پٹھان کوٹ سے دومیل کے فاصلہ پرواقع ایک خوبصورت پہاڑی مقام ’’چکی نالہ‘‘ پرسیرکی غرض سے تشریف لے گئے۔ یہاں ایک دریائی نالہ بہتا ہے۔ جو دریائے بیاس سے نکلتاہے۔ مغرب کی نمازکے بعدحضورؓ واپس تشریف لائے۔ 14؍ اور 17؍مارچ کوبھی بوقتِ صبح حضورؓ، حضرت اماں جانؓ کولے کر اسی مقام پربغرضِ سیرتشریف لے گئے۔21؍مارچ کو حضورؓ حضرت اماں جانؓ کے ہمراہ تانگے پرسیرکے لیے مادھوپور اور شاہ پورکنڈی تک تشریف لے گئے۔یہ دونوں مقامات پٹھان کوٹ سے شمال کی جانب قریباً 15 کلومیٹر کی مسافت پرواقع ہیں۔

27؍مارچ کوقریباًگیارہ بجےحضورؓکی پٹھان کوٹ سے قادیان واپس تشریف آوری ہوئی۔ان ایام میں قادیان سے متفرق صیغہ جات کے افسران حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضرہوکرسلسلہ کے مختلف انتظامی امورکی بابت ہدایات لیتے رہے۔ نیز قریبی جماعتوں کے احباب بھی بغرضِ ملاقات وفیضیابی حاضرہوتے رہے۔

(ماخوذازالفضل29،11،8،4مارچ1920ءوالحکم28،21،14مارچ1920ء)

سفرِ سیالکوٹ و امرتسر(1920ء)

حضرت مصلح موعودؓ7؍اپریل1920ءبدھ کے روزقادیان دارالامان سے سیالکوٹ کے لیے عازمِ سفرہوئے۔ حضورؓ نے اپنی عدم موجودگی میں حضرت مولاناشیرعلی صاحبؓ کوامیرمقامی جبکہ حضرت قاضی سیدامیرحسین صاحب کوامام الصلوٰۃ مقررفرمایا۔ حضورؓ کے ہم راہ ممبرانِ قافلہ میں حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ،حضرت صاحبزادہ مرزاشریف احمدصاحبؓ، حضرت مولاناعبدالرحیم صاحب دردؓ، حضرت ڈاکٹرحشمت اللہ خان صاحبؓ، مرزاگل محمدصاحب اوربعض دیگرخدامِ سلسلہ بھی شامل تھے۔ جبکہ بیرون ازقادیان سے حضرت مولاناسیدسرورشاہ صاحبؓ، حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ، حضرت مولاناذوالفقارعلی خان صاحب اورحضرت سیدزین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے بھی حضورؓ کے ہم راہ اس سفرمیں شرفِ شمولیت حاصل کرناتھا۔

9؍اپریل کوحضورؓ نے نمازِ جمعہ مسجداحمدیہ سیالکوٹ میں پڑھائی۔ خطبہ جمعہ میں آپؓ نے بیان فرمایاکہ دشمن کی زیادتی کے وقت خداتعالیٰ سے جوتعلق ہو، دشمن کی کمی کے وقت بھی ویسی ہی کیفیت ہونی چاہیے۔ جمعہ سے قبل حضورؓ کی آمدکےباعث لاہور،فیروزپور،سرہند،گوجرانوالہ، گجرات، جہلم اوردیگرکئی جماعتوں سے احباب سیالکوٹ آچکے تھے۔ مستورات کی ادائیگی نمازکابھی انتظام تھا۔ احبابِ جماعت کی تعداداس قدر تھی کہ مسجداوراس کے ساتھ کے احاطہ میں نہ سماسکے۔ لہٰذاساتھ کے مکانوں کی چھتوں پربھی احباب کوبیٹھناپڑا۔ نمازِ جمعہ کے بعدمصافحہ اوربیعت ہوئی۔ اس موقع پرسترسے زائدمردوخواتین حضورؓ کے دستِ مبارک پربیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔

اگلے روز10؍اپریل صبح 8بجےحضورؓ نے احمدیہ ہال کاسنگِ بنیادرکھا۔ سنگِ بنیادرکھنے سے قبل آپؓ نے چندمنٹ مختصرخطاب بھی فرمایا۔ بعدازاں حضورؓ نے اپنے دستِ مبارک سے تین اینٹیں سنگِ بنیادکی جگہ پرنصب فرمائیں اوردعاکروائی۔

اسی روزشام پانچ بجےحضرت مصلح موعودؓ نے سیالکوٹ میں پہلا لیکچر’’صداقت حضرت مسیح موعودؑ‘‘کے موضوع پرارشادفرمایا۔ حضرت مصلح موعودؓ شام پانچ بجےلیکچرگاہ تشریف لے گئے۔ اس جگہ کوجماعتِ احمدیہ سیالکوٹ نے شامیانے لگاکرجھنڈیوں سے آراستہ کیاتھا۔ اس جلسہ کی کارروائی حضرت چودھری نصراللہ خان صاحبؓ کی زیرِ صدارت ہوئی۔ حضورؓ کایہ بصیرت افروزلیکچردوگھنٹےجاری رہا۔ حاضرین کی تعدادتین سے چارہزارتھی۔ جن میں معززینِ شہر، سرکاری اعلیٰ عہدیدار، وکلاء اوربہت سے غیرمسلم تعلیم یافتہ افرادبھی شامل تھے۔

11؍اپریل بروزاتوارحضرت مصلح موعودؓ نے سیالکوٹ میں دوسراپبلک لیکچرارشادفرمایا۔ اس لیکچرکے صدرحضرت ذوالفقارعلی خان صاحب تجویزہوئے۔ اس معرکہ آراءلیکچرمیں حاضرین کی تعدادگذشتہ روزسے بھی زائدتھی۔ جن میں بکثرت ہندواورسکھ دوست بھی شامل تھے۔ اس لیکچر کے دوران حضرت مصلح موعودؓ کوایسامحسوس ہواکہ ایک نورآسمان سے اتراہے جوآپؓ کے اندرداخل ہوگیاہے اورآپؓ کے جسمِ مبارک سے ایسی شعائیں نکلنے لگی ہیں کہ آپؓ نے حاضرین کواپنی جانب کھینچناشروع کردیاہے اوروہ جکڑے ہوئے آپؓ کی طرف کھنچے چلے آرہے ہیں۔

بعدازلیکچرحضورؓ حضرت میرحامدشاہ صاحبؓ کی دعوت پرحضرت میرحسام الدین صاحبؓ کی مسجد(مسجدمبارک)اوربعدازاں اُس مبارک، تاریخی اورخوش قسمت گھرمیں تشریف لے گئے جہاں مامورِ من اللہ مسیح الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام ٹھہراکرتے تھے۔ اُس مکان میں ایک دوست کے سوال پرآپؓ نے ایک گھنٹہ تقریرفرمائی اورپھرکھاناتناول فرمایا۔ کھانے کے بعدحضرت میرحسام الدین صاحبؓ کے خاندان کے بعض مردوں اورعورتوں نے بیعت کی۔

اگلےروز12؍اپریل کوحضورؓنےمستورات کے اصرارپرجودوردورسے کثرت سے آئی ہوئی تھیں، پنجابی زبان میں ایک گھنٹہ خطاب فرمایا۔ یہ لیکچرفرائضِ مستورات کے نام سے شائع ہوا۔ حضورؓ نےبعدازخطاب بیعت بھی لی۔ اسی روزسیالکوٹ سے بذریعہ ٹرین روانہ ہوکراڑھائی بجے دوپہر لاہور رونق افروز ہوئے۔

لاہورسے واپسی پر14؍اپریل شام 4بجے بندے ماترم ہال میں حضورؓ کالیکچر’’دنیا کاامن وامان اسلام سے وابستہ ہے‘‘ کے موضوع پرتھا۔ وقتِ مقررہ پرپروگرام شروع ہوا۔ صدرات حضرت چودھری محمدظفراللہ خان صاحبؓ نے فرمائی۔ بعض شرپسندغیرازجماعت افرادلیکچرسے قبل ہی دورانِ لیکچرفسادبرپاکرنے کاارادہ ٹھان چکے تھے۔ چنانچہ ان شریروں کاٹولہ امرتسرکی ایک مسجدخیرالدین کے پیش امام مولوی عطاء اللہ امرتسری(بعدمیں مولاناعطاء اللہ شاہ بخاری) کی سرکردگی میں ہال میں بظاہرلیکچرسننے کی نیت سے داخل ہوگیا۔ ابتدا میں ہی حضرت چودھری صاحب کےصدارتی کلمات کی ادائیگی کے وقت مذکورہ مولوی صاحب نے اٹھ کرکہاکہ ہم اسلام کے متعلق توسنیں گے لیکن مرزائیت کے متعلق نہیں سنیں گے۔ حضرت چودھری صاحبؓ نے جواب دیاکہ جوسنایاجائے گاسنناچاہیے۔ مولوی صاحب موصوف نے کہاکہ ہم نہیں سنیں گے۔ اس پرحضرت چودھری صاحبؓ نے فرمایاکہ جونہیں سنناچاہتے بہترہے کہ وہ تشریف لے جائیں۔ لیکن یہ گروہ فسادکی نیت سے بیٹھارہا۔ حضورؓ نے جب لیکچرارشادفرماناشروع کیاتوآپؓ نے آغازمیں تمہیداً بیان فرمایاکہ خداتعالیٰ اپنے بندوں سے ماں سے بھی زیادہ محبت کرتاہے (بخاري، كتاب الأدب، باب رحمة الولد وتقبيله ومعانقته)جس پرعطاء اللہ صاحب نے مذکورہ حدیث کے حوالہ کامطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ کتاب کانام، باب، جلد، صفحہ، سطروغیرہ بتائی جائے۔ حضورؓ نے فرمایاکہ اس وقت آپ لیکچرسنیں اوراگرحوالہ کی ضرورت ہے تومکان پرتشریف لے آئیں۔ جس پرعطاء اللہ صاحب اوران کے ساتھیوں نے شوروغل کرناشروع کردیااورلیکچرکوہرطرح سے رکوانے کی کوشش کی۔ جب کان پڑی آوازسنائی نہ دیتی تھی توحضورؓ نے حافظ روشن علی صاحبؓ کوتلاوت کافرمایا۔ جس کے نتیجہ میں کسی قدرخاموشی ہوئی۔ لیکن لیکچرکے دوبارہ شروع ہونے پران مخالفین نے اُسی روش کودوبارہ اپناتے ہوئے طوفانِ بدتمیزی برپاکردیا۔فتنہ پردازوں کے اس ہنگامے کے دوران حضرت مصلح موعودؓ نے بآوازِ بلندفرمایاکہ ہماری جماعت کے سب آدمی بیٹھے رہیں اورکوئی نہ بولے۔ چنانچہ اس شورمیں اگرکوئی احمدی اٹھابھی تھاتووہ بھی بیٹھ گیا۔ اس دوران جب احمدیوں کواحساس ہواکہ مخالفین حضورؓ پرخشت باری کاارادہ کررہے ہیں توبعض دوست اپنے آقاکے آگے کھڑے ہوگئے لیکن حضورؓ نے انہیں حکماًبٹھادیا۔ اسی طرح حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحب اوربابوعبدالحمیدصاحب نے خطرہ بڑھتادیکھ کریہ بھی عرض کیاکہ لیکچربندکردیاجائے۔ مگرحضورؓ نے بڑے جلالی رنگ میں فرمایاکہ’’کیاتم مجھے بزدل بناتے ہو‘‘ اوراسلام اورآنحضرتﷺ کی شان میں اپنےلیکچرکوجاری رکھا۔ بالآخرپولیس نے مخالفین کو ہال سے باہرنکال دیااورحضورؓ کالیکچرنہایت کامیابی سے اختتام پذیرہوا۔ ہال کے اندرآنحضرتﷺ کی شان اورعظمت میں حضورؓ خطاب فرمارہے تھے اورہال کے باہرمخالفین غلیظ اوربے ہودہ زبان کااستعمال کرتے ہوئے سبّ وشتم کررہے تھے۔ مولوی عطاءاللہ صاحب باہرنکل کرقریبی مدرسہ اسلامیہ کی دیوارپرچڑھ گئے اوربے ہودہ گوئی سے بعض نہ آئے۔ لیکچرکے بعدحضورؓ نے ہال میں بیٹھے افرادکاشکریہ اداکیاجنہوں نے شرافت دکھائی اورآخرتک لیکچرسے مستفیض ہوئے۔ بعدلیکچرحضورؓ نہایت وقاراورمتانت کے ساتھ ہال کے اُس دروازہ سےجہاں مخالفین کامجمع تھا، اپنی رہائش گاہ پرتشریف لے گئے۔ رہائش گاہ پربھی مخالفین نے نعرے بازی کی۔ ہال کے باہراس مجمع میں مولوی ثناء اللہ صاحب بھی نظرآئے جنہیں بعض ہمنواؤں نے مبارکباددی کہ تمہارے شاگردعطاء اللہ نے خوب کام کیا۔ ہال میں بیٹھے بعض معززہندواورسکھ صاحبان نے کہاکہ غصہ توہمیں ہوناچاہیے تھاکہ اسلام کے بالمقابل ہمارے مذہب کانقص بیان کیاجارہاتھا۔

امرتسر میں ایک دن قیام فرمانے کے بعداگلے روز15؍اپریل کوحضورؓ کی قادیان دارالامان میں مظفرومنصور مراجعت ہوئی۔

(ماخوذاز الفضل5؍اپریل تا19؍اپریل1920ء، تاریخِ احمدیت جلد4صفحہ255-256-313)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button