خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍ فروری 2021ء

جماعت احمدیہ کےدیرینہ خادم محترم چودھری حمیداللہ صاحب وکیل اعلیٰ و صدر مجلس تحریک جدید کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ غائب

انتہائی وفاداری کے ساتھ انہوں نے تمام حق ادا کیے

پاکستان میں احمدیوں کی شدید مخالفت کے پیش نظر خصوصی دعاؤں کی مکرر تحریک۔ عالمی وبا کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے مکمل حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍ فروری 2021ء بمطابق 12؍تبلیغ 1340 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے مورخہ 12؍ فروری 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم صہیب احمد صاحب کے حصے میں آئی۔

تشہد، تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج مَیں جماعت کےایک دیرینہ خادم مکرم چودھری حمیداللہ صاحب کاذکرِخیر کرناچاہتاہوں جو 7؍ فروری کو 87 برس کی عمرمیں وفات پاگئے۔

اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مکرم چودھری صاحب بابو محمد بخش صاحب اور عائشہ بی بی صاحبہ کے ہاں 1934ء میں قادیان میں پیداہوئے۔ اِن کےوالد جو بھیرہ کےنواحی علاقے کےرہنےوالےتھے،انہوں نے 1929ءمیں ایک خواب میں یہ نظارہ دیکھا کہ رسول کریمﷺ ایک مصلّے پر تشریف فرما ہیں اور مجھ سےفرماتے ہیں کہ تم جس کرسی پربیٹھےہو اس کی چولیں ڈھیلی ہوچکی ہیں۔ پھردیکھا کہ رسول کریمﷺ کے دستِ مبارک میں ایک نئی دفتری کرسی ہے جس کے بازو آگے کو بڑھےہوئے ہیں فرمایا اس کرسی پر بیٹھ جاؤ یہ احمدیت کی کرسی ہےیعنی بادلائل اور حقیقی اسلام۔ یہ ان کے والد کے قبولِ احمدیت کا واقعہ ہے۔

چودھری صاحب نے ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی۔ آٹھویں کےبعد جب 1946ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے وقف کی تحریک فرمائی۔ اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے آپ کی والدہ آپ کو حضورؓ کی خدمت میں لےگئیں۔ 1949ء میں انہوں نے میٹرک کیا اور وکالت دیوان کی ہدایت پر ربوہ تشریف لائے۔ تحریری امتحان کےبعد حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے انٹرویو لیا۔حضورؓ کی ہدایت پر ان کی تعلیم کا سلسلہ چلتا رہا۔ بی ایس سی میں صوبےبھرمیں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ پھر پنجاب یونی ورسٹی لاہور سے ایم اے ریاضی کیا۔ 1955ء میں تعلیم الاسلام کالج میں استاد مقررہوئے۔ ان کی شادی 1960ء میں رضیہ خانم صاحبہ بنت عبدالجبار خان صاحب آف سرگودھا سے ہوئی۔ 1974ء میں کالج کے قومیائے جانے کےبعد حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی ہدایت پر آپ نے کالج سے استعفیٰ دیا اور ناظر ضیافت مقرر کیے گئے۔1982ءمیں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نےآپ کو وکیلِ اعلیٰ تحریکِ جدید مقرر فرمایا۔ 1989ء تک ایڈیشنل صدر اور پھر صدر مجلس تحریکِ جدید مقررہوئے۔ خلافتِ ثالثہ میں آپ کو امیر مقامی بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ 1969ء سے1973ء تک بطور صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ خدمت کی توفیق پائی۔آپ کو صدر مقرر فرماتے ہوئے حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے جوباتیں بیان فرمائیں وہ حضرت مسیح موعودؑ کی جسمانی و ر وحانی اولاد اور جماعتی کام کرنے والے تمام لوگوں کو اپنے پلّے باندھنی چاہئیں۔ فرمایا کہ جنہوں نے مجلس کی صدارت کا چارج لیا ہے وہ حضرت مسیح موعودؑ کے خونی رشتے کےلحاظ سے خاندان کے فرد نہیں ہیں لیکن روحانی رشتے کےلحاظ سے ہرشخص اپنی ہمت، کوشش، دعا اور عاجزی کےنتیجےمیں حضرت مسیح موعودؑ کی روحانی اولاد بننے کےقابل ہے اور سچا اور حقیقی بیٹا اسے بننا چاہیے۔ بہت سے لوگ ہیں جو جسمانی اولاد سے بھی زیادہ آگے نکل جاتے ہیں۔ جسمانی تعلق تو ایک دنیاوی تعلق ہے،مذہب یا روحا نیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔حضرت مسیح موعودؑ کا اپنی اولاد سے اصل تعلق روحانی تعلق ہی ہے۔ اسی واسطے کہا گیا ہےکہ انبیاء کسی کے وارث ہوتے ہیں نہ آگے ورثے میں کسی کو کچھ دیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی جسمانی اولاد کے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا کوقبول کیا اور ان کو روحانی وجود بنادیا۔ پس ورثے میں کسی کو عزت اور احترام نہیں ملا کرتا۔ روحانی تعلق نام ہے تقویٰ اختیار کرنے کا، اللہ تعالیٰ سےذاتی تعلق پیدا کرنے اور اس کےلیے ایثارو قربانی کرنےکا۔ حضورِانور نے فرمایا کہ ہرواقفِ زندگی،خاندان حضرت مسیح موعودؑ سے تعلق رکھنے والے اور ہر کام کرنے والے کو چاہیے کہ چودھری صاحب کے درجات کی بلندی کےلیے دعا کرےکہ ان کے طفیل ہمیں بھی یہ سنہری الفاظ سننے اور سمجھنے کو ملے۔

اجتماع خدام الاحمدیہ 1970ء کےموقعے پر حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نےفرمایا کہ مَیں نے ایک مخلص بچے کو، جس کا حضرت مسیح موعودؑ سےجسمانی تعلق تو نہ تھا لیکن روحانی تعلق بہت پختہ تھا خدام الاحمدیہ کی صدارت سونپی۔ اسی طرح آپ کی صدارت کے اختتام پر خصوصی تقریب میں حضورؒ نے فرمایاکہ مجلس خدام الاحمدیہ کی زندگی قیامت تک کےلیے ممتد ہےکیونکہ اس کا تعلق نبی اکرمﷺ کے مہدی کی اس جماعت کے ساتھ ہے جس پرقیامت تک کی ذمہ داریا ں ڈالی گئی ہیں۔ پس ہم کہیں ٹھہرنہیں سکتے کیونکہ ٹھہرنا موت کے مترادف ہے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ عزیز بھائی اور بچےحمیداللہ صاحب کوجس رنگ میں انہوں نے ذمہ داریوں کو نبھایااس پر احسن جزا دے۔

1974ء کے ہنگامی حالات میں بھی چودھری صاحب نے اہم خدمات سرانجام دیں۔ 1977ء تا 1987ء بطور ناظر ضیافت کام کی توفیق ملی۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی لندن ہجرت کے بعد حضورؒ کے ارشاد پر ایک سال سے زائد عرصہ یہاں رہ کر جماعتی مرکزی نظام قائم کرنےمیں کافی کردار ادا کیا۔ 1982ء سے 1999ء تک بطور صدر مجلس انصاراللہ خدمت کی توفیق پائی۔صدسالہ جوبلی منصوبہ بندی کمیٹی 1989ء کے صدر کی حیثیت سے کام کیا۔2005ء میں مرکزی کمیٹی خلافت احمدیہ صدسالہ جوبلی 2008ء کے صدر مقرر ہوئے۔اپریل 2003ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی وفات کے موقعے پر انتخابِ خلافت کے اجلاس کی صدارت کا اعزاز بھی نصیب ہوا۔ 1973ء سے اب تک آپ بطور افسر جلسہ سالانہ کام کی توفیق پارہے تھے۔ جلسہ سالانہ قادیان1991ء کے موقعے پر انہیں افسرجلسہ سالانہ مقرر کیا گیا تھا۔

آپ کے پسماندگان میں اہلیہ کےعلاوہ ایک بیٹا اور دوبیٹیاں شامل ہیں۔آپ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ شادی کے بعد آپ کو جو بھی الاؤنس ملتا تھا اس میں سے سب سے پہلے چندہ نکالتے تھے۔ آخری دم تک تمام نمازیں پوری اور وقت پر پڑھتے۔انہیں دیکھ کر مجھے بھی نمازِ تہجد کی عادت ہوگئی تھی۔مَیں نے سب کچھ ان سے سیکھا۔ بہت ستاری والی طبیعت تھی۔ آپ ایک شفیق خاوند اور شفیق باپ تھے۔ کسی رشتے دار سے ناراض نہ ہوتے، صلح میں پہل کرتے۔ آپ کی بیٹی کہتی ہیں کہ آپ نے کبھی ہماری امی سے اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ ابو صرف ہمارے ابو نہیں بلکہ ہمارے دوست بھی تھے۔ ایک مرتبہ جلسہ سالانہ کے معائنے کی تقریب میں حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے ان کو کہا کہ آپ میرے ہی پیالے میں میرے ساتھ کھانا کھالیں۔ دنیاوی چیزوں سے انہیں بالکل محبت نہیں تھی۔ ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ آپ ہمیشہ نمازوں اور خلیفۂ وقت کا خطبہ،ان دو باتوں پر زور دیتے تھے۔

جمیل الرحمٰن رفیق صاحب لکھتےہیں کہ آپ اصول کے بڑے پکے لیکن شفقت کرنےوالےتھے۔قابلِ امداد کارکنان کی درپردہ امداد کیا کرتے۔بہت محنتی اور علمی طبیعت تھی۔جماعتی اموال نہایت احتیاط سے خرچ کرتے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ جب مَیں نے ناظران اور وکلا کوکہا تھا کہ باہر جماعتوں میں جائیں اور لوگو ں کو ملیں اور سلام پہنچائیں تو چودھری صاحب کے سپرد سرگودھا کا ضلع ہوا تھا۔ آپ بےشمار دفعہ کئی کئی کلومیٹر پیدل چل کر ہر گھر تک پہنچے اور پیغام پہنچایا۔ سادگی انتہا کی تھی چنانچہ دورے کےدوران جماعت کو ہدایت تھی کہ کوئی پروٹوکول نہ ہو۔

جب بھی آپ کے گھر کوئی جاتا تو خود مہمان نوازی کرتے۔ لئیق عابد صاحب کہتے ہیں کہ ہرکام وقت پر کرنے کی عادت اس قدر پختہ تھی کہ گویا وقت پر سوار ہوں۔ کبھی بھی کوئی ڈرافٹ،بل یا خط مکمل پڑھے بغیر دستخط نہیں کیا کرتے تھے۔ حضورِانورنے فرمایا کہ یہ افسروں کےلیےبڑی ضروری چیز ہے۔ سمیع اللہ سیال صاحب کہتے ہیں کہ اپنے اوصاف کےلحاظ سے وہ ایک عظیم انسان تھے۔ ایک ہمدرد، باہمت، ہمہ وقت خدمتِ دین کرنے والےاور خلافت سے بےپناہ عشق رکھنے والے وجود تھے۔ یہ بھی ان کی عادت تھی کہ نئے واقفین کی نہایت عمدگی سے تربیت کیا کرتے تھے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ مَیں نے بھی بعض واقفین کو ان کے سپرد کیا تھا ان کی بھی انہوں نے بڑی اچھی طرح تربیت کی۔

حلیم قریشی صاحب کہتے ہیں کہ انتظامی معاملات اور مالی معاملات پر بڑی سخت گرفت تھی۔ ماجد طاہر صاحب وکیل التبشیر لندن لکھتے ہیں کہ آپ کا اٹھنا، بیٹھنا، کھڑے ہونا، چلنا، بولنا اور خاموش رہنا خلیفۂ وقت کے ماتحت تھا۔

حضورانور نے کئی احباب کے رقم فرمودہ مشاہدات پیش کرنے کےبعد فرمایا کہ مَیں نے یہ چند باتیں لی تھیں،بےشمار باتیں اَور بھی ہیں۔ جو بھی باتیں بیان ہوئی ہیں ان میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ ان کے ساتھ مَیں نے کام بھی کیا ہے بڑے نرم انداز میں کام سکھایا کرتے تھے۔پھر جب ناظرِ اعلیٰ ہوا ہوں توان کاا طاعت کا نیا رویہ نظر آیا اور خلافت کے بعد تو انتہائی وفاداری کے ساتھ انہوں نے تمام حق ادا کیے۔ جامعہ احمدیہ جونیئر سیکشن کو سینئرسیکشن میں مدغم کرنے کے متعلق مَیں نے ان سے رائے مانگی تو انہوں نے رائے دی تھی کہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن جب مَیں نےفیصلہ کردیا تو فوری طورپر،اسی وقت، چوبیس گھنٹے کےاندراندر عمل درآمد کروایا اور مجھے رپورٹ بھی دی۔

اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور خلافت کو ان جیسے سلطانِ نصیر ملتے رہیں۔

حضورِانور نے فرمایا کہ پاکستان کے حالات کے متعلق بھی دعاکرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد وہاں کے حالات بدلے۔ آمین

دوسری اہم بات مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وبا جو اس وقت پھیلی ہوئی ہے اس میں احمدی بھی احتیاط کا پورا حق ادا نہیں کر رہے۔ پوری احتیاط کے ساتھ ماسک پہنیں۔بلا ضرورت سفر سے بچیں۔ سماجی فاصلہ رکھیں اور حکومت کی جاری کردہ ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ اس وبا کو جلد دور کرے اور جو احمدی اور دوسرے بھی بیمار ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو شفا عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button