اختلافی مسائل

کیا ’’بروز‘‘ غیر اسلامی اصطلاح ہے اور ’’خلافت باطنی‘‘ سے کیا مراد ہے؟

حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ (پیدائش1703ء انتقال1762ء) مسلمانان ہند و پاک کے دورِ زوال کی اہم ترین شخصیت ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں جب مسلمانوں کا زوال شروع ہوا تو بہت سے لوگوں نے سنجیدگی کے ساتھ زوال کے اسباب پر غور کرنا شروع کیا۔ ان لوگوں میں عہد مغلیہ کے مشہور عالم اور مصنف کے طور پر آپ کا نام نمایاں ہے۔ آپ نے کئی کتب تصنیف فرمائیں۔ ایک مشہور کتاب ’’فیوض الحرمین‘‘ہے۔ اس کا اردو ترجمہ پروفیسر محمد سرور نے کیا ہے۔ اس کے پیش لفظ میں جمیل نقوی حنفی لکھتے ہیں کہ

’’شاہ صاحب نے حجاز کا سفرفر مایا دو سال کے قریب آپ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں قیام پذیر رہے۔ ’’فیوض الحرمین‘‘ اسی سفر کی یادگار ہے۔ اس میں شاہ صاحب کے روحانی مکاشفات ہیں۔ تصوف وسلوک کے اسرار ہیں۔ وحدت الوجود اور تخلیق کائنات کے مباحث ہیں۔ حکمت وفلسفہ کے رموز نکات ہیں اور ساتھ ہی اس وقت کے رائج دینی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ حنفی فقہ کی چند نادر خصوصیات کا ذکر ہے۔ ‘‘

حضرت شاہ صاحبؒ ’’ فیوض الحرمین‘‘ میں لکھتے ہیں کہ

’’یہی وہ تدلّی ہے جسے صوفیاء نے ’’حقیقتِ محمدیہ ‘‘کا نام دیا ہے اور اس کو وہ’’قطب الاقطاب‘‘ اور ’’نبی الانبیاء‘‘ کا بھی نام دیتے ہیں۔ غرضیکہ یہ ’’حقیقت محمدیہ ‘‘ عبارت ہے اللہ تعالیٰ کی اس تدلّی کے مظہر بشری میں ظہور سے۔ چنانچہ جب کبھی عالم مثال میں اس تدلّی کی حقیقت متمثل ہوتی ہے تا کہ وہ عالم مثال سے بنی نوع انسان کے لئے عالم اجسام میں ظاہر ہو تو ’’حقیقت محمدیہ ‘‘کے اس بروز کو قطب یا نبی کا نام دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ہوتا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کوئی شخص لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوتا ہے تو ’’حقیقت محمدیہ ‘‘ کا اس شخص کی ذات کے ساتھ اتصال ہوجاتا ہے اور جب وہ اس زندگی میں اپنا فرض پورا کر لیتا ہے اور لوگوں سے منہ موڑ کر اس دنیا سے اپنے رب کی رحمت کی طرف لوٹتا ہے تو یہ ’’حقیقت محمدیہ ‘‘ اس کی ذات سے الگ ہوجاتی ہے‘‘۔

(فیوض الحرمین (اردو )از شاہ ولی اللہ ترجمہ محمد سرور صفحہ 120تا121)

’’اور جو بھی قطب، محدث یا نبی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے کلام کرتا ہے تو اس کو اسی ’’حقیقت محمدیہ‘‘ سے حصہ ملتا ہے۔ ‘‘

(فیوض الحرمین (اردو )از شاہ ولی اللہ ترجمہ محمد سرور صفحہ 162)

شاہ ولی اللہؒ ایک انتہائی لطیف کیفیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

’’میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ کی مثالی صورت میرے سامنے سے غائب ہوگئی اور اس کی بجائے آپ کی روح کی حقیقت ان تمام لباسوں سے جو اس نے پہن رکھے تھے یہاں تک کہ تسمے کے بعض اجزاء سے بھی منزہ اور مجرد ہوکر میرے سامنے تجلی پذیر ہوئی۔ اس وقت میں نے آپؐ کی روح کو اسی طرح پایا جس طرح میں نے بعض اولیائے متقدمین کی ارواح کو دیکھا تھا اور اس کے بعد خود میری روح سے آپؐ کی روح سے ملتی جلتی ایک مجرد صورت ظاہر ہوئی۔ اور اس وقت میں نے اس قدر جذب وشوق اور رفعت وبلندی کا مشاہدہ کیا کہ زبان اس کو بیان نہیں کر سکتی۔‘‘

(فیوض الحرمین (اردو )از شاہ ولی اللہ ترجمہ محمد سرور صفحہ157)

رسول کریمﷺ کی شان کے ظہور کی صورت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

’’میں نے دیکھا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف اللہ تعالیٰ کی ایک خاص نظر ہے اور گویا یہی وہ نظر ہے جو حاصل مقصود ہے آپؐ کے حق میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کہ ’’اگر تو نہ ہوتا تو میں افلاک کو پیدا ہی نہ کرتا‘‘یہ معلوم کرکے میرے دل میں اس نظر کے لئے بڑا اشتیاق پیدا ہوا۔ اور مجھے اس نظر سے محبت ہوگئی چنانچہ اس سے یہ ہوا کہ میں آپؐ کی ذات اقدس سے متصل ہوا اور آپؐ کا اس طرح سے طفیلی بن گیا جیسے جوہر کے عرض طفیلی ہوتا ہے۔ غرضیکہ میں اس نظر کی طرف متوجہ ہوا اور میں نے اس کی حقیقت معلوم کرنی چاہی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں خود اس نظر کا محل توجہ اور مرکزبن گیا۔ اس کے بعد میں نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ نظرِ خاص اس کے ارادہ ظہور سے عبارت ہے اور اس سلسلہ میں ہوتا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی شان کو ظاہر کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس شان کو پسند کرتا اور اس پر اپنی نظر ڈالتا ہے۔ اب صورت یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی شان ایک فردِ واحد کی شان نہیں۔ بلکہ آپؐ کی شان عبارت ہے ایک عام مبدائے ظہور سے جو تمام بنی نوع انسان کے قوالب پر پھیلا ہوا ہے۔ اور اسی طرح بنی نوع انسان کی حیثیت ایک اور مبدائے ظہور کی ہے جو تمام موجودات پر حاوی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نبیﷺ کل موجودات کی غایت الغایات اور ظہورِ وجود کے نقاط کا آخری نقطہ ہیں چنانچہ سمندر کی ہر موج کی حرکت اسی لئے ہے کہ آپؐ تک پہنچے۔ اور ہر سیلاب کو یہی شوق سمایا ہوا ہے کہ آپؐ تک اس کی رسائی ہو تمہیں چاہیے کہ اس مسئلہ میں خوب غور وتدبر کرو۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ بڑا ہی دقیق ہے۔ ‘‘

(فیوض الحرمین (اردو )از شاہ ولی اللہ ترجمہ محمد سرور صفحہ 187تا188)

آپ نے خلافت باطنی کا ذکر کیا جس میں قتال وغیرہ نہیں۔ مکی دور میں قتال نہیں تھا۔ اس لیے اس دور سے باطنی خلافت کے قواعد اور احکا م اخذ ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

’’خلیفہ باطن اور اس کے داعی اور سفیر میں فرق یہ ہے کہ خلیفہ باطن کے لئے ضروری ہے کہ وہ عالم ہو اور اس کے علم کا دائرہ وسیع ہو اور اسی طرح وہ وسیع الکلام بھی ہو اور جہاں تک داعی کا تعلق ہے۔ اس کے پاس تو خلیفہ باطن کی طر ف سے ایک لکھا ہوا دستور العمل ہونا چاہیے …خلافت باطنی میں جو داعی اور سفیر بھیجے جاتے ہیں اور ان کے متعلق جو قواعد واحکام ہیں، ان میں سے بیشتر قواعد واحکام کا ماخذ رسول اللہﷺ کا وہ طریق کار ہے جو ہجرت سے قبل مختلف قبائل کی طرف آپؐ کا اپنے داعی اور سفیر بھیجنے کا تھا تم اس چیز کو اچھی طرح سے سمجھ لو اور اس میں خوب تدبر کرو۔‘‘

(فیوض الحرمین (اردو )از شاہ ولی اللہ ترجمہ محمد سرورصفحہ 239تا240)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’اب اس زمانہ میں جس میں ہم ہیں ظاہری جنگ کی مطلق ضرورت اور حاجت نہیں۔ بلکہ آخری دنوں میں جنگ باطنی کے نمونے دکھانے مطلوب تھے اور روحانی مقابلہ زیر نظر تھا ……اس وقت جو ضرورت ہے۔ وہ یقیناً سمجھ لو۔ سیف کی نہیں بلکہ قلم کی ہے۔ ہمارے مخالفین نے اسلام پر جو شبہات وارد کیے ہیں اور مختلف سائنسوں اور مکائد کی رو سے اللہ تعالیٰ کے سچے مذہب پر حملہ کرنا چاہاہے۔ اس نے مجھے متوجہ کیا ہے کہ میں قلمی اسلحہ پہن کر اس سائنس اور علمی ترقی کے میدان کار زار میں اتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا کرشمہ بھی دکھلاؤں‘‘۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 58تا60)

(مرسلہ:ابن قدسی)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button