متفرق مضامین

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد اور ازواج

(سعید انور۔ بریڈفورڈ یوکے)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک شعر ہے :

کس طرح تیراکروں اے ذوالمنن شکر و سپاس

وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کارو بار

میرے جیسے کم علم اورکمزور انسان کے لیے تو اس قاد ر مطلق کا شکر ادا ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن جب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پاکیزہ جماعت پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنے مولیٰ کے حضور اس جماعت کے لیے کی گئی متضرعانہ دعاؤں کے طفیل ہونے والی برکات اور انعامات پرغور کرنے لگوں تو اپنی کم مائیگی کا احساس اس قدر ہوتا ہےکہ اس کے حضور سجدہ ریز ہونے کے علاوہ کوئی اور صورت نظر نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کی پردہ پوشی فرماتے ہوئے ہمیں اپنی بے شما برکتوں سے ہمیشہ نوازتا رہے۔ آمین۔

اللہ تعالیٰ کے جما عت پر خصوصاً حالیہ مشکل دَور میں جو انعامات نازل ہو رہے ہیں ان کا مختصر ذکر کروں گا۔ آج کل کے کورونا وائرس میں لوگوں کے کاروبار متاثر ہوئے ہیں، عام لوگوں کی ملازمتیں ختم ہوئی ہیں، تعلیم کا نظام چوپٹ ہوا ہے۔جو معاشیاتی نقصان کی چند مثالیں ہیں۔اور اس بیماری نے لوگوں کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔یہی نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس بیماری کی وجہ سے موت کا شکار ہو گئے ہیں۔یہ ایک بہت بڑا معاشرتی نقصان ہے جس کی وجہ سے مزید لاکھوں گھرا نے معاشرتی دشواریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔اس کی مثال زمانہ قریب میں نظر نہیں آتی۔لیکن یہ ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے ان دردناک واقعات کی وجہ سے ہر شخص جو اپنے سینے میں ایک ہمدردانہ دل رکھتا ہے۔وہ ان دل خراش واقعات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔لیکن خاکسار جماعت احمدیہ پر ہونے والے بےشمار فضل اور انعامات جن کا ہم ہر روز خود مشاہدہ کرتے ہیںان کا ذکراصل مضمون کی طرف آنے سے قبل تحدیث نعمت کے طور پر کرنا ضروری سمجھتا ہے۔

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات جمعہ ،جلسہ سالانہ کے خطابات، انصار، لجنہ، خدام ، اطفال،ناصرات، مربیان اور جامعات کے طلباءکےساتھ آن لائن ملاقاتیں۔ان کا کسی گزرے زمانے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ انگلستان سے ہزاروں میل دور ملکوں میں بیٹھے احمدی اپنے پیارے امام کے ساتھ ملاقات کر کے ایک بہت بڑی برکت سمیٹنے والے بن جاتے ہیں۔ افرادِ جماعت کو حضور پُر نورکی ہدایات،نصائح اور پُر نور مسکراتے چہرٔہ مبارک کو دیکھ کر جو مسرت اور سکون ملتا ہے اس کو الفاظ میں بیان کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔ یہ صرف ان خوش قسمت لوگوںکے دل ہی محسوس کر سکتے ہیں۔

اسی طرح مقامی،علاقائی اور ملکی طور پر ہونے والے اجلاسات،مجالس عاملہ اور دوسرے اجلاسات اسی طرز پر منعقدکیے جارہے ہیں۔ جن سے افراد جماعت باوجود پریشان کُن حالات کے مستفیض ہو رہے ہیں۔ان سب باتوں کے علاوہ بعض جماعتوں میں علمی اور دینی کلاسوں کا انتظام بھی جاری ہے۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔

ایسی ہی ایک قرآن کلاس بریڈفورڈ جماعت میںبھی شروع کی ہوئی ہے جو ہر روز (سوائے جمعہ کے دن کے) نماز ظہر کے بعد شروع ہوتی ہے اور قریباً پون گھنٹہ تک جاری رہتی ہے۔

چند روز قبل کلاس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹوںحضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت اسحاق علیہ السلام کا ذکر ہوا جس کے بعد خاکسار نے محترم مربی صاحب سے سوال کیا کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان دو بیٹوں کے علاوہ کوئی اور بھی اولاد تھی جس کا کہیں ذکر ملتا ہو۔اس پر آپ نے فرمایا کہ اس بارے میںشاملین کلاس تحقیق کریں۔

جیہڑا بولے اوہوای کُنڈا کھولے

دراصل ان کے کہنے کا مقصد خاکسار کو یہ سمجھ میں آیا کہ شاملین کلاس کے اندر تعلیمی اور تربیتی صلاحیتوں کو نہ صرف پیدا کیا جائے بلکہ ان کو بڑھا دیا جائے۔ چنانچہ چند روز بعد ہی ظفر اقبال بٹ صاحب اور خاکسار نے کچھ مواد اس بارے میں اکٹھا کیا اور اپنا اپنا حاصل مطا لعہ کلاس میں پیش کیا۔

ظفر اقبال صاحب نے کہا کہ انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تفسیر صغیر سے کچھ معلومات حاصل کی ہیں اور انہوں نے یہ معلومات کلاس میں پیش کیں اور بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 86 کے تفسیری نوٹ (نمبر 3) میں فرماتے ہیں :

’’بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک بیوی جو حضر ت سارہ اور حضرت ہاجرہ کے علاوہ تھیں۔ ان سے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا تھا جس کا نام آپ نے مَدْیَن رکھا تھا۔ اُس کی نسل پھیلتے پھیلتے حجاز کے شمال اور فلسطین کے جنوبی علاقہ میں آباد ہوئی۔ اور زیادہ قرب اس قوم کو خلیج عقبہ سے تھا۔ کیونکہ جغرافیہ نویس کہتے ہیں کہ مَدْیَنْ قوم کا شہر مدین کے قریب واقع ہے۔ یہی خلیج عقبہ ہے جو در حقیقت بحیرہ سُرخ کی وہ شاخ ہے جو عرب کے ساتھ ساتھ گزرتی ہے اور جس کے متعلق آجکل (وقتِ تحریر۔ناقل) مصر، سعودی عرب اور اسرئیل کے درمیان جھگڑا ہو رہا ہے۔ حضرت شعیبؑ اسی قوم میں آئے اور غالباً اسی قوم کا شہر مدین تھا جس میں وہ رہے۔ مدین شہر کی آبادی زیادہ تر اسماعیلی قوم کی ہے ( انسائکلو پیڈیا ببلیکا زیر لفظ مدین) گو شعیب ؑخود نسلی طور پر بنو قتورہ سے تھے یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس بیوی کی اولاد تھے جو حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ کے علاوہ تھیں۔ مگر غالباً اس وجہ سے کہ ان کے علاقہ کے لوگ زیادہ تر اسمٰعیل یا قریش تھے ان کے واقعات بہت کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات سے ملتے ہیں۔ چنانچہ (1) ان کی مخالفت بھی زیادہ تر ان کے شہر کے لوگوں نے کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت بھی زیادہ تر مکہ والوں نے کی (2) پھر وہ بھی غالباً جنوبی فلسطین سے ہٹ کر مدین شہر میں آبسے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس شہرکی طرف ہجرت کرنا پڑی اس کا نام بھی مدینہ ہو گیا۔‘‘

خاکسار نے جو تحقیق کی تھی اس کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصہ کامواد خاکسار نے بھی سورۃ الاعر ا ف کی آیت نمبر86 سے لیا ہے لیکن یہ تفسیری نوٹ ملک غلام فرید صاحب کے ترجمہ قرآن جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی زیر نگرانی شائع ہوا تھا ا س سے لیا گیا ہے۔یہ ترجمہ اصل انگریزی میں ہے اور خاکسار اس کے انگریزی الفاظ پیش کرنے کے ساتھ۔ اردو ترجمہ بھی پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے :

Midian was Abraham‘s son from Keturah (Gen.25:1,2) His descendants settled in the North of Hijaz. Midian was also a town on the red sea, opposite to Sinai on the Arabian shore. The town was so called because it was inhabited by the descendants of Midian.

یعنی مَدْیَنْ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ان کی بیوی قتورہ سے ایک بیٹا تھا۔(پیدائش باب 25:آیت1تا2) جس کی نسل حجاز کے شمال میں آباد ہوئی۔ مَدْیَنْ بحیرہ احمر کے قریب ایک شہر کا نام بھی تھا جو کہ عریبین ساحل پر سینا کی دوسری طرف واقع تھا۔ اس شہر کا نام اس لیے تھا کہ اس میں مَدْیَنْ کی نسل آباد تھی۔

اوپر بیان کی گئی تحقیق کے علاوہ خاکسار نے انٹرنیٹ سے کچھ مواد حاصل کیا تھا جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے :

Abraham married Katurah after the death of his wife Hagar. The medieval Jewish commentator Rashi and some previous Biblical commentators related a traditional belief that Keturah was the same person as Hagar although this idea can not be found in biblical text.

Keturah is referred to in Genesis as ’’an other wife‘‘ of Abraham. Biblical scholar Richard Elliott Friedman dismisses the identification of Keturah with Hagar as an old ’’rabbinic idea‘‘ for which there is no basis…in the text and also notes that the idea was rejected by traditional commentators such as Ezra, Nahamanides and Rashban.

The book of Jubilees also supports the conclusion that Keturah and Hagar were two different people, by stating that Abraham waited until after Hagar‘s death before marrying Keturah.

Keturah‘s children:

Katurah and Abraham had six sons, namely, ZAIMRAN, JOKSHANN, MEDAN, MIDIAN, ISHBAK AND SHUDAH.

They also had seven grandchildren:Sheban,Dedan, Ephah, Epher, Abida and Shuddah.

Keturah‘s sons were said to have represented the Arab tribes who lived south and east of Israel.(Genesis. 25, 1to6)

.(https://wiki2.org/en/Keturah )

یعنی (حضرت ) ابرہیم(علیہ السلام) نے (حضرت) ہاجرہ کی وفات کے بعدقتورہ سے شادی کی۔ قرون وسطیٰ کے یہودی تبصرہ نگار راشی اور چند پہلے یہودی تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ قتورہ وہی عورت تھی جس کا نام ہاجرہ تھا۔اگر چہ اس کا ثبوت بائبل کے کسی حوالے میں نہیں ملتا۔

پیدائش کے مطابق قتورہ ( حضرت) ابراہیم کی ایک اور بیوی تھی۔بائبل کے ایک عالم ایلیٹ فریڈ مین نے اس بات کو کہ قتورہ اصل میں ہاجرہ ہی تھی۔یہ کہہ کر ردّ کیا ہے کہ یہ محض ایک یہودی نظریہ تھا جس کی کوئی بنیاد نہیں…اور وہ مزید لکھتا ہے کہ اس خیال کو اذرا، نا منڈیز اور راشبن جیسے تبصرہ نگاروں نے رد کیا ہے۔

جوبلی کی کتاب بھی اس نظریہ کی حمایت کرتی ہے کہ قتورہ اور ہاجرہ دو مختلف عورتیں تھیں۔

قتورہ کے بچے :

قتورہ اور (حضرت) ابر ا ہیم کے چھ بیٹے تھے۔ جن کے نام یہ تھے۔ زمران۔ جوکشن۔ میڈان۔ مڈین۔ اشبک۔اور شودہا۔

ان کے سات پوتے تھے : شیبان۔ ڈیڈان۔ ایفاہ۔ ایفر۔ اینک۔عابدہ۔ اور شداہ۔

یہ کہا جاتا ہے کہ قتورہ کے بچوں نے عرب قبیلوں کی نمائندگی کی جواسرائیل کے جنوب اور مشرق میں رہائش پذیر تھے۔ (پیدئش باب25آیت1تا6)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button