الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

محترم میاں محمد عبداللہ صاحب آف مرل

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 27؍فروری 2013ء میںمکرم انور احمد مبشر صاحب نے اپنے دادا محترم میاں محمد عبداللہ صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔

محترم میاں محمد عبداللہ صاحب کی ولادت 1870ء میں ہوئی۔آپ نے1930ء میں خود احمدیت قبول کی اور پھر تبلیغ کے ذریعے اپنے گاؤں مرل ضلع سیالکوٹ میں احمدیت کو فروغ دیا۔ نظام وصیت میں بھی شامل ہوئے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔ تحریک جدید کے دفتر اوّل کے مجاہد بھی تھے۔

گاؤں کے لوگ آپ کو بابا ڈھونڈا کے نام سے پکارتے تھے۔ آپ ایک ہمدرد، متوکّل، صابر اور خوش مزاج انسان تھے۔ غریب گھرانے سے تعلق تھا اور ہر چھوٹے اور بڑے سے انتہائی شفقت سے پیش آتے تھے۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند ایک متقی انسان تھے۔اپنے گاؤں سے جلسہ سالانہ کے لیے پیدل قادیان تشریف لے جاتے رہے۔ خلافت احمدیہ سے فدائیت کی حد تک احترام وا طاعت کا تعلق تھا۔

آپ ایک نڈر اور پُر جوش داعی الی اللہ تھے۔ شدید مخالفت ہوتی حتیٰ کہ گاؤںمیںان کا پانی بھی بند کردیا گیا۔ اس پر آپ قریبی چھپڑیوں سے پانی لانے لگے۔ اس پر مخالفین نے ان چھپڑیوں کے پانی کو بھی گندا کرنا شروع کردیا۔ آپ پھر بھی نہیں گھبرائے اور نہ دعوت الی اللہ ترک کی۔ مقامی لوگوں نے ان کا مسجد میں داخلہ بند کردیا تو آپ نے گاؤں کے ساتھ ہی جگہ خرید کر اپنی مسجد بنالی جو بابا کی مسجد کے نام سے مشہور ہوگئی۔آخر خداتعالیٰ نے آپ کی دعا ؤں اور کوششوں کو قبول کیا اور لوگوں نے احمدیت قبول کرنا شروع کردی۔ آج وہاں کی جماعت اٹھارہ گھروں پر مشتمل ہے۔

آپ قریبی دیہات میں جاکر بھی تبلیغ کرتے۔ ایک بار حالات کافی خراب تھے۔ دیگر نواحمدیوں نے آپ کو روکا لیکن آپ اکیلے ہی قریبی گاؤں ’’گڈگور‘‘میں چلے گئے۔ جب تبلیغ شروع کی تو وہاں کے مُلّا کے بھڑکانے پر لوگوں نے بابا جی کو گوبر اور چھوٹے پتھروں سے مارمار کر زخمی کردیا۔ اس پر آپ کہنے لگے کہ کہاں برہان الدین جہلمی اور کہاں مَیں ناچیز۔ گاؤں میں احمدیوں کو اس فساد کا پتہ چلا تو وہ آپ کو لینے گئے۔ راستے میں ہی باباجی واپس آتے مل گئے جواپنی چھڑی پر قمیص لٹکائے واپس آرہے تھے۔لوگوں کے پوچھنے پر بتایا کہ آج تو دعوت الی اللہ کا بہت ہی مزہ آیا۔

ایک دفعہ باباجی کو ریاست جموں میں جانا پڑا تو رات پڑنے پر آپ ایک مسجد میں چلے گئے۔ دیکھا تو ایک پیر صاحب اپنے مریدوں کے درمیان بیٹھے خاطرمدارات کروارہے تھے۔ یہ دیکھ کر آپ کے منہ سے بےساختہ نکلا کہ سب چور ہی چور ہیں۔یہ سن کر وہ پیر گھبرا گیااور الگ ہوکر بابا جی سے عاجزی سے کہنے لگا کہ آپ تو بہت پہنچے ہوئے ہیں، میرا بھید نہ کھولنا۔آپ کو کیسے پتہ چلا ؟ پھر پیر نے رات بھر آپ کی بہت خدمت کی ۔

1953ء میں جماعت کی مخالفت زوروںپر تھی تو مخالفین کہنے لگے کہ اب یہاں کوئی احمدی نہیں رہے گا۔ جماعت کے لوگ نومبائع تھے، وہ بھی گھبرا گئے۔پھر شور شرابا ہوا کہ مرل میں بھی جلوس آرہا ہے۔مخالفین کہہ رہے تھے کہ جلوس آنے سے پہلے پہلے احمدیت چھوڑ دو۔باباجی نے احمدیوں کو حوصلہ دیا کہ گھبراؤ نہیں یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ پھر اکیلے پولیس سٹیشن چلے گئے اور وہاں سے پولیس لے کر آگئے۔ پولیس افسر نے لوگوں سے کہا کہ گاؤں کے احمدیوں کا اگر کچھ نقصان ہوا تو اس کے ذمہ دار تم لوگ ہوگے۔ چنانچہ پھر امن ہوگیا اور کوئی جلوس باہر سے آیا نہ مقامی لوگوں نے نکالا ۔

باباجی یہ خواہش کیا کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ آپ کو چلتے پھرتے ہی دنیا سے اٹھالے۔خدا نے اُن کی یہ خواہش اس طرح پوری کی کہ اپنے گاؤں سے ٹھیک ٹھاک ایک احمدی دوست کو ملنے سیالکوٹ شہر گئے۔جاتے وقت گاؤں میں جس کو بھی ملتے یہی کہتے کہ یہ آخری ملاقات ہے۔ لوگ یہ سن کر ہنس دیتے۔ بہرحال جب یہ اُس دوست کے پاس بیٹھے ہوئے تھے توطبیعت خراب ہوگئی اور آپ 88سال کی عمر میں 8؍مئی 1958ء کو سیالکوٹ میں ہی وفات پاگئے۔ جسدخاکی گاؤں لایا گیا اور مقامی قبرستان میں امانتاً دفن کردیا گیا۔ قریباً چھ ماہ بعد نعش کو ربوہ لے جانے کے لیے نکالا گیا تو غیراحمدی کہنے لگے کہ بابا جی کا چہرہ تو دکھاؤ سنا ہے احمدیوں کے چہرے بگڑ جاتے ہیں۔جب لوگوں کے اصرار پر چہرہ دکھایا گیا تو بابا جی ایسے لگ رہے تھے جیسے ابھی سوئے ہوں۔

………٭………٭………٭………

مکرم ناصر احمد صاحب ظفر بلوچ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍فروری 2013ء میں مکرم چوہدری محمد ابراہیم صاحب کے قلم سے مکرم ناصر احمد ظفر بلوچ صاحب کی یاد میں ایک مختصر مضمون شامل اشاعت ہے۔

1947ء میں تقسیمِ ہند کے بعد سیدنا حضرت مصلح موعودؑ نے جماعت احمدیہ غوث گڑھ ریاست پٹیالہ کو ازراہِ شفقت یہ حکم دیا کہ وہ احمدنگر ضلع جھنگ میں آباد ہوں۔ چنانچہ وہاں کی ساری جماعت نے تعمیلِ ارشاد میں احمدنگر میں ڈیرے ڈال دیے۔جامعہ احمدیہ کو بھی حضورؓ نے احمدنگر میں قائم کرنے کا حکم دیا۔ مولانا ظفر محمد ظفر صاحب جامعہ احمدیہ کے پروفیسر تھے اور احمدنگر کے دھرم سالہ کی عمارت میں یہ اپنے بچوں سمیت اقامت پذیر تھے۔ ان کے بچوں میں سے مکرم برادرم ناصر احمد ظفر صاحب میرے ہم عمر تھے۔ مسجد میں،کھیل کے میدان میں اور احمدنگر کی گلی کوچوں میں اکثر ان سے ملاقات ہوتی۔ کشادہ پیشانی اور آنکھوں کی چمک ان کی ذہانت کی غماز تھی۔ مجلس اطفال الاحمدیہ احمدنگر میں اکثر ان کے جوہر کھلتے۔اطفال کے اجلاسات یا کھیل کے میدان میں اکثر لیڈر کے طور پر پہچانے جاتے۔ میٹرک پاس کیا تو ملازمت کی تلاش ہوئی۔آخر ایک یونین کونسل میں سیکرٹری کے طور پر ان کی تقرری ہوگئی۔ یہاں سیاسی لوگوں سے ان کے رابطے ہوئے۔ اپنی خداداد قابلیت سے بہت جلد ان میں اپنا مقام بنا لیا۔

حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ اپنی خلافت سے پہلے مجلس انصاراللہ عالمگیر کے صدر تھے۔ میرا اپنے فرائض منصبی کے سلسلے میں قریباً ہر روز ہی آپؒ سے ملنا ہوتا۔ربوہ کے ماحول پر آپؒ کی گہری نظر تھی اور جو آپؒ کے ساتھ گفتگو ہوتی تو خاکسار محسوس کرتا کہ سیاسی اور غیرازجماعت لوگوں سے رابطہ کے حوالے سے شاید مکرم ناصر احمد ظفر صاحب بہتر خدمت کرسکتے ہیں۔ میں نے حضرت میاں صاحبؒ سے اس کا ذکر کیا تو فرمایا مجھے اس سے ملائیں۔ چنانچہ اگلے ہی روز میں ان کو ساتھ لے کر حضرت میاں صاحبؒ سے ملا۔ ناصر صاحب سے مل کر حضورؒ نے خوشی کا اظہار فرمایااورارشاد فرمایا کہ گاہے گاہے ملتے رہیں۔

جب خادم اپنے آقا کے حضور حاضر ہو گیا تو زمین زرخیز تھی اس لیے بہت جلد حضوؒر کا اعتماد حاصل کر لیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اعتماد میں اضافہ ہوتا گیا اور ربوہ کے معاملات مکرم ناصر ظفر صاحب اور چوہدری عبدالکریم صاحب نمبردار احمدنگر کے ذریعہ طے پانے لگے۔

مکرم ناصر احمد ظفر صاحب سالہا سال احمدنگر کے صدر رہے۔ احمدنگر میں احمدی افراد سے ذاتی تعلق رکھتے تھے۔ ان لوگوں کے ساتھ ان کے ذاتی مراسم تھے۔ احمدنگر کی نصف آبادی احمدیوں پر مشتمل تھی۔ خاندان حضرت مسیح موعوؑد اور کئی دوسرے احمدیوں کی زمینیں اور جائیدادیں احمدنگر میں ہونے کی وجہ سے نا مساعد حالات کے باوجود بھی کبھی کسی سے دبنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اورجب تک جماعت کو ووٹ کا حق حاصل رہا حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اور چوہدری عبدالرحمان صاحب، بی ڈی ممبر منتخب ہوتے رہے۔ علاقہ بھر کے ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی اور بی ڈی ممبران سے مکرم ناصر ظفر صاحب کے ذاتی مراسم تھے۔ انہوں نے خلافت احمدیہ سے کوئی مدد لینا ہوتی یا جماعت پر کسی ابتلا کے وقت اپنی ہمدردی ظاہر کرنا ہوتی تو ناصر صاحب مرحوم ذریعہ بنتے۔

مکرم ناصر صاحب انصاف پسند واقع ہوئے تھے۔ مشکل کے وقت لوگوں کے کام کرنا۔ پولیس وغیرہ کے معاملات میں ان کی مدد کرنے کا جذبہ بدرجہ اتم ان میں موجود تھا۔ جماعتی مفاد میں پولیس کے ساتھ ان کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ ربوہ میں ان کی رہائش بھی پولیس تھانہ کے قریب ہی واقع تھی۔ اس لیے ان کے نخرے اٹھانا اور ان کی ذاتی ضروریات کو پورا کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔

ایک دفعہ احمدنگر میں بچوں میں جھگڑا ہوا جس میں ان کا اپنا بھی ایک بیٹا ملوث تھا۔انہوں نے ایثار کا نمونہ اختیار کرتے ہوئے بھری مجلس میں اپنے بیٹے عزیز مبشر احمد صاحب کو حکم دیا کہ قطع نظر اس کے کہ وہ قصور وار ہے یا نہیں دوسرے لڑکوں سے اظہار معذرت کرے اور معافی مانگے اور مبشر نے ایسا ہی کیا۔ اس سے ناصر ظفر صاحب کی انکساری اور انصاف پروری کا پتہ چلتا ہے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے ساتھ بھی مکرم ناصر صاحب کا خادمانہ سلوک آخر تک قائم رہا اور اسی تسلسل میں حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ)سے بھی خادمانہ تعلقات استوار رہے۔ ایک دفعہ حضورانور کے ڈیرے سے آپ کی ایک قیمتی گائے چوری ہوگئی۔ گائے کی قیمت سے زیادہ اصل جانور کا معاشرے کی ریت میں واپس لانا مطلوب تھا۔ کام کٹھن تھا کیونکہ وہاں چوری شدہ جانور اصل شکل میں مڑوانا ایک مشکل امر ہے۔ یہ کام مکرم ناصر ظفر صاحب اور نمبردار عبدالکریم صاحب کے سپرد ہوا۔ ان دونوں نے دن رات ایک کر دیا اور گائے واپس لاکر اپنے آقا کی دعائیں حاصل کیں۔

آپ کو اپنی ملازمت سے ریٹائر ہونے پر نظارت امورعامہ اور پھر دفترصدرعمومی میں خدمات کا موقع ملا۔ افراد جماعت کے تنازعات نمٹانا آپ کی ذمہ داری ٹھہری۔ آپ نے ہمیشہ اپنی خداداد صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے پہلے صلح کروانے کو ترجیح دی اور تنازع کے فیصلے کی صورت میں انصاف اور عدل کو مدّنظر رکھا۔

آپ کی صحت آخر تک اچھی دکھائی دیتی تھی۔صبح کی سیر کے عادی تھے ،کبھی پیدل اور کبھی سائیکل پر سیر کے لیے نکلتے۔ سرِراہ ملاقات ہوتی تو مسکراتے چہرے سے ملتے۔

روشنی میں تو پہنچ جا منزل مقصود تک

اے مسافر ڈھل رہا ہے آفتاب زندگی

………٭………٭………٭………

سرخ چیونٹیاں

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ جولائی 2012ء میں مکرم الحاج ڈاکٹر ملک نسیم اللہ خان صاحب کے قلم سے سرخ چیونٹیوں کے بارے میں ایک مختصر معلوماتی مضمون شائع ہوا ہے۔

سرخ چیونٹیوں کی ایک کالونی عموماً بارہ ہزار چیونٹیوں پر مشتمل ہوتی ہے جن میں صرف ایک ملکہ ہوتی ہے جس کا کام صرف انڈے دینا ہوتا ہے اور باقی سب سکاؤٹ اور ورکر ہوتی ہیں۔سکاؤٹ چیونٹیاں صبح سویرے بِل کے آس پاس کے علاقے کا جائزہ لے کر آتی ہیں جس سے دوسری چیونٹیوں کو معلوم ہوجاتا ہے کہ باہر اُن کے لیے کس طرح کے خطرات اور خوراک موجود ہے۔ ورکر چیونٹیاں ڈنگ مارنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ہمیشہ اکٹھی ہوکر حملہ کرتی ہیں۔ان کے ڈنگ میں ایک خاص قسم کا تیزاب ہوتا ہے جس کی وجہ سے جسم پر تکلیف دہ ابھار بن جاتا ہے۔ اگر اس پر خارش کرلی جائے تو انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اگر ان کے کاٹے کا مناسب علاج نہ کیا جائے تو یہ زخم بن سکتے ہیں۔

چھوٹے پودے، بیج اور کیڑے مکوڑے ان چیونٹیوں کی خوراک بنتے ہیں۔ کبھی کوئی چھوٹا زخمی جانور مل جائے تو وہ بھی ان کا شکار بن جاتا ہے۔ان کے گھر عموماً چالیس سینٹی میٹر تک اونچے اور ایک میٹر تک زمین کے اندر گہرے ہوتے ہیں۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button