خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 05؍ فروری 2021ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد ذوالنّورین حضرت عثمان بن عفانرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

رسول کریمﷺ نے حضرت عثمانؓ کےمتعلق بارہا فرمایا کہ انہوں نے جنّت خرید لی اور وہ جنتی ہیں

حضرت ابوبکرؓ کےعہدِ خلافت میں حضرت عثمانؓ اُن اہلِ شوریٰ میں سے تھےجن سے اہم ترین اُمور میں رائے لی جاتی تھی

پاکستان میں احمدیوں کی شدید مخالفت کے پیش نظر خصوصی دعاؤں کی مکرر تحریک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 05؍ فروری 2021ء بمطابق 05؍تبلیغ 1340 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے مورخہ 05؍ فروری 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم معاذ احمد زاہد صاحب کے حصے میں آئی۔

تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت عثمانؓ کی غزوات کا ذکرچل رہاہے۔ غزوۂ ذات الرقاع ،جو بطرفِ نجدسات ہجری یا دوسری روایت کےمطابق غزوۂ خیبرکے بعد ہوا تھا،اس غزوے میں حضورﷺ نے حضرت عثمانؓ یا حضرت ابوذرغفاریؓ کو مدینےمیں امیر مقرر فرمایا تھا۔ اس غزوے کی سختیوں کےمتعلق حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم چھ آدمیوں کےپاس ایک مشترکہ اونٹ تھا جس پر ہم باری باری سواری کرتے ۔میرے دونوں پاؤں پھٹ گئے اور اُن کے ناخن گِر گئے تھے اور ہم اُن پر کپڑوں کے ٹکڑے لپیٹ کر گزارا کرتے تھے۔

فتح مکّہ، آٹھ ہجری کےموقعےپررسول اللہﷺ نے چارمردوں اور دو عورتوں کےعلاوہ باقی سب کفّار کو امان دےدی تھی۔ اُن چار آدمیوں میں سے ایک عبداللہ بن ابی سرح کوحضرت عثمانؓ نے پناہ دے دی اور وہ آپؓ کے گھر میں تین دن چھپارہا ۔ایک روز جب رسول کریمﷺ مکّےکےلوگوں کی بیعت لےرہےتھے۔ حضرت عثمانؓ اسے لےکر حاضرہوئے اور اس کی بیعت قبول کرنے کی درخواست کی۔رسول کریمﷺ نے پہلے تو تامل فرمایا مگر پھر آپؐ نے بیعت لے لی۔ یہ شخص مرتد تھا اور پہلے کاتبِ وحی بھی رہ چکا تھا۔ ایک مرتبہ حضورﷺ وحی لکھوا رہےتھےکہ جب آیت ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَر پر پہنچے تو اُس کےمنہ سے نکلا فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ۔حضورﷺ نےفرمایا یہی وحی ہے اسے لکھ لو۔ اس بدبخت کو یہ خیال نہ آیا کہ پچھلی آیات کے نتیجےمیں یہ آیت طبعی طورپر بن جاتی ہے۔ اس نے گمان کیا کہ نعوذباللہ آپؐ اسی طرح خود سارا قرآن بنا رہے ہیں چنانچہ وہ مرتد ہوگیا۔

عکرمہ بن ابوجہل کو جب علم ہوا کہ آپؐ نے اس کے قتل کا حکم دیا ہے تو وہ یمن کی طرف بھاگ گیا۔ اس کی بیوی نے اس کا پیچھا کیا ۔عکرمہ کشتی میں سوار ہوچکا تھا جب وہ وہاں پہنچی اور اسے بتایا کہ اُس نے عکرمہ کےلیے رسول خداﷺ سے امان حاصل کرلی ہے۔ عکرمہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور امان ملنے کی نسبت دریافت کیا۔ اثبات میں جواب ملنے پر عکرمہ نے اسلام قبول کیا اورشرم کےمارے اپنا سر جھکادیا۔ حضورﷺ نے فرمایا اے عکرمہ! تُو مجھ سے جو چیز مانگے گا مَیں تجھے ضرور دوں گا۔ اس پر عکرمہ نے عرض کیا کہ میری ہر اُس عداوت کےلیے بخشش کی دعاکردیں جو مَیں نےآپؐ سےروا رکھی ۔ حضورﷺ نے عکرمہ کےلیے دعاکی اور خوشی سے سرشارہوکراپنی چادراس پرڈال دی اور اسلام میں خوش آمدید کہا۔ عکرمہؓ کا شمار بعد میں بڑےجلیل القدر صحابہ میں ہوتاتھا اور آپؓ کے ایمان لانےسےحضورﷺ کےاس خواب کی تعبیر ہوئی جس میں آپؐ نے جنت میں انگور کا ایک خوشہ ابوجہل کےلیے دیکھا تھا۔

غزوۂ تبوک9؍ ہجری کی تیاری کےلیےحضورﷺ نے تحریک فرمائی تو حضرت عثمانؓ نے سَو اونٹوں کا قافلہ سامان سمیت پیش کردیا۔حضورﷺ نے پھر تحریک فرمائی توآپؓ نے سَومزید اونٹ سامان سمیت پیش کردیے۔ آپؐ نے تیسری بار تحریک فرمائی تو حضرت عثمانؓ نےپھر سَو اونٹ مع سامان پیش کردیے۔ اس پر حضوراکرمﷺ نے فرمایا کہ اس کے بعد عثمان جوبھی کرے اس کا مؤاخذہ نہ ہوگا۔ ایک روایت کے مطابق آپؓ نے اس موقعے پر ایک ہزار اونٹ اور ستّر گھوڑے جبکہ ایک اَور روایت کےمطابق آپؓ نے دس ہزار دینار پیش کیے۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے حضرت عثمانؓ کےمتعلق بارہا فرمایا کہ انہوں نے جنّت خرید لی اور وہ جنتی ہیں۔

حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جنگی ضرورت تھی۔ نبی اکرمﷺنے صحابہ کےسامنے ضرورتِ حقّہ کورکھا تو حضرت عثمانؓ نے عرض کیا کہ میری یہ پیشکش قبول کرلی جائے کہ مَیں دس ہزار صحابہ کا پورا خرچ برداشت کروں گا اور اس کے علاوہ آپؓ نے ایک ہزار اونٹ اور ستّر گھوڑے دیے۔

حضرت ابوبکرؓ کےعہدِ خلافت میں حضرت عثمانؓ اُن اہلِ شوریٰ میں سے تھےجن سے اہم ترین اُمور میں رائے لی جاتی تھی۔ جب روم پر چڑھائی کا موقع آیا توحضرت ابوبکرؓ کےمشورہ طلب کرنے پر حضرت عثمانؓ نے حضرت ابوبکرؓپر اعتماد کا اظہارکرتے ہوئےفیصلہ کرگزرنے کا مشورہ دیا ۔ جس پر مشاورت میں شریک دیگر تمام صحابہ نے حضرت عثمانؓ کی تائید کی۔ بحرین کے گورنر کی تعیناتی کےلیے مشورہ طلب کیے جانے پر حضرت عثمانؓ نے کہا کہ اُس آدمی کو بھیجیں جسے رسول اللہﷺ نے بحرین پر گورنر مقرر فرمایا تھا چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے علاء بن حضرمی کو بحرین بھیجنے پر اتفاق کرلیا۔

حضرت ابوبکرؓ کےعہدِ خلافت میں ایک مرتبہ شدید قحط پڑا۔ ان ہی ایّام میں حضرت عثمانؓ کا سَو انٹوں کا قافلہ اشیائے خورونوش لیے شام سے مدینے پہنچا۔ مدینے کے تاجروں نے اسےخریدنا چاہا مگر آپؓ نے اس غلے کو فقراء اور مساکین کے لیے صدقہ کردیا ۔حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جس رات یہ واقعہ ہوا مَیں نے اس رات رسول کریمﷺ کو خواب میں دیکھا۔ آپؐ نےفرمایا کہ عثمان نے ایک صدقہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرمالیا ہے اور جنّت میں اس کی شادی کی ہے اور ہمیں ان کی شادی میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

حضرت عمرؓ کے دورِخلافت میں فتوحات کے سلسلےمیں وسعت سےجب مال کی کثرت ہوئی تو حضرت عمرؓ نے بعض صحابہ سے مشاورت طلب کی۔حضرت عثمانؓ نے باقاعدہ انتظام کرکےکھاتے بنانےکامشورہ دیا ۔جس پر حضرت عمرؓ نے مردم شماری کرکے لوگوں کےنام رجسٹروں میں محفوظ کرنے کے عمل کا آغاز فرمایا۔

حضرت عثمانؓ کی خلافت کی بابت آنحضرتﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپؓ کو ایک قمیص پہنائے گا اور منافقین اسے اتارنے کی کوشش کریں گے۔ حضرت مصلح موعودؓ حضرت عمرؓ کی وفات اور حضرت عثمانؓ کے خلیفہ منتخب ہونے کےمتعلق فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ جب زخمی ہوئے اور آپؓ نے اپنا آخری وقت قریب محسوس کیا تو حضرت عثمانؓ،علیؓ،عبدالرحمٰن بن عوفؓ،سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت زبیرؓ اور طلحہؓ کےبارےمیں وصیت فرمائی کہ یہ چھ افراد اپنے میں سے ایک کو خلیفہ مقرر کرلیں۔ نیز آپؓ نے عبداللہ بن عمرؓ کو بھی مشورے میں شریک کیا لیکن انہیں خلافت کا حق دار قرار نہ دیا اور وصیت کی کہ یہ سب لوگ تین دن میں فیصلہ کریں۔ تین دن کے لیے حضرت صہیبؓ کو امام الصلوٰة مقررکیا اور مشورے کی نگرانی مقداد بن اسود کے سپرد کی۔فرمایا کہ جس پر کثرتِ رائےسے اتفاق ہوسب لوگ اس کی بیعت کریں اور اگر کوئی انکار کرے تو اسے قتل کردو۔اگر دونوں طرف تین تین ہوجائیں تو عبداللہ بن عمر اُن میں سے جس کو تجویز کرے وہ خلیفہ ہو۔اگر اس فیصلے پر وہ راضی نہ ہوں تو جس طرف عبدالرحمٰن بن عوف ہوں وہ خلیفہ ہو۔ انتخابِ خلافت کے وقت حضرت طلحہؓ مدینے میں موجود نہ تھے۔ لمبی بحث کےبعد جب بقیہ پانچوں صحابہ کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو اس بات پر اتفاق ہوا کہ یہ معاملہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے سپرد کردیا جائے اور جس کے حق میں وہ فیصلہ کریں وہی خلیفہ ہو۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ تین دن میں مدینےکے ہر گھر گئے اور لوگوں کی رائے معلوم کی۔ سب نےیہی کہا کہ انہیں حضرت عثمانؓ کی خلافت منظورہے۔

صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عمرؓ کی قائم فرمودہ کمیٹی میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے یہ تجویز دی کہ اپنا معاملہ اپنے میں سے تین آدمیوں کے سپردکردو۔ اس پر حضرت زبیرؓ نے اپنا اختیار حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ نے حضرت عثمانؓ اور حضرت سعدؓ نے اپنا اختیار حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے حوالے کردیا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ نے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ سے فرمایا کہ آپ دونوں میں سے جو بھی اس امر سے دست بردار ہوگا ہم انتخابِ خلافت کامعاملہ اسی کےحوالےکردیں گے۔ اس بات نے دونوں بزرگوں کو خاموش کردیاچنانچہ اس بات پر اتفاق ہوا کہ جس کے حق میں حضرت عبدالرحمٰن ؓ فیصلہ کریں وہی خلیفہ ہو۔ حضرت عبدالرحمٰن باری باری دونوں صحابہ کو تنہائی میں لےگئے اور انصاف کرنے نیزدوسرے کےامیر بنائے جانے پر اس کا اطاعت گزار رہنے کاپختہ عہد لیا۔ اس کےبعد حضرت عبدالرحمٰنؓ نے حضرت عثمانؓ کا ہاتھ پکڑا اور بیعت کی ۔ علامہ ابن سعد کے مطابق حضرت عثمانؓ کی بیعت 29؍ ذوالحجہ 23؍ ہجری کوسوموار کےروز کی گئی۔

بیعت کےبعد آپؓ لوگوں میں تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کےبعد دنیا کی بےثباتی کا تذکرہ کرتے ہوئےفرمایا کہ دنیا مکروفریب سے آراستہ ہے۔ پس تمہیں دنیاوی زندگی دھوکا نہ دے اور اللہ کےبارے میں شیطان تمہیں ہرگز دھوکےمیں مبتلا نہ کرے۔ تم بھی دنیا کو وہاں پھینک دو جہاں اللہ نے اسے پھینکا ہے۔ مال اور اولاد دنیا کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کےنزدیک ثواب کے طور پر بہتر اور امنگ کے لحاظ سے بہت اچھی ہیں۔ اس کے بعد لوگ آپؓ کی بیعت کرنے کےلیے لپکے۔

حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت میں الجزائر،مراکش،اندلس، قبرص،طبرستان،آرمینیا،خراسان اور بلادِ روم وغیرہ کی طرف پیش قدمی ہوئی اور فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔اس امر کا بھی تذکرہ ملتا ہے کہ آپؓ کے دورِ خلافت میں ہندوستان میں اسلام کی آمد ہوگئی تھی۔

خطبے کے آخرمیں حضورِانورنے فرمایا کہ یہ ذکر ابھی چل رہا ہےآئندہ بھی ان شاء اللہ بیان ہوگا۔

پاکستانی احمدیوں کےلیے دعا کرتے رہیں اللہ تعالیٰ ان کے حالات بہتر کرے۔پاکستان کے احمدیوں کو اپنی اصلاح کی بھی توفیق دے،اللہ تعالیٰ سےتعلق بڑھانے کی بھی توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ جلد یہ اندھیرے دن روشنیوں میں بدل دے اور ہم وہاں کے احمدیوں کو بھی آزادی کےساتھ اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے دیکھیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button