محتر م چودھری حمید اللہ صاحب انتقال کر گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

عرصہ پینسٹھ برس سے زائد خدماتِ دینیہ بجا لانے والے جماعت احمدیہ کے مخلص اور دیرینہ خادم، وکیل اعلیٰ و صدر مجلس تحریک جدید انجمن احمدیہ محترم چودھری حمید اللہ صاحب انتقال کر گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

آپ کی وفات 7؍ فروری 2021ء کی صبح ہوئی اور اسی روز بہشتی مقبرہ دارالفضل ربوہ میں نمازِ جنازہ اور تدفین عمل میں آئی

احبابِ جماعت کو نہایت دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ سلسلہ کے دیرینہ خادم، خلافتِ احمدیہ کے سلطانِ نصیر، 65 سال سے زائد خدماتِ دینیہ سرانجام کی توفیق پانے والے،فدائی اور مخلص احمدی،روحِ وقف سے سرشار واقف زندگی، سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ و انصاراللہ مرکزیہ و پاکستان، افسر جلسہ سالانہ اور وکیل اعلیٰ و صدر مجلس تحریک جدید انجمن احمدیہ ربوہ، پاکستان محترم چودھری حمید اللہ صاحب مورخہ 7؍فروری 2021ء بروز اتوار طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ میں مختصر علالت کے بعد بعمر 87 سال وفات پا گئے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

اسی روز دوپہر بارہ بجے کے قریب حکومتی ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے بہشتی مقبرہ دارالفضل ربوہ میں محترم چودھری صاحب کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی جس کے بعد قطعہ نمبر 12 میں تدفین عمل میں آئی۔

بلاشبہ اپنی ذات میں تاریخ احمدیت کے ایک باب کی حیثیت رکھنے والے چودھری حمید اللہ صاحب محترم بابو محمد بخش صاحب اور محترمہ عائشہ بی بی صاحبہ کے ہاں 4؍ مارچ 1934ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدین نے 1929ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ آپ ساتویں جماعت کے طالبعلم تھے جب 1946ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے اپنی زندگی خدمت دین کے لیے وقف کرنے کی توفیق پائی۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کا خاندان ہجرت کر کے ریاست بہاولپور منتقل ہو گیا جہاں سے آپ نے 1949ءمیں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں وکالتِ دیوان ربوہ کی ہدایت پر انٹرویو کے لیے ربوہ تشریف لے آئے۔ تحریری امتحان کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ناظران صدر انجمن احمدیہ کی موجودگی میں بنفس نفیس چند نئے واقفینِ زندگی کا انٹرویو لیا جن میں آپ بھی شامل تھے۔ وقف کرنے کے بعد سے آپ کی تعلیم کا تمام تر سلسلہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے زیرِ ہدایت چلتا رہا۔ آپ نے 1955ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے فرسٹ ڈویژن میں ایم اے ریاضی کرنے کے بعد بطور لیکچرار تعلیم الاسلام کالج ربو ہ اپنی جماعتی خدما ت کا باقاعدہ آغاز کیا۔ آپ کی شادی ستمبر 1960ء میں محترمہ رضیہ خانم صاحبہ بنت مکرم عبدالجبار خان صاحب آف سرگودھا سے ہوئی۔ آپ کی اہلیہ کے نانا اور دادا صحابی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹے اور دو بیٹیوں سے نوازا۔

آپ 1974ء تک ٹی آئی کالج ربوہ میں تدریسی و غیر تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ کالج کے قومیائے جانے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے مشورہ سے آپ نے کالج سے استعفیٰ دے دیا جس کے بعد آپ کو ناظر ضیافت مقرر کیا گیا۔ نومبر 1982ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وکیل اعلیٰ تحریک جدید مقرر فرمایا جس کے ساتھ کچھ عرصہ تک آپ ایڈیشنل صدر مجلس تحریک جدید اور پھر 1989ء میں صدر مجلس تحریک جدید مقرر ہوئے۔ آپ تادمِ واپسیں یہ خدمات بجا لاتے رہے۔ اس کے علاوہ آپ 1986ء تا حال بطورایڈیشنل ناظر اعلیٰ برائے ہنگامی امور سندھ و بلوچستان فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔

آپ 1955ء سے جلسہ سالانہ کے موقع پر مختلف شعبہ جات کے نگران کی حیثیت سے خدمات کی توفیق پاتے رہے۔1973ء میں آپ کو افسر جلسہ سالانہ مقرر کر دیا گیا۔ اگرچہ ربوہ میں 1983ء کے بعد جلسہ سالانہ منعقد نہیں ہو سکا لیکن اس کے باوجود اس شعبے میں جدّت لانے کا کام بدستور جاری رہا۔ مزید برآں آپ مختلف مواقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ارشاد پر جلسہ سالانہ قادیان اور جلسہ سالانہ برطانیہ پر تشریف لے گئے اور جلسہ سالانہ کے انتظامات کی نگرانی کی۔

خلافتِ احمدیہ کے معتمدین میں سے ایک قدآور وجود محترم چودھری صاحب نے ایک اہم اور گرانقدر خدمت بطور صدر صدسالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ بندی کمیٹی 1989ءکی حیثیت میں سرانجام دی۔اس سے قبل آپ کو پاکستان میں سیکرٹری صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ بندی کمیٹی کے طور پر بھی خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ آپ 2005ء تا حال مرکزی کمیٹی خلافت احمدیہ صدسالہ جوبلی 2008ء کے صدر کے طور پر بھی خدمات بجا لاتے رہے۔ آپ کو اپریل 2003ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی وفات کے موقع پر انتخابِ خلافت کے اجلاس کی صدارت کا اعزاز بھی نصیب ہوا۔

ذیلی تنظیموں میں آپ بچپن سے ہی فعال رہے۔ محلے کی سطح پر،مجلس خدام الاحمدیہ مقامی ربوہ اور پھر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ میں مختلف حیثیتوں میں فرائض بجا لاتے رہے۔ آپ نے 1969ء تا 1973ء بطور صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ جبکہ 1982ء تا 1989ء بطور صدر مجلس انصاراللہ مرکزیہ نیز 1989ء سے 1999ءتک بطور صدر مجلس انصاراللہ پاکستان خدمات سرانجام دینے کی توفیق پائی۔آپ کو خلفائے سلسلہ کے زیر سایہ و زیر ہدایت متعدد امور کی انجام دہی کے لیے نیز بطور وکیل اعلیٰ تحریک جدید اور بطور صدر مجلس انصاراللہ مرکزیہ دنیا کے متعدد ممالک کا دورہ کرنے کی توفیق ملی۔

آپ صوم و صلوٰۃ کی انتہائی پابند،انتھک محنت کرنے کے عادی ہمہ جہتی شخصیت کے حامل دروش صفت اور بے نفس وجود تھے، کام کے دوران رات اور دن کی پروا نہ کرتے تھے، واقفینِ زندگی کے لیے قابل تقلید مثال تھے۔ وقت کی انتہائی حد تک قدر کرنے والے تھے۔ زندگی کے آخری دنوں میں بھی اپنے دفتر میں صبح و شام مصروف کار رہے۔

آپ ایک ٹھوس علمی شخصیت کے مالک تھے۔ تاریخ احمدیت کے لیے بطور سند تھے۔قرآن کریم، اس کا ترجمہ اور تفسیر، اس کے علاوہ علم حدیث و فقہ کے رموز کے ماہر اور صحاح ستہ اور ان کی شروح پر مکمل عبور حاصل تھا۔اگر کوئی سوال کرتا یا کوئی بات پوچھتا تو اس کا علمی لحاظ سے ایسا جواب مرحمت فرماتے کہ پوچھنے والے کی تشفی ہو جاتی۔ آپ کی تقاریر اور خطاب میں علمی و ادبی رنگ پایا جاتا تھا۔ ان کی تیاری بڑے اہتمام اور شوق سے کرتے۔علمی حوالوں سے سجاتے اور ساتھ ساتھ سننے والوں کی دلچسپی کا سامان بھی کرتے۔ سامعین آپ کے خطاب کو بغور سنتے اور ہدایات، مشوروں اور دینی علوم سے اپنی جھولیاں بھر کے واپس جاتے۔

متعدد شعبہ جات و کمیٹیوں کے ممبر،نگران اور صدر ہونے کے باعث آپ معمور الاوقات تھے لیکن ان سب کے باوجود مختلف علوم بالخصوص تاریخ و جغرافیہ پر آپ کی دسترس بےمثال تھی اور ٹھوس کتب کے مطالعہ میں آپ کو کمال حاصل تھا۔آپ ایک بہترین منتظم، بااصول افسر، شفیق استاد، اپنے ماتحتوں سے محبت و شفقت کرنے والے اور ان کے مسائل ذاتی توجہ سے حل کرنے والے نافع الناس بزرگ وجود تھے۔ آپ بنیادی طور پر ایک ریاضی دان تھے۔ اسی لیے آپ کی ساری زندگی دو جمع دو چار کی طرح نپی تلی گزری۔ آپ کم گو تھے لیکن دلیل کے ساتھ ثقہ بات کرتے۔ معاملات کی تہ تک پہنچ کر ان کو احسن طریق پر حل کرتے۔ ہر کام چاہے وہ بظاہر آسان ہو یا مشکل بہت گہرائی اور تفصیل میں جاکر کرنے کے عادی تھے۔ آپ کے کاموں میں رخنہ بہت کم نظر آتا تھا۔ آپ کے قریب رہ کر خدمات بجا لانے والے افراد اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ کی زندگی کا حاصل، کامیابی کا زینہ اور ترقیات کی کنجی خلافتِ احمدیہ سے وابستگی، وفا، ہر معاملے میں خلیفۂ وقت سے ہدایت و رہنمائی کے حصول اور پھر بے مثال اطاعت میں مضمر تھی۔

پسماندگان میں آپ نے اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے اس مخلص اور دیرینہ خادم کی مغفرت فرماتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور خلافتِ احمدیہ کو محترم چودھری صاحب ایسے سلطانِ نصیر عطا فرماتا چلا جائے۔آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button