خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 22؍جنوری2021ء

سب سے خوبصورت جوڑا جو کسی انسان نے دیکھا ہو وہ حضرت رقیہ ؓاور ان کے شوہر حضرت عثمان ؓہیں

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد، ذوالنّورین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

حضرت عثمانؓ رسول ِخداﷺ سے تقریباً پانچ سال چھوٹے تھے۔آپؓ قدیمی اسلام لانےوالوں میں سے تھے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت رقیہ سے فرمایا بیٹی! ابوعبداللہ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتی رہو۔ یقیناً یہ میرے صحابہ میں اخلاق کے لحاظ سے مجھ سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں

گیارہ مرحومین مکرم مولانا سلطان محمود انورؔ صاحب سابق ناظر اصلاح و ارشادمرکزیہ، ناظر خدمتِ درویشان اور ناظر اصلاح و ارشاد رشتہ ناطہ، مکرم مولانا محمد عمرصاحب سابق ناظر اصلاح وارشاد مرکزیہ قادیان، مکرم حبیب احمد صاحب ابن محمد اسماعیل صاحب سابق امیر و مشنری انچارج نائیجیریا، مکرم بدرالزماں صاحب کارکن وکالت مال یوکے، مکرم منصوراحمد تاثیر صاحب کارکن شعبہ احتساب نظارت امورِ عامہ ربوہ، مکرم ڈاکٹر ابراہیم موانگا صاحب تنزانیہ، مکرمہ صغریٰ بیگم صاحبہ اہلیہ دین محمد صاحب ننگلی درویش قادیان، مکرم چودھری کرامت اللہ صاحب سابق رضاکار الفضل انٹرنیشنل، مکرم چودھری منور احمد خالد صاحب (جرمنی)، مکرمہ نصیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ احمد صادق طاہرمحمود ریٹائرڈ مربی سلسلہ بنگلہ دیش اورمکرم رفیع الدین بٹ صاحب (بدوملہی) کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

پاکستان اور الجزائر کے احمدیوں کی مخالفت کے پیشِ نظر دعاؤں کی مکرر تحریک

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 22؍جنوری2021ء بمطابق 22؍صلح 1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر شروع کروں گا۔ چند ہفتے تک یہ جاری رہے گا۔

حضرت عثمان ؓکے بارے میں پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہیے کہ یہ خود جنگِ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے البتہ ان آٹھ خوش نصیب صحابہ میں شامل تھے جنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ بدر کے مال غنیمت میں حصہ دے کر جنگ میں شامل ہونا ہی قرار دیا تھا۔

آپ کا نام عثمان بن عفان بن ابوالعاص بن اُمَیَّہبن عبد ِشمس بن عبدِ مَناف بن قُصَیِّبن کِلاب ہے۔ اس طرح آپ کا سلسلہ نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ نسب کے ساتھ پانچویں پشت پر عبد ِمَنَاف پر جا کر ملتا ہے۔ حضرت عثمان ؓکی والدہ کا نام اَرْوٰی بنت کُرَیْز تھا۔ حضرت عثمان ؓکی نانی ام حکیم بَیْضَاء بنت عبدالمطلب تھیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ کی سگی بہن تھیں۔ ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ اور حضرت عثمانؓ کی نانی ام حکیم بَیْضَاء بنت عبدالمطلب جڑواں پیدا ہوئے تھے۔ حضرت عثمان ؓکی والدہ اَرْوٰی بنت کریزنے صلح حدیبیہ کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا اور مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آ گئیں اور اپنے بیٹے حضرت عثمان ؓکے دور خلافت میں فوت ہونے تک مدینہ میں ہی قیام پذیر رہیں۔ حضرت عثمانؓ کے والد زمانۂ جاہلیت میں ہی فوت ہو گئے تھے۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ لامام حجر العسقلانی، جزء 4صفحہ377،عثمان بن عفان، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2005ء) (سیرۃامیرالمؤمنین عثمان بن عفان شخصیتہ وعصرہ از علی محمد الصلابی،صفحہ15، الفصل الاول ، المبحث الاول اسمہ ونسبہ وکنیتہ، دارالمعرفۃبیروت2006ء) (سیرالصحابہ جلد اول صفحہ 154، دارالاشاعت کراچی 2004ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ182 ، 183ارویٰ بنت کریز، ام کلثوم بن عقبہ)

حضرت عثمان ؓکی کنیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں حضرت عثمان ؓکی کنیت ابوعَمرو تھی۔ جب حضرت رقیہ ؓبنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے بیٹے عبداللہ پیدا ہوئے تو اس کی مناسبت سے پھر مسلمانوں میں آپؓ کی کنیت ابوعبداللہ بھی معروف ہو گئی۔

(سیرۃامیرالمؤمنین عثمان بن عفان شخصیتہ وعصرہ از علی محمد الصلابی،صفحہ15، الفصل الاول ، المبحث الاول اسمہ ونسبہ وکنیتہ، دارالمعرفۃبیروت2006ء)

ابن اسحاق کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت رقیہ ؓکی شادی حضرت عثمانؓ سے کی جو غزوۂ بدر کے ایام میں وفات پا گئیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری بیٹی حضرت رقیہ ؓکی بہن حضرت اُمِّ کلثومؓ سے حضرت عثمان کی شادی کر دی اس وجہ سے آپؓ کو ذوالنورین کہا جانے لگا۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ لامام حجر العسقلانی، جزء 4صفحہ377،عثمان بن عفان، دارالکتب العلمیۃ بیروت،2005ء)

یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپ کو ذوالنورین اس لیے کہا جاتا تھا کہ آپؓ ہر رات نماز تہجد میں بہت زیادہ تلاوت قرآن کریم کیا کرتے تھے چونکہ قرآن نور ہے اور قیام اللیل بھی نور ہے اس لیے آپؓ ذوالنورین یعنی ’’دو نوروں والا‘‘ کے لقب سے مشہور ہو گئے۔

(سیرۃ امیرالمؤمنین عثمان بن عفان شخصیتہ وعصرہ از علی محمد الصلابی،صفحہ16، الفصل الاول ، المبحث الاول اسمہ ونسبہ وکنیتہ،دارالمعرفۃبیروت2006ء)

ایک صحیح قول کے مطابق حضرت عثمان ؓکی ولادت کے بارے میں یہ بھی ایک روایت ملتی ہے کہ حضرت عثمان ؓعام الفیل کے چھ سال بعد مکہ میں پیدا ہوئے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ طائف میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً پانچ سال چھوٹے تھے۔

(سیرۃ امیرالمؤمنین عثمان بن عفان شخصیتہ وعصرہ از علی محمد الصلابی،صفحہ16، الفصل الاول ، المبحث الاول اسمہ ونسبہ وکنیتہ،دارالمعرفۃبیروت2006ء)

آپؓ کے قبولِ اسلام کے بارے میں یزید بن رُوْمَان روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عثمان بن عفانؓ اور حضرت طلحہ بن عُبیداللہؓ دونوں حضرت زُبیر بن عوامؓ کے پیچھے پیچھے نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے ان دونوں کے سامنے اسلام کا پیغام پیش کیا اور انہیں قرآن کریم پڑھ کر سنایا اور انہیں اسلام کے حقوق کے بارے میں آگاہ کیا اور ان سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی عزت و اکرام کا وعدہ کیا۔ اس پر وہ دونوں، حضرت عثمانؓ اور حضرت طلحہؓ ایمان لے آئے اور آپؐ کی تصدیق کی۔ پھر حضرت عثمان ؓنے عرض کیا یا رسول اللہؐ! میں حال ہی میں ملک شام سے واپس آیا ہوں۔ جب ہم مَعَانْاور زَرْقَاءمقام کے درمیان پڑاؤ کیے ہوئے تھے۔ مَعَان اردن کے جنوب میں حجاز کی حدود کے قریب ایک شہر ہے اور زرقاءیہ معان کے ساتھ ہی واقع ہے۔ بہرحال کہتے ہیں وہاں ہم پڑاؤ کیے ہوئے تھے اور ہم سوئے ہوئے تھے کہ ایک منادی کرنے والے نے اعلان کیا کہ اے سونے والو ! جاگو۔ یقیناً احمد مکہ میں ظاہر ہو چکا ہے۔ پھر جب ہم واپس پہنچے تو ہم نے آپؐ کے بارے میں سنا۔ حضرت عثمان ؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارِاَرْقَم میں داخل ہونے سے پہلے قدیمی اسلام لانے والوں میں سے تھے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ31،عثمان بن عفان،داراحیاء التراث العربی بیروت1996ء)

(معجم البلدان از اکر غلام جیلانی برق صفحہ320، معجم البلدان جلد 3 صفحہ 472 الزرقاء دار الکتب العلمیة بیروت)

قبول اسلام کے بعد آپؓ پر ظلم بھی ہوئے۔ موسیٰ بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان بن عفانؓ نے اسلام قبول کیا تو آپ کے چچا حَکَمْ بن ابوالعاص بن اُمَیَّہنے آپ کو پکڑ کر رسیوں سے باندھ دیا اور کہا کیا تم اپنے آباؤ اجداد کا دین چھوڑ کر نیا دین اختیار کرتے ہو۔ بخدا میں تمہیں ہرگز نہیں کھولوں گا یہاں تک کہ تم اپنا یہ نیا دین چھوڑ نہ دو۔ اس پر حضرت عثمان ؓنے کہا خدا کی قسم ! میں اسے کبھی نہیں چھوڑوں گا اور نہ اس سے علیحدگی اختیار کروں گا۔ حکم نے جب آپ کے دین پر مضبوطی کی یہ حالت دیکھی تو پھر مجبوراً آپ کو چھوڑ دیا۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ31،عثمان بن عفان،داراحیاء التراث العربی بیروت،1996ء)

حضرت رُقَیَّہ ؓسے جب آپ کی شادی ہوئی تو اس کا واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت سے پہلے حضرت رقیہ ؓکا رشتہ ابولہب کے بیٹے عُتْبَہ سے اور ان کی بہن حضرت ام کلثوم ؓکا رشتہ عُتبہ کے بھائی عُتَیْبَہسے ہو چکا تھا۔ جب سورة المَسَدْ یعنی سورة اللّھب نازل ہوئی تو ان کے باپ ابولہب نے ان سے کہا کہ اگر تم دونوں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹیوں سے علیحدہ نہ ہوئے تو میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ یہ رشتے توڑ دو۔ اس پر ان دونوں نے رخصتی سے قبل ہی دونوں بہنوں کو طلاق دے دی۔ اس کے بعد حضرت عثمان بن عفان ؓنے مکہ میں ہی حضرت رقیہ ؓسے شادی کر لی اور ان کے ساتھ حبشہ کی جانب ہجرت کی۔ حضرت رقیہ ؓاور حضرت عثمانؓ دونوں ہی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ

اَحْسَنَ زَوْجَیْنِ رَاٰھُمَا اِنْسَانٌ رُقَیَّةُ وَزَوْجُھَا عُثْمَانُ۔

سب سے خوبصورت جوڑا جو کسی انسان نے دیکھا ہو وہ حضرت رقیہ ؓاور ان کے شوہر حضرت عثمان ؓہیں۔

(شرح علامہ زرقانی جزء4صفحہ322،323 باب فی ذکر اولادہ الکرام، دارالکتب العلمیۃ بیروت1996ء)

عبدالرحمٰن بن عثمان قرشی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی کے گھر تشریف لائے۔ وہ اس وقت حضرت عثمان ؓکا سر دھو رہی تھیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹی! ابوعبداللہ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتی رہو۔ یقینا ًیہ میرے صحابہ میں اخلاق کے لحاظ سے مجھ سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں۔

(المعجم الکبیر للطبرانی جزء1صفحہ76حدیث98دار احیاء التراث العربی 2002ء)

ہجرت کے واقعہ کے بارے میں ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آپ کے صحابہ کو آزمائش پہنچ رہی تھی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ مقام و مرتبہ کی وجہ سے اور اپنے چچا ابوطالب کی وجہ سے آپؐ عافیت میں تھے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو عافیت میں تھے اور یہ کہ جس آزمائش میں صحابہ تھے اسے روکنے کی آپؐ قدرت اور طاقت نہیں رکھتے تھے۔گو خود تو کچھ حد تک امن میں تھے لیکن صحابہ پر جو ظلم ہورہے تھے ان ظلموں کو روکنے کی آپؐ میں طاقت نہیں تھی۔ اس پر آپؐ نے صحابہ سے فرمایا کہ اگر تم حبشہ کی سرزمین کی طرف نکلو تو وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی ایک پر ظلم نہیں کیا جاتا اور وہ سچائی کی سرزمین ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس آزمائش سے فراخی عطا فرما دے گا جس میں تم لوگ ہو۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب فتنہ کے خوف سے اور اپنے دین کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی طرف فرار کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے حبشہ کی سرزمین کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ اسلام میں ہونے والی پہلی ہجرت تھی۔

حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے صحابہ میں حضرت عثمان ؓاپنی زوجہ حضرت رقیہ ؓبنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ237-238باب ذکر الھجرۃ الاولیٰ الیٰ ارض الحبشہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان ؓحبشہ کی طرف ہجرت کے لیے نکلے تو ان کے ساتھ حضرت رقیہ ؓبنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک ان کی خبر پہنچنے میں تاخیر ہو گئی۔ پتہ نہیں لگ رہا تھا کہ ہجرت کی ہے تو کہاں تک پہنچے ہیں، کیا حال ہے؟ تو آپؐ باہر نکل کر ان کے متعلق خبر کا انتظار کرتے رہتے۔ پھر ایک عورت آئی اور اس نے آپ کو ان کے بارے میں بتایا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت لوط علیہ السلام کے بعد عثمان وہ پہلا شخص ہے جس نے اپنے اہل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کی ہے۔

(مجمع الزوائد و منبع الفوائدجزء9صفحہ58، کتاب المناقب باب ہجرتہ، حدیث نمبر14498دارالکتب العلمیۃ بیروت2001ء)

حضرت سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان بن عَفَّانؓ نے ارضِ حبشہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ رقیہ کو بھی ہمراہ لے جاؤ۔ میرا خیال ہے کہ تم میں سے ایک اپنے ساتھی کا حوصلہ بڑھاتا رہے گا۔ یعنی دونوں ہوں گے تو ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے رہو گے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء بنت ابوبکر ؓکو فرمایا کہ جاؤ اور ان دونوں کی خبر لاؤ کہ چلے گئے ہیں؟ کہاں تک پہنچے ہیں؟ کیا حالات ہیں باہر کے؟ حضرت اسماءؓ جب واپس آئیں تو حضرت ابوبکر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ حضرت عثمانؓ ایک خچر پر پالان ڈال کر حضرت رقیہ ؓکو اس پر بٹھا کر سمندر کی طرف نکل گئے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر ! حضرت لوطؑ اور حضرت ابراہیمؑ کے بعد یہ دونوں ہجرت کرنے والوں میں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے ہیں۔

(مستدرک جزء4صفحہ414 کتاب معرفۃ الصحابہ باب ذکر رقیہ بنت رسول اللّٰہ حدیث 6999دارالفکر بیروت2002ء)

پھر حبشہ سے ان کی واپسی کا واقعہ بھی بیان ہوا ہے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جن صحابہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی انہیں خبر پہنچی کہ مکہ والے اسلام لے آئے ہیں۔ اس پر یہ مہاجرین حبشہ سے مکہ کی طرف واپس لوٹے۔ جب وہ مکہ کے قریب پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی۔ اس پر یہ لوگ پوشیدہ طور پر یا کسی کی امان میں آ کر مکہ میں داخل ہوئے۔ ان میں سے بعض تو ایسے تھے کہ جنہوں نے پھر مدینہ ہجرت کی اور بدر اور احد کی جنگ میں آپ کے ساتھ یعنی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے اور بعض ایسے تھے جن کو کفار نے مکہ میں ہی روک لیا اور وہ جنگ بدر وغیرہ میں شریک نہیں ہو سکے۔ حبشہ سے آ کر پھر مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے والوں میں حضرت عثمان ؓاور ان کی بیوی حضرت رقیہ ؓبنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل تھیں۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ265-266دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

حضرت عثمان ؓحبشہ میں چند سال رہے۔ کتاب میں ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ چند سال رہے۔ اس کے بعد جب بعض صحابہ ؓقریش کے اسلام کی غلط خبر پا کر اپنے وطن واپس آئے تو حضرت عثمان ؓبھی آگئے۔ یہاں آ کر معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی ہے۔ اس بنا پر بعض صحابہ پھر حبشہ کی طرف لوٹ گئے مگر حضرت عثمانؓ مکہ میں ہی رہے یہاں تک کہ مدینہ کی ہجرت کا سامان پیدا ہو گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام صحابہ کو مدینہ کی طرف ہجرت کا ارشاد فرمایا تو حضرت عثمان ؓبھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے۔

(سیر الصحابہ جلد اوّل (خلفائے راشدین)صفحہ 178ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور پاکستان)

ایک روایت میں یہ ذکر ملتا ہے کہ حضرت عثمان ؓدوبارہ حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ31،عثمان بن عفان،داراحیاء التراث العربی بیروت،1996ء) لیکن اکثر کتب سیرت میں حضرت عثمان ؓکی حبشہ کی طرف اس دوسری ہجرت کا ذکر نہیں ہے۔ ویسے بھی ہجرت حبشہ ثانیہ کا جو پس منظر اور تفصیلات کتب سیرت و حدیث میں بیان ہوئی ہیں، محتاط سیرت نگار اس کو من و عن اس طرح تسلیم نہیں کرتے کیونکہ درایتاً ایسا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ ہجرت حبشہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جو اپنی تحقیق کی ہے گو اس میں سے کچھ حصہ مَیں پہلے گذشتہ بعض صحابہ کے ذکر میں کر چکا ہوں لیکن بہرحال یہاں بھی ذکر ضروری ہے۔ مرزا بشیر احمد صاحب کی تحقیق یہ ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’جب مسلمانوں کی تکلیف انتہا کو پہنچ گئی اور قریش اپنی ایذاء رسانی میں ترقی کرتے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں اور فرمایا کہ حبشہ کا بادشاہ عادل اور انصاف پسند ہے۔ اس کی حکومت میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ حبشہ کا ملک جو انگریزی میں ایتھوپیا یا ابی سینیا کہلاتا ہے برِ اعظم افریقہ کے شمال مشرق میں واقع ہے اور جائے وقوع کے لحاظ سے جنوبی عرب کے بالکل مقابل پر ہے اور درمیان میں بحیرۂ احمر کے سوا کوئی اور ملک حائل نہیں ہوتا۔ اس زمانہ میں حبشہ میں ایک مضبوط عیسائی حکومت قائم تھی اور وہاں کا بادشاہ نجاشی کہلاتا تھا بلکہ اب تک بھی وہاں کا حکمران اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔‘‘ یعنی جب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ لکھا۔ ’’حبشہ کے ساتھ عرب کے تجارتی تعلقات تھے اور ان ایام میں…… حبشہ کا دارالسلطنت اکسوم (Axsum) تھا جو موجودہ شہر عدوا (Adowa) کے قریب واقع ہے اور اب تک ایک مقدس شہر کی صورت میں آباد چلا آتا ہے۔ اکسوم اُن دنوں میں ایک بڑی طاقتور حکومت کا مرکز تھا اور اس وقت کے نجاشی کا ذاتی نام اصحمہ تھا۔ جو ایک عادل، بیدار مغز اور مضبوط بادشاہ تھا۔ بہرحال جب مسلمانوں کی تکلیف انتہا کو پہنچ گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا کہ جن جن سے ممکن ہو حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر ماہ رجب 5؍نبوی میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ ان میں سے زیادہ معروف کے نام یہ ہیں: حضرت عثمانؓ بن عَفَّان اور ان کی زوجہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، عبدالرحمٰن بن عوف، زُبیر ابن العَوَام، ابو حذیفہ بن عُتْبَہ، عثمان بن مَظْعُون، مُصْعَب بن عُمَیْر، ابوسَلَمَہ بن عَبدُالْاَسَد اور ان کی زوجہ اُمِّ سَلَمَہ۔‘‘ مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ’’یہ ایک عجیب بات ہے کہ ان ابتدائی مہاجرین میں زیادہ تر تعداد ان لوگوں کی تھی جو قریش کے طاقتور قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور کمزور لوگ کم نظر آتے ہیں جس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے۔ اول یہ کہ طاقتور قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی قریش کے مظالم سے محفوظ نہ تھے۔ دوسرے یہ کہ کمزور لوگ مثلاً غلام وغیرہ اس وقت ایسی کمزوری اور بے بسی کی حالت میں تھے کہ ہجرت کی بھی طاقت نہ رکھتے تھے۔

جب یہ مہاجرین جنوب کی طرف سفر کرتے ہوئے شُعَیْبَہ پہنچے جو اس زمانہ میں عرب کی ایک بندرگاہ تھی تو اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ ان کو ایک تجارتی جہاز مل گیا جو حبشہ کی طرف روانہ ہونے کو بالکل تیار تھا۔ چنانچہ یہ سب امن سے اس میں سوار ہو گئے اور جہاز روانہ ہو گیا۔ قریشِ مکہ کو ان کی ہجرت کا علم ہوا تو سخت برہم ہوئے کہ یہ شکار مفت میں ہاتھ سے نکل گیا۔ چنانچہ انہوں نے ان مہاجرین کا پیچھا کیا مگر جب ان کے آدمی ساحل پر پہنچے تو جہاز روانہ ہو چکا تھا اس لئے خائب و خاسر واپس لوٹے۔ حبشہ میں پہنچ کر مسلمانوں کو نہایت امن کی زندگی نصیب ہوئی اور خدا خدا کر کے قریش کے مظالم سے چھٹکارا ملا۔لیکن جیسا کہ بعض مورخین نے بیان کیا ہے ابھی ان مہاجرین کو حبشہ میں گئے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ ایک اڑتی ہوئی افواہ ان تک پہنچی کہ تمام قریش مسلمان ہو گئے ہیں اور مکہ میں اب بالکل امن و امان ہے۔ اس خبر کا یہ نتیجہ ہوا کہ اکثر مہاجرین بلا سوچے سمجھے واپس آگئے۔ جب یہ لوگ مکہ کے پاس پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی۔ اب ان کے لئے بڑی مصیبت کا سامنا تھا۔ بالآخر بعض تو راستہ میں سے ہی واپس لوٹ گئے اور بعض چھپ چھپ کر یا کسی ذی اثر اور طاقتور شخص کی حمایت میں ہو کر مکہ میں آ گئے۔ یہ شوال 5؍نبوی کا واقعہ ہے۔ یعنی آغاز ہجرت اور مہاجرین کی واپسی کے درمیان صرف ڈھائی تین ماہ کا فاصلہ ہے……

گو حقیقتاً یہ افواہ بالکل جھوٹی اور بے بنیاد تھی جو مہاجرینِ حبشہ کو واپس لانے اور ان کو تکلیف میں ڈالنے کی غرض سے قریش نے مشہور کر دی ہو گی بلکہ زیادہ غور سے دیکھا جاوے تو اس افواہ اور مہاجرین کی واپسی کا قصہ ہی بے بنیاد نظر آتا ہے۔ لیکن اگر اسے صحیح سمجھا جاوے تو ممکن ہے کہ اس کی تہ میں وہ واقعہ ہو جو بعض احادیث میں بیان ہوا ہے۔‘‘ اگر اس طرح دیکھا جائے، اگر اس کو صحیح مانا جائے تو بعضوں کی جو یہ روایت ہے کہ حضرت عثمان ؓچند سال ٹھہرے وہ روایت پھر غلط نکلتی ہے اور اگر اس کو غلط سمجھا جائے تو پھر تین چار مہینے میں واپس آ گئے لیکن بہرحال حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ یہ بات غلط ہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’اگر اسے صحیح سمجھا جاوے تو ممکن ہے کہ اس کی تہ میں وہ واقعہ ہو جو بعض احادیث میں بیان ہوا ہے۔ اور وہ جیسا کہ بخاری میں آتا ہے یہ ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحنِ کعبہ میں سورۂ نجم کی آیات تلاوت فرمائیں۔ اس وقت وہاں کئی ایک رؤسائے کفار بھی موجود تھے اور بعض مسلمان بھی تھے۔ جب آپؐ نے سورت ختم کی تو آپؐ نے سجدہ کیا اور آپؐ کے ساتھ ہی تمام مسلمان اور کافر بھی سجدہ میں گر گئے۔‘‘ بہر حال ’’کفار کے سجدہ کی وجہ حدیث میں بیان نہیں ہوئی‘‘ کہ وہ کیوں گر گئے ’’لیکن معلوم ہوتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت پر اثر آواز میں آیاتِ الٰہی کی تلاوت فرمائی اور وہ آیات بھی ایسی تھیں جن میں خصوصیت کے ساتھ خدا کی وحدانیت اور اس کی قدرت و جبروت کا نہایت فصیح و بلیغ رنگ میں نقشہ کھینچا گیا تھا اور اس کے احسانات یاد دلائے گئے تھے اور پھر ایک نہایت پُر رعب و پُر جلال کلام میں قریش کو ڈرایا گیا تھا کہ اگر وہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو ان کا وہی حال ہو گا جو ان سے پہلے ان قوموں کا ہوا جنہوں نے خدا کے رسولوں کی تکذیب کی اور پھر آخر میں ان آیات میں حکم دیا گیا تھا کہ آؤ اور اللہ کے سامنے سجدہ میں گر جاؤ اور ان آیات کی تلاوت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور سب مسلمان یکلخت سجدہ میں گرگئے تو اس کلام اور اس نظارہ کا ایسا ساحرانہ اثر قریش پر ہوا کہ وہ بھی بے اختیار ہو کر مسلمانوں کے ساتھ سجدہ میں گر گئے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ ایسے موقعوں پر ایسے حالات کے ماتحت…… بسا اوقات انسان کا قلب مرعوب ہو جاتا ہے اور وہ بے اختیار ہو کر ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے جو دراصل اس کے اصول و مذہب کے خلاف ہوتی ہے۔……‘‘ ضروری نہیں ہوتا کہ اس کو مان کے یہ حرکت ہوئی ہو۔ بے اختیاری میں بعض دفعہ حرکت ہو جاتی ہے۔ ’’بعض اوقات ایک سخت اور نا گہانی آفت کے وقت ایک دہریہ بھی اللہ اللہ یا رام رام پکار اٹھتا ہے۔‘‘ میں نے بھی بعض دہریوں سے پوچھا ہے اور وہ کہتے ہیں یہ بالکل ٹھیک بات ہے کہ باوجود اس کے کہ ہمیں خدا پہ یقین نہیں لیکن کوئی ایسی خطرناک حالت ہو تو بے اختیار منہ سے خدا کا لفظ نکل آ تا ہے۔ تو بہرحال ’’قریش تو دہریہ نہ تھے بلکہ بہرحال خدا کی ہستی کے قائل تھے۔ پس جب اس پُر رعب اور پُر جلال کلام کی تلاوت کے بعد مسلمانوں کی جماعت یکلخت سجدہ میں گر گئی تو اس کا ایسا ساحرانہ اثر ہوا کہ ان کے ساتھ قریش بھی بے اختیار ہو کر سجدہ میں گرگئے لیکن ایسا اثر عموماً وقتی ہوتا ہے اور انسان پھر جلد ہی اپنی اصل کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی ایسا ہی ہوا اور سجدہ سے اٹھ کر قریش پھر وہی بت پرست کے بت پرست تھے۔‘‘ یہ نہیں کہ وہ موحد بن گئے تھے۔

’’بہرحال یہ ایک واقعہ ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ پس اگر مہاجرینِ حبشہ کی واپسی کی خبر درست ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد قریش نے جو مہاجرین حبشہ کے واپس لانے کے لیے بیتاب ہو رہے تھے اپنے اس فعل کو آڑ بنا کر خود ہی یہ افواہ مشہور کر دی ہو گی کہ قریش مکہ مسلمان ہو گئے ہیں اور یہ کہ اب مکہ میں مسلمانوں کے لئے بالکل امن ہے اور جب یہ افواہ مہاجرینِ حبشہ کوپہنچی تو وہ طبعاً اسے سن کر بہت خوش ہوئے اور سنتے ہی خوشی کے جوش میں واپس آگئے لیکن جب وہ مکہ کے پاس پہنچے تو حقیقتِ امر سے آگاہی ہو ئی جس پر بعض تو چھپ چھپ کر اور بعض کسی طاقتور اور صاحبِ اثر رئیس قریش کی حفاظت میں ہو کر مکہ میں آگئے اور بعض واپس چلے گئے۔ پس اگر قریش کے مسلمان ہو جانے کی افواہ میں کوئی حقیقت تھی تو وہ صرف اسی قدر تھی جو سورة نجم کی تلاوت پر سجدہ کرنے والے واقعہ میں بیان ہوئی ہے۔ واللہ اعلم۔

بہرحال اگر مہاجرین حبشہ واپس آئے بھی تھے تو ان میں سے اکثر پھر واپس چلے گئے اور چونکہ قریش دن بدن اپنی ایذا رسانی میں ترقی کرتے جاتے تھے اور ان کے مظالم روز بروز بڑھ رہے تھے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر دوسرے مسلمانوں نے بھی خفیہ خفیہ ہجرت کی تیاری شروع کر دی اور موقع پاکر آہستہ آہستہ نکلتے گئے۔ یہ ہجرت کا سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ بالآخر ان مہاجرین حبشہ کی تعداد ایک سو ایک تک پہنچ گئی جن میں اٹھارہ عورتیں بھی تھیں اور مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت ہی تھوڑے مسلمان رہ گئے۔ اس ہجرت کو بعض مؤرخین ہجرت حبشہ ثانیہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔……‘‘

پھر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اپنا ایک تجزیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ایک اور بات ہے جو اس افواہ اور مہاجرین کی واپسی کے قصہ کو سرے سے ہی مشتبہ کر دیتی ہے اور وہ یہ کہ تاریخ میں ہجرت حبشہ کے آغاز کی تاریخ رجب 5؍نبوی اور سجدہ کی تاریخ رمضان 5؍نبوی بیان ہوئی ہے اور پھر تاریخ میں ہی یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ اس افواہ کے نتیجہ میں مہاجرین حبشہ کی واپسی شوال 5نبوی میں ہوئی تھی۔ گویا آغاز ہجرت اور واپسی مہاجرین کے زمانوں میں صرف دو سے لے کر تین ماہ کا فاصلہ تھا اور اگر سجدہ کی تاریخ سے زمانہ کا شمار کریں تو یہ عرصہ صرف ایک ہی ماہ کا بنتا ہے۔ اب اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے یہ قطعی طور پر ناممکن ہے کہ مکہ اور حبشہ کے درمیان اس قلیل عرصہ میں تین سفر مکمل ہو سکے ہوں۔ یعنی سب سے پہلے مسلمان مکہ سے حبشہ پہنچے۔ اس کے بعد کوئی شخص قریش کے اسلام کی خبر لے کر مکہ سے حبشہ گیا اور پھر مسلمان حبشہ سے روانہ ہو کر مکہ میں واپس آئے۔ ان تین سفروں کی تکمیل قطع نظر اس عرصہ کے جو زائد امور میں صرف ہو جاتا ہے‘‘ تیاری بھی ہوتی ہے اور چیزیں ہیں ’’اس قلیل عرصہ میں قطعاً ناممکن تھی اور اس سے بھی زیادہ یہ بات ناممکن تھی کہ سجدہ کے زمانہ سے لے کر مہاجرین حبشہ کی مزعومہ واپسی تک دو سفر مکمل ہو سکے ہوں کیونکہ اس زمانہ میں مکہ سے حبشہ جانے کے لئے پہلے جنوب میں آنا پڑتا تھا اور پھر وہاں سے کشتی لے کر جوہر وقت موجود نہیں ملتی تھی بحرِ احمر کو عبور کرکے افریقہ کے ساحل تک جانا ہوتا تھا اور پھر ساحل سے لے کر حبشہ کے دارالسلطنت اکسوم تک جو ساحل سے کافی فاصلہ پر ہے پہنچنا پڑتا تھا اور اس زمانہ کے آہستہ سفروں کے لحاظ سے اِس قسم کا ایک سفر بھی ڈیڑھ دو ماہ سے کم عرصہ میں ہر گز مکمل نہیں ہو سکتا تھا۔ اِس جہت سے گویا یہ قصہ سرے سے ہی غلط اور بے بنیاد قرار پاتا ہے لیکن اگر بالفرض اِس میں کوئی حقیقت تھی بھی تو وہ یقیناً اس سے زیادہ نہیں تھی جو اوپر بیان کی گئی ہے۔ واللہ اعلم‘‘

(سیرت خاتم النبیین صفحہ 146تا152)

بہرحال اس کی وجوہات جو بھی تھیں کچھ عرصہ کے بعد حضرت عثمان ؓکی حبشہ سے واپسی ہو گئی اور پھر حضرت عثمان ؓکی مدینہ کی طرف ہجرت اور مؤاخات کا ذکر اس طرح ملتا ہے کہ محمد بن جعفر بن زبیر سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان ؓنے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو آپ قبیلہ بنو نجار میں حضرت حَسَّان بن ثابِتؓ کے بھائی حضرت اَوس بن ثابتؓ کے گھر ٹھہرے۔

موسیٰ بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے مابین عقدِ مؤاخات قائم فرمایا تھا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت شدّاد بن اوسؓ کے والد حضرت اَوس بن ثابتؓ اور حضرت عثمان ؓکے مابین عقدِ مؤاخات قائم فرمایا گیا تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت ابوعُبَادہ سعد بن عثمان زُرَقِی سے حضرت عثمان ؓکا عقد ِمؤاخات قائم ہوا تھا۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ31،عثمان بن عفان،داراحیاء التراث العربی بیروت،1996ء)

ایک روایت کے مطابق حضرت عثمان ؓکی مؤاخات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ قائم فرمائی تھی۔ چنانچہ طبقات کبریٰ میں لکھا ہے کہ ابنِ لَبِیْبَہبیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان بن عفانؓ محصور ہو گئے یعنی جب دشمنوں نے آپ کو محصور کر دیا، ہر طرح کی پابندی لگا دی تو آخری دنوں میں آپ نے ایک اونچی کوٹھڑی کے روشن دان سے جھانک کر لوگوں سے پوچھا کیا تم میں طلحہ ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں ہے۔ آپؓ نے انہیں فرمایا کہ تمہیں اللہ کی قَسم دے کر پوچھتا ہوں، اللہ تعالیٰ کا کہا کہ کیا آپ کو علم ہے ناں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہمراہ میری مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان ؓکو اپنے ساتھ مؤاخات میں رکھا تھا۔ اس پر حضرت طلحہؓ نے کہا کہ واللہ یہ درست ہے۔ اس پر حضرت طلحہؓ سے پوچھا گیا حضرت عثمانؓ کے گھر کو گھیرے ہوئے جو اردگرد مخالفین تھے انہوں نے ان سے پوچھا ،جواب طلبی کی کہ تم نے یہ کیا کیا؟ تو حضرت طلحہؓ نے بڑی جرأت سے جواب دیا کہ حضرت عثمان ؓنے مجھ سے قسم لے کر پوچھا تھا اور جس بات کے بارے میں پوچھا تھا وہ میری آنکھوں کے سامنے ہوئی تھی تو کیا میں اس کی شہادت نہ دیتا؟

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ38،ذکر ما قیل لعثمان فی الخلع،داراحیاء التراث العربی بیروت،1996ء)

میں تو جھوٹ نہیں بول سکتا تھا۔ جو تم نے مخالفت کرنی ہے کر لو۔

حضرت رقیہ ؓکی وفات اور حضرت ام کلثومؓ سے شادی کے واقعہ کا ذکر اس طرح ملتا ہے کہ عبداللہ بن مُکْنِفْ بن حَارِثَہ انصاری بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بدر کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت عثمان ؓکو اپنی بیٹی حضرت رقیہ ؓکے پاس چھوڑا۔ وہ بیمار تھیں اور انہوں نے اس روز وفات پائی جس دن حضرت زید بن حارِثہؓ مدینہ کی طرف اس فتح کی خوشخبری لے کر آئے جو بدر میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کے لیے بدر کے مال غنیمت میں حصہ مقرر فرمایا اور آپ کا حصہ جنگِ بدر میں شامل ہونے والوں کے برابر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت رقیہ ؓکی وفات کے بعد حضرت عثمان بن عفانؓ کے ساتھ اپنی صاحبزادی حضرت ام کلثوم کی شادی کر دی۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ32،عثمان بن عفان،داراحیاء التراث العربی بیروت،1996ء )

حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان ؓسے مسجد کے دروازے پر ملے اور فرمانے لگے کہ عثمان یہ جبریل ہیں انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ام کلثوم کا نکاح رُقَیَّہجتنے حق مہر پر اور اس سے تمہارے حسن سلوک پر تمہارے ساتھ کر دیا ہے۔

(سنن ابن ماجہ افتتاح الکتاب فضل عثمان رضی اللّٰہ عنہ حدیث نمبر 110)

یعنی دوسری بیٹی کا نکاح بھی اللہ تعالیٰ نے کہا کہ حضرت عثمان ؓسے کر دیا جائے۔

حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام کلثوم کی شادی حضرت عثمانؓ سے کی تو آپ نے حضرت ام ایمنؓ سے فرمایا میری بیٹی ام کلثوم کو تیار کر کے عثمان کے ہاں چھوڑ آؤ اور اس کے سامنے دف بجاؤ۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین دن کے بعد حضرت ام کلثومؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا ۔ اے میری پیاری بیٹی! تم نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ ام کلثوم نے عرض کیا وہ بہترین شوہر ہیں۔

(سیرۃامیرالمؤمنین عثمان بن عفان شخصیتہ وعصرہ از علی محمد الصلابی،صفحہ41، الفصل الاول، ذوالنورین عثمان بن عفان بین مکة والمدینة زواجہ من ام کلثوم سنۃ 3ھ، دارالمعرفۃبیروت2006ء)

حضرت ام کلثوم ؓحضرت عثمان ؓکے ہاں 9؍ہجری تک رہیں اس کے بعد وہ بیمار ہو کر وفات پا گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کی قبر کے پاس بیٹھے۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ام کلثوم ؓکی قبر کے پاس اس حال میں بیٹھے ہوئے دیکھا کہ آپؐ کی آنکھیں اشکبار تھیں۔

(سیرۃامیرالمؤمنین عثمان بن عفان شخصیتہ وعصرہ از علی محمد الصلابی،صفحہ42، المبحث الثالث: ملازمتہ للنبیﷺ فی المدینۃ/ وفاۃ ام کلثوم، دارالمعرفۃبیروت2006ء)

بخاری کی ایک روایت میں اس واقعہ کا یوں ذکر ہوا ہے کہ ہلال نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی۔ وہ کہتے تھے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے جنازے پر موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔

(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب من یدخل قبر المرأۃ، حدیث نمبر 1342، اردو ترجمہ صحیح البخاری جلد 2 صفحہ 663 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام کلثوم ؓکی وفات پر فرمایا: اگر میری کوئی تیسری بیٹی ہوتی تو میں اس کی شادی بھی عثمان سے کروا دیتا۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ32،عثمان بن عفان،داراحیاء التراث العربی بیروت،1996ء )

حضرت ابنِ عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جگہ سے گزرے تو دیکھا کہ حضرت عثمان ؓوہاں بیٹھے تھے اور حضرت ام کلثوم ؓبنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے غم میں رو رہے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ آپ کے دونوں ساتھی یعنی حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓ بھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اے عثمان! تم کس وجہ سے رو رہے ہو؟ حضرت عثمان ؓنے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں اس وجہ سے رو رہا ہوں کہ میرا آپؐ سے دامادی کا تعلق ختم ہو گیاہے۔ دونوں بیٹیاں فوت ہو گئیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ مت رو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ اگر میری سو بیٹیاں ہوتیں اور ایک ایک کر کے فوت ہو جاتیں تو میں ہر ایک کے بعد دوسری کو تجھ سے بیاہ دیتا یہاں تک کہ سو میں سے ایک بھی باقی نہ رہتی۔

(کنزالعمال جزء 13 صفحہ 21 کتاب الفضائل فضائل الصحابۃ، فضائل ذوالنورین عثمان بن عفان حدیث نمبر 36201 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

بہرحال یہ ایک محبت کا اظہار تھا جو دونوں طرف سے ہوا۔ ایک فکر تھی حضرت عثمان ؓکی ۔ اس رشتہ کا جو تعلق تھا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم رکھا اور یہ یقین دہانی کرائی کہ یہ تعلق تو قائم ہے۔ باقی ذکر ان شاء اللہ آئندہ ہو گا۔

جیسا کہ میں ہر جمعہ میں تحریک کر رہا ہوں۔ دعاؤں کی طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ پاکستان کے لوگوں کے لیے، احمدیوں کے لیے دعائیں کرتے رہیں۔ مخالفین تو اپنی طرف سے اپنے زعم میں دائرہ تنگ کر رہے ہیں لیکن ان کو نہیں پتہ کہ ایک بالا ہستی بھی ہے، خدا تعالیٰ بھی ہے جس کی تقدیر بھی چل رہی ہے اور اس کا دائرہ بھی ان کے اوپر تنگ ہو رہا ہے اور وہ دائرہ جب تنگ ہوتا ہے تو پھر اس سے کوئی فرار نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے اور یہ لوگ ابھی بھی عقل سے کام لیں، انصاف سے کام لیں اور بلا وجہ کی ظلم اور تعدی سے باز آئیں۔ اسی طرح الجزائر کے لوگوں کے لیے بھی دعا کریں۔ ان کا ایمان سلامت رہے۔ اسی طرح بعض اور جگہوں پر بھی احمدیوں کی کافی زیادہ مخالفت ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہر احمدی کو ہر لحاظ سے محفوظ رکھے۔

نمازوں کے بعد میں کچھ جنازے غائب بھی پڑھاؤں گا۔ ان کا ذکر بھی یہاں کر دیتا ہوں۔ پہلا ذکر مکرم مولانا سلطان محمود انور صاحب کا ہے۔ سابق ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ اور ناظر خدمت درویشاں بھی تھے اور ناظر اصلاح و ارشاد رشتہ ناطہ بھی رہے۔ 11؍جنوری کو ربوہ میں تقریباً 88 سال کی عمر میں ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کے والد کا نام چوہدری محمد دین تھا اور والدہ کا نام رحمت بی بی تھا۔ ان کے والد نے 1928ء میں حضرت خلیفہ ثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور احمدیت میں داخل ہوئے تھے۔ حضرت مولانا سلطان محمود انور صاحب آپ کے اکلوتے بیٹے تھے۔ مولانا سلطان محمود انور صاحب نے مڈل تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد وقف کر کے اپریل1946ء میں مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخلہ لے لیا۔پاکستان بننے کے بعد احمدنگر میں جامعہ احمدیہ میں چلے گئے جہاں سے 1952ء میں مولوی فاضل کا امتحان دیا اور اپریل 1956ء میں جامعہ احمدیہ سے شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی شادی وہیں محمودہ شوکت صاحبہ بنت چودھری سعدالدین صاحب سے ہوئی۔ ان کا نکاح مولانا جلال الدین صاحب شمس نے 1960ء میں جلسہ سالانہ کے موقع پر پڑھایا۔ ان کی اولاد میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹے ان کے حسان محمود واقف زندگی ہیں۔ ربوہ میں تحریک جدید کے دفاتر میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ مکرم مولانا صاحب کی پہلی تقرری گجرات میں ہوئی تھی۔ نیز آپ نے بطور مربی سلسلہ پاکستان کے مختلف شہروں میں خدمات سرانجام دیں۔ 1974ء سے 1978ء تک یہ گھانا میں بھی رہے۔ اس دور میں جب میں بھی وہاں تھا یہ وہاں تھے اور میں نے دیکھا ہے کہ بڑے بے نفس ہو کے انہوں نے وہاں خدمت کی۔ 1982ء سے 1983ء تک یہ سیکرٹری مجلس کارپرداز بھی رہے۔ پھر83ء میں صدر مجلس کارپرداز مقرر ہوئے۔ 1983ء سے 98ء تک یہ ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ رہے۔ پھر اس کے بعد 2011ء تک ناظر خدمت درویشاں رہے۔ پھر 2011ء سے 17ء تک ناظر رشتہ ناطہ رہے اور بیماری کی وجہ سے 2017ء میں ریٹائرڈ ہو گئے تھے۔ ان کو تبلیغ کرنے کا ملکہ، لوگوں سے بات چیت کرنے کا ملکہ، تقریر کا ملکہ بھی بہت تھا۔ ان کے متعدد ایسے واقعات ہیں کہ مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے اور علماء سے ان کی اختلافی مسائل پر گفتگو ہوتی اور بڑے ٹھوس اور علمی جواب دیتے۔ بڑے اچھے مقرر تھے جیسا کہ میں نے کہا۔ سامعین کو، سننے والوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے تھے۔ مربیان جو ان کے ساتھ کام کرنے والے ہیں وہ بھی یہی لکھتے ہیں کہ ہمیں ساتھ لے کر چلنے والے تھے۔ ہر ایک نے یہی لکھا کہ انتہائی شفقت کا سلوک ہم سے فرماتے تھے اور خود بھی تہجد اور عبادت کرنے والے اور لوگوں کو، مربیان کو بھی خاص طور پر تہجد اور عبادت کی تلقین کیا کرتے تھے۔ ان کا خلافت سے وفا اور اطاعت کا ایک غیر معمولی معیار تھا۔ خلافت رابعہ میں ذرا سا ابتلا بھی ان پہ آیا لیکن کامل اطاعت کے ساتھ انہوں نے وہ دور گزارا اور ماتحت رہ کر بھی کام کیا بلکہ ان کو کسی نے کہا بھی کہ آپ پہلے ناظر تھے اب آپ کو ناظر کی بجائے کسی ناظر کے ماتحت کام کرنا پڑ رہا ہے تو مجھے مربیان نے بھی لکھا ہے اور ان کی ایک بیٹی نے بھی لکھا تھا کہ انہوں نے کہا کہ خلیفہ وقت زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ کس کی کہاں کیا ضرورت ہے۔ میں نے وقف کیا ہوا ہے مجھے چاہے جھاڑو دینے پہ لگا دیا جائے میں تو وہی کام کروں گا جس کا خلیفہ وقت کا ارشاد ہے اور اللہ تعالیٰ نے پھر بہتر حالات کیے اور ان کی اس کامل وفا اور اطاعت کے نمونے کو مَیں سمجھتا ہوں قبولیت کا رنگ ملا اور پھر دوبارہ صدر انجمن احمدیہ کے ممبر بھی بنے اور ناظر بھی بنے۔ جہاں بھی رہے، کراچی میں بھی اور دوسری جگہوں پہ بھی تو امیر کے ساتھ ان کا مکمل تعاون اور اطاعت کا نمونہ ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آپ نے بعض علمی کام بھی کیے ہوئے ہیں، تصنیفات لکھی ہیں۔ ان کی ایک تصنیف ’’کلمہ طیبہ کی عظمت کا قیام احمدی کی پہچان ہے‘‘، ان کی دوسری کتاب ہے ’’اللہ تعالیٰ، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ،قرآن کریم اور خانہ کعبہ‘‘۔ پھر ان کی ایک کتاب ہے ’’جماعت احمدیہ کی تعداد کا مسئلہ‘‘۔ پھر ایک کتاب ہے ’’نفاذ شریعت میں ناکامی کے اسباب‘‘، پھر ان کی ایک کتاب ہے ’’توہین رسالت کی سزا‘‘۔ بہرحال یہ ان کی تصانیف ہیں۔علمی کام بھی انہوں نے کیے جیسا کہ میں نے کہا بہت ٹھوس کام کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔

دوسرا جنازہ مولانا محمد عمر صاحب سابق ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ قادیان کا ہے جو پی کے ابراہیم صاحب کے بیٹے تھے۔ 12؍جنوری کو 87سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحوم کا تعلق کیرالہ سے تھا۔ ان کے والد ابراہیم کُٹی صاحب تھے جو جماعت کے سخت مخالفین اور معاندین میں سے تھے۔ مولانا صاحب کی ولادت سے دس سال پہلے ان کے والد تجارت کے سلسلہ میں بمبئی گئے۔ ان دنوں بمبئی میں کافی احمدی تجارت کرتے تھے۔ بمبئی میں مالا بار کے ہی بعض احمدیوں سے ان کی ملاقات ہوئی اور عقائد احمدیہ کے متعلق تبادلہ خیال ہوا اور 1924ء میں جب حضرت خلیفہ ثانیؓ بمبئی تشریف لے گئے۔ اس وقت حضور کے دست مبارک پر موصوف کو بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ بعد ازاں ان کو قادیان میں بھی زیارت کی توفیق ملی۔

مولانا عمر صاحب 1954ء میں قادیان آئے جبکہ تقسیم ملک کے بعد مدرسہ احمدیہ کا از سر نو اجرا ہو چکا تھا۔ 1955ء میں مدرسہ میں داخل ہوئے اور 1961ء میں مدرسہ احمدیہ اور پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایک سال تک مدرسہ میں پڑھاتے رہے۔ طالبعلمی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی کی خواہش پر مرحوم کو تقریباً ایک سال تک روزانہ صبح ان کے گھر قرآن کریم سنانے کی توفیق ملی۔ 1962ء سے میدان تبلیغ میں خدمت کا سلسلہ شروع کیا۔ ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں کام کیا اور بڑے کامیاب مبلغ کے طور پر خدمت بجا لاتے رہے۔ تبلیغی جلسوں میں ان کی تقاریر ہوتی تھیں۔ مناظرہ یادگیر میں شرکت کی اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خصوصی رہنمائی میں کوئمبٹور کے تاریخی مناظرہ میں جو کہ مسلسل نو دن تک جاری رہا اور جس میں خاص طور پہ مولانا دوست محمد صاحب شاہد اور حافظ مظفر صاحب بھی مرکزسے نمائندے گئے ہوئے تھے ان کے ساتھ انہوں نے بہت اہم کام کیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے ایک جگہ ان کے کام کو سراہتے ہوئے اپنے خطبہ میں فرمایا تھا کہ بعض جماعتیں ہیں جہاں ایک ہی آدمی ہے جو فوری طور پر اکیلا سارا بوجھ اٹھاتا ہے اور تراجم کرکے یعنی خطبات کا ترجمہ کر کے فوری طور پہ پھر کثرت سے شائع کرتا ہے اور ایسی جماعتوں کا خدا تعالیٰ کے فضل سے معیار ترقی پر ہے کیونکہ ان کو فوری خلیفہ وقت کا خطبہ مل جاتا ہے اور اس سے ساری جماعت کو پتہ لگ جاتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ ساؤتھ انڈیا میں ہماری ایسی جماعتیں جو اردو نہیں سمجھتیں وہاں ہمارے مولوی محمد عمر صاحب مبلغ سلسلہ ہیں۔ ان کو خدا تعالیٰ نے اس بات کا جنون دیا ہوا ہے۔ ادھر آواز کان تک پہنچی ادھر فوری طور پر اس کے ترجمے کیے اور فوری طور پر ساری جماعتوں تک پہنچا دیے۔ تو بڑی محنت سے یہ کام کیا کرتے تھے۔ تقریباً ایک سال تک فلسطین میں بھی ان کو خدمت کی سعادت حاصل ہوئی۔ قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی متعدد کتب اور رسالوں کی ملیالم اور تامل ترجمہ کرنے کی توفیق ملتی رہی۔ 2007ء میں جب ان کو میں نے ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ مقرر کیا اور پھر ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد تعلیم القرآن اور وقف عارضی مقرر کیا اور پھر بطور نائب ناظر اعلیٰ بھی خدمت کی توفیق ملی تو بڑے احسن رنگ میں انہوں نے تمام خدمات سرانجام دیں۔ مدرسہ احمدیہ سے فارغ ہونے کے بعد مجموعی طور پر مرحوم کو ترپن (53)سال تک سلسلہ کی خدمت کی توفیق ملی۔ آپ کے پسماندگان میں چار بیٹیاں ہیں اور داماد اور نواسے نواسیاں اور پڑنواسے نواسیاں بھی ہیں۔ جنون تھا ان کو جماعت کی خدمت کا۔ جب فیملی کے ساتھ ذاتی سفر پر جایا کرتے تھے تو سفر کے دوران بھی اَور جماعتی کاموں اور خصوصاً ترجمہ وغیرہ کے کاموں میں مشغول رہتے تھے۔

سری لنکا کے نیشنل صدر صاحب لکھتے ہیں کہ سری لنکا جماعت کی تاریخ احمدیت میں وہ سنہری دور ہمیشہ محفوظ رہے گا جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکی بابرکت قیادت میں مولانا صاحب کی پہلی تشریف آوری مرکزی مبلغ کے طور پر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ 1978ء میں ہوئی تھی تو غیر معمولی طور پر جماعت کے اندر نئے روحانی جوش کے ساتھ اصلاح اور پاک تبدیلی نظر آنے لگی اور مولانا مرحوم کی وہاں گراں قدر خدمات ہیں۔ 1994ء میں کولمبو شہر میں رام کرشنا کے بڑے ہال میں مولانا صاحب کی امن اور وحدت کے عنوان پر ایک ایسی زبردست تقریر ہوئی جس کو سننے کے لیے چار سو سے زیادہ لوگ شامل ہوئے۔ رام کرشنا تحریک کے ملک کے صدر اور ملک کے ہندو کلچرل منسٹر آنریبل دیوراج (Deueraj) خاص طور پر مولانا مرحوم کی یہ تقریر سن کر وجد میں آ گئے اور بہت تعریف کرنے لگے کیونکہ اس تقریر میں مولانا صاحب نے گیتا کے حوالوں سے منتر پڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کو ثابت کیا تھا۔ اسی لیے ان کی وہ تاریخی تقریر آج بھی ان لوگوں میں مقبول ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چار کتب تامل زبان میں ترجمہ کیں اور مختلف موضوعات کے تحت سات کتب تامل زبان میں خود تصنیف کیں۔ صوبہ تامل ناڈو میں جماعتی رسالہ سمدانہ وازھی (Samadana Vazhi)کا اجرا کر کے ایک طویل عرصہ تک وہاں سے اور دوسرے صوبوں سے بھی شائع کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے درجات بلند کرے۔ ان کی اولاد کو بھی کامل وفا کے ساتھ جماعت سے تعلق رکھنے کی توفیق دے۔

اگلا جنازہ مکرم حبیب احمد صاحب مربی سلسلہ کا ہے جو محمد اسماعیل صاحب فیکٹری ایریا ربوہ کے بیٹے تھے۔ 25؍ دسمبر کو اسلام آباد میں ہارٹ اٹیک سے 64سال کی عمر میں وفات پا گئے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

1979ء میںانہوں نے جامعہ پاس کیا تھا۔ اس کے بعد پاکستان کے مختلف اضلاع میں ان کو کام کی توفیق ملی۔ 1989ء سے 2003ء تک نائیجیریا میں خدمت کی توفیق پائی۔ اس دوران ستمبر 1998ء سے اکتوبر 2000ء تک امیر اور مشنری انچارج نائیجیریا بھی رہے۔ عاجزی اور انکساری کے ساتھ خدمت بجا لاتے رہے۔ دفتری امور کے علاوہ محلہ کے تربیتی امور میں بھی بڑے احسن رنگ میں کام کرتے تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی وفا سے جماعت سے تعلق قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اگلا جنازہ مکرم بدرالزمان صاحب کا ہے جو کچھ عرصہ سے کارکن وکالت مال یوکے تھے۔ 3جنوری کو بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

نہایت مخلص اور محنتی کارکن تھے۔ 1944ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔ پیدائشی احمدی تھے۔ ان کو خدام الاحمدیہ میںبھی جب گورنمنٹ میں اپنی سروس کر رہے تھے تو قائد ضلع کوئٹہ کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ پھر انصار اللہ بلوچستان کے ناظم بھی رہے۔ ان پہ 1986ء میں ایک جماعتی کیس بھی ہوا جس کے تحت یہ اسیر راہ مولیٰ بھی رہے اور 1995ء سے 99ء تک وکالت مال اول ربوہ میں بھی خدمت سرانجام دی۔ یہاں لندن آ گئے تو رقیم پریس میں اور پھر سترہ سال ایڈیشنل وکالت مال لندن میں ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا جنازہ مکرم منصور احمد تاثیرصاحب کا ہے جو مولوی محمد احمد نعیم صاحب مربی سلسلہ کے بیٹے تھے اور کارکن شعبہ احتساب نظارت امور عامہ ربوہ میں تھے۔ یہاں لندن اپنے بیٹے کے پاس آئے ہوئے تھے کہ 30دسمبر کو 70سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ نے زندگی کے تقریباً پچیس سال خدمت دین کے لیے جماعتی کارکن کی حیثیت سے مختلف دفاتر میں خدمت کی توفیق پائی۔ نہایت درجہ ملنسار دیندار اور شفیق انسان تھے۔ خلافت کے ساتھ والہانہ محبت کرنے والے تھے۔ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ تحمل اور بردباری سے معاملات کو حل کرتے تھے۔ عموماً جو پیچیدہ معاملات ہوتے تھے وہ آپ کے سپرد کیے جاتے تھے اور بعض اوقات فریقین غصہ اور طیش کے جذبات سے مغلوب ہو کر دفتر آتے تھے لیکن آپ محبت اور پیار سے ان کے جذبات اور غصہ کو کنٹرول کر لیتے تھے اور معاملہ حل کر دیا کرتے تھے۔ جماعتی خدمت کا اس قدر جذبہ تھا کہ ان کی اہلیہ نے لکھا ہے کہ آپ کی بیٹی ڈاکٹر فارعہ منصور کی جب دعوت ولیمہ تھی تو اس روز یہ صبح صبح تیار ہو کے دفتر کے لیے نکلنے لگے۔ اہلیہ نے کہا کہ شادی والا گھر ہے آج تو چھٹی کر لیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ دعوت کا وقت دو بجے ہے۔ وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں اِس وقت دفتر جا رہا ہوں اُس وقت آ جاؤں گا۔ افسران بالا کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتے۔ اگر کسی معاملہ میں اختلاف رائے ہوتی تو ادب کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے اور ہمیشہ اپنی رائے پیش کرتے۔پسماندگان میں ان کی اہلیہ رخشندہ صاحبہ دو بیٹے اور دوبیٹیاں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

بچپن سے میں ان کو جانتا ہوں۔ میرے ساتھ یہ پڑھا کرتے تھے۔ ہمیشہ سے ان کو میں نے دیکھا ہے کہ بڑی شرافت تھی اور ہنسنا اور مذاق کرنے والی طبیعت تھی ۔کبھی غصہ نہیں آنا ۔کبھی لڑائی نہیں کرنی اور وہی بات پھر ان میں آخر تک رہی جس کی وجہ سے پھر یہ لوگوں میں صلح و صفائی کرانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے رہے۔

اگلا جنازہ ڈاکٹر عبیدی ابراہیم موانگا صاحب تنزانیہ کا ہے جو 9؍دسمبر کو تہتر سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

میڈیکل کے شعبہ میں مکریرہ (Makerere) یونیورسٹی یوگنڈا میں داخلہ حاصل کیا اور اللہ کے فضل سے ایسٹ افریقہ کے پہلے لوکل احمدی ڈاکٹر ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی جوانی میں ہی بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی۔ سکول کے زمانہ سے ہی مذہبی امور کی تقریبات میں شامل ہوتے تھے۔ نام نہاد اسلامی سکالر ز کی طرف سے جماعت احمدیہ پر بے پناہ اعتراضات کی وجہ سے ان کے دل میں جماعت کے بارے میں جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ اسی زمانے میں ان کی ملاقات مبلغ سلسلہ شیخ ابوالطالب ساندی صاحب سے ہوئی جو ان کے رشتہ دار بھی تھے۔ جب ان سے ان اعتراضات کے بارے میں بات چیت ہوئی تو شیخ صاحب نے تفصیلی طور پر نہ صرف ان من گھڑت اعتراضات کے جواب سے آگاہ کیا بلکہ انہیں جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع کردہ سواحیلی ترجمۃ القرآن اور دیگر کتب بھی دکھائیں۔ ان کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے بیعت کر لی۔ اللہ کے فضل سے انہوں نے اپنے عہد بیعت کو آخری دم تک نبھایا۔ ہر وقت ہر طبقے کے لوگوں کو اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچانے میں لگے رہتے۔ تبلیغ کے لیے ان کے دل میں ایک جوش تھا جس کی وجہ سے احمدیوں اور غیر احمدیوں میں خاص طور پر جانے جاتے تھے۔ اکثر اپنے بیگ میں جماعتی کتب اور رسائل اٹھا کر بازار لے جاتے اور بیچا کرتے تھے۔ آپ کو لوگوں نے پوچھا کہ ڈاکٹر ہیں اور یہاں کتابیں بیچ رہے ہیں؟ توبڑے خوشگوار لہجے میں جواب دیا کرتے تھے کہ جب میں ہسپتال میں ہوتا ہوں تو جسم کا علاج کرتا ہوں جبکہ اس وقت میں روح کا علاج کر رہا ہوں۔ ان دونوں چیزوں کو نہ علیحدہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ خلافت سے بے پناہ محبت اور عقیدت کا تعلق تھا۔ بچوں کی اسلامی طریق پر پرورش کی۔ تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ دی۔ نیز گھر پر بچوں کے ساتھ نماز باجماعت کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ گھر پر ایک لائبریری بھی بنائی ہوئی تھی جس میں دیگر علوم کی کتب کے ساتھ ساتھ جماعتی کتب بھی رکھی ہوئی تھیں۔ اپنی اولاد کے احمدیت یعنی حقیقی اسلام پر قائم رہنے کے بارے میں خود بھی دعا کرتے اور دوسروں کو بھی کہتے رہتے تھے۔ جماعت کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ ان کے تمام بچے بھی نظامِ جماعت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور اپنے والد کی طرح نیک طبیعت رکھنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ جوڑے رکھے اور والد کی دعائیں اور نیک خواہشات پوری کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور درجات بلند کرے۔

اگلا ذکر صغریٰ بیگم صاحبہ کا ہے جو دین محمد صاحب ننگلی درویش قادیان کی اہلیہ ہیں۔ 6؍ جنوری کو 85 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت حکیم محمد رمضان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی تھیں۔ صوم و صلوٰة کی پابند، باقاعدگی سے نماز تہجد ادا کرنے والی، مہمان نواز ،صابر و شاکر ،محنتی، ہمدرد اور بہت سی خوبیوں کی مالک ایک نیک خاتون تھیں۔ خلافت سے بے انتہا محبت کا تعلق تھا۔ کئی سال تک لجنہ اماء اللہ میں بطور سیکرٹری خدمت خلق خدمت کی توفیق ملی۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ ان کے ایک بیٹے بشیر الدین صاحب کو چالیس سال تک خدمت کی توفیق ملی۔ دوسرے بیٹے منیر الدین اس وقت نظامت تعمیرات میں قادیان میں خدمت بجالا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اگلا ذکر مکرم چودھری کرامت اللہ صاحب کا ہے جو 26؍ دسمبر کو 95سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت چودھری شاہ دین صاحب آف گھٹیالیاں کے پوتے تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیالکوٹ آمد پر بیعت کی سعادت حاصل کی تھی۔ مرحوم شریف النفس بے لوث محبت کرنے والے، غریب پرور اور ضرورتمندوں کا خیال رکھنے والے، ہر حال میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے والے ایک مخلص انسان تھے۔

ان کے بیٹے سہیل صاحب لکھتے ہیں کہ مہمان نوازی کا وصف ان میں نمایاں تھا اور اس کا اظہار خصوصی طور پر اس وقت ہوتا تھا جب واقفین زندگی جماعتی دوروں کے سلسلہ میں بدین سندھ تشریف لایا کرتے تھے۔ ان کو فرقان فورس میں بھی خدمت کی توفیق ملی۔ 1983ء سے لے کر 2018ء تک الفضل انٹرنیشنل کے دفتر میں رضاکارانہ خدمت بجا لاتے رہے۔ اپنے گھر کو شروع سے ہی جماعتی فنکشنز کے لیے پیش کیا ہوا تھا اور موجودہ گھر میں بھی ایک حصہ نماز سینٹر کے طور پر تعمیر کروایا۔ آپ کی بیٹیاں بھی خدمت سرانجام دے رہی ہیں اور بیٹا ہے وہ بھی جماعت کی خدمت سرانجام دے رہا ہے۔ ان کے نواسوں میں سے ایک نواسہ فرہاد احمد مربی سلسلہ یہیں یوکے میں پریس اینڈ میڈیا میں بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کی اولاد کو، ان کی نسل کو ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اگلا جنازہ چودھری منور احمد خالد صاحب جرمنی کا ہے جو 20؍ اگست کو 85سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحوم کا نظامِ جماعت کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ تبلیغی اور تربیتی مساعی میں بھرپور حصہ لیتے تھے اور جرمنی میں مختلف وقتوں میں بطور صدر اور جنرل سیکرٹری خدمت کی توفیق پائی۔ انصار اللہ کی بھی مختلف عہدوں میں خدمت کی توفیق پائی۔ اس کے علاوہ جب یہ پاکستان تھے تو وہاں تحریک جدید کی زمینوں پر بطور مینیجر بھی ان کو کام کرنے کی توفیق ملی۔ خلافت سے گہرا اخلاص کا تعلق تھا۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ پانچ بیٹے اور چھ بیٹیاں شامل ہیں۔

اگلا ذکر نصیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ احمد صادق طاہر محمود ریٹائرڈ مربی سلسلہ بنگلہ دیش کا ہے جو ستائیس اٹھائیس نومبر کی درمیانی رات کو بقضائے الٰہی وفات پا گئی تھیں۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحومہ محترم مولوی محمد صاحب سابق نیشنل امیر کی بیٹی تھیں۔ مرحومہ صوم و صلوٰة کی پابند، دعا گو، مہمان نواز، صابرہ و شاکرہ ایک نیک خاتون تھیں۔ رمضان میں باقاعدگی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتی تھیں اور ختم کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ اَور بہت ساری خوبیوں اور نیکیوں کی حامل تھیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا ذکر رفیع الدین بٹ صاحب کا ہے۔ یہ چھ دسمبر کو بانوے سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ حضرت مولوی خیر دین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ نے جوانی میں نظامِ وصیت میں شامل ہونے کی توفیق پائی۔ مختلف مقامات پر جماعتی خدمات کا موقع ملا۔ بدوملہی ضلع نارووال کے صدر جماعت اور امیر حلقہ بھی رہے۔ واہ کینٹ جماعت کے صدر بھی رہے۔ اسیر راہ مولیٰ ہونے کا بھی ان کو اعزاز ملا۔ پسماندگان میں چار بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ اور ان کے ایک داماد نسیم احمد صاحب نائیجیریا میں بطور مبلغ خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان تمام مرحومین کے درجات بلند کرے اپنے پیاروں کے قرب میں جگہ دے۔ نماز کے بعد جیسا کہ میں نے کہا ان کے نماز جنازہ غائب ادا کروں گا۔

(الفضل انٹرنیشنل 12؍فروری 2021ء صفحہ 5تا11)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button