تاریخ احمدیت

5؍ فروری 1925ء : مولوی عبدالحلیم صاحب اور قاری نور علی صاحب کی افغانستان میں شہادت

امیر امان اللہ خان صاحب کی حکومت جس نے 1924ء میں مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کو محض اختلاف عقیدہ کی بنا پر سنگسار کرا دیا تھا عالمگیر احتجاج پر اَور بھی مشتعل ہو گئی اور اس نے 5؍ فروری 1925ء کو دو اور احمدی مولوی عبدالحلیم صاحب ساکن چراسہ اور قاری نور علی صاحب ساکن کابل سنگسار کر دیئے۔

(الفضل 21 فروری 1925ء صفحہ 1)

(حاشیہ: امان اللہ خاں کی حکومت نے اعلان کیا کہ کابل کے دو اشخاص ملا عبدالحلیم چہار آسیانی،ملا نور علی دکاندار قادیانی عقائد کے گرویدہ ہو چکے تھے اور لوگوں کو اس عقیدہ کی تلقین کرکے انہیں صلاح کی راہ سے بھٹکا رہے تھے۔ جمہوریہ نے ان کی اس حرکت سے مشتعل ہو کر ان کے خلاف دعویٰ دائر کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجرم ثابت ہو کر عوام کے ہاتھوں پنجشنبہ 11؍رجب 1343ھ کو عدم آباد پہنچائے گئے۔ ان کے خلاف مدت سے ایک اور دعویٰ دائر ہو چکا تھا اور مملکت افغانیہ کے مصالح کے خلاف غیر ملکی لوگوں کے سازشی خطوط ان کے قبضہ سے پائے گئے جن سے پایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے دشمنوں کے ہاتھ بک چکے تھے۔ اس واقعہ کی تفصیل مزید تفتیش کے بعد شائع کی جائے گی۔ (اخبار امان افغان۔ بحوالہ الفضل 3؍مارچ 1925ء صفحہ 11) اس اعلان میں سازشی خطوط کا جو الزام عائد کیا گیا وہ امان اللہ خاں کی حکومت اپنے عہد اقتدار کے آخری دن تک ثابت کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ دراصل جس حکومت میں محض مذہبی اور نظریاتی اختلاف کی وجہ سے سنگسار کرنا روا ہو وہاں چند سازشی خطوط کا مرحومین کے گلے مڑھ دینے میں کیا مضائقہ سمجھا جا سکتا تھا پھر عجیب تر بات یہ تھی کہ مزید تفتیش تو ابھی ہونے والی تھی۔ مگر سزا پہلے دے دی گئی۔

ان شہداء کو پتھر مارنے والوں میں بھیرہ کے صوفی عبدالرحیم صاحب پراچہ بھی تھے جنہوں نے اس حادثہ سے متاثر ہو کر بعد ازاں احمدیت قبول کر لی۔ ولادت غالباً 1902ء وفات 7؍ فروری 1958ء بھیرہ میں دفن کئے گئے۔)

انصاف پسند حلقوں اور ہندو مسلم پریس کی جانب سے شدید مذمت

سرزمین کابل میں چند ماہ کے اندر ہونے والے اس دوسرے المناک حادثہ پر جس میں دو بے گناہوں کا خون بہایا گیا تھا۔ دنیا کے انصاف پسند حلقوں نے پہلے سے زیادہ زور اور شدت سے اس کے خلاف احتجاج کیا۔ احتجاج کرنے والوں میں دنیا بھر کے مشہور علمی دماغ شامل تھے۔ مثلاً (برطانوی مورخ) ایچ۔ جی ویلز (نامور افسانہ نگار) سر آرتھر کونن۔ سر الیور لاج۔ کرنل سر فرانسس ینگ ہسبنڈ۔ تصوف اسلامی کے ماہر پروفیسر نکلسن (الجمعیتہ (دہلی) 10؍ اپریل 1925ء صفحہ 9 بحوالہ الفضل 18؍اپریل 1925ء و الفضل 11؍اپریل 1925ء صفحہ 1)۔ جناب محمد علی جوہر۔ جناب عبدالماجد دریا آبادی۔ مسٹر گاندھی(الفضل 3؍مارچ 1925ء صفحہ 11)۔

ہندوستان کے ہندو مسلم پریس نے اس واقعہ کے خلاف پوری قوت سے آواز بلند کی چنانچہ بطور نمونہ چند اقتباسات درج کیے جاتے ہیں۔

٭…’’انڈین ڈیلی میل‘‘(بمبئی) نے 14؍فروری 1925ء کی اشاعت میں لکھا:

’’یہ خبر کہ کابل کے دو اَور احمدی …سنگسار کرکے موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ہیں۔ امیر افغانستان کی شہرت کو سوائے چند متعصب ہندوستانی ملانوں کے حلقے کے اور کسی قوم میں نہیں بڑھائے گی۔‘‘

٭…’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ لاہور نے 17؍ فروری 1925ء کے پرچہ میں لکھا:

’’اس بیسویں صدی میں ایسے ملک میں جو اپنے آپ کو دنیا کی مہذب قوموں میں شمار کرے ایسے دل سوز منظر کا واقعہ دل میں افسوسناک خیالات پیدا کرتا ہے۔‘‘

٭…اخبار ’’ریاست‘‘دہلی نے 21؍ فروری 1925ء کو لکھا:

’’افغان گورنمنٹ کا یہ وحشیانہ فعل موجودہ زمانہ میں اس قدر قابل نفرت ہے کہ جس کے خلاف مہذب ممالک جتنا بھی صدائےاحتجاج بلند کریں کم ہے …دنیا میں کسی شخص کا مذہبی عقائد کی صورت میں حکومت کی طرف سے ظلم کیا جانا اور بےرحمی کے ساتھ قتل کیا جانا باعث شہادت ہوا کرتا ہے اور بلاشبہ نعمت اللہ اور اس کے دو شجاع اور بہادر قادیانی بھی شہید کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔ جنہوں نے اپنے عقائد کے مقابلہ پر دنیاوی لالچ اور راحت و آرام کی پروا نہ کی اور اپنے فانی جسم کو پتھروں،اینٹوں اور دوسری بے جان چیزوں کے حوالے کر دیا۔ ع ’’ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما‘‘۔

ہم جہاں افغان حکومت کے اس ظالمانہ فعل کے خلاف نفرت اور انتہائی حقارت کا اظہار کرتے ہیں وہاں ان شہداء کے خاندان اور قادیانی فرقہ کے تمام لوگوں کو مبارکباد دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے عقائد پر مضبوط رہ کر دنیا میں ظاہر کر دیا کہ ہندوستان اب بھی اپنے عقائد کے مقابلہ پر بڑی مصیبت کو لبیک کہنے کے لئے تیار ہے۔‘‘

(اخبار ریاست دہلی 21؍ فروری 1925ء)

(حاشیہ: دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر اخبار ریاست نے اپنی مشہور کتاب ’’ناقابل فراموش‘‘ کے صفحہ441 پر بھی اپنے اس احتجاج کا ذکر کیا ہے۔)

٭…مدراس کے مشہور اخبار ’’مدراس میل‘‘ نے کلکتہ کے اخبارسٹیٹسمین کے حوالے سے لکھا:

’’یہ نہایت ظالمانہ فعل جو نیم سرکاری افسروں کی ہدایات کے بموجب عمل میں لایا گیا …یہ ظاہر کرتا ہے کہ امیر جس نے بلند ارادوں اور مصلحانہ روح کے ساتھ اپنا کام شروع کیا تھا…قدامت پسند اور متعصب اثرات کے نیچے دب گیا ہے۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی طرف سے مظالم پر صبر و سکون کی تلقین

شہدائے کابل کے حادثہ کی قادیان میں اطلاع جب پہنچی تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اسی وقت بیت الدعا میں تشریف لے گئے اور دعا کی کہ الٰہی تو اس حکومت پر رحم فرما اور ان کو ہدایت دے۔ دعا کے بعد حضورؓ نے ایک تقریر کی جس میں پوری جماعت کو صبر و سکون سے کام لینے کی تلقین فرمائی اور ساتھ ہی آنے والی نسلوں کو نصیحت فرمائی کہ

’’مجھے اس بات کا خیال نہیں آتا کہ گورنمنٹ افغان نے ہمارے آدمیوں کو سنگسار کر دیا ہے مجھے ڈر ہے تو اس بات کا ہے کہ ہماری نسلیں جب تاریخ میں ان مظالم کو پڑھیں گی۔ اس وقت ان کا جوش اور ان کا غضب عیسائیوں کی طرح ان کو کہیں اخلاق سے نہ پھیر دے … اس لئے میں آنے والی نسلوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ ان کو ہماری ان حقیر خدمات کے بدلے میں حکومت اور بادشاہت عطا کرے گا تو وہ ان ظالموں کے ظلموں کی طرف توجہ نہ کریں جس طرح ہم اب برداشت کر رہے ہیں وہ بھی برداشت سے کام لیں اور وہ اخلاق دکھانے میں ہم سے پیچھے نہ رہیں بلکہ ہم سے بھی آگے بڑھیں۔‘‘

مسئلہ ’’قتل مرتد‘‘اور ہندو اصحاب

مولوی نعمت اللہ صاحب شہید کے واقعہ شہادت کی طرح اس موقع پر بھی ہندوستان کے بعض متعصب اور تنگ نظر علماء نے امان اللہ خان کا یہ فعل مستحسن قرار دیا اور اسے ’’شریعت حقہ اسلامیہ‘‘کی اہم ترین دفعہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔

(’’سیرت محمد علی‘‘صفحہ 51 (از سید رئیس احمد صاحب جعفری) طبع دوم 1950ء)

اس موقف نے دشمنان اسلام کے ہاتھ اسلام اور آنحضرتﷺ کو بدنام کرنے کا ایک اَور ہتھیار دے دیا اور ان کو پورا پورا یقین ہو گیا کہ اسلام واقعی جبر و تشدد کا علمبردار ہے۔

چنانچہ مسٹر گاندھی نے کہا ’’میرا خیال ہے کہ سنگساری کی سزا کی قرآن میں صرف خاص حالات میں اجازت ہے۔ جن کے تحت میں یہ واقعات تو آسکتے ہیں لیکن …اس قسم کی سزا کو اخلاق پر دھبہ قرار دوں گا … یہ اس قسم کی سزا ہے جو انسانی جذبات کو ٹھیس لگاتی ہے خواہ جرم کسی بھی قسم کا کیوں نہ ہو دل اور دماغ قبول نہیں کرتے کہ کسی بھی جرم کے لئے سنگساری کی وحشیانہ سزا کو مناسب قرار دیا جائے۔‘‘

پنڈت شردھانند نے بیان دیا کہ ’’حال کی سنگساری کے بارہ میں وزیر داخلہ کابل نے جو اعلان نکالا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے یہ سنگساریاں مذہبی اختلاف کی بناء پر عمل میں آئی تھیں۔ جہاں کہیں بھی اسلامی بادشاہت قائم ہو گی وہاں قتل مرتد بذریعہ سنگساری کا قانون جاری ہو گا …اس لئے ہندوستان کے ہندو اس امر سے واقفیت رکھتے ہوئے اطمینان کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتے… میں نے مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب صدر جمعیۃ علمائے ہند سے پوچھا تھا کہ اگر قتل مرتد کا مسئلہ صحیح ہے تو ہندو کیسے مطمئن ہوں گے؟ مولانا مفتی صاحب نے جواب دیا تھا کہ قتل مرتد کی اجازت اسی حالت میں ہے جبکہ مسلمان بادشاہ ہو۔ کیونکہ بادشاہ ہی ایسا حکم دے سکتا ہے۔ میں نے اس وقت کہا تھا کہ اگر ہندوستان میں جمہوری سلطنت قائم ہو جائے اور اس کا صدر مسلمان چنا جائے۔ اس وقت ان ہندوئوں اور عیسائیوں کی حالت کیا ہو گی۔ جو ایک بار مسلمان ہو کر پھر اپنے پرانے مذہب میں واپس آنا چاہیں گے …اگر ایسے وحشیانہ قانون کے برخلاف یک زبان ہو کر ساری دنیا آواز نہ اٹھائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ انصاف کا خیال دنیا سے معدوم ہو گیا ہے۔‘‘

مسئلہ قتل مرتد اور جماعت احمدیہ اور دوسرے روشن خیال علماء

جماعت احمدیہ قتل مرتد کے مسئلہ ہی کو اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی و مخالف سمجھتی ہے اس لیے وہ دشمنان اسلام کے حملوں کا جواب دیتے ہوئے شروع ہی سے یہ واضح کرتی آرہی تھی کہ امان اللہ خاں کی حکومت اور اس کے مؤیدین نے احمدیوں ہی کا نہیں اسلام کا بھی خون کیا ہے جماعت احمدیہ کے اس موقف کی تائید و موافقت بعض دوسرے روشن خیال علماء نے بھی کی اور جرأت اور دلیری سے قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت کیا کہ نہ تو اسلام میں ارتداد کے لیے کوئی سزا مقرر ہے اور نہ احمدی مرتد ہیں۔

چنانچہ جناب مولانا محمد علی جوہر نے اس موضوع پر اپنے اخبار ہمدرد میں کئی اقساط میں ایک مفصل مقالہ سپرد قلم کیا جس میں مسئلہ ’’قتل مرتد‘‘ پر قرآن و حدیث سے سے بحث کرنے کے بعد لکھا:

’’اس وقت احمدیوں کی دو جماعتیں ہیں۔ لاہوری جماعت کے عقائد تو بالکل عام مسلمانوں کے سے ہیں …اب رہے قادیانی احمدی یعنی مرزا بشیر الدین صاحب(اصل مضمون میں الدین کی بجائے احمد کا لفظ لکھا گیا ہے جو سہو کتابت ہے۔ ناقل) کے حلقہ کے لوگ بے شک ان کے عقائد عام مسلمانوں سے بالکل الگ ہیں اور ہم ان لوگوں کو صحیح نہیں سمجھتے مگر باوجود ان کے غلط عقائد کے ان کو کافر و مرتد کہنا صریح ظلم ہے کیونکہ وہ اہل کعبہ ہیں،توحید،رسالت،قرآن اور حدیث کو ماننے اور عبادت و معاملات میں فقہ حنفی پر عمل کرتے ہیں۔ صوم و صلوٰۃ اور حج و زکوٰۃ کو فرض تسلیم کرتے اور اس پر عمل کرتے ہیں قرآن کو کلام الٰہی اور رسول اللہ کو افضل الرسل و انبیاء مانتے ہیں۔ باقی مرزا غلام احمد صاحب کے متعلق جو خیال انہوں نے قائم کر لیا ہے وہ ہر اک لحاظ سے غلط و باطل ہے مگر بہرصورت وہ قصور علم و کوتاہی فہم کی وجہ سے ہے۔ وہ آیات و احادیث میں تاویل کرتے ہیں اور مؤوّل کو آج تک کسی نے مرتد و کافر نہیں کہا۔ مرتد کی تعریف یہ ہے کہ جو اپنی زبان سے کہہ دے کہ میں نے دین اسلام کو چھوڑ دیا۔ کسی دوسرے شخص کو یہ حق نہیں کہ کسی ایسے شخص کو وہ مرتد و کافر قرار دے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو۔ قرآن میں یہاں تک ہے کہ

وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا

تم کو سلام کرے اس سے یہ مت کہو کہ تو مومن نہیں۔ اگر قصور فہم و تاویلات بعیدہ کی بناء پر کفر و ارتداد کے فتوے نکلنے اور احکام جاری ہونے لگیں تو کوئی فرقہ بھی کفر و ارتداد کی زد سے نہیں بچ سکتا۔

واقعہ یہ ہے کہ قادیانی جماعت کے جو کچھ بھی عقائد ہیں وہ آیات و احادیث کے سوء فہم و قصور علم کی بناء پر ہیں۔ ایک آیت کے معنے جو ہم سمجھے ہوئے ہیں وہ اس کے دوسرے معنی مراد لیتے ہیں۔ مگر ہماری طرح وہ بھی اپنے عقائد کے ثبوت میں آیات و احادیث کے معنی و مفہوم کو اپنے طور پر اپنے فہم و ادارک کے مطابق پیش کرتے ہیں اور یہ مسلمہ مسئلہ ہے کہ مؤوّل کو مرتد یا کافر نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ مرتد کی سزا قتل بتلائی جاتی ہے نہ کہ رجم۔ مگر افغانستان میں ان کو رجم کیا جارہا ہے جو ایک نئی اختراع ہے۔

اگر مناظرانہ الزامات کفر و ارتداد کو معتبر قرار دیا جائے تو پھر تمام فرقے ایک دوسرے کے نزدیک واجب القتل ٹھہرتے ہیں۔ بہت سے غالی اور متقشف علمائے احناف شیعوں کو بھی کافر سمجھتے ہیں۔ بالخصوص قائلین افک عائشہؓ کو۔ اسی طرح شیعہ خوارج کو کافر کہتے ہیں اور مناظرانہ حیثیت میں تمام فرقے ایک دوسرے کے عقائد کو باطل ٹھہراتے اور کفر و ارتداد سے تعبیر کرتے ہیں۔ بریلی کے دارالکفر سے سینکڑوں علماء حق کی نسبت کفر کے فتوے صادر ہوئے۔ خصوصاً مولانا رشید احمد صاحب محدث گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ سے لے کر حضرت شیخ الہند قدس سرہ العزیز تک تمام علمائے دیو بندان کے نزدیک بالکل ہی مرتد و کافر تھے۔ کیا یہ سب واجب القتل نہیں ٹھہرتے اور کیا اس طریقہ پر ایک ایسے فتنہ کا … دروازہ نہیں کھل جاتا۔ جولاانتہاء تباہی اور بربادی کا باعث ہو گا۔ ‘‘

(روزنامہ ’’ہمدرد‘‘دہلی 21؍فروری 1925ء صفحہ3)

(حاشیہ: اس سلسلہ میں جناب محمد علی جوہر کی ایک تحریر کا عکس الفضل 15؍ اپریل 1952ء میں شائع ہو چکا ہے)

سید رئیس احمد صاحب جعفری نے مولانا محمد علی جوہر کے ان مضامین پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔ ’’انہوں نے ان دونوں جماعتوں کے افکار و آراء کا مطالعہ کیا۔ اور پھر اپنا نظریہ یہ پیش کیا کہ اسلام میں قتل مرتد جائز نہیں … اس مسئلہ پر انہوں نے آیات قرآنی، احادیث رسولﷺ اقوال فقہاء،خیالات ائمہ،افکار مجتہدین کا اتنا نادر ذخیرہ جمع کر لیا کہ ایک شخص پوری بصیرت کے ساتھ اس مسئلہ پر ’’ریسرچ‘‘ کر سکتا ہے۔ اس ذخیرہ سے متمتع ہونے کے بعد اپنی بصیرت کے مطابق ایک رائے قائم کی اور اس پر آخر وقت تک مصر رہے۔‘‘

(سیرت محمد علی از رئیس احمد صاحب جعفری صفحہ 51)

مسلم زعماء میں سے دوسرے اہل قلم جنہوں نے اس موقع پر مسئلہ قتل مرتد پر محققانہ انداز میں قلم اٹھایا جناب عبدالماجد صاحب بی۔ اے دریا آبادی ہیں جنہوں نے لکھا:

’’کابل کے واقعہ رجم کی تائید و تحسین میں بعض اخبارات کی پرجوش تحریریں اور علمائے حنفیہ کے مضامین میری نظر سے گزرے میں نے انہیں بغور پڑھا۔ لیکن افسوس ہے کہ ان سے متفق و مطمئن نہ ہو سکا اور باوجود غیر احمدی ہونے کے اس باب خاص میں میری ہمدردی گروہ احمدی کے ہاتھ ہے۔

میں کسی معنی میں بھی ہرگز مذہبی عالم ہونے کا دعویٰ نہیں رکھتا۔ تاہم ایک عام مسلم بھی اپنے فہم و ادارک کے موافق ہر اسلامی مسئلہ میں لب کشائی کر سکتا ہے۔ اس لئے امید ہے کہ میری یہ مبادرت قابل عفو خیال کی جائے گی۔

میرے پیش نظر سوالات ذیل ہیں۔

۱۔ کیا اسلام نے ارتداد کی سزا قتل رکھی ہے؟

۲۔ کیا قتل و رجم مترادف ہیں ؟

۳۔ کیا احمدیت ارتداد ہے؟

(اس کے بعد آپ نے اس مسئلہ پر موافق و مخالف دلائل کا تجزیہ کیا اور آخر میں لکھا۔)

’’رجم مرتد کی تائید میں تو کوئی سند بھی موجود نہیں۔ ’’قتل‘‘مرتد کے باب میں کتاب و سنت خاموش ہیں بلکہ قرآن کریم میں جو رواداری عقائد کا اعلان عام کیا جا چکا ہے۔ وہ فتویٰ جواز قتل مرتد کی گویا تردید کر رہا ہے۔ صحابہ کرام کے طرز عمل سے باغیوں کے ساتھ قتال ثابت ہوتا ہے نہ کہ محض مرتدوں سے۔ آخر میں تیسرا مسئلہ یہ رہ جاتا ہے کہ آیا مرتد کا اطلاق احمدیوں پر صحیح ہے۔ قرآن کریم کی اصطلاح میں مرتد تو شاید صرف اسے کہہ سکتے ہیں جو احکام خدا یا احکام رسول سے منحرف ہو گیا ہو۔ پھر کیا احمدیت کو کتاب و سنت کے کسی جزئیہ سے بھی انکار ہے …جہاں تک میری نظر سے خود بانی سلسلہ احمدیہ جناب مرزا غلام احمد صاحب مرحوم کی تصانیف گزری ہیں ان میں بجائے ختم نبوت کے انکار کے اس عقیدہ کی خاص اہمیت مجھے ملی۔ بلکہ مجھے ایسا یاد پڑتا ہے کہ احمدیت کے بیعت نامہ میں ایک مستقل دفعہ حضرت رسول خداﷺ کے خاتم النبیین ہونے کی موجود ہے۔ مرزا صاحب مرحوم اگر اپنے تئیں نبی کہتے تھے تو اس معنی میں جس میں ہر مسلمان ایک آنے والے مسیح کا منتظر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ ختم نبوت کے منافی نہیں۔

پس اگر احمدیت وہی ہے جو خود مرزا صاحب مرحوم بانی سلسلہ کی تحریروں سے ظاہر ہوتی ہے تو اسے ’’ارتداد‘‘ سے تعبیر کرنا بڑی ہی زیادتی ہے ان کی تحریروں سے تو محض اتنا ہی نہیں معلوم ہوتا کہ وہ توحید و رسالت کے پوری طرح قائل ہیں قرآن پر حرفاًحرفاًایمان رکھتے ہیں کعبہ مومنین کو اپنا قبلہ سمجھتے ہیں بلکہ سردار کونینﷺ کی ذات مبارک کے ساتھ محبت و شیفتگی بھی ٹپکتی ہے۔ ان سے ہمارا جو کچھ اختلاف ہے وہ بعض احکام و ہدایات کی سوء تعبیر کی بناء پر ہے نہ کہ اغراض و انکار کی بناء پر۔ اور سوء تعبیر ایسی شے نہیں جس کی بناء پر ارتداد و تکفیر کا حکم لگایا جا سکے۔‘‘

بالآخر یہ بتانا ضروری ہے کہ اس موقع پر جماعت احمدیہ کے مشہور مخالف جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ایڈیٹر اخبار ’’اہلحدیث‘‘، نے بھی مسئلہ ’’قتل مرتد‘‘ کے بارے میں جماعت احمدیہ کے مسلک کی تائید کرتے ہوئے لکھا:

’’ہم علی الاعلان کہتے ہیں کہ صورت موجودہ میں سنگسار کرنے کا حکم نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں نہ کتب فقہ حنفیہ میں نہ شافعیہ وغیرہ میں اگر اس کا نام سیاسی حکم رکھا جائے تو ہمیں اس پر بحث نہیں۔‘‘

اس کے بعد آپ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلہ پر روشنی ڈالی اور لکھا:

’’نتیجہ یہ ہے کہ افغانستان میں جو کسی مرزائی کو محض مرزائی ہونے کی وجہ سے (اگر یہ صحیح ہے) سنگسار کیا گیا ہے تو قرآن،حدیث اور کتب فقہ میں اس کا ثبوت نہیں اس لئے یہ سزا نہ حد ہے نہ تعزیز ہاں اگر کچھ ہو سکتا ہے تو باصطلاح افاغنہ سیاسی حکم ہے دگر ہیچ۔‘‘

(اخبار اہلحدیث امرتسر 3؍ اکتوبر 1924ء صفحہ 3۔ 4)

مسئلہ ’’قتل مرتد اور اسلام‘‘پر سلسلہ مضامین

جماعت احمدیہ کی بار بار وضاحتوں اور جناب محمد علی صاحب جوہر اور جناب عبدالماجد صاحب دریا آبادی کے قابل قدر علمی مضامین کے باوجود غیر مسلموں کی طرف سے اسلام کو برابر بدنام کیا جا رہا تھا۔ چنانچہ آریوں کے بااثر اخبار ’’پرکاش‘‘ لاہور (7؍ مارچ 1925ء) نے لکھا:

’’قادیانیوں کا تعصب مذہبی ملاحظہ ہو کہ عین اسی وقت جبکہ وہ حکومت افغانستان کے اس سنگدلانہ فعل کے برخلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں اس عنوان سے اپنے اخبار میں مضامین کی اشاعت میں بھی مشغول ہیں کہ اسلام منوانے کے لئے کبھی تلوار نہیں چلائی گئی۔ کوئی ان بھلے آدمیوں سے پوچھے کہ اگر اسلام منوانے کے لئے کبھی تلوار نہیں چلائی گئی تو کیا نعمت اللہ پر پھول برسائے گئے تھے۔ یا اس کی اور اس کے بعد دو اور احمدیوں کی لاشیں ابھی تک پھولوں کے ڈھیر میں دبی پڑی ہیں…یہ ضرور ہے کہ نعمت اللہ اور دیگر احمدیوں کو تلوار نہیں پتھروں کی مار سے مارا گیا ہے۔ لیکن پتھر کی مار تلوار کی مار سے بلاشبہ زیادہ سنگدلانہ ہے۔‘‘

اس خطرناک طعن و تشنیع کا دروازہ بند کرنے کی واحد صورت یہی تھی کہ سابقہ مضامین پر اکتفا نہ کرتے ہوئے مسئلہ قتل مرتد پر اسلامی نقطۂ نگاہ سے سیر حاصل روشنی ڈالی جائے تا اسلام کا مقدس چہرہ اس بدنما داغ سے پوری طرح صاف و شفاف ہو کر غیر مسلموں کے سامنے آجائے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کو اس خدمت کے لیے مقرر فرمایا۔ جنہوں نے حضور کی ہدایت اور نگرانی کے تحت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے مکرم مولوی فضل الدین صاحب وکیلؓ۔ مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمسؓ اور مکرم مولوی غلام احمد صاحبؓ بدوملہوی کی اعانت سے اس مسئلہ کے ہر پہلو پر زبردست تحقیق کی اور اس سلسلے میں قرآن مجید،احادیث نبویؐ اور اقوال فقہاء پر نہایت گہری اور باریک نظر ڈال کر ایسے مدلل،متین اور زور دار رنگ میں اس نازک مسئلہ پر قلم اٹھایا کہ اپنوں اور بے گانوں کی پیدا کردہ غلط فہمیوں ہی کا ازالہ نہیں ہوا بلکہ اسلام کا مذہب امن و صلح ہونا بھی پورے طور پر عیاں ہو گیا۔ یہ مضمون الفضل 1925ء میں پہلے باقساط چھپا پھر اگلے سال ’’قتل مرتد اور اسلام‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔

یہ اسی عظیم الشان تصنیف کا اثر ہے کہ مولوی ظفر علی خاں صاحب ایڈیٹر اخبار ’’زمیندار‘‘کو (جنہوں نے اس مسئلہ کی تائید میں اہل دیوبند کے بعد پنجاب میں سب سے زیادہ مضامین شائع کیے تھے) بالآخر اپنے اخبار ’’زمیندار‘‘ میں یہ تسلیم کرنا پڑا کہ

’’اس دین کی اصل محکم جس کا نام اسلام ہے یہ دین کمال کو پہنچا اور نعمت پوری ہو چکی اس قرآن کریم میں مجرم ارتداد کی کوئی جسمانی سزا نہیں بتائی گئی۔‘‘

(زمیندار 19؍فروری 1925ء بعنوان احقاق حق بحوالہ الفضل 28؍ فروری 1928ء صفحہ 4)

(ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ 508 تا 515)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button