تاریخ احمدیت

یکم فروری 1958ء: تحریک وقفِ جدید کے تحت معلمین کے علیحدہ مستقل نظام کا قیام اور بابرکت ثمرات

تحریک وقف جدید

جس طرح تحریک جدید دعوت الیٰ اللہ سے متعلق تحریکات کی سرخیل ہے اسی طرح تربیتی تحریکات میں سب سے اہم اور جامع تحریک وقف جدید کی تحریک ہے۔ تحریک جدید اگر اللہ اور رسول کی خاطر نئے علاقے فتح کرنے کا نام ہے تو وقف جدید ان مفتوحہ علاقوں کے ہر فرد کو سچا احمدی بنانے کا نام ہے۔

اس تحریک کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ قیام پاکستان تک حضرت مسیح موعود ؑکو دیکھنے والے اور ان کی صحبت سے فیض حاصل کرنے والے بہت سے بزرگ جماعتوں میں موجود تھے اور یہ بزرگ جماعت کے افراد کی علمی اور روحانی ضرورتیں پوری کر رہے تھے۔1947ء تقسیم ہندوستان کے نتیجے میں جماعتوں کا نظام قائم نہ رہ سکا۔ بہت سے بزرگ وفات پا گئے۔ خاندانوں کے افراد مختلف جگہوں پر جا کر آباد ہو گئے۔

جو افراد جماعت شہروں میں آ کر آباد ہوئے وہاں ذیلی تنظیمیں مضبوط تھیں اس لیے وہاں تعلیم و تربیت کا مسئلہ حل ہو گیا۔ تعلیمی سہولتوں کی وجہ سے ان کا معیار تعلیم بھی زیادہ ہوتا ہے اور وہ ذاتی مطالعہ سے اپنی کمی کو دور کر لیتے ہیں۔علمائےسلسلہ کی بھی شہروں میں آمد و رفت رہتی ہے جس سے یہ جماعتیں مستفیض ہوتی ہیں۔ مگر دیہاتی جماعتوں میں یہ سہولتیں میسر نہیں ہوتیں۔دیہات میں بسنے والے زیادہ تر افراد تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ہوتے ہیں اور ان کی مصروفیات بھی مختلف نوعیت کی ہوتی ہیں۔ سال کے بعض دنوں میں یہ بہت زیادہ مصروف ہوتے ہیں۔اس لیے ان کو کوشش کرکے ہی اکٹھا کیا جا سکتا ہے اور اس امر کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی معلم یا مربی ان لوگوں میں رہ کر ان کی تعلیم و تربیت کرے۔ اس لیے دیہاتی جماعتوں کی تعلیم وتربیت کے لیے حضرت مصلح موعودؓ نے وقف جدید کا نام لیے بغیر ایک تحریک جاری کرنے کا اعلان پہلی دفعہ 9؍جولائی 1957ء کو عیدالاضحی کے خطبہ میں فرمایا۔آپؓ نے فرمایا:

’’درحقیقت قربانیوں کی عید ہمیں اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ ہم خدا کی خاطر اور اس کے بعد دین کے لئے جنگلوں میں جائیں اور وہاں جا کر خداتعالیٰ کے نام کو بلند کریں اور لوگوں سے اس کے رسول کا کلمہ پڑھوائیں۔ جیسا کہ ہمارے صوفیاکرام کرتے چلے آئے ہیں۔… پس تم اپنے آپ کو اس قربانی کے لئے پیش کرو … میرا خیال یہ ہے کہ اس ملک میں بھی اس طریق کو جاری کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ میں چاہتا ہوں کہ اگر کچھ نوجوان ایسے ہوں جن کے دلوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہو کہ وہ حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی ؒاور حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی ؒ کے نقش قدم پر چلیں تو جس طرح جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں……براہ راست میرے سامنے وقف کریں تاکہ میں ان سے ایسے طریق پر کام لوں کہ وہ … کو تعلیم دینے کا کام کر سکیں۔ وہ مجھ سے ہدایتیں لیتے جائیں اور اس ملک میں کام کرتے جائیں ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے ویران نہیں ہے لیکن روحانیت کے لحاظ سے بہت ویران ہو چکا ہے، اور آج بھی اس میں چشتیوں کی ضرورت ہے، سہروردیوں کی ضرورت ہے اور نقشبندیوں کی ضرورت ہے۔ اگر یہ لوگ آگے نہ آئے اور حضرت معین الدین صاحب چشتی ؒ، حضرت شہاب الدین صاحب سہروردیؒ اور حضرت فریدالدین صاحب شکر گنج ؒجیسے لوگ پیدا نہ ہوئے تو یہ ملک روحانیت کے لحاظ سے اور بھی ویران ہو جائے گا بلکہ یہ اس سے بھی زیادہ ویران ہو جائے گا…پس میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان ہمت کریں اور اپنی زندگیاں اس مقصد کے لئے وقف کریں…‘‘

(الفضل 6؍فروری 1958ء)

حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ سالانہ 1957ء پر جماعت کے سامنے وقف جدید کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’میری اس وقف سے غرض یہ ہے کہ پشاور سے لے کر کراچی تک ہمارے معلمین کا جال پھیلا دیا جائے اور تمام جگہوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر۔ یعنی دس دس پندرہ پندرہ میل پر ہمارا معلم موجود ہو اور اس نے مدرسہ جاری کیا ہوا ہو۔ یا دکان کھولی ہوئی ہو اور وہ سارا سال اس علاقہ کے لوگوں میں رہ کر کام کرتا رہے اور گو یہ سکیم بہت وسیع ہے مگر میںنے خرچ کو مدنظر رکھتے ہوئے شروع میں صرف دس واقفین لینے کا فیصلہ کیا ہے ممکن ہے بعض واقفین افریقہ سے لئے جائیں یا اور غیر ملکوں سے بھی لئے جائیں مگر بہرحال ابتداء دس واقفین سے کی جائے گی اور پھر بڑھاتے بڑھاتے ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔‘‘

’’پس میں جماعت کے دوستوں سے کہتا ہوں کہ وہ جتنی قربانی کر سکیں اس سلسلہ میں کریں اور اپنے نام اس سکیم کے لئے پیش کریں۔اگر ہمیں ہزاروں معلم مل جائیں تو پشاور سے کراچی تک کے علاقہ کو ہم دینی تعلیم کے لحاظ سے سنبھال سکتے ہیں اور ہر سال دس دس بیس بیس ہزار اشخاص کی تعلیم و تربیت ہم کر سکیں گے۔‘‘

(الفضل16؍فروری1958ء)

حضرت مصلح موعودؓ نے 2؍جنوری 1958ء کے خطبہ جمعہ میں وقف جدید کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’پس میں جماعت کے دوستوں کو ایک بار پھر اس وقف کی طرف توجہ دلاتا ہوں ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ ترقی کرنا چاہتی ہے تو اس کو اس قسم کے وقف جاری کرنے پڑیں گے اور چاروں طرف رشد و اصلاح کا جال پھیلانا پڑے گا یہاں تک کہ پنجاب کا کوئی گوشہ اور کوئی مقام ایسا نہ رہے جہاں رشد و اصلاح کی کوئی شاخ نہ ہو…اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ایک مربی ایک ضلع میں مقرر ہو گیا اور وہ دورہ کرتا ہوا ہر ایک جگہ گھنٹہ گھنٹہ دو گھنٹے ٹھہرتا ہوا سارے ضلع میں پھر گیا اب ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ ہمارے مربی کو ہر گھر اور ہر جھونپڑی تک پہنچنا پڑے گا اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب میری یہ نئی سکیم پر عمل کیا جائے اور تمام پنجاب میں بلکہ کراچی سے لے کر پشاور تک ہر جگہ ایسے آدمی مقرر کر دئیے جائیں جو اس علاقے کے لوگوں کے اندر رہیں اور ایسے مفید کام کریں کہ لوگ ان سے متاثر ہوں وہ انہیں پڑھائیں بھی اور رشد و اصلاح کے کام بھی کریں اور یہ جال اتنا وسیع طور پر پھیلایا جائے…اور اس کے ذریعے گائوں گائوں اور قریہ قریہ کے لوگوں تک ہماری آواز پہنچ جائے بلکہ ہر گائوں کے ہر گھر تک ہماری پہنچ ہو …پس جب تک ہم اس مہاجال کو نہ پھیلائیں گے اس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘‘

(الفضل 11؍جنوری 1958ء)

پھر فرمایا:

’’ہماری اصل سکیم تو یہ ہے کہ کم سے کم ڈیڑھ ہزار سینٹر سارے ملک میں قائم کر دئیے جائیں…اگر ڈیڑھ ہزار سینٹر قائم ہو جائیں تو کراچی سے پشاور تک ہر پانچ میل پر ایک سینٹر قائم ہو جاتا ہے…پس اگر ڈیڑھ ہزار سینٹر قائم ہوجائے تو ہمارے ملک کا کوئی گوشہ اصلاح و ارشاد کے دائرے سے باہر نہیں رہ سکتا۔‘‘

(الفضل15؍مارچ1958ء)

اس طرح وقف جدید دو اجزا پر مشتمل تھی:

1۔ واقفین زندگی اور معلمین کے ذریعہ تربیت اور دعوت الیٰ اللہ کا نظام

2۔ مالی قربانی کا نظام

حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر وقف جدید نے دیہاتی جماعتوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ سندھ میں ہندوئوں میں دعوت الیٰ اللہ کے کام پر توجہ دینی شروع کی اور ان دونوں کاموں کے بہت شاندار نتائج ظاہر ہوئے۔

معلمین کا نظام

حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے وقف جدید کا اعلان ہوتے ہی واقفین کی درخواستیں آنی شروع ہو گئیں چنانچہ 18؍جنوری 1958ء کو 14 واقفین کو بطور معلم منتخب کر لیا گیا ان کے لیے ایک ہفتہ کی تربیتی کلاس منعقد کی گئی اور یکم فروری 1958ء کو 6معلمین کا پہلا قافلہ سوئے منزل روانہ ہو گیا۔ 16؍فروری کو مزید 22؍واقفین کا انٹرویو لے کر تقرر کیا گیا۔ چنانچہ پہلے سال کے اختتام پر 90 مراکز وقف جدید کے تحت قائم ہو چکے تھے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ سالانہ 1958ء پر وقف جدید کے معلمین اور ان کی خوشکن کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :

’’اس سال 90معلم وقف جدید میں کام کر رہے ہیں اور ستر ہزار روپیہ کے وعدے جماعت کی طرف سے آئے تھے جو قریباً پورے ہو گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ صیغہ بڑی عمدگی سے اپنا کام کر رہا ہے…… وقف جدید کی معرفت 400بیعت آئی ہے۔ اصلاح وارشادکی معرفت صرف 54افراد سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں۔ اگر جماعت اپنی آمد بڑھائے تو اس کے نتیجہ میں چندہ کی مقدار بھی بڑھ جائے گی۔ جس سے ہم اپنے کام سہولت سے وسیع کر سکیں گے بلکہ بیماریوں کو دور کرنے میں بھی ہم ملک کی مدد کر سکیں گے کیونکہ وقف جدید کے معلم تعلیم کے ساتھ ساتھ علاج معالجہ بھی کرتے ہیں اور اس سے ملک میںبیماریوں کو دور کرنے میں مدد مل رہی ہے۔‘‘

(الفضل 25؍جنوری 1959ء)

خلافت ثانیہ کے اختتام تک 71؍باقاعدہ معلمین کام کر رہے تھے جن کے ذریعہ 64؍مراکز میں اصلاح و ارشاد کی مہم چلائی جا رہی تھی۔

معلمین کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک سال کی معلمین کلاس جاری کی گئی اور باقاعدہ ایک مدرسہ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جسے مدرسۃ الظفر کا نام دیا گیا ہے۔ 1996ء میں عرصہ تعلیم 2سا ل کیا گیا مگر 2005ء سے اس کا دورانیہ 3سا ل کر دیا گیا۔ اس وقت بھی یہ کلاس جاری ہے اور اس میں پڑھنے والے طلبہ جن کو ہوسٹل کی سہولت بھی میسر ہے ۔

ایک معلم کا حلقہ پانچ میل کا ہوتا ہے وہ اپنے حلقہ میں تعلیم و تربیت اور اصلاح و ارشاد کا ذمہ دار ہوتا ہے وہ اپنے حلقہ کا دورہ کرکے معلوم کرتا ہے کہ اس کے حلقہ میں کل کتنے دیہات ہیں اور ان میں کتنی احمدی جماعتیں ہیں اور اس کے حلقہ میں کل کتنے احمدی احباب ہیں۔ معلم اپنے ماحول کا ایک نقشہ بنا کر دفتر کو بھجواتا ہے جس میں وہ اپنے جائزہ کے مطابق اعداد و شمار کا اندراج کرتا ہے اور دفتر کو ابتدائی رپورٹ بھجواتا ہے کہ اس وقت مقامی جماعت کی تعلیم و تربیت کا یہ حال ہے اتنے افراد قاعدہ یسرناالقرآن جانتے ہیں اتنے افراد قرآن مجید ناظرہ اور باترجمہ جانتے ہیں اور اتنے افراد نماز باجماعت ادا کرنے کے عادی ہیں اور تلاوت قرآن مجید کے عادی ہیں۔ اس گاؤں میں احمدیت کب یعنی کس سن میں آئی اور کون کون سے فرقے پائے جاتے ہیںوغیرہ وغیرہ۔ پھر اس کی روشنی میں تعلیم و تربیت کا نظام قائم کر تا ہے۔

ان معلمین کے ذریعہ صرف خلافت ثانیہ میں 3827؍افراد احمدیت میں داخل ہوئے۔

(ماخوذ ازخلفاء احمدیت کی تحریکات اور ان کے شیریں ثمرات صفحہ 232 تا 236)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔
    ماشاءاللہ بہت ہی اچھا اور انفرمیٹو مضمونہے۔ اللہ تعالیٰ اس با برکت تحریک کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائے آمین ثم آمین

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button