حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اپنے درد کو دعاؤں میں ڈھالیں اور آنحضرتﷺ پر کثرت سے درود بھیجیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

احمدی نوجوانوں کو صحافت میں جانا چاہئے

پھریہ بھی ایک تجویز ہے آئندہ کے لئے، یہ بھی جماعت کو پلان (Plan)کرنا چاہئے کہ نوجوان جرنلزم (Journalism) میں زیادہ سے زیادہ جانے کی کوشش کریں جن کو اس طرف زیادہ دلچسپی ہو تاکہ اخباروں کے اندر بھی ان جگہوں پر بھی، ان لوگوں کے ساتھ بھی ہمارا نفوذ رہے۔ کیونکہ یہ حرکتیں وقتاً فوقتاً اٹھتی رہتی ہیں۔ اگر میڈیا کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وسیع تعلق قائم ہو گا تو ان چیزوں کو روکا جا سکتا ہے، ان بیہودہ حرکات کو روکا جا سکتا ہے۔ اگر پھر بھی اس کے بعد کوئی ڈھٹائی دکھاتا ہے تو پھر ایسے لوگ اس زمرے میں آتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی لعنت ڈالی ہے اور آخرت میں بھی۔ جیساکہ فرماتا ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰ خِرَۃِ وَاَعَدَّلَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْنًا(الاحزاب:58)

یعنی وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں، اللہ نے ان پر دنیا میں بھی لعنت ڈالی ہے اور آخرت میں بھی اور اس نے ان کے لئے رسوا کن عذاب تیار کیا ہے۔ یہ حکم ختم نہیں ہو گیا۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں۔ آپؐ کی تعلیم ہمیشہ زندگی دینے والی تعلیم ہے۔ آپؐ کی شریعت ہر زمانے کے مسائل حل کرنے والی شریعت ہے۔ آپؐ کی پیروی کرنے سے اللہ تعالیٰ کا قرب ملتا ہے۔ تو اس لئے یہ جو تکلیف ہے یہ آپ کے ماننے والوں کو جو تکلیف پہنچائی جا رہی ہے کسی بھی ذریعہ سے اس پر بھی آج صادق آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات زندہ ہے وہ دیکھ رہی ہے کہ کیسی حرکتیں کر رہے ہیں۔

پس دنیا کو آگاہ کرنا ہمارا فرض ہے۔ دنیا کو ہمیں بتانا ہو گا کہ جو اذیت یا تکلیف تم پہنچاتے ہو اللہ تعالیٰ اس کی سزا آج بھی دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ اس لئے اللہ اور اس کے رسول کی دلآزاری سے باز آئو۔ لیکن جہاں اس کے لئے اسلام کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے بارے میں دنیا کو بتانا ہے وہاں اپنے عمل بھی ہمیں ٹھیک کرنے ہوں گے۔ کیونکہ ہمارے اپنے عمل ہی ہیں جو دنیا کے منہ بند کریں گے اور یہی ہیں جو دنیا کا منہ بند کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے رپورٹ میں بتایا تھا وہاں ایک مسلمان عالم پر یہی الزام منافقت کا لگایا جا رہا ہے کہ ہمیں کچھ کہتا ہے اور وہاں جا کے کچھ کرتا ہے، ابھارتا ہے۔ وہ شایدمَیں نے رپورٹ پڑھی نہیں۔ تو ہمیں اپنے ظاہر اور باطن کو، اپنے قول و فعل کو ایک کرکے یہ عملی نمونے دکھانے ہوں گے۔

جھنڈے جلانے یا توڑ پھوڑ کرنے سے آنحضرتﷺ کی عزت قائم نہیں ہو سکتی

مسلمان کہلانے والوں کو بھی مَیں یہ کہتا ہوں کہ قطع نظر اس کے کہ احمدی ہیں یا نہیں، شیعہ ہیں یا سنی ہیں یا کسی بھی دوسرے مسلمان فرقے سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر جب حملہ ہو تو وقتی جوش کی بجائے، جھنڈے جلانے کی بجائے، توڑ پھوڑ کرنے کی بجائے، ایمبیسیوں پر حملے کرنے کی بجائے اپنے عملوں کو درست کریں کہ غیر کو انگلی اٹھانے کا موقع ہی نہ ملے۔ کیا یہ آگیں لگانے سے سمجھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور مقام کی نعوذ باللہ صرف اتنی قدر ہے کہ جھنڈے جلانے سے یا کسی سفارتخانے کا سامان جلانے سے بدلہ لے لیا۔ نہیں ہم تو اس نبی کے ماننے والے ہیں جو آگ بجھانے آیا تھا، وہ محبت کا سفیر بن کر آیا تھا، وہ امن کا شہزاد ہ تھا۔ پس کسی بھی سخت اقدام کی بجائے دنیا کو سمجھائیں اور آپؐ کی خوبصورت تعلیم کے بارے میں بتائیں۔

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل اور سمجھ دے لیکن مَیں احمدیوں سے یہ کہتاہوں کہ ان کو تو پتہ نہیں یہ عقل اور سمجھ آئے کہ نہ آئے لیکن آپ میں سے ہر بچہ، ہر بوڑھا، ہر جوان، ہر مرد اور ہر عورت بیہودہ کارٹون شائع ہونے کے ردّعمل کے طور پر اپنے آپ کوایسی آگ لگانے والوں میں شامل کریں جو کبھی نہ بجھنے والی آگ ہو، جو کسی ملک کے جھنڈے یا جائیدادوں کو لگانے والی آگ نہ ہو جو چند منٹوں میں یا چند گھنٹوں میں بجھ جائے۔ اب بڑے جوش سے لوگ کھڑے ہیں (پاکستان کی ایک تصویر تھی) آگ لگا رہے ہیں جس طرح کوئی بڑا معرکہ مار رہے ہیں۔ یہ پانچ منٹ میں آگ بجھ جائے گی، ہماری آگ تو ایسی ہونی چاہئے جو ہمیشہ لگی رہنے والی آگ ہو۔ وہ آگ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کی آگ جو آپؐ کے ہر اسوہ کو اپنانے اور دنیا کو دکھانے کی آگ ہو۔ جو آپ کے دلوں اور سینوں میں لگے تو پھر لگی رہے۔ یہ آگ ایسی ہو جو دعائوں میں بھی ڈھلے اور اس کے شعلے ہر دم آسمان تک پہنچتے رہیں۔

اپنے درد کو دعاؤں میں ڈھالیں اور آنحضرتﷺ پر کثرت سے درود بھیجیں

پس یہ آگ ہے جو ہر احمدی نے اپنے دل میں لگانی ہے اور اپنے درد کو دعائوں میں ڈھالنا ہے۔ لیکن اس کے لئے پھر وسیلہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی بننا ہے۔ اپنی دعائوں کی قبولیت کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو کھینچنے کے لئے، دنیا کی لغویات سے بچنے کے لئے، اس قسم کے جو فتنے اٹھتے ہیں ان سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دلوں میں سلگتا رکھنے کے لئے، اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بےشمار درود بھیجنا چاہئے۔ کثرت سے درود بھیجنا چاہئے۔ اس پُرفتن زمانے میں اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ڈبوئے رکھنے کے لئے اپنی نسلوں کو احمدیت اور اسلام پر قائم رکھنے کے لئے ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی سختی سے پابندی کرنی چاہئے کہ

اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب:57)

کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجا کرو کیونکہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا، بلکہ اس کے تو کئی حوالے ہیں کہ مجھ پر تو اللہ اور اس کے فرشتوں کا درود بھیجنا ہی کافی ہے تمہیں جو حکم ہے وہ تمہیں محفوظ رکھنے کے لئے ہے۔

پس ہمیں اپنی دعائوں کی قبولیت کے لئے اس درود کی ضرورت ہے۔ باقی اس آیت اور اس حدیث کا جو پہلا حصہ ہے اس سے اس بات کی ضمانت مل گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو گرانے اور استہزاء کی چاہے یہ لوگ جتنی مرضی کوشش کر لیں اللہ اور اس کے فرشتے جو آپ پر سلامتی بھیج رہے ہیں ان کی سلامتی کی دعاسے مخالف کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر حملوں سے ان کو کبھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ اسلام نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آناہے اور تمام دنیا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا لہرانا ہے۔

اور جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ اس زمانے میں آپ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ مقدر کر چھوڑا ہے۔

حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی کا ایک حوالہ ہے اقتباس ہے، کہتے ہیں کہ ایک بار مَیں نے خود حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سنا آپؑ فرماتے تھے کہ درود شریف کے طفیل اور اس کی کثرت سے یہ درجے خدا نے مجھے عطا کئے ہیں اور فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے میں جذب ہو جاتے ہیں اور وہاں سے نکل کر ان کی لاانتہا نالیاں ہوتی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں۔ یقیناًکوئی فیض بدوں وساطت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ اور پھر فرمایا کہ درود شریف کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عرش کو حرکت دیناہے جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھے تاکہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو۔

(اخبار الحکم جلد 7نمبر8صفحہ7پرچہ 28؍ فروری1903ء)

اللہ کرے کہ ہم زمانے کے فتنوں سے بچنے کے لئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں قائم رکھنے کے لئے، آپ کی لائی ہوئی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے لئے آپ پر درود بھیجتے ہوئے، اللہ کی طرف جھکتے ہوئے، اس سے مددمانگتے ہوئے اس کے فضل اور فیض کے وارث بنتے چلے جائیں۔ اللہ ہماری مدد کرے۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button