یادِ رفتگاں

میری نانی جان…فرخ تاج بیگم صاحبہ

(شفیع اکبر)

خوبصورت سرخ و سپید، صحت مند بچی حمیدہ بیگم صاحبہ کے بطن سے قادیان میں پیدا ہوئی، نام حضرت صاحبزادی نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ نے “فرخ تاج”رکھا اور انہوں نے ہی گھٹی بھی دی۔ یہ بچی خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی بزرگ خواتین کو بہت پیاری تھی۔

آپ کے نانا حضرت حکیم محمد زمان عباسی صاحب رضی اللہ عنہ مالیر کوٹلے کے شاہی طبیب تھے۔ ان کی عین جوانی ہی میں وفات ہوگئی تھی۔ حکیم صاحب نے گھر میں اکیلےحضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی وجہ سے احمدیت قبول کی تھی۔ یہ اپنے علاقے کے گدی نشین اورنواب آف مالیر کوٹلہ کے شاہی حکیم تھے۔ اللہ تعالیٰ نے چار بیٹیوں خیرالنسا، فضل النسا، عائشہ بانو، حمیدہ خاتون اور محمد زمان عباسی سے نوازا۔ وفات سے قبل انہوں نے اپنی بیوی حضرت زمانی بیگم صاحبہ کو وصیت کی کہ میری وفات کے بعد میرے بچوں کو سسرال یا میکے نہ لے جانا مبادا وہ وہاں جا کر احمدیت سے دور ہوجائیں۔ انہیں یہیں قادیان ہی میں رکھنا۔

خیرالنسا بیگم صاحبہ کراچی میں سید خاندان میں بیاہی گئیں۔ فضل النسا بیگم صاحبہ کی شادی خان ارجمند خان صاحب سے ہوئی۔ ان کی اولاد نہیں تھی اس لیے زبردستی خاوند کی دوسری شادی کرائی اور وہ صاحب اولاد ہوئے۔ عائشہ خاتون کی تلونڈی سیالکوٹ میں شادی ہوئی اور حمیدہ بیگم صاحبہ ہمارے راجپوت خاندان میں میاں غلام نبی خاں منہاس صاحب سے بیاہی گئیں۔ ہماری نانی اماں فرخ تاج بیگم صاحبہ ان کی پہلی اولاد تھیں۔ لیکن ابھی سترہ سال کی تھیں کہ والد چل بسے۔ کچھ عرصے بعد ایک بھائی بھی نوجوانی میں چل بسے۔

نانی اماں کی شادی ان کے ماموں زاد چودھری محمد اکبر بھٹی صاحب آف بکھو بھٹی، سیالکوٹ سے طے پائی۔ چودھری محمد اکبر صاحب الگ ستارہ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ نانا جی کے والد بکھوبھٹی کے نمبردار تھے، وہ بھی جوانی ہی میں چل بسے۔ محمد اکبر صاحب ابھی عمر میں چھوٹے تھے۔ لیکن ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات، والد سے وراثت میں چودھراہٹ کے علاوہ زیرک پن اور کمال معاملہ فہمی ملی۔ نوجوانی ہی میں علاقے کے چودھری کے طورپر سامنے آئے۔ یہاں تک کہ پچیس سال کی عمر میں ہی دوسرے گاؤں اور برادریوں کے لوگ ان سے فیصلے کرانے آنے لگ گئے۔ پولیس کو یہ ہدایت تھی کہ اس گاؤں میں جو بھی معاملہ ہوجائے آپ نے چودھری محمد اکبر بھٹی صاحب کے گاؤں نہیں جانا۔

آپ جلد چھ بیٹیوں کے والد بن چکے تھے۔ عزت تھی، نیک نامی تھی، علاقے میں جان پہچان تھی، راوی چین ہی چین لکھتا تھا کہ 21؍ اگست1965ء کو چودھری محمد اکبر صاحب اچانک انتقال کرگئے۔ اس وقت نانا جی 39سال کے تھے اور نانی اماں محض 35سال کی۔

یہ صدمہ بڑا جانکاہ تھا۔ ابھی اس سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ 1965ء کی جنگ شروع ہوگئی۔ گاؤں بارڈر کے قریب تھا۔ چنانچہ ہندوستانی فوج کےگاؤں کی حدود میں داخل ہونے سے کچھ گھنٹے پہلے ہماری نانی اپنے چھ بچوں کو سنبھالتے ہوئے، اندیشوں کا بارلیے اور یادوں کی گٹھڑی اٹھائے اپنے میکے بہاولنگر چک 166مراد میں پہنچیں اور وہیںآباد ہوئیں۔

خاوند کی زرعی زمین تھی، مالی تنگی تو نہیں تھی لیکن زندگی کی سچائیاں اور کٹھنائیاں سامنے تھیں۔ خود کہا کرتی تھیں کہ زندگی کے چند سال خاوند کے ساتھ نام کے ہم معنی چمکتے تاج کی طرح تھے، حالات نے در بدر کردیا اور تخت سے فرش پر آرہی۔

لیکن خدا کی ذات پر توکل تھا، آہنی عزم تھا، عجب حوصلہ تھا، کمال جرأت تھی کہ زندگی سے مقابلے کے لیے کھڑی ہوگئیں۔ بیٹیوں کی حفاظت ہو، ان کی تعلیم اور تربیت ہو، شادیوں کے مرحلے طےہوں، ہر موقعے پر اس طرح کھڑی ہوئیں کہ “مردانہ وار” کا لفظ بھی چھوٹا پڑتا ہے۔ گاؤں میں صرف پرائمری سکول تھا، بیٹیوں کو تعلیم کے مرحلے میں رشتہ داروں نے کہا کہ مزید تعلیم کیا دلوانی ہے لیکن ڈٹ گئیں اور قریبی قصبے میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ شادیوں کے مواقع آئے تو سب نے کہا تم سادگی کے ساتھ انہیں اپنے گھروں کا کردو۔ کہنے لگیں میں اس احساس محرومی کے ساتھ انہیں دوسرے گھر نہیں بھیجوں گی کہ یہ یتیم ہیں یا محروم ہیں۔ چنانچہ اچھے مگر باوقار انداز میں اپنی چھ بیٹیوں کو رخصت کیا۔

بو باری سے ان کا بڑا پیار کا تعلق اور دوستی تھی، میری والدہ کا نام امۃ الباری بھی ان کے نام پر رکھا۔ بی بی امۃ الباسط صاحبہ سے بھی بڑا پیار کا تعلق تھا۔ایک دفعہ حضرت چھوٹی آپا بطورصدرلجنہ اماءاللہ بہاولنگر تشریف لائیں۔ میری والدہ اور خالاؤں کی ملاقات ہوئی، پوچھا کہ آپ فرخ کی بیٹیاں ہو؟ پھر بڑی محبت سے انہیں یاد کرتی رہیں۔ راولپنڈی میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کی والدہ محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ سے کافی عرصے بعد ملاقات ہوئی۔ نانی اماں نے اپنا نام بتایا تو پہچان پائیں۔

ایک دفعہ شدیدبیمار ہوئیں اور حالت کافی دگرگوں ہوگئی۔ بتاتی ہیں کہ نانا جان خواب میں آئے اور کہتے ہیں “میں نے تمہارے لیے رب سے عمر خضر مانگی ہے۔” اس کے بعداللہ تعالیٰ نے معجزانہ طورپر صحت دی۔

بہت ہی صاحب ذوق خاتون تھیں۔ زندگی کی ساری کٹھنائیوں اور غم زدہ حالات کے باوجود بھی اپنا اعلیٰ ذوق قائم رکھا۔ پہننے، کھانے اور خصوصاً اچھی خوشبو کا بہت ذوق تھا۔ مہنگی اور اچھی پرفیومز خریدتیں، خود بھی لگاتیں اور تحفے میں بھی دیتیں۔ کپڑوں اور پہناوے کا اعلیٰ ذوق تھا۔ سب جاننے والوں کے ہر غم اور خوشی میں شریک ہوتیں۔ میکے اور سسرال میں ہمیشہ عزت سے رہیں۔ تمام خاندان اور جاننے والے بھی ان کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آتے۔ یادداشت بھی آخری وقت تک کمال کی تھی اور عمومی صحت بھی عمر کے لحاظ سے بہت اچھی تھی۔

سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح

دیکھو تو اِک شکن بھی نہیں ہے لباس میں

ایک دفعہ کسی بیٹی نے حالات کا شکوہ کیا تو کہنے لگیں کہ میں مشیت ایزدی کے آگے جہاں بے بس تھی اس کے علاوہ کون سی نعمت اور سکھ میں نے تم لوگوں کو بہم پہنچانے کی کوشش نہیں کی؟ مشکل مراحل میں تمام عزیزوں سے بھی تعلق رکھا اور ملنے جلنے والوں سے بھی۔ عزت کی بھی اور کرائی بھی۔ اسی لیے وفات پر سب عزیز واقارب اور ملنے جلنے والے اشکبار تھے کہ کتنے ہیں جو ایسی مجاہدانہ اور حوصلہ مندانہ زندگی جیا کرتے ہیں۔ غریبوں کے لیے رحمدل، امیروں کے لیے غنی، اپنوں کے لیے پیکر محبت، غیروں کے لیے مجسم شفقت، اپنی اولاد کے لیے گھنی ٹھنڈی چھاؤں، نواسے نواسیوں کے لیے نانی ۔ سب بچوں کو اپنی ہتھیلی کا چھالا بنا کے رکھا۔ ہمارے ہر طرح سے لاڈ اٹھائے، بہترین کھلونے، کپڑے اور چیزیں ہمیں مہیا کیں۔

مشکلات اور حالات کی سختی میں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے سرخرو ہوکر نکلیں۔ چھ بیٹیوں کو اللہ تعالیٰ نے اچھے خاوند دیے جو نانی اماں کی بھی والدہ کی طرح عزت کرتے۔ ساری بیٹیاں صاحب اولاد ہوئیں۔ جلسہ سالانہ یوکے اور جرمنی جاتی رہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ازراہ شفقت آپ کے ہاتھ آپ کے نواسے نواسیوں کے لیے تبرک عنایت فرماتے۔

آپ کی ہمیشہ کوشش ہوتی کہ مانگنے کی بجائےدوسروں کو دینے والی بنیں۔ اللہ تعالیٰ کا اس لحاظ سےآپ پر بڑا فضل تھا جب بھی کسی ملک کا ویزا اپلائی کیا، آرام سےمل گیا۔ چند سال سے کینیڈا میںمقیم تھیں۔ چند ماہ پہلے اپنی آخری نواسی کی شادی میں شرکت کے لیے کراچی آئیں۔

آپ ہمیشہ خاتمہ بالخیر کی دعا کرتی تھیں۔ ان دنوں ہمارے پاس اسلام آباد آنے کا پروگرام تھا۔ وفات والے دن خالہ کے گھر میں دوسری منزل پر خود اپنا سامان پیک کیا۔ کپڑے علیحدہ علیحدہ رکھے۔ گردن کے قریب کھچاؤ اور درد محسوس ہوا۔ خالہ نے دبایا پھر کہتی ہیں ٹھیک ہوں اب نیچے اپنے کمرے میں جاتی ہوں۔ خالہ اور ان کی بیٹی ساتھ نیچے اتریں۔ اپنے کمرے میں داخل ہوئیں اور کہنے لگیں “مجھے پکڑنا”۔ انہوں نے پکڑ کر بیڈ پر لٹایا تو جان جان آفریں کے سپرد کرچکی تھیں۔ یہ 25؍ اکتوبر 2020ء کا دن تھا۔آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ دار الفضل ربوہ میں عمل میں آئی۔

وفات کے بعدآپ کے چہرے پر عجب سکینت تھی جیسے زندگی کے ہر امتحان میں کامران ٹھہری ہوں اور سرخرو ہو کر مالک حقیقی کے حضور حاضر ہوں۔

جس طرح آپ سخی اور کسی کا احسان نہ لینے والی خاتون تھیں اللہ تعالیٰ نے وفات کے وقت بھی آپ سے وہی سلوک فرمایا۔ اپنی وصیت کافی عرصہ قبل ادا کر چکی تھیں۔ آخری وقت میں بھی مالی اور جسمانی طور پر کسی کی محتاج نہ ہوئیں۔ بلکہ ایک اچھی رقم علیحدہ رکھی ہوئی تھی کہ میری وفات پر ہونے والے اخراجات کی ادائیگی ان سے کرلینا۔ لاکھوں روپوں پر مشتمل یہ رقم آپ کی بیٹیوں نے صدقہ جاریہ کے طور پر کنواں لگوانے اور مریم شادی فنڈ میں ادا کردی تاکہ یتیموں اور محروموں کی خبر گیری اور مالی امداد ہوتی رہے۔ وفات کے بعد بھی آپ کے ہاں ایسی چیزیں ملیں جو یتیموں کو پہنچانے کے لیے خرید کر رکھی ہوئی تھیں۔ آپ کی ہمیشہ یہ عادت ہوتی کہ نماز میں پہلے دوسروں کے لیے پھر اپنی اولاد کے لیے دعا مانگتیں۔

یوں ایک عہد کا خاتمہ ہوا لیکن ان کی شفقتیں، نوازشیں اورخوبیوں کی خوشبو باقی ہے۔ وہ اپنے جاننے والوں کے دلوں میں بہترین یادیں اور مثالیں چھوڑ کر رخصت ہوئیں جن سے آئندہ نسلیں بھی فیض حاصل کرتی رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی رضا کی جنتوں میں جگہ دے اور بہت پیار کاسلوک کرے، دنیا کی تمام محرومیوں کا ازالہ اپنے پیار سے فرمائے، تمام سختیوں کاازلی ابدی سکینتوں سے بدلہ دے اور اپنے پیاروں میں جگہ دے۔ آمین۔ ؎

اب کس کو بھیج بلائیں گے، کیسے سینےسے لگائیں گے

مر کر بھی کوئی لوٹا ہے، سائے بھی کبھی ہاتھ آئے ہیں

ہم سراَفراز ہوئے رُخصت، ہے آپ سے بھی اُمید بہت

یہ یاد رہے کس باپ کے بیٹے ہیں، کس ماں کے جائے ہیں

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button