اختلافی مسائل

’’مطلقاً فیض نبوت مرفوع نہیں ہوا۔ نبوت شریعت مرفوع ہوئی ہے‘‘

دنیائے اسلام کے مشہور ومعروف صوفی اور مصنف اور ممتاز متکلم حضرت امام عبد الوہاب شعرانی عظیم صوفی بزرگ اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ صوفیاء انہیں قطب ربانی کہتے ہیں۔ آپ 897ھ بمطابق 1493ء مصر میں پیدا ہوئے اور 973ھ بمطابق 1565ء قاہرہ میں فو ت ہوئے۔

ان کی مشہور کتاب’’الیواقیت والجواہر فی بیان عقائد الاکابر ‘‘ہے۔ اس کتاب کے ٹائٹل پر لکھا ہے کہ

’’اکابر صوفیاء کرام اور مشائخ عظام کے عقائد ونظریات

اور علوم ومعارف کا بہترین مجموعہ ‘‘

اس کا ترجمہ پیر سید محمد محفوظ الحق شاہ صاحب چشتی صابری قادری نے کیا ہے۔

الیواقیت والجواہر میں 33ویں بحث نبوت اور رسالت کے متعلق ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ

’’33ویں بحث نبوت اور رسالت کی ابتداء اور ان دونوں کےد رمیان فرق کے بیان ہیں اور ایک زمانے میں بیک وقت دو رسولوں کی ایک ساتھ رسالت کے امتناع کے بیان میں اور اس مسئلہ کا بیان کہ ہر رسول خلیفہ نہیں۔ علاوہ ازیں دیگر نفیس مسائل جو کہ کسی کتاب میں نہیں پائے جاتے۔ ‘‘

(الیواقیت والجواہر از عبد الوہاب شعرانی، مترجم پیر محمد محفوظ الحق صفحہ 410نوریہ رضویہ پبلی کیشنز لاہور )

اس بحث میں وہ لکھتے ہیں کہ

فَاعلَم اَنَّ مُطلَقَ النُّبُوَّۃِ لَم یَرتَفِعُ وَاِنَّمَا ارتَفَعَ نُبُوَّۃُ التَّشرِیعِ فَقَط۔ کما یؤید حدیث من حفظ القرآن فقد ادرجت النبوۃ بین جنبیہ فقد قامت بھذا النبوۃ بلاشک وقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلا نبی بعدی و لا رسول المراد بہ لا مشرع بعدی

(الیواقیت والجواھرجز2صفحہ22)

اس کا ترجمہ پیر محفوظ الحق صاحب لکھتے ہیں کہ

’’اجزائے نبوت میں سے یہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے امت پر باقی رکھا۔ کیونکہ مطلقاً فیض نبوت مرفوع نہیں ہوا۔ نبوت شریعت مرفوع ہوئی ہے جیسے کہ حدیث پاک میں ہے من حفظ القرآن فکانما ادرجت النبوۃ بین جنبیہ یعنی جس نے قرآن کریم حفظ کیا گویا اس کے دونوں پہلوؤں کے درمیان فیض نبوت کا چشمہ جاری کر دیا گیا۔ تو بلاشک اس وجہ سے نبوت کا فیض قائم ہے اور حضورﷺ کے اس ارشاد کہ فلانبی بعدی ولارسولکا مفہوم یہ ہے کہ میرے بعد کوئی اور شریعت جاری کرنے والا نہیں۔ ‘‘

(الیواقیت والجواہر از عبد الوہاب شعرانی، مترجم پیر محمد محفوظ الحق صفحہ410تا411نوریہ رضویہ پبلی کیشنز لاہور)

اب عبدا لوہاب شعرانی رحمہ اللہ تعالیٰ کی واضح عبارت کو بریلوی مکتبہ فکر کے عالم پیر محمد محفوظ الحق صاحب نے اپنے ’’عقیدہ ختم نبوت‘‘کے برخلاف پایا تو اس عبارت پر اپنا وضاحتی نوٹ دیا۔ عقیدہ ختم نبوت کی جو تشریح آج کل کے علماء کرتے ہیں اگر وہ امام عبدا لوہاب شعرانی رحمہ اللہ کے علم میں ہوتی تو یقیناً وہ اسی طرح کا وضاحتی نوٹ خود تحریر کرتے جو پیر محمد محفوظ الحق صاحب کو ان کی کتاب کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھنا پڑا اور نہ پیر صاحب کو امام صاحب کی عبارت درست کرنے کے لیے احمد رضا خان بریلوی کا حوالہ لکھنا پڑتا۔ پیر محفوظ الحق صاحب اپنے وضاحتی نوٹ میں لکھتے ہیں کہ

’’تمام انبیاء علیھم السلام اور اولیاء اللہ دراصل حضورﷺ ہی کے نائب ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کسی جدید نبی کی بعثت کے امکان کا ذکر نہیں کر رہے بلکہ یہ بتا رہے ہیں کہ اہل اللہ اور اکابر اسلام سے جو حقائق ومعارف ظاہر ہوئے اور ہو رہے ہیں یہ آقا ومولیٰﷺ کی عالمگیر نبوت ورسالت ہی کا فیض ہے۔ آپ خاتم النبیین ہیں۔ آپ کے بعد کسی نبی کی بعثت کا کوئی تصور نہیں۔ آپ آخری نبی ہیں۔ ‘‘

(وضاحتی نوٹ :الیواقیت والجواہر مترجم پیر محمد محفوظ الحق صفحہ 411نوریہ رضویہ پبلی کیشنز لاہور )

اب وضاحتی نوٹ کو ایک سے زائد مرتبہ پڑھ جائیں۔ اس سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ چونکہ پیر صاحب عقیدہ ختم نبوت کی ایک خاص تشریح کو مانتے ہیں اس لیے امام عبد الوہاب شعرانی کی تحریر کو اسی مفہوم کے تحت رکھنا چاہتے ہیں ورنہ امام عبد الوہاب شعرانی صاحب کی تحریر میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس طرح کا وضاحتی نوٹ تحریر کیا گیا ہے اور نہ ہی ختم نبوت کے متعلق اس طرح کا عقیدہ ملتاہے جیسا آج کل کے علماء نے رکھا ہے بلکہ امام عبد الوہاب شعرانی صاحب نے واضح طور پر لکھا ہے کہ نبوت کا فیض جاری ہے۔ صرف شریعت والی نبوت ختم ہوئی ہے۔ آج کل کے علماء اپنے بزرگ علماء کی عبارتوں پر حاشیہ چڑھا کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ علماء ان عقائد کو وضاحت سے اپنی کتب میں تحریر نہیں کرسکے اس لیے اب ان کی تحریر کو صحیح طرح بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ اپنے بزرگ علماء کی طرف سے وضاحتیں صرف اس لیے پیش کر رہے ہیں کہ ان کی تحریرات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان کردہ باتوں کی تصدیق ہوتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’پس جب کہ قرآن شریف کی رُو سے ایسی نبوت کا دروازہ بند نہیں ہے جو بتوسط فیض واتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی انسان کو خدا تعالیٰ سے شرفِ مکالمہ اور مخاطبہ حاصل ہو اور وہ بذریعہ وحی الٰہی کے مخفی امور پر اطلاع پاوے تو پھر ایسے نبی اس امت میں کیوں نہیں ہوں گے۔ اِس پر کیا دلیل ہے۔ ہمارا مذہب نہیں ہے کہ ایسی نبوت پر مہر لگ گئی ہے۔ صرف اُس نبوت کا دروازہ بند ہے جو احکامِ شریعتِ جدیدہ ساتھ رکھتی ہو یا ایسا دعویٰ ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے الگ ہو کر دعویٰ کیا جائے لیکن ایسا شخص جو ایک طرف اُس کو خدا تعالیٰ اُس کی وحی میں امّتی بھی قرار دیتا ہے پھر دوسری طرف اس کا نام نبی بھی رکھتا ہے۔ یہ دعویٰ قرآن شریف کے احکام کے مخالف نہیں ہے کیونکہ یہ نبوت بباعث امّتی ہونے کے دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ظل ہے کوئی مستقل نبوت نہیں ہے۔ ‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 352)

(از:ابن قدسی)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button