سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

1860ء تا 1867ء

سیالکوٹ کا زمانہ

…… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… ……

آپؑ کا عہدہ

سیالکوٹ میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر/کچہری میں آپؑ کا عہدہ محرّر یا اہلمدکا تھا جسے Sheriff یا Readerکہا جاتا ہے۔اس دفترکا انچارج یعنی superintendent ایک متعصّب ہندوپنڈت سہج رام تھا اور تب ڈپٹی کمشنر Mr H.E.Perkins تھا۔

البتہ تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد15صفحہ 257،256کے مطابق اسی زمانہ میں سیالکوٹ کے ڈپٹی مسٹر مکنیب صاحب کانام بھی ملتاہے۔حضرت اقدسؑ تحریر فرماتے ہیں :

’’انہی وکیل صاحب لالہ بھیم سین صاحب کو جو سیالکوٹ میں وکیل ہیں ایک مرتبہ میں نے خواب کے ذریعہ سے راجہ تیجا سنگھ کی موت کی خبر پاکر اُن کو اطلاع دی کہ وہ راجہ تیجا سنگھ جن کو سیالکوٹ کے دیہات جاگیر کے عوض میں تحصیل بٹالہ میں دیہات مع اس کے علاقہ کی حکومت کے ملے تھے فوت ہوگئے ہیں اور انہوں نے اِس خواب کو سن کر بہت تعجب کیا اور جب قریب دو بجے بعد دوپہر کے وقت ہوا تو مسٹر پرنسب صاحب کمشنر امرتسر ناگہانی طور پر سیالکوٹ میں آگئے اور اُنہوں نے آتے ہی مسٹر مکنیب صاحب ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کو ہدایت کی کہ راجہ تیجا سنگھ کے باغات وغیرہ کی جو ضلع سیالکوٹ میں واقع ہیں بہت جلد ایک فہرست طیار ہونی چاہیئے کیونکہ وہ کل بٹالہ میں فوت ہوگئے۔ تب لالہ بھیم سین نے اس خبر موت پر اطلاع پاکر نہایت تعجب کیاکہ کیونکر قبل از وقت اس کے مرنے کی خبر ہوگئی۔ اور یہ نشان آج سے بیس برس پہلے کتاب براہین احمدیہ میں درج ہے۔‘‘

حضرت مسیح موعودؑ کے اس عرصۂ ملازمت کے دوران سلسلہ کے لٹریچر میں دوڈپٹی کمشنرزکا ذکرملتاہے۔ ایک مسٹرپرکنس اور دوسرے مسٹرمکنیب۔مناسب معلوم ہوتاہے کہ 1860ء سے 1870ء کے سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنرز کی ایک فہرست یہاں پیش کردی جائے۔اس فہرست کے مطابق جونام ملتے ہیں اس کی روشنی میں ممکن ہے کہ تریاق القلوب میں مذکور مسٹرمکنیب کانام جے ڈبلیومیناب ہی ہو۔ بہرحال ان کے نام اورملازمت کاسن کچھ اس طرح سے ہے:

I۔کیپٹن ایچ ۔آر۔ رفسٹن27.9.1859 تا 10.4.1861

II۔جے ۔ڈبلیو۔ میناب 11.4.1861 تا 17.6.1863

III۔سراے ۔ایچ۔ لارنس 18.6.1863 تا 18.8.1863

IV۔جے ۔ڈبلیو۔ میناب 19.8.1863 تا 15.2.1864

V۔ایچ ۔ای۔ پارکن 16.2.1864 تا 24.8.1864

VI۔کیپٹن فورسٹر 25.8.1864 تا 29.9.1864

VII۔میجرٹی۔ ڈبلیو۔ مرسر1.9.1864 تا 29.9.1865

VIII۔لیفٹننٹ ایف ۔ایم۔ برچ1.9.1865 تا 10.10.1865

IX۔میجرآر ۔ٹی۔ ڈبلیو۔ مرسر1.10.1865 تا 1.4.1867

X۔جے ۔آر۔پیبل گریفن 1.4.1867 تا 1.6.1867

XI۔میجرٹی۔ ڈبلیو۔ مرسر 1.6.1867 تا 12.3.1869

(تاریخ سیالکوٹ،مؤلفہ اشفاق نیاز،ایڈیشن پنجم 2009ء،

ناشر سیالکوٹ ایڈورٹائزرزص 981-982)

کچہری کہاں تھی؟

1861ء تک ڈپٹی کمشنرکی رہائش اور کچہری بارہ پتھر کے علاقہ میں ہوتی تھی جہاں سے پھریہ شہرسے ایک میل قریب منتقل ہوگئی۔یہ منتقلی 1861ء یا اس سے قبل ہوگئی ہوگی جیساکہ ایک مصنف جوخودایک سکاچ مشن کا پادری تھااور 1947ء سے 1977ء تک سیالکوٹ مشن میں ہی کام کرتارہالکھتاہے :

’’شہرسے تقریباً دومیل شمال مغرب کی طرف اور چھاؤنی کے مغربی کنارے سے کوئی ایک میل دوربارہ پتھر نامی ایک علاقہ تھا۔ برطانوی اقتدارکے ابتدائی دنوں میں ڈپٹی کمشنر کی رہائش گاہ یہاں تھی۔ اورکچہری اورپولیس لائنز بھی یہیں تھی۔ لیکن جس زمانے میں ہارپر سیالکوٹ آئے (یعنی1873ء ۔مرتب)اس وقت کچہری ،مجسٹریٹوں کی رہائش گاہ اورپولیس لائنز کوشہرکے ایک میل قریب منتقل کردیاگیاتھا۔پہلے سکاٹس مشنری پادری ٹامس ہنٹر چھاؤنی میں ایک کرایہ کے مکان میں رہائش پذیرہوئے تھے۔لیکن ان کے جانشینوں پادری جان ٹیلر اورپادری رابرٹ پیٹرسن کی سربراہی میں بہت جلدبارہ پتھر مشن کی کارروائیوں کامرکزبن گیا۔1861ء میں وہاں ڈپٹی کمشنر کامکان اورکچہری کی عمارات کوخریدکریتیم خانے کھولے گئے تھے۔‘‘

(بھولابِسرامبشر،ازڈبلیو۔جی ۔ینگ ص12۔13)

آپؑ کی رہائش کہاں کہاں رہی

حضرت اقدس علیہ السلام کی سیالکوٹ میں آمد اور آپؑ کی رہائش کے متعلق ایک چشمدید گواہ کی شہادت جوایک تفصیلی شہادت ہے یہاں درج کی جاتی ہے ،گوکہ ایسے بہت سے چشمدید گواہ ہیں جن کی تفصیلی روایات بھی سلسلہ کے لٹریچر میں موجودہیں جیسے سیدمیرحسن اوردیگر احباب وغیرہ لیکن یہ تفصیلات مضمون کے آخر میں دی جائیں گی۔ اس وقت ایک خاتون کی شہادت یہاں پیش کی جارہی ہے اس لئے کہ اس نصیبے والی محترمہ کی خوش بختی یہ ہے کہ نہ صرف اس نے اس ’’یوسف‘‘ کو اس زمانہ میں دیکھا بلکہ آپؑ کی رہائش ابتدا میں انہیں کے گھرمیں رہی اور بعدمیں کھانا بھی انہیں کے گھر سے تیارہوکے جایا کرتا۔سیرت المہدی کی روایت نمبر625 میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ بیان فرماتے ہیں :

’’سیّد زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں11ستمبر 1935ء کو سیالکوٹ میں تھا۔ وہاں مجھے مائی حیات بی بی صا حبہ بنت فضل دین صاحب جو کہ حافظ محمد شفیع صاحب قاری کی والدہ ماجدہ ہیں سے ملنے کا موقعہ ملا۔ اس وقت میرے ہمراہ مولوی نذیر احمد صاحب فاضل سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ سیالکوٹ اور چوہدری عصمت اللہ خان بی۔ اے۔ پلیڈرلائلپور، سیکرٹری جماعت احمدیہ لائلپور بھی تھے۔ مائی صا حبہ اپنے مکان کی دہلیز پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہم نے ان کو نہ پہچانا۔ مگر انہوں نے ہم کو پہچان کر السَّلام علیکم کہا۔ اور فرمایا کہ ادھر تشریف لے آئیں۔ مائی صاحبہ کی عمر اس وقت 105 سال ہے۔ مائی صا حبہ نے بتایا۔ کہ غدر کے زمانہ میں جب یہاں بھاگڑ پڑی اور دفاتر اور کچہریوں کو آگ لگی تو اس وقت مَیں جوان تھی۔ دورانِ گفتگو میں مائی صا حبہ نے بتایا کہ مجھے مرزا صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)سے اس وقت سے واقفیت ہے کہ جب آپ پہلے پہل سیالکوٹ تشریف لائے تھے اور یہاں ملازمت کے زمانہ میں رہے تھے۔ مرزا صاحب کی عمر اس وقت ایسی تھی کہ چہرے پر مس پھُوٹ رہی تھی۔ اور آپ کی ابھی پوری داڑھی نہ تھی۔ سیالکوٹ تشریف لانے کے بعد حضرت مرزا صاحب میرے والد صاحب کے مکان پر آئے۔ اور انہیں آواز دی اور فرمایا۔ میاں فضل دین صاحب آپ کا جو دوسرا مکان ہے۔ وہ میری رہائش کے لئے دے دیں۔ میرے والد صاحب نے دروازہ کھولا اور آپ اندر آ گئے۔ پانی ،چارپائی ،مصلّٰی وغیرہ رکھا۔ مرزا صاحب کا سامان بھی رکھا۔ آپ کی عادت تھی کہ جب کچہری سے واپس آتے تو پہلے میرے باپ کو بُلاتے اور ان کو ساتھ لے کر مکان میں جاتے۔ مرزا صاحب کا زیادہ تر ہمارے والد صاحب کے ساتھ ہی اُٹھنا بیٹھنا تھا۔ ان کا کھانا بھی ہمارے ہاں ہی پکتا تھا۔ میرے والد ہی مرزا صاحب کو کھانا پہنچایا کرتے تھے۔ مرزا صاحب اندر جاتے اور دروازہ بند کر لیتے اور اندر صحن میں جا کر قرآن پڑھتے رہتے تھے۔ میرے والد صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب قرآن مجید پڑھتے پڑھتے بعض وقت سجدہ میں گر جاتے ہیں اور لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں۔ اور یہاں تک روتے ہیں کہ زمین تر ہو جاتی ہے۔ مائی صا حبہ نے حضرت مسیح موعودؑکی باتیں بتلاتے ہوئے متعدد دفعہ کہا۔’’مَیں قربان جاؤں آپ کے نام پر‘‘۔ یہ بیان حافظ محمد شفیع صاحب قاری کی موجودگی میں مَیں نے لیا۔ اور حافظ صاحب نے اپنی والدہ صا حبہ کے سامنے بتلایا۔ کہ یہی باتیں میں اپنے ماموں اور نانے سے بھی سنا کرتا تھا۔

مائی صا حبہ نے بتلایا کہ پہلے مرزا صاحب اسی محلہ میں ایک چوبارہ میں رہا کرتے تھے۔ جو ہمارے موجودہ مکان واقع محلہ جھنڈانوالہ سے ملحق ہے۔ جب وہ چوبارہ گر گیا۔ تو پھر مرزا صاحب میرے باپ کے مکان واقع محلہ کشمیری میں چلے گئے۔ چوبارہ کے گرنے کا واقعہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کے پاس چوبارہ میں خلیل۔ منشی فقیر اللہ وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ تو مرزا صاحب نے کہا باہر آ جاؤ۔ جب وہ سب باہر دوسرے مکان کی چھت پر آئے۔ تو چوبارہ والا چھت بیٹھ گیا۔ حافظ محمد شفیع صاحب بیان کرتے ہیں۔ کہ خلیل کہتا تھا۔ کہ چوبارہ میں کوئی ایسی بات نہ تھی۔ کہ جس سے گرنے کا خطرہ ہوتا۔ مائی صاحبہ نے بتلایا کہ مرزا صاحب عموماً اپنے اوپر چادر لپیٹے رکھتے تھے اور سر پر بھی چادر اوڑھ لیتے تھے۔ اور اتنا ہی منہ کُھلا رکھتے جس سے راستہ نظر آئے۔ میرے والد بتلاتے تھے کہ مکان کے اندر جا کر چادر اتار دیتے تھے حافظ صاحب نے بتلایا کہ ہمارے نانا فضل دین صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب جب کچہری سے واپس آتے تو چونکہ آپ ا ہلمد تھے۔ مقدمہ والے زمیندار ان کے مکان تک ان کے پیچھے آ جاتے۔ تو مرزا صاحب فضل دین صاحب کو بلاتے اور کہتے کہ فضل دین میرا پیچھا ان سے چھڑا دو یہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ فضل دین صاحب ان زمینداروں کو سمجھاتے کہ جو تمہارا کام ہے مرزا صاحب کچہری میں ہی کر دیں گے۔ گھر میں وہ کسی سے نہیں ملتے۔ اور نیز انہوں نے بتلایا کہ جو تنخواہ مرزا صاحب لاتے۔ محلہ کی بیوگان اور محتاجوں کو تقسیم کر دیتے۔ کپڑے بنوا دیتے یا نقد دے دیتے تھے۔ اور صرف کھانے کا خرچ رکھ لیتے۔ مائی صاحبہ نے بتلایا کہ جب مرزا صاحب دوسری دفعہ بعد از دعویٰ سیالکوٹ آئے تو حکیم حسام الدین صاحب مرحوم کے مکان پر مجھے بلایا۔ اور میرا حال پوچھا۔ اور مَیں نے بیعت بھی کی۔ اس وقت مرزا صاحب بمع کنبہ آئے تھے…‘‘[مصنف کتاب سیرت المہدی حضرت صاحبزادہ صاحبؓ فرماتے ہیں]خاکسار عرض کرتا ہے کہ مندرجہ بالا بیان کے نیچے مندرجہ ذیل نوٹ درج ہیں۔

نوٹ اوّل:’’مندرجہ بالا بیانات ناظر صاحب دعوة و تبلیغ نے میری موجودگی میں مائی حیات بی بی صا حبہ اور ان کے لڑکے حافظ محمد شفیع صاحب کی روایات کی بناء پر قلمبند کرائے۔ دونوں پنجابی میں باتیں بتاتے تھے۔ جن کو ناظر صاحب ان کی موجودگی میں اردو میں ساتھ ساتھ لکھاتے جاتے تھے‘‘ مورخہ11/ستمبر 1935ء۔(دستخط) عصمت اللہ خاں وکیل لائلپور حال مقیم سیالکوٹ۔‘‘

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button