متفرق

اپنےبچوں کی صحت کا خیال رکھیں

(امۃ النصیر بشریٰ ناصر چودھری۔ Rüsselsheim۔ جرمنی)

اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں میںسے ایک نعمت اولاد ہے جو ماں باپ کی آنکھ کا تارہ ،اورا ن کی خوشیوں کا محور ہوتی ہے۔ والدین اپنے بچوں کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں ۔اولاد کے حوالے سے والدین کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ان کی صحت کا خیال رکھنا بھی ہے ۔بچے اس ننھے سے پودے کی مانند ہوتے ہیں جس کو ہر قسم کی گرمی اور سردی سے محفوظ رکھ کر ایک تنا ور درخت کی شکل میں پروان چڑھانا ہوتا ہے ۔ہمارے بچے احمدیت اور قوم کا سرمایہ ہیں ۔ کچھ بچے وقف نو کی مبارک تحریک میں شامل ہیں ۔ان کی ذہنی نشوو نما اور جسمانی نشوو نما دونوں کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے تاکہ جس عظیم مقصد کے لیے ہم نے انہیں خدا کی راہ میں پیش کرنا ہے اس کام کو وہ احسن طریقے سے سر انجام دے سکیں ۔

اس کا مطلب ہے کہ والدین کو، خاص طور پر ماں کو بچے کی تربیت کے ساتھ ساتھ اس کی صحت کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ صحت کے ان بنیادی اصولوں سے ماں باپ کو خوب واقف ہو نا چاہیے ۔

بچے کی پہلی اور بہترین غذا ماں کا اپنا دودھ ہوتا ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ماں اپنے بچے کو دو سال تک دودھ پلائے ۔اگر ماں کسی وجہ سے دودھ نہ پلا سکتی ہو تو ڈاکٹر سے مشورہ کر کے بچے کو دودھ دیا جائے۔ لیکن ہر مرتبہ فیڈر اور اس کے نپل کو گرم پانی سے اچھی طرح دھو کر استعمال کریں ۔ ڈبے پر لکھی ہوئی تاریخ کا بھی دھیان رکھیں اور اگر تاریخ ختم ہوگئی ہو تو اس کو استعمال نہ کریں ۔ جو مائیں بچے کو اپنا دودھ پلاتی ہیں انہیں اپنی صحت کا بھی خیال ضرور رکھنا چاہیے۔اچھی غذا کھائیں ۔خود بھی دودھ پیئیں ، تاکہ بچے کو اس کی ضرورت کے مطابق دودھ مل سکے۔ اگر اس کا پیٹ نہیں بھرے گا تو وہ روتا رہے گا اور آپ کو سمجھ نہیں آئے گی کہ آپ کا بچہ کیوں رو رہا ہے ۔دودھ پلانے والی ماں کو اپنے جسم کی صفائی کابھی خیال رکھنا چاہیے۔روازانہ نہانا چاہئے اس طرح بھی بچے کی صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے ۔

دودھ کو مائیکرو ویو(microwave) میں بھی گرم کر کے نہ پلائیں ۔اکثر مائیں دودھ مائکرو ویو میں گرم کرتی ہیں اور گرم کرتے وقت اس کو اوپر سے ڈھکتی بھی نہیں ،یہ طریقہ بالکل غلط ہے اور آجکل تو بار بار تنبیہ کی جاتی ہے کہ مائیکرو ویو کا استعمال کم کر دیا جائے کیونکہ اس کا استعمال کینسر جیسی موذی بیماری کا باعث بن رہا ہے ۔

6سے 24 ماہ تک کی عمر کے بچے کی خوراک اور غذا کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے ۔جب آپ کا بچہ چمچ کی مدد سے نرم غذا کھانا سیکھ لے تواسے نئی نئی غذائیں دیں بالخصوص فولاد سے بھر پور غذائیں ۔یہ بچے کی نشوو نما کا زمانہ ہوتا ہے۔پھر بھی ماں کا دودھ یا ڈبے کادودھ ہی اس کی اوّلین غذا رہے گی۔ جیسے جیسے وہ ٹھوس غذا کھائے گا اسے کم دودھ کی ضرورت ہو گی۔ ایک سال سے کم عمر کے بچے نئی خوراک زیادہ آسانی سے قبول کر لیتے ہیں ۔اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور مختلف قسم کی غذائیں اس کو کھلائیں ۔ موسم کے لحاظ سے بچےکی خوراک کے ساتھ ساتھ ماں کو بچے کی پیاس کا بھی خیال رکھنا چاہیے ۔سادہ پانی ابال کر ٹھنڈا کر کے رکھ دیں اور دن میں دو تین مرتبہ بچے کو پلائیں ۔اس کی خوراک میں پھل، سبزیوں کو بھی شامل کریں اور جوں جوں عمر بڑھتی جائے دالیں اور گوشت کا استعمال بھی شروع کردیں ۔روزانہ ایک ابلا ہوا انڈا کھلائیں ۔

نئی خوراک صبح یا دوپہر کے وقت کھلائیں ۔اس سے آپ کھانے سے ہونے والی الرجی پر بھی نظر رکھ سکتی ہیں۔ایک وقت میں صرف ایک ہی نئی غذا دیں ۔پہلے ایک سے چار چمچ تک شروع کریں بہتر ہے کہ بچے کو دو سے چار دن یہی غذا دیں۔نئی خوراک میں چاول ، دلیہ یا سوپ وغیرہ کا استعمال کریں۔نئی غذا چکھتے ہوئے ممکن ہے کہ آپ کا بچہ چہرے پر عجیب و غریب تاثرات لائے ،اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کھانے سے انکار کر رہا ہے۔ایسا وہ نئے ذائقے کی وجہ سے کرتا ہے۔اگر وہ نہیں کھاتا تو کچھ دن کو شش کریں ۔بعض بچے 8 سے 15 دن تک کی کوشش کے بعد نئی غذا کھانا شروع کر دیتے ہیں ۔

اگر بچے کی صحت میں کوئی کمی ہو تو ماں باپ اس کےلیے فکر مند ہوتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کی خوراک کے ساتھ ان کے لباس، ان کے جسم ،اور ان کے بستر وغیرہ کا بھی خاص خیال رکھیں ۔ بچے کا جسم بڑھ رہا ہوتا ہے اس کے لیے رات کا لباس خاص کر ڈھیلا ڈھالا اور کاٹن(cotton) کا ہونا چاہیے کیونکہ سوتے وقت بچہ اپنا جسم ہمیشہ ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے ،اگر لباس تنگ ہو گا تو اس کا جسم صحیح طرح بڑھ نہیں پائے گا ۔

بچوں کی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ بچپن سے ہی اس کا عادی ہوجائے۔اس کے لیے ضروری ہےکہ بچوں کے ڈائپر اور نیپیز وقت پر تبدیل کی جائیںاور ان کے کپڑے بھی الگ سے دھونے چاہیے ۔

بچوں کی عمر کے ساتھ ضروری ٹیکے بھی لگوانےچا ہئیں، یہ بچوں کی صحت کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں ۔

بچے کی نیند بھی پوری ہونی چاہیے ۔نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے وہ چڑ چڑا ہو جاتا اور بلاوجہ روتاہے ۔ایک مکمل اور بھر پور نیند اس کی صحت کے لیے ضروری ہے ۔

بچے کے جسم ،قد کے بڑھنے اور نشوو نما کے لیے ان کا کھیل کود میں حصہ لینا بھی ضروری ہے ۔اس لیے اپنے بچوں میں کھیلنے کی عادت کو بڑھائیں ۔آج کل کے بچے سارا وقت ٹی وی دیکھتے اور کمپیوٹر پر بیٹھے رہتے ہیں ۔اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کے لیے ٹی وی اور کمپیوٹر کا وقت مقرر کریں ،اور دوسرے مشاغل اور کھیلوں میں حصہ لینے کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کریں جیسے کہ وہ تیراکی ،والی بال ، باسکٹ بال یا فٹ بال کھیلنے میں حصہ لیں ۔بچہ جتنا زیادہ باہر کے کھیلوں میں حصہ لے گا اتنا ہی زیادہ وہ صحت مند ہو گا ۔جسم کا موٹا ہونا صحت مندی ہونےکی علامت نہیں بلکہ جسم کا مضبوط ہونا صحت مند ہونے کی نشانی ہے ۔

ان سب باتوں کا خاص طور پر خیال رکھنا ماں کی ذمہ داری ہے کیونکہ باپ تو باہر کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ماں بچے کے زیادہ قریب ہوتی ہے ۔دنیا میں بہت سارے لوگ اولاد کی نعمت سے محروم ہیں وہ اس نعمت کے لیے ترستے ہیں، خدا سے دعائیں مانگتے ہیں اور بہت سا روپیہ اس نعمت کے حصول کے لیے خرچ کر دیتے ہیں ۔لیکن جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت عطا فرمائی ہے وہ اس کی قدر کریں اس کی حفاظت کریں اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔ خدا کی مدد طلب کرتے ہوئے خاص دعاؤں کے ساتھ ان کوپروان چڑھائیں۔تاکہ وہ قوم وملت کے لیے مفید وجود اور حقیقی معنوں میں خادم دین ہوں۔جن ماؤں نے بچوں کو وقف کیا ہے ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ انہوں نے یہ تحفے جماعت کو بہت سجا سنوار کر پیش کرنے ہیں ۔اس لیے ان کی روحانی اور جسمانی صحت کا خیال ماں کو خاص طور پر رکھنا چاہیے کیونکہ بچے ماں کے پیٹ سے ہی سیکھنا شروع کر دیتے ہیں ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے قرآن اپنی ماں کے پیٹ سے سیکھا ۔‘‘

یعنی جب وہ حاملہ تھیں تب بھی وہ قرآن پاک کی تلاوت کرتی تھیں تو اس تلاوت کا اثر ان کے بچے پر پڑتا تھا ۔بچہ ایسی آوزوں پر بھی رد عمل ظاہر کرتا ہے جو پیدائش کے بعد بھی سنائی دے سکیں یعنی بچے کے کان پیدائش سے پہلے بہت حساس ہوتے ہیں ۔اس لیے ضروری ہے کہ ماں بچے کی پیدائش سے پہلے بھی اور بعد میں بھی بچوں کے سامنے بہت محتاط رہے ،وہ کام کرے جو بچوں کی نشوونما اور ان کی تربیت کے لیے بہتر ہو۔ اگربچے کی صحت اچھی ہو گی تو وہ اپنے دنیاوی کاموں کے علاوہ دین کی خدمت بھی خوش اسلوبی سے کر سکے گا ۔

بچوں کی صحت کا خاص خیال رکھنا ہو گا تاکہ وہ آگے چل کر ایک صحت مند ماحول پیدا کر سکیں ۔اگر آپ احمدیت کے پودے کو تناور اور دوام دیکھنا چاہتی ہیں تو اپنے حقیقی فرائض کو پہچانیں ۔

معاشرہ ہماری ہی گود سے جنم لیتا ہے ۔ ہمارے لیے یہی کافی نہیں کہ ہم ماؤں کے قدموں تلے جنت ہےبلکہ ہمیں چاہیے کہ ایسے بلند کردار ،اعلیٰ تعلیم یافتہ ،خوش اخلاق ، صحت مند بچے جو آگے چل کر جماعت کا بار اپنے کندھوں پر اٹھا سکیں پیش کر نے کی کوشش کریں ۔

گھروں کی ناچاقیوں کا اثر بھی بچوں کی صحت پر بہت پڑتا ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ماں باپ کا آپس کا تعلق بھی خوشگوار ہو تاکہ بچے کو گھر میں محبت بھرا اور پُر سکون ماحول ملے تاکہ وہ اپنا سکون باہر غلط ماحول میں جا کر نہ ڈھونڈے ۔

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بچوں کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے ان سب باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے بچے دین اور دنیا میں ترقی کرنے والے ہوں۔ آمین ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button