یادِ رفتگاں

حضرت الحاج مولانا عبد الرحمٰن صاحب فاضلؓ صحابی درویش

(ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز)

حضرت الحاج مولانا عبد الرحمٰن فاضل صاحب (پیدائش: 1893ءزیارت و بیعت1903ء وفات: 21؍جنوری 1977ء) ولد شیخ برکت علی صاحب کو سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے صحابی ہونے کا شرف حاصل تھا۔ آپؓ کے والدین قادیان ہی کے قریب واقع موضع فیض اللہ چک کے رہنے والے تھے۔ آپؓ کے ماموں اور (خسر) حضرت شیخ حامد علی صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے خادم اور صحابی تھے۔ جنہیں حضورؑ کی خدمت میں بکثرت حاضر ہونے کا شرف حاصل رہا۔ حضرت شیخ حامد علی صاحبؓ کی ہدایت پر ہی حضرت مولوی صاحب مرحوم نوعمری میں قادیان بغرض حصول تعلیم آئے اور تحصیل علم کے بعد اسی مقدس مقام کو اپنی مستقل رہائش گاہ بنا لیا۔

آپؓ کو سلسلہ کی بے شمار خدمات کاموقع ملا۔ ملکی تقسیم سے قبل آپ مدرسہ احمدیہ میں بطور ہیڈماسٹر کام کرنے کے ساتھ ساتھ قاضی سلسلہ ناظم دارالقضاء، جنرل پریذیڈنٹ لوکل انجمن احمدیہ اور ناظم سپلائی اجناس جلسہ سالانہ کے اہم فرائض سر انجام دیتے رہے۔ ملکی تقسیم کے وقت آپؓ نے قادیان میں ہی ٹھہرے رہنے کو ترجیح دی۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آپؓ کو قادیان میں امیر مقامی اور پھر ناظر اعلیٰ کے اہم عہدوں پر فائز کیا جن کو آپؓ نے آخری وقت تک نہایت درجہ خوش اسلوبی اور ذمہ داری کے پورے احساس کے ساتھ سرانجام دیا۔ آپؓ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ پرانے بزرگ عالم ہونے کے سبب سلسلہ کے سبھی علماء اور مبلغین کے آپؓ اُستاد تھے۔ علم فقہ اور میراث میں مستند عالم مانے جاتے تھے۔ انتظامی اُمور میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ علاقہ میں غیرمسلموں کے ساتھ آپؓ کے گہرے ذاتی مراسم تھے۔ قادیان کی میونسپل کمیٹی کے ابتدائی ممبران میں سے تھے۔ ملکی تقسیم کے بعد آپ ایک عرصہ تک بطور پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی بھی کام کرتے رہے۔ تمام غیر مسلم ممبران کمیٹی آپؓ کی قیادت پر ہمیشہ ہی مطمئن رہے۔

خود نوشت حالات زندگی

حضرت مولوی عبد الرحمٰن صاحبؓ فاضل صحابی درویش اخبار بدر قادیان کی 28؍ اپریل 1952کی اشاعت میں اپنے خود نوشت حالات میں فرماتے ہیں:

’’میں 1903ء یا 1904ء میں بچپن میں اپنے گاؤں فیض اللہ چک سے قادیان آیا۔ مجھے میرے ماموں حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ ساتھ لائے تھے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حضور پیش کیا تھا۔ میرے والد صاحب گول کمرہ میں ہی فوت ہوئے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت ام المومنین علیہا السلام بخوبی جانتے تھے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے میرے پیش ہونے پر میرے سر پر ہاتھ رکھا اور میرے لیے وظیفہ کی سفارش فرمائی۔ اس وقت تین روپیہ ماہوار سے زیادہ کسی شخص کابھی وظیفہ نہ تھا۔ لیکن حضرت اقدس علیہ السلام کی شفقت خاص سے اس عاجز کا وظیفہ پانچ روپیہ ماہوار مقرر ہوا۔ میری ممانی(حضرت حافظ حامد علی صاحب کی اہلیہ صاحبہ) حضرت اماں جانؓ کی خدمت میں رہتیں۔ ان کا وہیں کھانا پینا اور رہائش تھی۔ میں بھی ابتداء میں ان کی وجہ سے اکثر وہیں رہتا تھا۔ میں نے حضرت اماں جانؓ کا سلوک اور احسان جو اپنے متعلق دیکھا اور جو دوسروں کے متعلق مشاہدہ کیا وہ ایک نہ بھولنے والی داستان ہے۔ جس کی یاد میرے ذہن و قلب پر منقوش ہے۔ اور جس کی وجہ سے ہر وقت میرے دل کی گہرائیوں سے آپ کے لیے اور آپ کی سب اولاد کےلیے دُعائیں نکلتی رہتی ہیں۔ جب بھی حضرت اماں جانؓ اپنے کسی صاحبزادہ یا صاحبزادی کو کوئی مٹھائی یا کھانے پینے کی کوئی چیز دیتیں تو اس خادم غلام زادے کو بھی کبھی فراموش نہ کرتیں۔ گو میں بورڈنگ میں رہتا تھالیکن کثرت سے باربار الدار میں آنے اور رہنے کی سعادت ملتی رہتی تھی۔ اور بہت ہی کثرت سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے تبرک کے کھانے کا بھی موقع ملتا تھا۔ میری والدہ جس نے مجھے جنا اُس کا دودھ شائد میں نے پیا ہوگا۔ لیکن اس سے زیادہ اس کی پرورش کا مجھے علم نہیں۔ حضرت اماں جانؓ ہی تھیں جنہوں نے مجھے جب میں اپنی ممانی کے ساتھ الدار میں بود و باش رکھتا تھا میری پرورش اور ہر طرح خبر گیری کی۔ یہ احسانات حضرت اماں جانؓ کے صرف مجھ پر ہی نہ تھے بلکہ مجھ جیسے بیسیوں غلاموں کی زندگی کا ہر ہر لمحہ حضرت ممدوحہ کے احسانات کا رہین تھا۔ …

میرے دل و دماغ میں اس زمانہ کی پرسرور یاد ابھی تک تازہ ہے۔ جب حضرت اماں جانؓ کے صحن میں …میں اور حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ اور کبھی صاحبزادگان میں سے کوئی کبڈی کھیلا یا کشتی کیا کرتے تھے اور میری ممانی اس شور و شغب کی وجہ سے مجھے کبھی ڈانٹ بھی دیا کرتیں۔ لیکن حضرت اماں جانؓ ہماری بچپن کی اٹھ کھیلیوں پر باز پرس نہ فرماتیں۔ مجھے وہ زمانہ بھی یاد ہے جب ہمارے آقا اور خداکے پیارے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع حضرت امّ المومنین علیہا السلام کے، باغ میں تشریف لے جاتے ہم بچے بھی ساتھ ہوتے دونوں آقاؤں کے سامنے ہم درختوں سے شہتوت اور لوکاٹ وغیرہ کے پھل توڑتے اور کھاتے۔ لیکن ہمارے یہ محسن و مہربان اس پر کبھی گرفت نہ کرتے بلکہ ہماری خوشی سے حقیقی خوشی اورراحت محسوس کرتے اور ہم حقیقت میں یہی سمجھتے کہ یہ باغ اور اس کے پھل ہماری ہی ملکیت ہیں۔ حضرت اماں جانؓ کی شفقت اور احسان کا سلوک صرف میرے بچپن تک ہی محدود نہ رہا۔ بلکہ جب میں قابل شادی ہوا تو میری شادی کے جملہ انتظامات بھی حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمائے۔ اور میرے آرام و سہولت کا ہر طرح خیال فرماتے رہے۔ جو ناز اور اعتماد کسی چہیتے بیٹے کو اپنے حقیقی والدین پر ہوسکتا ہے اس سے بڑھ کر ہمیں حضرت اماں جان پر تھا۔ ایک دفعہ کسی تقریب پر حضرت اماں جانؓ نے میری بیوی یا اس کی بہن کو نہ بلایا جس پر وہ روٹھ گئی تو حضرت اماں جان نے ازراہ شفقت خاص طور پران کو بلوایا اور دلداری کی۔

میں اس بات کو تحدیث بالنعمت کے طور پر عرض کرتاہوں کہ بسا اوقات کئی ایک کام جو حضرت اماں جان اپنے دوسرے خدام سے زیادہ عمدگی سے کروا سکتی تھیں اس خادم اور غلام کے سپرد فرماتیں۔ حالانکہ مجھ سے زیادہ اہل موجود ہوتے اس کی وجہ میں یہی سمجھتا ہوں کہ حضرت ممدوحہ پرانے تعلق کو مدنظر فرماتیں۔‘‘

قبولیتِ دعا کا ایک ایمان افروز واقعہ

خاکسار خوش قسمت ہے کہ مجھے حضرت مولانا عبد الرحمٰن جٹ صاحبؓ کو قریب سے دیکھنے اور آپ کی بابرکت صحبت سے مستفیض ہونے کا موقع ملا۔ ازدیادِ ایمان کے لیے خاکسار آپ کا قبولیت دعا کا ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہے۔ اس واقعہ کا خاکسار کی زندگی میں ایک گہرا اثر ہے۔

آزادی سے قبل برطانوی حکومت کے دور میں ٹانگانیکا (جو بعد میں تنزانیہ کے نام سے معروف ہوا) کی اقتصادیات کی باگ ڈور غیر ملکیوں خاص طور پر ایشیائی لوگوں کے ہاتھ میں تھی۔ مقامی افریقن لوگ اکثر محنت مزدوری کے کام کرتے تھے۔ 1961ءمیں آزادی کے بعداکثر افریقنوں کا رویہ یہ تھا کہ غیر ملکی وہاں سے نکل جائیں اور ان کے املاک اور مال و دولت سب انہیں مل جائیں۔ اس وجہ سےعمومی طور پر غیر ملکیوں کے خلاف نفرت پھیل رہی تھی۔ جو آہستہ آہستہ تشدد کے واقعات میں رونما ہوئی اور پھر لوٹ مار اور قتل و غارت تک پہنچ گئی۔ اس صورت حال کے پیش نظر غیرملکی سرعت سے تنزانیہ چھوڑ کرباہر جانا شروع ہو گئے۔ اکثر تو برطانیہ چلے گئے اور بعض کینیڈا اور دیگر ممالک میں ہجرت کر گئے۔ ان حالات میں تنزانیہ میں ہمارے احمدی احباب بھی برطانیہ اور کینیڈا وغیرہ منتقل ہوگئے۔

مَیں اُن دنوں محکمہ تعلیم کی ایک اچھی پوسٹ پر کام کر رہا تھا لیکن ان پریشان کن حالات کی وجہ سے میں نے بھی ملک چھوڑنے کا ارادہ کیا۔ اور اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی خدمت میں دعا اور رہ نمائی کے لیے لکھا کہ برطانیہ جائیں یا کسی اور ملک۔ اس کے جواب میں حضورؒ کی طرف سے ارشاد آیا۔ تنزانیہ میں ہی رہیں اور وہاں کی شہریت لےلیں۔ جب اس ارشاد کا بعض احباب سے ذکرکیا۔ تو سب کا مشورہ تھا کہ حضورؒ کی خدمت میں دوبارہ وضاحت سے لکھیں اور جان و مال کو جو خطرات ہیں ان کا ذکر کریں۔ لیکن میں نے کہا دوبارہ نہیں لکھنا حضورؒ کی طرف سے جوار شاد موصول ہوا ہے اس کی ہر حال میں بفضلہ تعالیٰ تعمیل کرنی ہے۔

اس وقت میری شہریت برطانوی تھی۔ اس سے میں دستبردار ہوگیا اور تنزانیہ کی شہریت کے لیے درخواست دی۔ جو منظور ہوگئی۔ اِس پر میرے محکمہ والے بہت خوش ہوئے اور مجھے ایک اعلیٰ پوسٹ پر جس کا میں کوا لیفیکیشن کی وجہ سے اہل نہیں تھا مقرر کردیا۔ اس پر میں نے معذرت بھی کی لیکن وہ کہنے لگے کہ اب آپ تنزانیہ کے شہری ہو ہم اس کا بندوبست کر دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے میری اعلیٰ تعلیم اور ٹریننگ کے لیے اسکالرشپ کے لیے کوشش شروع کر دی لیکن کوئی کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔

دسمبر 1972ء میں رخصت پرمیں ربوہ گیا اور پھر وہاں سے قادیان جانے کا شرف حاصل ہوا۔ قادیان میں امیرمقامی حضرت مولوی صاحبؓ سے میرے مشفقانہ تعلقات تھے اور زیادہ وقت میں ان کے ساتھ ہی گزارتا تھا۔ مہمان خانے میں ٹھہرا ہوا تھا اور روزانہ فجر کے بعد مَیں ان کے ساتھ بہشتی مقبرہ دعا کے لیے جاتا اور پھر ان کے ساتھ واپس آتا۔ بعض اوقات واپسی پروہ میرے کمرے میں ہی تشریف لے آتے اور کچھ دیر بیٹھ کر چلے جاتے۔

ایک دن جب وہ میرے ساتھ کمرے میں تشریف لائے تو ایسے ہی میرے دل میں خیال آیا اور میں نے انہیں اپنے اسکالرشپ کی مشکلات کے بارے میں بتایا اور دعا کے لیے درخواست کی۔ اس پر انہوں نے کہا کہ چلو ابھی دعا کرتے ہیں۔ ہم دونوں چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک طرف وہ ایک طرف مَیں۔ دعا کے بعد وہ کھڑے ہوگئے اور’’مبارک ہو‘‘ کہہ کر چلے گئے اور اس کے بعد اس بارے میں ان سے کوئی بات نہیں ہوئی۔

اپنی رخصت کے بعد جب میں تنزانیہ گیا اور کام پر جانا شروع کیا۔ تو دوتین ہفتہ کے بعد مجھے محکمہ کی طرف سے اطلاع ملی کہ میرے لیے کامن ویلتھ کی فیلو شپ منظور ہوگئی ہے اور نیوکیسل یونیورسٹی، برطانیہ میں داخلہ بھی مل گیا ہے اور میں وہاں جانے کی تیاری کرلوں۔ سبحان اللہ۔

اس طرح حضرت مولوی صاحبؓ کی دعا اللہ تعالیٰ نے فوراً قبول فرمائی اور یہ کام جو سالہاسال سے رُکا پڑا تھامعجزانہ رنگ میں ہو گیا۔ قبولیت دعا کے اس ایمان افروز واقعہ کا آج تک میرے دل پر گہرا اثر ہے اور حضرت مولوی صاحبؓ کے درجات کی بلندی کے لیے دعاؤں کی توفیق مل رہی ہے۔

نصرت الٰہی کا ایک ایمان افروز واقعہ

آپؓ کی مومنانہ فراست، بالغ نظری، اور ہمدردی کا ایک واقعہ مکرم عطا ءالمجیب راشد صاحب مبلغ انچارج برطانیہ بیان کرتے ہیں۔ یہ ایمان افروز واقعہ محترم امام صاحب کے ساتھ پیش آیا۔ آپ تحریر کرتے ہیں کہ

’’1965ء کی بات ہے۔ ماہ اگست کے آخر میں مجھے اکیلےقادیان دارالا مان جانے کا موقع ملا۔ غالباً ہفتہ عشرہ وہاں قیام کیا اور اللہ کے فضل سے بیت الدعا، بہشتی مقبرہ اور دیگر مقامات مقدسہ میں دعائیں کرنے کا خوب موقع ملا۔ میرا قیام لنگر خانہ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام میں تھا۔

یکم ستمبر کی رات کو دس گیارہ بجے کے قریب میں سونے کی تیاری کر رہا تھا کہ دروازہ پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو ایک جماعتی کارکن نے بتایا کہ انہیں حضرت مولانا عبدالرحمٰن جٹ صاحب امیر مقامی نے میرے لیے یہ پیغام دیا ہے کہ مَیں کل صبح سویرے قادیان سے واپس پاکستان چلا جاؤں۔ مَیں نے پوچھا کہ کیا اس ارشاد میں کچھ زائد وقت کی گنجائش ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ حضرت امیر صاحب مقامی نے مجھے فرمایا ہے کہ اگر صبح روانگی کسی وجہ سے مشکل ہو تو پھر 3؍ستمبر 1965ء کولازمی طور پر روانہ ہو جائیں۔ میں نے کہا حضرت امیر صاحب مقامی سے جا کر عرض کردیں کہ میں آپ کےارشاد پر 3؍ستمبر کو لازماً واپس پاکستان چلاجاؤں گا۔

اگلے روز 2؍ ستمبر کو دفتر کھلنے پر میں حضرت امیر صاحب مقامی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ہمیشہ کی طرح بہت شفقت اور احترام سے ملے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کا پیغام مل گیاہے۔ اور میں ان شاء اللہ کل پاکستان کے لیے روانہ ہو جاؤں گا۔ آپ نے فرمایا کہ بالکل ٹھیک ہے۔ پھر آپ نے خود ہی اس ہدایت کا پس منظر بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ کل رات ریڈیو پاکستان پر پاکستان کے صدر جنرل محمد ایوب خان صاحب کی تقریر میں نے سنی۔ ان کے انداز خطاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے باہمی تعلقات میں تناؤ ہے اور صورتِ حال جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے اگر خدا نخواستہ جنگ شروع ہو جائے تو عام دستور ہے کہ کسی بھی اور ملک سے آئے ہوئے لوگوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ اس امکانی خطرہ کے پیشِ نظر میں نےآپ کو یہ پیغام بھجوایا تھا۔ میں نے آپ کادلی شکریہ ادا کیا اور دعا کی درخواست کے ساتھ رخصت ہوا۔

2؍ستمبر کا دن قادیان میں بہت مصروف گزرا۔ مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ میں نمازوں اور نوافل کے علاوہ بیت الدعا میں بھی نوافل اور دعاؤں کا خوب موقع مل گیا۔ بہشتی مقبرہ میں بھی حاضر ہو کردعائیں کرنے کی توفیق ملی۔ دیگر احباب سے ملاقات کرنے میں اور چھوٹے چھوٹے کام کرنے میں دن کا وقت بہت جلدی گزر گیا۔ اور رات کو میں نے سفر کی تیاری مکمل کر لی اور 3؍ستمبر کو گاڑی کے ذریعہ قادیان سےروانہ ہوگیا۔

گاڑی چلی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیاری بستی قادیان دارالامان کو بہت محبت اور چاہت کےساتھ دیکھا۔ دعائیں کرتے ہوئے سفر کا آغاز کیا۔ کچھ دیر میں بٹالہ اسٹیشن آگیا۔ پھر وہاں سے روانہ ہو کر امرتسر پہنچ گیا۔ غالباً وہاں سےدوسری گاڑی لی جو براہ راست لاہور جاتی تھی۔ میں اکیلا تھا۔ کوئی اور واقف کار یا دوست ساتھ نہ تھا۔ دعاؤں کا اچھا موقع مل گیا۔ راستہ میں ادھر اُدھر باہر کے نظارے دیکھتا رہا اور کچھ دیر کے بعد ٹرین اٹاری اور واہگہ سے گزرتے ہوئےپاکستان میں داخل ہوئی۔ اور لاہور اسٹیشن آگیا۔ میرے پاس مختصر سا سامان تھا۔ میں وہ لے کر پلیٹ فارم پر اترا۔ تو ایک باوردی سرکاری افسر مجھے ملا۔ اور اس نےاپنا تعارفی بیج دکھایا کہ C.I.D کا افسر ہے۔ اس نے کہا کہ آپ میرےساتھ الگ کمرہ میں آجائیں۔ میں کچھ باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں۔

میں اس افسر کے ساتھ ایک کمرہ میں بیٹھ گیا۔ اس نےبڑےاچھےانداز میں بات کا آغاز کیاکہ آپ کو سیاسی حالات کا علم ہوگا۔ اس حوالہ سے میں آپ سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ نے اس سفر کے دوران ہندوستان کے بارڈر کےقریب کوئی فوجی نقل و حرکت تو نہیں دیکھی؟ مَیں نے کہا کہ مَیں تو ایک طالب علم ہوں۔ ان سیاسی یافوجی امور سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ نہ مَیں نےاس خیال سے گاڑی سے باہر دائیں بائیں نظر کی ہے۔ البتہ آپ کے سوال کرنے پر یاد پڑتا ہےکہ ہندوستانی بارڈر کے قریب فوجی ٹرکوں کی نقل و حرکت ضرور دیکھی ہے۔ اس نے پوچھا کہ ان ٹرکوں کے رنگ کیا تھے؟ ان کی نمبر پلیٹ پر کیا لکھا تھا۔ ؟وغیر ہ وغیرہ۔ نیز یہ پوچھا کہ معین طور پر کس جگہ پر آپ نےنقل و حرکت دیکھی۔ میں نے جواباً بتایا کہ میں نے اٹاری کے سٹیشن کےبعد7 منٹ کے سفر پر ٹرک دیکھے۔ لیکن ان کےاوپر کی نمبر پلیٹ یا کمپنی کانام نہیں دیکھ سکا۔ الغرض اس طرح کی باتیں وہ مجھ سے پوچھتا رہا۔ اور میں اپنے مشاہدہ کی حد تک صحیح صحیح باتیں انہیں بتاتا رہا۔ اس نے میرا شکریہ ادا کیا کہ جو باتیں آپ نے بتائی ہیں۔ وہ ہمارے لیے بہت مفیدہیں۔

مَیں وہاں سے رخصت ہوکر دوسرےپلیٹ فارم پر آیا اور ربوہ جانےوالی ریل کا ر پرسوار ہو کر اللہ کے فضل و کرم سےشام کو بخیریت ربوہ پہنچ گیا۔

دو روز کے بعد 6؍ستمبر کو صبح ریڈیو کی خبروں سے معلوم ہوا کہ آج علی الصبح ہندوستانی افواج نے پاکستان پر حملہ کردیا ہے۔ ہر طرف خوف اور پریشانی کا عالم تھا۔

آج ایک لمبے عرصہ کے بعد یہ نوٹ لکھتےہوئے میرا دل اللہ تعالیٰ کےشکر سے لبریز ہے کہ اللہ تعالیٰ نےاپنےفضل سےاس عاجز کو ایک انتہائی خوفناک صورتِ حال سے بال بال بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ کے شکرکے ساتھ ساتھ یہ بھی سوچتا ہوں کہ اگر اس موقع پر حضرت مولانا عبد الرحمٰن جٹ صاحبؓ امیرمقامی مجھے واپس جانے کا مشورہ اور ہدایت نہ فرماتے تو کیا صورتِ حال ہوجاتی۔ آ پ کی مومنانہ فراست، بالغ نظری، اور ہمدردی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک بہت بڑے خطرہ اور ابتلا سے بچا لیا۔ الحمد للہ رب العالمین۔ ‘‘

احباب جماعت کی خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار

حضرت مولانا عبد الرحمٰن جٹ صاحبؓ کو اکثر لوگ ’’امیر صاحب‘‘کے نام سے جانتے اور پکارتے تھے۔ اور یہ لفظ آپ کے لیے بطور خاص اپنوں اور غیروں میں مشہور ہو گیاتھا۔ آپ کولمبا عرصہ ناظر اعلیٰ و امیر مقامی قادیان خدمت کی توفیق ملی۔ آپ نے انتہائی ذمہ داری کےساتھ اس فریضہ کو سرانجام دیا۔

اس حوالے سے مکرم خواجہ عبد الحمید صاحب انصاری حیدر آباددکن تحریر کرتےہیں کہ

’’ مجھ جیسا ہم چیداں جب بھی آپ سےملا یہی محسوس ہوا کہ حضرت نےا پنی شفقت و محبت صرف میرے لیے مخصوص کر دی ہے۔ احباب کو تاکیداً کہا کرتے تھے کہ خطوط لکھا کرو۔ جب کوئی آپ کی خدمت میں خط لکھتا تو فوراً جواب دیتے۔ قادیان کو لکھے جانے والے سبھی خطوط کے جواب ویسے بھی جلد ہی دیے جاتے ہیں لیکن آپ کا جواب ہمیشہ سب سے پہلے وصول ہوتا۔ یہ میرا بارہا کا تجربہ ہے کیونکہ مَیں جب بھی قادیان لکھتا ہوں کئی دوستوں اور بزرگوں کو ساتھ ہی لکھا کرتا ہوں۔ حضرت مولوی صاحبؓ کا جواب سب سے پہلے آتا اور کوئی نہیں ہوتا جو اس صفت مستعدی میں آپ کا مقابلہ کر سکتا۔

حضرت مولوی صاحب خلیفہ وقت کے نامزد کردہ لیڈر تھے۔…ہندوستان میں احمدیت کے انصرام اور استقلال کے لئے جن حکمت عملیوں کو برتنے کی ضرور ت تھی، بحیثیت ناظراعلیٰ آپ نے انہیں برتا۔ بحیثیت ناظم دار القضاء بے نظیر فیصلے دئے۔ ہر تنظیمی معاملے میں بے لاگ رائے زنی کی اور حق کے قیام کے لیے ہمیشہ اپنےآراموں کو قربان کیا۔…

سَیِّدُالْقَوْمِ خَادِمُھُمْقوم

کا سردار اصل میں قوم کا خادم ہوتا ہے۔ یعنی جو خادمِ قوم ہوتا ہے، وہی سرداری کا حق رکھتا ہے۔ حضرت مولوی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خادمانہ حالت ہزاروں سرداروں کے لیے باعث صد افتخار تھی۔‘‘

(اخبار بدر قادیان3؍فروری1977ء صفحہ 8)

درویشان قادیان کا خیال رکھنے والا وجود

حضرت امیر صاحب مقامی قادیان کے تمام درویشان سے خصوصی پیار اور محبت کاسلوک کرتے تھے۔ خصوصاً اُن کی خبر گیری کرتے۔ مکرم منصور احمد چیمہ صاحب تحریر کرتےہیں:

’’حضرت مولانا صاحب بعد نماز عصر اکثر مہمان خانہ کے سامنے جہاں آج کل بہشتی مقبرہ کا دفتر ہے وہاں بیٹھا کرتے تھے۔ وہی راستہ محلہ ناصر آباد کی طرف جاتا تھا۔ آپ کبھی اکیلے بیٹھے ہوا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ مَیں آپ کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ مجھ کوپاس بُلایا اور فرمانے لگے کہ

’’باپو دا حال کی ہے کدی ویکھیانہیں۔‘‘

میں نے جواب دیا کہ حضرت آج کل ان کی ڈیوٹی بہشتی مقبرہ میں ہوتی ہے اور وہ کم ہی بازار کی طرف آتے ہیں۔ فرمانے لگے۔

’’ٹھیک تے ہے نا‘‘

میں نے کہا جی ہاں۔ تو فرماتے

’’بس ٹھیک ہے‘‘

اس بات کا میرے دل پر اتنا اثر ہوا کہ آپ کو درویشان کی کتنی فکر رہتی ہے کہ ایک درویش کو میں نے اتنے دنوں سے دیکھا نہیں اس کا حال کیا ہے۔‘‘

(اخبار بدر قادیان3؍فروری1977ء صفحہ9)

اخبار بدر قادیان کی جانب سے آپ کی سیرت پر ایک جامع تبصرہ

آپ کی وفات پر مکرم محمدحفیظ بقاپوری صاحب ایڈیٹر اخباربدر قادیان 3؍فروری 1977ء کی اشاعت میں اپنے ادارتی نوٹ میں تحریر کرتے ہیں کہ

’’حضرت امیر صاحب‘‘کے صفاتی الفاظ کثرتِ استعمال اور آپؓ کے محسنانہ تعلق کے سبب نہ صرف مقامی طور پرقادیان میں بلکہ بیرونجات میں بھی اسم علم بن گئے تھے۔ کسی بھی شخص کی زبان سے یہ لفظ نکلتے، آپؓ کی پر وقار بزرگ شخصیت آنکھوں کے سامنے آجاتی۔ آپ کی ساری زندگی ہی خدمت دین اور خدمت انسانیت سے معمور رہی اور زندگی بھی ایسی جو پبلک زندگی تھی۔ نوعمری ہی میں آپ کے ماموں حضرت حافظ شیخ حامد علی صاحب رضی اللہ عنہ جو بعد میں آپ کے خسر بھی ہوئے آپ کو قادیان میں لے آئے۔ اور آپ وہ دوسرے خوش نصیب طالب علم ہیں جو مدرسہ احمدیہ کی سب سے پہلی جماعت میں داخل ہوئے اور اسی درس گاہ سے فارغ التحصیل ہوکر اس قدر طویل عرصہ درس و تدریس کی خدمت اسی درس گاہ میں بجالانے کی توفیق پائی جو کسی دوسرے کے حصہ میں شاید نہ آئی ہو۔ نہ جانے کتنی نسلوں کے آپ استاد اور معلم بنے اور بیشمارمبلغین سلسلہ کو آپ کے تلمیذ کہلانے کا شرف حاصل ہوا۔ اس طرح آپ کا یہ صدقہ جاریہ آپ کی ذات کو ہمیشہ ہی زندہ جاوید رکھے گا۔

نہایت درجہ عالی ہمت جفاکش، بلند حوصلہ، معاملہ فہم، ذہین، بارعب، عالم باعمل بزرگ تھے۔ آپؓ کے ان اوصاف حمیدہ میں سے ایک ایک وصف نے آپ کو دین کی خدمت میں نمایاں حصہ ڈالنے کا موقع دیا۔ اور ایسی ہی خوبیوں کے سبب انسانیت کی حقیقی خدمت بجا لانے کی توفیق پائی۔ ملکی تقسیم سے قبل جب تک مدرسہ احمدیہ میں تعلیم و تدریس کے خصوصی کام پر مامور رہے۔ پوری لگن اور محنت کے ساتھ اس خدمت کو بجا لاتے رہے۔ اس فرض منصبی کے سوا جماعت کی اور بہت سی نفلی خدمات فرض سے بڑھ کر ذمہ داری کے احساس سے ادا کرتے رہے۔ آپ اکثر بیان فرمایا کرتے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بارہا خوشنودی ان نفلی کاموں کی بجاآوری کے سلسلہ میں آپ کو حاصل ہوئی۔ چونکہ راقم الحروف(محمد حفیظ بقاپوری… ناقل) کو بھی آپ کی شاگردی کا شرف حاصل رہا ہے۔ اس عرصہ میں ذاتی تجربہ کی بنا پر علیٰ وجہ البصیرت کہا جاسکتا ہے کہ آپ ایک شفیق استاد کی طرح اپنے شاگردوں سے پیش آتے رہے۔ ہر سبق پوری تیاری اور قبل از وقت مطالعہ کے بعد پڑھایا۔ ادب عربی، فقہ اور انشا کے مضامین میں خاصی مہارت رکھتے تھے۔

عرصہ دراز تک مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ میں بطور ٹیوٹر خدمت بجا لاتے رہے۔ بورڈنگ مدرسہ احمدیہ سے دور واقع اپنی رہائش گاہ سے صبح سویرے فجر کی نماز کےلیے طلبہ کو جگاکر وقت پر نمازکےلیے لے جانا اور صرف ایک دو دن یا ایک دو ماہ کےلیے نہیں بلکہ سالہا سال یہ خدمت بحسن و خوبی بجا لاتے رہنا کوئی معمولی بات نہیں۔ اس طرح جو رنگ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے عظام سے براہ راست سایہ میں رہ کر آپ نے اپنے اندر جذب کیا جماعت کے ہونے والے مبلغین اور علماء کو بھی اسی رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کی اور ہمہ وقت دوسروں کو خدمت دین اور خدمت انسانیت کےلیے آمادہ و تیار کرتے رہنے کی نہ صرف تلقین کی بلکہ اس کام میں خود بھی برابر کا حصہ لیتے ہوئے دوسروں کو علمی ترغیب دی۔ ایک ہی وقت میں کئی کئی ڈیوٹیاں سرانجام دینے میں آپ کی عالی ہمتی، محنت او رجفاکشی نے ہمیشہ ہی آپ کو سربلند رکھا۔ کسی کام کو نہ حقیرجانا اور نہ ہی کسی کام کو ادھورا چھوڑ ا بلکہ اسے پوری ذمہ داری کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا اور مشکل سے مشکل کام کو سرانجام دیتے وقت کبھی نہیں گھبرائے بلکہ پوری ثبات قدمی اور دلجمعی کے ساتھ پورا کیا اور ہمیشہ ہی دربارِ خلافت سے خوشنودی حاصل کی۔

ملکی تقسیم سے سالہا سال قبل ہی مسجد اقصیٰ میں امامت کے فرائض سرانجام دینے شروع کیے۔ پر جب امیر مقامی بنائے گئے تو قادیان کی دو نوں مرکزی مساجد میں باری باری امامت فرماتے رہے۔ نماز باجماعت کی پابندی اور اوّل وقت میں نماز کی ادائیگی میں ایسی باقاعدگی کہ اپنی مثال آپ تھے۔ یہ جو حدیث نبویؐ میں مروی ہے کہ سات آدمیوں کو قیامت کے روز خدا تعالیٰ کے خاص سایہ میں جگہ ملے گی اُن میں حضورﷺ نے اُس آدمی کو بھی شمار کیا ہے جس کا دل مسجد سے معلق رہتا ہے کہ ایک نماز سے فارغ ہوکر دوسری نماز کےلیے جانے کو اُس کے دل میں اشتیاق کے جذبات اُبھرتے رہتے ہوں۔ ہمارے نزدیک حضرت مولوی صاحب مرحوم بھی انہی خوش نصیب افراد میں سے تھے جن کے دل کو مساجد میں نماز باجماعت کےلیے حاضر ہونے کا غیر معمولی تعلق تھا۔

ملکی تقسیم کے بعد آپ مقامی جماعت احمدیہ کے امیر بنائے گئے۔ ساڑھے 29سال کا لمبا عرصہ نہایت کامیابی کے ساتھ اُن سب ذمہ داریوں کو ادا کیا جو اس عہدہ جلیلہ سے وابستہ ہیں۔ آپؓ کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا۔ کسی کو بھی اپنی شکایت اور ضرورت آپ کے سامنے بیان کرنے میں کسی طرح کی روک نہ تھی۔ آپ ہر شخص کی بات بڑے صبر و تحمل اور بردباری سے سنتے اور اس پر بہت جلد کارروائی فرماتے اور ہر تکلیف رسیدہ کی تکلیف کو جلد از جلد دور کرنے کی پوری سعی فرماتے۔

ملکی تقسیم کے وقت قادیان کی کثیر آبادی کو جن حالات میں سے گزرنا پڑا اور بالخصوص مغربی پنجاب سے زخم خوردگی کے بعد مشرقی پنجاب میں آنے والے غیر مسلموں کی دلداری اور اُن کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا اور ساتھ کے ساتھ اُن کے دلوں سے کدورت کو دور کرنا جو حالات کی نزاکت کے سبب مسلمانوں کی نسبت پیدا ہوچکی تھی، یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ یہ حضرت امیر صاحب مقامی کی ہی شخصیت تھی جس نے آنے والوں کے دلوں میں ایسا مقام پیدا کرلیا کہ وہ سب کے سب آپؓ کو اپنا ہی بزرگ یقین کرنے لگے جس طرح محلہ احمدیہ کے درویشان کرام سمجھتے اور یقین کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کی وفات کی خبر سن کر ان سب دوستوں کو بھی اسی طرح صدمہ ہوا جس طرح درویشان کرام اور احمدی دُنیا کو۔ چنانچہ ان میں سے ایک خاصی تعداد آپؓ کے جنازہ اور تدفین کے وقت موجود رہی اور آپ کی قبر پر جہاں احمدی احباب نے مٹی ڈالی وہاں ان دوستوں نے بھی اپنی محبت کاثبوت دیتے ہوئے اس کام میں برابر کاحصہ لیا۔

حضرت امیر صاحبؓ طبعی طور پر جہیر الصوتواقع ہوئے تھے۔ اور اپنی اس خوبصورت بلند آواز میں جب قرآن کریم کی نمازوں میں قرآءت فرماتے یا اپنے گھر میں صبح کی نمازکے بعد تلاوت فرماتے تو دور تک ہر لفظ بہت عمدگی سے سنا جاتا اور ہر سننے والا اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا۔

ہر چند کہ آپ کو مدرسہ میں تعلیم و تعلّم کا اور جماعت کے دوسرے انتظامی امور کی سرانجام دہی سے ہی واسطہ پڑتا رہا۔ اس لئے آپ پبلک میں بطور مقرر اور خطیب کے کبھی نہیں آئے تھے بلکہ درویشی کاابتدائی زمانہ بھی اسی طرح گذرا۔ لیکن جب کچھ عرصہ بعد حضرت مصلح موعودؓ عنہ نے آپ کو اور محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کو باری باری جمعہ پڑھانے کا خصوصی ارشاد فرمایا تو اس وقت کے بعد سے آپ کا یہ وصف بھی خوب چمک کر سامنے آیا … جمعہ کے خطبات ہوں یا جماعتی جلسوں میں تقاریر اور صدارت کے فرائض سرانجام دینے کے مواقع ہوں سب کو بڑی عمدگی اور خوبی سے پورا کیا۔ نہ صرف احباب جماعت کے سامنے بلکہ قومی اور ملکی تقریبات کے بہت سے پبلک جلسوں میں بھی آپ کو خطاب کرنے کا بارہا موقع ملا۔ آپ بڑے ہی مؤثر طریق پر اور بڑی سادہ زبان میں اپنے مافی الضمیر کو ادا کرتے اور ہمیشہ ہی مفید امور کی طرف اپنے مخاطبین کو متوجہ کرتے۔

ہر ایسے موقعہ پر آپ نے ہمیشہ ہی اس امر کی تلقین کی کہ جو ہم کہتے ہیں اُس پر عمل بھی کریں۔ تا ہمارا عمل ہمارے قول کے ساتھ مطابق ہوکر ہم عملی آدمی بن سکیں۔ نہ کہ صرف باتیں بنانے والے ہوں۔ آپ ہمیشہ احباب جماعت کو بالعموم اور درویشان کرام کو بالخصوص سورۃ الصف کی آیت کریمہ

یٰٓایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ

کی روشنی میں تاکید فرمایا کرتے کہ انسان کاعمل اس کے قول کے ساتھ مطابق ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے کا باعث ہے۔

عمر کے آخری سالوں میں جب گرمی کا موسم آتا تو آپ کا یہ معمول رہا کہ مغرب کی نماز مسجد اقصیٰ میں ادا کرنے کے بعد امام کے مصلّی پر ہی لیٹ جاتے اور نماز عشاء تک ذکر الٰہی میں مشغول رہتے۔ اس دوران کوئی ملاقاتی بھی اگر آجاتا تو آپ اس سے ملاقات بھی اسی جگہ فرمالیتے اور پھر بہت سی روحانی باتوں کا سلسلہ چل پڑتا جن میں بالعموم سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت پاک اور اپنے بعض چشم دید واقعات سناکر حاضرین کے ایمانوں میں تازگی پیدا کرتے۔ خود بھی نظام سلسلہ کی نہایت درجہ پابندی کرنے والے اور خلافت حقہ سے دلی عقیدت اور فدائیت رکھنے والے تھے۔ موقعہ ملنے پر جماعت کے ہرفرد کو بھی اس رنگ میں رنگین ہونے کی تلقین فرماتے…‘‘

(بدر3؍فروری1977ءصفحہ2)

وفات

آپؓ کی وفات 20؍ اور 21؍ جنوری 1977ء کی درمیانی شب کو دل کا شدید دورہ پڑنے کے نتیجہ میں ہوئی۔ آخری بار جب آپ کو جلسہ سالانہ پرربوہ جانے اور سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے ملاقات کرنے کاشرف حاصل ہوا تو آپ کو ربوہ میں فلو کاعارضہ ہوگیا۔ اور بتایا کہ اُس وقت مجھے خیال گزراکہ ساری عمر تو قادیان میں رہا ہوں ایسا نہ ہو کہ آخری وقت قادیان سے باہر آجائے اس لیے جلسہ ربوہ کے بعد جلد قادیان آگیا۔ اس سے حضرت مولوی صاحب کی قادیان سے دلی محبت اور تعلق پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کی اس خواہش کو پورا کیا اور آپ کی زندگی کے آخری لمحات بھی قادیان میں ہی اپنے مقدس آقا سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے مولد و مدفن میں گزرے۔ اور اپنی آخری آرام گاہ بھی اسی جگہ پائی۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔

بہشتی مقبرہ قادیان میں آپ کے مزار پر مندرجہ ذیل عبارت کندہ ہے۔

’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم۔ وعلی عبدہ المسیح الموعود۔

مزار

حضرت الحاج مولوی عبد الرحمن فاضل المعروف بہ جٹ۔ ابن ’’حبی فی اللہ شیخ برکت علی صاحب۔ ‘‘( ازالہ اوہام حصہ دوئم صفحہ 820)

قوم ککے زئی ساکن فیض اللہ چک، گورداسپور۔ ہمشیرزاد حضرت حافظ حامد علی صاحب خادم خاص حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ سن زیارت 1903من جملہ اولین دو طلبا شاخ دینیات مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان۔ انجمن ترقی اسلام کے تحت خلافت ثانیہ کے آغاز میں تبلیغ اسلام میں ہمہ تن مصروف رہے۔ 63سال تک مرکز میں مناصب جلیلہ پرفائزرہے۔ بطور ہیڈماسٹر مدرسہ احمدیہ، پروفیسر جامعہ احمدیہ، ناظر سپلائی جلسہ سالانہ، جنرل پریذیڈنٹ، بوقت تقسیم رُکن امن کمیٹی، ناظم دارالقضاء، رکن بورڈ قضاء، وقفِ جدید، صدر مجلس کارپرداز بہشتی مقبرہ، ممبر میونسپلٹی، اُس کے نائب صدر، صدر، حضرت مرزاناصراحمد صاحب (خلیفۃ المسیح الثالث)اور کثیر تعداد مبشرین اسلام کے اُستاد ہونے کا آپ کو شرف ملا۔ سلسلہ کی خاطر قید بھی ہوئے اتنا طویل عرصہ ناظر اعلیٰ، وکیل الاعلیٰ اور امیر مقامی رہنے میں آپ منفرد تھے۔ غیرمسلم طبقہ سے جماعتی تعلقات استوار کئے۔ آپ جو ایک انجمن کا حکم رکھتے تھے شفقت، اخلاقِ عالیہ، علوہمت، انتظامی و قضائی صلاحیتوں، اسلامی تعلیم پر وسعت نظر، جدید فقہی عالم، خلافت سے والہانہ محبت اور دُعاؤں سے تقویت سلسلہ کا باعث بنے۔

خاکسار

مرزا وسیم احمد

ناظر اعلیٰ وکیل الاعلیٰ امیر مقامی قادیان

تاریخ وفات :1977-1-21

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button