حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

مغربی ممالک میں انتہائی غلیظ کارٹونوں کی اشاعت پر عالم اسلام کا ردّ عمل

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ (الانبیاء:108)

اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ عَذَابًا مُّہِیۡنًا(الاحزاب:57-58)

آج کل ڈنمارک اور مغرب کے بعض ممالک کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں انتہائی غلیظ اور مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت کرنے والے، ابھارنے والے، کارٹون اخباروں میں شائع کرنے پر تمام اسلامی دنیا میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ رہی ہے اور ہر مسلمان کی طرف سے اس بارے میں رد عمل کا اظہار ہو رہا ہے۔ بہرحال قدرتی طور پر اس حرکت پر ردّ عمل کا اظہار ہونا چاہئے تھا۔ اور ظاہر ہے احمدی بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عشق میں یقیناً دوسروں سے بڑھا ہواہے کیونکہ اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وجہ سے حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کا فہم و ادراک دوسروں سے بہت زیادہ ہے اور کئی احمدی خط بھی لکھتے ہیں اور اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں، تجاویز دیتے ہیں کہ ایک مستقل مہم ہونی چاہئے، دنیا کو بتانا چاہئے کہ اس عظیم نبی کا کیا مقام ہے تو بہرحال اس بارے میں جہاں جہاں بھی جماعتیں Activeہیں وہ کام کر رہی ہیں لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا رد عمل کبھی ہڑتالوں کی صورت میں نہیں ہوتا اور نہ آگیں لگانے کی صورت میں ہوتا ہے اور نہ ہی ہڑتالیں اور توڑ پھوڑ، جھنڈے جلانا اس کا علاج ہے۔

اس زمانے میں دوسرے مذاہب والے مذہبی بھی اور مغربی دنیا بھی اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کر رہے ہیں۔ اس وقت مغرب کو مذہب سے تو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کی اکثریت دنیا کی لہوو لعب میں پڑ چکی ہے۔ اور اس میں اس قدر Involve ہو چکے ہیں کہ ان کا مذہب چاہے اسلام ہو، عیسائیت ہویا اپنا کوئی اور مذہب جس سے یہ منسلک ہیں ان کی کچھ پرواہ نہیں وہ اس سے بالکل لاتعلق ہو چکے ہیں۔ اکثریت میں مذہب کے تقدس کا احساس ختم ہو چکا ہے بلکہ ایک خبر فرانس کی شاید پچھلے دنوں میں یہ بھی تھی کہ ہم حق رکھتے ہیں ہم چاہے تو، نعوذباللہ، اللہ تعالیٰ کا بھی کارٹون بنا سکتے ہیں۔ تو یہ تو ان لوگوں کا حال ہو چکا ہے۔ اس لئے اب دیکھ لیں یہ کارٹون بنانے والوں نے جو انتہائی قبیح حرکت کی ہے اور جیسی یہ سوچ رکھتے ہیں اور اسلامی دنیا کا جو ردّ عمل ظاہر ہوا ہے اس پر ان میں سے کئی لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ یہ ردّعمل اسلامی معاشرے اور مغربی سیکولر جمہوریت کے درمیان تصادم ہے حالانکہ اس کا معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب تو ان لوگوں کی اکثریت جیسا کہ مَیں نے کہا اخلاق باختہ ہو چکی ہے۔ آزادی کے نام پر بے حیائیاں اختیار کی جا رہی ہیں، حیا تقریباً ختم ہو چکی ہے۔

بہرحال اس بات پر بھی ان میں سے ہی بعض ایسے لکھنے والے شرفاء ہیں یا انصاف پسند ہیں انہوں نے اس نظریے کو غلط قرار دیا ہے کہ اس ردّ عمل کو اسلام اور مغربی سیکولر جمہوریت کے مقابلے کا نام دیا جائے۔ انگلستان کے ہی ایک کالم لکھنے والے رابرٹ فسک(Robert Fisk) نے کافی انصاف سے کام لیتے ہوئے لکھا ہے۔ ڈنمارک کے ایک صاحب نے لکھا تھا کہ اسلامی معاشرے اور مغربی سیکولرجمہوریت کے درمیان تصادم ہے اس بارے میں انہوں نے لکھا کہ یہ بالکل غلط بات ہے، یہ کوئی تہذیبوں کا یا سیکولرازم کا تصادم نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ آزادی اظہار کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق پیغمبر پر خدا نے براہ راست اپنی تعلیمات نازل کیں وہ زمین پر خدا کے ترجمان ہیں جبکہ یہ (یعنی عیسائی) سمجھتے ہیں، (اب یہ عیسائی لکھنے والا لکھ رہا ہے) کہ انبیاء اور ولی ان کی تعلیمات انسانی حقوق اور آزادیوں کے جدید تصور سے ہم آہنگ نہ ہونے کے سبب تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو گئے ہیں۔ مسلمان مذہب کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں اور صدیوں کے سفر اور تغیرات کے باوجود ان کی یہ سوچ برقرار ہے جبکہ ہم نے مذہب کو عملاً زندگی سے علیحدہ کر دیا ہے۔ اس لئے ہم اب مسیحیت بمقابلہ اسلام نہیں بلکہ مغربی تہذیب بمقابلہ اسلام کی بات کرتے ہیں اور اس بنیاد پر یہ بھی چاہتے ہیں کہ جب ہم اپنے پیغمبروں یا ان کی تعلیمات کا مذاق اڑا سکتے ہیں تو آخر باقی مذاہب کا کیوں نہیں۔

پھر لکھتے ہیں کہ کیا یہ رویہ اتنا ہی بے ساختہ ہے۔ کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ کوئی 12-10برس پہلے ایک فلم Last Temptation of christ ریلیز ہوئی تھی جس میں حضرت عیسیٰؑ کو ایک عورت کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دکھانے پر بہت شور مچا تھا۔ اور پیرس میں کسی نے مشتعل ہو کر ایک سینما کو نذر آتش کر دیا تھا۔ ایک فرانسیسی نوجوان قتل بھی ہوا تھا۔ اس بات کا کیا مطلب ہے۔ ایک طرف تو ہم میں سے بھی بعض لوگ مذہبی جذبات کی توہین برداشت نہیں کر پاتے مگر ہم یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ مسلمان آزادی اظہار کے ناطے گھٹیا ذوق کے کارٹونوں کی اشاعت پر برداشت سے کام لیں۔ کیا یہ درست رویہ ہے۔ جب مغربی رہنما یہ کہتے ہیں کہ وہ اخبارات اورآزادی اظہار پر قدغن نہیں لگا سکتے تو مجھے ہنسی آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر متنازعہ کارٹونوں میں پیغمبر اسلام کی بجائے بم والے ڈیزائن کی ٹوپی کسی یہودی رِبّی (Rabbi)کے سر پر دکھائی جاتی تو کیا شور نہ مچتا کہ اس سے اینٹی سمٹ ازم(Anti Semitism) کی بو آتی ہے یعنی یہودیوں کے خلاف مخالفت کی بو آتی ہے اور یہودیوں کی مذہبی دلآزاری کی جا رہی ہے۔ اگر آزادی اظہار کی حرمت کا ہی معاملہ ہے تو پھر فرانس، جرمنی یا آسٹریا میں اس بات کو چیلنج کرنا قانوناً کیوں جرم ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں یہودیوں کی نسل کشی نہیں کی گئی۔ ان کارٹونوں کی اشاعت سے اگر ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوئی جو مسلمانوں میں مذہبی اصلاح یا اعتدال پسندی کے حامی ہیں اور روشن خیالی کے مباحث کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو اس پر بہت کم لوگوں کو اعتراض ہوتا۔ لیکن ان کارٹونوں سے سوائے اس کے کیا پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام ایک پرتشدد مذہب ہے۔ ان کارٹونوں نے سوائے چہار جانب اشتعال پھیلانے کے اور کیا مثبت اقدام کیا ہے۔

(روزنامہ جنگ لندن۔ 7؍ فروری 2006ء صفحہ1، 3)

بہرحال کچھ رویہ بھی مسلمانوں کا تھا جس کی وجہ سے ایسی حرکت کا موقع ملا، لیکن ان لوگوں میں شرفاء بھی ہیں جو حقائق بیان کرنا جانتے ہیں۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button