یادِ رفتگاں

میرے والد محترم چودھری عبدالحق صاحب (قسط اوّل)

(رانا مشہود احمد۔ مربی سلسلہ، یوکے)

(مرحوم کی اپنی یادداشت سے قبولِ احمدیت نیز دیگر ایمان افروز واقعات)

خاکسار اس مضمون کے شروع میں اپنے محترم والدین کا مختصر تعارف قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔

خاکسار کے والد مکرم چودھری عبدالحق صاحب، مکرم چودھری دین محمد صاحب اور محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہ کے ہاں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کی قوم رانا راجپوت، پھلروان تھی اور آپ پنڈی بھاگو، تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ سے تعلق رکھتے تھے جبکہ والدہ محترمہ کا نام صغریٰ بیگم صاحبہ تھا جو کہ مکرم رانا عبداللہ خان صاحب پٹواری اور محترمہ عائشہ بی بی صاحبہ آف مالو پتیال تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ کی بیٹی تھیں۔ خاکسار کے والد محترم اپنے قبول ِ احمدیت، مخالفت، حالاتِ زندگی اور خداتعالیٰ کے افضال کا ذکر اپنی یادداشت تحریر شدہ جولائی 1995ء میں یوں بیان فرماتے ہیں :

’یہ 1923ء کی بات ہے جب خاکسار کی عمر تقریباًنو سال کی تھی اور اپنے نانا جان مکرم بوٹے خان صاحب جو کہ بہت بڑے بزرگ نیک عالم تھے، کے پاس بیٹھا تھا۔ باتوں باتوں میں حضرت امام مہدیؑ کے متعلق بات چل پڑی، نانا جان کہنے لگے کہ جب حضرت امام مہدیؑ تشریف لائیں گے تو بہت کم لوگوں کو نظر آئیں گے۔ میں نے کہا میاں جی!جب سامنے چلتے پھرتے ہوں گے پھر بھی نظر نہیں آئیں گے؟جواب دیا نہیں۔ میں نے اسی وقت دعا کی کہ یا اللہ کبھی مجھے اما م مہدیؑ کا دیدار کرا دے۔

میرے والد صاحب زمیندارتھے۔ تمام خاندان ناخواندہ تھا۔ مجھے صرف چھ جماعتیں پڑھنے کا موقع ملا اس لیے کچھ پڑھ لکھ لیا کرتا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میری عمر بیس سال تھی، ہمارے گائوں میں ہر سال تقریباً چھ ماہ بعد ایک پیر آیا کرتا تھا۔ تمام گائوں ان کا مرید تھا۔ لوگ ان کی بہت خدمت کرتے تھے۔ پیر صاحب ایک دَیرا (جو کہ پہلے وقتوں میں مشترکہ جگہ لوگوں کے بیٹھنے کے لیے چھوڑی ہوتی تھی )میں رہتے تھے۔ چونکہ وہ ہمارا بھی پیر تھا اس لیے میرا اکثر وقت ان کے پاس گزرتا تھا اور رات کو بھی ان کے پیار کی وجہ سے ان کی مجلس میں بیٹھا رہتا تھا۔ اس وقت ہمارے گائوں میں تقریباً چھ یا سات احمدی تھے۔ جب میں پیر صاحب کے پاس سے اٹھ کر گھر واپس آتا تو راستے میں ایک احمدی اللہ رکھا صاحب کشمیری بیٹھے ہوتے تھے، آپ مجھے اکثر آواز دے کر بلاتے، میں کبھی ان کی بات سن لیتا اور کبھی ان سنی کر دیتا۔ پیر صاحب کے پاس محمدیہ پاکٹ بک کے نام سے ایک کتاب تھی جس میں صرف احمدیت کے خلاف اعتراض ہی اعتراض ہوتے تھے۔ ان اعتراضات کو پڑھ کر میرا دل اتنا سخت ہو گیا تھا کہ میں احمدیت کا نام بھی سننا گوارا نہیں کرتا تھا۔ لوگ احمدیوں کو مرزائی کے نام سے پکارتے تھے۔ میں کبھی کبھی ان مذکورہ بالا احمدی صاحب کے پاس بھی چلاجاتا تھا۔ آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ نے کچھ نفرت میرے دل سے دور کرنی شروع کی۔ چونکہ لوگ عام طور پر یہ بھی کہتے تھے کہ ان لوگوں نے قادیان میں دوزخ اور بہشت بنائی ہوئی ہے اور وہاں حوریں آتی ہیں ان باتوں سے اور تو دل میں کچھ خاص نہیں آیا صرف یہی بات ٹھہر گئی کہ اگلی دنیا سے پہلے وہاں چل کر ہی دوزخ اور بہشت کا نظارہ کر لیتے ہیں۔ خیر اپنے دل میں یہ پختہ ارادہ کر لیا کہ جب یہ احمدی جلسے پر جائیں گے تو ان کے ساتھ چلا جائوں گا۔

وقت گزرتا گیا اور جلسے کے دن قریب آگئے۔ اس وقت تک ہمارے ننھیال اور ددھیال میں کوئی فرد بھی احمدی نہ تھا۔ والد صاحب اور بھائی تو بالکل ان پڑھ تھے۔ بڑے بھائی چوہدری محمد یوسف اور دوسرے چوہدری محمد ایوب تھے۔ دونوں بھائی عمر میں مجھ سے بڑے تھے۔ بڑے بھائی یوسف صاحب تو بہت با رعب اور دلیر شخص تھے اور لوگوں میں بہت با وقار جانے جاتے تھے۔

ہوا کچھ یوں کہ جس دن جلسہ پر جانا تھا اس دن بڑے بھائی نے مجھے بیلوں کی جوڑی جو کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے لے جائی جا رہی تھی، ان کو ڈیرے پر لے جانے کے لیے کہا تو یہ عاجز نہایت پریشان ہوا کہ اب کیا کروں گا۔ اگر آج رہ گیا تو پھر خدا جانے کب موقع ملے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ راستے میں بڑے بھائی مجھ سے کہنے لگے کہ آپ ان بیلوں کو لے چلیں میں گھر سے ان کے گھنگرو لے آئوں۔ وہ گھر چلے گئے تو میں نے موقع غنیمت جانا، بیلوں کو ہانکنے والی چھڑی وہیں پھینکی اور مغرب کی سمت گائوں کے ایک احمدی کے پاس پہنچا اور کہا کہ چلو جلسہ پر چلیں۔ انہوں نے فوری طور پر چلنے سے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ ابھی نہیں، کھانا وغیرہ کھا کر جائیں گے۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ پھر تو میں نہیں جا سکوں گا اور پھر عرض کی کہ ابھی میں چلتا ہوں اور تین چار میل کے فاصلے پر ایک گائوں گڈگور ہے وہاں پہنچ کر آپ کا انتظار کرتا ہوں۔

گڈگور میں بیٹھے بیٹھے دن کے بارہ بج گئے لیکن گائوں سے کوئی نہ آیا۔ میں بہت پریشان تھا، اٹھا اور چونڈہ چلا گیا۔ چونکہ میں بنا کسی تیاری کے آیا تھا اور میری حالت وہی تھی جو ہل چلانے والوں کی ہوتی ہے، اور بھوک نے بھی ستایا ہوا تھا۔ اسی دوران عصر کا وقت ہو گیا، پریشانی اور زیادہ بڑھ گئی تھی کیونکہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب نہ تو واپس جا سکتا ہوں اور نہ ہی آگے جانے کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ خیر چار پانچ آدمی اسٹیشن کی طرف جاتے ہوئے نظر آہی گئے ( یہ وہی تھے جن کے ساتھ جانا تھا اور جنہوں نے ساتھ لے جانے کا عدہ کیا تھا )میں نے ان سے کہا کہ میرے ساتھ کیا ہوا وعدہ تو آپ نے خوب پورا کیا۔ بہر حال ان کے ساتھ ہو لیا۔ ریل رات کو قادیان پہنچی۔ صبح جا کر دوزخ اور بہشت کا معائنہ کیا، پھرجلسہ سنا تو بغیر کسی کے کہنے یا سمجھانے کے اللہ تعالیٰ نے خود ہی اپنے فضل سے آنکھیں کھول دیں اور 1941ء کے بابرکت سال کے آخری لمحات میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے دست ِمبارک میں ہاتھ رکھ کر بیعت کے کلمات دہرائے اور وہ مبارک دن نصیب ہوا۔

مخالفت اور بائیکاٹ

قادیان قیام کے دوران ہی میرے گائوں والوں کو جب میری بیعت کاعلم ہو ا تو ان کا کہنا تھا کہ میں نے بیعت کیوں کی ؟واپس جا کر گھر والے سختی کریں گے تو آپ احمدیت چھوڑ دیں گے لیکن میں نے جواب دیا کہ جو ہوتا ہے ہو جائے میں نے تو بیعت کر لی ہے۔ لیکن جلسے کے بعد قدرتی طور پر واپس گھر جانے کا خوف پید اہوا تو خیال آیا کہ چونکہ آج کل قادیان میں فوج میں بھرتی ہو رہی ہے اور میں بھی یہیں بھرتی ہو جاتا ہوں، اس مقصد کے لیے میں نے چوہدری نبی احمد صاحب موضع رائے پور والے کو ساتھ لیا اورعلی الصبح ہم وہاں پہنچ گئے۔ چونکہ بھرتی کرنے والے صاحب تشریف نہیں لائے ہوئے تھے سو ہم واپسی پر بورڈنگ چلے گئے۔

ادھر جب گائوں والوں کو پتہ چلا تو وہ چوہدری نبی احمد صاحب کو کوسنے لگے کہ یہ تم نے کیا کیا ہے ؟ہمارا لڑکا کہاں چھوڑ آئے ہو ؟کچھ عرصہ بعد سمجھا بجھا کر مجھے واپس گائوں لے آئے۔ جب گھر آیا مار تو نہ پڑی لیکن گالیاں اور دھمکیاں زوروشور سے شروع ہو گئیں۔ وقت گزرتا گیا، پہلے تو صرف کام کے ساتھ واسطہ تھا پھر تبادلہ خیال شروع ہوااورشدید مخالفت شروع ہوگئی اور مجھے علیحدہ کر دیا گیا۔ میری شادی ہو چکی تھی لیکن ابھی کوئی اولاد نہیں تھی۔

میں چونکہ نہ کھیتی باڑی اور نہ ہی کوئی اور ہنر جانتا تھا میرے باپ اور بھائیوں نے سات سال تک بائیکاٹ کیے رکھا اور خیال میں تھے کہ جب تکلیفیں آئیں گی تو خود بخود احمدیت چھوڑ کر واپس آجائے گا۔ ایک دو سال اسی طرح بہت مشکل میں گزرے۔ لیکن الحمدللہ صرف اور صرف خدا کی ذات نے ہمیشہ اپنی رحمت سے تھامے رکھا او رہر مشکل میں میری مدد فرمائی۔ میری اہلیہ نے حالانکہ بیعت بعد میں کی تھی لیکن انہوں نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا جبکہ باقی رشتہ دار وں نے کنارہ کر لیا تھا۔

ہمارے ساتھ کا گائوں جو سارے کا سارا ہی ہندوئوں اور برہمنوں کا تھا، وہاں میرا ایک کھتری دوست تھا۔ اس کے ساتھ اپنی مشکلات کا ذکر کیا تو اس نے مشورہ دیا کہ دکان بنا لو۔ مجھے تجویز پسند آئی اور گھر آکر اپنی جگہ میں ہی دکان تعمیر کرنے لگا لیکن گھر والوں نے صرف اور صرف احمدیت کی مخالفت کی وجہ سے دکان تعمیر نہیں کرنے دی، حالانکہ اور کوئی تنازعہ نہیں تھا۔ ناچار دکان کا ارادہ فی الحال ترک کر دیا۔ اگلے سال دوبارہ کوشش کی تو پھر کوئی روک نہیں ڈالی گئی اور گارے اور مٹی سے ایک کمرہ تیار کیا۔ والدین کی طرف سے ایک مویشی حصہ میں ملا تھاجوبیالیس روپے کا فروخت ہو ا۔ اس رقم سے دکان کے لیے سودا وغیرہ لایا اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تو میرے سب حالات کو جانتا ہے، مجھے وہ کام دے جس سے دنیا کا بھی گزارہ ہو اور دین کی خدمت بھی کروں۔

حفاظت مرکز

تقسیم ہند کے موقع پر 1947ء میں جب محترم چوہدری عبدالعزیز صاحب جو ٹھروہ(قریبی گائوں )سے پٹوار کے سلسلے میں ہمارے گائوں تشریف لائے ہوئے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے قادیان کی حفاظت کے لیے نوجوانوں کو اپنے نام پیش کرنے کی تحریک کی ہے۔ اس وقت عام ملکی حالات کافی خراب ہو رہے تھے سو اعلان سنتے ہی اس عاجز کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے توفیق دی اور میں نے اپنا نام پیش کر دیا۔ چونکہ گھر میں پہلے سے ہی علیحدہ تھا لہٰذا کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہ تھی کہ کوئی روک کا سبب بنتا۔ ایک اور شخص نے بھی اپنا نام پیش کیا لیکن قادیان میں چند دن رہ کر بیمار ہونے کی صورت میں واپس بھیج دیا گیا۔ جب یہ عاجز قادیان پہنچا تو تیسرے دن ریل گاڑیاں چلنی بند ہو گئیں اور دن بدن حالات خراب ہونے شروع ہو گئے۔ خدام بھی ماشاءاللہ کافی تعداد میں گئے ہوئے تھے جو کہ شروع میں قادیان سے باہر احمدی گائوں میں حملہ آور سکھوں کا مقابلہ کرتے اور احمدیوں کی حفاظت کرتے تھے، پھر باہر کے گائوں میں سکھوں کی حکومت نے غلبہ پا لیا تو قادیان میں جو دور اور نزدیک کوٹھیاں تھیں ان کی حفاظت کی کوشش کی گئی، لیکن ہندو ظالموں نے کوئی پیش نہ جانے دی اور شہر خالی کروا لیا گیا۔ قادیان کے مکین قصرِخلافت اور کالج کے ہاسٹل میں سمٹ کر رہ گئے۔

حالات ایسی صورت اختیار کر گئے تھے کہ قبل ازیں ہمارا جہاز چٹھی کے ذریعے حالات کے متعلق معلومات لاتا رہتا تھالیکن پھر ہندوؤں نے نیچے سے جہاز کو گولیوں کا نشانہ بناناشروع کر دیا اور خبر رسانی کا سلسلہ بند ہو گیا، حتیٰ کہ اس حکومت نے ہمارا کھاناپینا بھی بند کر دیا۔ ہمارے پاس اس وقت صرف گندم ہی وافر رہ گئی تھی لیکن اس کی پسوائی بہت مشکل ہو گئی تھی کیونکہ باہر کرفیو لگا دیاگیا تھا۔ کسی کا بھی باہر نکلنا جان کے لیے خطرہ سے خالی نہ تھا۔ یہ سلسلہ سات دن تک جاری رہا۔

جن دو جگہوں پر قصرِخلافت اورہاسٹل میں تمام بچے مرد اور عورتیں جمع ہو گئے تھے وہاں کھاناپینا تو در کنار، اتنی جگہ بھی نہیں تھی کہ تِل پھینکا نیچے گرے۔ لیکن قضائے حاجت کا کیا انتظام کیا جائے ؟اس مقصد کے لیے بورڈنگ کے صحن میں کھائیاں نکالی گئیں جن کے اوپر لکڑی کے تختے رکھے گئے اس طرح بچوں کا انتظام کیا گیا جبکہ خواتین کے لیے بورڈنگ کی دیواروں کے ساتھ ساتھ کھائیاں بنائی گئیں اور صفوں کا پردہ بنایا گیا اس طرح مردوں، عورتوں اور بچوں کاعلیحدہ علیحدہ انتظام کیا گیا۔

کھانے کے لیے آٹابھی نہیں تھا صرف گندم ہی ابال ابال کر کھائی جاتی رہی۔ پانی کے لیے صرف بورڈنگ کا ایک نلکا تھا جو کہ اتنے زیادہ افراد کے لیے انتہائی نا کافی تھا، حتیٰ کہ گندم ابالنے کے لیے بھی پانی نہ ملتا تھااور پھر دشمن کا ہر وقت خطرہ رہتا تھا کیونکہ ہندوئوں نے درخواستیں دی ہوئی تھیں کہ ہمیں احمدیوں سے خطرہ ہے ان کے پاس بہت اسلحہ ہے۔ حالانکہ ہم ایک چھڑی تک پکڑ کر پھرنے کے مجاز نہیں تھے اور وہ لوگ ٹولیاں بنا بنا کر، با ہتھیار قادیان میں داخل ہوتے تھے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہی تھا کہ اس نے ان لوگوں کے دلوں میں جماعت کا اتنارعب ڈالا ہوا تھا۔ اس حکومت نے سکھ اور گورکھا ملٹری کی چھائونی بنا دی تھی ہمیں توزندہ واپس آنے کی کوئی امید نہیں تھی۔

انہی حالات میں ایک دن حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ جو اس وقت بالکل نوجوان تھے، ہم جوانوں کو فرمانے لگے کہ آپ چھاتیاں نکال کر پھریں، گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اس حالتِ زار کے ایام میں ہم سب نمازِ مغرب اور نمازِ تہجد کے وقت انتہائی گریہ و زاری سے دعائیں کیا کرتے تھے۔ یہ محض اس خدا کا فضل اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی دعائیں ہی تھیں کہ اس ذات ِباری نے ہمیں ہر خطرہ سے محفوظ رکھا۔

ان دنوں باہر سے بہت سے غیر احمدی قادیان آ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ مغرب کے وقت حکومت کی طرف سے ڈھول بجایا جاتا کہ چلو پاکستان جانے والا قافلہ صبح جا رہا ہے۔ در پردہ لوگو ں کو پیدل جانے سے منع بھی کیا جاتا تھا، لیکن وہ پھر بھی چل پڑتے تھے، راستے میں لٹیرے لوٹ مار بھی کرتے تھے، اسی طرح روزانہ یہی کام کرتے تھے۔ یہ لوگ گھروں سے اپنا سامان اور مال مویشی وغیرہ بھی لے آتے تھے، جب قافلہ چل پڑتا تو لوگ گھروں سے لایا ہوا سامان وہاں چھوڑ کر چلے جاتے اور پیچھے رہ جانے والے لوگ وہ سامان لے آتے۔ جس بات کا ذکر کرنا مقصود ہے وہ یہ کہ سات دن کے بعد جو مہاجر چکیاں چھوڑ کر چلے گئے ہم وہ چکی لا کر آٹا پیستے رہے جو ہمیں ایک نئی چیز نظر آتی تھی۔ چونکہ اتنے دن اُبلی ہوئی گندم کھاتے ہوئے گزرے تھے اس لیے اس روٹی کا بہت مزہ آتا تھا۔ اس کے بعد جماعتی انتظام کے تحت پاکستان ملٹری کے ٹرک آنے شروع ہو گئے تھے۔ رفتہ رفتہ افراد جماعت کو بحفاظت پاکستان لایا گیا۔ جب ہندو ہندوستان چلے گئے اور مسلمان پاکستان آگئے تب ہم واپس اپنے گھروں کو لوٹے۔ حالات چونکہ کافی مایوس کن تھے۔ گھر والوں کو میرے متعلق یہی معلوم تھاکہ اب ختم ہو گیا ہو گا، لیکن یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم کی وجہ سے تھا۔ اس میں فخر کی کوئی بات نہیں میں تو ناکا رہ، بے عقل، بے ہتھڑ، کوئی خوبی نہیں۔ یہ عاجز ایک کمزور اور گنہگار بندہ تھا اوراب بھی ہوں اور یہ بھی اسی کا فضل ہے۔

تبلیغ، مخالفت اور خاندان کے دیگر افراد کا قبولِ احمدیت

اس کے بعد مخالفت کا ایک اور دور شروع ہوا، اللہ تعالیٰ نے اس میدان میں بھی اپنے فضل سے فتح عطا فرمائی۔ سب سے پہلے بڑے دونوں بھائی احمدی ہوئے، پھر چچا کے چھ بیٹے، بعد ازاں محترم والد صاحب اور چچا جان احمدیت کے نور سے منور ہوئے۔ جہاں تک ماموں جان، جو کہ خاکسار کے سسر بھی تھے، کا تعلق ہے وہ ایک پٹواری تھے، وہ بات سننا تو درکنار ہماری کتاب کو ہاتھ بلکہ انگلی لگانے سے بھی پرہیز کرتے تھے۔ خاکسار نے ہمت نہیں ہاری، نہ مایوس ہوااور تبلیغ جاری رکھی کافی سال گزر گئے۔ ماموں جان کچھ تبلیغ سنتے اور بہت تنگ بھی پڑتے تھے اور کہتے کہ تجھے تبلیغ کے لیے میں ہی ملتا ہوں ؟ا یتھے آڈا لانا چھڈ دے، اوتھے جانا تاں نہیں چھڈدا۔ (یہاں مقابلہ بازی چھوڑدو وہاں جانا تو نہیں چھوڑتے ہو)آخر ایک دن کہنے لگے کہ میں اس لیے احمدی نہیں ہوتا کہ سارا گائوں غیر احمدی ہے، میں احمدی ہونے کی حالت میں مر گیا تو گائوں کے لوگوں نے دفن بھی نہیں کرنے دینا اور میرے بیٹوں کی لڑائی ہو گی۔ کافی دیر اس بات پر ڈٹے رہے۔ پھر اپنے بیٹے صوفی نذیر احمد کے پاس کراچی گئے جوجلسہ سالانہ پر انہیں وہاں سے اپنے ساتھ ربوہ لے آئے۔ اُنہیں دنوں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ہاتھ پر بیعت کی اور دو چار دن بیمار رہ کر وہیں فضل ِعمر ہسپتال میں وفات پا گئے

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

اور اپنے گائوں مالو پتیال میں ہی تدفین ہوئی۔

میرے ماموں جان کے چھ بیٹے ہیں جو (بوقتِ تحریر) اللہ تعالیٰ کے فضل سے حیات ہیں، ان میں سے تین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اہالیان کے ساتھ احمدیت قبول کرنے کی سعادت بخشی جن کی تعداد تقریباً سولہ یا سترہ ہے۔

چند تبلیغی واقعات

تبلیغی شغل بفضلہ تعالیٰ ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ ایک دفعہ میں اور میرادوست حسن دین، موضع سپوال جہاں ایک بڑا بدمعاش بنام فروز جو جموں کی بارڈر ریاست کراس کر کے مال لاتا تھا، وہاں چلے گئے۔ رات کو گائوں کے سب لوگ اکٹھے ہو گئے اور ایک مولوی کو لے آئے۔ ان سے بات چیت شروع ہو گئی اور اس نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے متعلق غیر مناسب الفاظ استعمال کرنے شروع کر دیے۔ خاکسار نے بڑے حوصلے سے ان کو سمجھایا، وہاں موجود لوگوں نے بھی برا منایا کہ یہ طریق نامناسب ہے۔ لیکن ان مولوی صاحب کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اُس بد معاش نے بھی جوش میں کچھ باتیں کیں۔ میں نے انہیں آرام سے اخلاقی طور پر سمجھایا۔ چونکہ ان سے کوئی جواب نہیں بن پڑ رہا تھا سو انہوں نے ایک ضعیف العمر مولوی کو بلوا بھیجا کہ وہ ہمارے ساتھ بات کرے گا، لیکن پتہ چلا کہ وہ اس وقت وہاں موجود نہیں ہے۔ ان لوگوں کو بہت افسوس ہوا۔ بعد میں پتہ چلا کہ ان لوگوں نے اس کو بلوا لیا ہے۔ چونکہ وہ کافی عمر رسیدہ تھے، میں نے کہا مولوی صاحب !آپ بزرگ آدمی ہیں کیا آپ کو حضرت مرزاصاحب کے متعلق کچھ واقعات معلوم ہیں اور دیکھے بھی ہو ں گے ؟انہوں نے بتایاکہ ہاں میں نے انہیں دیکھا ہے وہ بہت بزرگ شخصیت تھے، نہایت نیک سیرت تھے، بلکہ انہیں اگر مجدد بھی کہہ لیاجائے تو درست ہے لیکن نبی نہیں۔ خاکسار کتاب امام المتقین ساتھ لے گیا تھا اس میں سے کچھ سمجھایا۔ باقی لوگ جو تماشا دیکھنا چاہتے تھے وہ مبہوت ہو گئے۔ بعدمیں وہی بدمعاش کہنے لگا کہ آپ میں بہت صبر اور اخلاق ہے۔

جب میں وقفِ عارضی کے سلسلے میں بکھوبھٹی گیا ہوا تھا، ایک گائوں مست پور جو راستے میں آتا تھا، میں روزانہ وہاں چلا جاتا۔ وہاں ایک ڈاکٹر نذیر احمد صاحب تھے اور ملوانہ ذات سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے ساتھ تبادلہ خیالات ہوتا رہتا تھا جو کہ اجرائے نبوت پر ہوتا تھا۔ کام تو لمبا ہوتا ہے مگر مختصر یہ کہ آ خر میں کہنے لگاکہ پیغمبر آسکتا ہے نبی نہیں۔ قریب ہی دو تین آدمی تھے میں نے انہیں کہا کہ آپ گواہ رہنا کہ ڈاکٹر صاحب نے تسلیم کر لیا ہے کہ پیغمبر آسکتا ہے، پھر آگے چلیں گے۔ ایک دفعہ پھر ان کے ساتھ ملاقات ہوئی، پھر ہم نے خواہش کی کہ نبی اور پیغمبر میں کیا فرق ہے ؟ڈاکٹر صاحب ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے کہنے لگے کہ آپ کے پاس زیادہ علم ہے، ہم نہیں بتا سکتے۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب یہ بات آپ نے کہاں سے لی ہے کہ ہمارے جد امجد عالم ہیں، حالانکہ ہمارے باپ دادا تو ساری عمر زمیندارہ کرتے رہے، ہمارے پاس علم کہاں سے آگیا ہے۔

ایک گائوں قادر آباد چودھریاں وقف عارضی پر جانا ہوا، راستہ میں ایک گائوں چک لالہ آتا تھا، وہاں تبلیغی سلسلہ شروع ہوا۔ یہاں ایک بزرگ مکرم رحمت علی صاحب بڑے عالم تھے۔ تمام عمر وعظ و نصیحت میں گزری تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے آخر عمر میں احمدیت قبول کرنے کی توفیق دے دی۔ پھر وہ اتنا عاشق ہو گئے کہ روتے تھے کہ ساری عمر گمراہی میں گزار دی اور مخالفت کرتا رہا۔ پھر اللہ نے زیارت قادیان کا موقع بھی عطا کیا اور آپ اپنے پانچ بچوں سمیت احمدیت میں داخل ہو گئے۔ الحمدللہ۔

خدمت ِدین کی توفیق

جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ میں دعا کیا کرتا تھا کہ اے اللہ تعالیٰ !مجھے وہ کام عطا فرما جس میں اپنا وقت بھی پاس ہو اور دین کی خدمت بھی کر سکوں۔ خدا تعالیٰ نے ایسا ہی کیا اور دکان میں برکت ڈال دی۔ ان دنوں ہماری جماعت کے جو چند افراد احمدی تھے وہ رائے پور کی جماعت کے ساتھ تھے اور چندہ وغیرہ بھی وہیں دیا کرتے تھے۔ مکرم چوہدری عبدالعزیز صاحب مرحومؒ کا پٹواری ہونے اور احمدیت کی وجہ سے گائوں میں آنا جانا تھا، انہوں نے تحریک کی کہ رائے پور کی جماعت سے یہ جماعت علیحدہ کر لیتے ہیں۔ حالانکہ چوہدری نصراللہ خان جیسے پڑھے لکھے اور سمجھدار موجود تھے انہوں نے اس عاجز ان پڑھ کو سیکرٹری مال مقرر کر دیا اور چوہدری غلام حیدر صاحب کو پریذیڈنٹ بنا دیا۔

اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیاکہ1949ءسے لے کر 1973ء تک متواتر سیکرٹری مال کی حیثیت سے کام کرنے کے ساتھ ساتھ تحریک جدید اور ذیلی تنظیم کا کام بھی چلتا رہا۔ شروع میں خدام الاحمدیہ میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے تمام کام اپنے وقت کے لحاظ سے انجام لانے کی توفیق دیتا رہا۔ مکرم چوہدری محمد اسلم صاحب چہور والے امیر ضلع مقرر ہوئے تو خاکسار کو ان کی نمائندگی کرنے کی بھی توفیق ملی۔

چندہ کی وصولی اور ادائیگی کا منفرد انداز

جب زمینداروں کے گھرموسم کے مطابق فصل آتی تو خاکسار ایک بوری کندھوں پر رکھ لیتا اور ان احمدیوں کے گھر گھر جا کر چندہ وصول کرتا اور ایک مخلص احمدی مکرم محمد اقبال بٹ صاحب کو ساتھ لیتا اور ہم اکٹھی کی ہوئی گندم اپنے سروں پر اُٹھا کر بیچ آتے اور چندے کے لیے رقم تیار کرتے۔ پھر تحریک جدید کاچندہ شروع ہو جاتا۔

لجنہ کے چندہ کی وصولی کا یہ طریق تھا کہ اپنے گھر میں اور دوسرے احمدی گھرانوں کی عورتوں کو بھی کہہ دیا ہوا تھاکہ جب آٹا گوندھیں ایک مٹھی آٹا نکال کر کسی برتن میں ڈال دیا کریں۔ ایک ہفتہ میں جو اکٹھا ہوتا تھاوہ اکٹھا کر کے بیچ دیا کرتے جس سے ان کا چندہ اور باقی لجنہ کی ضرورتیں پوری ہوتی رہتی تھیں۔

اس طرح یہ سلسلہ کافی سال جاری رہا اور ایک لائبریری بھی رکھی ہوئی تھی۔ پھر جنگ 1965ء کی وجہ سے سیالکوٹ شہر کبوتراں والی مسجد نقل مکانی کرنی پڑی۔ دکان کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا، کچھ پریشانی بھی اُٹھانی پڑی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہر مشکل میں میری مدد فرمائی اور جب سے میں احمدی ہوا ہوں دلی طور پر پُر سکون ہوں الحمدللہ۔ اس نعمت کا میں جتنا بھی شکر کروں کم ہے، یہ سب اس خدائے رحمان کا فضل ہے ورنہ یہ عاجز کہاں اس لائق تھا۔

خدمت بطور خادم مسجد

1965ءمیں ہمارا علاقہ ہندوستان کے قبضہ میں آگیا۔ حالات مخدوش ہونے کی وجہ سے اس عاجز کو سیالکوٹ کبوتراں والی مسجد میں خدمت کی توفیق ملی۔ خادم مسجد کی حیثیت میں رہتے ہوئے حلقہ مرکزیہ کی جماعت کا محصل یعنی سیکرٹری مال کی حیثیت میں کام کیا، اور ساتھ ساتھ سیالکوٹ بھر میں تمام احمدی گھرانوں کے بچوں کو قرآن کریم بھی پڑھاتا رہا۔میرے وہاں عرصہ قیام پذیری میں 45بچوں کو قرآن کریم ناظرہ کا پہلا دَور مکمل کرنے کی توفیق ملی جس میں جوان بچے اور بچیاں بھی شامل ہیں، اس کے علاوہ کچھ بچے ابھی قاعدہ یسر ناالقرآن پڑھ رہے تھے۔ پھر میں واپس اپنے گھر آگیا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہو ا، میں اس لائق نہیں تھا کہ اتنی محنت سے کام کرتا۔ اخلاقی لحاظ سے بفضلہ تعالیٰ، بچے، بچیاں، مرد اور عورتیں اب بھی مجھے ایسے یاد کرتے ہیں جیسے کوئی اپنے عزیز کو یاد کرتا ہے۔ الحمدللہ اس خدا نے مجھ کمزور سے کام لیا، وہی تعریفوں کے لائق ہے۔ بندہ میں تو کوئی خوبی نہیں یہ تو عاجز ہے۔

بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو اتنی ترقی دی کہ پہلے تو ایک مسجد میں احمدی اور غیر احمدی اکٹھے ہی نماز پڑھ لیا کرتے تھے، پھراپنی ایک چھوٹی سی کچی مسجد تعمیر کی ۔بعد ازاں دَیرا(گائوں کے لوگوں کے بیٹھنے کے لیے مشترکہ جگہ تھی)کی جگہ بھی مسجد میں شامل کر لی گئی۔ اب یہاں اللہ کے فضل سے احمدیوں کے تقریبا ًساٹھ ستر گھر بلکہ ا س سے بھی زیادہ ہوں گے۔ اب اس مسجد میں بغیر لائوڈ سپیکر کے پانچ وقت اذان ہوتی ہے۔ مسجد بہت کشادہ اور خوبصورت بھی ہے۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔ ‘

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button