متفرق

خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہی جنت نظیر گھر کی ضمانت ہے

(آصفہ عطاء الحلیم۔ جرمنی)

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں میاں اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ

ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ(البقرہ:188)

وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس۔ ہو پھر اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں فرمایا کہ

وَلِبَاسُ الْتَّقْوٰ ی ذٰلِکَ خَیْرٌ (الاعراف:27)

یعنی لباس تقویٰ سب سے بہتر ہے۔ یعنی جس طرح ظاہری لباس انسان کی زینت اور خوبصورتی کو بڑھاتا ہے اس طرح باطنی لباس جو تقویٰ کے زیور سے سجا ہو انسان کی روحانی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ اور یہی لباسِ تقویٰ میاں بیوی کے رشتے کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے۔اس لیے نکاح کے موقع پر جو آیات تلاوت کی جاتی ہیں ان میں ہر حکم کے ساتھ تقویٰ پر قائم رہنے کا حکم ہے۔ تقویٰ کیا ہے؟ یہی ہے کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھنا۔ خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے زندگی گزارنا اور ہر اس کام سے اپنے آپ کو بچانا جو ہمیں اللہ تعالیٰ سے دور لے کر جانے والا ہو۔ پس جب ایک مومن ان سب باتوں پر عمل کرتے ہوئے رشتوں کو قائم کرتا ہے اور گھر کو جنت بنانے کی کوشش کرتا ہے تو ممکن ہی نہیں کہ وہ اس میں کامیاب نہ ہو۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارے میں فرماتے ہیں :

’’نکاح بھی ایک اطاعت ہوتی ہے۔ …میاں بیوی کی اطاعت کرے اور بیوی میاں کی اطاعت کرے کہ یہ خدا کا حکم ہے تو ہمیشہ نتیجہ اچھا ہوتا ہے۔ بیسیوں باتیں ایسی ہیں جن میں خاوند کی اطاعت کرنی پڑتی ہے۔ کوئی خاوند نہیں جو بیوی کو نہ مانے اور کوئی بیوی نہیں جسے کئی باتیں اپنے خاوند کی ماننی پڑیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کئی زور سے منواتے ہیں۔ اور کئی محبت سے مگر چاہے وہ غلط طریق سے منوائیں یا صحیح طریق سے انہیں ایک دوسرے کی اطاعت کرنی پڑتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک دوسرے کی اطاعت کی جائے۔ اور ایک دوسرے کو محض خدا تعالیٰ کے لئے خوش رکھنے کی کوشش کی جائے تو نتیجہ اچھا پیدا ہوگا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص خدا کی رضا کے لئے کام کرے، اس کے احکام پر عمل کرے اور پھر اُسے ایسا دکھ پہنچے جو اسے تباہ کردے۔‘‘

(خطبات محمود جلد سوم صفحہ 281)

پس آج کے اس دور میں یہ نقطہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں قوت برداشت کی کمی، غصہ، بے جا مطالبے گھروں کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہاں اگر ایک مرد اور عورت کا اپنے اللہ کے ساتھ سچا تعلق ہوگا تووہ ان معمولی باتوں کی خاطر اپنے محبوب حقیقی کی ناراضگی مول نہیں لیں گے۔ چھوٹی چھوٹی ناچاقیاں جو ہر گھر میں ہو جاتی ہیں لیکن اگر یہ سوچ ہو کہ میرے اس عمل سے میرا خدا مجھ سے ناراض ہو جائے گا تو بات کبھی آگے نہ بڑھے۔ بلکہ اگر میاں بیوی اور ان سے جڑے تمام رشتے اپنے فرائض اس لیے خوش اسلوبی سے سر انجام دیں کہ یہ باعثِ ثواب ہے تو گھر جنت کا نمونہ بن سکتا ہے۔

ہمارے پیارے اما م حضرت خلیفۃ المسیح الخامس فرماتے ہیں:

’’حدیث میں آتا ہے کہ خاوند کو چاہئے کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بیوی کے منہ میں لقمہ اگر ڈالتا ہے تو اس کا بھی ثواب ہے۔ اب اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ صرف لقمہ ڈالنا بلکہ بیوی بچوں کی پرورش ہے، ان کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ ایک مرد کا فرض ہے کہ اپنے گھر کی ذمہ داری اٹھائے۔ لیکن اگر یہی فرض وہ اس نیت سے ادا کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے میرے پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے اور خدا کی خاطر میں نے اپنی بیوی جو اپنا گھر چھوڑ کے میرے گھر آئی ہے، اس کا حق ادا کرنا ہے، اپنے بچوں کا حق ادا کرنا ہے تو وہی فرض ثواب بھی بن جاتا ہے۔ یہ بھی عبادت ہے۔ اگر یہ خیالات ہوں ہر احمدی کے تو آج کل جو عائلی جھگڑے ہیں، تُو تکار اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراضگیاں ہیں ان سے بھی انسان بچ جاتا ہے۔ بیوی اپنی ذمہ داریاں سمجھے گی کہ میرے پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ خاوند کی خدمت کروں، اس کا حق ادا کروں اور اگر اللہ تعالیٰ کی خاطر میں یہ کر رہی ہوں گی تو اس کا ثواب ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں فریقوں کو یہ بتایا کہ اگر تم اس طرح کرو تو تمہارا یہ فعل بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کی وجہ سے عبادت بن جائیگا۔ اس کا ثواب ملے گا۔ تو یہ چیزیں ہیں جو انسان کو سوچنی چاہئیں اور یہی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو بعض گھروں کو جنت نظیر بنا دیتی ہیں۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 13 مارچ 2009ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3 اپریل 2009ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’اگر تم خدا کے ہوجائو گے تو یقیناً سمجھو کہ خدا تمہارا ہی ہے۔ تم سوئے ہوئے ہو گے اور خدا تعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا۔ ‘‘(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19صفحہ 22) پس کتنا بڑا احساس تحفظ ہےکہ جس کے لیے اللہ تعالیٰ جاگے تو دنیا میں کوئی اس کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ پس دعائوں کے ذریعے خدا تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس کے آگے جھکتے ہوئے اپنے گھروں کو اس کی محبت کے نور سے سجائیں۔ ہر دکھ و تکلیف میں بھی صبر اور دعا کے ساتھ اسی کی طرف رجوع کریں جو رب العالمین ہے۔

ایک سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ

’’سو سائٹی میں، اپنے گھر میں، اپنے سسرال والوں کے ساتھ اور اپنے ماحول میں جو بھی بے چینیاں اورپریشانیاں پیدا ہوں وہ استغفار کرنے اور

لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّ ۃ اِلَّا بِا للّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم

پڑھنے سے دور کی جاسکتی ہیں۔ ‘‘

(مطبوعہ ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل 17 اگست 2012ء)

ایک احمدی ماں باپ ہونے کے ناطے ہماری اولین ذمہ داری اپنی اولاد کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت کوٹ کوٹ کر بھردینا ہے۔ جو ہمارے ظاہری عمل اور نمونے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ احمدی مائوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’اگر بچپن میں آپ خدا کی محبت ان کے دلوں میں پیدا کر سکیں تو سب سے بڑا احسان آپ اپنی اولاد پر یہی کر سکتی ہیں۔ اور خدا کی محبت پیدا کرنے کے لئے آپ کو خدا کی باتیں کرنی ہوں گی۔ خدا کی باتیں کرتے وقت آپ کے دل پر اثر نہ ہو اور آپ کی آنکھوں سے آنسو نہ بہے، اگر آپ کا دل موم نہ ہوا تو یہ خیال کرنا کہ بچے اس سے متاثر ہو جائیں گے یہ جھوٹی کہانی ہے کچھ بھی اس میں حقیقت نہیں۔ ایسی مائوں کے بچے خدا سے محبت کرتے ہیں کہ جب وہ خدا کا ذکر کرتی ہیں تو ان کے دل پگھل کر آنسو بن کر بہنے لگتے ہیں۔ ان کے چہروں کے آثاربدل جاتے ہیں… یہ وہ تاثر ہے جو بچے کے اندر ایک پاک عظیم تبدیلی پیدا کر دیا کرتا ہے…وہ چھوٹی بچیاں اور چھوٹے بچے جو آپ کی گودوں میں پلتے ہیں، آپ کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں۔ آپ کے دودھ پی کر جوان ہوتے ہیں یا آپ کے ہاتھوں سے دودھ پی کر جوان ہوتے ہیں اس زمانہ میں ابتدائی دور میں ان کو خدا کے پیار کی لوریاں دیں خدا کی محبت کی ان سے باتیں کریں پھر آپ کی بعد کی ساری منازل آسان ہو جائیں گی… پس آپ پر ایک عظیم ذمہ داری ہے وہ احمدی مائیں جو خدا ترس ہوں اور خدا رسیدہ ہوں ان کی اولاد کبھی ضائع نہیں ہوتی… جو مائیں گہرے طور پر خدا سے محبت کرنے والی ہوں اور خدا سے ذاتی تعلق قائم کر چکی ہوں ان کی اولادیں کبھی ضائع نہیں ہوتیں۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت مائوں کے قدموں کے نیچے ہے…آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ آئندہ نسلوں کو آپ نے جنت عطا کرنی ہے یا جہنم میں پھینکنا ہے۔ کیونکہ اگر جنت آپ کے پائوں کے نیچے ہو اور پھر آپ کی نسلیں جہنمی بن جائیں تو اس کی دہری ذمہ داری آپ پر ہو گی…‘‘ (اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلد دوم صفحہ 228,227,225)

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی نسل در نسل کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت ڈالنے والے بن جائیں اور اس جنت کی مہک صرف ہمارے گھروں تک ہی محدود نہ رہے بلکہ پوری دنیا اس جنت نظیر معاشرے کے حصار میں آجائے۔ آمین یا رب العالمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button