حاصل مطالعہ

حاصل مطالعہ

نفسانیت کا علاج تزکیہ نفس اور دعا ہے

ا مامِ آخرالزماں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’میں سچ کہتا ہوں کہ تم کسی کو اپنا ذاتی دشمن نہ سمجھو اور اس کینہ توزی کی عادت کو بالکل ترک کر دو۔ اگر خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے اور تم خدا تعالیٰ کے ہو جاؤ تو وہ دشمنوں کو بھی تمہارے خادموں میں داخل کر سکتا ہے۔ لیکن اگر تم خدا ہی سے قطع تعلق کئے بیٹھے ہو اور اس کے ساتھ ہی کوئی رشتہ دوستی کا باقی نہیں، اس کی خلاف مرضی تمہارا چال چلن ہے۔ پھر خدا سے بڑھ کر تمہارا دشمن کون ہو گا؟ مخلوق کی دشمنی سے انسان بچ سکتا ہے لیکن جب خدا دشمن ہو تو پھر اگر ساری مخلوق دوست ہو تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے تمہارا طریق انبیاءؑ کا سا طریق ہو۔ خدا تعالیٰ کا منشاء یہی ہے کہ ذاتی اعداءکوئی نہ ہوں۔

خوب یاد رکھو کہ انسان کو شرف اور سعادت تب ملتی ہے جب وہ ذاتی طور پر کسی کا دشمن نہ ہو۔ ہاں اللہ اور اس کے رسول کی عزت کے لیے الگ امر ہے۔ یعنی جو شخص خدا اور اس کےرسُول کی عزت نہیں کرتا بلکہ ان کا دشمن ہے اسے تم اپنا دشمن سمجھو۔ اس دشمنی سمجھنے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ تم اس پر افتراء کرو اور بلا وجہ اس کو دکھ دینے کے منصوبے کرو۔ نہیں۔ بلکہ اس سے الگ ہو جاؤ اور خدا تعالیٰ کے سپرد کرو۔ ممکن ہو تو اس کی اصلاح کے لئے دعا کرو۔

یہ امور ہیں جو تز کیہ نفس سے متعلق ہیں۔ ‘‘

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک واقعہ

فرمایا:’’کہتے ہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک دشمن سے لڑتے تھے اور محض خدا کے لئے لڑتے تھے۔ آخر حضرت علیؓ نے اس کو اپنے نیچے گِرا لیا اور اس کے سینہ پر چڑھ بیٹھے۔ اُس نے جھٹ حضرت علیؓ کے منہ پر تھوک دیا۔ آپ فوراً اس کی چھاتی پر سے اُتر آئے اور اسے چھوڑ دیا۔ اس لئے کہ اب تک تو میں محض خدا تعالیٰ کے لئے تیرے ساتھ لڑتا تھا لیکن اب جبکہ تو نے میرے منہ پر تھوک دیا ہے۔ تو میرے اپنے نفس کا بھی کچھ حصہ اس میں شریک ہو جاتا ہے۔ پس میں نہیں چاہتا کہ اپنے نفس کے لیے تمہیں قتل کروں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے نفس کے دشمن کو دشمن نہیں سمجھا۔ ایسی فطرت اور عادت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے۔ اگر نفسانی لالچ اور اغراض کے لئے کسی کو دُکھ دیتے اور عداوت کے سلسلوں کو وسیع کرتے ہیں تو اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والی کیا بات ہو گی؟‘‘

(ملفوظات جلد 8 صفحہ105)

(مرسلہ:طارق احمد مرزا۔ آسٹریلیا)

انعام حاصل کرنے کی نسبت انعام قائم رکھنا مشکل ہے

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :

’’بڑی بڑی خدمات بعض دفعہ ایک لفظ کے ساتھ ضائع ہوجاتی ہیں۔ اور بعض دفعہ بڑا لمبا کفر ایک فقرہ کے ساتھ دھویا جاتا ہے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ کفار مکہ اسلام کے مٹانے میں اس قدر زور خرچ کرتے ہیں کہ کوئی صورت مخالفت کی خالی نہ رہی۔ ہر زمانہ میں نبیوں کے دشمنوں نے ایسا ہی کیا۔ مگر رسول کریمؐ کی مخالفت میں جو زور لگایا گیا اس سے بڑھ کر انسان کی انسانیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مخالفت ممکن نہیں۔

جھوٹ اور نفرت سے انہوں نے پرہیز نہ کیا۔ قتل و غارت سے انہوں نے پرہیز نہ کیا۔ عزت و آبرو برباد کرنے میں انہوں نے کوئی دقیقہ نہ چھوڑا۔ فساد پھیلانے اورجھوٹی روایتوں کے بیان کرنے سے انہوں نے کوئی پرہیز نہ کیا۔ اور جو لوگ نیکی کو قبول کرنا چاہتے تھے ان کو نیکی سے روکنے میں اور جو بدی کو پھیلانا چاہتے تھے ان کی امداد کرنے میں انہوں نے کوئی کمی نہ چھوڑی۔

انہیں لوگوں اور سرداروں میں سے ایک ابو سفیان تھے۔ جو آخر زمانہ تک اسلام کا برابر مقابلہ کرتے رہے۔ اور آخر زمانہ تک رسول کریم کے خلاف بھڑکاتے رہے۔ اور آپؐ کے خلاف لڑتے رہے۔ حتیٰ کہ آپ پر حملہ آور ہوتے رہے۔ پھر آپ کے خلاف نہ صرف خودانہوں نے تلوار چلائی بلکہ ان کی بیوی نے بھی تلوار چلانے میں حصہ لیا۔ لیکن نہ معلوم وہ کیا چیز تھی جس نے ان کو ایمان لانے پر کھڑا کر دیا۔ اور ان کے کفر کو ایسا دھویا کہ ان کے دو بیٹے اسلام کے بہت بڑے خادم ہوئے۔ ایک بیٹا تو حضرت عمرؓ کے زمانہ میں گورنر ہوا اور محض گورنر ہی نہ تھا بلکہ مسلمانوں میں ولی اور بزرگ مانا جاتا تھا۔

دوسرے بیٹے حضرت معاویہؓ تھے۔ جو حضرت علیؓ کے بعد مسند خلافت پر بیٹھے۔ اور بات یہ ہے کہ لوگ ان کی خلافت پر اعتراض کریں مگر بہرحال صحابہؓ نے بعض وجوہات کے باعث ان کی خلافت کو تسلیم کیا اور ان کے متعلق یہی حسن ظنی تھی کہ وہ اسلام کے خادم ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو اسلام کے خلاف تلوار چلاتے رہے تھے۔ ان پر ایسا زمانہ آیا کہ انہیں کے ہاتھوں میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حکومت کی باگ دے دی۔

اس کے مقابلہ میں انصار کی حالت دیکھتے ہیں۔ مکہ سے ہر قبیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالتا ہے۔ مکہ کے اردگرد کی ہمسایہ قومیں ان کی طرف آپ رخ کرتے ہیں تو وہ آپ کے پتھراؤ کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ طائف سے لہولہان ہوکر آپ واپس آتے ہیں۔ حج کے موقعہ پر ایک ایک خیمہ میں جاتے ہیں۔ ان کو تبلیغ کرتے ہیں۔ تو وہ آپ پر ہنستے ہیں کہتے ہیں پاگل ہوگیا لیکن ادھر مدینہ سے حج پر چند آنے والے لوگ سنتے ہیں کہ ایک شخص خدا کی طرف سے آنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ تو کہتے ہیں ہمیں اس کی بات سننی چاہئے۔ وہ آپؐ کے پاس حاضر ہوتے ہیں۔ اور آپؐ کی باتیں سنتے ہی معاً آپؐ پر نہ صرف ایمان لاتے ہیں بلکہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے ملک کو اسلام لانے کے لئے تیار کریں گے۔ اگلے سال پھر وہ وعدہ پورا کرتے ہیں کہ اپنے ساتھ اپنے علاقہ کے رؤسالے کر آتے ہیں اور یہاں تک وہ لوگ آپ کو کہتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ مدینہ چلیں اور ہمارے پاس رہیں۔ ہم آپؐ کی حفاظت کریں گے۔ اس وعدہ کے ساتھ آپؐ کو اپنے شہر میں لے جاتے ہیں۔ پھر کس شان اور کس وفاداری سے وعدہ پورا کرتے ہیں۔ کوئی درد مند دل ان کے واقعات پڑھ کر بغیر اس کے کہ اس کی آنکھیں پرنم ہوجائیں نہیں رہ سکتا۔

ایک موقعہ پر جبکہ آپ کو مدینہ سے باہر ایک جنگ پر تشریف لے جانا پڑا تو آپ نے مسلمانوں کو اکٹھا کر کے مشورہ لینا چاہا۔ درحقیقت آپ کا منشاء انصار سے مشورہ لینے کا تھا۔ کیونکہ انصار سے پہلے یہ معاہدہ تھا کہ اگر مدینہ پر دشمن حملہ آور ہوگا تو وہ لوگ آپ کی حفاظت اور مدد کریں گے اور مدینہ سے باہر کے لئے یہ معاہدہ نہ تھا۔ اس معاہدہ کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دراصل انصار سے مشورہ لینا چاہتے تھے کہ ہمیں اب کیا کرنا چاہئے۔ مہاجرین بار بار اٹھ کر آپ کو مشورہ دیتے لیکن آپ نے فرمایا۔ میں تم سے مشورہ نہیں لینا چاہتا۔ آخر انصار سمجھ گئے کہ ہمیں بلایا جاتا ہے۔ اور ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشورہ پوچھتے ہیں اس پر ان میں سے ایک نے اٹھ کر کہا۔ کیا آپ کی مراد ہم سے ہے؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ معاہدہ تو اس صورت میں تھا۔ جبکہ ابھی ہم آپ کی رسالت کی حقیقت سے ناواقف تھے۔ لیکن اب جب آپ کو خدا کا رسول یقین کر چکے ہیں۔ اور رسالت کی حقیقت سے واقف ہوگئے ہیں۔ تو اب ہمارا وہ وعدہ کیا حقیقت رکھتا ہے۔ اب تو یا رسول اللہ اگر آپ فرمائیں گے۔ تو ہم سمندر میں کود پڑیں گے۔ اگر آپ ہمیں دنیا کے دوسرے کنارہ پر لے جانا چاہیں۔ تو ہم وہاں جائیں گے۔ دنیا کی کسی جگہ میں بھی آپؐ پر اگر کوئی حملہ آور ہوگا تو ہم آپ کے دائیں بھی اور بائیں بھی لڑیں گے۔ اور دشمن آپ تک نہیں پہنچے گا۔ جب تک ہماری لاشوں پر سے نہ گذرے۔

اس فقرہ پر ایک صحابیؓ کہتے ہیں کہ مَیں بارہ غزوات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل رہا۔ لیکن میں یہ چاہتا تھا کہ بارہ غزوات میں شامل نہ ہوتا۔ مگر اس دن یہ فقرہ میرے منہ سے نکلتا۔ …

لیکن خدا کی حکمت ہوتی ہے کہ جنگ حنین کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعہ پر مال غنیمت تقسیم کیا۔ اور تقسیم کرتے وقت مکہ کے نومسلموں کو بھی مال دیا۔ اس پر ایک سترہ سالہ انصاری لڑکے کے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کو جو آپؐ کے رشتہ دار ہیں دے دیا ہے۔

رسول اللہ کو یہ بات پہنچی تو آپ نے انصار کو بلایا۔ انصار بھی اس غلطی کو سمجھ گئے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ بات ہماری طرف سے نہ سمجھیں۔ ہم میں سے ایک بیوقوف نے ایسا کہا ہے۔ آپ نے فرمایا اے انصار تم کہہ سکتے ہو کہ ہم نے اس وقت تمہاری مدد کی اور اپنے گھروں میں جگہ دی جب تمہیں قوم دھتکار رہی تھی اور تمہارے لئے اس وقت اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈالا۔ جب تمہیں قوم دھتکار رہی تھی اور آپ کے لئے اس وقت اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈالا جبکہ قوم آپ کو قتل کرنا چاہتی تھی۔ ہم نے تمہاری اس وقت مدد کی۔ جب تم کو وطن سے نکالا گیا۔ جب آپ کے عزیز رشتہ دار آپ کو مار ڈالنا چاہتےتھے اس وقت ہم نے اپنی جانوں کو قربان کر کے ہر میدان میں تمہاری مدد کی اور تمہارے دشمنوں کو زیر کیا۔

وہ قربانی کرنے والی قوم بھلا کہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان باتوں کو برداشت کر سکتی تھی۔ ان کی چیخیں نکل گئیں۔ اور بار بار کہتے۔ یا رسول اللہ ہم نہیں ایسا کہہ سکتے۔

پھر آپؐ نے فرمایا۔ اے انصار سنو۔ تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ محمد رسول اللہ مکہ کا باشندہ تھا۔ مکہ اس کی پیدائش کی جگہ تھی۔ اس لئے مکہ کے حق اس پر بہت تھے۔ خدا نے مکہ میں پھر واپس آنے کے سامان پیدا کر دیئے جب مکہ فتح ہوگیا اور اس کے عزیزوں رشتہ داروں کا بھی اس پر حق تھا کہ اب ان کے پاس رہے لیکن وہ مال اور مویشی لے کر اپنے گھروں کو چلے گئے اور تم خدا کا رسول اپنے گھروں میں لے آئے۔ اب اے انصار یاد رکھو۔ اس دنیا میں تم کو بادشاہت نہیں ملے گی۔ اب حوض کوثر پر ہی مجھے ملنا۔ وہاں تمہاری قربانیوں کے بدلے ملیں گے۔ خدا کی قدرت دیکھو ابوسفیان کے بیٹے بادشاہ ہوجاتے ہیں اور یہ خاندان سینکڑوں سال تک دنیا پر حکومت کرتے ہیں اور بعد میں مغل آتے ہیں۔ پٹھان آتے ہیں۔ صدیوں تک حکومت کرتے ہیں۔ لیکن وہ انصار جن کے خون سے اسلام کا باغ سینچا گیا۔ اس قوم سے 1300سال تک کوئی بادشاہ نہیں ہوتا۔ کیوں ؟ یہی بات ہے جس کی طرف سورہ فاتحہ میں توجہ دلائی گئی ہے۔

دیکھو

اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ

میں داخل ہونا اور انعام لینا بھی بیشک بڑا مشکل ہے۔ لیکن انعام کا قائم رکھنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ اس لئے انسان کو اپنے دل و دماغ اور اپنی زبان پر قابو رکھنا چاہیئے۔ تاکہ اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے۔ جس سے اس کو اور اس کے خاندان اور اس کی قوم کو نقصان پہنچے۔ جب تک ہر وقت انسان اپنے فہم اور تدبر سے کام نہ لیتا رہے۔ اور روزانہ اخلاص میں ترقی نہ کرتا رہے۔ تب تک وہ خطرہ سے محفوظ نہیں ہوسکتا۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍فروری 1926ء مطبوعہ خطبات محمود جلد نمبر10صفحہ63تا67)

(مرسلہ:ایم۔ الف شہزاد)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button