حضرت مصلح موعود ؓ

رسولِ کریمﷺ ایک ملہم کی حیثیت میں (قسط دوم۔ آخری)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

دیگر مذاہب والوں کو چیلنج

کلام کا معجزہ جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے، کئی شاخیں رکھتا ہے اور قرآن کریم کا معجزہ ان تمام شاخوں میں مکمل اور اکمل ہے۔ لیکن ایک اخبار کے مضمون میں اس قدر گنجائش نہیں ہو سکتی کہ ہر ایک بات بیان کر دی جائے۔ نہ ہر امر تفصیل سے بیان ہو سکتا ہے۔ اس لئے میں صرف اس معجزہ کے دو پہلوئوں کو اختصار سے بیان کرتا ہوں۔ اور چیلنج دیتا ہوں کہ اگر کوئی اَور کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کی مدعی ہے تو اس کے پیرو اس معجزہ کے مقابلہ میں اسے پیش کریں اور دیکھیں کہ کیا ان کی کتاب ایک ذرہ بھر بھی اس کتاب کا مقابلہ کر سکتی ہے؟

پہلی مثال جو میں پیش کرنی چاہتا ہوں الفاظ قرآنیہ ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر :10)

ہم ہی نے اس ذکر کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ جو چیز اپنی غرض کو پورا کر رہی ہوتی ہے ہم اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور جب وہ اس غرض کو پورا کرنے سے جس کے لئے اسے بنایا یا اختیار کیا گیا تھا رہ جاتی ہے تو ہم اسے پھینک دیتے ہیں۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ اگر کوئی کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو جب تک اس کی ضرورت دنیا میں ہو اس کی حفاظت ہونی چاہئے اور جب اس کی حفاظت بند ہو جائے تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اب اس کی ضرورت دنیا میں با قی نہیں رہی اس لئے اسے پھینک دیا گیا ہے۔ قرآن کریم جس قوم میں نازل ہوا وہ علم سے خالی تھی۔ اس کے مقابلہ میں دوسری کتب سماویہ ایسی اقوام میں نازل ہوئیں کہ جن میں لکھنے پڑھنے کا کافی رواج موجود تھا۔ لیکن باوجود اس کے وہ کتب محفوظ نہ رہ سکیں۔ لیکن قرآن کریم اب تک اسی طرح موجود ہے جس طرح کہ وہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے وقت تھا اور یہ حفاظت اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ اس کے لئے خاص آسانیاں حاصل تھیں جو دوسری کتب کو حاصل نہیں تھیں۔ نہ یہ حفاظت اس وجہ سے ہے کہ اب تک اس کی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا گیا۔ جس سے یہ امکان باقی رہ جائے کہ شاید جب اس کی تاریخ کا بھی مطالعہ کیا جائے تو اس کے نقائص معلوم ہو جائیں۔ کیونکہ ایک سو سال سے مسیحی مبشرین بائبل کی بدنامی دھونے کیلئے قرآن کریم کی تاریخ کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں اور اس قسم کی عرق ریزی سے کام لے رہے ہیں کہ اگر کسی شخص کو ان کی نسبت معلوم نہ ہو تو شاید وہ یہ خیال کرے کہ قرآن کریم کی محبت مسیحی مبشروں کو عام مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ لیکن باوجود اس عرق ریزی کے وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ اس کی عبارت میں ایک لفظ بھی ایسا ثابت کر سکیں کہ جو زائد ہو اور اصل قرآن کریم میں نہ ہو۔

ہزاروں قوموں اور سینکڑوں ملکوں میں مسلمان بستے ہیں اور سب کے پاس قرآن کریم ہوتا ہے۔ لیکن آج تک ایک بھی ایسی مثال نہیں نکل سکی کہ قرآن کریم میں اختلاف ہو۔ ڈاکٹر منگانا نے اپنی طرف سے بڑی کوشش کر کے تین قدیم نسخے قرآن کریم کے تلاش کئے تھے لیکن ان کے بعض اوراق چھاپنے سے ان کی ایسی پردہ دری ہوئی کہ مزید اشاعت کا خیال ہی انہوں نے دل سے نکال دیا۔ کیونکہ ان کے شائع کردہ ورقوں سے ثابت ہو گیا کہ وہ کوئی صحیح نسخے نہ تھے۔ بلکہ کسی جاہل نو آموز کی طرز تحریر کی غلطیاں تھیں اور اس کو غلطی نہیں کہتے۔ غلطی وہ ہوتی ہے جسے قوم صحیح تسلیم کر کے دھوکے میں آ جائے۔ اس قسم کے نسخوں کی تلاش کسی قدیم زمانہ میں کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے لئے تو آسان راہ یہ ہے کہ کسی مسلمان کی خراب چھپی ہوئی کتاب میں سے غلط آیات نکال کر کہہ دیا جائے کہ دیکھو قرآن کریم میں اختلاف ہے۔ چنانچہ ایک پادری سیالکوٹ میں ایسا تھا بھی جو مختلف نسخے قرآن کریم کے اپنے پاس رکھتا تھا اور جو کوئی غلطی اسے ملتی اس پر نشان لگا لیا کرتا تھا۔ پھر جو مسلمان اسے ملتا اسے دکھاتا تھا کہ تم تو کہتے ہو کہ قرآن کریم محفوظ ہے حالانکہ اس قرآن میں یہ لفظ یوں لکھا ہے اور اس دوسرے میں یوں لکھا ہے۔ اس کا دماغ اس طرح نہیں کیا کہ ایک توتلے آدمی کو نوکر رکھ چھوڑتا اور اس سے قرآن پڑھوا کر سنواتا اور کہتا کہ دیکھو قرآن کریم میں تغیر ہو سکتا ہے اس نادان نے یہ نہیں سوچا کہ غلطی وہ ہوتی ہے جس سے قوم دھوکا کھا جائے۔ ورنہ وہ بھول چوک جس کو خود لکھنے والا بھی دوبارہ پڑھنے سے معلوم کر لے کہ یہ غلطی تھی حفاظت کے خلاف نہیں۔ اس کی حفاظت تو انسانی دماغ میں اور دوسرے نسخوں میں موجود ہے اور اس سے کوئی نقصان عقیدہ یا تفسیر کو نہیں پہنچتا کیونکہ اس غلطی کی بناء پر کوئی شخص ترجمہ یا تفسیر غلط نہیں کر سکتا۔

قرآن کریم کو اس بارے میں جو حفاظت حاصل ہے اس کے متعلق میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا۔ میں صرف ان لوگوں کی شہادت پیش کرتا ہوں کہ جو پکے مسیحی ہیں اور جنہوں نے پورا زور لگایا ہے کہ کسی طرح قرآن کریم کی حفاظت پر وہ کوئی اعتراض کر سکیں۔ لیکن آخر مجبور ہو کر ان کو ماننا پڑا ہے کہ سب اعتراض فضول اور لغو ہیں قرآن کریم آج بھی اسی طرح محفوظ ہے جس طرح کہ اس وقت محفوظ تھا جب رسول کریمﷺ دنیا سے جدا ہوئے تھے۔

سرولیم میور کی شہادت

سرولیم میور اپنی کتاب ’’دی کران‘‘(القرآن) میں لکھتے ہیں:

’’زید کا نظر ثانی کیا ہوا قرآن آج تک بغیر کسی تبدیلی کے موجود ہے۔ اس احتیاط سے اس کی نقل کی گئی ہے کہ تمام اسلامی دنیا میں صرف ایک ہی نسخہ قرآن کا استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘(دی کران مصنفہ سر ولیم میور)

’’جو اختلاف قرآن کریم کے نسخوں میں نظر آتا ہے وہ قریباً سب کا سب زیروں زبروں اور وقف وغیرہ کے متعلق ہے لیکن چونکہ زیر زبر اور وقف کی علامت سب بعد کی ایجاد ہیں وہ اصل قرآن کریم کا حصہ ہی نہیں ہیں اور نہ اس کا جو زید نے جمع کیا تھا۔‘‘(دی کران مصنفہ سر ولیم میور صفحہ 39)

’’یہ بات یقینی ہے کہ زید نے جمع قرآن کا کام پوری دیانتداری سے کیا تھا اور علی اور ان کی جماعت کا جو بدقسمت عثمان کے مخالف تھے اس قرآن کو تسلیم کر لینا ایک یقینی ثبوت ہے کہ وہ قرآن اصلی تھا۔‘‘(دی کران مصنفہ سر ولیم میور صفحہ 39-40)

’’یہ تمام ثبوت دل کو پوری تسلی دلا دیتے ہیں کہ وہ قرآن جسے ہم آج پڑھتے ہیں لفظاً لفظاً وہی ہے جسے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)نے لوگوں کو پڑھ کر سنایا تھا۔‘‘(دی کران مصنفہ سر ولیم میور صفحہ 40)

ایک مومن کی دلیل خواہ کس قدر ہی زبردست ہو لیکن دل میں شبہ رہتا ہے کہ شاید اس نے مبالغہ سے کام لیا ہوگا۔ لیکن یہ اس شخص کی تحریر ہے جس نے پورا زور لگایا ہے کہ اسلام اور بانیٔ اسلام کی شان کو گرا کر دکھائے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس اقرار صداقت کے وقت سرمیور کا دل کس قدر غم و غصہ کا شکار ہو رہا ہوگا۔ لیکن چونکہ انہیں گریز کا کوئی موقع نہ ملا۔ اس لئے انہیں قرآن کریم کے محفوظ ہونے کا اقرار کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نظر نہیں آیا۔

اس شہادت کو دیکھنے کے بعد ہر شخص معلوم کر سکتا ہے کہ دشمن بھی اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ قرآن کریم ہر قسم کے دخل سے پاک ہے اور

اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ

کی پیشگوئی نہایت وضاحت کے ساتھ پوری ہوئی ہے اور یہ اس کی عبارت کا معجزہ ایک ایسا معجزہ ہے جس کی مثال کوئی اور کتاب پیش نہیں کر سکتی۔

قرآن کریم کے مفہوم کی حفاظت کا معجزہ

دوسری مثال کے طور پر میں اسی آیت کے ایک دوسرے مفہوم کو پیش کرتا ہوں:۔

کلام کی حفاظت کئی طرح ہوتی ہے۔ اس کے لفظوں کی حفاظت کے ذریعہ سے بھی اور اس کے مفہوم کی حفاظت کے ذریعہ سے بھی اور اس کے اثر کی حفاظت کے ذریعہ سے بھی۔ میں لفظوں کے علاوہ اس کے مفہوم کی حفاظت کے معجزہ کو پیش کرتا ہوں۔ بالکل ممکن ہے کہ ایک کتاب کے لفظ تو ایک حد تک موجود ہوں لیکن اس کا صحیح مفہوم سمجھنے والے لوگ نہ مل سکیں۔ جیسے کہ وید ہیں کہ خواہ بگڑے ہوئے نسخے ہوں لیکن بہرحال اس میں سے کچھ نہ کچھ حصہ تو موجود ہے۔ لیکن ویدوں کی زبان اب دنیا سے اس قدر مٹ چکی ہے کہ کوئی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وید کی عبارت کا مطلب کیا ہے؟ شرک اور توحید،توہم پرستی اور ستارہ پرستی اور طب اور شہوانی تعلقات کی باریکیاں اور ہر قسم کی متضاد باتیں اس سے نکالی جاتی ہیں۔ لفظ ایک ہوتے ہیں،معنوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ایک قوم وام مارگ کی تعلیم اس سے نکالتی ہے تو دوسری ویدانت کی۔ اور اختلاف مفہوم میں نہیں بلکہ ترجمہ میں ہوتا ہے اور ایک جگہ نہیں بلکہ شروع سے لے کر آخر تک سارے ہی وید میں اختلاف ہوتا ہے۔ لیکن قرآن کریم کی زبان ایسی محفوظ ہے کہ گو بعض جگہ پر ایک لفظ کے مختلف معانی کی وجہ سے معنوں کا اختلاف ہو جائے لیکن اول تو وہ اختلاف محدود ہوتا ہے۔ دوسرے اس کا حل خود قرآن کریم میں موجود ہوتا ہے۔ یعنی اس کے غلط معنی کرنے ممکن ہی نہیں ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم اپنی تفسیر خود کرتا ہے اور اگر کوئی شخص غلط معنی کرے تو دوسری جگہ کسی اور آیت سے ضرور اس کے معنوں کی غلطی ثابت ہو جاتی ہے اور اس طرح

وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ

کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

قرآن کریم کی ایک آیت دوسری کی حفاظت کرتی ہے

یعنی قرآن کریم کے مفہوم کے سمجھنے کے لئے کسی بیرونی شہادت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم نے خود ہی اس کے اندر ایسا سامان پیدا کیا ہوا ہے کہ غلطی فوراً پکڑی جاتی ہے اور غلطی کرنے والا اپنے معنوں کی قرآن کریم کے دوسرے حصوں سے تطبیق پیدا نہیں کر سکتا۔ یہ قرآن کریم کا ایک ایسا معجزہ ہے کہ اس کی مثال بھی کسی اور کتاب میں نہیں مل سکتی۔ دوسری کتب اس طرح لکھی ہوئی ہیں کہ اگر ایک حصہ کے معنوں کو بدل دیا جائے تو دوسرے حصے ہر گز اس غلطی کو ظاہر نہیں کرتے لیکن قرآن کریم کی ہر آیت کی حفاظت کرنے والی دوسری آیتیں موجود ہوتی ہیں۔ جب کوئی شخص غلطی کرتا ہے تو فوراً وہ دوسری آیات اس غلطی کو ظاہر کر دیتی ہیں اور اس طرح غلطی کرنے والا پکڑا جاتا ہے۔

غرض رسول کریم ﷺ بطور ملہم بھی سب ملہموں سے افضل ہیں۔ کیونکہ آپ کا الہام زندہ ہے۔ اور اس قدر زبردست معجزانہ اثرات اپنے اندر رکھتا ہے کہ کوئی اور الہام اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور کوئی اور کتاب آپ کی کتاب کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی!!

( الفضل 25۔ اکتوبر 1930ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button