الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ

رسالہ ’’انصارالدین‘‘ لندن مئی و جون 2012ء میں حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کی سیرت و سوانح پر مبنی ایک مضمون مکرم داؤد احمد عابد صاحب مربی سلسلہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں آپؓ کا مختصر ذکرخیر 8؍اکتوبر 1999ء کے اخبار میں ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘کی زینت بن چکا ہے۔

عبد اللہ بن شفیق بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ آنحضورﷺ کو اپنے صحابہ میں سب سے زیادہ محبوب کون تھے؟ انہوں نے بتایا کہ حضرت ابوبکرؓ۔ مَیں نے پوچھا ان کے بعد ؟ انہوں نے فرمایا:حضرت عمرؓ۔ مَیں نے پوچھا پھر کون؟ انہوں نے بتایا حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ۔ مَیں نے پوچھا:اُن کے بعد؟ تو وہ خاموش رہیں۔

ترمذی اور مسند احمد بن حنبل کی روایات میں عشرہ مبشرہ کے اسماء میں حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ بھی شامل ہیں۔ یہ سعادت مند دس لوگ جنہیں آنحضورﷺ نے زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی وہ سب اپنے شجرہ نسب میں فھر بن مالک بن النضر پر ملتے ہیں، یہیں ان سب کا سلسلہ نسب آنحضورﷺ سے بھی ملتا ہے، ان میں سے حضرت ابوعبیدہ حارث بن فھر بن مالک کی اولاد میں سے جبکہ دیگر تمام لؤی بن غالب بن فھر بن مالککی اولاد میں سے ہیں، اور آنحضورﷺ کا بھی یہی شجرہ نسب بنتا ہے۔

آپؓ کا نام عامر بن عبد اللہ بن الجراح الفھری القریشی ہے جبکہ آپ کی کنیت ابوعبیدہ تھی اور آنحضورؐ نے آپ کو امین ھذہ لامّۃ یعنی امّت اسلام کا امین قرار دیا ہے۔ آپ ہجرت سے 40 سال قبل 548 عیسوی کو پیدا ہوئے۔ آپؓ کی والدہ ماجدہ امیمۃ بنت عثمان بن جابر بن عبدالعزیٰ ہیں۔ آپ طویل القامت، نحیف الجسم تھے، آپ کے چہرہ پر رگیں نمایاں اور داڑھی ہلکی تھی۔

حضرت ابوعبیدہؓ ابتدائی دس اسلام قبول کرنے والے سعادت مند السابقون الاوّلونمیں شامل ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آپؓ کو اسلام کی تبلیغ کی، اور یہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ایمان لانے سے اگلے دن کا واقعہ ہے جب حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت عثمانؓ بن مظعون، حضرت عبیدہؓ بن الحارث، حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف اور حضرت ابو سلمہؓ بن عبد اللہ کی معیت میں آنحضورﷺ کی بیعت کا شرف حاصل کیا، اس وقت آپؓ کی عمر 27 برس تھی۔

حضرت ابوعبیدہؓ نے ہجرت حبشہ کی توفیق بھی پائی۔ آپؓ کو امیرالامراء کا لقب دیا گیا۔

حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے آنحضورؐ کے ساتھ تمام جنگوں میں شرکت کی توفیق پائی۔ دورانِ جنگ آپؓ کی تمام تر توجہ آنحضورؐ کی طرف مبذول رہتی تھی۔ جب بھی آپؓ کو محسوس ہوتا کہ اس وقت آنحضورﷺ کو میری ضرورت ہے تو آپؓ ایک وارفتگی کے عالم میں آنحضورﷺ کی طرف لپکتے۔ آپؓ ان چند صحابہ میں سے ہیں جو غزوہ احد میں آنحضورؐ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں:جنگ احد میں جب آنحضورﷺ کو تیر لگا اور آپؓ کے گال مبارک میں خَود کی دو کڑیاں پیوست ہو گئیں تو میں آپؐ کی طرف بھاگا، ایسے میں مَیں نے ایک انسان کو دیکھا کہ وہ مشرق کی جانب سے اُڑتا چلا آتا ہے، اس پر مَیں نے دعا کی کہ یا اللہ! اسے اطاعت بنا دے۔ یعنی اللہ خیر کرے کوئی دشمن نہ ہو بلکہ آپؐ کا کوئی مطیع وفرمانبردار ہو۔ جب ہم دونوں وہاں پہنچے تو ابوعبیدہ مجھ پر سبقت لے جا چکے تھے، انہوں نے مجھ سے کہا: اے ابوبکر مَیں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ یہ کام مجھے کرنے دیں اور یہ کڑیاں مَیں آنحضورؐ کے رُخ انور سے نکالوں۔ اس پر میں نے انہیں یہ کام کرنے دیا۔ اس پر انہوں نے اپنے دو دانتوں سے اس خود کی ایک کڑی کو پکڑ کر کھینچا، نتیجۃً کڑیاں دانتوں سمیت زمین پر گرگئیں، پھر آپ نے دوسری کڑی کو اپنے دوسرے دو دانتوں سے کھینچا سو وہ بھی کڑیوں کے ساتھ ہی گرگئے۔ اس موقع پر آپؓ نے فرمایا: وہ قوم کیسے فلاح پا سکتی ہے جو اپنے نبی کے رخ انور کو خون آلود کر دے، حالانکہ وہ انہیں ان کے ربّ کی طرف بلاتا ہو۔

کہا جاتا ہے کہ آپؓ کا باپ غزوہ بدر میں کفار کی طرف سے جنگ میں شامل تھا، جسے آپؓ نے خود قتل کیا۔

آنحضورﷺ کے یہ دلیر اور جاں نثار صحابی ایک بھرپور شخصیت کے مالک تھے، اور ہمیشہ آنحضورﷺ کے اعتبار پر پورا اترتے تھے، اسی بِنا پر آپؐ مختلف وفود کو بھجواتے وقت آپؓ کو ان وفود کی امارت سپرد فرماتے، خواہ وہ کسی سریہ پر بھجوانا مقصود ہوتا یا کسی قوم کی تعلیم وتربیت کا معاملہ ہوتا۔ چنانچہ جب اہل یمن نے آنحضورﷺ کی خدمت اقدس میں کسی کو بھیجنے کی درخواست کی تو آنحضورﷺ کی نظر انتخاب آپؓ پر پڑی۔ پھر جب اہل نجران اسلام لانے کو آئے تو ان کی تعلیم وتربیت کے لیے بھی آپؓ کا انتخاب کرکے آنحضورﷺ نے فرمایا کہ مَیں تم لوگوں کے ساتھ ایک امین شخص کو بھیجوں گا جو حقیقی امین ہے، حقیقی امین ہے، حقیقی امین ہے۔

بخاری شریف میں آیا ہے کہ آنحضورﷺ نے آپؓ کو جزیہ وصول کرنے کے لیے بحرین بھی بھیجا۔

آپؓ ان سعادت مند صحابہ میں سے ہیں جنہیں قرآن کریم جمع کرنے کی سعادت عطا ہوئی۔

ابوجمعہ حبیب بن سباع روایت کرتے ہیں کہ ہم نے آنحضورؐ کی موجودگی میں دوپہر کا کھانا کھایا جبکہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح بھی ہمارے ساتھ تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ حضورؐ! کیا کوئی ہم سے بھی بہتر ہے جبکہ ہم آپؐ پر ایمان لائے اور آپؐ کے ہمراہ جہاد کیا۔ اس پر آنحضورؐ نے فرمایا: ’’ہاں ! ایک قوم جو تم لوگوں کے بعد ہوں گے، وہ مجھ پر ایمان لائیں گے جبکہ انہوں نے مجھے دیکھا نہیں۔ ‘‘

آنحضورؐ نے آپؓ کو تین سو سے زیادہ افراد کے ایک سریہ کا امیر بنا کر بھیجا جسے ’’غزوہ خبط‘‘ کا نام دیا گیا۔ ان کے پاس بہت کم زاد راہ تھی، جب وہ ختم ہوئی تو درختوں کے پتوں کو پیس کر نگل جاتے اور اس پر پانی پی کر گزارہ کرتے۔ عربی میں خبط کے ایک معنے درخت کے گرے ہوئے پتوں کے بھی ہیں۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ بھی اس سریہ میں شامل تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ اسی بے سروسامانی کے عالم میں ہم چلے جارہے تھے کہ ایک ساحل سمندر کے نزدیک پہنچے، دُور سے ہمیں ایک ٹیلہ نما چیز دکھائی دی، قریب پہنچے تو وہ ایک بہت بڑی وہیل مچھلی تھی، حضرت ابو عبیدہؓ جو امیر سریہ تھے پہلے انہوں نے کہا کہ یہ مُردار ہے اسے نہیں کھانا، پھر آپؓ نے اپنے اجتہاد سے کام لیتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ چونکہ ہم جہاد پر نکلے ہیں اور کھانا ختم ہونے کے باعث اضطرار کی کیفیت بھی ہے اس لیے اس کا کھانا جائز ہے۔ سو ہم تین سو لوگ مہینہ بھر وہاں رہے، اور خوب توانا ہو گئے۔ وہ مچھلی جو رزق کے طور پر خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے صحابہ کو عطا فرمائی اس کی آنکھ کے گھیرے میں 13 لوگ سما جاتے تھے جبکہ اس کی پسلی کو کھڑا کرنے سے ایک اونٹ سوار اس کے نیچے سے اپنے کجاوے سمیت گزر جاتا تھا۔ حضرت جابرؓ مزید بتاتے ہیں کہ ہم نے اس میں سے کچھ گوشت سکھا بھی لیا، جب ہم مدینہ واپس پہنچے تو آنحضورﷺ سے اس امر کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ وہ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کے لیے نکالا، اگر تمہارے پاس اس میں سے کچھ ہے تو ہمیں بھی کھلاؤ، سو اس مچھلی کے گوشت کا کچھ حصہ آپؐ کی خدمت اقدس میں بھی پیش کیا گیا جسے آپؐ نے تناول فرمایا۔

اسی طرح سریہ ذی القصہ میں بھی آنحضورﷺ نے آپؓ کو امارت تفویض فرمائی جس میں آپؓ نے کامیابی حاصل کی۔ آٹھ سن ہجری میں غزوہ ذات السلاسل ہوا جس کی قیادت حضرت عمرو بن العاص کر رہے تھے، انہوں نے محسوس کیا کہ دشمن کی تعداد توقع سے کافی زیادہ ہے، اس بِنا پر آنحضورﷺ نے حضرت ابو عبیدہ کی سرکردگی میں کمک روانہ فرمائی جس میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی شامل تھے۔

جب آنحضورﷺ کی وفات ہوئی تو انتخابِ خلافت کے حوالے سے کوئی حل نہیں نکل رہا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ سے فرمایا کہ ہم آپ کی بیعت کرلیتے ہیں کیونکہ مَیں نے آنحضورؐ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر اُمّت کا ایک امین ہوتا ہے اور میری اُمّت کے امین آپ ہیں۔ اس پر آپؓ نے جواب دیا کہ میں خود کو اس شخص پر کیونکر ترجیح دے سکتا ہوں جسے آنحضورؐ نے ہماری امامت کا ارشاد فرمایا ہو۔

اگرچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ یہ اعلان فرما چکے تھے کہ میں ان دو یعنی حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدؓہ میں سے کسی ایک کو بطور خلیفہ تسلیم کرنے کو تیار ہوں مگر ابوعبیدہؓ کے ایک جملہ نے ساری روک دُور کردی۔ پھر آپؓ نے انصار مدینہ کے جذبات کو سمجھتے ہوئے انہیں اس دلپذیر انداز میں نصیحت فرمائی کہ قیام خلافت کی راہ بآسانی ہموار ہو گئی۔ آپؓ نے فرمایا: اے گروہ قریش، تم وہ لوگ ہو جنہوں نے سب سے پہلے اسلام اور رسول خدا کی تائید ونصرت اور مدد کا بیڑا اٹھایا تھا، سو تم ہی وہ نہ بن جانا جو سب سے پہلے بدل گئے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب شام کے علاقہ کی فتح کے لیے چار قائدین کا انتخاب فرمایا تو آپؓ ان میں سے ایک تھے۔ جبکہ حضرت عمرؓ نے آپؓ کو شام ارسال کی گئی افواج پر سپہ سالار مقرر فرمایا۔ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے: میں کبھی بھی اس فیصلے کو بدلنے کا نہیں جو ابو عبیدہ بن الجراح نے کیا ہو۔

حضرت عمرؓ نے منصب خلافت پر متمکّن ہونے کے بعد سب سے پہلا خط آپؓ ہی کو ارسال فرمایا جب جنگ یرموک کے دوران آپؓ کو اس فوج کی کمان دی گئی جس کی قیادت اُس وقت حضرت خالد بن ولیدؓ کر رہے تھے۔ آپؓ نے اس معاملہ کو اس وقت تک حضرت خالد بن ولیدؓ سے خفیہ رکھا جب تک کہ حضرت خالد نے اس جنگ میں فتح حاصل نہیں کر لی، فتح ہو گئی تو اس بات کی خبر انہیں کی، اس پر حضرت خالدؓ نے کہا کہ اللہ آپ پر رحم فرمائے، جب آپ کو خط مل گیا تھا تو کس بات نے آپ کو مجھے اس بات کے بتانے سے منع کیا؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے پسند نہیں کیا کہ میں آپؓ کی جنگ کی فتح میں حائل ہوں کیونکہ ہم دنیا کی سلطنت کے خواہاں نہیں ہیں، نہ ہی ہم دنیا کے لیے کام کرتے ہیں، ہم سب تو خدا کی خاطر بھائی بھائی ہیں۔ عین جنگ کے دوران جب کمان کی تبدیلی کا حکم آیا تو دونوں جانب سے غیر معمولی زیرکی کا مشاہدہ دیکھنے میں آیا۔ اس موقع پر حضرت خالد بن ولیدؓ اپنے لشکر سے یوں مخاطب ہوئے: تمہاری طرف اس اُمّت کے امین کو بھیجا گیا ہے۔ اور حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت خالد کے بارہ میں فرمایا: خالد خداتعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں اور یہ اپنے خاندان کا کیا ہی بہترین جوان ہیں۔

حضرت عمرؓ جب فوت ہونے لگے تو فرمایا کہ آج اگر ابوعبیدہ بن الجراح زندہ ہوتے تو میں انہیں اپنے بعد خلیفہ بنا دیتا اور اگر اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھتا تو میں کہہ دیتا کہ میں نے اللہ اور رسولؐ کے امین کو اپنے بعد خلیفہ بنایا ہے۔ اور فرمایا کہ اگر میں کوئی تمنا کروں تو صرف ابو عبیدہ بن الجراح کے سے لوگوں سے بھرے گھر کی تمنا کروں گا۔

حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے ایک مرتبہ جبکہ وہ شام کے امیر تھے وہاں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے لوگو میں قبیلہ قریش کا ایک مسلمان ہوں، تم میں سے خواہ کوئی سرخ ہو یا سیاہ اگر وہ تقویٰ میں مجھ پر فضیلت رکھتا ہے تو میری یہ خواہش ہے کہ میں اس کے حلیہ میں ہوتا۔

حضرت عمرؓ شام کے دورہ پر تشریف لائے، اپنا استقبال کرنے والوں سے پوچھا کہ میرا بھائی کہاں ہے؟ انہوں نےپوچھا وہ کون؟ فرمایا: ابوعبیدہ بن الجراح۔ چنانچہ وہ امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور امیرالمومنین سے معانقہ کرتے ہیں۔ پھر انہیں اپنے گھر میں لے جاتے ہیں، حضرت عمرؓ دیکھتے ہیں کہ گھر میں سوائے ان کی تلوار، ڈھال اور سواری کے اور کچھ بھی نہیں ہے، حضرت عمرؓ مسکراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ نے بھی ویسا ہی سازوسامان بنوا لیا ہوتا جیسا لوگ بنواتے ہیں ؟ آپ نے جواباً فرمایا: یہ سب مجھے میرے آرام کی جگہ تک پہنچانے کے لیے کافی ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا: اے ابو عبیدہ، ہم سب کو دنیا نے بدل دیا سوائے آپ کے۔

حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ کسی شخص کے ہاتھ 4400 دینار آپ کو بھجوائے، اور اس شخص سے ارشاد فرمایا کہ دیکھنا کہ وہ اس رقم سے کیا کرتے ہیں ؟ حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے اس رقم کو وصول کرتے ہی اسے مستحقین میں تقسیم فرمادیا۔ اُس شخص نے حضرت عمرؓ کے پاس آکر سب ماجرا سنایا تو آپؓ نے فرمایا کہ اللہ کاشکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام میں اس طرح کے اعمال بجالانے والے نیک لوگ بھی پیدا فرمائے ہیں۔

عمواس کے علاقے میں طاعون پھوٹی تو اس وقت اسلامی فوج وہاں تھی جس کی قیادت حضرت ابوعبیدہؓ فرما رہے تھے۔ حضرت عمرؓ کو ان کے بارہ میں خدشہ پیدا ہوا۔ انہوں نے آپ کو لکھا کہ اگر میرا یہ خط شام کو ملے تو صبح سے قبل میرے پاس چلے آؤ اور اگر صبح کو ملے تو شام سے قبل چلے آؤ، مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے۔ حضرت ابوعبیدہؓ معاملہ فہم تھے فوراً اس کی تہ تک پہنچ گئے کہ آپ مجھے طاعون سے بچانا چاہتے ہیں، اس لیے بڑے باادب انداز میں معذرت لکھ بھیجی کہ مجھے حضور کا خط ملا ہے اور اس سے مَیں آپ کا قصد جان گیا ہوں، لیکن مَیں چونکہ اس وقت مسلمانوں کی فوج میں ہوں، میں ان کو اس مصیبت کے وقت چھوڑ نہیں سکتا، سو ازراہ کرم مجھے اس حاضری سے اجازت مرحمت فرمادیجیے۔ جب حضرت عمرؓکو آپ کا خط ملا تو وہ رو دیے ۔لوگوں نے پوچھا کہ کیا حضرت ابو عبیدہؓ کی وفات کی خبر آئی ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اگر نہیں بھی آئی تو آ جائے گی کہ اس بیماری سے نجات کی کوئی راہ نہیں۔ مسلمان فوج کی تعداد وہاں 36000 تھی جن میں سے صرف 6000 زندہ بچے تھے۔ باقی سب اس طاعون کی نذر ہو گئے۔

حضرت ابوعبیدہؓ اردن کے ایک چھوٹے سے گاؤں غور میں دفن ہوئے۔ وفات کے وقت آپ کی عمر58 برس تھی۔ آپؓ کی نماز جنازہ حضرت معاذ بن جبلؓ نے پڑھائی۔

………٭………٭………٭………

نشہ آور اشیاء سے بچاؤ

مکرم ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب کا ایک مضمون رسالہ ’’انصارالدین‘‘ لندن مئی جون 2013ء میں شامل اشاعت ہے جس میں نشہ آور اشیاء سے بچاؤ اور علاج کے حوالے سے قابل قدر معلومات پیش کی گئی ہیں۔

ہمارا روز مرّہ کا مشاہدہ ہے کہ کھانے پینے کی بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے استعمال سے دماغ کی کارکردگی متاثر ہوجاتی ہے۔ کسی کے کھانے کے بعد نیند آنے لگتی ہے۔ کسی کے کھانے کے بعد نیند اُڑ جاتی ہے۔ کسی کے استعمال کے بعد انسان کی سوچنے سمجھنے کی طاقت جاتی رہتی ہے۔ یہی نشہ کہلاتا ہے یعنی نشہ وہ چیز ہے جس سے دماغ کی کارکردگی متاثر ہو اور اس چیز کے استعمال کے بغیر جینا مشکل ہو جائے۔

بعض چیزیں جنہیں ہم اپنی غذا کا حصہ سمجھتے ہیں جیسے چائے۔ لیکن ایک دن اگر چائے نہ ملے تو سر میں درد اور دیگر کیفیات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ یہی حالت سگریٹ پینے والوں کی ہوتی ہے کہ چند گھنٹے سگریٹ نہ ملے تو عجیب بے چینی کا سامنا ہوتا ہے، کسی کام میں دل نہیں لگتا اور توجہ قائم نہیں رہتی، لیکن سگریٹ کے دوکش لگاتے ہی زندگی معمول کے مطابق آجاتی ہے۔ شراب کے نشے میں مبتلا افراد بھی اسی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔

نشہ آور تمام اشیاء میں ایسے کیمیائی مرکبات ہوتے ہیں جو مختلف طریق پر دماغ پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ چنانچہ شراب میں ایتھائل الکوحل ہوتی ہے جو دماغ کے کام کو سست کردیتی ہے۔ اسی طرح کافی، چائے اور کولا مشروبات میں کیفین ہوتی ہے جو دماغ کے کام کو تیز کردیتی ہے جس سے نیند اُڑ جاتی ہے، دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے اور پیشاب بار بار آنے لگتا ہے۔ تمباکو میں نکوٹین ہوتی ہے جو دماغ اور حرام مغز کے اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہے۔ تمباکو کو جس طرح بھی استعمال کیا جائے یہ اپنا بداثر دکھاتا ہے۔ بہرحال یہ تمام مرکبات جسم کو اپنی عادت اس طرح سے ڈال دیتے ہیں کہ ان کو استعمال کرنے والوں کو کچھ عرصہ استعمال کے بعد ان کو چھوڑنے میں بڑی دقّت ہوتی ہے اور اسی کو نشہ کہتے ہیں۔

سائنسی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی دماغ پر اثر کرنے والے کیمیاوی مرکبات کی بہت سی اقسام ہیں۔ دماغ کے کام کو سست کرنے والے مرکبات میں سر فہرست شراب کی مختلف اقسام، افیم اور اس کے مرکبات اور سکون آور ادویات شامل ہیں۔ دماغ کے کام کو تیز کرنے والے مرکبات میں کیفین کے علاوہ کوکین اور سانس کی نالیوں کو کھولنے والی بعض ادویات شامل ہیں۔ اسی طرح دماغ کے احساسات پر اثر کرنے والے بعض مرکبات چرس اور بھنگ میں پائے جاتے ہیں جن کے استعمال کے بعد انسان کا ذہن مائوف ہوکر غیر معمولی احساسات کا تجربہ کرتا ہے جو بعض اوقات مستقل شکل اختیار کرکے دماغی بیماری کا روپ دھار لیتی ہے۔ تمباکو میں پائے جانے والے بعض مرکبات بھی اعصابی نظام پر تباہ کُن اثر ڈالتے ہیں۔ اس میں نکوٹین سر فہرست ہے جس کی وجہ سے تمباکو کے استعمال کرنے کی عادت اس طرح پڑتی ہے کہ اس کا چھوڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔

نشہ کی عادت کی بہترین روک تھام یہ ہے کہ اس کی عادت ہی پڑنے نہ دی جائے۔ مثلاً سگریٹ نوشی روکنے کے لیے بچپن کی عمر سے ہی یہ بات ہر ایک کو ذہن نشین ہونی چاہیے کہ یہ نشہ ہے اور صحت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اسی طرح شراب اور افیم وغیرہ کے متعلق بچوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ یہ نقصان پہنچانے والی چیزیں ہیں اور ان سے بچنا ہے۔ حکومت اور معاشرے کے علاوہ والدین، اساتذہ اور بزرگوں کو عمومی طور پر اس امر کی نگرانی کرنی چاہیے کہ اس قسم کی نشہ آور چیزیں معاشرہ میں دستیاب نہ ہوسکیں۔

بعض ممالک میں ایک خاص عمر سے کم عمر کے افراد کو سگریٹ یا شراب بیچنا انتہائی سنگین جرم ہے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ایک چیز جو اٹھارہ سال سے کم عمر کے لوگوں کے لیے اتنی مضر ہے تو اس عمر کے بعد وہی چیز مضر کیوں نہیں ہے۔

نشے کی مختلف عادات چھڑانے کا علاج بھی مختلف ہے لیکن بعض اصول ہرنشے کی عادت کے دُور کرنے کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔ مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! یقیناً مدہوش کرنے والی چیز اور جوا اور بُت اور تیروں سے قسمت آزمائی، یہ سب ناپاک شیطانی عمل ہیں۔ پس ان سے پوری طرح بچو تاکہ تم کامیاب ہوجائو۔

(سورۃالمائدہ :91)

ایک اَور آیت میں یہ پُرحکمت ارشاد فرمایا: وہ تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں تو کہہ دے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ (بھی) ہے اور لوگوں کے لیے فوائدبھی اور دونوں کا گناہ (کا پہلو) ان کے فائدہ سے بڑھ کر ہے…

(البقرہ: 220)

ہم جانتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں شراب نوشی کی ممانعت نہیں تھی اور یہ لازمی امر ہے کہ کچھ لوگ اس کے عادی (alcoholics)بھی ہوں گے۔ تاریخ میں آتا ہے کہ اس قوم میں شراب نوشی کے پانچ اوقات ہوا کرتے تھے۔ اسلام میں عبادت کا نظام قائم ہوا توانہی پانچ اوقات میں نمازیں پڑھی جانے لگیں۔ ممکن ہے کچھ لوگ جو نشے کی حالت میں عبادت کے لیے آجاتے ہوں جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!تم نماز کے قریب نہ جائو جب تم پر مدہوشی کی کیفیت ہو۔ یہاں تک کہ اس قابل ہو جائو کہ تمہیں علم ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو… (سورۃالنساء :44)

یہ واقعہ بھی تاریخ میں محفوظ ہے کہ جب شراب کی حرمت کے احکامات نازل ہوئے تو اس کا اعلان مدینہ کے گلی کوچوں میں کیا گیااس وقت کسی مجلس میں شراب نوشی کی محفل سجی ہوئی تھی۔ جب پکارنے والے نے اعلان کیا تو پینے والوں نے شراب کے مٹکے توڑنے کے بعد ان نئے احکامات کی تصدیق کی اور بیان کیا جاتا ہے کہ اس دن مدینے کی گلیوں میں شراب بہتی رہی اور پھر صحابہ نے شراب سے ہمیشہ کے لیے تعلق توڑ لیا۔ یہ حیرت انگیز انقلاب ایک ایسی قوم میں دیکھنے میں آیا جس کی گھٹی میں شراب نوشی پڑی ہوئی تھی۔

اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سی نشہ آور چیزیں خاص طور پر افیم اور اس کے اجزاء دوائوں میں اور علاج میں استعمال ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک سنہری اصول یہ بھی بیان ہوا ہے کہ کوئی بھی چیز جس کے نقصانات اس کے فوائد سے زیادہ ہوں ایسی چیزوں سے بچنا چاہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ نشہ چھوڑنے کے لیے پختہ ارادہ اور مضبوط قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ آنحضرتﷺ کے صحابہ میں یہ انسانی وصف ہمیں بدرجہ اتم نظر آتا ہے اور یہ وصف اللہ کی ذات پر پختہ ایمان، رسول اللہؐ کے پاکیزہ نمونے پر عمل کرنے کی شدید خواہش اور مستقل دعا اور عبادات سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ وصف آج بھی انہی اصولوں پر عمل کے نتیجے میں پیدا ہوسکتا ہے۔

تیسری ضروری بات یہ ہے کہ نشے میں مبتلا لوگوں کی مدد اور علاج کے لیے نشہ آور چیزوں اور ادویات کے حصول میں مشکلات ہونی چاہئیں اور ڈاکٹری نسخہ کے ذریعے سے ہی ملنی چاہئیں۔

ایک اہم بات صحبت ہے۔ عمومی طور پر ایک چیز کے عادی افراد ایک دوسرے کے ہمراہ رہ کر اپنی نشے کی عادت کوبرقراررکھتے ہیں۔ اس لیے نشہ ترک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کی صحبت ترک کردی جائے جو اس نشے کے عادی ہیں اور ترک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے معالج یا ادارے کی مدد حاصل کرنا بھی مفید ہے جو کسی بھی خاص نشہ کی عادت چھڑانے میں مہارت رکھتا ہو۔

سب سے آخری لیکن بہت اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی بری عادت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے دعا کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کرنی چاہیے۔ کامیابی کا یہ گر ہمیں اس روایت سے ملتا ہے کہ حضرت منشی فیاض علی صاحب کپورتھلویؓ حقہ نوشی کے عادی تھے۔ جالندھر میں حضرت اقدسؑ نے وعظ فرماتے ہوئے حقّہ نوشی کی مذمت فرمائی۔ حضرت منشی صاحبؓ نے حضرت اقدسؑ سے عرض کی کہ حقّہ چھوڑنا مشکل ہے دعا فرمائی جائے تو چھوٹ جائے۔ حضوؑر نے فرمایا کہ آئو ابھی دعا کریں۔ چنانچہ دعا کروائی گئی۔ اس رات حضرت منشی صاحبؓ نے خواب میں دیکھا کہ ایک نہایت نفیس حقّہ آپ کے سامنے لایا گیا۔ آپؓ نے حقّے کی نَے اپنے منہ سے لگانی چاہی تو نَے سیاہ سانپ بن کر لہرانے لگی۔ اس سے دل میں خوف پیدا ہوا اور آپؓ نے سانپ کو مار دیا اور اس کے بعد حقّہ نوشی نہیں کی اور اس سے نفرت ہوگئی۔

………٭………٭………٭………

یورینس (Uranus)

نظام شمسی کا ساتواں سیارہ یورینس ہے جو رات کے وقت آسمان پر نہایت مدھم دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بارے میں ایک مختصر معلوماتی مضمون عزیزم خاقان احمد کے قلم سے ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ نومبر 2012ء کی زینت ہے۔

1781ء میں یورینس کو بطور ستارہ شناخت کیا گیا جبکہ اس کے گرد بنے ہوئے حلقوں (Ring System) کی دریافت قریباً دو سو سال بعد 1977ء میں ہوئی۔ اس کے گرد موجود 11 حلقے کسی تاریک رَنگ کے مادے پر مشتمل ہیں۔ یہ مادہ ابھی نظام شمسی میں کسی اَور جگہ دریافت نہیں ہوا۔ ایک تحقیقی خلائی جہاز Voyager II کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ یورینس کے کم از کم پندرہ چاند ہیں۔ ان چاندوں کے نام شکسپیرکے ڈراموں کے کرداروں پر رکھے گئے ہیں۔

یورینس کا سورج سے فاصلہ قریباً تین ملین کلومیٹر ہے۔ اس کی سطح کا درجہ حرارت -224 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ زمینی وقت کے مطابق یہ 84سال میں سورج کے گرد ایک چکر پورا کرتا ہے۔ سورج کی روشنی اس کی سطح پر پہنچتےاڑھائی گھنٹے سے زیادہ وقت لیتی ہے جبکہ زمین پر یہ روشنی 8منٹ بیس سیکنڈ میں پہنچ جاتی ہے۔ اس کی سطح کی بہت کم تفصیلات مہیا ہیں۔ کلوزاَپ تصاویر میں بھی صرف منجمد میتھین گیس کے چند بادل ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی فضا میں موجود میتھین گیس سرخ روشنی کو جذب کرلیتی ہے اور اس طرح یہ سیارہ نیلے رنگ کا نظر آتا ہے۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button