سیرت خلفائے کراممتفرق مضامین

حضرت حاجی الحرمین خلیفۃ المسیح الاولؓ کی بے مثال اطاعت

(ایم اے شہزاد)

اطاعت عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’طَوۡع‘‘سے نکلا ہے جس کے معنی مرضی اور خوشی کے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اطاعت اور فرمانبرداری دراصل وہی ہوتی ہے جو بشاشت قلب سے کی جائے اور اس میں اپنی مرضی اور پسندیدگی بھی پائی جاتی ہو۔ ایسی اطاعت کے نتیجے میں انسان کو لذت اور سرور محسوس ہوتا ہے۔ کراہت سے یا بے رغبتی سے کی گئی فرمانبرداری اطاعت کی روح کے خلاف ہے۔

ہمارے نبی اکرمﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ مومن کی مثال نکیل والے اونٹ کی سی ہے جدھر اسے لے جاؤ ادھر چل پڑتا ہے۔ اور اطاعت کا عادی ہوتاہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 4صفحہ 126۔ ابو داؤد کتاب السنہ باب فی لزوم الطاعۃ)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :

’’اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے۔ مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے۔ اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتاہے۔ بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی۔ ‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد دوم صفحہ246)

آپ علیہ السلام اپنے ایک خاص پیارے مرید یعنی حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے بارے میں فرماتے ہیں :

مولوی حکیم نوردین صاحب اپنے اخلاص اور محبت اور صفت ایثار اور للہ شجاعت اور سخاوت اور ہمدردی اسلام میں عجیب شان رکھتے ہیں۔ کثرت مال کے ساتھ کچھ قلیل خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہوئے تو بہتوں کو دیکھا۔ مگر خود بھوکے پیاسے رہ کر اپنا عزیز مال رضائے مولیٰ میں اٹھا دینا اور اپنے لیے دنیا میں سے کچھ نہ بنانا یہ صفت کامل طور پر مولوی صاحب موصوف میں ہی دیکھی یا ان میں جن کے دلوں پر ان کی صحبت کا اثر ہے…خدا تعالیٰ اس خصلت اور ہمت کے آدمی اس امت میں زیادہ سے زیادہ کرے۔ آمین ثم آمین۔

چہ خوش بُودے اگر ہر یک ز اُمت نور دیں بودے

ہمیں بُودے اگر ہر دل پر از نور یقین بودے

ترجمہ:کیا ہی اچھا ہوتا اگر قوم کا ہر فرد نورالدین بن جائے۔ مگریہ تب ہی ہو سکتاہے کہ جب ہر دل یقین کے نور سے بھر جائے۔

(نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد 4صفحہ410تا411)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول حاجی الحرمین حافظ حکیم مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی زندگی اطاعت امام اور فدائیت کے واقعات سے معمور ہے۔ چنانچہ چند واقعات بطور نمونہ قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔

وطن کا خیال دل سے نکال دیا

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ 1876ء (تاریخ احمدیت جلد نمبر 3صفحہ86)سے ستمبر 1892ء(تاریخ احمدیت جلد نمبر 3صفحہ 130)تک ریاست جموں وکشمیر میں مہاراجہ کشمیر کے شاہی طبیب کے طور پر ملازمت کرنے کے بعدواپس اپنے وطن بھیرہ تشریف لائے۔ بھیرہ پہنچ کر ایک بہت بڑے پیمانہ پر شفاخانہ کھولنے کا ارادہ فرمایا اور اس کے لیے ایک عالیشان مکان بنوانا شروع کیا۔ ابھی وہ مکان ناتمام ہی تھا کہ آپ کو1893ء (تاریخ احمدیت جلد نمبر 3صفحہ 137)میں کچھ سامان عمارت خریدنے کے لیے لاہور جانا پڑا۔ لاہور پہنچ کر جی چاہا کہ قادیان نزدیک ہے حضرت اقدس سے بھی ملاقات کر لیں مگر چونکہ بھیرہ میں ایک بڑے پیمانہ پر تعمیر کاکام جاری تھا اس لیے بٹالہ پہنچ کر فوری واپسی کی شرط سے کرائے کا یکہ کیا جب حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو قبل اس کے کہ آپ واپسی کی اجازت مانگتے۔ حضورؑ نے خود ہی دوران گفتگو میں فرمایا کہ اب تو آپ فارغ ہوگئے۔ آپ نے عرض کیا۔ ہاں حضور ! اب تو میں فارغ ہی ہوں۔ وہاں سے اٹھے تو یکے والے سے کہہ دیا کہ اب تم چلے جاؤ۔ آج اجازت لینا مناسب نہیں ہے۔ کل پرسوں اجازت لیں گے۔ اگلے روز حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ مولوی صاحب آپ کو اکیلے رہنے میں تو تکلیف ہوگی۔ آپ اپنی ایک بیوی کو بلوا لیں۔ آپ نے حسب الارشاد بیوی کو بلانے کے لیے خط لکھ دیا اور یہ بھی لکھ دیا کہ ابھی میں شاید جلد نہ آسکوں اس لیے عمارت کاکام بند کردیا جائے۔ جب آپ کی بیوی آگئیں توحضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ آپ کو کتابوں کا بڑا شوق ہے لہٰذا آپ اپنا کتب خانہ بھی منگوا لیں۔ تھوڑے دنوں کے بعد فرمایا کہ دوسری بیوی آپ کی مزاج شناس اور پرانی ہے۔ آپ اس کو ضرور بلا لیں …پھر ایک موقع پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ مولوی صاحب اب آپ اپنے وطن بھیرہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں۔ حضرت مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں دل میں بہت ڈرا کہ یہ تو ہوسکتا ہے کہ میں وہاں کبھی نہ جاؤں مگر یہ کس طرح ہوگا کہ میرے دل میں بھی بھیرہ کا خیال نہ آوے مگر خدا تعالیٰ کے بھی عجیب تصرفات ہوتے ہیں۔ میرے واہمہ اور خواب میں بھی مجھے وطن کا خیال نہ آیا پھر تو ہم قادیان کے ہوگئے۔

غور فرمائیے کہ ایک شخص ہزاروں روپے خرچ کر کے اپنے وطن میں ایک عالیشان مکان تعمیر کرتا ہے مگر امام کی اطاعت کا جذبہ اس حد تک اس پر مستولی ہے کہ وہ اتنا بھی عرض نہیں کرتا کہ حضرت ! مجھے اجازت دی جائے کہ میں اس مکان کو فروخت کر آؤں تاوہ روپیہ ہی میرے کا م آوے بلکہ یہ بھی نہیں کرتا کہ کسی اور کے ذریعہ سے ہی اس مکان کی فروختگی کا انتظام کرے اس صورت میں بھی اسے اندیشہ تھا کہ مبادا حضرت اقدسؑ کے اس فرمان کی خلاف ورزی ہو جائے کہ مولوی صاحب اب آپ اپنے وطن بھیرہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں۔ بس ادھر حکم ملا ادھر آمنا وصدقنا کہا۔

ایک مرتبہ بھیرہ کے کسی رئیس نے آپ کی خدمت میں چٹھی لکھی کہ میں بیمار ہوں اور آپ ہمارے خاندانی طبیب ہیں مہربانی فرماکر بھیرہ تشریف لاکر مجھے دیکھ جائیں۔ آپ نے اس رئیس کو لکھا کہ میں بھیرہ سے ہجرت کر چکا ہوں اور اب حضرت مرزا صاحب کی اجازت کے بغیر میں قادیان سے باہر کہیں نہیں جاتا۔ آپ کو اگر میری ضرورت ہے تو حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں لکھو۔ چنانچہ اس رئیس نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں لکھا۔ حضرت صاحبؑ نے فرمایا۔ مولوی صاحب ! آپ بھیرہ جاکر اس رئیس کو دیکھ آئیں، جب آپ بھیرہ پہنچے تو اس رئیس کا مکان بھیرہ کے اردگردجو گول سڑک ہے اس پر تھا۔ اُسے آپ نے دیکھا اور نسخہ تجویز فرما کر فوراً واپس تشریف لے آئے۔ نہ اپنے آبائی مکانوں کو دیکھا نہ نئے زیر تعمیر مکان تک گئے، نہ عزیزوں سے ملاقات کی، نہ دوستوں سے ملے بلکہ جس غرض کے لیے حضرت اقدسؑ نے آپ کو بھیجا تھا جب وہ غرض پوری ہوگئی تو فوراً واپس تشریف لے آئے۔

(حیات نور صفحہ 184تا185)

میری جان کا مالک میرا آقا ہے

ایک مرتبہ قادیان دارالامان میں ایک نواب صاحب حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ کی خدمت میں علاج کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ایک دن نواب صاحب کے اہلکار حضرت مولوی صاحبؓ کے پاس آئے جن میں ایک مسلمان اور ایک سکھ تھا اور عرض کی کہ نواب صاحب کے علاقہ میں لاٹ صاحب آنے والے ہیں۔ آپ ان لوگوں کے تعلقات کو جانتے ہیں۔ اس لیے نواب صاحب کا منشا ہے کہ آپ اُن کے ہم راہ وہاں تشریف لے جائیں۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے فرمایا کہ میں اپنی جان کا مالک نہیں میرا ایک آقا ہے اگر وہ مجھے بھیج دے تو مجھے کیا انکار ہے۔ پھر ظہر کے وقت وہ اہلکار مسجد میں بیٹھ گئے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تو انہوں نے اپنا مدعا بیان کیا حضورؑ نے فرمایا اس میں شک نہیں کہ ہم مولوی صاحب کو آگ میں کودنے یا پانی میں چھلانگ لگانے کے لیے کہیں تو وہ انکار نہ کریں گے لیکن مولوی صاحبؓ کے وجود سے ہزاروں لوگوں کو ہر وقت فیض پہنچتا ہے۔ قرآن و حدیث کا درس دیتے ہیں۔ اس لیے ہم اتنا فیض بند نہیں کر سکتے۔ اس دن جب عصر کے بعد درس قرآن مجید دینے لگے تو خوشی کی وجہ سے منہ سے الفاظ نہ نکلتے تھے۔ فرمایا ! مجھے آج اس قدر خوشی ہے کہ بولنا محال ہے اور وہ یہ کہ میں ہر وقت اس کوشش میں لگا رہتا ہوں کہ میرا آقا مجھ سے خوش ہو جائے۔ آج میرے لیے کس قدر خوشی کا مقام ہے کہ میرے آقا نے میری نسبت اس قسم کا خیال ظاہر کیا ہے کہ اگر ہم نورالدین کو آگ میں جلائیں یا پانی میں ڈبو دیں تو پھر بھی وہ انکار نہیں کرے گا۔

(سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ160، حیات نورصفحہ186تا187)

سخت تکلیف اٹھا کر کا مل اطاعت

ایک مرتبہ ایک ہندو بٹالہ سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کی کہ میری اہلیہ سخت بیمار ہے۔ ازراہ نوازش بٹالہ چل کر اسے دیکھ لیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ حضرت مرزا صاحبؑ سے اجازت حاصل کرو۔ اس نے حضرت صاحبؑ کی خدمت میں درخواست کی جس پر حضورؑ نے اجازت عطا فرما دی۔ بعد نماز عصر جب مولوی صاحبؓ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؑ نے فرمایا کہ امید ہے آپ آج ہی واپس آجائیں گے۔ عرض کی بہت اچھا۔ بٹالہ پہنچے۔ مریضہ کو دیکھا۔ واپسی کا ارادہ کیا مگر بارش اس قدر ہوئی کہ جل تھل ایک ہوگئے۔ ان لوگوں نے عرض کی کہ حضرت ! راستے میں چوروں اورڈاکوؤں کا بھی خطرہ ہے۔ پھر بارش اس قدر زور سے ہوئی ہے کہ واپس پہنچنا مشکل ہے کئی مقامات پر پیدل پانی میں گزرنا پڑے گا۔ مگر آپؓ نے فرمایا خواہ کچھ ہو۔ سواری کا انتظام بھی ہویانہ ہو۔ میں پیدل چل کربھی قادیان ضرور پہنچوں گا۔ کیونکہ میرے آقا کاارشاد یہی ہے کہ آج ہی مجھے واپس قادیان پہنچنا ہے۔ خیر یکہ کا انتظام ہوگیا اور آپ چل پڑے۔ مگر بارش کی وجہ سے راستہ میں کئی مقامات پر اس قدر پانی جمع ہوچکا تھا کہ آپ کو پیدل وہ پانی عبور کرنا پڑا۔ کانٹوں سے آپ کے پاؤں زخمی ہوگئے مگر(18کلو میٹر کافاصلہ طے کرتے ہوئے)قادیان پہنچ گئے۔ اور فجر کی نماز کے وقت مسجد مبارک میں حاضر ہوگئے۔ حضرت اقدسؑ نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ کیا مولوی صاحب رات بٹالہ سے واپس تشریف لے آئے تھے۔ قبل اس کے کوئی اور جواب دیتا آپ فوراً آگے بڑھے اور عرض کی حضور! میں واپس آگیا تھا۔ یہ بالکل نہیں کہا کہ حضور! رات شدت کی بارش تھی، اکثر جگہ پیدل چلنے کی وجہ سے میرے پاؤں زخمی ہوچکے ہیں اور میں سخت تکلیف اٹھا کر واپس پہنچا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ اپنی تکالیف کا ذکر تک نہیں کیا۔

(حیات نور صفحہ 189)

اپنے آقا کی منشاء کی تعمیل کے لیے غیرت

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کے قابل شادی لڑکوں اور لڑکیوں کی ایک فہرست تیار فرمائی تھی اور اسے آپ نہایت احتیاط سے محفوظ رکھا کرتے تھے اور عموماً جو کوئی احمدی اپنی لڑکی یا لڑکے کے لیے رشتہ معلوم کرنا چاہتا۔ حضورؑ اس کے مناسب حال اسے رشتہ بتادیا کرتے تھے اور ہر شخص حضورؑ کے تجویز فرمودہ رشتہ کو بطیب خاطرمنظور کر لیتا تھا۔ مگر ایک مرتبہ ایک شخص کو اپنی لڑکی کا رشتہ کسی احمدی سے کرنے کا ارشاد فرمایا تو اس نے منظور نہ کیا۔ اس پر حضورؑ کو بہت تکلیف ہوئی اور حضورؑ نے آئندہ کے لیے رشتہ ناطہ کے اس انتظام کو ختم کر دیا۔ …ایک دن حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی مجلس میں ذکر ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی دوست کو اپنی لڑکی کا رشتہ کسی احمدی سے کردینے کے لیے فرمایا مگر وہ دوست راضی نہ ہوا۔ اتفاقاً اس وقت آپؓ کی صاحبزادی امۃ الحئی صاحبہ جو اس وقت بہت چھوٹی تھیں کھیلتی ہوئی سامنے آگئیں۔ حضرت مولوی صاحبؓ اس دوست کا ذکر سن کر جوش سے فرمانے لگے کہ مجھے تو اگر مرزا کہے کہ اپنی لڑکی کو نہالی(یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھرمیں کام کرنے والی مہترانی)کے لڑکے کو دیدو۔ تو میں بغیر کسی انقباض کے فوراً دے دوں گا۔ یہ کلمہ سخت عشق ومحبت کا تھا۔ مگر نتیجہ کیا ہوا کہ بالآخر وہی لڑکی حضورؑ کی بہو بنی اور اس شخص کی زوجیت میں آئی جو خود حضرت مسیح موعودؑ کا حسن و احسان میں نظیرتھا۔ (حیات نور صفحہ187-188)

تعمیل حکم میں جوتے اور پگڑی کا بھی ہوش نہیں

ایک مرتبہ آپ مطب میں بیٹھے تھے۔ ارد گرد لوگوں کا حلقہ تھا۔ ایک شخص نے آکر کہا کہ مولوی صاحب ! حضور یاد فرماتے ہیں۔ یہ سنتے ہی اس طرح گھبراہٹ کے ساتھ اٹھے کہ پگڑی باندھتے جاتے تھے اور جوتا گھسیٹتے جاتے تھے۔ گویا دل میں یہ تھا کہ حضورؑ کے حکم کی تعمیل میں دیر نہ ہو۔ پھر جب منصب خلافت پر فائز ہوئے تو اکثر فرمایا کرتے تھے کہ تم جانتے ہو نورالدین کا یہاں ایک معشوق ہوتاتھا جسے مرزا کہتے تھے۔ نورالدین اس کے پیچھے یوں دیوانہ وار پھرا کرتا تھا کہ اسے اپنے جوتے اور پگڑی کا بھی ہوش نہیں ہوا کرتا تھا۔

(حیات نور صفحہ187تا188)

اپنے آقا کی کمال درجہ کی اطاعت و ادب

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ میں اطاعت و ادب کا مادہ کمال درجہ پر تھا۔ جن دنوں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے صاحبزادے مرزا مبارک احمد صاحب بیمار تھے۔ تو ایک مرتبہ حضور علیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کو محترم صاحبزادہ صاحب کو دیکھنے کے لیے گھر میں بلایا۔ اس وقت حضورعلیہ السلام صحن میں ایک چارپائی پر تشریف فرما تھے اور صحن میں کوئی فرش وغیرہ نہیں تھا۔ حضرت مولوی صاحبؓ آتے ہی حضور علیہ السلام کی چارپائی کے پاس زمین پر بیٹھ گئے۔ حضرت اقدس مسیح پاکؑ نے فرمایا مولوی صاحب چارپائی پر بیٹھیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے عرض کیا حضور میں بیٹھا ہوں اور کچھ اونچے ہو گئے۔ اور ہاتھ چارپائی پر رکھ لیا مگر حضور علیہ السلام نے جب دوبارہ کہاتوحضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اٹھ کر چارپائی کے ایک کنارہ پر پائنتی کے اوپر بیٹھ گئے۔ اللہ اللہ اطاعت میں کیسا کمال ہے کہ وہ شخص جو کسی بڑے سے بڑے آدمی کے سامنے زمین پر بیٹھنے کے لیے طالب علمی کے زمانہ میں بھی تیار نہیں ہوتا تھا، دینی و دنیوی ترقیات کی اعلیٰ منزلیں طے کرنے کے بعد بھی حضرت مسیح پاکؑ کے سامنے زمین پر بیٹھنے ہی میں سعادت عظمیٰ سمجھتا ہے۔

(حیات نورصفحہ188تا189)

بلا توقف تعمیل حکم

23؍اکتوبر1905ء کو حضرت مسیح پاک علیہ السلام حضرت ام المومنینؓ کو آپ کے خویش واقارب سے ملانے کے لیے دہلی تشریف لائے۔ ابھی دہلی پہنچے چند دن ہی ہوئے تھے کہ حضور علیہ السلام کو نقرس کی تکلیف ہوگئی۔ اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفۃ المسیح لاوّلؓ کو تار دلوائی کہ فوراً دلی پہنچ جائیں۔ تار لکھنے والے نے تار میں بلاتوقف کے الفاظ لکھ دیے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کو جب یہ تار پہنچی تو اس وقت آپ اپنے مطب میں تشریف رکھتے تھے۔ تار کے ملتے ہی یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ حضرت صاحبؑ نے بلا توقف بلایا ہے میں جاتاہوں اور گھر میں قدم تک رکھنے کے بغیر سیدھے اڈہ خانہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ کیفیت یہ تھی کہ اس وقت نہ جیب میں خرچ تھا اور نہ ساتھ کوئی بستر وغیرہ۔ گھر والوں کو اطلاع ملی تو پیچھے سے ایک کمبل تو کسی شخص کے ہاتھ بھجوا دیا مگر خرچ کا انہیں بھی خیال نہ آیا اور شاید اس وقت گھر میں کوئی رقم ہوگی بھی نہیں۔ اڈہ خانہ پہنچ کر حضرت خلیفہ اوّلؓ نے یکہ لیا اور بٹالہ پہنچ گے مگر ٹکٹ خریدنے کا کوئی سامان نہیں تھا۔ چونکہ گاڑی میں کچھ وقت تھا۔ آپ خداپر توکل کر کے اسٹیشن پرٹہلنے لگ گئے۔ اتنے میں ایک ہندو رئیس آیا اور حضرت خلیفہ اولؓ کو دیکھ کر عرض کی کہ میری بیوی بہت بیمار ہے آپ تکلیف فرما کر میرے ساتھ تشریف لے چلیں اور اسے میرے گھر پر دیکھ آئیں۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے فرمایا کہ میں تو امام کے حکم پر دلی جارہا ہوں اور گاڑی کا وقت ہونے والا ہے۔ میں اس وقت نہیں جاسکتا۔ اس نے عرض کیا کہ میں اپنی بیوی کو یہیں اسٹیشن پر لے آتاہوں آپ اسے یہیں دیکھ لیں۔ آپ نے فرمایا اگر یہاں لے آؤ اور گاڑی میں کچھ وقت ہوا تو میں دیکھ لوں گا۔ چنانچہ وہ اپنی بیوی کو سٹیشن پر لایا اور آپ نے اسے دیکھ کر نسخہ لکھ دیا۔ یہ ہندو رئیس چپکے سے گیا اور دلی کا ٹکٹ لاکر حضرت خلیفہ اولؓ کے حوالہ کیا اور ساتھ ہی معقول نقدی بھی پیش کی۔ اور اس طرح آپ 29اکتوبر 1905ءکو قادیان سے دہلی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوگے۔ (تاریخ احمدیہ جلد 2صفحہ425-426، حیات نور صفحہ285)اور جب وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس طرح نہیں فرمایا تھا کہ فوری آجائیں تار لکھنے والے نے تار میں لکھ دیا تھا فوری پہنچیں۔ لیکن کوئی شکوہ نہیں کہ اس طرح میں آیا ہوں کیوں مجھے تنگ کیا بلکہ بڑی خوشی سے وہاں بیٹھے ہیں …تو یہ اطاعت کا اعلیٰ درجے کا معیارہے۔ کہ ہر سوچ اور ہر فکر، حکم کے آگے بے حیثیت ہے… اور ایسے ہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنی پسندیدگی کا اظہار فرماتاہے۔ پس یہ ہمارے لیے بھی اسوہ ہے۔

(ماخوذ ازخطبہ جمعہ فرمودہ22؍اپریل 2011ءمطبوعہ خطبات مسرور جلد 9صفحہ 204تا205)

صوفی ترقی کرے تو نورالدین بنتاہے

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی اطاعت کسی کمزوری کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ محض خدا کی رضا کی خاطر تھی۔ غیروں کی نظر میں بھی آپؓ کا ایک عظیم مقام تھا۔ سر سید احمد خان بانی علی گڑھ کالج اپنے ایک خط محررہ 8؍مارچ 1897ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے سوال کا جواب ان الفاظ میں دیتے ہیں :

’’آپ نے تحریر فرمایا کہ جاہل پڑھ کر جب ترقی کرتا ہے تو پڑھا لکھا کہلاتاہے۔ مگر جب اور ترقی کرتاہے توفلسفی بننے لگتاہے۔ پھر ترقی کرے تو اسے صوفی بننا پڑتا ہے۔ جب یہ ترقی کرے تو کیا بنتاہے۔ …اس کا جواب اپنے مذاق کے موافق عرض کرتا ہوں کہ جب صوفی ترقی کرتاہے تو مولانا نورالدین ہوجاتاہے‘‘

(’’مکتوبات سرسید‘‘ جلد دوم مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی ناشر مجلس ترقی ادب کلب روڈ لاہور طبع ثانی جو ن 1985ء بحوالہ از روزنامہ الفضل خلافت جوبلی نمبر 3؍دسمبر2008ءصفحہ113)

جماعت کو آخری نصیحت

جب خلافت کے منصب پر آپ فائز ہوئے تو جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’آخر میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں اور یہ وصیت کرتا ہوں کہ تمہارا اعتصام حبلُ اللہ کے ساتھ ہو۔ قرآن تمہارا دستور العمل ہو۔ باہم کوئی تنازع نہ ہو کیونکہ تنازع فیضان الٰہی کو روکتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم جنگل میں اسی نقص کی وجہ سے ہلاک ہوئی۔ رسول اللہﷺ کی قوم نے احتیاط کی اور وہ کامیاب ہوگئے۔ اب تیسری مرتبہ تمہاری باری آئی ہے۔ اس لیے چاہیے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میت غسّال کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تمہارے ارادے اور خواہشیں مردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ۔ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں۔ استغفار کثرت سے کرو اور دعاؤں میں لگے رہو۔ وحدت کو ہاتھ سے نہ دو۔ دوسرے کے ساتھ نیکی خوش معاملگی میں کوتاہی نہ کرو۔ تیرہ سو برس بعد یہ زمانہ ملا ہے اورآئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا۔ پس اس نعمت کا شکر کرو۔ کیونکہ شکر کرنے پر ازدیادِ نعمت ہوتا ہے۔

لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَأَزِیۡدَنَّکُمۡ (ابراہیم:8)۔

لیکن جو شکر نہیں کرتا وہ یاد رکھے :

اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ(ابراہیم:8)۔‘‘

(خطباتِ نورصفحہ131)

پس ہم سب کا فرض ہے کہ ہم دلی بشاشت سے لذت و سرور محسوس کرتے ہوئے اپنے امام کی ہر بات ماننے والے ہوں۔ ہم اپنے امام کی ہر امر میں اس طرح پیروی کرنے والے ہوں جس طرح میت غسال کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ہم خلافت احمدیہ کی خاطر اپنی جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کےلیے ہردم تیار ہوں اور اپنی اولاد در اولاد کو خلافت احمدیہ سے وابستہ رہنے کی تلقین کرنے والے ہوں خلافت احمدیہ کی محبت اور اطاعت ہمارے چہروں سے اس طرح جھلک رہی ہو کہ دیکھنے والا ہر دشمن جاکے اس بات کی گواہی دے کہ تم لوگ خلافت احمدیہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے کیونکہ اس کے چاہنے والے انسان نہیں موتیں ہیں جو خلافت احمدیہ کی خاطر اپنا تن من دھن قربان کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

منضبط یہ رشتۂ طاعت، قیادت ہو ہمیش

سر پہ اپنے سایۂ ابرِ خلافت ہو ہمیش

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button