بنیادی مسائل کے جواباتمتفرق مضامین

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط نمبر 5)

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھے جانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروزجوابات)

٭…کیا اسلام بر سر پیکار دشمن کی عورتوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنے اور ان کو بیچنے کی اجازت دیتا ہے؟
٭… جب ہم کہتے ہیں کہ کسی کی نظر لگ گئی یا مظلوم کی بد دعا سے کوئی پریشانی یا تکلیف پہنچی ہے تو کیا یہ سوچ شرک کے زمرہ میں تو نہیں آتی؟
٭…کیا ایک احمدی مسلمان عورت کےلیے اپنے پاؤں کو پردہ سے باہر رکھنا جائز ہے؟
٭…اللہ تعالیٰ کے فضل سے انڈونیشین جماعت کو قائم ہوئے 2025ء میں سو سال پورے ہو جائیں گے، ایسے موقع پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کےلیے کیا کرنا چاہیے؟
٭…حضور جب طالب علم تھے اور آپ کے سامنے کوئی مشکل آجاتی تھی تواس وقت آپ کونسی دعائیں کیا کرتے تھے؟

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ مجھے یہ معلوم کر کے شدید دھچکا لگا کہ اسلام بر سر پیکار دشمن کی عورتوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنے اور ان کو بیچنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ بات میرے لیے بہت حوصلہ شکن تھی۔ پھر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت کے بعد مجھے امید تھی کہ آپ اس بات کی تردید فرمائیں گے اور اسلام کو اس نظریہ سے پاک قرار دیں گے لیکن میں نے ایسا نہیں پایا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 3؍مارچ 2018ء میں اس سوال کا نہایت بصیرت افروز جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:اصل بات یہ ہے کہ اس مسئلہ کی اچھی طرح وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں پیداہوجاتی ہیں اور ان غلط فہمیوں کی تردید حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی تحریرات میں فرمائی ہے اورآپ کے خلفاء بھی حسب موقعہ وقتاً فوقتاً اس کی تردیدکرتے رہے اور اصل تعلیم بیان فرماتے رہے ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ اسلام برسرپیکار دشمن کی عورتوں کے ساتھ صرف اس وجہ سے کہ وہ برسر پیکار ہیں قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ جوبھی دشمن ہے ان کی عورتوں کوپکڑلاؤاور اپنی لونڈیاں بنالو۔

اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب تک خونریزجنگ نہ ہو تب تک کسی کو قیدی نہیں بنایاجاسکتا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ (الانفال:68)

کسى نبى کےلیے جائز نہىں کہ زمىن مىں خونرىز جنگ کئے بغىر قىدى بنائے۔ تم دنىا کى متاع چاہتے ہو جبکہ اللہ آخرت پسند کرتا ہے اور اللہ کامل غلبہ والا (اور) بہت حکمت والا ہے۔

پس جب خونریزجنگ کی شرط لگا دی تو پھر میدان جنگ میں صرف وہی عورتیں قیدی کے طور پر پکڑی جاتی تھیں جو محاربت کےلیے وہاں موجودہوتی تھیں۔ اس لیے وہ صرف عورتیں نہیں ہوتی تھیں بلکہ حربی دشمن کے طورپر وہاں آئی ہوتی تھیں۔

علاوہ ازیں جب اس وقت کے جنگی قوانین اوراس زمانہ کے رواج کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہےکہ اس زمانہ میں جب جنگ ہوتی تھی تو دونوں فریق ایک دوسرے کےافراد کو خواہ وہ مردہوں یابچے یاعورتیں قیدی کے طور پر غلام اورلونڈی بنا لیتے تھے۔ اس لیے

وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا(الشوریٰ:41)

کے تحت ان کے اپنے ہی قوانین کے تابع جوکہ فریقین کو تسلیم ہوتےتھے، مسلمانوں کا ایسا کرنا کوئی قابل اعتراض امر نہیں ٹھہرتا۔ خصوصاً جب اسے اس زمانہ، ماحول اورعلاقہ کے قوانین کے تناظرمیں دیکھا جائے۔ اس زمانہ میں برسرپیکار فریقین اس وقت کےمروجہ قواعد اور دستورکے مطابق ہی جنگ کررہے ہوتے تھے۔ اور جنگ کے تمام قواعدفریقین پرمکمل طورپرچسپاں ہوتے تھے، جس پر دوسرے فریق کو کوئی اعتراض نہ ہوتا تھا۔ یہ امور قابل اعتراض تب ہوتے جب مسلمان ان مسلمہ قواعدسے انحراف کر کے ایسا کرتے۔

اس کے باوجود قرآن کریم نے ایک اصولی تعلیم کے ساتھ ان تمام جنگی قواعدکو بھی باندھ دیا۔ فرمایا

فَاعۡتَدُوۡا عَلَیۡہِ بِمِثۡلِ مَا اعۡتَدٰی عَلَیۡکُمۡ(البقرۃ:195)

یعنی جوتم پرزیادتی کرے توتم بھی اس پرویسی ہی زیادتی کروجیسی اس نے تم پرکی ہو۔ پھرفرمایا

فَمَنِ اعۡتَدٰی بَعۡدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ (المائدۃ:95)

یعنی جواس کے بعد حدسے تجاوزکرے گا اس کےلیے دردناک عذاب ہوگا۔

یہ وہ اصولی تعلیم ہے جو سابقہ تمام مذاہب کی تعلیمات پربھی امتیازی فضیلت رکھتی ہے۔ بائبل اور دیگر مذاہب کی کتب مقدسہ میں موجودجنگی تعلیمات کامطالعہ کیاجائے تو ان میں دشمن کوتہس نہس کرکے رکھ دینے کی تعلیم ملتی ہے۔ مردوعورت تو ایک طرف رہے ان کے بچوں، جانوروں اور گھروں تک کولوٹ لینے، جلادینے اور ختم کردینے کے احکامات ان میں ملتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم نے ان حالات میں بھی جبکہ فریقین کو اپنے جذبات پرکوئی قابونہیں رہتا اورد ونوں ایک دوسرے کومارنے کے درپے ہوتے ہیں اور جذبات اتنے مشتعل ہوتے ہیں کہ مارنے کے بعد بھی جذبات سردنہیں پڑتے اور دشمن کی لاشوں کوپامال کرکے غصہ ٹھنڈاکیاجاتاہے، ایسی تعلیم دی کہ گویامنہ زورگھوڑوں کولگام ڈالی ہواور صحابہؓ نے اس پرایسا خوبصورت عمل کرکے دکھایا کہ تاریخ ایسے سینکڑوں قابل رشک واقعات سے بھری پڑی ہے۔

اس زمانہ میں کفارمسلمان عورتوں کوقیدی بنالیتے اور ان سے بہت ہی نارواسلوک کرتے۔ قیدی توالگ رہے وہ تو مسلمان مقتولوں کی نعشوں کا مثلہ کرتے ہوئے ان کے ناک کان کاٹ دیتے تھے۔ ہندہ کاحضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کاکلیجہ چبانا کون بھول سکتاہے۔ لیکن ایسے مواقع پر بھی مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی کہ ہرچندکہ وہ میدان جنگ میں ہیں لیکن پھر بھی کسی عورت اورکسی بچے پرتلوارنہیں اٹھانی اور مُثلہ سے مطلقاً منع فرما کر دشمنوں کی لاشوں کی بھی حرمت قائم فرمائی۔

جہاں تک لونڈیوں کا مسئلہ ہے تواس بارہ میں اس امر کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جبکہ دشمن اسلام مسلمانوں کو طرح طرح کے ظلموں کا نشانہ بناتے تھے اور اگر کسی غریب مظلوم مسلمان کی عورت ان کے ہاتھ آجاتی تو وہ اسے لونڈی کے طور پر اپنی عورتوں میں داخل کر لیتے تھے۔ چنانچہ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَاکی قرآنی تعلیم کے مطابق ایسی عورتیں جو اسلام پر حملہ کرنے والے لشکر کے ساتھ ان کی مدد کےلیے آتی تھیں اور اُس زمانہ کے رواج کے مطابق جنگ میں بطور لونڈی کےقید کر لی جاتی تھیں۔ اور پھر دشمن کی یہ عورتیں جب تاوان کی ادائیگی یا مکاتبت کے طریق کو اختیار کر کے آزادی بھی حاصل نہیں کرتی تھیں تو ایسی عورتوں سے نکاح کے بعد ہی ازدواجی تعلقات قائم ہو سکتے تھے۔ لیکن اس نکاح کےلیے اس لونڈی کی رضامندی ضروری نہیں ہوتی تھی۔ اسی طرح ایسی لونڈی سے نکاح کے نتیجہ میں مرد کےلیے چار شادیوں تک کی اجازت پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا یعنی ایک مرد چار شادیوں کے بعد بھی مذکورہ قسم کی لونڈی سے نکاح کر سکتا تھا۔ لیکن اگر اس لونڈی کے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا تھا تو وہ ام الولدکے طور پر آزاد ہو جاتی تھی۔

علاوہ ازیں اسلام نے لونڈیوں سے حسن سلوک کرنے، ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنے اور انہیں آزاد کر دینے کو ثواب کا موجب قرار دیا۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے :

قَالَ النَّبِيُّﷺ أَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ جَارِيَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا وَأَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ۔

(صحیح بخاری کتاب العتق بَابُ العَبْدِ إِذَا أَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ وَنَصَحَ سَيِّدَهُ)

یعنی نبی کریمﷺ نے فرمایا جس شخص کے پاس لونڈی ہو اور وہ اسے نہایت اچھے آداب سکھائے اور پھر اسے آزادکرکے اس سے شادی کرلے تو اس کو دوہرا ثواب ملے گا۔

رویفع بن ثابت انصاری روایت کرتے ہیں :

سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِﷺ يَقُولُ يَوْمَ حُنَيْنٍ قَالَ لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ۔ يَعْنِي إِتْيَانَ الْحَبَالَى۔ وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَقَعَ عَلَى امْرَأَةٍ مِنَ السَّبْيِ حَتَّى يَسْتَبْرِئَهَا وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَبِيعَ مَغْنَمًا حَتَّى يُقْسَمَ۔

(سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب فِي وَطْئِ السَّبَايَا)

میں نے رسول اللہﷺ کو حنین کے دن فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کےلیے جائز نہیں کہ وہ اپنا پانی کسی اور کی کھیتی میں لگائے۔ یعنی حاملہ عورتوں سے ازدواجی تعلق قائم کرے۔ اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کےلیے جائز نہیں کہ قیدی عورت سے وہ صحبت کرے جب تک کہ استبرائے رحم نہ ہو جائے۔ اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کےلیے جائز نہیں کہ وہ مال غنیمت کو تقسیم سے پہلے فروخت کرے۔

پس اصولی بات یہی ہے کہ اسلام انسانوں کو لونڈیاں اورغلام بنانے کے حق میں ہر گز نہیں ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں، اس وقت کےمخصوص حالات میں مجبوراً اس کی وقتی اجازت دی گئی تھی لیکن اسلام نے اورآنحضرتﷺ نے بڑی حکمت کے ساتھ ان کو بھی آزادکرنے کی ترغیب دی اور جب تک وہ خود آزادی حاصل نہیں کر لیتے تھے یا انہیں آزاد نہیں کر دیا جاتا تھا، ان سےحسن واحسان کے سلوک کی ہی تاکیدفرمائی گئی۔

اورجونہی یہ مخصوص حالات ختم ہوگئے اور ریاستی قوانین نے نئی شکل اختیارکرلی جیساکہ اب مروج ہے تواس کے ساتھ ہی لونڈیاں اور غلام بنانے کا جواز بھی ختم ہوگیا۔ اب اسلامی شریعت کی روسے لونڈی یاغلام رکھنے کاقطعاً کوئی جوازنہیں ہے۔ بلکہ حکم وعدل حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اب موجودہ حالات میں اس کوحرام قراردیاہے۔

سوال:ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ کسی کی نظر لگ گئی یا مظلوم کی بد دعا سے کوئی پریشانی یا تکلیف پہنچی ہے تو کیا یہ سوچ شرک کے زمرہ میں تو نہیں آتی؟ حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 7؍ مارچ 2018ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:نظر لگنے یا مظلوم کی بد دعا کے اثر ہونے کا شرک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں کیونکہ دونوں باتوں میں نتیجہ خدا تعالیٰ کی ذات نکالتی ہے نہ کہ نظر ڈالنے والا یا مظلوم خود کچھ کر تا ہے۔ نظر ڈالنے والے کی طرف سے تو صرف ایک غیر ارادی خواہش کا اظہار ہوتا ہے یا مظلوم کی درد سے ایک آہ اٹھتی ہے جسے خدا تعالیٰ قبول کر کے نتیجہ مترتب فرماتا ہے، لہٰذا ہر دو معاملات کا شرک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں خصوصاً جبکہ دونوں باتیں احادیث نبویہﷺ سے ثابت ہیں۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ حضورﷺ نے نصیحت فرمائی کہ

اتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللّٰهِ حِجَابٌ

(صحیح بخاری کتاب المظالم والغصب) یعنی مظلوم کی بد دعا سے ڈرو اس لیے کہ اس کی بد دعا اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ اسی طرح حضورﷺ نے فرمایا

الْعَيْنُ حَقٌّ وَنَهَى عَنْ الْوَشْمِ

(صحیح بخاری کتاب الطب)یعنی حضورﷺ نے فرمایا کہ نظر کا لگ جانا حق ہے نیز آپﷺ نے جسم گدوانے سے منع فرمایا۔

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کہ کیا ایک احمدی مسلمان عورت کےلیے اپنے پاؤں کو پردہ سے باہر رکھنا جائز ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 3؍مئی 2018ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:قرآن کریم نے جہاں پردہ کے احکامات بیان فرمائے ہیں وہاں پہلے مومن مردوں کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں۔ اس کے بعد مومن عورتوں کےلیے پردہ کے احکامات بیان فرماتے ہوئے انہیں پہلا حکم یہی دیا کہ مومن عورتیں بھی اپنی نظریں نیچی رکھا کریں۔ اور پھر انہیں کہا کہ وہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں۔ اور اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ لوگوں پر وہ ظاہر کر دیا جائے جو عورتیں عموماً اپنی زینت میں سے چھپاتی ہیں۔

پاؤں زمین پر نہ مارنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اگر پاؤں میں کوئی زیور(پازیب وغیرہ) پہنی ہوئی ہے تو اس کی چھنکارسے لوگوں کی توجہ اس خاتون کی طرف ہو سکتی ہے اور غیروں کی نظریں اس پر اٹھ سکتی ہیں جو پردہ کے حکم کے منافی ہے۔

اسی طرح اگر پاؤں پر مہندی یا نیل پالش وغیرہ لگا کر ان کاسنگھار کیا گیا ہے تو ایسے پاؤں غیر مردوں کےلیے کشش کا موجب ہو سکتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ غیرمردوں کی نظریں ایسی عورت پر اٹھیں گی، جس سے پردہ کے احکامات کی خلاف ورزی ہو گی۔ لیکن اگر پاؤں پر کسی قسم کا بناؤ سنگھار نہیں کیا گیاتو ایسے پاؤں سے چونکہ کوئی کشش پیدا نہیں ہو سکتی ہے اور نہ ہی بے پردگی کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے اگر انہیں پردہ میں نہ بھی رکھا جائے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔

احادیث میں بھی پردہ کے بارہ میں مختلف ہدایات ملتی ہیں۔ ایک حدیث میں حضورﷺ نے عورت کے چہرہ اور ہاتھوں کے علاوہ اس کے جسم کے باقی حصہ کے پردہ کا حکم دیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضورﷺ سے پوچھا گیا کہ اگر عورت کے پاس تہ بند نہ ہو تو کیا وہ صرف اوڑھنی اور قمیص میں نماز پڑھ سکتی ہے؟ اس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ بشرطیکہ اس کی قمیض اتنی لمبی ہو کہ اس کے پاؤں کی پشت کو بھی ڈھک دے۔ ایک روایت میں ہے کہ جنگ احد کے موقعہ پر حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلیمؓ اپنی تہ بند اوپر اٹھا کر پانی کی مشکیں بھر بھر کر لا رہی تھیں اور مردوں کو پانی پلا رہی تھیں، راوی کہتے ہیں کہ اس حالت میں ان کے پاؤں کی پازیبیں دکھائی دے رہی تھیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام پردہ سے متعلق قرآنی آیات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں سے بچائیں یعنی ان کی پرشہوت آوازیں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہو کر سر پر آجائے۔ یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں۔ ‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 341-342)

شرعی پردہ کو بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’شرعی پردہ یہ ہے کہ چادر کو حلقہ کے طور پر کر کے اپنے سر کے بالوں کو کچھ حصہ پیشانی اور زنخدان کے ساتھ بالکل ڈھانک لیں اور ہر ایک زینت کا مقام ڈھانک لیں۔ مثلاً منہ پر ارد گرد اس طرح پر چادر ہو (اس جگہ انسان کے چہرہ کی شکل دکھا کر جن مقامات پر پردہ نہیں ہے ان کو کھلا رکھ کر باقی پردہ کے نیچے دکھایا گیا ہے) اس قسم کے پردہ کو انگلستان کی عورتیں آسانی سے برداشت کر سکتی ہیں اور اس طرح پر سیر کرنے میں کچھ حرج نہیں آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔ ‘‘

(ریویو آف ریلیجنز جلد 4نمبر1صفحہ 17جنوری 1905ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ غض بصرکی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس کا مقصدمرد اور عورت کی نگاہوں کو آپس میں ملنے سے بچانا ہے ورنہ جو عورت بھی باہر نکلے گی اس کے پاؤں اور اس کی چال اور اس کا قد اور اس کے ہاتھوں کی حرکت اور ایسی ہی کئی چیزیں مردوں کو نظر آئیں گی۔

(تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 298)

پس مذکورہ بالانصوص سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کے جسم کا ہر وہ حصہ جو اس کی زینت کے زمرہ میں آتا ہو اور غیر محرم کےلیے کشش کا باعث ہو، عام حالات میں اس کا پردہ کرنا عورت پر لازم ہے۔

سوال:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ طلباء جامعہ احمدیہ انڈونیشیا کی 6؍نومبر 2020ء کو ہونے والی Virtual ملاقات میں ایک طالب علم نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انڈونیشین جماعت کو قائم ہوئے 2025ء میں سو سال پورے ہو جائیں گے، ہمیں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کےلیے کیا کرنا چاہیے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کے جواب میں فرمایا:

جواب:سو سال پورے ہونے پہ آپ یہ ٹارگٹ رکھیں کہ پانچ سال میں آپ نے کم از کم ایک لاکھ بیعتیں کروانی ہیں۔ اور ہرجو احمدی ہے اس کو آپ نے باجماعت نمازی بنانا ہے۔ ہر احمدی کو باقاعدہ قرآن کریم پڑھنے والا بنانا ہے۔ ہر احمدی کو خلافت سے تعلق رکھنے والا بنانا ہے۔ ہر احمدی کو آنحضرتﷺ پر درود بھیجنے والا بنانا ہے۔ ٹھیک ہے؟بس یہ کام کر لیں تو بہت کچھ آپ نے کرلیاہے۔

سوال:اسی ملاقات مؤرخہ6؍نومبر2020ءمیں ایک طالب علم نے حضورانور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضور جب طالب علم تھے اور آپ کے سامنے کوئی مشکل آجاتی تھی تواس وقت آپ کونسی دعائیں کیا کرتے تھے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےاس سوال کا جواب عطا فرماتے ہوئے فرمایا:

جواب:کوئی خاص دعا نہیں ہوتی تھی، بس میں تو سجدہ میں پڑ جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ سے کہتا تھا کہ مسئلہ حل کر دے۔ بس نماز اور سجدہ۔ نماز میں سجدہ میں اپنی زبان میں دعائیں کریں جو بھی دعائیں کرنی ہیں۔ انسان اپنی زبان میں جو دعا کرتا ہےاس میں زیادہ رقت پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے باقی دعائیں تو ٹھیک ہے کرنی چاہئیں، درود شریف بھی پڑھنا چاہیے، استغفار بھی پڑھنا چاہیے، لاحول بھی پڑھنا چاہیے، استغفار کرتے ہوئےاپنے گناہوں سے معافی بھی مانگنی چاہیے۔ لیکن سب سے زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ نماز میں سجدہ میں دعائیں کرو۔ نفل پڑھو اور نفلوں میں، سنتوں میں، فرض میں اللہ تعالیٰ کے آگے رو کر سجدہ میں اپنی زبان میں دعا کرو۔ اپنی زبان میں جو دعا ہوتی ہےاس میں زیادہ رقت پیدا ہوتی ہےاور اس سے مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔

( ظہیر احمد خان۔مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button