حضور انور کے ساتھ ملاقاتیورپ (رپورٹس)

سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل عاملہ جماعت احمدیہ بیلجیم کی (آن لائن) ملاقات

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

٭… رپورٹیں آپ کی سوفیصد آنی چاہئیں ٭…پہلے تو تمام عاملہ ممبران سے وقت لیں، وقفِ عارضی کا فارم پُر کروائیں۔ ان سے وقت لیں کہ یہ سال میں دو ہفتہ کی وقفِ عارضی کریں گے، کس کس ماہ کریں گے اور کہاں کہاں کریں گے۔ ٭…پندرہ سے پچیس سال کے خدام کی تعداد بھی معلوم ہونی چاہیے تاکہ ان کے مطابق ان کے پروگرام رکھے جاسکیں اور پچیس سے چالیس سال کے خدام کی تعداد بھی معلوم ہونی چاہیے اور ان کے مطابق ان کے پروگرام رکھنے چاہئیں۔ ٭…جائزہ لیں اور لوگوں کو توجہ دلائیں اور آجکل تو ویسے ہی سب کی توجہ ہوئی ہوئی ہے۔ گھر میں بیٹھے ہیں تو جائزہ لیں کہ گھروں میں نمازباجماعت کا انتظام ہو رہا ہے کہ نہیں ، حالات ٹھیک ہیں تو دیکھیں کہ مسجد یا نماز سینٹر میں نماز باجماعت کا انتظام ہو رہا ہے کہ نہیں۔ گھروں میں قرآنِ کریم پڑھنے کا رواج ہے کہ نہیں، بیوی بچوں سب کی نگرانی ہو رہی ہے۔ مرد عورتیں اور بچے سب قرآنِ کریم پڑھتے ہیں کہ نہیں، نمازوں میں باقاعدگی ہے کہ نہیں۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دعا سے میٹنگ کا آغاز فرمایا۔ دعا کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے جگہ اور سیٹنگ ارینجمنٹ کے حوالہ سے دریافت فرمایا۔ اس پر امیر صاحب نے عرض کیا کہ ہم اوکل(Uccle) کی مسجد بیت المجیب کے مردانہ ہال میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ دائیں طرف نائب امیرصاحب اور بائیں جانب مبلغ انچارج صاحب بیٹھے ہیں اور مبلغ انچارج سے آگے بائیں جانب جنرل سیکرٹری صاحب ہیں۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے جنرل سیکرٹری صاحب سے دریافت فرمایا کہ کل کتنی جماعتیں ہیں اور کتنی جماعتیں باقاعدگی سے رپورٹ بھجواتی ہیں۔

٭… جنرل سیکرٹری صاحب نے عرض کیا کہ کل 14 جماعتیں ہیں او ر پچھلے مہینہ میں کل 8 رپورٹیں ملی ہیں۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ آپ سے 14 جماعتوں کو بھی سنبھالا نہیں جاتا، یہ تو تھوڑی سی جماعتیں ہیں، سو فیصد رپورٹیں آنی چاہئیں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ آپ خود کیا کرتے ہیں۔ اس پر جنرل سیکرٹری صاحب نے عرض کیا کہ میں آئی ٹی سسٹم انجینئر ہوں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، بس جماعتوں کو سنبھالیں۔ رپورٹیں آپ کی سوفیصد آنی چاہئیں۔ اس عرصہ میں آپ نے کوئی خاص کام کیا ہے؟

٭… اس پر جنرل سیکرٹری صاحب نے عرض کیا کہ حضور عہدہ ملے ہوئے ابھی تھوڑا عرصہ ہی ہوا ہے، کچھ کام سیکھ رہا ہوں اور چیزیں maintainکر رہا ہوں۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ جو رپورٹس آتی ہیں،ان پر تبصرہ بھی کرتے ہیں؟ امیر جماعت یا سیکرٹریان یا آپ کوئی تبصرہ یا کوئی comments بھجواتے ہیں؟ اس پر جنرل سیکرٹری صاحب نے بتایا کہ فی الحال تو جماعتوں کی طرف سے رپورٹس بھجوانے میں کافی کمزور ی تھی، اس پر کام ہو رہا ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ رپورٹیں حاصل کرسکیں۔ رپورٹس کے حوالہ سے صرف رسیدگی کی اطلاع دی جاتی ہے کہ مل گئی ہیں۔

٭… اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نےفرمایا کہ یہ تو صحیح نہیں ہے۔ تبصرہ ہونا چاہیے تاکہ انہیں پتہ چلے کہ ان کے کام کا جائزہ لیا گیا ہے اور آگے کہاں بہتری کرنی ہے۔ جب ان کو تبصرہ ہی نہیں جاتا تو وہ تو یہی سمجھیں گے کہ بس اتنا ہی کام کافی ہے کہ رپورٹ بنا کر بھیج دی، چاہے کچھ کام ہوا یا نہیں ہوا۔

٭… اس کے بعد صدر مجلس انصار اللہ نے اپنا تعارف کروایا۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے مجلس انصار اللہ بیلجیم کی تجنید کے حوالہ سے دریافت فرمایا؟ صدر صاحب نے عرض کیا کُل343 انصار ہیں۔

٭… بعد ازاں صدر مجلس خدام الاحمدیہ جو کہ مربی سلسلہ بھی ہیں نے اپنا تعارف کروایا۔

٭… اس کے بعد سیکرٹری تعلیم القرآن و وقفِ عارضی جو کہ مربی سلسلہ ہیں۔ انہوں نے تعارف میں اپنے شعبہ کا نام صرف سیکرٹری تعلیم القرآن کہا تھا۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ آپ کے شعبہ کا مکمل نام تعلیم القرآن و وقفِ عارضی ہے۔ پھر فرمایا کہ آپ یہ بتائیں کہ آپ کی عاملہ کے کتنے افراد نے گذشتہ سال جولائی سے لے کر اب تک وقفِ عارضی کی ہے۔ الیکشن ٹرم کو شروع ہوئے اب سوا سال ہو چکا ہے۔

٭… اس پر سیکرٹری تعلیم القرآن و وقفِ عارضی نے عرض کیا کہ میرے علم کے مطابق تو کسی نے نہیں کی۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ نے مسکراتے ہوئے فرمایا؛ ’چراغ تلے اندھیرا‘۔ اگر آپ لوگوں نے وقفِ عارضی نہیں کی تو پھر اور کون کرے گا۔ اب یہ بتائیں کہ یہ جو آپ کی عاملہ کے ممبران بیٹھے ہوئے ہیں، ان میں سے کتنے افراد بچوں کو یا کسی فرد کو بھی قرآنِ کریم پڑھا رہے ہیں۔ اس پر سیکرٹری تعلیم القرآن و وقفِ عارضی نے عرض کیا کہ اس وقت عاملہ کے ممبران میں سے تو کوئی قرآنِ کریم نہیں پڑھا رہا ، لیکن مربیان کلاسز لیتے ہیں۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ مربیان کو چھوڑیں ، میں نیشنل عاملہ کی بات کررہا ہوں۔ ا گر عاملہ ممبران کام نہیں کررہے تو باقیوں پر کیا اثر ہوگا۔ پہلے تو آپ اپنے سامنے سے شروع کریں، اپنے گھر سے شروع کریں۔ صرف وہی گھر نہیں ہے جو آپ کے بیوی بچوں والا ہے، یہ بھی آپ کا گھر ہے۔ بیوی بچے کا تو گھر ہے ہی، ہر سیکرٹری کا گھر اس کی اپنی عاملہ بھی ہے اور پھر جس علاقہ میں وہ رہتا ہے، وہ بھی اس کا گھر ہے۔ وہاں اگر کام نہیں کریں گے تو لوگوں کو کام کرنے کی عادت ہی نہیں پڑے گی۔ آپ کا نمونہ دیکھیں گے نہیں تو وہ سامنے کیسے آئیں گے۔ اس لیے پہلے تو تمام عاملہ ممبران سے وقت لیں، وقفِ عارضی کا فارم پُر کروائیں۔ ان سے وقت لیں کہ یہ سال میں دو ہفتہ کی وقفِ عارضی کریں گے، کس کس ماہ کریں گے اور کہاں کہاں کریں گے۔ پھر جہاں جہاں یہ رہتے ہیں وہاں کے صدران سے یہ جائزہ لیں کہ کتنے افراد ہیں جو قرآنِ کریم پڑھنا جانتے ہیں، جو نہیں جانتے کیا ان کو قرآنِ کریم پڑھانے کا کوئی انتظام ہے یا نہیں؟ انتظام نہیں ہے تو دیکھیں کہ یہ عاملہ ممبران پڑھا رہے ہیں یا نہیں پڑھا رہے۔ اگر کوئی ایسا نہیں ہے جو قرآنِ کریم نہ جانتا ہو تو پھر اپنے گھر میں ہی پڑھائیں۔ یہاں سے تو شروع کریں۔ پھر آپ کی جو 14 جماعتیں ہیں، ان کے صدران اور لوکل عاملہ کو کہیں کہ وہ اپنا نمونہ دکھائیں۔ پھر انصار اللہ کی عاملہ کو کہیں کہ وہ اپنی عاملہ کو کہے، وہ وقفِ عارضی کے لیے نمونہ دکھائیں اور قرآنِ کریم پڑھانے کا نمونہ دکھائیں، پھر خدام الاحمدیہ کو کہیں ، پھر لجنہ کو کہیں۔ اگر آپ اس طرح صرف عاملہ کو ہی قابو کرلیں ، ہر سطح پر، جماعتی بھی اور ذیلی تنظیموں کی بھی تو 80 فیصد تو آپ کا کام ہو گیا۔ صرف کاغذ فِل کرنا اور لوگوں کے پیچھے پڑنا تو مقصد نہیں ہے۔ عہدیدار اگر خود اپنا نمونہ دکھائے گا تو لوگ خود بخود کام کرنا شروع کردیں گے۔

٭… اس پر سیکرٹری تعلیم القرآن و وقفِ عارضی نے عرض کیا کہ ہم ان شاء اللہ ان نصائح پر عمل کریں گے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نےمسکراتے ہوئے فرمایا؛ ’صرف جزاک اللہ کہنا کافی نہیں ہے، جزاک اللہ کہہ کر بیٹھ نہ جائیں۔ اب اس پر عمل ہونا چاہیے اور ایک مہینہ کے بعد مجھے رپورٹ بھیجنی ہے کہ یہ جو باتیں کہی تھیں اس کا کیا نتیجہ نکلا۔

٭… بعد ازاں سیکرٹری اشاعت نے اپنا تعارف کروایا۔ یہ بھی مربی سلسلہ ہیں۔ انہوں نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ ہم ’السلام‘ کے نام سے سہ ماہی رسالہ نکال رہے ہیں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ کیا یہ باقاعدگی سے نکلتا ہے اور کتنے صفحات کا ہوتا ہے؟ اس پر سیکرٹری اشاعت نے عرض کیا کہ اس سال تو اب تک تین رسالے نکالے ہیں۔ گذشتہ رسالہ 52 صفحات پر مشتمل تھا۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز کے استفسار پر سیکرٹری اشاعت نے عرض کیا کہ یہ رسالہ فرنچ اور ڈچ میں ہے اور اردو میں بھی مضامین دیتے ہیں۔ عموماً تینوں زبانوں میں مضامین ہوتے ہیں۔ جماعتوں کو ان کی ڈیمانڈ کے مطابق رسائل بھجوا دیے جاتے ہیں۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشادفرمایا کہ آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ ملک میں اردو بولنے والے، فلیمش بولنے والے اور فرنچ بولنے والے کتنے افراد ہیں۔ پھر بنگالی بھی ہیں، افریقن بھی ہیں۔ عربی بولنے والے کتنے ہیں، ان کے لیے کیا کررہے ہیں۔ پھر رسالہ ’التقویٰ‘ ہے، عرب لوگ یہ رسالہ دیکھتے ہیں؟ ان تک یہ رسالہ پہنچنا چاہیے۔

٭… اس کے بعد سیکرٹری وقفِ نو نے تعارف کروایا۔ یہ بھی مربی سلسلہ ہیں۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ’سارے مربیان کے پاس ہی کام ہیں، باقی جماعت کے افراد کام نہیں کرنا چاہتے؟ مربیان کو ہی Elect کر رہے ہیں کہ اپنا کام بھی کریں اور عاملہ کا کام بھی کریں۔‘

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے جنرل سیکرٹری صاحب سے جماعت کی تعداد اور کمانے والے افراد کی تعداد دریافت فرمائی۔ جنرل سیکرٹری صاحب نے عرض کیا کہ ہماری کل تجنید 1888 ہے اور ان میں سے 600 کے قریب افراد کمانے والے ہیں۔ لیکن معین تعداد سیکرٹری مال کے پاس ہو گی۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے صدر مجلس انصار اللہ سے دریافت فرمایا کہ آپ کی کل تعداد کتنی ہے؟ صدر انصار اللہ نے عرض کیا کہ انصار کی تعداد 343 ہے۔ پھر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے صدر مجلس خدام الاحمدیہ سے دریافت فرمایا کہ آپ کے بیس سال سے اوپر کے خدام کی تعداد کتنی ہے۔ اس پر صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے عرض کیا کہ ہماری کل تعداد 365 ہے، لیکن بیس سال کے اوپر کے خدام کی معین تعداد معلوم نہیں ہے۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ آپ کو یہ پتہ ہونا چاہیے۔ پندرہ سے پچیس سال کے خدام کی تعداد بھی معلوم ہونی چاہیے تاکہ ان کے مطابق ان کے پروگرام رکھے جاسکیں اور پچیس سے چالیس سال کے خدام کی تعداد بھی معلوم ہونی چاہیے اور ان کے مطابق ان کے پروگرام رکھنے چاہئیں۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کون اردو بولنے والے ہیں ، کون فلیمش بولنے والے ہیں، کون فرنچ بولنے والے ہیں۔ یہ سب اعداد و شمار ہونے چاہئیں۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے سیکرٹری وقفِ نو سے دریافت فرمایا کہ آپ کے وقفِ نو کتنے ہیں؟ سیکرٹری نے عرض کیا کہ تجنیدکے مطابق واقفینِ نو کی کل تعداد 299 ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ ان میں سے 15 سال سے اوپر کے کتنے ہیں؟ سیکرٹری وقفِ نو نے عرض کیا کہ اس طرح معین تعداد معلوم نہیں ہے۔

٭… اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ کیوں نہیں معلوم۔ سیکرٹری وقفِ نو ہونے کا کیا فائدہ ہے۔ ابھی تک یہ ہی سمجھ نہیں آئی کہ کام کیسے کرنا ہے۔ وقفِ نو کی تحریک کا آغاز ہوئے 33 سال ہو گئے ہیں ، ابھی تک بیلجیم جماعت کو یہ ہی پتہ نہیں چلا کہ فگرز کیسے اکٹھے کرنے ہیں، بار بار میں سرکلر بھیج رہا ہوں کہ 15سال کی عمر کے بعد وقف کے bond رینیو (renew)کرنے چاہئیں اور جب 18 سال کے یونیورسٹی جائیں تب بھی تجدید ہونی چاہیے۔ یہ bond فِل کروا رہے ہیں کہ وقف جاری رکھنا چاہتے ہیں کہ نہیں؟

٭… اس پر سیکرٹری وقفِ نو نے عرض کیا کہ کچھ نے بھیجا ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ ’کچھ نے بھیجا ہے ‘ تو پھر فائدہ کیا؟ کیا اس لیے مربی سلسلہ کو سیکرٹری وقفِ نو بنایا تھا کہ پتہ ہی نہ چلے کہ تعداد کیا ہے، کس کس کیٹیگری میں آتے ہیں اور ان سے کیا کام لینا ہے۔ اگر یہ پتہ ہو تب ہی تو آپ انہیں سلیبس بھیج سکتے ہیں ، پھر ہی ان کے امتحان لے سکتے ہیں۔ آپ سلیبس نہیں پڑھاتے، اب تو وقفِ نو کا اکیس سال تک کی عمر کا سلیبس بن چکا ہوا ہے۔کیا آپ نے تمام واقفینِ نو کو سلیبس پہنچا دیا ہے۔

٭… اس پر سیکرٹری وقفِ نو نے عرض کیا جی حضور پہنچائیں گے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ ’پہنچائیں گے‘ پہنچایا نہیں ہے۔ یہ تو کام کرنے کا طریقہ نہیں ہے۔ آئے تو ایسے تھے کہ پتہ نہیں کیا تیر مارا ہے، میرے سامنے پتہ نہیں کیا رپورٹیں پیش کردیں گے۔ مجھے رپورٹیں تو نہیں چاہئیں، مجھے تو یہ چاہیے کہ حقیقت میں کام کیا ہوا ہے۔ 15سال کے بچوں کا پتہ ہونا چاہیے کہ کتنے سکول جارہے ہیں، پڑھائی چھوڑ تو نہیں دی، پھر پتہ ہونا چاہیے کہ کونسی یونیورسٹی میں جارہے ہیں ، کیا کیا پڑھائی کررہے ہیں۔ ان کو گائیڈنس دے رہے ہیں کہ نہیں۔ صرف چار آدمی جامعہ میں بھیجنے سے مقصد تو پورا نہیں ہوجاتا کہ ہمارے اتنے بچے جامعہ میں چلے گئے۔ یہ بتائیں کہ کتنے بچے ڈاکٹر بنے، کتنے ٹیچر بنے اور کب وہ وقف کے لیے پیش کرنے والے ہیں۔ دیگر مضامین سے تعلق رکھنے والے کتنے ہیں۔ کتنے لڑکے ہیں، کتنی لڑکیاں ہیں۔ یہ ساری معلومات ہونی چاہئیں۔

٭… فرمایا؛پھر جو اعدادو شمار ہیں، ان پر کام کریں۔ دیکھیں کہ وہ وقف میں آنے کے لیے تیار ہیں کہ نہیں، وقف کریں گے یا صرف ٹائٹل لگایا ہوا ہے۔ باقاعدہ ایک سکیم بنا کے ڈیٹا اکٹھا کرنا چاہیے کہ اِن اِن عمروں کی کیٹیگری کے لوگ ہیں۔ یہ یہ پڑھائی کر رہے ہیں، یہ فارغ ہو چکے ہیں۔ اب آئندہ یہ وقف کرنا چاہتے ہیں کہ نہیں؟ اگر کرنا چاہتے ہیں تو کیا تعلیم مکمل کرنے کے بعد کچھ ایکسپیرنس(experience)لینا چاہتے ہیں ، کیا تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے آگے پڑھائی کرنے یا ٹریننگ لینے کے لیے مجھ سے پوچھا ہے؟ یا مجھے لکھا ہے کہ ہم نے تعلیم مکمل کر لی ہے، اب ہمارے لیے کیا حکم ہے، ہم کیا کریں، اپنا کوئی کام کریں یا جماعت احمدیہ کو، نظام کو ہماری کوئی ضرورت ہے۔ یہ تمام انفارمیشن آپ کی طرف سے آئے تو ہم ان کو مزید آگے گائیڈکر سکتے ہیں۔ اگر آپ سیکرٹریان نیشنل اور لوکل سطح پر کام نہیں کررہے تو خلیفہ وقت کو کہاں سے انفارمیشن ملنی ہے؟ بہت کام ہونے والا ہے۔ ایک مہینہ کے اندر اندر مجھے اس کی ساری رپورٹ بھجوائیں۔

٭… بعد ازاں سیکرٹری تعلیم سے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ کیا آپ کے پاس یونیورسٹی جانے والے طلباء کا ڈیٹا ہے؟ اس پر سیکرٹری صاحب نے عرض کیا کہ میرے پاس ابھی تک صرف لڑکوں کا ڈیٹا ہے اور اس کے مطابق 19 ایسے ہیں جو بیچلرز یا ماسٹرز کررہے ہیں۔لڑکیوں کا ہمارے پاس مکمل ڈیٹا نہیں ہے۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ آپ جماعت کے سیکرٹری ہیں، لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کا ڈیٹا ہونا چاہیے۔ پھر اس کے مطابق ان کو گائیڈ کریں۔ ان کی کونسلنگ ہونی چاہیے۔ ان کی گائیڈنس ہونی چاہیے کہ کس طرح انہوں نے آگے پڑھنا ہے، کن فیلڈز میں جماعت کو ضرورت ہے، ان کے فائدے کے لیے کیامضامین ہو سکتے ہیں۔ سیکرٹری تعلیم کا یہ بھی کام ہے کہ ان کی گائیڈنس اور کونسلنگ کریں۔ وقفِ نو والے وقفِ نو کو کریں اور سیکرٹری تعلیم باقی جماعت کے سٹوڈنٹس کو گائڈنس فراہم کرے۔

٭… اس کے بعد سیکرٹری تربیت نے اپنا تعارف کروایا۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ ’تربیت کا کیا پروگرام بنایا ہوا ہے؟ آپ کا شعبہ اگر فعال ہو جائے تو امورِ عامہ کا کام بھی آسان ہو جاتا ہے، رشتہ ناطہ کا کام بھی آسان ہو جاتا ہے اور مال کا کام بھی آسان ہو جاتا ہے، تو آپ نے شعبہ تربیت کی سکیم کیا بنائی ہوئی ہے؟

٭… اس پر سیکرٹری تربیت نے عرض کیا کہ ہم سب سے زیادہ زور اس بات پر دے رہے ہیں کہ اصلاحی کمیٹی فعال ہو جائے۔ پچھلے سال سے ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ یہ تو اس شعبہ کا صرف ایک حصہ ہے۔ آپ کے اتنے بگڑے ہوئے لوگ ہیں کہ صرف اصلاحی کمیٹی پر زور دینا ہے، باقی کام نہیں کرنے؟ تربیت کا تو یہ بھی کام ہے کہ جائزہ لیں اور لوگوں کو توجہ دلائیں اور آجکل تو ویسے ہی سب کی توجہ ہوئی ہوئی ہے۔ گھر میں بیٹھے ہیں تو جائزہ لیں کہ گھروں میں نمازباجماعت کا انتظام ہو رہا ہے کہ نہیں ، حالات ٹھیک ہیں تو دیکھیں کہ مسجد یا نماز سینٹر میں نماز باجماعت کا انتظام ہو رہا ہے کہ نہیں۔ گھروں میں قرآنِ کریم پڑھنے کا رواج ہے کہ نہیں، بیوی بچوں سب کی نگرانی ہو رہی ہے۔ مرد عورتیں اور بچے سب قرآنِ کریم پڑھتے ہیں کہ نہیں، نمازوں میں باقاعدگی ہے کہ نہیں۔ رشتہ ناطہ کے مسائل ہیں، ان کو بھی گائیڈ کرنا ہے کہ کس طرح ہم نے حل کرنے ہیں ، احمدی بچوں لڑکوں اور لڑکیوں کی تربیت کرنی ہے کہ آپس میں رشتے کریں۔ پھر جھگڑے ہیں، ان سے کیسے بچنا ہے۔ یہاں کی اس معاشرے کی جو برائیاں ہیں ، مغربی معاشرے کی برائیاں ہیں، ان سے کیسے بچنا ہے۔ آپ لوگوں نے یہ ساری سکیم بنائی ہوئی ہے؟

٭… اس پر سیکرٹری تربیت نے عرض کیا کہ گذشتہ سال سے ہم نے اصلاح ِ احوال کا پروگرام شروع کیا تھا۔ بچوں اور والدین میں باہمی دوری کو ختم کرنے کا پروگرام تھا۔ فیملیز کو سوالات دیے جاتے تھے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے سوال کریں، تا کہ وہ کھل کر آپس میں بات چیت کرسکیں۔ والدین اور بچوں کی دوری ختم کرنے کی کوشش تھی اور ہر گھر کو یہ ٹارگٹ دیا گیا تھا کہ کم از کم روزانہ ایک کھانا سب اکٹھے مل کر کھائیں۔ پھر سوشل میڈیا کے حوالہ سے رہنمائی دیں۔ بچوں کو مصروف رکھیں تاکہ سوشل میڈیا پر کم بیٹھیں۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ ’اچھی بات ہے۔ اس سارے کام کو مزید expand کرنا چاہیے۔ یہ تو ہر سطح پر کام ہونا چاہیے۔ ہر گھر کی سطح پر آپ یہ کام کررہے ہیں تو بڑی اچھی بات ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس تمام کام کا نتیجہ کیا نکلا ہے؟ اب یہ دیکھنے والی بات ہے کہ نتیجہ کیا ہے؟ آیا آپ نے جو پروگرام بنایا تھا، اس پر لوگ عمل بھی کرر ہے ہیں کہ نہیں اور اگر عمل کررہے ہیں تو کتنے فیصد عمل کر رہے ہیں۔ کتنے گھر ہیں جو ان ہدایات پر عمل کر رہے ہیں اور پھر آپ کو ان کا فیڈ بیک بھی مل رہا ہے۔ صرف یہ سوچ لینا کہ ہم نےیہ فیصلے کئے ہیں اور لوگ ان پر عمل کررہے ہوں گے ، اس سے تو کچھ نہیں ہوگا۔ فیڈ بیک بھی لینا چاہیے۔ تربیت کے تو بہت مسائل ہیں، رشتہ ناطہ کے مسائل ہیں۔ ان سب پر کام کریں۔ پھر ذیلی تنظیموں کے شعبہ تربیت سے coordinateکرکے ایسا پلان بنائیں ، جس سے جماعت کا ہر فرد involve ہو جائے اور بہتر رنگ میں تربیت ہوسکے۔‘

٭… اس کے بعد سیکرٹری امورِ خارجیہ نے اپنا تعارف کروایا۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ آپ کا اس وقت کتنے سیاستدانوں سے رابطہ ہے۔ اس پر سیکرٹری امورِ خارجیہ نے عرض کیا مجھے معین تعداد معلوم نہیں ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایاکہ آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے۔ آپ کی 14 جماعتیں ہیں، آپ کی عاملہ کے جو ممبران بیٹھے ہوئے ہیں ان کو کہیں کہ اپنے لوکل کونسلر اور ممبرآف پارلیمنٹ سے رابطہ رکھیں۔ آپ نیشنل لیول پر ممبرانِ پارلیمنٹ سے رابطے رکھنے چاہئیں۔ ڈپلومیٹ سے رابطے رکھنے چاہئیں، اسی طرح دوسری تنظیموں، مذہبی تنظیموں، چرچوں سے اور چیرٹی آرگنائزیشنز سے رابطے رکھنے چاہئیں تاکہ جب آپ کوئی پروگرام کریں تو انہیں بلا سکیں۔ جو بھی بیرونی اہم افراد ہیں، ان سے ایسے اچھے رابطے ہوں کہ انہیں معلوم ہو کہ جماعت احمدیہ کیا ہے۔ اس وقت جب کہ اسلاموفوبیا بہت زیادہ پھیل گیا ہے، ان حالات میں انہیں علم ہونا چاہیے کہ اگر انہوں نے اسلام کی حقیقی تصویر دیکھنی ہے تو وہ اسلام احمدیت سے آکر پوچھیں۔ ان کو آپ پر یقین ہونا چاہیے کہ جو آپ کہتے ہیں، صحیح کہتے ہیں۔ا س طرح رابطے بڑھانے چاہئیں۔

٭… بعدازاں سیکرٹری جائیداد نے اپنا تعارف کروایا۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایاکہ آپ کی اب کتنی جائیدادیں ہو گئی ہیں۔ کہاں کہاں ہیں؟ اس پر سیکرٹری جائیداد نے عرض کیا کہ ہماری کل پانچ جائیدادیں ہیں۔ ایک دلبیک کی، ایک برسلز کی، ایک اینٹورپن میں ہے اور دو آلٹن میں۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ اور یہ جہاں بیٹھے ہیں، اس کو شامل نہیں کیا۔ پھر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے باری باری تمام جائیدادیں گنوائیں اور توجہ دلائی کہ آپ کی کل چھ جائیدادیں ہیں۔ آپ پانچ کہہ رہے ہیں، حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ جہاں بیٹھے ہوئے ہیں وہ نہیں گنتے؟

٭… پھر فرمایاکہ ان کی maintenance وغیرہ کرتے ہیں۔ یہ جہاں بیٹھے ہوئے ہیں، یہاں تو کافی صاف ستھرا کارپٹ بچھایا ہوا ہے۔ ہر جگہ ایسے ہی صفائی رکھی ہوئی ہے؟ اس پر سیکرٹری جائیداد نے عرض کیا کہ وقارِ عمل کے ذریعہ maintenance کرتے ہیں، ہر جگہ صفائی رکھی ہوئی ہے۔ یہ کمپلیکس اب مکمل ہو چکا ہے۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا؛ ’ماشاء اللہ۔‘

٭… اِس کے بعد انٹرنل آڈیٹر نے اپنا تعارف کروایا۔ ان سے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایاکہ آڈٹ بھی کرتے ہیں کہ نہیں ؟ اور مرکز رپورٹ بھجواتے ہیں؟موصوف نے عرض کیا کہ آڈٹ کرتا ہوں، ہفتہ میں ایک مرتبہ دفتر آتا ہوں اور رپورٹ مرکز بھجواتا ہوں۔ اس وقت 2019ء، 2020ء کا آڈٹ چل رہا ہے۔ مارچ تا جون کورونا کی وجہ سے کام کی پابندی تھی، اس کے بعد سے کام ہو رہا ہے۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز کے استفسار پر انٹرنل آڈیٹر نے بتایا کہ حکومت کے محکمہ کی جانب سے آڈٹ نہیں ہوتا۔

٭… اس کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے سیکرٹری تبلیغ سے دریافت فرمایاکہ گذشتہ ایک سال میں کتنی بیعتیں کروائی ہیں۔ اس پر سیکرٹری تبلیغ نے عرض کیا کہ اللہ کے فضل سے پچھلے سال کل 11 بیعتیں ہوئی تھیں۔ اس سال کورونا کے بعد تھوڑی سی حکمتِ عملی تبدیل کی ہے، کیونکہ جوطریق ہم پہلےاپنا رہے تھے،وہ اب ممکن نہیں ہیں۔ اس لیے امیر صاحب اور مشنری انچارج صاحب کی رہنمائی سے اب آن لائن تبلیغ پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ جو پہلے رابطے نہیں مل رہے تھے، یونیورسٹی سٹوڈنٹ وغیرہ اور مختلف یوتھ گروپس اب رابطے کررہے ہیں اور مسجد وزٹ کرر ہے ہیں۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایاکہ جو 11بیعتیںکروائی ہیں، ان میں قائم کتنی ہیں۔انہوں نے مذہب کو سمجھ کر کی ہیں، یا شادیوں کی وجہ سے کرلی ہیں۔ اس پر سیکرٹری تبلیغ نے عرض کیا کہ اللہ کے فضل سے تمام قائم ہیں۔ اکثریت بیعتیں گذشتہ سال جلسہ سالانہ کے دوران ہوئی ہیں، پھر تبلیغی پروگرام new year reception کے موقع پر ہوئی ہیں۔ علاوہ ازیں بیت المجیب اور دلبیک کی مسجد میں one to oneتبلیغی نشستوں کے ذریعہ بیعتیں حاصل ہوئی ہیں۔ مشنری انچارج اور دیگر مربیان کی مدد سے تین تین چار چار گھنٹوں کی تبلیغی نشستیں جاری رہی ہیں۔ ان دوستوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے سمجھ کر بیعتیں کی ہیں۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایاکہ زیادہ کس قوم کے لوگ ہیں۔سیکرٹری تبلیغ نے عرض کیا کہ ان میں بیلج ہیں، عرب خواتین ہیں ، اس کے علاوہ تین مرد حضرات افریقن ہیں۔ ان کے علاوہ ایک ایسٹ یورپین دوست شامل ہیں۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایاکہ اب اس سال کا کیا ٹارگٹ رکھا گیا ہے۔ اس پر سیکرٹری تبلیغ نے عرض کیا کہ اب پہلے کی طرح کام نہیں ہوپارہا۔ ہم اب زیادہ سوشل میڈیا سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ہم نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد کے متعلق ایک پمفلٹ بنا کر فیس بُک، ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر لانچ کیا تھا اور اس کی ٹارگٹڈ پبلیکیشن کی تھی۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایاکہ یہ تو ٹھیک ہے، پروگرام بنا لیا، اس سال کا ٹارگٹ کیا رکھا ہے۔ اس پر سیکرٹری تبلیغ نے عرض کیا کہ ہماری خواہش ہے کہ گذشتہ سال جو 11 بیعتیں ہوئی تھیں، اس سال اس سے دوگنی بیعتیں حاصل کریں۔

٭… اس پر مشنری انچارج صاحب نے تو کہا ہے کہ ہماری پچاس بیعتیں ہونی چاہئیں تو حضور ہمارے لیے دعا کریں کہ ہم اس ٹارگٹ کو حاصل کرسکیں۔

٭… بعد ازاں سیکرٹری مال نے اپنا تعارف کروایا۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ان سے ان کے بجٹ کے بارے میں دریافت فرمایا۔ بجٹ کی تفصیلات جاننے پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ امسال جو ن میں جو سال ختم ہوا ہے، اس میں بجٹ مکمل ہو گیا تھا؟ اس پر سیکرٹری نے عرض کیا کہ ہمارا چندہ عام سو فیصد سے اوپر ہو گیا تھا، وصیت 97 فیصد اور جلسہ سالانہ بھی 92 فیصد ہوا۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ وصیت کا تو کم نہیں ہونا چاہیے۔ جو باقی تین فیصد ہیں، ان کی اگر آمد کم ہو گئی ہے تو وہ فارم پر لکھا ہونا چاہیے اور اگر وصیت والوں نے چندہ نہیں دیا، ان کی وصیت کینسل ہونی چاہیے۔ جو چھ ماہ کےبقایادار موصیان ہیں، ان کی تو وصیت قائم نہیں رہ سکتی۔ ان پر کارروائی ہونی چاہیے تھی۔ سیکرٹری وصایا کو بتانا چاہیے تھا۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایاکہ آپ نے کبھی آمد کا اندازہ لگایا ہے کہ آپ کا جو بجٹ بنتا ہے، اس کا معیار کیا ہے، وہ کم از کم ملکی آمدنی کے برابر ہے یا اُس سے زیادہ ہے۔ اس پر سیکرٹری مال نے عرض کیا کہ یہاں بیلجیم میں کم از کم آمد ایک ہزار 626یوروز ماہانہ ہے اور جو ہماری ایوریج بنتی ہے وہ ایک ہزار چالیس بنتی ہے۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ اس کا مطلب ہے کہ چندہ عام میں کمی ہے۔ موصیان کی علیحدہ ایوریج نکالی ہے؟ اس پر سیکرٹری مال نے عرض کیا کہ یہ دونوں کا اکٹھا ہے۔ موصیان کا الگ سے نہیں نکالا۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ دونوں کا الگ نکالیں اور پھر دیکھیں کہ کون بہتر چندہ دے رہا ہے۔ وصیت والے بہتر چندہ دے رہے ہیں یا چندہ عام والے دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جو ایوریج انکم ہے، اس سے بھی کم انکم پر آپ کے لوگ چندہ دیتے ہیں۔ اگر تو غربت کی وجہ سے نہیں دیتے تو پھر اجازت لے لیں اور اگر سستی کی وجہ سے نہیں دیتے اور چندہ کی اہمیت کا نہیں پتہ، تو پھر آپ کو چندہ کی مکمل شرح پر لانے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایاکہ آپ کی چندہ جلسہ سالانہ کی ratio چندہ عام سے مطابقت رکھتی ہے اور بجٹ کے مطابق حاصل ہو گیا تھا؟ اس پر سیکرٹری مال نےعرض کیا کہ چندہ جلسہ سالانہ 63 ہزار ہے۔ لیکن اس کی وصولی 92 فیصد رہی ہے۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ آپ کا جلسہ سالانہ کا خرچ کتنا ہوتا ہے؟ اس پر سیکرٹری تبلیغ نے عرض کیا کہ گذشتہ جلسہ تونہیں ہوا، اس سے پچھلے سال کا خرچ میرے پاس اس وقت نہیں ہے۔ لیکن اتنا ہی تقریباً 63 ہزار ہوا تھا۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ اعداد ہونے چاہئیں۔

٭… بعد ازاں ایڈیشنل سیکرٹری مال نے اپنا تعارف کروایا۔ موصوف سے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا؛آپ کیا ایڈیشنل کام کررہے ہیں؟ اس پر موصوف نے عرض کیا کہ ہم جماعتوں کو فالو اَپ کرتے ہیں، کسی کے لازمی چندہ جات میں کمی آرہی ہو تو لوکل سیکرٹری مال اور لوکل صدران کو ہر تین ماہ بعد ایک ریمائنڈر بھجوا دیا جاتا ہے کہ اس وقت آپ کی جماعت کی یہ صورتحال ہے اور اتنی ہونی چاہیےتھی۔

٭… اس کے بعد سیکرٹری وصایا سے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایاکہ آپ کے موصیان کتنے ہیں اور کمانے والے افراد کتنے ہیں؟ اس پر سیکرٹری وصایا نے عرض کیا کہ 373 موصیان ہیں جن میں سے 171 خواتین ہیں۔ کل کمانے والے افراد کی تعداد 559 ہے۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایاکہ اس کا مطلب ہے کہ آپ کےکمانے والے موصیان 280 ہونے چاہئیں۔ آپ کے کتنے موصیان کمانے والے ہیں؟ اس پر سیکرٹری وصایا نے عرض کیا کہ 215 کے قریب ہیں۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ تعداد کے حساب سے آپ کی ابھی 45 موصیان کی کمی ہے۔ تحریک کرکے کمانے والے مردوں کو شامل کرنے کی کوشش کریں، اسی طرح عورتوں کو بھی شامل کریں۔ فرمایا کہ موصیان میں سٹوڈنٹ اور خانہ دار خواتین کتنی ہیں؟اس پر سیکرٹری وصایا نے عرض کیا کہ 150 خواتین ہیں، جن کی کوئی انکم نہیں ہے، جیب خرچ پر چندہ وصیت ادا کرتی ہیں اور تقریباً 18 طلباء ہیں، ان کی معین تعداد لکھ نہیں سکا۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ ایسے مرد موصیان کی تعداد کیا ہے جو کماتے نہیں ہیں؟ اس پر سیکرٹری وصایا نے عرض کہ میں معذرت چاہتا ہوں، یہ ڈیٹا میں حاصل نہیں کرسکا۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ یہ بھی کریں اور آپ کا ٹارگٹ کمانے والے افراد کا نصف ہونا چاہیے۔

٭… سیکرٹری وصایا نے عرض کیا کہ حضورِ انور کی ہدایات کی روشنی میں امسال تین عاملہ ممبران نے وصیت کی ہے اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے تمام عاملہ ممبران موصی ہو چکے ہیں۔ مجلس انصار اللہ بھی اس حوالہ سے کوشش کر رہی ہے، ان کے 14 میں سے 12 ممبران وصیت کرچکے ہیں۔ ہم نے نیشنل عاملہ سے اور ذیلی تنظیموں خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ سے شروع کیا ہے۔

٭… اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ ماشاء اللہ۔ اب لوکل عاملہ سے بھی شروع کریں۔

٭… اس کے بعد سیکرٹری زراعت نے اپنا تعارف کروایا۔ موصوف سے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا،’ تو پھر کہاں زراعت کرتے ہیں؟ ‘ اس پر سیکرٹری زراعت نے عرض کیا کہ تین مساجد ہیں، چھ ہزار مربع میٹر زمین ہے، وہاں پھول پودے وغیرہ لگاتے ہیں۔

٭… اس کے بعد سیکرٹری تحریکِ جدید نے اپنا تعارف کروایا۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ آپ نے امسال تحریکِ جدید کا کیا ٹارگٹ رکھا ہوا ہے؟ اس پر سیکرٹری تحریکِ جدید نے عرض کیا کہ 92ہزار 700 ہے اور اس میں سے اب تک 77 ہزار وصولی ہو چکی ہے۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ کورونا کی وجہ سے آپ لوگوں کی آمد تو متاثر نہیں ہوئی اور پھر اس کی وجہ سے چندوں میں تو کمی نہیں ہوئی؟ اس پر سیکرٹری تحریکِ جدید نے عرض کیا کہ وصولی کے حساب سے گذشتہ سال کی نسبت تو اب تک ہماری وصولی بہت اچھی ہے۔ اس میں بہتری ہی آئی ہے۔ یکم اکتوبر سے ہم عشرہ وصولی منا رہے ہیں ، حضور سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا، اچھا ٹھیک ہے، اللہ تعالیٰ فضل کردے۔

٭… اس کے بعد سیکرٹری وقفِ جدید نے اپنا تعارف کروایا۔ موصوف سے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ٹارگٹ کے حوالہ سے استفسار فرمایا۔ اس پر سیکرٹری وقفِ جدید نے عرض کیا کہ 90ہزار 200 یورو ٹارگٹ ہے اور اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے 60 فیصد سے اوپر وصولی ہو چکی ہے۔ تحریکِ جدید کی طرح وقفِ جدید میں بھی بہت بہتر صورتحال ہے۔ ہماری رمضان میں ہی اللہ کے فضل سے 50 فیصد سے اوپر وصولی ہو جاتی ہے۔ الحمدللہ۔

٭… بعدازاں ایڈیشنل سیکرٹری نومبائعین و وقفِ جدید برائے نومبائعین نے اپنا تعارف کروایا۔ ان سے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ آپ کے پاس گذشتہ تین سالوں میں کتنے نومبائعین آئے ہیں؟ اس پر سیکرٹری صاحب نے عرض کیا کہ ہمارے پاس گذشتہ تین سال میں 14 نومبائعین آئے ہیں۔ اس پرحضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایاکہ پچھلے سال 11 بیعتیں تھیں، تو اس سے پہلے صرف تین ہی تھے؟ اس پر سیکرٹری نے عرض کیا کہ گذشتہ سال 11 تھے، اس سے پچھلے سال 2 اور اس سے پچھلے سال 1 بیعت تھی۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ آپ نے ان 14 کے لیے کوئی پروگرام بنایا ہوا ہے؟ اس پر سیکرٹری صاحب نے عرض کیا کہ ہم نے ان کے لیے دورانِ سال پانچ پروگرام رکھے تھے۔ پھر کورونا کی وجہ سے پروگرام نہیں ہوسکے۔ اب دوسرا پروگرام اگست میں کیا ہے۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایاکہ آپ نے ایسا کوئی پروگرام شروع کیا ہوا ہے کہ عربوں کے عربوں کےساتھ پروگرام ہوں، لوکل لوگوں کے لیے لوکل لوگوں کے ساتھ، ایشین کے لیے ایشین کے ساتھ، بنگالیوں کے بنگالیوں کے ساتھ۔ تربیت کا پروگرام کوئی ایسا رکھیں کہ ہر ایک کو سنبھالے۔ ایک مؤاخات قائم کریں۔ ہر ایک کا بھائی بھائی بنائیں یا بہنیں بنائیں۔ تاکہ وہ اُن کو سنبھالیں اور ان کی تربیت کریں۔

٭… سیکرٹری صاحب نے مزید رپورٹ عرض کرتے ہوئے کہا کہ لوکل لیول پر ہمارا کوئی پروگرام نہیں ہوا، نیشنل لیول پر پانچ پروگرام کیے ہیں۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایاکہ اگر پروگرام نہ بھی ہو تو ذاتی رابطہ تو رکھ سکتے ہیں۔ ہر ایک سے پرسنل contact ہونا چاہیے۔ اس پر سیکرٹری صاحب نے عرض کیا کہ سب سے رابطہ ہے۔

٭… بعد ازاں سیکرٹری امورِ عامہ نے اپنا تعارف کروایا۔ موصوف سے حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ امورِ عامہ کیا کررہا ہے۔ اس پر سیکرٹری امورِ عامہ نے عرض کیا کہ جو بھی اس شعبہ سے متعلقہ معاملات امیر صاحب ریفر کرتے ہیں، ان پر کارروائی کی جاتی ہے۔ یا مرکز کسی معاملہ پر رپورٹ طلب کرتا ہے، تو اس پر کام کیا جاتا ہے۔

٭… اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ ’امیر صاحب کیا ریفرکریں‘۔ یہ تو نہیں کہ جو کام امیر صاحب ریفر کریں وہی کرنا ہے۔ شعبہ امورِ عامہ کا کام یہ ہے کہ خود جائزہ لے کہ آپ کی جماعت میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو بےروزگار ہیں، ان کے لیے روزگار مہیا کرنے کا انتظام کرنا ہے۔ سیکرٹری تربیت کی طرف سے اگر رپورٹ آتی ہے کہ کسی کی اخلاقی حالت کمزور ہے تو خود ان کا جائزہ لینا ہے۔ذیلی تنظیموں سے رابطہ رکھنا ہے کہ ان کو کہیں ضرورت تو نہیں۔ اسی طرح جو تعلیم چھوڑ رہے ہیں، کیوں چھوڑ رہے ہیں، ان کا جائزہ لینا ہے اور پھرتعلیم کے ساتھ جوڑنا ہے، صرف جھگڑوں کو نمٹانا امورِ عامہ کا کام نہیں ہے، یہ تو ایک کام ہے۔ آپ کی جو قواعد کی کتاب ہے، اس کو پڑھیں، آپ کو پتہ چلے گا کہ امورِ عامہ کے بہت سارے کام ہیں۔ صرف جھگڑوں میں صلح کروا دینا تو امورِ عامہ کا کام نہیں ہے۔ آپ کو سمجھ آئی ہے۔ اس پر سیکرٹری صاحب نے عرض کیا کہ ان شاء اللہ۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایاکہ اب ان شاء اللہ کو ماشاء اللہ بھی کریں۔

٭… اِس کے بعد ’امین‘نے اپنا تعارف کروایا۔ موصوف سے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایا کہ آپ اکاؤنٹس چیک کرتے ہیں؟ اس پر ’امین‘ننے عرض کیا کہ میں ہر ماہ کیش پیمنٹ کرتا ہوں اور ماہ کے آخر پر سیکرٹری مال سے مل کے ، تمام کیش کا حساب کرتا ہوں اور پھر فائنل چیک کرکے واؤچر سیکرٹری مال کے حوالے کرتا ہوں۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا، اچھا ماشاء اللہ۔

٭… اس کے بعد محاسب نے اپنا تعارف کروایا۔ ان سے پہلے چونکہ عاملہ کے ممبر’امین‘بنگالی تھے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ بھی بنگالی ہیں۔ سارے بنگالی اکاؤنٹس کے کاموں میں رکھے ہوئے ہیں۔ بڑے ایماندار ہیں آپ لوگ، اسی لیے رکھا ہو گاکہ بنگالی زیادہ ایماندارہیں، حساب کتاب زیادہ آتا ہوگا۔ اس پر محاسب نے عرض کیا جزاکم اللہ۔

٭… بعدازاں سیکرٹری ضیافت نے اپنا تعارف کروایا۔حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایاکہ آجکل تو ضیافت بندہے، آجکل کیا کرتے ہیں؟ فرمایا کہ آج جو عاملہ ممبران اکٹھے ہوئے ہیں، ان کو بھی کچھ کھلایا ہے؟ اس پر موصوف نے عرض کیا کہ ان کو ناشتہ کروایا ہے اور بعد میں کھانے کا بھی انتظام ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ کیا ناشتہ کروایا ہے؟ موصوف نے عرض کیا کہ چائے، انڈے اور بسکٹ وغیرہ کا ناشتہ کروایا ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ بس، croissant وغیرہ کھلا دیے، کوئی پراٹھے، چنے وغیرہ نہیں کھلائے۔ دوپہر کو کیا کھانا کھلانا ہے؟ سیکرٹری صاحب نے عرض کیا کہ مٹن پلاؤ اور رائتہ ہے۔حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایاکہ مٹن پلاؤ کے ساتھ کیا ہے؟ کوئی سالن بھی ہے کہ صرف دہی ہے؟ یا کچھ بھی نہیں ہے۔ سیکرٹری صاحب نے عرض کیا کہ مٹن پلاؤ کے ساتھ صرف رائتہ ہے۔

٭… موصوف نے مزید رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ہم لاک ڈاؤن کے دوران 7 ہسپتالوں میں اور 2 پولیس سٹیشنوں میں عملہ کو کھانا بنا کر بھیجتے رہے ہیں۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ اچھا ماشاء اللہ۔ پھر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ چلیں آج پھر عاملہ کو پلاؤ کھلائیں، انہیں میٹنگ کاکوئی تو فائدہ ہو۔

٭… اِس کے بعد سیکرٹری صنعت و تجارت نے اپنا تعارف کروایا۔ ان سے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایاکہ کیا کام کررہے ہیں؟ کتنے لوگوں کی جاب لگوائی ہے، کتنے لوگوں کو ہُنر سکھائے، کتنے لوگوں کو کوئی skill سکھا کر جاب پر لگوایا یا امورِ عامہ کے ساتھ مل کے کتنی انڈسٹریز سے رابطہ کیا۔ employment دلانا امورِ عامہ کا کام ہے، آپ نے ان کے ساتھ مل کر کوئی کام کیا ہے کہ نہیں؟ یا امورِ عامہ نے آپ سے کوئی تعاون مانگا کہ نہیں؟سیکرٹری صاحب نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں احبابِ جماعت کو مفید معلومات فراہم کی گئیں کہ کیسے ان حالات میں کاروباری حضرات اور ملازمت کرنےوالے سوشل مدد کے لیے درخواست دے سکتے ہیں اور درخواست دینے کا طریقہ کار بھی واضح کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک صنعت و تجارت کا گروپ بھی بنایا ہوا ہے، اس میں وقتاً فوقتاً جو جاب میسر ہوتی ہیں، اس کی اطلاع دی جاتی ہے۔ جاب اپلائی کرنے کے حوالہ سے بھی مفید معلومات دی جاتی ہیں۔ جاب اپلائی کرنے کے کیا طریق ہیں، کون سے کاروبار زیادہ مفید ہیں ، بیلجیم میں کیا ڈیمانڈ ہے، اس حوالہ سے بھی احبابِ جماعت کو بتایا جاتا ہے۔ اسی طرح شعبہ تعلیم اور صنعت و تجارت نے مل کر ایک بروشر بھی تیار کیا ہے، جس میں کاروبار اور ملازمتوں کے حوالہ سے مفید معلومات دی گئی ہیں۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیزنے فرمایاکہ اچھا کیاہے۔ لیکن اب نتیجہ کیا نکلا ہے؟ یہ بتائیں کہ کتنے لوگوں کو جاب پر لگوایا ہے؟ یہ جو اتنی بڑی سکیم بنائی ہے، اس سے کتنے لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے؟ ڈیٹا بتائیں۔ اس پر سیکرٹری صاحب نے عرض کیا کہ یہ ڈیٹا نہیں ہے۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ مجھے تو یہ ڈیٹا چاہیے، نتیجہ چاہیے۔ سکیم تو بن گئی ، مجھے بتائیں کہ فائدہ کتنوں نے اٹھایا۔ وہ فگر آپ کے پاس نہیں ہیں۔ وہ فگر مجھے چاہیے تھے۔ اس پر سیکرٹری صاحب نے عرض کیا کہ ہمارا وٹس ایپ گروپ ہے، جس پر معلومات دی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ جو ضرورت مند ہیں، وہ بتائیں۔ چنانچہ دو یا تین افراد نے رابطہ کیا اور ان کو جاب بھی دلوائی گئی۔

٭… اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے سیکرٹری امورِ عامہ سے دریافت فرمایا کہ کل بے روزگار افراد کی تعداد کیا ہے؟ سیکرٹری امورِ عامہ نے عرض کیا کہ کافی کم تعداد ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایاکہ بات گول مول نہ کریں، مجھے exact تعداد بتائیں کہ اس وقت جماعت میں کتنے افراد ہیں، جن کے پاس جاب نہیں ہے اور وہ جاب کی تلاش میں ہیں۔ یہ امورِ عامہ کا کام ہے۔ اس پر سیکرٹری صاحب نے عرض کیا کہ یہ exact ڈیٹا نہیں ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ یہ exact ڈیٹا نہیں ہے تو پھر آپ نے کام کیا کرنا ہے۔

٭… بعد ازاں سیکرٹری رشتہ ناطہ نے اپنا تعارف کروایا۔ ان سے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایاکہ آپ نے اس سال کتنے رشتہ کروائے ہیں؟ اس پر سیکرٹری صاحب نے عرض کیا کہ ایک رشتہ طے ہوا ہے۔ ہمارے پاس تیرہ لڑکوں اور پانچ لڑکیوں کے کوائف ہیں۔ رشتوں کی تلاش کے سلسلہ میں جرمنی، یوکے اور فرانس بھی رابطہ کرتا ہوں۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ارشاد فرمایاکہ آپ تبشیر سے رابطہ کریں، ان کے پاس مرکزی رشتہ ناطہ ڈیسک ہے، آپ ان سے کہیں کہ رشتے بتائیں۔ وکالتِ تبشیر میں مرکزی رشتہ ناطہ کا ڈیسک ہے۔ ان سے رابطہ کریں۔ جماعت میں تحریک بھی کیا کریں کہ احمدی لڑکے احمدی لڑکیوں سے رشتے کیا کریں۔ اللہ تعالیٰ فضل کرے۔

٭… اِس کے بعد سیکرٹری اشاعت و سمعی بصری سے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے دریافت فرمایاکہ آپ کیا کررہے ہیں۔ سیکرٹری صاحب نے عرض کیا کہ یہ تمام پروگرام منعقد کر رہے ہیں، آپ سے براہِ راست میٹنگ کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایاکہ اسی لیے آواز کٹ کٹ کر آرہی ہے، کسی کے چہرے پر روشنی نہیں پڑ رہی، کوئی پتہ نہیں چل رہا کہ ماسک پہنا ہے ، ٹوپی پہنی ہے۔ آپ نے گورے اور کالے کا فرق بالکل مٹا دیا ہے، سب کو ایک جیسا ہی کردیا ہے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ یہ سمعی بصری کا کما ل ہے کہ آپ نے گورے کالے کی کوئی تخصیص نہیں رکھی، سب ایک رنگ میں آگئے۔ مسجد میں کھڑے ہیں ناں، ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز، نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز۔ اس پر سیکرٹری صاحب نے عرض کیا کہ ہمارے پاس equipmentکم تھا، ہم کوشش کرتے ہیں، اسے بہتر کریں۔

٭… فرمایاکہ آپ تو میرے سب سے قریب ہیں، پھر بھی آواز نہیں آرہی۔ نہ تصویر اچھی ہے، نہ آواز اچھی آتی ہے، کٹ کٹ کے آتی ہے۔ شکر ہے کہ جب وائڈ اینگل لیتے ہیں تو مسجد کی شکل اچھی نظر آرہی ہے۔ ذرا سا کلوز اَپ ہوتا ہے تو سارا ختم ہو جاتا ہے۔ سمعی بصری اپنے آپ کو اچھی طرح equip کریں، پروگرام بھی بنائیں۔ بیلجیم والے ڈاکومنٹریز بھی بنایا کریں اور یہاں ایم ٹی اے کے لیے بھیجا کریں۔ اب آپ نے دیکھ لیا ہے کہ ایم ٹی اے کا معیار کافی اچھا ہو چکا ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ پرانے ٹکسالی قسم کے پروگرام بنائیں گے تو دکھا دیے جائیں گے۔ اچھا پروگرام ہو گا تو دکھایا جائیگا، نہیں تو نہیں۔ سیکرٹری صاحب نے عرض کیا کہ مربیان کے حوالہ سے ایک ڈاکومنٹری بنائی تھی، وہ جلسہ پر چلی تھی۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے پھر فرمایاکہ معیار اچھا ہو گا تو چلے گی۔ اس لیے اب آپ کو اچھے لیول پر competeکرنا ہوگا۔

٭… آخر پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے امیر صاحب سے فرمایا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ امیر صاحب نے عرض کیا کہ جزاکم اللہ۔ حضور نے ہمارے لیے اتنا وقت دیا اور اتنی قیمتی نصائح فرمائیں۔ ہم امید کرتے ہیں،ان شاء اللہ، جیسے حضور نےفرمایا ہے ، ہم سارے شعبہ جات ان ہدایات کو فالو کریں گے اور انہی کے مطابق implementation کریں گے۔ دعا کی درخواست کرتے ہیں۔

٭… اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا؛ ’اللہ کرے۔ اگرآپ لوگ ساتھ ساتھ تبشیر کی رپورٹس پڑھتے رہا کریں تو اس میں شعبوں کے لیے بہت ساری ہدایات ویسے ہی مل جاتی ہیں۔ مختلف دورہ جات کی رپورٹس ہیں، آپ نکال کر دیکھیں ، ان میں مربیان کے لیے بھی اور عاملہ کے ممبران کے لیے بھی ہدایات ہیں۔ جنہوں نے عمل کرنا ہوتا ہے، وہیں سے دیکھ لیتے ہیں۔ جنہوں نے عمل کرنا ہوتا ہے، وہ خطبہ سنتے ہیں اور خطبہ میں سے کوئی پوائنٹ نکال لیتے ہیں۔ چاہے خطبہ صحابہؓ کی سیرت پر بیان ہو رہا ہو ، وہیں سے پوائنٹ نکال لیتے ہیں کہ یہ ہمارا کام ہے، یہ ہم نے کرنا ہے۔ تو جس نے نکات نکالنے ہوتے ہیں ، وہ نکال کر کام شروع کردیتے ہیں۔ یہ امیر کا کام ہے، کہ جو دیکھو، اس کے بعد متعلقہ سیکرٹری سے کہے کہ اس پر عمل کرو۔ تو یہ اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ کام کروائیں۔ سیکرٹریان کو تو میں نے کہہ دیا ہے کہ یہ کرو، وہ کرو، لیکن نگرانی کرنا تو آپ کا کام ہے۔ ان سے کام لینا اور کام کروانا آپ کا کام ہے۔ ان کے کام نہ کرنے سے آپ بری الذمہ نہیں ہوجاتے۔

٭… اِس کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے مشنری انچارج صاحب سے دریافت فرمایاکہ حافظ صاحب کیا کہنا چاہتے ہیں۔ مشنری انچارج صاحب نےعرض کیا کہ الحمد للہ، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مربیان شعبہ تبلیغ اور شعبہ تربیت کے ساتھ مل کر، امیر صاحب کی ہدایات کی روشنی میں کام کررہے ہیں۔

٭… حضورِ انور ایدہ اللہ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ عاملہ میں جو مربیان ہیں، ان کے بارے میں تو میں نے بتایا ہے کہ وہ صحیح کام نہیں کررہے اور انہی سے میں اندازہ لگا لوں گا کہ ان کے جو اصل کام ہیں ، تعلیم و تربیت کے، ان میں بھی کہیں نہ کہیں کمی ہوتی ہوگی۔ اسلیے جو جو کام کسی کے سپر د کیا ہے، اس کو دل لگا کر کرنا چاہیے۔یہ نہیں کہ اگر ایک صدر خدام الاحمدیہ بن گیا ہے یا مہتمم تربیت بن گیا ہے یا کوئی اور بن گیا ہے، تو جماعتی کام نہیں کرنا۔ یا ایک جگہ کسی کمیٹی کا ممبر بن گیا تو دوسرا کام نہیں کرنا۔ واقفِ زندگی، چوبیس گھنٹے کا واقفِ زندگی ہے اور چوبیس گھنٹے اس کو کام کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اور دوسروں سے بڑھ کر کام کرنا چاہیے اور اپنا نمونہ قائم کرنا چاہیے۔ یہ نصیحت ہے، اس پر آپ سب عمل کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق دے۔ اللہ حافظ ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ سب پر فضل کرے۔ السلام علیکم۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button