متفرق مضامین

جلسہ سالانہ قادیان 2014ء کے یادگار لمحات

(م۔ ا۔ اختر)

21؍دسمبر 2014 ء کو ضلع میرپور آزاد کشمیر کا قافلہ جس میں تیس احباب و خواتین شامل تھے علی الصبح درود شریف اور دعاؤں کا ورد کرتے ہوئے میرپور آزاد کشمیر سے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لیے عازم قادیان ہوا۔ یہ قافلہ لاہور پہنچا تو پروگرام کے مطابق لاہور کے خدام نے قافلہ کو اپنی نگرانی میں واہگہ بارڈر تک پہنچادیا۔ واہگہ بارڈر پر ڈیوٹی پر مامور احباب جماعت نے والہانہ استقبال سے رونق بڑھائی۔ خدام نے سامان اتارا اور کیمپ پہنچے۔ جہاں حضرت مسیح موعودؑ کے لنگر سے آلو کی بھجیا اور حلوہ سے ناشتہ کیا اور چائے نوش کی۔ اس پرتکلف ناشتہ کےموقع پر جماعت لاہور کی انتظامیہ اور احباب جماعت کے لیے دل سے دعائیں نکل رہی تھیں جو اتنی مستعدی سے چوبیس گھنٹے کام اور مہمانوں کی خدمت میں مصروف تھے۔ ہماراقافلہ دیگر احباب جماعت کے ساتھ پاکستان کے پسنجر ٹرمینل سے کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد واہگہ بارڈر کراس کر کے انڈیا میں داخل ہوا۔ شٹل سروس انڈین پسنجر ٹرمینل پر لے گئی۔ دفتری کارروائی اور کاغذات چیک ہونے کے بعد جب باہر نکلے تو قادیان کے خدام نے خوش آمدید کہا اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعودؑ کے لنگر سے تواضع کی۔ ہم نےکھڑی گاڑیوں کے لیے ٹکٹ حاصل کیے اور سوار ہو کر قادیان کے لیے روانہ ہوگئے۔ تمام قافلہ والوں کے دل حمد سے مسرور تھے۔ تین چار احباب کے علاوہ تمام قافلہ والے پہلی مرتبہ قادیان دیار مسیح موعودؑ میں ہونے والے جلسہ سالانہ میں شمولیت کرنے جا رہے تھے۔ جس کے لیے حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ

’’اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لیے قومیںطیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آ ملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 341)

یہ قافلہ امرتسر اور پھر بٹالہ پہنچا۔ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے کہ یہ لمحات کس قدر بے چینی اور اضطراب میں گزر رہے تھے کہ کب قادیان پہنچیں۔ بٹالہ پہنچنے پر تاریخی اوراق آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگے کہ ہم واقعی اسی بٹالہ میں ہیں جہاں سے عاشقان مسیح موعودؑ ریلوے اسٹیشن پر اتر کر پیدل یا پھر تانگہ پر سوار ہو کر دیار مسیح موعودؑ میں خدمت اقدسؑ میں حاضر ہوتے تھے۔ آج ہم قافلہ والےبھی اسی بٹالہ سے گزر رہے تھے اور دل سے دعائیں نکل رہی تھیں۔ قادیان سے چند کلومیٹر دور سے منارۃ المسیح نظر آیا یہ نظارہ دیکھتے ہی بے اختیار دل سے دعائیں نکلنا شروع ہوگئیں اور ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ ہم نئی دنیا میں آگئے ہیں۔ تقریباً ساڑھے چار بجے ہماری بس قادیان کی بستی میں جا ٹھہری۔ استقبالیہ والوں کی جانب سے نعرہ ہائے تکبیر اور جلسہ سالانہ قادیان زندہ باد کے نعروں سے فضا گونج اٹھی ۔یہ منظر دیکھ کر دل میں شکر کے جذبات ابھرنے لگے اور آنکھیں اشک بار ہوگئیں کیونکہ نا چیز نے تیس اکتیس سال بعد پہلی مرتبہ ایسا نظارہ آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا جو ربوہ میں دیکھا کرتے تھے۔ کس قدر ہم محرومیت کا شکار ہیں۔ یہ منظر دیکھتے ہی حضرت مسیح موعودؑ کا یہ شعر زبان پر جاری ہو گیا۔

اب دیکھتے ہو کیسا رجوع جہاں ہوا

اک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا

قادیان کے خدام نے خوب دل کھول کر اللہ اکبر کے نعروں سے خوش آمدید کہہ کر دل کو گرما دیا۔ استقبالیہ کیمپ سے پھر ہم اسی بس کے ذریعے سرائے طاہر پہنچے۔ سرائے طاہر میں احباب جماعت جبکہ نصرت گرلز کالج میں مستورات کا قیام تھا۔ خدام نے جگہ دکھائی اور بستر لگا دیے۔ نماز سے فارغ ہو کر رجسٹریشن کروائی اورکمپیوٹرائزڈ کارڈ سے اپنے سینوں کو سجایا ۔سرائے طاہر سے صبح نماز تہجد کی ادائیگی کے لیے دیار مسیح موعودؑ کا رخ کیا۔ بیت الفکر میں پہنچ کر دو رکعت نوافل ادا کیے اور مولیٰ کریم کا شکر ادا کیا جس نے ہمیں دیار مسیحؑ تک پہنچنے کی توفیق عطا فرمائی۔ دارالمسیح کے مختلف حصوں میں بھی دعاؤں کا موقع ملا۔ سانسوں کی تیزی اورچشم پُر آب سے بیت الدعا میں جانے کی باری آئی۔ پہنچ کر جسم اور دل پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی کہ وہاں سے نکلنے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ چشم پُر آب مسجد مبارک میں پہنچ کر نماز تہجد باجماعت ادا کرنے کا موقع ملا۔ فجر کی نماز مسجد اقصیٰ میں ادا کی۔ درس قرآن کریم سے مستفیض ہونے کے بعد باہر صحن میں نکلے اورمنارۃ المسیح کا نظارہ قریب سے کیا جس کی روشنی سارے قادیان کو منور کر رہی تھی۔ ساتھ ہی حضرت مسیح موعودؑ کے والد ماجد کی قبر کی زیارت کی۔ زیر لب دعاؤں اور درود شریف کا ورد کرتے ہوئے دارالمسیح سے باہر نکل کر بہشتی مقبرہ کی زیارت کے لیے چل پڑے۔ بہشتی مقبرہ میں حضرت اقدسؑ کے مزار پر پہنچتے ہی دل کے سب بندھن ٹوٹ گئے آنکھوں سے زارو قطار ساون بھادوں کی جھڑی جاری ہو گئی جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا سلام پہنچایا۔ دعا کرنے کا خوب موقع ملا۔ مزار مبارک کے ساتھ وفا کے پروانوں کے مزارات پر بھی دعائیں کیں جنہوں نے عشق مسیح موعودؑ میں گھر بار چھوڑکر قادیان میں ایسی دھونی رمائی کہ پھر قادیان کے ہی ہو کر رہ گئے۔ ان تمام وفا کے پروانوں جو خلیفہ وقت کی ندا پر قادیان میں ڈٹ گئے تھے ان کی بلندی درجات کے لیے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعائیں نکلیں۔

ہمارا قافلہ 21؍دسمبر 2014ء کو قادیان پہنچ گیا تھا۔ اس لیے 26؍دسمبر سے قبل قادیان کے مقدس مقامات کی زیارت، دفاتر اور دیگر تاریخی مقامات دیکھنے کا خوب موقع ملا اور مقدس مقامات میں بار بار جانے اور دعائیں کرنے کا موقع ملتا رہا۔ ان مقدس مقامات میں بیت الدعا، بیت الریاضت، بیت الفکر، سرخ چھینٹوں والا کمرہ، دالان حضرت اماں جانؓ، تاریخی کنواں، تائی صاحبہ والا کنواں، گول کمرہ، دیوار والی جگہ جو حضرت مسیح موعودؑ کے چچا زاد بھائیوں نے مسجد مبارک جانے سے روکنے کے لیے بنوائی تھی۔ مسجد اقصیٰ، مقام خطبہ الہامیہ، منارۃ المسیح، مہمان خانہ، حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی جائے پیدائش اور جائے رہائش، قدیم ڈیوڑھی، جس سے نکلتے ہوئے اس انگریز آفیسر کا سر ٹکرایا جو بغیر کسی نوٹس کے اچانک پنڈت لیکھرام کے قتل کے متعلق دارالمسیح کی تلاشی کے لیے آیا۔ ڈھاب والی جگہ جس کا ذکر حضرت مسیح موعودؑ نے رسالہ الوصیت میں کیا ہے۔ بہشتی مقبرہ، مقام بیعت اولیٰ، شہ نشین، مکان حضرت اماں جانؓ، وہ کمرہ جہاں جنازہ سے پہلے حضرت مسیح موعودؑ کا تابوت مبارک رکھا گیا۔ کوٹھی دارالسلام، تعلیم الاسلام کالج، مسجد نور، نور ہسپتال، (نیا اور پرانا) لنگر خانہ حضرت مسیح موعودؑ، حضرت مسیح موعودؑ کا آبائی قبرستان، بیت الظفر، بیت الرحمت، بیت الفضل، احمدیہ محلہ، مسجد انوار، سرائے طاہر، یادگاری گیٹ خلافت جوبلی، گیسٹ ہاؤس لجنہ اماء اللہ، ماریشس گیسٹ ہاؤس، آسٹریلیا گیسٹ ہاؤس، احمدیہ بورڈنگ، بورڈنگ تحریک جدید (موجودہ خالصہ ہائی سکول ) قادیان ریلوے اسٹیشن، احمدیہ لائبریری، نمائش قرآن اور تصویری نمائش جس میں صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کی تصاویر دیکھنے کا موقع ملا۔ انجمن احمدیہ کے دفاتر، خدام الاحمدیہ کے دفاتر، سرائے وسیم، سمر قند ہاؤس اور دیگر دفاتر، جدید لنگرخانہ اورروٹی پلانٹ جس میں آٹا گوندھنے سے لے کر روٹی پکنے تک کا عمل بذریعہ مشین (پلانٹ ) ہوتا ہے۔ سلسلہ کے نظاروں سے تشنہ آنکھوں کی پیاس تھی کہ بجھنے کا نام نہ لیتی تھی۔

26؍دسمبر 2014ء بروز جمعۃ المبارک جلسہ کا آغاز ہوا۔ جلسہ گاہ نئی جگہ پر بنائی گئی تھی۔ جہاں 2005ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز قادیان تشریف لائے تھے تو جلسہ منعقد ہوا تھا۔ وسیع و عریض جلسہ گاہ اور جلسہ گاہ کے انتظامات یہ تمام وہ چیزیں تھیں جو روحانی پیاسوں کی تسکین کا موجب تھیں۔

دس بجے صبح پرچم کشائی ہوئی ۔دعا کے بعد فضا نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھی۔ جلسہ سالانہ کے تینوں ایام میں روح پرور اور ایمان افروز تقاریر سے استفادہ کرتے رہے۔ جلسہ پر مذہبی رواداری کا وہ عظیم الشان مظاہرہ دیکھا جو صرف اور صرف جماعت احمدیہ کا ہی طرہ امتیاز ہے۔ پیار محبت اور یگانگت کا عملی نمونہ انہی کا ورثہ ہے۔ جلسہ سے نہ صرف علمائے سلسلہ نے بلکہ دیگر مذاہب، ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر سر کردہ شخصیات نے بھی خطاب کیا اور جماعت کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ بھارت کے علاوہ 37ممالک کے نمائندوں نے جلسہ سالانہ میں اپنے ملکوں کی نمائندگی کی۔ جلسہ میں سب ایک دوسرے سے ایسے مل رہے تھے جیسے مدتوں کےبچھڑے مل رہے ہوں اور اس کا اظہار نہ صرف زبان سے بلکہ خوشی سے کھلے چہروں سے بھی دکھائی دے رہا تھا۔

28؍دسمبر بروز اتوار حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا لندن سے براہ راست اختتامی خطاب تھا جو مردانہ اور زنانہ جلسہ گاہ میں لگی بڑی سکرینز پر سنا اور دیکھا گیا۔ خطاب کے آخر پر حضور انور نے اجتماعی دعا کروائی ۔کیاعجیب سماں تھا کہ قادیان کے نعرے لندن میں اور لندن سے لگائے جانے والے نعرے قادیان میں سنے جا رہے تھے۔ جلسہ کے ایام میں دھند بھی رہی، بادل چھائے رہے اور سخت سردی میں عشاق حضرت مسیح موعودؑ نہایت صبر اوروقار سے اس جلسہ کی کارروائی کو سنتے رہے۔ جنہوں نے جلسہ نہیں دیکھا ان کی چشم تصور اس کا نظارہ کرنے سے قاصر ہے۔ جلسہ ایک ایسا بے مثال اجتماع ہے کہ روحانی بھوکے سیر ہوکر گھروں کو لوٹتے ہیں۔ اے کاش! یہ دن اور یہ جلسے بار بار آئیں جو ہماری اولادوں کو یاد رہ سکیں۔ کاش یہ فضائل ہماری اولادیں دیکھیں اور آئندہ نسلوں کو ان کا آنکھوں دیکھا حال سنانے کے قابل ہوں۔

اس طرح یہ خالص دینی جلسہ حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں کو جو للّٰہی جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لیے آپ نے کیں سمیٹتے ہوئے اختتام پذیر ہوا۔ قادیان تو مدتوں رہنے کو جی کرتا ہے اور عرصہ دراز سے بچھڑے ہوئے رشتہ داروں سے ملنے کو آنکھیں ترستی ہیں لیکن وہ دن بھی آگیا کہ مسکراتے چہروں کے ساتھ آنے والے مہمان نمناک آنکھوں کے ساتھ رخصت ہونے لگے۔ جن میں قادیان کے علاوہ جموں وکشمیر، راجوری، چارکوٹ، کوٹلی کالا بن اور دیگر علاقے شامل ہیں کثیر تعداد میں جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے تھے اور ایک لمبا عرصہ کے بعد ان کے چہروں کی زیارت نصیب ہوئی۔ اس طرح ہم سب کے لیے یہ جلسہ ہر رنگ میں یادگار اور باعث برکت اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کا باعث بنا۔ اے خدا !تو ہمارے گناہ معاف کر دے۔ ہمیں پھر وہ دن عطا فرما کہ ہم دوبارہ جلسہ سالانہ پر اپنے پیاروں کی زیارت کر سکیں۔

دس روز برکات کے سایہ میں وقت گزار کر جماعتی احکامات کی تعمیل میں مورخہ 31؍دسمبر 2014ءکو واپس آنا پڑا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button